مکتب تعلیم القرآن الکریم کی ایک خصوصی نشست

مکتب تعلیم القرآن الکریم کی ایک خصوصی نشست
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
مورخہ 16 ستمبر بروز بدھ مولانا محمد عتیق الرحمان کی کی دعوت پر دارالعلوم تدریس لقرآن میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی جہاں پر مکتب تعلیم القرآن الکریم کی طرف سے مدرسین اور ائمہ حضرات کے لئےایک تربیتی خصوصی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا ،جس میں مولانا خالد زبیر صاحب نےمختصر تعارف میں کہا کہ’مکتب تعلیم القرآن الکریم ‘‘ تعلیمی ادارہ ہے جو علمائے کرام اور تعلیمی ماہرین کے اشتراک سے قائم شدہ ہے،اورمکتب کامقصدبچوں کو ابتدائی تعلیم نورانی قاعدہ ،ناظرہ قرآن مجید نماز اور ضروری اذکار اور ناظرہ حفظ قرآنِ کریم کو صحیح تلفظ وتجوید کے ساتھ ضروری دینی معلومات سکھانا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے تین چھوٹے بچوں کو جن کی عمریں بمشکل 6/7/سال ہوں گی ان میں ایک نے باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت سے نشست کا آغاز کیا اور دوسرے دوبچوں نے اپنے مکتب کا تعارف کروایا اورتوحید ورسالت نماز اورسلام پرچھوٹی چھوٹی احادیث پر ایک جامع اور پر مغزمکالمہ پیش کیاجس پر سامعین نے سبحان اللہ اور ماشاء اللہ سے خوب داد دی ۔اس کے بعد اس نشست کے مہمان خصوصی جناب حضرت مولانا شفیق الرحمان صاحب کو دعوت دی گئی۔انہوں نے چند تمہیدی کلمات کے بعد فرمایاکہ مدرسہ قائم کرنا استحباب کے درجے میں ہے۔(لفظ ’’مدرسہ‘‘ اگرچہ عصر حاضر میں بلادِ عربیہ میں اسکول کے معنیٰ میں استعمال ہورہا ہے لیکن اسلامی تاریخ کے عہد عروج میں ایک ایسے تعلیمی ادارے کا نام تھا جس میں اسلامی علوم میں اعلیٰ ترین سطح کی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا، ان درسگاہوں کا تعلیمی معیار اس درجہ کا ہوتا تھا جو عصری اصطلاح میں یونیورسٹی کا درجہ سمجھا جاتا ہے،وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے مدارس کا لفظ اس قدیم اصطلاح کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ اس وفاق میں وہ تعلیمی ادارے شامل ہیں جو آج کی اصطلاح میں جامعہ کہلاتے ہیں۔)اور مکتب قائم کرنا واجبات کے درجے میں ہے،(بچوں کا وہ ابتدائی ادارہ جہاں قاعدہ (نورانی قاعدہ ہو یا اس معیار کا کوئی اور قاعدہ) نماز اور ضروری اذکار اور ناظرہ قرآن کریم یا حفظ قرآنِ کریم کی تعلیم دی جاتی ہو)مدرسے کو قائم کرنایقینا وہ بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے ،اس کے فوائد سے میں انکار نہیں کررہا لیکن مکتب کا قائم کرنا لازم اور ضروری ہےکیوں؟وہ اس لئے کہ ہمارے وطن عزیز کے اڑھائی کروڑ بچے سکولز میں تعلیم حاصل کررہے ہیںجن کے پاس نماز اور قرآن سیکھنے کا وقت نہیں ہے انہیں میں پھر بے دین اور دہریہ بن کر نکل رہے ہیں ،اور ہمارے مکاتب میں جو بچے آتے ہیںبہت کھینچ تان کر بھی لے جائیں تو وفاق کے اعداد شمار کے مطابق تیس لاکھ بچےہوں گے ،اور پھر جو بچے ہمارے پاس آرہے ہیں ان کو ہم کیا دے رہے ہیں ؟کیا پڑھارہے ہیں ؟اایک ایک قاری صاحب کو سو سو بچے پڑھانے پڑ جاتے ہیں ۔اس میں قاری صاحب کا کیا قصور ہے ؟اور مزید یہ کہ بچے نےآدھ گھنٹہ سے زائد وقت بھی نہیں دینا اس لئے میرا مشورہ ہے کہ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئےمکتب کے نظام تعلیم کے طریقہ کار کے مطابق اگر پڑھایا جائےتھوڑے سے وقت میں بہت سے فوائد حاصل ہوں گے،تعلیم دینے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جائے اسے’’ طریقہ تعلیم‘‘ کہتے ہیں،صحیح طریقہ تعلیم کے ذریعے کم وقت میں بچوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہےاگر چہ قرآنِ کریم کا اصل مقصود اس کے معنی کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے،لیکن اس کی پہلی سیڑھی،اس کی طرف چلنے کا پہلا درجہ قرآنِ کریم کی صحیح تلاوت ہے،ناظرہ قرآن کریم پڑھنا یا پڑھانا بڑی عظیم خدمت ہے ،جو تم انجام دے رہے ہو، جو بچے تمہارے پاس پڑھنے کے لیے آرہے ہیں ان کو جب قرآن پڑھاؤ گے اور قرآن پڑھانے کے ساتھ قرآن کے آداب واحکام کے مطابق ان کی تربیت کرو گے، ان میں سے ایک ایک بچہ تمہارے لیے صدقہٴ جاریہ ہو گا۔ اور جب یہ بچہ آگے جا کر یہی آداب، یہی اخلاق، یہی علم دوسروں کو پہنچائے گا تو وہ تمہار لیے صدقہٴ جاریہ ہو گا، قیامت تک اس کا ثواب تم تک پہنچے گا ۔
اگرحضرت کے پورے بیان کوتحریر کیا جا ئے تو کئی صفحات درکار ہوں گےبہرحال اس نشست کا خلاصہ اور نچوڑیہ کہ مکتب کے طریقہ تعلیم سے درج ذیل مقاصد ہیں اور اس کے مطابق پڑھانے سےحاصل ہو سکتے ہیں۔ ٭… تجوید بہتر ہوجائے گی۔٭… بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایمان اور دین کی بنیادی باتیں پیوست ہوجائیںگی کیونکہ بچپن میں جو ذہن بن جاتا ہے اس کے اثرات مرتے دم تک رہتے ہیںکیونکہ آج کے دور میں اسلام اور الحاد کی جنگ زوروں پر ہے۔دجال بھی الحاد کی دعوت دے گا۔ملحدین کی فکری یلغار سے بچاؤ کا ایک طریقہ یہی ہے کہ بچوں کے ذہن میں پہلے سے ہی دینی عقائد راسخ کردیے جائیںتاکہ بعد میں کوئی بھی ماحول ان کے عقائد خراب نہ کرسکے۔ ٭… نبی کریم ﷺ کی پرنور دعائیں ،طہارت،نمازاور دین کےدیگر بنیادی مسائل ذہن نشین کرادیے جائیںتاکہ عبادت کی روح یعنی دعا کی عادت بنے اور دین کا اتنا علم جو فرض کفایہ ہے وہ انہیں اسی دور میں حاصل ہوجائے۔ بچوں کا وقت مزید قیمتی بنایا جائے۔ بچوں کے اندرشروع سے دین اسلام اور اس کے متعلقات کا شوق وجذبہ پیدا ہوگا۔٭… قرآن وحدیث اور سیرت پاک کی ضروری معلومات حاصل ہوںگی۔
الله تعالیٰ اپنے کلام کی خدمت جس انداز سے ، جس وقت ، جس جگہ، الله تبارک وتعالی لے لے، الفاظ کی ہو ، معانی کی ہو ، اس کی دعوت کی ہو ، اس کی تبلیغ کی ہو ، وہ الله تبارک وتعالیٰ کا انعام ہے تو اس لیے جو مدارس خاص طور پر اس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ بہت عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں، الله تبارک وتعالی اپنے فضل وکرم سے ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں قرآنِ کریم کی عظمت، اس کی محبت اور اس کی صحیح خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین !