سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ

سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں میں کچھ ایسے نفوسِ قدسیہ کو چُن لیتے ہیں جو لوگ اُس کے پیارے حبیب خاتم النبیین جناب نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور عشق رسول ﷺمیں اپنے محبوب کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔ انہی پروانوں میں سیدنا حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ہیںآپ ان اوّلین مسلمانوں میں سے ہیں جومحسن انسانیت کے دست مبارک پرمشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب رضی اللہ عنہم میں ان کا شمارہوا۔سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے والدِ گرامی کا نام رباح ہے جبکہ والدہ محترمہ کا اِسم مبارکہ حمامہ رضی اللہ عنہا ، کتبِ سیر میں موجود ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے والد جناب رباح خاندانی اعتبار سے حبشی النسل تھے جو کہ اپنی رفیقہ حیات محترمہ حضرت حمامہ کے ہمراہ مستقل طور پر مکہ مکرمہ میں آکر رہائش پذیر ہو گئے تھے اور قریش کے خاندان بنو امیہ کی غلامی میں آگئے تھے۔ آپؓکے والدین بنیادی طور پرافریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ایتھوپیاکا ملک کہا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی،آپ کی کنیت کے سلسلہ میں کئی نام آئے ہیں ابو عبداللہ ،ابو عبد الکریم،ابو عمرو، آپ عرب میں پیداہوئے اورآپ کی پرورش وتربیت عربوں کے درمیان ہوئی ،آپ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے ہم عمر تھے۔(مستدرک319/3)۔ امت مسلمہ میں موذن اسلام ان کی اول وآخر شناخت ہے۔ ساری عمر جوار نبوی ﷺمیں بسرکی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو محسن انسانیت ﷺکا اس قدر قرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی ہی ذمہ داری تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے،حضرت مکحول فرماتے ہیںجن لوگوں نے حضرت بلالؓ کی زیارت کی ہے، ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ آپ کا رنگ گندمی ،جسم دبلا پتلا،قدلمبا،پیٹھ میں جھکاؤتھااورہلکے رخساروالے تھے،آپ کے اندرسفیدبالوں کی کثرت تھی لیکن خضاب نہیں لگایاکرتے تھے۔ (المستدرک319/1 لیکن جب صحابہ رضوان اللہ علیہم ان کی خصوصیات بتاتے تو کہتے تھے کہ وہ صادق القلب تھے، ایک ایسے انسان جنہوں نے سب کچھ محنت اور جدو جہد سے حاصل کیا اور یہ سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کا نتیجہ تھا۔مدنی زندگی کے آغاز میں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو خاتم النبیین ﷺکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبوی کی کرنوں سے آفتاب بھی ماند پڑجاتا تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجرکی اذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان، جو بنی نجارکی ایک خاتون کی ملکیت تھا، کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغاز پر اذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا سارا دن رسول کریم کے ساتھ ہی گزرتا تھا، خاص طور پر جب مسجد قبا جانا ہوتا تو وہاں بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی اذان دیتے جس قبا کے مکینوں کو رسول کریم کی آمدکی اطلاع ہوجاتی تھی۔کچھ لوگوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ”شین“ کو ”سین“ کہ کر ادا کرتے ہیں لیکن ان کا اعتراض بارگاہ رسالت کی جانب سے مستردکردیا گیا۔ آپ ﷺ کی جانب سے حضرت بلال کو دو لقب یا دوخدمات آپ کوعطا فرمائیں، جو خود آپ ﷺ نے حضرت بلال کو سونپیں، ایک الخازن، یعنی حضرت بلال، آپ ﷺ کے ذاتی خزانچی تھے، اور دوسرا لقب جو آپکا ہے وہ مؤذن رسول ﷺ ہے جو کہ سب بخوبی جانتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو تمام مؤذنوں کا سردار کہا ہے تو دنیا میں قیامت تک جہاں بھی اذان دی جائے گی حضرت بلال ان تمام مؤذنوں کے سردار ہیں۔
حضرت سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ اِسلام میں ثابت قدم تھے اور یہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اپنا اِسلام ظاہر کیا۔ اِسلام لانے کی پاداش میں سخت اذیتیں برداشت کیں مگر پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ راہِ حق میں آنے والی ہر اذیت و مصیبت کو آسان سمجھ کر برداشت کر جاتے تھے۔سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے اِسلام قبول کرنے چند ایام کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ حمامہ بھی اپنے بیٹے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی دعوت پر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے اِسلام قبول کیا تو آپ کی عمر مبارک 30سال تھی۔حضرت بلال نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی جس کی وجہ سے مصائب اورطرح طرح کے مظالم سے ان کے استقلال واستقامت کی آزمائش ہوئی،قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، اس کے غلاموں میں سے حضرت بلال ؓ نے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کی اوردولت ایمان سے قلب مبارک منور ہوا۔ تاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا، لیکن آخرکب تک؟ نور ایمان کی روشنی نے ان کے آقا امیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور مصائب و آلام اور ابتلاءوآزمائش کا ایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبی سے بھر پور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلال ؓ کوکندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘ کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے،کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلال ؓ کی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والے نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزار ہوتے گئے یہاں تک کہ محسن انسانیتﷺ کو کسی مہربان نے داستان عزم وہمت سناڈالی۔تو آپ ﷺ نے صحابہ کو فرمایا کیا کوئی ایسا نہیں جو بلال کو خرید کر آزاد کر دے؟ حضرت ابو بکر امیہ بن خلف کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ بلال کو کتنے میں بیچو گے؟ اس نے سونے کےدس سکوں کا مطالبہ کیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ گھر آئے اور سونے کے دس سکے لے کر امیہ کو دئیے جس پر امیہ ہنس پڑا اور کہنے لگا، خدا کی قسم اگر آج تم ضد کرتے تو میں بلال کو سونے کے ایک سکے کے بدلے فروخت کر دیتا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ نے فرمایا، اگر آج تم ضد کرتے اور مجھ سے بلال کے بدلے سونے کے سو سکے بھی مانگتے تو میں وہ دیکر بھی بلال کو آزاد کر دیتا۔ حضرت بلال کو آزاد کرنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ کہتے تھے بلال میرے آقا ہیں۔
ہجرت کے بعد حضرت بلال ؓ نے رفاقت نبوی کا حق ادا کیا اور ہرغزوہ میں شامل رہے خاص طور پرغزوہ بدر میں اپنے سابق آقا امیہ بن خلف کو قتل کیا۔ دربار رسالت میں اس سے بڑھ کر اورکیا پذیرائی ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پرکبار اصحاب رسول اور سرداران قریش کے درمیان سے آپ ؓکو ہی حکم اذان ملا اورآپ ؓ نے خانہ کعبہ کی چت پر چڑھ کر اذان دی جو اس شہر اور اس گھر میں طلوع اسلام کے بعد پہلی اذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ ایک پسے ہوئے طبقے کے فردکی محض تقوی کی بنیاد پر اس قدر عزت افزائی صرف دین اسلام کاہی خاصہ ہے۔حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ ایک کھلی اور روشن کتاب کی مانند ہے۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے بعد جناب خاتم الانبیاء نبی کریم ﷺ کے ساتھ رفاقت و صحبت اور غلامی کا شرف و اعزاز اِس طرح نبھایا جیسا کہ وجود انسانی کا سایہ ساتھ نبھاتا ہے۔ غزوہ بدر، سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شادی خانہ آبادی، غزوۃ حمرۃ الاسد میں، غزوہ احزاب،حدیبہ کے سفر ، غزوہ خیبر ، فتح مکہ کے موقع پر غزوہ تبوک ، حجتہ الوداع کے موقع پر غرضیکہ زندگی کی ہر منزل ہر گام ہر سفر اور صبح شام مصطفی کریم ﷺ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔
ایک بار فجر کی نماز کے بعد آپ ﷺ نے حضرت بلال سے پوچھا کہ تم ایسا کیا کرتے ہو کہ کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی۔حضرت بلال نے جواب دیا، یا رسول اللہ ﷺ جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے میں دوبارہ وضو کر کے دو رکعت نفل تحیۃ الوضوادا کرتا ہوں۔ایک صحابی نے ایک بار حضرت بلال کو ایک حبشی عورت کا بیٹا کہہ کر بُلایا جو حضرت بلال رضی اللہ کو گراں گزرا، آپ، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ساری بات بتائی، آپﷺ نے ان صحابی سے فرمایا کہ تمہارے اندر اب تک زمانہ جاہلیت کی باتیں موجود ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، میں جتنا ایک سفید عورت کا بیٹا ہوں اتنا ہی ایک کالی عورت کا بیٹا بھی ہوں (حضرت حلیمہ سعدیہ)۔اذان دیتے وقت جب اشہد ان محمد الرسول اللہ پر آتے تو آپﷺ گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آتے تھے۔ پھر جب علالت کا وقت آیا اور آپ ﷺ سے امامت کے لئے آیا نہ جا سکا تو حضرت بلال خود آپﷺ کو بلانے جاتے، کبھی آپ ﷺ خود آتے کبھی کسی نے سہارا دیا ہوتا۔ یہ دیکھ کر حضرت بلال فرماتے کہ کیا ہی دکھ اور غم کے دن ہیں، اگر یہ دن ہی دیکھنا تھا تو میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا، یا اے کاش میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر گیا ہوتا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ اذان دیتے ہوئے غم سے بے ہوش ہو گئے۔ آپﷺ کی وفات کے وقت جب کہ آپﷺ کا جسمِ مبارک ابھی وہیں تھا حضرت بلال نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن جب اشد ان محمدرسول اللہ پر پہنچے اور آپﷺ گھر سے نہ نکلے تو یہ منظر اس قدر غمناک تھا کہ اذان دیتے ہوئے حضرت بلال کو ہچکی لگ گئی، وہ اتنا روئے کہ باقی تمام صحابہ کو بھی رُلا دیا۔ اگلے تین روز تک مسلسل آپ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن اشہد ان محمد رسول اللہ پر پہنچ کر ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے تھے، اس لئے آپ رضی اللہ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
وصال نبوی ﷺ کا سانحہ کل اصحاب رضوان اللہ علیہم کے لیے بالعموم جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لیے بالخصوص جاں بہ لب تھا۔ مدینہ شہرکا گوشہ گوشہ آپؓ کو رسول کریم کی یاد لاتا تھا چنانچہ آپ اسلامی لشکرکے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے اور اذان دینا بندکردی۔ ایک بار جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو ساتھیوں کے بے حد اصرار پر امیرالمومنین ؓنے حضرت بلال ؓسے اذان کی درخواست کی جس کو آپؓ نے قبول فرمایا۔ ایک بارآپ ؓدمشق میں محو استراحت تھے کہ خواب میں زیارت رسول ہوئی، استفسارکیا کہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے! بیدار ہوتے ہی آقائے دو جہاں کے شہر کا قصد کیا اور روضہ رسول کی زیارت کی۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمینؓ سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیا۔ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے اذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھاکہ آقا کے نور نظرلخت جگرکی فرمائش کو حضرت بلالؓجیسے عاشق رسول پوری نہ کرتے۔ جب اذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظر اٹھائی تو رسول اللہ عنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کی صدا پہنچی ، مسلمان تڑپ اٹھے اور مرد و زن اپنے گھروں سے نکل نکل کر آنسوئوں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے چلے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زندگی کی آخری اذان تھی۔
حضرت بلال کی وفات کے وقت جب ان کی بیوی نے یہ کہا کہ کیا ہی غم کا وقت ہے تو حضرت بلال نے فرمایا نہیں یہ بہت خوشی کا وقت ہے، کل میں رسول اللہ ﷺ سے ملوں گا، اپنے ساتھیوں سے ملوں گا۔ حضرت بلال رضی اللہ دمشق میں، 20 ہجری میں اس دنیا کوچھوڑ کر اپنے محبوب سے ملنے چلے گئےاوردنیائے فانی کو خیرباد کہا،کم وبیش ساٹھ برس کی عمر پائی، دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئ۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی نہ ہی ان کی کوئی جائداد تھی، جب آپ کے وصال ک خبرسیدنا فاروق اعظمؓ کو ملی تو آپ روتے روتے نڈھال ہو گئے آپ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھی کہ آہ! ہمارا سردار بلالؓ بھی ہمیں جدائی کا داغ دے گیا آپ وہ عاشق رسولﷺ تھے جب یار کو دیکھا تو سب برداشت کر لیا مگر دامن مصطفیؐ نہ چھوڑا اللہ کریم آپ کے عشق کا ایک ذرہ ہم سب کو بھی عطا فرمائے اورسیدنا حضرت بلال جیسے عظیم صحابی رسول کے صدقے امت مسلمہ کی بخشش فرمائے۔