مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید رحمہ اللہ

مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید رحمہ اللہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
موت کا ہاتھ انسانیت کے دسترخوان سے قیمتی دانوں کو بتدریج اُٹھاتا جارہا ہے اور اب انسانیت کے ڈھیر میں خال خال حضرات ایسے نظر آتے ہیں جو انسانیت کے اخلاقی جوہر کے امین ہوں، جن کے علم پر اعتماد کیا جاسکے، جن کا عمل اُمت کے لیے نمونہ بنے اور جن کے سیرت و کردار کو دیکھ کر انسانی سیرت کی نوک پلک درست کی جائےانہی باعمل شخصیات میں سے ایک شخصیت رئیس المحدیثین شیخ الحدیث اورجامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم، حضرت مولاناڈاکٹر عادل خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو 23صفر1442ھ کی رات بمطابق 10 اکتوبر2020ءنماز عشاء کے بعد دہشت گردوں نے نہایت سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئےحملہ کرکے ڈرائیور سمیت شہید کردیا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون سوشل میڈیا پر یہ خبر پڑھ کر محسوس ہوا جیسےکوئی قیامت سی ٹوٹ پڑی ہے، یہ زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود تنگ داماں ہوگئی ہے، ایک ویرانی سی چاروں طرف فضاؤں میں بکھرتی نظر آتی ہے اور دور تک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ایک عظیم شخصیت کے دنیا سے اچانک اس طرح رخصت ہونے کا گمان بھی نہیں تھا، لیکن قدرت کی ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، مرنے کا ایک وقت مقرر ہے، ہم جیسے کورے دماغ اسے اچانک سمجھ بیٹھتے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں حکومتی سرپرستی میں افضل الناس بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے بدزبانی کرنے والے ذاکر آصف رضا علوی اور دس محرم کو کراچی کی مشہور شاہراہ بند روڈ پر کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ اور خسر رسول سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے بدزبانی اور گستاخی کرنے والوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینے کے لیے علمائے کرام، مشائخ عظام اور دینی تنظیمات کے ذمہ داران کو بہت متحرک کیا اور اس کے لیے تحریک کھڑی کی۔مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب کا ایک جرم یہ بھی تھاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت مقدسہ پہ زبان دازیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے امت مسلمہ کو تقدیس صحابہ کے لیے ایک پلیٹ فارم کر یکجا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور کراچی کا عظمت صحابہ مارچ اسکا منہ بولتا ثبوت تھا جہاں ایک طرف سمندر اپنی موجوں کیساتھ شباب بھی تھا تو وہیں محبان صحابہ و اہل بیت کے سروں کا بھی ٹھاٹھیں مارتا بحر بے کراں تھا آپ کا قصور شائد یہ بھی تھا کہ آپ نے صحابہ و اہلبیت عظام کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا مگر انکی آواز کو گولی کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا گیا ،روافض کا گروہ سمجھتا ہے کہ ہر اس شخص کو راستے سے ہٹا دیا جائے جو دنیا کے افضل ترین لوگوں یعنی صحابہ کرام کی عظمت کا جھنڈا لہراتا ہے اور تحریری و تقریری یا کسی بھی طرح سے صحابہ کے دفاع کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
اس واقعہ کی سنی قوم بھرپور مذمت کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہےکہ مولانا عادل خان رحمہ اللہ پر حملہ آور دہشت گردوں کو پکڑ کر کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اور ان کے پیچھے جو قوتیں اس مذموم اور گھناؤنی سازش میں شریک ہیں، ان کو بے نقاب کیا جائے۔حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ملکی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے اور ان کے لیے مناسب سکیورٹی کا انتظام کرے لیکن یہ حکومت فرقہ واریت کو ہوا دے کر اور ملک میں فرقہ وارانہ قتل اور غارت گری کروا کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے۔حکومتی وزرا سیکیورٹی یا دیگر مسائل پر توجہ دینے کے بجائے پہلے سے ہی قتل و غارت کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں اور اپنی نااہلی اور نالائقی پر تصدیق کی مہر ثبت کر رہے ہیں۔ اور جو ملک دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان بھیجتا رہا ہے اور ان کی مالی مدد بھی کرتا ہے۔ ایران کی پاکستان دشمنی کی مثال بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو بھی پاکستان میں موجود ہے جو کہ ایران کے ویزے پر پاکستان آکر دہشت گردی کرواتا رہا اور اس کو ایران کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔
ڈاکٹر عادل خان شہید کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور غیرجانبدارانہ تحقیق کر کے ان کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکا جاسکے۔ کیونکہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو دوسرا ملک شام بنا دیا جائے اس لئے اے حکمرانو! ماضی قریب کے علماء کی طرح جیسے مولانا حسن جان صاحب کو شہید کیا۔۔۔۔قاتل نامعلوم۔۔!مولانا معراج الدین صاحب کو شہید کیا۔۔۔۔قاتل نامعلوم۔۔!مفتی شامزئی صاحب کو شہید کیا۔۔۔۔قاتل نامعلوم۔۔!مولانا محسن صاحب کو شہید کیا۔۔۔۔قاتل نامعلوم۔۔!مولانا اعظم طارق صاحب کو شہید کیا۔۔قاتل نامعلوم۔۔!مولانا خالد محمود سومرو صاحب کو شہید کیا۔۔قاتل آزاد،،!مولانا سمیع الحق صاحب کو شہید کیا ۔۔قاتل نامعلوم۔۔قائد جمعیت پر خودکش حملہ کئے۔۔خودکش حملہ آور نامعلوم۔۔!مولانا عبد الغفور حیدری صاحب پر خودکش حملہ کیا۔۔حملہ آور نامعلوم۔۔!مولانا حکیم فیض عالم صدیقی کو شہیدکیا ۔۔۔قاتل نامعلوم ، شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر کو شہید کیا ۔۔۔قاتل نامعلوم،مولانا حق نوازکو شہید کیا گیا۔۔۔قاتل نامعلوم ، مولانا ایثار الحق قاسمی کو شہید کیا گیا۔۔۔قاتل نامعلوم،مولانا ضیاء الرحمان فاروقی کو شہید کیا گیا ۔۔۔قاتل نامعلوم مولانا اعظم طارق کو شہید کیا گیا۔۔۔قاتل نامعلوم ان کے علاوہ اور بھی جید علما شہید کئے گئے۔۔۔قاتل نامعلوم۔۔!ان مقتد علمائےرحمہم اللہ علیہم اجمعین کو چن چن کر شہید کیا گیا ۔ خدارا اب اس نامعلوم کو معلوم کر لیجیے مزید کتنی قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کا انتظار ہے آخر کب تک یہ “نا معلوم نا معلوم کی گردان چلتی رہی گی اب یہ بتایا جائے کہ وہ ادارہ جو اپنے آپ کو عالمی دنیاء میں نمبر ون کہتا ہے وہ کس مرض کی دوا ہے۔۔!اگر مشرف پر حملہ ہوتا ہے اور اسکے مجرم پکڑے جاتے ہے۔تو پھر انیباء کے ورثاء کے قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے۔۔؟آرمی چیف صاحب۔۔اگر سندھ کے ایک جج کے بیٹے کو مجرموں سے آزاد کیا جاسکتا ہے ۔۔تو پھر ان شہدا کے قاتلوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا۔۔؟آرمی چیف صاحب سے قوم دس بدستہ التماس کرتی ہے کہ خدارا علماء اور مشائخ کے قتل عام کو روکنے کا کوئی سامان کیا جائے کیونکہ قوم مزید ایسے حادثات کی متحمل نہیں ہے ۔ ملک کے پرامن مسلمان شہری ہر صورت میں ملک میں امن و امان اور سکون چاہتے ہیں تاکہ پاکستان جنت نظیر رہے۔ہمارا صوبائی و وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے مقتدر اداروں سے مطالبہ ہے کہ پاکستان کی واضح سنی اکثریت کے مطالبات پر فوری توجہ دی جائے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭… مولاناڈاکٹر عادل خان شہید نور اللہ مرقدہ کی شخصیت وطن عزیز سمیت پوری دنیاء اسلام میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی آپکو جہاں دین کا علم تھا وہیں آپ دنیاوی علوم پہ بھی دسترس رکھتے تھے آپ اک عظیم محب وطن اور وحدت امت کے لیے برسر پیکار عہد ساز شخصیت تھے ۔٭… مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی عمر 63 سال تھی، مرحوم عالم اسلام کے معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللّٰہ خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔٭… 1973 میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے ہیومن سائنس، 1978میں ایم اے عربی اور 1992 میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی،مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان نے ملائیشیا کولالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018 تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔٭… 2018 میں ریسرچ و تصنیف و تحقیق میں ملائیشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملائیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔٭… مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو و عربی ادب جیسے موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔٭… مولانا عادل خان 2017 ء میں والد مولانا سلیم اللّٰہ خان رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم و نسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے، بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللّٰہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔٭… موصوف ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں اور فکرونظر کے بہت سے فضائل وخصائص سے نوازا تھا۔مولانا عادل شہید کی نماز جنازہ ان کے بھائی مولانا عبید اللہ خالد نے پڑھائی ،جامعہ فاروقیہ حب ریور روڈ فیز ٹو میں ادا کی گئی جس میں علمائے کرام کے علاوہ طلبہ اور عقیدت مندوں سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔مولانا عادل شہید کی تدفین جامعہ فاروقیہ میں ان کے والد مولانا سلیم اللہ خان کے پہلو میں کی گئی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا عادل خان رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کی شہادت کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کے پسماندگان، متعلقین اور آپ کے تلامذہ کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے قاتلین کو دنیا وآخرت میں عبرت کا نشان بنائے۔ آمین