عَنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِذَا جَاءَ اَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ، فَلْيَغْتَسِلْ » . (رواه البخارى ومسلم)
سیدناحضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جمعہ کو (یعنی جمعہ کی نماز کے لئے) آئے تو اس کو چاہئے کہ غسل کرے (یعنی نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے اس کو غسل کر کے آنا چاہئے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں سیدناحضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے (یعنی اس کے لئے ضروری ہے) کہ ہفتہ کے سات دنوں میں سے ایک دن (یعنی جمعہ کے دن) غسل کرے اس میں اپنے سر کے بالوں کو اور سارے جسم کو اچھی طرح دھوئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ان دونوں حدیثوں میں جمعہ کے غسل کا تاکیدی حکم ہے اور صحیحین ہی کی ایک اور حدیث میں جو حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے غسل جمعہ کے لئے واجب، کا لفظ بھی آیا ہے لیکن امت کے اکثر ائمہ اور علماء شریعت کے نزدیک اس سے اصطلاحی وجوب مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بھی غسل کی تاکید ہے۔ عراق کے بعض لوگ حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں جمعہ کے دن کا غسل واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا میرے نزدیک واجب تو نہیں ہے لیکن اس میں بڑی طہارت و پاکیزگی ہے اور بڑی خیر ہے اس کے لئے جو اس دن غسل کرے اور جو (کسی وجہ سے ان دن) غسل نہ کرے تو (وہ گنہگار نہیں ہو گا کیوں کہ یہ غسل) اس پر واجب نہیں ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن (نماز جمعہ کے لئے) وضو کر لے تو بھی کافی ہے اور ٹھیک ہے اور جو غسل کرے تو غسل کرنا افضل ہے۔ (مسند احمد، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، مسند دارمی)
بہرحال اس میں پاکیزگی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اب بھی اس میں خیر اور ثواب ہے۔
جمعہ کے دن غسل کرنا مسنون و مستحب ہے۔
غسل جمعہ چونکہ نماز جمعہ کے لیے مشروع کیا گیا ہے لہذا ایسے لوگ جن پر جمعہ کی نماز نہیں ہے جیسے مسافر، خواتین وغیرہ ان کے لیے جمعہ کے دن غسل کرنا مسنون نہیں ہے، لیکن ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ غسل کرلیں ۔
جہاں تک غسل کےانتہائے وقت کا جوتعلق ہے توچونکہ نماز جمعہ کے لئے غسل کرنا مسنون ہے اور یہ سنت صحیح قول کے مطابق نماز سے قبل غسل کرنے ہی سے حاصل ہوگی۔
اسی طرح عیدین کے لیے بھی غسل کرنا مسنون ومستحب ہے اور یہ غسل بھی نماز عیدکے ساتھ خاص ہے لہذا نماز عید سے پہلے غسل کرلیا جائےتب ہی غسل مسنون کہلائے گا۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا حضورِ اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے، پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے:
٭…نیت کرے۔ یعنی دل میں نیت کرے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے غسل کرتا ہوں ، یا یوں نیت کرے کہ میں پاک ہوکر عبادت کرنے کے لیے غسل کرتا ہوں ،
٭…دل ہی دل میں زبان ہلائے بغیربسم اللہ سے پڑھے۔
٭…دونوں ہاتھوں کوتین بار کلائیوں تک دھوئے۔
٭…استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
٭…پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے۔ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔
٭…تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
٭…پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔
٭…اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
٭…پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
٭…وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔
درج ذیل امور کی ادائیگی کے لیے غسل کرنا سنت ہے:
1۔ جمعہ کی نماز کے لیے۔
2۔ عیدین کی نماز کے لیے۔
3۔ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے۔
4۔ حج کرنے والوں کے لیے میدان عرفات میں زوال کے بعد۔
درج ذیل امور کے لیے غسل کرنا مستحب ہے:
٭…جو آدمی پاکیزگی کی حالت میں مسلمان ہوا ہو۔
٭…جو بچہ عمر کے اعتبار سے بالغ ہواہو۔
٭…جو شخص جنون کے عارضہ سے صحت یاب ہوا ہو۔
٭…نشتر لگوانے کے بعد۔
٭…میت کو غسل دینے کے بعد۔
٭…شبِ برات میں عبادت کے لیے۔
٭…لیلۃ القدر میں بطورِ خاص عبادت کے لیے۔
٭…مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لیے۔
٭…مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کے لیے۔
٭…قربانی کے دن مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے۔
٭…طوافِ زیارت کے لیے۔
٭…سورج گرہن کی نماز کے لیے۔
٭…نمازِ اِستقاء کے لیے۔
٭…خوف کے وقت۔
٭…دن میں سخت اندھیرے کے وقت۔
٭…تیز آندھی کے وقت۔
طہارت کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہمارا سارا جسم دھلا رہے۔ خواہ وہ جزوی طور پر وضو کی صورت میں دھلے یا کلی طور پر غسل کی صورت میں دھلے۔ اس جسم اور اس کے اعضاء پر ’’فاغسلوا‘‘ کا عمل جاری رہے تاکہ انسان کو طہارت کاملہ حاصل ہو اور وہ انسان متطھرین میں شمار ہوجائے۔ جسم اور اعضائے جسم کے دھلتے رہنے میں جہاں صحت کا قیام ہے وہاں حکم الہٰی کے مطابق طہارت کا اہتمام بھی ہے۔ صحت اور طہارت لازم ملزوم ہیں ، صحت کا قیام طہارت سے ہے طہارت کا دوام و قیام درحقیقت صحت کا انتظام ہے۔ طہارت یہ ہے کہ جسم کی ہر نجاست اور غلاظت گندگی و ناپاکی کو دور کیا جائے۔ جسم کو طاہر متطاہر بنایا جائے، جسم کو خوب پاک کیا جائے پھر پاک رب کی بندگی اور عبادت کی جائے۔ ایسی طہارت و عبادت ہی انسانوں کو تبدیل کرے گی۔ ایسی طہارت و عبادت ہی انسانوں پر اپنا اثر ظاہر کرے گی اور ایسی طہارت و عبادت ہی نتائج دے گی۔ بہرحال شریعت میں اس کی فضیلت توہے ہی ہےطبی نقطہ نظر سے بھیغسل یعنی نہانا ایک نعمت ہے جو ہمیں پاکیزگی دینے کیساتھ ہمارے جسم و دماغ پر کئی اچھے اثرات مُرتب کرتا ہے اور ہمیں تروتازہ کر دیتا ہے۔ اور جسم کو خُون کے ساتھ مناسب آکسیجن ملنا شروع ہو جاتی ہے اور جسم و دماغ چاک و چوبند ہوجاتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔
Lesson 15 مسنون ومستحب غسل Masnoon and Mustahab Ghusal Dars e Hadees Umar gallery ویڈیو
Please watch full video, like and share Lesson 15 مسنون ومستحب غسل Masnoon and Mustahab Ghusal Dars e Hadees Umar gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 07:55