دوسروں کا مذاق نہ اڑاو

 از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں(4):… چوتھی نصیحت لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ نہ مذاق اڑائے ایک گروہ (دوسرے) گروہ کا۔
کسی کے عیوب ونقائص کو اس طرح ظاہر کرنا کہ لوگ اس پر ہنسیں تمسخر(مذاق اڑانا )کہلاتا ہے ۔اورعلامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں، اس کو سخریہ، تمسخر، استہزاء کہا جاتا ہے۔ اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھ پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام(بات) سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا ایسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔تمسخر کی مختلف صورتیں اور شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے زبان سے کسی کا مذاق اڑانا ، اپنے بھائی کی بات پر یا شکل صورت پر یا لباس پر ہنسنا، برے القاب سے پکا رنا، اپنے بھائی کے عادات واطوار پر ہنسنا ،کسی کی نقل اتار نا، اشارے کے ذریعہ استہزا، کسی کے نقص وعیب کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا، لعن طعن کرنا، کسی کی کوئی چیز دفعتاً چھپالینا،چیخ چلاً کر قصداً کسی کو ڈرانا وغیرہ۔شریعت مطہرہ کے اندر کسی مومن آدمی کا مذاق اڑانا یعنی استہزا یا تمسخر گناہ ہے اور ایسا کرنے والے کا کوئی دنیا وی فائدہ نہیں ہوتا، پھر بھی عام طور پر لوگ غفلت و لاعلمی میں اس حرکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر یہ تمسخر لڑائی اور جھگڑے تک چلا جاتا ہے۔ اس سے سینوں میں بد گمانیاں اور بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے۔ اور ہمارے آپسی تعلقات کو یہ تمسخر گھن کی طرح چاٹ کر صاف کر دیتا ہے۔ آپﷺ نے اپنی ایک حدیث میں مسلمانوں کی یہ علا مت بتائی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ و زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے( مشکوٰۃ) جبکہ تمسخرسے شدید دل آزاری ہوتی ہے اور یہ اس کی عزت نفس پر ایک حملہ ہوتا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ ہر شخص کو اس کی عزت نفس سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس لئے جب اس پر حملہ کیا جاتا ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتا اور پھر اس سے دیگر برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
دین اسلام نے دوسرے کی آبرو کی حفاظت کرنے کو بہت اہمیت دی ہے اور اسی طرح دوسرے کی آبرو کو خون اور مال کے ساتھ بھی نسبت دی ہے اسی لیے دین نے یہ دستور دیا ہے کہ دوسروں کی آبرو کی حفاظت کریں۔اورایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ یہ رویّہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اﷲ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا ہے۔ مفہوم: ’’اے ایمان والو! نہ مَردوں کی کوئی جماعت دوسرے مَردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔‘‘ (سورہ الحجرات) مذاق اڑانا کسی شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ سرور عالم ﷺنےفرمایا، ’’جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر ﷲ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی۔‘‘ (صحیح بخاری)
کسی کے مذاق بنانے میں ایک وجہ تو تکبرہے، کیوں کہ مذاق بنانے والاسمجھتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہوں جیسا وہ ہے، اگر اپنے حالات کا استحضار ہو تو کبھی کسی کی برائی اور غیبت کرنے اور کسی کا مذاق بنانے کی ہمت نہ ہو، نہ فرصت ملے دوسرے کا مذاق بنانے میں ایذا رسانی بھی ہے، اس سے اس کو قلبی تکلیف ہوتی ہے جس کا مذاق بنایا گیا ہے اور ایذا دینا حرام ہے۔
آنحضرت ﷺکبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے بلکہ تبسم فرماتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔آج کل ہنسی کے ٹی وی شو آتے ہیں جس میں ہنسی کے فوارے چھوڑتے ہوئے مسخرے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ عمل شرافت انسانی کے منافی ہے کہ اس طرح کی مجلسیں منعقد کی جائیں۔ کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے، اور جب دل مردہ ہو جائے تو نہ وہ برے کاموں پر ملامت کرے گا، اور نہ اعمال کا ذوق باقی رہے گا۔ایک حدیث میں آپﷺ نے آخر ت کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا کہ’’ جو چیزیں میں جانتا ہوں اگر تم ان کو جان لوگے تو تمھاری ہنسی کم ہو جائے گی، اور رونے میں اضافہ ہوگا‘‘۔ ( الفتح الکبیر ۳ ۔ ۴۲)کسی شخص کو اس کے گناہوں پر عار دلاتے ہوئے استہزا کر نا بھی تمسخر میں شامل ہے، آپ کا ارشاد ہے کہ جو کسی شخص کو اس کے گنا ہوں پر عار دلائے گا۔ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے۔( تر مذی)کسی کی کوئی اہم چیز چھپالینا اور اس کے ذریعہ اس کا مذاق اڑانا بھی ایک قبیح فعل ہے۔ ایک دفعہ کسی نے اپنے بھائی کی تلوار چھپائی آپؐ کو جب پتہ چلا تو آپ نے اس سے منع فرمایا اسی طرح کسی نے دوسرے شخص کے اونٹ کی رسی چھپالی تو اسے بھی آپ نے ناپسند فرمایا اور کہا کہ کوئی شخص اپنے بھائی کا سامان مذاق میں بھی نہ لے اور نہ حقیقت میں۔ ( ابو داؤد
اسوہ رسولؐ میں ہمیں مذاح کے کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آپﷺ اپنی مجالس میں مزاح کیا کرتے تھے۔ آپ کے مزاح کے کئی واقعات منقول ہیں۔ صحابی رسول عبداللہ بن الحارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے زیادہ مزاح کرنے والاکسی کو نہیں دیکھا۔ لیکن اس میں بھی آپ صداقت سے کام لیتے، سچائی کا دامن کبھی نہ چھوڑ تے۔کبھی آپ ﷺکی زبان جھوٹ سے آلودہ نہیں ہوتی۔


ایک مرتبہ آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺنے جواباً فرمایا: ’’اس صورت میں بھی میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا‘‘۔اس صداقت پر مبنی مزاح کے کئی واقعات ہمیں سیرت کی کتب میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔
ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول میرے لئے سواری کا انتظام کردیجئے۔ آپ ﷺنے فرمایا’’ میں تمہارے لئے اونٹ کا بچّہ مہیا کر دوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ اس اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا۔ آپ ﷺنے فرمایا کیا بڑا اونٹ، اونٹ کا بچّہ نہیں ہوتا۔ (احمد)
ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ ﷺنے فرما یا: اے ام فلاں جنت میں کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی۔ بوڑھی نے یہ سنا تو وہ افسردہ ہوکر واپس جانے لگی۔ آپ ﷺنے فرمایا: اسے بتادو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی۔(ترمذی)
اللہ تعالیٰ ہمیں تمسخر کے دیمک سے بچائے اور ہمارے تعلقات کو خوشگوار بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بنیان مر صوص کی طرح ایک دو سرے کے اختلاف طبع کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔( آمین)