سبق نمبر 16: میت کو غسل دینے کا طریقہ

‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏ قَالَتْ: ‏‏‏‏ لَمَّا غَسَّلْنَا بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا وَنَحْنُ نَغْسِلُهَا: ‏‏‏‏ ابْدَأَنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ.

حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہیں تھیں ۔ جب ہم نے غسل شروع کردیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے شروع کرو۔

انسان کی زندگی اس دنیا کی ہویا آخرت کی دونوں کےآغاز میں عجیب وغریب مماثلت پائی جاتی ہے اگردنیا کے سفر کا نقظۂ آغاز 9 ماہ تہ بہ تہ اندھیرے ہیں تو آخرت کےسفر کا نقطۂ آغازبھی قبر کے تہ بہ تہ اندھیرے ہیں اگر دینا میں قدم رکھتے ہی انسان کو غسل دیا جاتا ہے تو آخرت کے سفر میں قبر میں قدم رکھنے سے پہلے غسل کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ دنیا کے سفر کےمرحلہ میں اگر انسان کے کانوں میں اذان واقامت کے ذریعہ اس کی روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے تو آخرت کے اس مرحلہ میں صلاۃ جنازہ اور مغفرت کی دعاؤں سے انسان کی روح کومسرت پہنچائی جاتی ہے بہرحال انسان کی فلاح اسی میں ہے کہ دنیا کاسفر ہویا آخرت کا تمام مراحل کو قرآن وسنت کی ہدایات کےمطابق سرانجام دیا جائے۔ میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جس نے میت کو غسل دیا، اس کو کفن دیا، اس کو خوشبو لگائی، اس کو کندھا دیا، اس پر نماز جنازہ پڑھی اور اسکے راز کو ظاہر نہیں کیا (جو اس نے دیکھا تو) وہ غلطیوں (اور گناہوں ) سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اْس کی ماں نے اْسے آج ہی جناہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ) ۔

حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے پانی اور بیر کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو (یعنی 3 یا5 بار) اور آخر میں کافور ملا لیں ۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔ ‘‘ (بخاری) ۔

میت کو غسل دینے کے لیے، سب سے پہلے کسی تخت یا بڑے تختے کا انتظام کرلیں ، اس کو اگر بتی یا عود، لوبان، وغیرہ سے تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر میت کو اس پر لٹادیں ۔ ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر اندر ہی اندر کپڑے اتار لیں ۔ یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے پنڈلی تک ہونا چاہیے تاکہ بھیگنے کے بعد اندر کا بدن نظر نہ آئے۔ ناف سے لے کر زانو تک دیکھنا جائز نہیں اور ایسی جگہ ہاتھ لگانا بھی ناجائز ہے میت کو استنجاء کرانے اور غسل دینے میں اس جگہ کے لیے دستانہ پہننا چاہیے یا کپڑا ہاتھ پر لپیٹ لیں ، کیونکہ جس جگہ زندگی میں ہاتھ لگانا جائز نہیں وہاں مرنے کے بعد بھی بلادستانوں کے ہاتھ لگانا جائز نہیں ، اور اس پر نگاہ بھی نہ ڈالیں ۔ (بہشتی زیور)

حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ: (اپنی ران کسی کے سامنے نہ کھولو اور نہ کسی زندہ یا مردہ کی ران کی طرف نظرکر و) ۔ نیز حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو غسل دیا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لیا تھا۔

غسل شروع کرنے سے پہلے بائیں ہاتھ میں دستانہ پہن کر مٹی کے تین یا پانچ ڈھیلوں سے استنجاء کروائیں ، اور میت کے جسم کو ہاتھوں سے نرمی کے ساتھ مَل کر میل کچیل صاف کر دیں ۔ پھر پانی سے پاک کریں ، پھر وضو اس طرح کروائیں کہ نہ کلی کروائیں ، نہ ناک میں پانی ڈالیں ، نہ گٹے (پُہنچے) تک ہاتھ دھوئیں ، بلکہ روئی کا پھایا تر کرکے ہونٹوں ، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر کر پھینک دیں ، اس طرح تین دفعہ کریں ۔ پھر اسی طرح ناک کے دونوں سوراخوں کو رُوئی کے پھائے سے صاف کریں ، لیکن اگر غسل کی ضرورت (جنابت) کی حالت میں موت ہوئی ہو یا عورت کا انتقال حیض یا نفاس کی حالت میں ہوا ہو تو منہ اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ پانی ڈال کر کپڑے سے نکال لیں ۔

پھر ناک، منہ اور کانوں میں رُوئی رکھ دیں تاکہ وضو اور غسل کراتے وقت پانی اندر نہ جائے۔ پھر منہ دھلائیں ، پھر ہاتھ کہنیوں سمیت دھلائیں ، پھر سر کا مسح کرائیں ، پھر تین مرتبہ دونوں پیر دھوئیں ۔ جب وضو کراچکیں تو سر کو (اور اگر مرد ہے تو داڑھی کو بھی) غسل دیتے وقت پانی میں نظافت و طہارت کی غرض سے بیری کے پتوں کے پانی سےیا جو بھی اس کے قائم مقام ہو مثلاً صابن وغیرہ۔ سے کہ جس سے سر صاف ہو جائےآہستہ آہستہ مل کر دھوئیں ۔ اگر بیری کے پتوں کا اْبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے) ۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائیں ۔ پانی اتنا گرم ہو جسے آپ برداشت کر سکتے ہیں ۔ پھر اسے بائیں کروٹ پر لٹائیں اور بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین مرتبہ سر سے پیر تک اتنا ڈالیں کہ نیچے کی جانب بائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین مرتبہ اتنا پانی ڈالیں کہ نیچے کی جانب دائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔ اس کے بعد میت کو اپنے بدن کی ٹیک لگا کر ذرا بٹھلانے کے قریب کر دیں اور اس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں ۔ اگر کچھ فُضلہ (پیشاب یا پاخانہ وغیرہ) خارج ہو تو صرف اسی کو پونچھ کر دھو دیں ، وضو اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اس ناپاکی کے نکلنے سے میت کے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں آتا۔ پھر اس کو بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں کروٹ پر کافور ملا ہوا پانی سر سے پیر تک تین مرتبہ خوب بہادیں کہ نیچے بائیں کروٹ بھی خوب تر ہو جائے، یعنی ابتدائی دو غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے/ صابن کے ساتھ دیئے جائیں ۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کر لیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔ پھر دوسرا دستانہ پہن کر سارا بدن کسی کپڑے سے خشک کرکے تہبند دوسرا بدل دیں ۔ ، اور آخرمیں میت کے بدن پرکافور یاکوئی اور خوشبومل دیں ور کفن پہنادیں ۔

7 برس سے چھوٹے بچوں کی میت کو کوئی بھی غسل دے سکتا ہے۔

غسل سے متعلق چند ذیلی باتیں :

٭مسلمان کو غسل دینا اور اس کی تدفین میں حصہ لینا فرض کفایہ ہے اس لئے اس عمل میں حصہ لینے والے کو اجر و ثواب کے حصول کی نیت کرنی چاہیئے۔

٭ غسل دینے والا میت کا امانت دار ہے لہٰذا اس کو غسل دینے کے تمام کام مسنون طریقے سے کرنے چاہئیں ۔

٭غسل دینے والے کو میت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرنے کاشریعت نے حکم دیا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ غسل دینے والا جب میت کی کوئی اچھی بات دیکھے، مثلاً اس کے چہرہ کا چمکنا اور روشن ہونا یا اس سے خوشبو کا معلوم ہونا تو بہتر ہے کہ اس کو لوگوں سے بیان کرے اور اگر کوئی بات مکروہ دیکھے، مثلاً اس کے چہرے یا بدن کا سیاہ ہو جانا یا اس کی صورت کا بدل جانا یا اس سے بدبو معلوم ہونا تو اس کو لوگوں سے ظاہر کرنا جائز نہیں ۔

٭ غسل دینے والے کو میت کے ساتھ مکمل احترام اور نرمی کرنی چاہیئے۔

٭میت کالباس اتارتے اور کفن پہناتے وقت غیر ضروری جلد بازی اور سختی نہیں کرنی چاہیئے۔

غسل کا مذکورہ بالا طریقہ ہر مسلمان کو آنا چاہئے۔ آج کل اس کے لیے پروفیشنل لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ بہتر ہے کہ شرعی طریقے سے میت کو غسل دینے والوں کا انتخاب کیا جائے۔

ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں ۔ “

معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں اور اٹھانے والے پر وضو ضروری نہیں ۔ البتہ اگر کوئی غسل یا وضو کرے تو درست ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔

Lesson 16 میت کو غسل دینے کا طریقہ Method of Bathing the Dead Body Dars e Hadees Umar gallery ویڈیو

Please watch full video, like and share Lesson 16 میت کو غسل دینے کا طریقہ Method of Bathing the Dead Body Dars e Hadees Umar gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 11:25

https://youtu.be/VSPDfy1bbvE