شہادت سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ
نواسہ رسول شہیدِ کربلا سیّدنا حضرت حسین ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذاتِ گرامی حق و صداقت‘ جرأت و شجاعت‘ عزم و استقلال‘ ایمان و عمل‘ ایثار و قربانی، تسلیم و رضا‘ اطاعتِ ربّانی‘ عشق و وفا اور صبر و رضا کی وہ بے مثال داستان ہے، جو پوری اسلامی تاریخ میں ایک منفرد مقام، تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔
4 شعبان، 4ہجری کی پُرنور، روشن اور حَسین صبح، خاتونِ جنّت، جگر گوشۂ رسولﷺ، سیّدۃ النساءحضرت، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہاکے گھر سے آنے والی مسحورکُن خوش بُو مدینہ طیّبہ کی مقدّس فضائوں کو مزید معطّر کررہی ہے۔ آج اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اُنہیں ایک اور عظیم فرزندِ ارجمند سے نوازا ہے۔ولادت باسعادت کے بعدجب آپ کو اپنے نانارسول اللہ!ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توخاتم النبیین ﷺبہت مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا،دہن مبارک سے کجھور چباکر تحنیک فرمائی اور برکت کے لیے اپنے لعابِ دہن کو نو اسے کے منہ میں ڈالا۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں نبی وعلی کا لہو پہلے سے گردش کر رہا تھا اب گٹھی بھی نبی اقدس خاتم المرسلینﷺ کے لعاب مبارک کی مل گئی۔نام مبارک ’’ حسین ‘‘بھی آپ ﷺکاتجویزکردہ ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے کانوں میں توحید ورسالت ،فلاح وکامیابی،اطاعت وعبادت کا پہلا درس( یعنی اذان واقامت ) بھی اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ساتویں دن سر کے بال بھی آپﷺنے اتر وائے ،بالوں کی تعداد کے برابر چاندی بھی آپ ﷺہی نے خیرات کی ،عقیقہ بھی آپ ﷺنے ہی کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کا ختنہ کیاگیا۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اللہ کے نبی ﷺ کے دربارمیں عرض کرنے لگا :’’حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے۔‘‘فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اللہ کر یم اپنے ان دو اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے۔ رسول اللہ !ﷺکوبھی آپ سے بے پناہ محبت تھی جس کاآپﷺ نے مختلف مقامات پر اظہاربھی فرماتے رہتےایک حدیث مبارکہ میں فرمایا:اے اللہ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتا ہے ۔ایک حدیث میں حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:حسین میری اولاد ہے اور میراحسین سے خصوصی تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرماتے ہیں جوحسین سے دعویٰ محبت میں عملاً سچاہو۔(ترمذی شریف)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ! میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ﷺ کیا کسی نے آپ کو ناراض کیا ہے؟آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو کیوں جاری ہیں ؟رسو ل اللہ!ﷺنے فرمایا : ابھی جبریل امین نے مجھ سے بیان کیا کہ حسین(رضی اللہ عنہ) شطِ فرات پر قتل کیئے جائیں گے ۔ کیا تم ان کی قبر کی مٹی سونگھو گے؟ میں نے کہا : جی ہاں !رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ دراز کیا پھر ایک مٹھی مٹّی مجھے دی ۔ میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ سکا ، میں رونے لگا ۔ (مسند ابی یعلی1/298 سندہٗ حسن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا اور اس میں آئندہ ہونے والے شہادت کے واقعہ کو قبل از وقت دکھایا گیا اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃُ والسلام کے خواب اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے وحی کی ایک قسم ہے ۔یعنی رسول اللہ!ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے ہی خبر دیدی تھی کہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو مظلومانہ شہید کیا جائے گا ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا۔ اس کے لئے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تھا کیونکہ ان حضرات نے یزید کی ولی عہدی قبول نہ کی تھی اس سلسلے میں یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر بھیجی اور ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھیجا کہ’’حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے حق میں بیعت لو اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو۔ (تاریخ، الطبری 113)
بعد ازاں اہل کوفہ نے باہم مشاورت سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ اہل کوفہ کے خطوط اور وفود کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو حالات سے آگاہی کے لئے کوفہ بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی بے پناہ عقیدت و محبت کو دیکھتے ہوئے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھ بھیجا کہ آپ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں، یہاں ہزاروں افراد آپ کی طرف سے میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا عزم کرلیا۔جب حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی طرف روانہ ہونے کامکمل شرح صدر ہوچکا تھا اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ اپنی خداداد بصیرت اور دُور اندیشی کے سبب مؤرخہ8یا 9ذی الحجہ 60ہجری کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہونے لگے توحضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور آپ کے بھائی محمد بن حنیفہ نے خیرخواہانہ طورپر جانے سے روکا۔ مگرچونکہ آپ سفر کا عزم کرچکے تھے اس لیے یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفرپرروانہ ہوگئے۔
حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ جب مقام’’ زیالہ‘‘ پر پہنچے تو آپ کو یہ الم ناک خبر پہنچی کہ آپ کے رضاعی اور چچا زاد دونوں بھائیوں کو اہل کوفہ نے قتل کردیا ہے ۔ اب آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور ہمارے متبعین ہم سے پھر گئے ہیں ۔جب قافلہ مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ نمودار ہوا اور اسے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مع ان کے لشکر کے گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہمانے یہ منظر دیکھ کر اس کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے خود ہی خطوط لکھ کر مجھے بلوایا ہے، اب دغابازی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ نے تمام خطوط اس کو دکھائے تو حربن یزید نے آپ کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہا : ’’جنگ سے بازرہو! بصورت دیگر قتل کردیئے جاؤگے۔‘‘ یہ سن کر ابن علی نے فرمایا: (میں روانہ ہوتا ہوں اور نوجوان مرد کیلئے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہو) پھر آپ نے دوسرا قاصد روانہ کیا جس کا نام قیس بن مسھر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ بالآخر آپ بہت طویل مسافت طے کرکے 2محرم 60ھ میں میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ ادھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔ جب اس کی آپ سے ملاقات ہوئی تو آمد مقصد پوچھا، تو حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے ایک پیشکش کی آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک چیز کواختیار کرلیں:
1: میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تاکہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں۔2: میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔3: مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
عمرو بن سعد نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ تینوں باتیں سن کر ابن زیاد کی طرف ایک خط روانہ کیا، جس میں لکھاتھا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھادی اور مسلمانوں کا کلمہ متفق کردیا ۔ مجھ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان (مذکورہ) تین باتوںکا اختیار مانگا ہے جن سے آپ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے۔‘‘ابن زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو وہ کافی متاثر ہوا اور کہا کہ: ’’ یہ خط ایک ایسے شخص کا ہے جو امیر کی اطاعت بھی چاہتا ہے اور اپنی قوم کی عافیت کا بھی خواہش مند ہے، اس لئے ہم نے اس خط کو قبول کرلیا ہے ۔ ‘‘لیکن شمر بن ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا ،کہنے لگا کہ ’’ کیا آپ (سیدنا) حسین( رضی اللہ عنہ) کو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ تمہارے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو ں؟ یاد رکھو! اگر آج وہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر کبھی تم ان پر قابو نہ پاسکو گے ، مجھے اس خط میں عمرو بن سعد کی سازش معلوم ہوتی ہے ،کیوں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ راتوں کو آپس میں باتیں کیا کرتے ہیں۔‘‘ابن زیاد نے شمر کی رائے کو قبول کرتے ہوئے عمر وبن سعد کی طرف اسی مضمون کا ایک خط لکھا اور اسے شمر کے ہاتھ روانہ کیا اوراسے ہدایت کی کہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کردینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جانا!
شمربن ذی الجوشن جب ابن زیاد کا خط لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گئے کہ شمر کے مشورہ سے یہ صورت عمل وجود میں آئی ہے اور میرا مشورہ ردّ کردیا گیا ہے ، اس لئے عمربن سعد نے شمر سے کہا کہ ’’تونے بڑا ظلم کیا ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متفق ہورہا تھا اور تونے اس کو ختم کرکے قتل و قتال کا بازار گرم کردیا ہے ۔‘‘ بالآخر حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو یہ پیام پہنچایا گیا ، توآپ نے اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ ’’ اس ذلت سے تو موت ہی بہتر ہے۔‘‘
دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کے دن فجر کی نماز سے فارغ ہوتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آگیا ۔ اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کل بہتر (72) اصحاب تھے ، جن میں سے بتیس (32) گھڑ سوار اور چالیس (40) پیادہ پا تھے ۔چنانچہ آپ نے بھی اس کے مقابلہ کے لئے اپنے اصحاب کی صف بندی فرمالی۔
میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا۔ نتیجتاً حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کا خیمہ جلادیا گیا۔ دشمنوں نے انتہائی سفاکی اور بیدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جب زرعہ بن شریک نے نواسہ رسول کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمروبن انس نخعی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر گرپڑے۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے خاتون جنت کے نورنظر کو ذبح کردیا۔ سرتن سے جدا کردیا۔ اس خون ریز معرکہ میں حضرت سیدناحسین کے 72ساتھی شہید اور کوفیوں کے 88 آدمی قتل ہوئے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے انتہائی گستاخی کرکے چھڑی کے ذریعے نواسہ رسولﷺکے ہونٹوں کو چھیڑ کر جسد خاکی کی توہین کی اور یزید کو لکھ بھیجا کہ میں نےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر قلم کردیا ہے۔جنت اپنے سردار کی راہ تک رہی تھی ، دسویں محرم کے ڈھلتے سورج نے انسانیت کی تاریخ کا یہ درناک واقعہ دیکھا جس کو خون سے رنگین دھرتی نے اپنے سینے پر ہمیشہ کیلئے نقش کردیاحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں لے لے کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے اعتنائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے الم ناک اور درد انگیز واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج کل ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔اور جو بہتر نفوس قدسیہ جن کی شہادت میدان کربلا میں ہوئی بعض کتابوں میں ان کےنام درج ذیل ہیں:
72شہدائے کربلا1: حضرت حسین2 حضرت عباس بن علی 3 حضرت علی اکبر بن حسین 4 حضرت علی اصغر بن حسین 5 حضرت عبداللہ بن علی6 حضرت جعفر بن علی7 حضرت عثمان بن علی 8 حضرت ابوبکر بن علی9 حضرت ابوبکر بن حسن بن علی10 حضرت قاسم بن حسن بن علی11 حضرت عبداللہ بن حسن 12 حضرت عون بن عبداللہ بن جعفر13 حضرت محمد بن عبداللہ بن جعفر 14 حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل 15 حضرت محمد بن مسلم 16 حضرت محمد بن سعید بن عقیل17 حضرت عبدالرحمن بن عقیل 18 حضرت جعفر بن عقیل19 حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی 20حضرت أنس بن حارث اسدی21 حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی 22 حضرت قیس بن عشر اسدی23 حضرت ابو ثمامہ بن عبداللہ 24 حضرت بریر ہمدانی 25 حضرت ہنزلہ بن اسد 26 حضرت عابس شاکری 27 حضرت عبدالرحمن رہبی28 حضرت سیف بن حارث 29 حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانی30 حضرت جندا بن حارث 31 حضرت شوذب بن عبداللہ 32 حضرت نافع بن حلال 33 حضرت حجاج بن مسروق مؤذن34 حضرت عمر بن کرضہ 35 حضرت عبدالرحمن بن عبد رب 36 حضرت جندا بن کعب37 حضرت عامر بن جندا38 حضرت نعیم بن عجلان 39 حضرت سعد بن حارث40 حضرت زہیر بن قیس 41 حضرت سلمان بن مضارب 42 حضرت سعید بن عمر43 حضرت عبداللہ بن بشیر 44 حضرت وھب کلبی45 حضرت حرب بن عمر-شیخ الاسلام قیس46 حضرت ظہیر بن عامر47 حضرت بشیر بن عامر 48 حضرت عبداللہ ارواح غفاری 49 حضرت جون غلام ابوذر غفاری50 حضرت عبداللہ بن امیر 51 حضرت عبداللہ بن یزید 52 حضرت سلیم بن امیر 53 حضرت قاسم بن حبیب 54 حضرت زید بن سلیم55 حضرت نعمان بن عمر56 حضرت یزید بن سبیت 57 حضرت عامر بن مسلم 58 حضرت سیف بن مالک 59 حضرت جابر بن حجاج 60 حضرت مسعود بن حجاج 61 حضرت عبدالرحمن بن مسعود 62 حضرت بیکر بن حئ63 حضرت عمار بن حسن تائی64حضرت زرغامہ بن مالک 65 حضرت کینانہ بن عتیق66 حضرت عقبہ بن سولت67 حضرت حر بن یزید تمیمی 68 حضرت عقبہ بن سولت69 حضرت حبلہ بن علی شیبنی 70 حضرت کنب بن عمر. 71 حضرت عبداللہ بن یکتیر 72 حضرت اسلم غلام ابن ترکی رضوان الله تعالیٰ علیہـم اجمعين ۔ ( تاریخ طبری ، تاریخ یعقوبی ، الکامل فی التاریخ )
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’جو لوگ قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں شریک تھے، اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جسے آخرت سے پہلے دُنیا ہی میں اس کی سزا نہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ ہوگیا، کسی کا چہرہ مسخ ہوگیا، کسی سے چند ہی دنوں میں ملک و سلطنت چھن گئی۔ان کی یہ سزا آخرت میں ان کو ملنے والی دردناک سزا کا ایک معمولی سا نمونہ تھا، جس کی ایک ادنیٰ سی جھلک لوگوں کی عبرت کے لئے دُنیا ہی میں دکھادی گئی تھی ۔سبط ابن جوزی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھا، وہ دفعتاً نابینا ہوگیا، لوگوں نے اُس سے اس طرح اچانک نابینا ہونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ: ’’میں نے رسو ل اللہ !ﷺکو خواب میں دیکھا کہ آستین مبارک چڑھائے ہوئے ہیں، ہاتھ میں تلوار ہے، اور آ پ کے سامنے چمڑے کا وہ فرش ہے جس پر کسی کو قتل کیا جاتا ہے اور اِس پر قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ میں سے دس (۱۰) آدمیوں کی لاشیں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں، اِس کے بعد آپ نے مجھے ڈانٹا اور خونِ حسین رضی اللہ عنہ کی ایک سلائی میری آنکھوں میں لگائی، اب جب صبح میں اپنی نیند سے اُٹھا تو اندھا ہوچکا تھا۔‘‘ (اسعاف الراغبین)
ابن جوزی رحمہ اللہ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جس شخص نےسیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا تھا،اِس کے بعد اُسے دیکھا گیا کہ اُس کا منہ تارکول کی طرح سیاہ ہوگیا، لوگوں نے اُس سے دریافت کیا کہ: ’’تو تو سارے عرب میں خوش رو آدمی اورخوبصورت تھا تجھے کیا ہوگیا؟۔‘‘ اُس نے کہا کہ: ’’جس روز سے میں نے سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایاہے ، جب ذرا سوتا ہوں تو دو آدمی میرے بازو پکڑتے ہیں اور مجھے ایک دہکتی ہوئی آگ میں لے جاکر ڈال دیتے ہیں اور وہ مجھے جھلس دیتی ہے۔‘‘ چند دن بعد وہ بھی اسی حالت میں مرگیا۔
جس شخص نے سیدناحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تیر مارا تھااور پانی نہیں پینے دیاتھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے پیاس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ اُس کی پیاس کسی بھی طرح بجھتی نہ تھی، پانی کتنا ہی پی لیتا لیکن پھر بھی پیاس سے تڑپتا رہتا ، یہاں تک کہ اُس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ بھی مرگیا۔ (شہید کربلا: ص111/110)
نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول ، حضرت سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے محبت وعقیدت اور ان سے قلبی تعلق و وابستگی ایمان کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے سینوں کو اہل بیت کی محبت سے آباد کیا۔ جس طرح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں اہل بیت کا احترام اور مقام مسلم تھا اسی طرح ہمارے دلوں میں بھی ان کی محبت وعقیدت راسخ ہونی چاہئے۔ یہ وہ اونچی ہستیاں ہیں جنہیں رب تعالیٰ اپنے محبوب کے قرب اور نسبت کے لیے چنا اور ان کی محبت کو اپنے محبوب کی محبت قرار دیا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ محبت ہے جو پاکیزہ بھی ہے اور معطر بھی، جو دنیا میں بھی دل کی راحت کا سبب ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا سبب ہوگی۔ ان شاء اللہ!
دوسری طرف یہ افسوس ناک حقیقت بھی ہے کہ وہ لوگ بہت ہی بدبخت ہیں جو اہل بیت کی طرف غلط اور جھوٹی باتوں کو منسوب کرکے انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں ، اور وہ تو بہت ہی شقی ہیں جو اپنی من گھڑت کہانیوں اور عقیدوں کو اہل بیت کی طرف منسوب کرکے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نانا سیدنا محمد رسول اللہ!ﷺ کے لائے ہوئے دین کو بگاڑتے ہیں۔حالانکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت میں وہ گراں قدر بصیرتیں موجود ہیں جن سے اُمتِ مرحومہ کے دلوں میں عزم و استقلال، صبرو ثبات، استبداد شکنی، قیامِ خلافت، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی روح پیدا ہوتی ہے اور حضرت حسین ؓ کی قربانی کا مقصد ہی یہ تھاکہ میرے نانا کی اُمت اچھے اوصاف سے متصف ہوجائے مگر لوگوں نے اس عظیم الشان قربانی کا مضحکہ اُڑانا شروع کردیا اور تعزیوں کے جلوسوں کو حضرت حسینؓ کی عظمت کے لئے کافی سمجھ لیا اور ماتم کرنے، بال نوچنے، چھاتی پیٹنے ، بدن زخمی کرنے اور نوحہ اور بین کرنے کو اہل بیت کی محبت کا معیار قرا ردے دیا۔
’’اہل بیت کی محبت ، اہل سنت و الجماعت کا سرمایہ ہے۔’’اہل سنت کا گناہ یہی تو ہے کہ وہ اہل بیت کی محبت کے ساتھ ساخاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے تمام صحابہ کی تعظیم و توقیر بھی بجا لاتے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی ان کے تنازعات و مخالفتوں کے باوجود بْرائی سے یاد نہیں کرتے اور صحبتِ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کی تعظیم کی وجہ سے اور آپ ﷺ کے مصاحبین کی عزت و تکریم کی بِنا پر اْن سب کو خواہش پرستی اور تعصب سے دْور جانتے ہیں۔ ‘‘’روافض ، اہل سنت والجماعت سے اْس وقت خوش ہوں گے جب اہل سنت بھی اْن کی طرح دوسرے اصحاب کرام سے بیزاری کا اظہار کریں اور اْن اکابرِ دین کے ساتھ بدگمانی اختیار کریں۔اسی طرح خوارج کی خوشنودی بھی اہل بیت کی عداوت اور آل محمدحضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بغض پر وابستہ ہے۔حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے ایک شعر کا مفہوم بہت ہی عمدہ ہے کہ:اے اہل بیت! تمہارا مقام کتنا ہی اونچا ہے کہ جب تک کوئی شخص پر تم پر درود نہ بھیج لے اس کی نماز قبولیت سے رْکی رہتی ہے:اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ط اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ط
