سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں:نویں نصیحت۔۔۔۔۔
ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا
اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔
غیبت“ کہتے ہیں کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی ایسی برائی کرناجوواقعی اس میں موجودہواور سننے پر اس کو ناگوار گذرے ،اور اگر یہ برائی اس میں موجود نہیں تو یہ بہتان ہے ۔کسی کی غیبت کرنے یا اس پر تہمت لگانے پر قرآن واحادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔غیبت کی تعریف ایک حدیث میں خود حضور اقدس ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ : تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو جو اسے ناگوار ہو۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تو (کیا اس کا بیان کرنا بھی غیبت ہے) آپ نے فرمایا : کہ اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تب تو وہ غیبت ہے اور اگر وہ نہ ہو تو بہتان ہے، یعنی وہ دوہرا گناہ ہے۔
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے پس پشت اس کے کسی ایسے عیب کوذکر کرناجواس میں موجود بھی ہواورمقصداس کی برائی ہو اوراگر اسے اس بارے میںمعلوم ہوجائے تو اسے ناگوار گزرے ، یہ غیبت ہے، یعنی ہر وہ بات جسے وہ ناپسند کرتا ہو چاہے وہ اسکی جسمانی ہیئت کے متعلق ہو،چاہے اس کے دین کے متعلق ہو یا دنیا کے،اس کے اخلاق کے متعلق ہو یا اس کی شکل و صورت کے،مال کے متعلق ہو یا اولاد کے۔اس کی بیوی کے متعلق ہو یا اس کے خادم کے،اس کے کپڑے کے متعلق ہو یا گھر کے ،اس کی حرکات و سکنات کے متعلق ہو یا انداز گفتگوکے،اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جو اس سے متعلق ہوں،چاہے تم اسے الفاظ کے ساتھ ذکر کرو یا اشارے کنایے سے غیبت میں شامل ہے۔غیبت کا تعلق نہ صرف زبان سے ہے بلکہ کسی بھی طریقے سے کسی کو ایسی بات سمجھا دینا جسے مذکورہ شخص نا پسند کرتا ہو۔ چلنے یا بولنے میں کسی کی نقل اتارنا بھی غیبت میں شامل ہے۔جو گناہ ِکبیرہ ہےاور جس پر قرآن وحدیث میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں اسے آدم خوری کہاگیا ہے ،مگر افسوس ہے کہ آج کی محفلیں اس گناہِ بے لذت سے آباد ہیں ۔
آج کل ہمارے معاشرے میں غیبت کی وبا عام ہے،،غیبت ہمارے معاشرہ کی ایک ایسی دیمک ہے جس نے انسانی معاشرہ کے باہمی تعلقات کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔لیکن اس کے باوجود آج کل جو گناہ ہمارے معاشرہ میں سب سے زیادہ مروج ہے وہ یہی غیبت ہے۔ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ اور ہمارے افراد کا کوئی طبقہ شاید ہی اس گناہ سے خالی ہو۔آج کل ہم جس طرح سے غیبت کے مرض میں مبتلا ہیں اس کا اندا ز ہ نہیں کیا جاسکتا او رنہ صرف یہ بلکہ عموماً غیبت کرنے کے بعد ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے غیبت کی ہے اور اگر کسی کے احساس دلانے پر احساس ہو بھی جائے تو نفس یہ دھوکہ دیتا ہے کہ تم نے غیبت کب کی ہے؟ غیبت اس کو نہیں کہتے۔غیبت کا تو مفہوم ہی اور ہے۔ چناں چہ عموماً غیبت کے مفہوم کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی ایسی برائی بیان کرنا جو کہ اس میں نہ ہو یہ غیبت ہے او راگر ایسی برائیاں کی جائیں جو کہ اس شخص میں واقعتاً موجود ہیں تو یہ غیبت میں شامل نہیں۔ حالاں کہ مذکورہ بالاحدیث میں صحابہ کرام رضو ان الله علیہم اجمعین کے سوال کے جواب میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس نکتہ کی نشان دہی واضح الفاظ میں فرما دی کہ ایسی برائیاں بیان کی جائیں جو اس میں ہوں تب تو غیبت ہے اوراگر کوئی ایسی برائی اس کی طرف منسوب کر دی جو اس میں نہ ہو۔ تب یہ غیبت نہیں، بلکہ بہتان اور الزام تراشی ہے۔
غیبت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی نیکیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے روز بہت سے لوگ محض غیبت کرنے کی وجہ سے اپنی نیکیوں سے محروم ہو جائیں گے ۔ چناں چہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” قیامت کے روز بندہ کا نامہٴ اعمال اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ( جب وہ اپنا نامہ اعمال دیکھے گا…) تو کہے گا اے میرے رب! میں نے فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں۔ لیکن میرے نامہٴ اعمال میں وہ نہیں ہیں؟! تو الله تعالی فرمائیں گے کہ تیری وہ نیکیاں لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے ماری گئیں۔“ (الترغیب والترہیب)
صحیح مسلم او رجامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی درہم ہے او رنہ ہی کچھ سامان ہے توحضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے روز نمازیں، روزے اور زکوٰۃ جیسے اعمال کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہے، کسی پر تہمت لگائی ہے، کسی کا مال ناحق کھایا ہے کسی کا خون بہایا ہے اور کسی کو ناحق مارا ہے۔ چناں چہ اس کی نیکیاں دوسرے شخص کو دے دی جائیں گی اور جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی لیکن زیادتیاں ابھی باقی ہوں گی تو پھر دوسرے کے گناہ اس کے نامہٴ اعمال میں ڈال دیے جائیں گے او رپھر اس شخص کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
علمائے کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:… غیبت کرنا کفر ہے: وہ قسم جہاں غیبت کرنا کفر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تُو غیبت نہ کر، تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اﷲ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا اور ہر وہ شخص جو اﷲ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ لہذا اس صورت میں غیبت کرنا کفر ہے۔٭… غیبت کرنا منافقت ہے: دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔٭… غیبت کرنا گناہ ہے: تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا گناہ ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا گناہ ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا گناہ ہے، وہ گناہ گار ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔٭… چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بل کہ ثواب کا باعث بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ بعض مرتبہ شرعی ضرورت کی بناپر غیبت کرنا گناہ نہیں، احادیث میں متعدد واقعات آئےہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کسی شرعی ضرورت کی بنا پر اپنے مسلمان بھائی کا عیب بیان کیا اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ چناں چہ بعض مفسرین نے سورہٴ حجرات کی آیت میںغیبت کی تفسیر کی ذیل میں اور بعض فقہاء نے اپنی تصنیفات میں غیبت کی چند جائز اور درست صورتیں بھی بیان کی ہیں ۔مثال کے طور پربطور خلاصے کے یہ ہیں:… اگر مظلوم ظالم کے ظلم کی شکایت کسی ایسے شخص کے سامنے کرے جو اس ظالم کو ظلم سے روک سکتاہے تو یہ غیبت جائز ہوگی ۔ مثلاً قاضی نے کسی شخص پر ظلم کیا، اب وہ حاکم بالا کے پاس جاکر قاضی کے ظلم کی شکایت کرے تو یہ غیبت درست ہے۔٭… اگر کوئی شخص کسی عیب یا گناہ میں مبتلا ہے، اس کی خبر ایسے شخص کے پاس پہنچانا کہ وہ اس عیب سے اس کو روکے گا… اور اس کو نصیحت کرے گا تو یہ غیبت درست ہے۔ اورکسی شخص میں کچھ عیب ہے تو اس کے والد کو اس سے مطلع کر دینا، تاکہ اس کو اس فعل سے منع کرے یا کوئی سرکاری افسر رشوت لیتا ہے تو اس کی خبر حکومت کو دی جائے، تاکہ وہ اس افسر کو اس سے منع کرے۔٭… کسی عالم یا مفتی کے پاس مسئلہ پوچھنے کے واسطے اورمسئلہ کی صورت بتانے کے لیے کسی شخص معین کا عیب بیان کیا تو درست ہے۔ لیکن بہتر یہ یہی ہے کہ بلا ضرورت کسی شخص کو معین نہ کرے۔ بلکہ فرضی نام سے سوال کیا جائے۔٭… وہ شخص جو علی الاعلان گناہوں میں مبتلا رہتا ہو اور لوگوں کے سامنے گناہ کرنے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہ کرتا ہو تو اس کی غیبت درست ہے۔ ٭… کسی مسلمان کو دین یا دنیا کے نقصان سے بچانے کے لیے کسی کی غیبت کرنا جیسے کسی شخص کا عقیدہ خراب ہو اور کوئی مسلمان اس سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے سامنے اس سوءِ عقیدہ والے شخص کی حالت واضح کرنا۔٭… کسی کے ساتھ معاملہ کرنے (مثلاً نکاح، معاملات یا) سفر کے بارے مشورہ کرنے والے کے سامنے اس کی حقیقت واضح کرنا۔٭… تعارف کی غرض سے کسی کے عیب کو ذکر کرنا، جیسے کانا ، بھینگا وغیرہ، یہ اس صورت میں جائز ہے کہ اس کے بغیر تعارف ناممکن یا مشکل ہو۔
بہرحال!غیبت کرنے والا دوقسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے:ایک جرم تو اللہ تعالیٰ کے حق میں کرتا ہے، جس کا کفارہ یہ ہے کہ اپنے جرم پر ندامت کا اظہار کرے، جبکہ دوسرا جرم بندے کے حق میں کرتا ہے ، جس کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے ،اگر اُس شخص کو غیبت کا علم ہوا ہو تو اس سے معذرت کا اظہار کرے، اور اگر اس کو غیبت کا علم نہ ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرے اور اُس بندے کے حق میں نیک دعا کرے،نیز یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے اور اللہ کے فرشتے اس کے ایک ایک عمل کو قلمبند کر رہے ہیں۔
بعض اسلاف سے ان کے علاج کا طریقہ اس طور پرلکھا ہے کہ:… ان گناہوں سے بچنے کے لیے ہمت کی جائے کہ اب آئندہ زبان سے کسی کی غیبت نہیں کروں گا اور نہ کسی پر غلط بات کی تہمت لگاؤں گا۔٭… ان کا خیال آنے پر قرآن واحادیث میں مذکوروعیدوں کا استحضار کیا جائے۔٭… غیبت یا بہتا ن کرنے پر اپنے نفس کو سزا دیا جائے۔ ٭… غیبت یا بہتان کرنے پراپنے نفس کو فاقہ کرایا جائے۔٭… غیبت کے باعث دنیاوی اور اخروی سزاؤں اور نقصانات کو لوگوں میں عام کیا جائے، جیسے کہ پہلے بیان ہوچکے۔ لوگوں کو اپنے عیوب کے سدھارنے میں مشغول کیا جائے، چہ جائے کہ وہ کسی کے عیوب کو اچھالیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے کینہ، حسد، فخر اور دو سروں کو تکلیف دینے کی بُری عادات سے بچایا جائے۔ غیبت کرنے والوں کو غیبت سے روکا جائے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ تُو دعائے مغفرت کرے اس شخص کے لیے جس کی تُونے غیبت کی ہے، تُو یوں کہے کہ ا ے اﷲ! تُو میری اور اس کی مغفرت فرما۔‘الله تعالیٰ ہمیں غیبت جیسے ہول ناک جرم کی ہلاکت خیزی کو سمجھتے ہوئے اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی عدم موجودگی میں ان کے بارے میں اچھے خیالات کے اظہار کی توفیق عطاء فرمائے۔