ماہِ صفر کی حقیقت اسلام کی نظر میں

ماہِ صفر کی حقیقت اسلام کی نظر میں
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ”صَفَرُ المُظَفَّر“شروع ہو چکا ہے، تاریخ اسلام میں اس مہینے کو ممتاز حیثیت حاصل ہے،خاتم النبیین جناب نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہؓکا نکاح فرمایا تھا جن سے آنحضرتﷺ کی نسل چلی جو قیامت تک رہے گی۔اسی ماہ صفر میں ایران فتح ہوا اور اسلامی سلطنت کو وسعت ملی اور اسی مہینے میں عمرؓ ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت بنے اور اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں عدل عمرؓ کی یاد تازہ فرما دی، اس ماہ میںہجرت کے پہلے سال مقام ِ ابواء پر غزوہ ہوا جس میں نبی کریم ﷺخودبنفس نفیس شریک ہوئے تھے، اس جگہ کو “ودّان” بھی کہتے ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا غزوہ تھا، جو کہ آپ کی ہجرت سے بارہ ماہ بعد صفر کے مہینے میں رونما ہوا، اس غزوہ میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ علمبردار تھے، آپ کا علم سفید رنگ کا تھا، آپ نے اس دوران مدینہ منورہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ، آپ صرف مہاجرین کو لیکر قریش کے ایک تجارتی قافلے کی تلاش میں نکلے تھے، لیکن وہ قافلہ پہلے ہی ممکنہ جگہ سے گزر چکا تھا۔
اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے بنی ضمرہ کے سربراہ مخشی بن عمرو ضمری کیساتھ امن معاہدہ فرمایا، جس میں فریقین کی طرف سے یہ طے ہوا کہ کوئی بھی ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کریگا، فریقین میں سے کسی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، اور نہ ہی ایک دوسرے کے دشمن کی کسی قسم کی مدد کرینگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ باقاعدہ تحریر کروایا ، آپ اس غزوے میں پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔ (زاد المعاد )( 3 / 164 ، 165 ) ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی جانب محرم کے آخر میں روانہ ہوئے، ابتدائے محرم میں نہیں ، چنانچہ فتح خیبر صفر کے آخر میں ہوئی۔تیسری ہجری ماہ صفر میں قبیلہ عضل اور وقارہ کے لوگ نبی کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔9ہجری ماہ صفرمیں بنی عذرہ کے 12لوگوں نے دربارِ رسالت میں حاضر ہوکر بسروچشم اسلام قبول کیا۔زاد المعاد ” ( 3 / 339 ، 340 )
قبل از اسلام دور جاہلیت کے لوگ ماہ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے اور اس میں سفر کرنے کو برا گردانتے تھے اسی طرح زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کو خیرو برکت سے عاری گردانا جاتا تھا۔لیکن آج کے اس پڑھے لکھے دور میں بھی عوام الناس ماہ صفر کے بارے میں جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ یہ اس قدیم جاہلیت و جہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانہ جاہلیت جیسی بدعات و خرافات موجود ہیں۔اوربعض لوگ اسےآسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والامہینہ سمجھتے ہیں، جبکہ یہ مہینہ اسلامی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے بالخصوص اس مہینہ کے ابتدائی تیرہ دنوں کو نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے،اللہ رب العزت نے ہر چیز پیدا فرمائی ہے۔ اس میں دن، ہفتہ، مہینہ، سال سب شامل ہیں اور سب کا ذکر اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا۔سال کا ذکر اور مہینوں کی تعداد کا ذکر بھی فرمایا:’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں12ہے،اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔‘‘(التوبہ36)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ کسی چیز، دن یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع و نقصان کا اختیار سو فیصد اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے تو گناہ فی نفسہ منحوس ہے، کیونکہ گناہ کے سبب گنہگار اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور دنیا و آخرت کے مصائب میں گِھر جاتا ہے۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں بد شگونی و بد فالی:…
دامنِ اسلام اس قسم کی خرافات سے پاک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بارہا سابقہ کافر قوموں کے واقعات میں اس بات کا تذکرہ ملتاہےکہ وہ اپنے اوپر آنے والی مصائب وآلام کا ذمہ داروقت کے انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کو ٹھہراتے کہ یہ سب تمہاری نحوست سے ہوا ہے۔ذیل میں چند ایک آیات قرآنی کامفہوم ملاحظہ کیجیے:…
٭… حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل” پر جب اللہ کی جانب سے انعام واکرام کی بارش ہوتی تو کہتے یہ سب ہماری بدولت ہے،لیکن جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیرو کاروں کی نحوست قرار دیتے۔اللہ پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایاخبردار! یہ نحوست اللہ کی جانب سے ان کے برے اعمال کی بدولت ہے۔(مفہوم سورۃ الاعراف آیت : 131)٭… قومِ ثمود نے بھی یہی کہا : ” اے ثمود (علیہ السلام ) ہم تجھے اور تیرے پیرو کاروں سے بد شگونی لیتے ہیں “(سورۃ النمل،آیت : 47)ان کے نظریہ کی بھی اللہ پاک نے انہی الفاظ میں تردید کی ۔٭… حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہلیان “انطاکیہ” کی طرف تبلیغ دین کے لیے اپنے نائب بھیجے تو اہل انطاکیہ نے ان کی بات نہ مانی ، ان کوزدو کوب کیا اور یہ کہا کہ ہم تم سے بد شگونی لیتےہیں یعنی تمہارا یہاں آنا ہمارے لیے نحوست وبے برکتی کا باعث ہے ۔(مفہوم سورۃ یسین ،آیت : 18)مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہواکہ بد فالی کرنا اور کسی چیز کو نحوست جانناباطل عقیدہ ہے، اسلام کاعقیدہ ونظریہ، یہ ہے کہ مصائب وپریشانیاں اور بھلائیوں کا پیش خیمہ تقدیرِ الہٰی اور اچھے یابرےاعمال ہیں،ذیل میں بطور نمونہ چند آیات کامفہوم ملاحظہ کیجیے :…
٭… آپ کو کو ئی بھی راحت آسائش یا بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے (اپنےاعمال) کی وجہ سے ہے”۔(سورۃ النساء ، آیت : 79)٭… اگرکسی بستی وعلاقہ کے باشندے ایمان لے آئیں اور اللہ سے ڈرنے لگیں تو ہم ان پر زمین وآسمان سے رحمتوں کے خزانے کھولدیں گے “۔(سورۃ الاعراف ،آیت : 96)٭… اے پیغمبر کہدیجیے ہمیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہ نے ہماری تقدیرمیں ازل سے لکھدیا ہے ،وہی ہمارا حامی وناصر ہے ، اسی ذات پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے”(سورۃ التوبۃ ، آیت : 51)٭… جس نے نیک کام کیا تو اپنے فائدہ کے لیے کیا ،اور جس نے برائی کی تو اس کا وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا”(سورۃ فصلت ،آیت : 46)زمین اورسمندر میں فساد ظاہر ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے”(سورۃ روم ،آیت : 41)
احادیث کی روشنی میں بد شگونی و بد فالی:…
٭… حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:’’ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت کا نزول نہیں ہوتا۔‘‘(مسلم)٭… دوسری حدیث پاک یوں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’چھوت لگنا، بد شگونی لینا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیںالبتہ جذامی(کوڑھی)شخص سے ایسا بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتاہے۔ ‘‘(بخاری )٭… بخاری شریف میں یہ حدیث بھی مذکور ہے، نبی نے فرمایا:’’چھوت(بیماری) لگ جانا، بدشگونی، شیطانی گرفت(بھوت چڑھنا) یا صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں۔‘‘
محبوبِ خدا کی بعثت سے پہلے ماہِ محرم میں جنگ حرام تھی۔ جب صفر کا مہینہ آتا تو عرب جنگ کیلئے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ دیتے تھے اس لئے اس کو صفر کہا جانے لگا۔ ماہ صفر کو لوگ منحوس مانتے ہیں۔ اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی بہت سے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور صفر کو منحوس سمجھ کر سفر نہیں کرتے، خصوصاً صفر کی شروع کی13تاریخیں بہت منحوس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ آخری چہار شنبہ (بد ھ) کیاہے؟صفرکے آخری بدھ کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ اس روز حضور نے مرض سے صحت پائی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا اور مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ مرض جس میں آپ نے وفات پائی اس کی شروعات اس دن سے ہی بتائی جاتی ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے ماہ صفر کے آخری بدھ سے آپ کا مرض شروع ہوا اور 12ربیع الاول کو وصال ہوا۔ مسلمانوں کے لئے عبرت کا مقام ہے کہ پیغمبرﷺ کی بیماری پر جشن منائیں۔
ماہ صفر کی بدعات و خرافات :…
٭… اس مہینے میں پہلی بدعت یہ ہے کہ لوگ اس میں شادی نہیں کرتے، کیوں؟ اس لیے کہ اگر شادی کریں گے تو وہ شادی کامیاب نہیں ہوگی اس جوڑے میں طلاق ہو جائیگی۔٭… اگر یہ نہ ہوا تو پھر اولاد نہیں ہوگی اگر اولاد بھی ہو گئی تو وہ ناقص ہو گی یعنی اس کے اعضاء درست نہیں ہونگے،یہ لوگوں کا عقیدہ ہے اور یہ بالکل باطل عقیدہ ہے۔٭… اور اس مہینے کی دوسری بدعت یہ ہے کہ لوگ اس میں کاروبار کا افتتاح اور آغاز نہیں کرتے، کیوں؟ اس لیے کہ اگر کاروبار شروع کر دیا تو وہ کاروبار کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا اگر ہو گیا تو اس کاروبار میں فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہی نقصان ہو گا۔ یہ عقیدہ بھی بالکل باطل ہے۔٭… کئی لوگوں کے خیال میں ماہ صفر کا آخری بدھ منحوس ہے جبکہ امام صاغانی اور ابن الجوزی نے اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے اور اسکی کوئی اصل نہیں۔٭… صفر کے آخری بدھ کی نسبت یہ بات مشہور ہے کہ اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے نجات اور صحت ملی انہوں نے غسل صحت فرمایا اور سیر و سیاحت کے لیے شہر سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ اس لیے بعض لوگ اس عمل کو سنت نبوی سمجھتے ہوئے آخری بدھ کو کاروبار بند کر کے خوبصورت کپڑے پہن کر سیر و سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں پارکوں اور کھیتوں میں سیرو سیاحت کے بعد جب گھر لوٹتے ہیں تو شیرینی حلوہ پوری بناتے ہیں یا گندم کو ابال کر بچوں اور غرباء میں تقسیم کرتےہیں یہ سب کام ثواب گردانتے ہوئے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو محب رسول کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کام من گھڑت اور خود ساختہ ہیں قرآن و حدیث کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بار لشکر کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس موقع پر سفر نہیں کرنا چاہئے بلکہ فلاں گھڑی میں سفر کرنا چاہئے ورنہ شکست ہوتی ہے۔سیدنا حضرت علیؓنے جب یہ جملہ سنا تو فرمایا لشکر والو ابھی کوچ کرو فتح و شکست اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ لشکر نے اسی گھڑی میں کوچ کیا اور کامیاب ہو کر لوٹے۔سیدنا حضرت علیؓنے فرمایا اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اس کے بتائے ہوئے وقت پر سفر کرتے تو یہ شخص کہتا میری وجہ سے فتح ہوئی ہے۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے فرمایا جس نے کسی کو اپنا حال جاننے کے لئے ہاتھ دکھایا اس کی چالیس دن کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں، آنحضرتﷺ نے نجومی کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے ۔
صفر کے متعلق بعض من گھڑت ومو ضوع روایات :…
دشمنان اسلام نے دین اسلام کے شفاف چہرے کو مسخ کرنے کے لیےبے شمار ہتھکنڈے استعمال کیے ، سب سے خطرناک یہ کہ اپنی خرافات کو مسلمانوں میں رواج دینے کےلیے رسول اللہﷺ کی طرف من گھڑت باتیں منسوب کرکے جہنم کواپنادائمی ٹھکانہ بنا لیا۔ محدثین کرام کو اللہ جزائے خیردے کہ انہوں نے دن رات ایک کرکے جھوٹ کو آپ ﷺ کی احادیث سے ایسے نکال باہر کیا جیسے مکھن سے بال ۔ذیل میں ماہِ “صفر المظفر” کے بارے میں چند من گھڑت احادیث ملاحظہ کیجیے :…
٭… جس نے مجھے صفر کے اختتام پذیر ہونے کی خوشخبری دی تومیں نےاسے جنت کی بشارت دی “۔(الموضوعات الکبیر 1/337)٭… مہینہ کا آخری بدھ سراسرنحوست ہے”(کشف الخفاء : 1/18)٭… صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی ،جس سے ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے ، پھر جمادی الاول ،وجمادی الثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں گی “۔(اللآلی المصنوعۃ للسیوطی : 2/322)٭… یہ اور اس طرح کی دیگر بدعات ورسومات کی قرآن وسنت میں کوئی حقیقت نہیں محض دشمنان اسلام (کمزور عقیدہ مسلمان)کی سازشوں سے ان خرافات کو دین اسلام کا حصہ بناکر اس کے بے داغ چہرہ کو داغ داغ کرنے کی ناپاک جسارت ہے۔
ماہ صفر تاریخ کے تناظر میں:…
ہم جب تاریخ کے تناظر میں ماہ صفر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کہیں بھی یہ نظر نہیں آتا کہ اس مہینے کی نحوست اہل اسلام کے راستے کی دیوار بنی ہو اور انہیں خسارہ و نقصان یا شکست و ریخت سے دو چار ہونا پڑا ہو بلکہ کتب تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس دکھائی دیتی ہے کہ اس مہینے میں کئی ایسے کار ہائے رونما ہوئے اور انجام کو پہنچے جو آج تک اسلام اور اہل اسلام کے لیے فخر کا باعث ہیں اور ہمارے لیے قدوہ اور اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ماہ صفر کی کوئی نحوست ہوتی تو اس قدر خوشی کے مواقع میسر نہیں آنے چاہیے تھے۔مثلاً:… کفار سے لڑائی کی اجازت بالفاظ دیگر جہاد کا حکم اور آغاز سن دو ہجری ماہ صفر میں ہوا۔٭… صفر دو ہجری ہی میں غزوہ ابوایا ودان پیش آیا یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اکرم بنفس نفیس شامل تھے۔٭… اسی طرح یکم صفر 12 ہجری کو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ایرانی سپہ سالار قارن بن قریانسی کے مابین جنگ مذار (عراق) لڑی گئی جس میں ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی۔ اور 30 ہزار ایرانی مارے گئے۔٭… ماہ صفر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں کسری کا مکمل غرور خاک میں ملا اور دنیائے کفر کی بڑی طاقت ایران شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔٭… چنانچہ 26 صفر 16ھ کو جمعۃ المبارک کے دن سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مدائن کو فتح کیا۔ کسری کے قصر ابیض (وائٹ ہاوس) میں مبنر رکھا اور نماز جمعہ ادا کیا۔یہاں اس سرزمین پر پہلا جمعہ تھا۔٭… 23 مارچ 1940 کو جب قرار داد لاہور میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تو یہ صفر کا مہینہ تھا۔ اگر یہ منحوس تھا تو پاکستان کو وجود میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ 28 مئی 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بن گیا۔ تاریخ دانوں کو یاد ہوگا کہ اسی دن ماہ صفر کا بھی آغاز ہو رہا تھا۔ اور اس کی یکم تاریخ تھی۔٭… کیا ماہ صفر کی نحوست کا عقیدہ رکھنے والے ایٹمی دھماکوں اور پاکستان کے پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے آغاز کو بھی نحوست قرار دیں گے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے۔ اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اور اس دین مبین میں خرافات و بدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اللہ پاک ہم تمام مسلمانوں کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں عمل کی توفیق دے اور اپنے دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔آمین۔