از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اسلام میں عقائد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ رسالت ہے جس طرح اعتقاد کی جہت میں توحید اصل دین ہے اسی طرح اتباع کی جہت میں رسالت اصل دین ہے۔ اس لیے کہ عقائد علم ہیں اور باقی سب چیزیں عمل،اسلام کا تیسرا ضروری و بنیادی عقیدہ رسالت ہے‘ رسالت کے لفظی معنی سفارت اور پیغامبری کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں رسالت اس سفارت کو کہتے ہیں جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں تک دین کے تشریعی احکام پہنچانے اور انہیں اپنی مرضی کی راہ بتانے کے لیے قائم کیا ہے اس کا دوسرا نام نبوت ہے۔قرآن کی رو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل اطاعت اور پیروی ضروری ہوتی ہے اور ایسا سمجھنا شرطِ ایمان ہے‘ دین اور شریعت کے دائرے میں نبی جو کچھ کہتا ہے ایک مؤمن کا فرض ہے کہ اس کی تعمیل بلاچوں و چرا کرے خواہ مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔فرمان الٰہی ہے:’’ہم نے ہر رسول کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ (جل شانہ) کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے ۔‘‘(النساء)ایک اور ارشاد الٰہی میں اس طرح ہے:’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘پھر یہ اطاعت بھی دل کی رضا کے ساتھ ہونی چاہیے۔کیونکہ نبی دین و شریعت کے دائرے میں جو کچھ کہتا ہے وہ سب کا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نبی کی حیثیت کو اور بھی اہم بنا دیتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں نبی کی اطاعت نہیں رہ جاتی بلکہ خدا تعالیٰ جل شانہ کی اطاعت بن جاتی ہے:مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ’’اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ جل شانہ کی فرمانبرداری کی۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کی آیات صرف سنا دینے کے لیے نہیں بھیجا تھا بلکہ اس کے ساتھ بعثت کے تین اور مقاصد تھے۔٭…ایک یہ کہ آپ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں۔٭…دوسرا اس کتاب کے منشاء کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھائیں۔٭…تیسرا یہ کہ اپنی تربیت سے ان کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کریں اور ان کے اندر اچھے اوصاف اور بہتر نظام اجتماعی کونشوونما دیں۔ جب کہ یہ تعلیم آپ کے فرائض نبوت میں سے ہے تو یہ بات بدیہی ہے کہ اس تعلیم کو پیغمبرانہ حیثیت حاصل ہوگی اور اس کی تعمیل اُمت مسلمہ کے لیے بھی فرض ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی زبانی تعلیم اور عملی مظاہرے کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم نے اپنی روایات اور عمل کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور احادیث سنن کے نام سے موسوم ہوا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پیغمبروں کو امام‘ پیشوا اور ہادی و رہنما فرمایا ہے۔انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام جس اُمت میں مبعوث ہوئے ان کے سامنے ہدایت و رہنمائی کے دو چراغ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشن ہوتے ہیں جن کی روشنی مل کر ایک ہوتی ہے۔
فرمایا:’’کہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ (جل شانہ) سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو‘ خود اللہ تعالیٰ (جل شانہ) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ (جل شانہ) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(اٰل عمران)ان آیات کی تشریح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں کی تھی:’’میں تم میں دو بھاری چیزیں (دو محور و معیار) چھوڑ کے جارہا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘جو مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھے ان کے تو سامنے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سنت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور قرآن کے بعد ہماری ہدایت کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔
1…پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت عالمگیر ہے۔ارشاد الٰہی ہے:’’ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ‘ ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔‘‘’’پہلے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کسی خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے ‘ میں عام لوگوں کی طرف (سب قوموں کی طرف) بھیجا گیا ہوں۔‘‘2…دوسرا امتیاز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت جس طرح عالمگیر ہے اسی طرح ہمیشہ کے لیے بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وحی رسالت کا سلسلہ اپنی آخری حد کو پہنچ گیا۔ارشادِ الٰہی ہے؛’’(لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ جل شانہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے۔‘‘خاتم النبیین جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’مجھ پر عمارت نبوت مکمل ہوگئی اور مجھ پر انبیاء و رسل کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘ انہ لا نبی بعدی’’یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب اُتری ہے وہ جوں کی توں محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ عقیدت نہیں تاریخ گواہ ہے کہ قرآن مجید اب تک محفوظ چلا آرہا ہے اور حفظ و تلاوت ہی نہیں تمدنی حالات بھی کہتے ہیں کہ اب مستقبل کے آخری لمحے تک اس صفت میں داغ لگنے کا کوئی امکان نہیں۔
وعدہ الٰہی ہے:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o’’ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘