میت کے حقوق

میت کے حقوق
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مُردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔جس سانس اکھڑ جائے اور جلدی جلدی چلنے لگے اور ٹانگیں ڈھیلی پڑ جائیں کہ کہ کھڑی نہ ہوسکیں اور ناک ٹیڑھی ہوجائے اور کنپٹیاں بیٹھ جائیں تو سمجھو کہ اس کی موت کا وقت آگیا ہے۔ سکرات الموت کا معنی موت کی شدت اور غشی جو موت کے وقت پیش آتی ہے جب موت کی غشی اور شدت طاری ہوجاتی ہے اور انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔قریب المرگ آدمی کو کلمہ پاک کی تلقین کرو۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کروہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔
چونکہ وہ لمحات بڑے کٹھن ہوتے ہیں۔ اسے کلمہ پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے‘ نہ جانے اس کے منہ سے کیا نکل جائے۔جب وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے تو چپ ہورہو یہ کوشش نہ کرو کہ برابر کلمہ جاری رہے اور پڑھتے پڑھتے دم نکلے‘ کیونکہ مطلب تو فقط اتنا ہے کہ سب سے آخری بات جو اسکے منہ سے نکلے وہ کلمہ ہونا چاہئے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ دم ٹوٹنے تک کلمہ برابر جاری رہے‘ ہاں اگر کلمہ پڑھ لینے کے بعد پھر کوئی دنیا کی بات چیت کرے تو پھر کلمہ پڑھنے لگو جب وہ پڑھ لے تو پھر چپ رہو۔ (احکام میت ص ۲۵)اورسورہ یٰسین پڑھنے سے موت کی سختی کم ہوجاتی ہے اس کے سرہانے یا اور کہیں اس کے پاس بیٹھ کر پڑھ دو یا کسی سے پڑھوا دو۔ (احکام ص ۲۶)قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے ،تاکہ اگراُس پر”غَمَرَاتُ الْمَوْت“ یعنی موت کی سختیاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے مرنے والوں پر سورئہ یٰسٓ پڑھا کرو۔“(ابوداوٴد)مرتے وقت اگر اس کے منہ سے خدانخواستہ کفر کی کوئی بات نکلے تو اس کا خیال نہ کرو‘ نہ اس کا چرچا کرو بلکہ یہ سمجھ کر کہ موت کی سختی کی وجہ سے عقل ٹھکانے نہیں رہی‘ اس وجہ سے ایسا ہوا اور عقل جاتے رہنے کے وقت جو کچھ ہو سب معاف ہے۔
اس وقت کوئی بات ایسی نہ کرو کہ اس کادل دنیا کی طرف مائل ہوجائے کیونکہ یہ وقت دنیا سے جدائی اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کی درگاہ میں حاضری کا وقت ہے‘ ایسے کام کرو‘ ایسی باتیں کرو‘ کہ دنیا سے دل بھر کر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف مائل ہوجائے اور اس کی محبت اس کے دل میں سما جائے کہ مردہ کی خیر خواہی اسی میں ہے۔ ایسے وقت میں بال بچوں کو سامنے لانا یا اور کوئی جس سے اس کو زیادہ محبت تھی اسے سامنے لانا ایسی باتیں کرنا دل اس کا ان کی طرف مائل ہوجائے اور ان کی محبت اس کے دل میں سما جائے بڑی بری بات ہے کہ دنیا کی محبت لئے ہوئے رخصت ہو۔
جب موت واقع ہوجائے تو اہل تعلق یہ دعا پڑھیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون‘ اللہم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منہا۔
’’ بے شک! ہم اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! میری مصیبت میں اجر دے اور اس کے عوض مجھے اچھا بدلہ عنایت فرما‘‘۔
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون صرف کسی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھا مسنون عمل ہے (احکام میت)موت یا کسی شدید حادثہ کے وقت مسلمان کیلئے صبرو تحمل اور راضی برضا رہنے کا حکم خداوندی ہے اللہ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے۔اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کیا بے شک یہ کام ہمت کے ہیں۔(سورہ شوریٰ آیت نمبر ۴۳)اس کے علاوہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت سے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بدل عطا فرمادیتے ہیں۔اس حوالے سے روایات میں حضرت اُم سلمہ کا واقعہ مذکور ہے۔جن کو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کی بدولت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔
جب موت واقع ہوجائے تو کپڑے کی ایک چوڑی پٹی لے کر میت کی ٹھوڑی کے نیچے کو نکال کر سر پر لگا کر گرہ لگا دیں اور نرمی سے آنکھیں بند کردیں اور اس وقت یہ کہیں:اللہ! اس میت پر اس کا کام آسان فرما اور اس پر وہ حالات آسان فرما جو اب اس کے بعد آئیں گے اور اس کو اپنے دیدار مبارک سے مشرف فرما اور جہاں گیا ہے (یعنی آخرت) اس کو بہتر کردے اس جگہ سے جہاں سے گیا ہے (یعنی دنیا سے) (احکام میت ص ۲۷) پھر اس کے ہاتھ پائوں سیدھے کردیں اور پیروںکے انگوٹھے ملا کر کپڑے کی کتر وغیرہ سے باندھ دیں‘ پھر اسے ایک چادر اڑھا کر چارپائی یا چوکی پر رکھیں‘ زمین پر نہ چھوڑیں اور پیٹ پر کوئی لمبا لوہا یا بھاری چیز رکھ دیں تاکہ پیٹ نہ پھولے غسل کی حاجت والے آدمی اور حیض یا نفاس والی عورت کو اس کے پاس نہ آنے دیں۔ اگر میسر ہو تو خوشبو (اگر بتی وغیرہ) جلا کر میت کے قریب رکھ دیں۔کسی آدمی کی موت پر اس کے اقارب اور عزہ متعلقین کا رنجیدہ خاطر اور غمگین ہونا آنکھوں کا اشک بار ہونا اور بے اختیار گریہ اور رقت کا ظاہرہ ہوجانا فطری بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کے دل میں محبت‘ دردمندی‘ غمخواری اور ہمدردی کا جذبہ موجود ہے جو انسانیت کا بیشبہا قیمتی اور پسندیدہ عنصر ہے‘ اس لئے شریعت نے اس پر پابندی عائد کی بلکہ ایک حد تک اس کی تحسین اور قدر افزائی کی ہے۔لیکن نوحہ اور ماتم‘ ارادی و اختیاری طور پر رونے پیٹنے اور سینہ کوبی کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ بے صبری مقام عبدیت اور رضا بالقضاء کے بالکل خلا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انسان کو عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت عطا فرمائی ہے اور حوادث کو انگیز کرنے کی جو خاص صلاحیت بخشی ہے نوحہ اور ماتم اور رونا پیٹنا اس نعمت خداوندی کا کفران ہے‘ پھر اس سے اپنے اور دوسروں کا رنج وغم فزوں تر ہوجاتا ہے اور فکرو عمل کی قوت اس وقت مفلوج اور معطل ہوجاتی ہے۔ (مسائل میت (
کسی آدمی کی موت پر اس کے اقارب اور عزہ متعلقین کا رنجیدہ خاطر اور غمگین ہونا آنکھوں کا اشک بار ہونا اور بے اختیار گریہ اور رقت کا ظاہرہ ہوجانا فطری بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کے دل میں محبت‘ دردمندی‘ غمخواری اور ہمدردی کا جذبہ موجود ہے جو انسانیت کا بیشبہا قیمتی اور پسندیدہ عنصر ہے‘ اس لئے شریعت نے اس پر پابندی عائد نہیںکی بلکہ ایک حد تک اس کی تحسین اور قدر افزائی کی ہے۔
لیکن نوحہ اور ماتم‘ ارادہ و اختیاری طور پر رونے پیٹنے اور سینہ کوبی کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ بے صبری مقام عبدیت اور رضا بالقضاء کے بالکل خلا ف ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے انسان کو عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت عطا فرمائی ہے اور حوادث صبر انگیز کرنے کی جو خاص صلاحیت بخشی ہے نوحہ اور ماتم اور رونا پیٹنا اس نعمت خداوندی کا کفران ہے‘ پھر اس سے اپنے اور دوسروں کا رنج وغم فزوں تر ہوجاتا ہے اور فکرو عمل کی قوت اس وقت مفلوج اور معطل ہوجاتی ہے۔ (مسائل میت(
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوگو! اچھی طرح سن لو اور سمجھ لو اللہ تعالیٰ جل شانہ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج وغم پر تو سزا نہیں دیتا (کیونکہ اس پر بندہ کا اختیار اور قابو نہیں ہے اور زبان کی طرف اشارہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) لیکن اس زبان کی (غلط روی یعنی زبان سے نوحہ و ماتم کرنے پر) سزا بھی دیتا ہے اور (انا للہ پڑھنے پر اور دعا و استغفار کرنے پر) رحمت بھی فرماتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میت کے گھر والوں کے رونے پیٹنے کی وجہ سے اسے عذاب بھی ہوتا ہے۔ (مسائل میت ص ۳۲)
شریعت کا یہ اصول ہے کہ جس طرح ہر آدمی کو اپنی اصلاح کا حکم ہے اسی طرح اپنے ماتحت کی اصلاح کا حکم بھی ہے اس لئے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے بھی غفلت تباہ کن ہے اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ اور ماتم کا رواج تھا لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود تساہل سے کام لیا تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے‘ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اصول بنا دیا تھا ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا (یعنی اس کے گھر والے رونا پیٹنا کرتے تھے) گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ لہٰذا اس کو گھر والوں کے رونے پیٹنے پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ (مسائل میت)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لئے انا للہ وانا الیہ راجعون کہنا اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قضاء پر راضی رہنا مسنون قرار دیا ہے اور یہ باتیں گریہ چشم اور غم دل کے منافی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ راضی بقضاء الٰہی اور سب سے زیادہ حمد کرنے والے تھے اور اس کے باوجود اپنے صاحبزادے ابراہیم پر وفور محبت اور شفقت سے رقت کے باعث رو دئیے مگر اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور شکر سے بھرا ہوا اور زبان اس کے ذکر و حمد میں مشغول تھی۔ (احکام میت)
اگر میسر ہو تو خوشبو (اگر بتی وغیرہ) جلا کر میت کے قریب رکھ دیں۔ غسل سے پہلے میت کے پاس قرآن پڑھنا درست نہیں۔ (احکام میت)جب کسی آدمی کا وصال ہوجائے تو اس کی موت کا اعلان اور اطلاع کردی جائے تاکہ لوگ اس کی نماز جنازہ ادا کریں اور اس کیلئے دعائے مغفرت مانگیں۔تجہیزو تکفین میں بہت جلدی کی جائے سب سے پہلے قبر کا بندوبست کریں اور غسل‘ کفن‘ جنازہ اور دفن کا سامان فراہم کریں۔
غسل دینے والے دوآدمی ہونے چاہئیں‘ ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والااور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر میت کو غسل دیں۔سب سے پہلے میت کو کسی تختہ‘جو عموماً مساجد میں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایا جائے ۔ پھرپانی میں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیا جائے۔میت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پر کسی کپڑے کو رکھ دیا جائے۔پھر میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایاجائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ میں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر میت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جائے۔پھر میت کو وضو کرایا جائے لیکن منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالاجائے بلکہ کپڑا یا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایا جائے۔اس کے بعد میت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویا جائے۔میت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔میت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویا جائے۔اس کے بعد میت کو خشک کپڑے سے صاف کیا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر میں میت کو کافور یا کوئی اورخوش بو لگائی جائے۔یہ ہے میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق میت کو اس طرح تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا اور کوئی خوش بو لگا لینا۔“(مسلم)کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائدہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو میت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوش بو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے میت کے جلدی قریب نہیں آتے۔
میت کو غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے گا۔کفن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کاصاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفن دیا کرو۔“(ابوداوٴد)
کفن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“(ابوداوٴد)
مَردوں کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چادر بچھائی جائے، اس کے بعد ازار اور پھر اس کے اوپر کرتا۔ پھر مردے کو اس پر لٹا کرپہلے کرتا پہنایا جائے، پھر ازار لپیٹ دیا جائے، پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، پھر کپڑے کے ٹکڑے سے پائوںاور سر کی طرف سے کفن کو باندھ دیا جائے اور کمر کے پاس سے بھی باندھ دیا جائے تا کہ راستہ میں کہیں کھل نہ جائے۔
مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمیصجب کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمیص دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔کفن کے حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجبوری کی حالت میں ایک کپڑے کا کفن بھی ہو سکتا ہے اور پرانے اور سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کے کپڑے کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے۔بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔
اورعورتوں کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چادر بچھائی جائے، اس کے بعد ازار، اس کے اوپر کرتہ، پھر میت کو اس پرلٹا کرپہلے کرتہ پہنایا جائے، اس کے بعد سرکے بالوں کے دو حصے کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دئیے جائیں، ایک حصہ دائیں طرف اور ایک حصہ بائیں طرف۔ اس کے بعد اوڑھنی کو سر اور بالوں پر ڈال دیں، نہ اسے باندھا جائے اور نہ لپیٹاجائے، پھر ازار لپیٹی جائے، پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، اس کے بعد سینہ بند باندھ دیا جائے، پھر چادر پہلے بائیں طرف اور پھر دائیں طرف لپیٹی جائے، پھرکپڑے کے ٹکڑے سے پائوںاور سر کی طرف سے کفن باندھ دیا جائے۔ ایک ٹکڑا کمر کے ساتھ بھی باندھ دیں تاکہ راستہ میں کہیں کھل نہ جائے۔سینہ بند کو اگر اوڑھنی کے بعد ازار بند سے پہلے ہی باندھ دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے اور اگر سب کفنوں کے اوپر سے باندھ دیا جائے تو بھی درست ہے۔جب عورتیں کفنانے سے فارغ ہوجائیں توفوراً مردوں کو اطلاع کردیں تاکہ وہ جنازہ لے جائیں اور نمازِ جنازہ پڑھ کر دفنادیں۔
بعض کپڑے لوگوں نے کفن کے ساتھ ضروری سمجھ رکھےہوتے ہیں حالانکہ وہ مسنون نہیں اور میت کے ترکہ سے ان کا خریدنا جائز نہیں، وہ یہ ہیں: … جائے نماز۔٭… پٹکا، یہ مردہ کو قبر میں اتارنے کے لیے ہوتا ہے۔٭… بچھونا، یہ چارپائی پر بچھانے کے لیے ہوتا ہے۔٭… دامنی، بقدر ِاستطاعت چار سے سات غریبوں تک کو دیتے ہیں۔ یہ عورت کے لیے مخصوص ہیں۔٭… مرد کے جنازے پربڑی چادر جو چارپائی کو ڈھانک لیتی ہے، البتہ عورت کے لیے ضروری ہے مگر کفن میں داخل نہیں اس لیے اس کا کفن کے ہم رنگ ہونا ضروری نہیں۔ پردہ کے لیے کوئی کپڑا بھی ہو، کافی ہے۔٭… اگر جائے نماز وغیرہ کی ضرورت پڑجائے تو گھر میں موجود جائے نماز یا کوئی اور کپڑا استعمال میں لایا جاسکتا ہے یا کوئی رشتہ دار اپنے مال سے خرید کر دیدے، میت کے ترکہ سے نہ خریدے۔٭… 5.غسل وکفن کے لیے درکار چیزوں میں سے اگر کوئی چیز گھر میں موجود ہو اور پاک صاف ہو تو اس کے استعمال میںکوئی حرج نہیں۔کفن کا کپڑا اسی حیثیت کا ہونا چاہیے جیسا مردہ اکثر زندگی میں استعمال کرتا تھا،ا س سے زائد تکلّفات فضول ہیں۔
اگر جمعہ کے دفن کسی کا انتقال ہو تو اگر جمعہ کی نماز سے پہلے کفن‘ دفن ہوسکے تو ضرور کرلیں‘ صرف اس خیال سے جنازہ روک رکھنا کہ جمعہ کے بعد مجمع زیادہ ہوگا‘ مکروہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جب تمہارا کوئی آدمی انتقال کر جائے تو اس کو دیرتک گھر میں مت رکھو اور قبر تک پہنچانے اور دفن کرنے میں سرعت سے کام لو۔ (احکام میت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جنازہ کو تیز لے جایا کرو اگر وہ نیک ہے تو قبر اس کیلئے خیر ہے جہاں تم (تیز چل کر) اسے جلدی پہنچا دو گے اگر اس کے سوا دوسری صورت (یعنی میت نیک نہیں) تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے اسے اپنے کندھوں سے جلد اتار دو گے۔ (مسائل میت )
وفور محبت یا عقیدت سے میت کا بوسہ لینا جائز ہے خواہ غسل میت سے پہلے ہو یا غسل میت کے بعد۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جب فخر کون و مکان امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت فرما گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اطلاع پاکر کاشانہ نبوی پر حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یمن کی بنی ہوئی دھاری دار بیش قیمت چادر سے ڈھک دیا گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور پھوٹ کر رو پڑے۔ (مسائل میت )
جنازہ اٹھانے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کا اگلا دایاںپایا اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر کم سے کم دس قدم چلے، اس کے بعد پچھلا دائیں پایا اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر کم سے کم دس قدم چلے، اس کے بعد اگلا بایاں پایا اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر کم سے کم دس قدم چلے، پھر پچھلا بایاں پایا بائیں کندھے پر رکھ کر کم سے کم دس قدم چلے تاکہ چاروں پایوں کو ملاکر چالیس قدم ہوجائیں۔٭… اگر میت دودھ پیتا بچہ یا اس سے کچھ بڑا ہو تو لوگوں کو چاہیے کہ اس کو ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں یعنی ایک آدمی اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھالے، پھر اس سے دوسرا آدمی لے لے، اسی طرح بدلتے ہوئے لے جائیں اور اگر٭… میت کوئی بڑا آدمی ہو تو اس کو کسی چارپائی وغیرہ پر رکھ کر لے جائیں اور اس کے چاروں پایوں کو ایک ایک آدمی اٹھائے۔ میت کی چارپائی ہاتھوں سے اٹھاکر کندھوں پر رکھنا چاہیے، ہاتھوں کے سہارے کے بغیر کندھوںپر لانا مکروہ ہے۔ اسی طرح بلاعذر کسی جانور یا گاڑی وغیرہ پر رکھ کر لے جانا بھی مکروہ ہے اور اگر عذر ہو تو بلاکراہت جائز ہے، مثلاً: قبرستان بہت دور ہو۔٭… جنازے کو تیز قدم لے جانا مسنون ہے، مگررفتار اس قدر تیز نہ ہو کہ لاش کو جھٹکے لگنے لگیں۔
٭… جولوگ جنازے کے ہمراہ ہوں ان کے لیے جنازے کے پیچھے چلنا مستحب ہے اگر چہ جنازے کے آگے بھی چلناجائز ہے،البتہ اگر سب لوگ جنازے کے آگے ہوجائیں تو مکروہ ہے، اسی طرح جنازے کے آگے کسی سواری پر چلنا بھی مکروہ ہے۔٭… جنازے کے ہمراہ پیدل چلنا مستحب ہے اور اگر کسی سواری پر ہو تو جنازے کے پیچھے چلے۔٭… جو لوگ جنازے کے ہمراہ ہوں ان کے لیے بلند آواز سے کوئی دعا یا ذکر پڑھنا مکروہ ہے۔٭… عورتوں کا جنازے کے ہمراہ جانا مکروہِ تحریمی ہے۔رونے والی عورتوں یا بین کرنے والیوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع ہے۔جنازے کی نماز میں مستحب ہے کہ حاضرین کی تین صفیں کردی جائیں یہاں تک کہ اگر صرف سات آدمی ہوں تو ایک آدمی ان میں سے امام بنادیا جائے اور پہلی صف میں تین آدمی کھڑے ہوں، دوسری میں دو اور تیسری میں ایک۔نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے اداکرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد میں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ سے اس میت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ میت کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور پڑھنے والے بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :” جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس میت کے لیے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش میت کے حق میں ضرور قبول ہو گی۔ “(مسلم)
نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینہ کے مقابل کھڑا ہوجائے اور سب لوگ اس طرح نیت کریں :نیت کرتا ہوںمیں کہ نماز ادا کروں اس جنازہ کی ،تعریف واسطے اللہ تعالیٰ کے،دعا اس میت کے لئے،پیچھے اس امام کے،رخ میراکعبہ شریف کی طرف۔ دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ باندھ لیں، پھر سبحانک اللّٰھمآخر تک پڑھیں۔ اس کے بعد پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہیں، مگر اس مرتبہ ہاتھ نہ اٹھائیں، اس کے بعد درود شریف پڑھیں اور بہتر یہ ہے کہ وہی درود پڑھا جائے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے، پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہیں، اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں، اس تکبیر کے بعدمیت کے لیے دعا کریں۔اگر میت بالغ ہو، چاہے مرد ہو یا عورت، تو یہ دعا پڑھیں: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا ، وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا ، وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا ، وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا ، اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلیَ الْاِسْلاَمِ ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ ۔
اور اگر میت نابالغ لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھے:اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا ، وَاجْعَلْہُ لَنَا اَجْراً وَذُخْراً ، وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا ۔
اور اگر نابالغ لڑکی ہو تو بھی یہی دعا ہےتھوڑے سے فرق کے ساتھ:اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہالَنَا فَرَطًا ، وَاجْعَلْہا لَنَا اَجْراً وَذُخْراً ، وَاجْعَلْھا لَنَا شَافِعًۃً وَّ مُشَفَّعَۃً ۔جب یہ دعا پڑھ لی تو پھر ایک مرتبہ اللہ اکبر کہیں، اس مرتبہ بھی ہاتھ نہ اٹھائیں اور اس تکبیر کے بعد سلام پھیردیں جس طرح نماز میں سلام پھیرتے ہیں۔ نماز جنازہ میں التحیات اور قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ نہیں۔نمازِ جنازہ امام اور مقتدی دونوں کے لئےیکساں ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ امام تکبیریں اور سلام بلند آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ آواز سے، باقی چیزیں یعنی ثنا، درود اور دعا مقتدی بھی آہستہ آواز سے پڑھیں گے اور امام بھی آہستہ پڑھے گا۔
جب نمازِجنازہ سے فراغت ہوجائے تو فوراً اس کو دفن کرنے کے لیے قبر کی طرف لے جانا چاہیے۔ ۔میت کے ساتھ قبرستان جانا اور جنازے کو کندھا دینا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف بہت اجر وثواب کا باعث بھی۔اس لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جنازے کے ساتھ جانے‘نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفنانے تک میت کے ساتھ رہنے والے کو اُحد پہاڑ جتنے دو قیراط اجر وثواب کا مستحق قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویااُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)میت کوتیار کی گئی قبر کے پاس رکھا جائے ۔اگر قبر میں کوئی چٹائی یا کپڑا بچھا لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کوئی قریبی رشتہ دار احتیاط کے ساتھ میت کو قبر میں اتارے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ پڑھنا چاہیے اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہوتو بسم اللہ پڑھ لے۔اورمیت کو قبر میں رکھ کر دائیں پہلو پر اس کو قبلہ رُخ کردینا مسنون ہے۔میت کو قبر میں اتارنے کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عمل کے مطابق تین بار مٹھی بھر کر سر والی طرف مٹی ڈالیں۔علمائے کرام نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہمِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ‘ دوسری دفعہ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ‘اور تیسری دفعہ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰیپڑھنا چاہیے۔
جب میت کو مکمل طور پر دفنادیا جائے تو پھر وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ میت کی بخشش اور اس کی استقامت کے لیے دعاگو ہوں، اس لیے کہ اب اُس کے اصل امتحان کا وقت شروع ہو گیا ہے۔حضرت عثمان غنی اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے:”اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو،اس لیے کہ اِس وقت اُس سے سوال کیا جارہا ہے۔“(ابوداوٴو)اس کے علاوہ بھی ورثا اور خاص کر اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی بخشش کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس لیے کہ اولاد کے نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ والدین کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے۔
نماز جنازہ کے بعد تدفین سے پہلے مزید کوئی دعا ثابت نہیں؛ البتہ تدفین کے بعد انفرادی طور پر دعا کرنا ثابت ہے۔ عالمگیری میں ہے:اسی طرح دفن کے بعد قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات ”مفلحون“ تک اور پائنتی کی طرف سورہ بقرہ کی آخری آیات ”آمن الرسول“ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب ہے۔
میت کی تدفین اور باقی معاملات سے فراغت کے بعد ورثا کو چاہیے کہ میت کے ذمے اگرکوئی قرض ہے تو اس کی جلد ادا ئیگی کی فکر کریں۔اس لیے کہ جب تک قرض ادا نہیں ہوجاتا انسان کی روح معلق رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”موٴمن کی روح اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔“(ابن ماجہ)قرض ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر قرض ادا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن اس قرض کے بدلے میں اِس میت کی نیکیاں لے لی جائیں گی اوراس طرح مقروض صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کی روح اُس کے جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں تکبر دھوکہ دہی اورقرضہ سے بچا رہا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔“(ابن ماجہ)
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے روزہ رکھنے کی نذر مانی اور روزے رکھنے سے پہلے وفات پا گیا تو اس کے ورثا نذر کے روزوں کو بالفعل رکھ سکتے ہیں‘ لیکن رمضان کے فرض روزوں اور فرض نمازوں کو بالفعل ادا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگر ممکن ہو تو حساب کرکے میت کی طرف سے فی روزہ اور فی نماز صدقہ فطر کے برابر فدیہ اداکریں۔اس حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب ملاحظہ ہو:”فرض نماز اور روزہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا‘البتہ نماز روزے کا فدیہ مرحوم کی طرف سے اس کے وارث اداکرسکتے ہیں۔پس اگر آپ اپنی والدہ کی طرف سے نمازیں قضا کرنا چاپتی ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو ان کی نمازوں کاحساب کرکے ہر نماز کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ادا کریں۔وتر کی نماز سمیت ہر دن کی نمازوں کے چھ فدیے ہوں گے۔ویسے آپ نوافل پڑھ کر اپنی والدہ کو ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔“(آپ کے مسائل اور ان کا حل)
میت کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اس قبر کے پاس کھڑے ہوکر میت کے لئے منکر نکیر کے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا خود بھی فرماتے اور دوسروں کو بھی تلقین فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو۔حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کیلئے کھانا تیار کیا جائے وہ اس اطلاع کی وجہ سے ایسے حال میں کہ کھانے وغیرہ کی طرف توجہ نہ کرسکیں گے۔میت کے گھر والے تازہ صدمہ کی وجہ سے ایسے حال میں نہیں ہوتے کہ کھانے وغیرہ کا اہتمام کرسکیں اس لئے ان کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا یہ ہی ہے اس دن کھانے کا اہتمام دوسرے اعزہ اور تعلق والے لوگ کریں تاکہ وہ اپنی مصیبت کے وقت کھانے کی فکر میں مبتلا نہ ہوں لیکن ہمارے زمانے میں اس کے برعکس میت کے گھر والے اس موقع پر رشتہ داروں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کیلئے کھانے اور دعوت کا انتظام کرتے ہیںحالانکہ دعوت سرور کے موقع پرہوتی ہے نہ کہ شرور کے موقع پر ۔ (مسائل میت )
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کومیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں۔میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے‘البتہ عورت کے لیے اپنے خاوند کے مرنے پر عدت گزارنا لازم ہے اور یہ میت کا حق بھی ہے۔عدت کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اُ س کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔اس مدت میں وہ گھر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے رہے اوربغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ نکلے۔اگر مجبوری کے وقت گھر سے باہر جانا بھی پڑے تو سادگی اور پردہ کا خصوصی لحاظ رکھے۔
جو افعال اسلامی پہلوسے ثابت ہیں اُن کو اپنایا جائے اور جن کا ثبوت نہیں ملتا اُن سے کنارہ کشی کی جائے۔خالص اسلامی معاملات کی رسم ورواج کے غیر شرعی طرز سے ادا کرنے کی ناپاک کوشش نہ کی جائے بلکہ سنت کے مبارک عمل کو اختیار کرکے میت اور اس کے لواحقین سب کیلئے اجرو ثواب مغفرت اور رضائے الٰہی کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔