أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ.
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اس وقت حیض والی ہوتی تھی۔
حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا۔ تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ اس لیے جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کر اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھ لیا کر۔
حیض ایک طبعی اور فطری خون ہے جو مقررہ ایام میں عورت کے رحم سے نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاسے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی خوراک بنایا ہے کیونکہ اسے وہاں خوراک کی حاجت ہوتی ہے۔ اگر ماں کے پیٹ میں جانے والی خوراک میں رحم کا بچہ شریک ہوجاتا توعورت کمزور ہوجاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خون حیض کو بچے کی غذا بنادیا۔ اسی بنا پر حاملہ عورت کوحیض نہیں آتا۔ جب بچہ ییدا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نومولود کی خوراک دودھ کی شکل میں ماں کے پستانوں میں منتقل کردیتا ہے جو وہاں سے حاصل کرتا ہے، اس وجہ سے دودھ پلانے والی عورت کے حیض میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جب عورت حمل اور رضاعت کےمراحل سے فارغ ہوجاتی ہے تو اس خون کی ماں کے رحم میں ضرورت نہیں رہتی، چنانچہ ہر ماہ تقریباً چھ یا سات دن اسے حیض کا خون آتا ہے، کبھی عورت کے مزاج یا خاص حالات کی وجہ سے اس میں کمی وبیشی بھی ہوجاتی ہے۔
حیض کا وقت اکثر علمائے کرام کی رائے میں اس کی ابتدالڑکی کے نو برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے نہیں ہوتی یعنی قمری نوسال اور قمری سال 354 دنوں کا ہوتا ہے۔ اور علمائے کرام کے نزدیک اگر اس عمر سے قبل اس خون کو دیکھےتو وہ حیض کا خون شمار نہ ہو گابلکہ وہ کسی علت وبیماری اور خرابی کا خون ہے۔ حیض مدت العمر بھی جاری رہ سکتا ہے، اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ کسی خاص عمر میں اس کا انقطاع ہوجاتا ہے۔ اگر 100سال کی بڑھیا بھی اپنی شرمگاہ سے خون کا خروج دیکھے تو وہ حیض کا شمار ہوگا۔
لغت میں کسی چیز کے بہنے اور جاری رہنے کو حیض کہتے ہیں اورشریعت کی اصطلاح میں صحت کی حالت میں خاص اوقات میں بغیر سبب کے عورت کے رحم سے نکلنے والے خون کو حیض کہتے ہیں ۔ جو عورت کے رحم سے بغیر کسی بیماری اور ولادت کے جاری ہوتا ہے اور جسے عرف عام میں ماہواری یا ایام بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح رحم عورت سے جو خون کسی مرض کی وجہ سے آتا ہے اسے استخاضہ اور جو خون ولادت کے بعد جاری ہوتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں ۔ حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے لہٰذا اس مدت میں خون خالص سفیدی کے علاوہ جس رنگ میں بھی آئے وہ حیض کا خون شمار ہوگا یعنی حیض کے خون کا رنگ سرخ بھی ہوتا ہے اور سیاہ و سبز بھی، نیز زرد اور مٹی کے رنگ جیسا بھی حیض کے خون کا رنگ ہوتا ہے۔ حیض ونفاس کا موضوع انتہائی گراں قدر اور غایت درجہ کاحامل ہے کیونکہ کہ خواتینِ اسلام کی نماز، روزہ وغیرہ کےاہم مسائل اس سے وابستہ ہیں اورخواتین اپنی فطری شرم و حیا کی وجہ سے علماءسے ایسے مسائل دریافت نہیں کرپاتی۔
ایام حیض میں نماز، روزہ نہ کرنا چاہئے البتہ ایام گزر جانے کے بعد روزے تو قضاء ادا کئے جائیں گے مگر نماز کی قضا نہیں ہوگی۔ مناسب ہے کہ اس موقعہ پر حیض کے کچھ مسائل و احکام (ماخوذ از علم الفقہ) ذکر کر دئیے جائیں ۔
٭… اگر کوئی عورت سو کر اٹھنے کے بعد خون دیکھے تو اس کا حیض اسی وقت سے شمار ہوگا جب سے وہ بیدار ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں اور اگر کوئی حائضہ عورت سو کر اٹھنے کے بعد اپنے کو طاہریعنی پاکی کی حالت میں پائے تو جب سے سوئی ہے اسی وقت سے طاہر سمجھی جائے گی۔
٭… حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے ناف اور زانوں کے درمیان کے جسم کو دیکھنا یا اس سے اپنے جسم کو ملانا بشرطیکہ کوئی کپڑا درمیان میں نہ ہو مکروہ تحریمی ہے اور جماع کرنا حرام ہے۔
٭…حیض و نِفاس والی عورت کو قرآنِ مجید پڑھنا دیکھ کر، یا زبانی اور اس کا چھونا اگرچہ اس کی جلد یا چولی یا حاشیہ کو ہاتھ یا انگلی کی نوک یا بدن کا کوئی حصہ لگے یہ سب حرام ہیں ۔
٭… حیض والی عورت اگر کسی کو قرآن مجید پڑھاتی ہو تو اس کو ایک ایک لفظ کے ہجے یعنی جوڑ کرکے پڑھانے کی غرض سے کہنا جائز ہے۔ ہاں پوری آیت ایک دم پڑھ لینا اس وقت بھی ناجائز ہے۔
٭… کاغذ کے پرچے پر کوئی سورہ یا آیت لکھی ہواس کا بھی چھونا حرام ہے۔
٭… جزدان میں قرآنِ مجید ہو تو اُس جزدان کے چھونے میں حَرَج نہیں ۔
٭… اس حالت میں کُرتے کے دامن یا دوپٹے کے آنچل سے یا کسی ایسے کپڑے سے جس کو پہنے، اوڑھے ہوئے ہے قرآنِ مجید چُھونا حرام ہے۔
٭… قرآنِ مجید کے علاوہ اَور تمام اذکار کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وُضو یا کُلّی کرکے پڑھنا بہتر اور ویسے ہی پڑھ لیا جب بھی حَرَج نہیں ۔
٭… ایسی عورت کو اذان کا جواب دینا جائز ہے۔
٭… ان دِنوں میں نمازیں معاف ہیں ان کی قضا بھی نہیں اور روزوں کی قضا اور دنوں میں رکھنا فرض ہے۔
٭… نماز کے وقت میں وُضو کرکے اتنی دیر تک ذکرِ الٰہی، درود شریف اور دیگر وظائف پڑھ لیا کرے جتنی دیر تک نماز پڑھا کرتی تھی تاکہ عادت رہے۔
٭…حائضہ کے احکام میں یہ بھی ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے، قرآن مجید کی (پکڑ کر) تلاوت نہ کرے، مسجد میں نہ بیٹھے اور اس کا خاوند اس سے صحبت نہ کرے کیونکہ وہ حرام ہے حتیٰ کہ اسے حیض آنا بند ہوجائے اور غسل کرلے۔ جس عورت کا حیض دس دن اور دس راتیں آکر بند ہوا ہو تو اس سے بغیر غسل کے خون بند ہوتے ہی جماع جائز ہے
٭… اور جس عورت کا خون دس دن سے کم آکر بند ہوا ہو تو اگر اس کی عادت سے بھی کم آکر بند ہوا ہے تو اس سے جماع جائز نہیں ۔ جب تک کہ اس کی عادت نہ گزر جائے اور عادت کے موافق اگر بند ہوا ہے تو جب تک غسل نہ کرے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے جماع جائز نہیں ۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد بغیر غسل کے بھی جائز ہوگا۔ نماز کے وقت گزر جانے سے یہ مقصود ہے کہ اگر شروع وقت میں خون بند ہوا تو باقی وقت سب گزر جائے اور اگر آخر وقت میں خون بند ہوا تو اس قدر وقت ہونا ضروری ہے کہ جس میں غسل کر کے نماز کی نیت کرنے کی گنجائش ہو اور اگر اس سے بھی کم وقت باقی ہو تو پھر اس کا اعتبار نہیں دوسری نماز کا پورا وقت گزرنا ضروری ہے۔ یہی حکم نفاس کا ہے کہ اگر چالیس دن آکر بند ہوا ہو تو خون بند ہوتے ہی بغیر غسل کے اور اگر چالیس دن سے کم آکر بند ہوا ہو اور عادت سے بھی کم ہو تو بعد عادت گزر جانے کے اور اگر عادت کے موافق بند ہوا ہو تو غسل کے بعد یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد جماع وغیرہ جائز ہے۔ ہاں ان کے سب صورتوں میں مستحب ہے کہ بغیر غسل کے جماع نہ کیا جائے۔
٭… جس عورت کا خون دس دن اور راتوں سے کم آکر بند ہوا اور عادت مقرر ہوجانے کی شکل میں عادت سے بھی کم ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا واجب ہے اس خیال سے کہ شاید پھر خون آجائے مثلاً عشاء کے شروع وقت خون بند ہوا ہو تو عشاء کے آخر وقت مستحب یعنی نصف شب کے قریب تک اس کو غسل میں تاخیر کرنا چاہئے اور جس عورت کا حیض دس دن یا عادت مقرر ہونے کی شکل میں عادت کے موافق آکر بند ہوا ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
٭… اگر کوئی عورت غیر زمانہ حیض میں کوئی ایسی دوا استعمال کرے جس سے خون آجائے تو وہ حیض نہیں مثلاً کسی عورت کو مہینے میں ایک دفعہ پانچ دن حیض آتا ہو تو اس کے حیض کے پانچ دن کے بعد کسی دوا کے استعمال سے خون آجائے تو وہ حیض نہیں ۔
٭… اگر کسی عادت والی عورت کو خون جاری ہوجائے اور برابر جاری رہے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ مجھے کتنے دن حیض آتا تھا یا پھر یہ یاد نہ رہے کہ مہینہ کی کس کس تاریخ سے شروع ہوتا تھا اور کب ختم ہوتا تھا۔ یا دونوں باتیں یاد نہ رہیں تو اس کو چاہئے کہ اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جس زمانے کو وہ حیض کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں حیض کے احکام پر عمل کرے اور جس زمانے کو طہارت کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں طہارت کے احکام پر عمل کرے اور اگر اس کا گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھنی چاہئے اور روزہ بھی رکھے مگر جب اس کا یہ مرض رفع ہوجائے روزہ کی قضاء ادا کرنی ہوگی اور اگر اس کو شک کی کیفیت ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانے کی نسبت یہ شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا تو اس صورت میں ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانہ کی نسبت پر شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا یا حیض سے خارج ہونے کا تو اس صورت میں وہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھ لے۔
٭…جب حیض کا خون بند ہوجائے تو عورت پاک ہوجاتی ہے۔ اب اس پر غسل کرنا فرض ہے۔ غسل کے بعد ہروہ کام جو حیض کے سبب ممنوع تھا، انھیں کرنے کی اجازت ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔
Lesson 21 حیض و نفاس کے احکام و مسائل Rules and Problems of Menstruation and Nifas Dars e Hadees ویڈیو
Please watch full video, like and share Lesson 21 حیض و نفاس کے احکام و مسائل Rules and Problems of Menstruation and Nifas Dars e Hadees. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 09:31