عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا: إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ.
سیدُنا حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہیئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے (تو بہتر ہے) ورنہ پھر لیٹ جائے۔ (سنن ابو داؤد، ادب کا بیان، حدیث نمبر 4782)
یعنی اپنی حالت تبدیل کرلینا چاہئے یعنی کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں یا بیٹھنے سے غصہ دور نہ ہو تو لیٹ جائیں۔ ایک حدیث میں نبی ﷺ فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔
حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک کلمہ جانتا ہوں، اگر غصہ کے وقت وہ پڑھ لیا جائے، تو اس کے پڑھنے سے غصہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور وہ کلمہ “اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم” ہے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6115)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے۔یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے، وہیں اگر ناپسندیدہ اور اپنی توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اس کے اندر غصہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔غصہ ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اس وجہ سے ہر شخص کے اندر اس فطرت کا وجود ہے اور مشاہدہ میں بھی آتا ہے۔ ایسانہیں ہے کہ غصہ امیروں کی دولت ہے، اور فقیر ومسکین کو کبھی غصہ نہیں آتا۔ یہ ہرانسان کی صفت ہے، بچپن سے لیکر بڑھاپے تک اس کا ظہور ہوتا رہتاہے۔ غصہ ایک آگ ہے جو انسان کے سینہ کو سلگا کر رکھ دیتی ہے اور اس کا انگ انگ اس کی حرارت سے دہک اٹھتا ہے، آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے، زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جب غصہ شدید ہوتو اپنے اعضاء پر بھی انسان کی گرفت باقی نہیں رہتی ۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، (مسند احمد: ۱۷۹۸۵، ابوداؤد: ۴۷۸۴، عن عطیۃؓ)
گویا غصہ کی حالت میں انسان شیطان کا نمائندہ بن جاتا ہے اور شیطان اس کو اپنے مقصد ومنشاء کی تکمیل کے لئے ذریعہ بناتا ہے۔
انسان اپنی خواہشات و احساسات کے مطابق ہونے والے اچھی بات پر خوش ہوتا ہے، جبکہ اپنی سوچ اور توقع کے خلاف ہونے والی ناگوار یا بری بات پر غصے اور ناراضگی کا اظہار کرتا ہے، یہی غصہ جب حد سے بڑھ جائے اور بر وقت کنٹرول نا کیا جائے تو لڑائی جھگڑے سے لیکر قتل و غارت گری تک لے جاتا ہے، کبھی والدین کو اولاد سے جدا کروا دیتا ہے، تو کبھی بیوی کو طلاق دلوا دیتا ہے، کہیں کسی کا قاتل بنا دیتا ہے تو کبھی انسان کو خودکشی پر مجبور کر دیتا ہے۔غصہ کی کیفیت انسان کو دینی اعتبار سے بعض اوقات سخت خسارہ میں ڈال دیتی ہے، زبان سے کفریہ کلمات نکل جاتے ہیں، — اگر معاشرہ کے مفاسد کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر برائیاں غصہ ہی کی دین ہیں، خاندانوں کی باہمی نفرت، میاں بیوی کے درمیان ذہنی فاصلے، ایک دوسرے کی عزت ریزی، صلح کے مواقع تلاش کرنے کے بجائے مقدمہ بازی اور جنگ و جدال کا تسلسل، سماج کی یہ مہلک بیماریاں نوے فیصد غصہ ہی کے سبب ہیں ؛ اسی لئے اسلام میں غصہ کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور غصہ پر قابو پانے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ اور پھر انسان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا،اسی لئے نبی کریمﷺ نےہمیں غصہ پر قابو پانے کی بارہا ہدائیت فرمائی ہے تا کہ اس غصے کیوجہ سے ہونے والے نقصانات سے ہم خود کو اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو محفوظ رکھ سکیں کیونکہ غصہ ایک منفی جذبہ ہے جس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو ہم اکثر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر بیٹھتے ہیں اس لیے اسلام نے غصہ ضبط کرنے اور جوشِ غضب کے وقت انتقام لینے کی بجاے صبرو سکون سے رہنے کی تلقین کی ہے، تا کہ معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو بلکہ امن کا گہوارہ بن سکے۔
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جیسے ایلواء شہد کو خراب کر دیتا ہے، اسی طرح غصہ ایمان کو، ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے قریب ہو جاتا ہے، (احیاء العلوم: ۳ ؍ ۱۶۵)
آپ ﷺنے فرمایا کہ بدترین آدمی وہ ہے جس کو غصہ جلد آئے اور ختم ہو دیر سے:
’’شرھم سریع الغضب بطئی الفییٔ‘‘
اور بہترین آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے:
’’ خیرھم بطیٔ الغضب سریع الفییٔ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۹۱)
اور نبی ﷺ نے فرمایا: پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے۔(صحیح البخاری: 6114)
قرآنی آیت اور حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے غصہ انسانی فطرت ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس فطرت کو اسلام نے دباکر اورقابو میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ کوئی نصیحت فرما دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ نہ ہوا کر۔(صحیح البخاری: 6116)
دنیا میں ظلم وبربریت اور فتنہ وفساد کی جڑ غصہ ہے۔ جب تک غصہ دبا ہوتا ہے تب تک فتنہ دبا ہوتا ہے اور جب غصہ بے قابو ہوجاتا ہے تو فتنہ وفساد بھی اپنا منہ کھول لیتا ہے۔ ایسے موقع سے شیطان کافی فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ دو فریق میں نفرت وانتقام کی آگ بھڑکاتا ہے اور انسان بلادریغ ایک دوسرے کا خون کر بیٹھتا ہے۔ غصہ کے برے اثرات انسانی جسم وروح پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ چہرہ دیکھ کر ہم بھانپ سکتے ہیں کہ آدمی غصے میں ہے، رگیں پھول جانا، چہرہ سرخ ہوجانااور سانسوں میں تیزی پیدا ہونا غصہ ہونے کی علامت ہے۔
جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاؤں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے، کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے، کہیں اپنے آپ کو ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ کبھی سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔
اہل علم نے لکھا ہے کہ غصہ کے وقت ٹھنڈے پانی کا استعمال مفید ہے، اس لئے غصہ کے وقت پانی پی لیا جائے یا ہاتھ منہ دھل لیا جائے تو بہتر ہی ہوگا۔جب غصہ آئے تو اس وقت کون کون سی اہم تدابیر اختیار کی جائیں جن سے ہمارے اندر غصہ ختم ہو جائے اور ہم کسی بڑے نقصان سے بچ جائیں؟ اس حوالے سے مندرجہ ذیل امور پر فوراً عمل کرنا چاہیے:
غصے کے وقت کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، غصہ آئے تو فوراً وضو کر لیں، غصے کے خاتمے کے لیے حضورنبی کریم(ﷺ) کے تجویز کردہ کلمات ’’اعوذبااللہ من الشیطان الرجیم “فوراً پڑھ لیں۔ شدید غصے میں لمبے اور گہرے سانس لیں۔ غصے والی جگہ چھوڑ دیں، اگر کسی تنگ مقام پر موجود ہیں تو کشادہ جگہ یا کھلی فضا میں آجائیں۔ دور کے مناظر کی طرف دیکھنا شروع کر دیں جیسے آسمان کی طرف دیکھنا۔ان ہدایات پر عمل کرکے غصے کے وقت کی کیفیات کو قابو کیا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان تمام تدابیر کا حاصل اور غصہ پر قابو پانے کا سب سے مؤثر ذریعہ خدا کا خوف ہے، خدا سے بے خوفی انسان کو ظلم پر جری بناتی ہے اور خدا کا خوف انسان کے بے قابو جذبات کو تھام لیتا ہے۔
Dars e Hadees Hadees 37 Control of anger What to do when angryغصے پر قابو! جب غصہ آئے تو کیا کریں؟ ویڈیو
Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadees 37 Control of anger What to do when angryغصے پر قابو! جب غصہ آئے تو کیا کریں؟. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 08:46