مساجد کے ذمہ داران سے چندگزارشات
انا للہ وانا الیہ راجعون قاری اسلم صاحب جو آج تیز بارش کی وجہ سے ان کے کمرے کی چھت گر گئی جس میں ان کے تین بیٹے. ایک بیٹی اور اہلیہ شہید ہو گئیں ان کی اہلیہ ایک عالمہ فاضلہ خاتون تھیں اور مدرسہ دارلھدٰی میں ٹیچر تھیں ان کا رہائشی تعلق بوسال سے تھا قاری اسلم صاحب پھالیہ مدرسہ جامعہ فاروقیہ کی مسجد میں امام تھے. اور یہ مکان مسجد انتظامیہ نے اپنے امام اور ان کی عالمہ اہلیہ کو عنایت فرمایا ہوا تھا ۔جو ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت میں مصروف تھے۔جب اس گھر سے پانچ جنازے اکھٹے اٹھیں ہوںگے ،تو تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے یہ سوال لیکر اٹھیں ہوںگے کہ کیا آپ اپنے بچوں کے لئے بھی ایسا ہی گھر اور چھت پسند کرتے ہو؟ جو اپنی مسجد کے امام اور خطیب کے لئے بنواتے ہو ؟کیا علماے کرام یا ان کے بچوںکی جان کی کوئی قیمت نہیں؟کیاان کا حق نہیں کہ وہ محفوظ اور مضبوط گھروں میں رہیں ؟اللہ ہمارے معاشرے پررحم فرمائے!قاری صاحب اور ان کے خاندان کو ان پانچ جنازوں کو ایک ساتھ اٹھانے کی ہمت حو صلہ اور صبر عطاء فرمائے اور ہماری شہید بہن اور اس کے چار پھولوں کو جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطاء فرمائے آمین
مسجدوں کی تعمیر کا اصل مقصد پنج وقتہ نماز جماعت کے ساتھ قائم کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے ذریعہ سے مسجد کو آباد رکھا جائے اور مسجدیں بننے کے بعد، اس کی آبادی کے لیے چار ستون ضروری ہیں: (1) امام، (2)مؤذن،(3) تیسرا مقتدی، (4)اور چوتھا مسجد کمیٹی۔ اگر ان میں سے ایک بھی نہ رہے؛ تو مسجد کا حق ادا نہیں ہوگا۔ ان چار ستونوں میں اللہ کے یہاں سب سے اعلی اور افضل، دو ستون ہیں، اور وہ امام ومؤذن ہیں۔لیکن افسوس کہ ان چار طبقوں میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ امام اور مؤذن ہی ہیں۔ جو انبیاء کا وارث ہو، امامت جس کا حق ہو، جو لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہو، ان کو مسجد آباد کرنے کی دعوت دیتا ہو، وہ آج مجبور محض اور مظلوم بنا ہوا ہے۔ رہے دوسرے دو ستون، یعنی مسجد کے نمازی اور مسجد کمیٹی تو ان کا شمار ظالموں میں ہوتا ہے۔ مقتدیوں کا شمار ظالموں میں اس لیے کہ انہوں نے ایسی کمیٹی کا انتخاب کیا، جو امام ومؤذن کی ضروریات کا خیال نہیں کرتی اورمعلوم ہونے کے بعد بھی کہ مسجد کمیٹی، ان کے امام ومؤذن پر ظلم کر رہی ہے، آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔
مسجد کے احترام کے ساتھ ساتھ امام کا احترام بھی ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔ امام ہمارا مذہبی لیڈر ہوتا ہے۔ جس طرح ہم دنیاوی لیڈروں کا ادب کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہم کو اپنے مذہبی لیڈر کا ادب کرنا ضروری ہے۔ پیدایش، ختنہ، عقیقہ، قربانی، موت میّت، شادی بیاہ، قرآن خوانی اور بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت غرض پیدائش سے موت تک یہاں تک کہ موت کے بعد بھی ضروری کاموں کے دورا ن ہمیں قدم قدم پرامام کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام کا اچھی طرح سوچ سمجھ کر انتخاب کریں، افضل شخص ہی کو امام بنائیں کیوں کہ وہ ہماری نمازوں کا ذمّے دار بھی ہے اور ہمارے عقائد کی اصلاح کرنے والابھی۔ اس زمانے میں تو امام حضرات ماضی کی طرح صرف قاریِ قرآن یاصرف حافظ نہیں ہوتے بلکہ اکثر جگہوں پر امامت کا فریضہ انجام دینے والے حافظِ قرآن اور عالم اور کہیں کہیں مفتی صاحبان بھی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ تو غلط رویّہ اور نازیبا حرکت یا ان کی بے عزتی تو بہت زیادہ بُری بات ہےپہلے پہل امام کی تقرری کے بعد ان کے ساتھ اعزاز اور اکرام کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرےامام کی خامیوں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے، امام کی غلطیو ں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے، مستحبات کے ترک پر اعتراض کیا جاتا ہے ،اس کی منہ بھر کر غیبت کی جاتی ہے، حالاں کہ یہ اعتراض درست نہیںیاد رکھیں کہ جب ہم نے اس شخص کو اپنی نمازجیسی اہم عبادت کے لیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف بے کار کے جملے، اس کےسامنے طنزیہ باتیں، اور اس کی غیر حاضری میں اس کی غیبت کیا معنیٰ رکھتی ہے؟احادیث میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ امام کی بھی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء کے نائب) ہیں، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کاا کرام و احترام لازم ہے۔خاتم الانبیاءﷺنےفرمایا:”تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں”یا یوں فرمایا:”تمہارے امام الله تعالٰی کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں” ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! مجھے کوئی کام بتائیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم کے امام بن جاوٴ“ تو انھوں نے کہا”اگر یہ ممکن نہ ہو تو؟“ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھرموٴذن بن جاوٴ“۔ (شرح عمدۃ الفقہ: ج:3، ص:139)فقہائے کرام رحمہم الله نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔ (درمختاروالشامی)صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا، ان سے جھاڑو دینے، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے۔رسولﷲﷺنےفرمایا:”حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی”۔ (الجامع الصغیر)رسولﷲﷺنےفرمایا:”حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے”۔(فتاویٰ رحیمیہ)ان احادیث مبارکہ سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول خاتم النبیین ﷺ کی نگاہ میں امامت اور موٴذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا،اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کواس کی تلقین فرمائی، اس لئے اہل محلہ کی ذمہ داری ہے کہ امام کی ضروریات کا خیال رکھیں ، اُسے اتنی تنخواہ دی جائے، جو اُس کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور اُس علاقے کے متوسط فرد کی تنخواہ کے برابر ہو اور اس کی غلطیوں کے پیچھے نہ پڑیں، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، فرشتے نہیں ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آج ائمہ کرام اور علمائے کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہاہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی، امام کی عزت وعظمت ایک ذمہ دارِ مساجدکا وطیرہ ہونا چاہیےتاکہ اس سے اور لوگ بھی سبق سیکھیں، اگر کوئی امام مسجد کے جائز اصولوں کے مطابق خدمت کے لیے آمادہ نہ ہو تو شرافت کے ساتھ اسے علاحدہ کر دیا جائے ،کیونکہ”متولی اور مہتمم کا عالم باعمل ہونا ضروری ہے، اگر میسر نہ ہو سکے تو صوم و صلاۃکا پابند، امانت دار،مسائلِ وقف سے واقف کار، خوش اخلاق ،رحم دل، منصف مزاج،علم دوست،اہلِ علم کی تعظیم و تکریم کرنے والا ہو ، جس میں یہ اوصاف زیادہ ہوں اس کو متولی اور مہتمم بنانا چاہیے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۹/۲۹۳)حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :” فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزازو احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت تو ہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار ،عزت،عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔“(فتاویٰ رحیمیہ۹/ ۲۹۳جدید)
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے موذنوں کے بارے میں فرمایا : کہ روزِ محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے موٴذن حضرات ہوں گے، ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا : اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائیگی۔ ایک جانب موٴذن کی یہ فضیلت ہے ، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ موٴذنین کے ساتھ آبائی وخاندانی ملازمین کا سا برتاوٴ کرتے ہیں ، انھیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلام ہیں ، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیت المال ان کا کفیل ہوتا ، اب چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں؛ اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کے ذ مہ دار ہیں ، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٴذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، ان کے ساتھ حسنِ اخلاق کا معاملہ کریں، غیر اخلاقی رویہ سے کلی اجتناب کریں ۔ کئی موٴذنین اپنے ذمہ داروں کے رویہ سے نالاں رہتے ہیں ،بعض دفعہ ذ مہ د اروں کے ہراساں کرنے سے موٴذنین اس عظیم خدمت سے دستبردار ہوجاتے ہیں ، ذمہ دار موٴذنین کی معاش کی بنا پر انھیں تنگ نہ کریں۔
مساجد کی انتظامیہ تنخواہ کے معاملے میں کتنی فراخ دل ہے نمونے کے طور پرملاحظہ فرمائیےایک قصبے کی مسجد میں2020 کے درمیان میںامام رکھا گیاجو ماشاء اللہ حافظ اور عالم بال بچے داربھی ہیں انہیںمسجدانتظامیہ نے بتایا کہ فیملی کی رہائش نہیں ہے اور تنخواہ /8000ہوگی مزید یہ کہ اپنےکھانے کا انتظام بھی اسی تنخواہ سے کرنا ہےاور کسی سے اس کے علاوہ ایک روپے کی بھی توقع نہ رکھنا،(اسی قصبے میں ایک اور قاری صاحب ہیںجو 29 سال سے وہاں تدریس (ٹیچنگ )کررہے ہیںاب ان کے پاس ماشاء اللہ دوسری نسل پڑھ رہی ہے کئی درجن بچے ان سے حفظ اور سینکڑوں بچے ناظرہ قرآن کریم پڑھ چکے ہیںانہوں کہا کہ یہ امام صاحب خوش قسمت ہیںکہ ان کی تنخواہ آٹھ ہزار مقرر ہوئی ہے ،اگر استقامت سے یہی پر امام کرتے رہے تو28 سال بعد ان کی تنخواہ بھی/17000تک توضرور ہوجائے گی انشاء اللہ!وکیونکہ میری تنخواہ 28 سال کے بعد اب جاکے سترہ ہزار/17000تک پہنچی ہےاورایک شریف انسان کا بھلا ہو جس اکیلےنے یہ بیڑا اٹھایا ہوا ہےآج تک کسی دوسرے فردنےیہ پوچھنے کی بھی جسارت نہیں کی کہ کون تنخواہ دے رہا ہے اور کیسےگزارا ہو رہا ہے)اسی قصبے کےایک اور قاری صاحب ہیںان کے متولی سے تنخواہ بڑھانے کی بات ہوئی تو انہوں نے فرمایامشورہ چل رہا ہے دو ماہ بعد جب قاری صاحب سے پوچھا گیاہاں بھائی تنخواہ بڑھی ہے یا نہیں؟قاری صاحب نے کہافلاں صاحب (مسجد انتظامیہ میں سے)نے کہا ہے کہ اپنے کوائف مفتی صاحب کو پیش کرو کہ تم پرزکوٰۃ لگتی ہے یا نہیں؟یعنی زکوٰۃ بھی دینی ہے توامام صاحب کو ذلیل کرکے دینی ہے ،اگر تحقیق ہی کرنی ہے تو اپنے طور پر خود تحقیق کرو،مستحق زکوٰۃ کو محسوس بھی نہ ہو،۔یہ دو تین مثالیں اس قصبے کی ہیںجن میں اکثریت لوگوں کی ہے اگر احتیاط سے بھی کہا جائے تو ان کےلاکھوں میں بینک بیلنس اور کروڑوں کی پراپڑٹیاں ہیں۔بہرحال یہ باتیں ضمنًا چل نکلی ہیںبہرحال!ایساباورکیاجاتاہے کہ مساجدکے امام اور موذنین معاشرے پربوجھ ہیں اورپھران کے ساتھ عام طورپراسی قسم کا برتاؤـ کیا جاتاہے،یقین جانئے ہمارایہ عمل خود ہماری بدبختی اور اللہ کی ناراضی کاسبب ہے اوراس سے خودہمیں ہی دنیاوآخرت میں خسارہ ہوگا۔یہ کس قدرحیرت اور افسوس کامقام ہے کہ ایک جانب تو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ امامت اورموذنی کرنا معمولی کام ہے،یہ کام کرکے انسان پُرسکون طریقے سے اپنی زندگی نہیں گزارسکتا اوراس میں اپنی اولاد کولگاناگویاان کی زندگی کوبربادکرناہے،جب کہ دوسری جانب جب یہی لوگ بڑے شوق سے مسجدکے ٹرسٹی یامتولی بنتے ہیں توامام یاموذّن کی تنخواہ چند ہزار سے زائد کرنے کے لیے کسی بھی صورت تیارنہیں ہوتے۔اگر امام صاحب کسی مجبوری کی وجہ سے کسی دن دو منٹ لیٹ ہوگئے تو گلا پھاڑ پھاڑ کر امام صاحب کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ جی وہی تنخواہ جس سے امام صاحب کے گھر کاگزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ جی وہی تنخواہ جتنے کا بیڑی سگریٹ ہمارے صدر وسکریٹری صاحبان صرف ایک دن میں ہضم کرجاتے ہیں، میرے خدا رحم فرما! بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا؟اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی امام مسجد سے زیادہ کمالیتا ہے، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے؟اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام پر کھڑا کردیا ہے ۔ ہمارے گھروں اور مسجدوں کے رنگ وروغن میں سالانہ لاکھوں روپے فضول خرچ کردیے جاتے ہیں لیکن بیچارے امام ومؤذن ہیں کہ وہ سکونت کے قابل ایک گھر کی خواہش میں زندگی کھپا دیتے ہیں۔ اگر کوئی امام خارجی آمدنی کے لیے چھوٹا موٹا اپنا کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو اس کو امامت کا مستحق نہیں سمجھا جاتا یا پھر اس کی تنخواہ کا اضافہ روک دیا جاتا ہے۔ اگر اللہ کا کوئی نیک بندہ امام ومؤذن کی تنخواہ میں اضافہ کی بات کرتا ہےتو اللہ پر توکل اور بھروسہ کا حوالہ دے کر اس کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ اللہ رحم وکرم کا معاملہ فرمائے اور مساجد کے نادان ذمےداران کو توفیق دے کہ وہ امام ومؤذن کی ضروریات کو سمجھ سکیں!ہمارا تصوریہ ہوتا ہے کہ امام اور موذن کوانسان نہیں،فرشتہ ہوناچاہیے، مگر خودہم کسی کے ساتھ انسانی اخلاق کے ساتھ بھی پیش نہیں آتے۔پس اِس وقت مسلمانوں میں بے شمارسماجی اصلاحات کے ساتھ کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ ائمہ اور موذنین کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترا م اور وقار کاجذبہ پیدا کیاجائے۔ اسلام میں ان کاجومقام و مرتبہ بتایاگیاہے، اس سے لوگوں کوروشناس کیاجائے اور لوگوں کو مساجد سے جوڑتے ہوئے ائمہ کی مخلصانہ اقتداکاماحول بنایاجائے۔ ہر دور میں عوام کامساجداور اماموں سے گہراربط رہاہے،آج بھی عام مسلمانوں کا دن رات کاتعلق اپنے اماموں سے ہوتاہے، اگر عوام اور ائمہ کے مابین تعلقات مضبوط ہوں گے اور دونوں طرف افادہ و استفادہ کی راہ ہموارہوگی تواس طرح مجموعی طور پر پورے مسلم معاشرے میں ایک خو ش گوارسماجی انقلاب برپا ہوسکتاہے۔
راقم الحروف مساجد کمیٹی سے گزارش کرتا ہے کہ امام ہمارے پیشوا ہیں۔ وہ ممبر رسول کے وارث ہیں۔ وہ محراب رسول کے امین ہیں اس لیے جس طرح ہم اپنی ضروریات کا خیال کرتے ہیں، ان کا بھی خیال کریںبلکہ جس طرح نماز میں امام کو اپنے سے آگے رکھتے ہیں، اسی طرح دنیاوی آسائش میں بھی، ہم ان کو مقدم رکھیں۔تاکہ جو حادثہ قاری اسلم صاحب کے ساتھ پیش آیا ہےکسی اورامام ،حافظ، قاری،عالم کے ساتھ پیش نہ آئےاور ساتھ ہی ساتھ نمازیوں سے یہ بندہ یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ کمیٹی میں ایسے افراد کا انتخاب نہ کریں، جو امام ومؤذن کی ضروریات کا خیال نہ کرے، جو رحم دل نہ ہو، نماز کی پابندی نہ کرتا ہو، زکاۃ کا اہتمام نہ کرتا ہو کیوں کہ جو اللہ کا اور فقراء کا حق ادا نہ کرے، وہ امام ومؤذن کا حق خاک ادا کرے گا۔ یہ ہمیشہ یاد رہنا چاہیے کہ ظالم اور اس کی مدد کرنے والا ایک دن مٹ کر رہے گا۔
لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے، تب جاکر یہ معاملہ قابو میں آئے گا، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ!