از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں(3):…تیسری نصیحت وَاَقْسِطُوْا ۭ : اور تم انصاف کیا کرو
اسلام میں عدل وانصاف کو بڑا اہم مقام حاصل ہے،عدل کے معنیٰ ہیں برابر کرنا ،یا افراط وتفریط کی درمیانی راہ اختیار کرنا جسے اعتدال کہا جاتا ہے ۔شرعی اعتبار سے عدل ،انسانی کمالات کا سر چشمہ اور جملہ اخلاقی اقدار ومحاسن کا منبع ومرکز ہے۔ اسی سے انسان بارگاہ الوہیت کا مقرب اور مخلوق کا محبوب بنتا ہے ،عدل ہی دنیاوی فلاح وبہبود اور اخروی نجات کا ذریعہ ہے ،یہ اللہ وحدہ لاشریک کی صفات عالیہ میں سے ایک صفت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات انسان میں پنہاں کیا ہے اسی لئے کوئی بھی انسان اس کی افادیت واہمیت کا انکار نہیں کرتا ہے۔
اسلام کے قوانین چاہے معاشیات سے متعلق ہوںیاحقوق سے،اسلام ہر جگہ عدل وانصاف اور برابری کا درس دیتا ہے۔عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے ۔اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا ،ہاں ظلم و جبر کی آماجگاہ ضرور بن سکتاہے ۔ عدل و انصاف ہی تمام نیکی و محاسن کی اساس ہے ۔عدل و انصاف ہی سے انسان زندگی کا لطف حاصل کرتا ہے ۔ورنہ اس کے بغیر معاشرہ وہشت و درندگی کا اڈا بن کر رہ جائے گا ۔،عدل و انصاف کا جذبہ ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو بلندی کی طرف لے جا تا ہے۔اسلام میں عدل وانصاف کا نمایاں رول ہے، انسانی معاشرہ کو مستحکم بنیادوں پر استواررکھنا اسی وقت ممکن ہے جب عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں اورمجرمین کوبلا کسی رورعایت قرارواقعی سزاملے ،اسکے بغیرجرائم سے پاک معاشرہ کا تصورممکن نہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جہاں اخلاقی اور معاشرتی احکام کو بیان فرمایا ہے وہیں عد ل و انصاف کو بیان فرما یا ہے ۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’’اور جب لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) تصفیہ (فیصلہ) کیاکرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت نمبر:۵۸) مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’لوگوں میں تصفیہ کیا کرو‘‘ فرمایا ہے، مسلمانوں میں تصفیہ کیا کرو نہیں فرمایا، اس میں اشارہ ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم، دوست ہوں یا دشمن، فیصلہ کرنے والوں پر فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہوکر جو بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں۔ (معارف القرآن: ج۲،ص:۴۴۸) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو فیصلے حق و انصاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے اور پرائے کی بنیاد پر مبنی ہوں گے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور ظلم ہوں گے۔ دوسری جگہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لئے پوری پابندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو اور کسی خاص قوم کی عداوت تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو۔ (ہر ایک کے ساتھ) کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر :۸) مذکورہ آیت میں واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا حکومت اور عدالت ہی کا فریضہ نہیں، بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود بھی انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو بھی انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن: ج۲،ص۵۷۲)
عدل وانصاف کوصرف عدالتوں تک محدود کرنا اس کی ہمہ گیریت حیثیت کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسی طرح عام آدمی بھی عدل کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ہر فرد کے لئے عدل کرنا اس کی زندگی کو سنوارنے کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اجتماعی انسانی زندگی کی ہر ہر اکائی کے ساتھ عدل کرنے کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ یعنی فرد معاشرہ سے عدل کرے‘ معاشرہ فرد سے عدل کرے‘ عوام حکومت کے ساتھ عدل کریں‘ حکمران عوام کے ساتھ عدل کریں تو پھر ایک ایسا عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے جہاں کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘ کہیں منافقت نہیں ہوگی‘ کہیں کرپشن اور بدعنوانی نظر نہیں آئے گی۔
یہی عدل و انصاف کا کامل نمونہ تھا جس سے اسلام قلیل مدت میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور دنیا کی قومیں صدیوں پرانے اپنے مذہبی رشتے توڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں، اسلام نے ہی سارے انسانوں اور ساری قوموں میں قانونی اور اخلاقی یکسانی پیدا کرکے عالم گیر اخوت کی بنیاد ڈالی اور یہ محض اس لئےکہ اس نے ہر چیز کا معیار قومی حد بندیوں کو قرار دینے کے بجائے قانونِ خداوندی اور اصول پسندی کو قرار دیا۔حقیقت میں عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جب یہ کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے ۔جن معاشروں میں اس گوہرِگراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے، اللہ کے بندوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ وہ قومیں رو بہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
ہر حق شناس پر یہ بات اظہر من الشمس ہونی چاہیے کہ عدل و انصاف کا جو جامع نظریہ اسلام نے پیش کیا اور جس کا نمونہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے اس کی نظیر دنیا کے قدیم و جدید دستاویزات اور مجموعہ ہائے قوانین پیش نہیں کرسکتے ۔ صرف اسلامی نظام عدل کی برتری گزشتہ زمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانیت کا کارواں چودہ صدیاں بعد بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض یافتہ آپ ﷺکی نگاہ فیض اورحسن تربیت سےجانثاران اور غلامان رسول پہنچ گئے تھے۔
