آپﷺ ایک ایسی جاہل واَن پڑھ قوم میں پیدا ہوئے تھے جواپنے اعتقادات کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی تھی اور اس کی خاطر مرمٹنے کے لییتیار ہوجاتی تھی؛ مگرآپﷺ نے اِس کی کبھی پرواہ نہ کی، عین حرم میں جاکر توحید کی آواز بلند کرتے تھے اور وہاں سب کے سامنے نماز ادا کرتے تھے، حرمِ محترم کا صحن قریش کے رئیسوں کی نشست گاہ تھا؛ لیکن آپﷺ اُن کی موجودگی میں کھڑے ہوکر رکوع، سجدہ کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے، جب آیت:
“فَاصْدَعْ بِمَاتُؤْمَرُ”۔
)الحجر:۹۴(
“ترجمہ:اے محمد! جوتم کوحکم دیا جاتا ہے اس کو علی الاعلان سنادو”۔
نازل ہوئی توآپﷺ صفا پہاڑ پر چڑھ کر تمام اہلِ مکہ کوپکارا اور توحید کی ان کودعوت دی۔
قریش نے آپ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا؟ کس کس طرح اذیتیں نہیں پہنچائیں، جسم مبارک پر صحفِ حرم کے اندر نجاست ڈالی، گلے میں چادر ڈال کرپھانسی دینے کی کوشش کی گئی، راستہ میں کانٹے بچھائے گے؛ مگرآپﷺ کے قدم کوراہِ حق سے لغزش نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی، ابوطالب نے جب حمایت سے ہاتھ اٹھالینے کا اشارہ کیا توآپﷺ نے بڑے جوش اور ولولہ سے فرمایا کہ چچاجان! اگرقریش میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اِس فرض سے باز نہ آؤنگا، بلآخر آپﷺ کو اوربنی ہاشم کودوپہاڑوں کے درمیانی جگہ میں تین سال تک گویا قید رکھا گیا، آپﷺ کا اور آپﷺ کے افرادِخاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، وہاں کھانے پینے کی اشیاء لیجانے سے روکدیا گیا، بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، جوان درخت کے پتے کھاکھاکرزندگی بسر کرتے تھے، آخر آپﷺکے قتل کی سازش ہوئی، یہ سب کچھ ہوا مگر صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، ہجرت کے وقت غارِ ثور میں پناہ لیتے ہیں، کفار آپﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں بے یارومددگار محمدﷺ اور مسلح قریش کے درمیان چندگزکا فاصلہ رہ جاتا ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہﷺہم توپکڑے گئے، ہم دوہی ہیں اب کیا ہوگا؛ لیکن ایک اطمینان وتسکین سے بھری آواز آتی ہے، ابوبکرؓ ہم دونہیں تین ہیں “لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللھ مَعَنَا” )التوبہ:۴۰( گھبراؤ نہیں، ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت وبہادری میں اسوۂ حسنہ
میدانِ جنگ میں ایسے بھی موقع آئے کہ عام مسلمانوں کے قدم اُکھڑگئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے؛ مگراللہ کے رسول محمدﷺ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی مدد ونصرت پرپورا اعتماد وبھروسہ کرنے والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پرقائم رہے، جیسا کہ میدانِ اُحد میں اکثرمسلمانوں نے قدم پیچھے ہٹالیے مگرمحمداللہ کے رسول ﷺ اپنی جگہ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے، پتھر وں، تیروں، تلواروں اور نیزوں سے حملے ہورہے تھے، خود کی کڑیاں سرِمبارک میں دھنس گئی تھیں، دندانِ مبارک شہید ہوچکے تھے، چہرۂ انور زخمی ہورہا تھا؛ مگر اُس وقت بھی اپنا ہاتھ لوہے کی تلوار پر نہیں رکھا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ونصرت پر پورا اعتماد وبھروسہ تھا؛ کیونکہ آپﷺکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی، اس لیے اپنی جانب سے کسی پر حملہ نہ کیا۔
حنین کے میدان میں ایک مرتبہ جب تیروں کی بارش برسی توتھوڑی دیر کے لیے مسلمان پیچھے ہٹ گئے؛ مگرذاتِ اقدسﷺ اپنی جگہ پرثابت قدم مضبوطی کے ساتھ قائم تھی، سامنے سے تیروں کی بارش ہورہی ہے اوراِدھر سے آپﷺ”أَنَاالنَّبِیُّ لَاکَذِبْ أَنَاابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ”)میں پیغمبر ہوں جھوٹا نہیں ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں( کا نعرہ بلند فرماتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے، کیا کوئی ایسا بہادر سپہ سالار محمدﷺ کے علاوہ آپ کے علم میں ہے؟ کہ جس کی بہادری اور استقلال کا یہ عالم ہوکہ فوج کتنی ہی کم ہو کتنی ہی غیرمسلح ہو وہ اس کوچھوڑ کر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ گئی ہو؛ مگروہ، نہ تواپنی جان کے بچانے کے لیے بھاگا ہو اور نہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھایا ہو؛ بلکہ ہرحال میں زمینی طاقتوں سے غیرمسلح ہوکر آسمانی طاقتوں سے مسلح ہونے کی درخواست کرتا ہو اور غیبی طاقتوں سے لڑتا ہو۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں سے برتاؤ میں اسوۂ حسنہ
آپ نے دشمنوں سے بھی پیار ومحبت کرنے اور اُن کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا درس سنا ہوگا اور اپنے بزرگوں کوبھی نصیحت کرتے دیکھا ہوگا؛ لیکن اس کی عملی مثال آپ نے نہیں دیکھی ہوگی؟ آؤ ہم سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرت میں دکھاتے ہیں “سراقہ بن جعشم” ہجرتِ مدینہ کے موقع پرانعام کے لالچ میں مسلح ہوکر آپﷺ کوقتل کرنے نکلا تھا، آپﷺ کے قریب بھی پہنچ چکا تھااور بہت کچھ کوششیں بھی کیا؛ لیکن قدرت نے اس کا ساتھ نہ دیا بالآخر ہارکر اپنے ہتھیار ڈالدئیے خط امان کی درخواست کی، اس کی درخواست دربارِ رسالت ماٰب میں قبول کرلی گئی۔
اسی طرح ابوسفیان جواسلام اور آپﷺ کی دشمنی میں کئی جنگیں لڑی اور کتنے ہی مسلمان اُن کے سبب سے شہید ہوئے، جس نے کتنی ہی مرتبہ آپﷺ کے قتل کا اقدام کیا؛ لیکن اس میں ہمیشہ ناکام ہی رہا، جب وہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت عباسؓ کی امان میں دربارِ رسالت میں اطاعت وفرمابرداری کے ساتھ داخل ہوئے، توآپﷺنے، اُن کے تمام جرائم کو، جوگوہر حرم اِس کا متقاضی تھا کہ اُس کے بدلہ میں قتل کردئے جائیں؛ لیکن آنحضرتﷺ کے عفوِ عام نے یہ کہا کہ ڈرکاموقع نہیں ہے محمدرسول اللہﷺ انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہے، جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے؛ )اور اُن کے سردارِ مکہ ہونے کی حیثیت سے یہ بھی فرمایا کہ( ہراس شخص کوبھی معاف کیا جاتا ہے جوابوسفیان کے گھر میں چلاجائے اور ابوسفیان کی بیوی “ھندہ” جواسلام دشمنی میں عورتوں کی سردار تھی احد کے موقع پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاگاکر قریش کے سپاہیوں کا دل بڑھاتی تھی اور اُسی موقع پرآپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کے ساتھ کیسی بے ادبی کا معاملہ کیا، آپؓ کوقتل کروایا آپؓ کی لاش کے ناک کان کاٹ کر گلے کا ہار بنائی اور آپؓ کا سینہ چیرکرکلیجہ نکال کرکچا چبایا، لڑائی کے بعد جب آپﷺ نے اپنے پیارے چچا کا یہ حال دیکھا توبڑے بیتاب ہوگئے؛ لیکن جب وہی ھندہ فتح مکہ کے موقع پر دربارِ رسالت میں نقاب پوش ہوکر آتی ہے اور اِس موقع پر بھی آپﷺ سے کچھ گستاخی کرتی ہے تب بھی آپﷺ اس سے کوئی تعارض نہیں فرماتے؛ حتی کہ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تم نے میرے چچا کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ جب وہ اِس معجزانہ شانِ اخلاق کودیکھتی ہے تووہ بے اختیار پکاراٹھتی ہے، اے محمد ﷺ ! آج سے پہلے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی خیمہ سے مجھے نفرت نہ تھی؛ لیکن آج کے بعد سے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی کا خیمہ مجھے محبوب نہیں ہے۔
وحشی جوحضرت حمزہؓ کے قاتل ہیں، فتحِ طائف کے بعد بھاگ کر کہیں چلے جاتے ہیں اور جب وہ مقام بھی فتح ہوجاتا ہے توکوئی دوسری جائے پناہ کی جگہ نہیں ملتی؛ لوگ کہتے ہیں وحشی تم نے ابھی محمدﷺ کونہیں پہچانا، تمہارے لیے خود محمدﷺ کے آستانہ سے بڑھ کردوسری کوئی امن کی جگہ نہیں، وحشی حاضرِ خدمت ہوتے ہیں حضورﷺ وحشی کودیکھتے ہیں آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں پیارے چچا کی شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، قاتل سامنے موجود ہوتا ہے؛ پورے اختیارات کے باوجود زبانِ مبارک سے صرف یہ نکلتا ہے کہ جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے، تم میری مجلس میں آئنہد سے سامنے کے بجائے پیچھے بیٹھا کرو اس لیے کہ تم کودیکھنے سے میرے پیارے چچا کی مظلومیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
عکرمہ جو اسلام، مسلمانوں اور خود محمدرسول اللہﷺ کے سب سے بڑے دشمن یعنی ابوجہل کے بیٹے تھے جس نے آپﷺ کوسب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں یہ خود بھی اسلام کے خلاف لڑائیاں لڑچکے تھے، مکہ جب فتح ہوا تواُن کواپنے اور اپنے خاندان کے تمام جرم یاد تھے وہ بھاگ کریمن چلے گئے، اُن کی بیوی مسلمان ہوچکی تھیں اور محمدرسول اللہﷺ کوپہچان چکی تھیں وہ خود یمن گئیں، عکرمہ کومحمدﷺ کی طرف سے اطمنان دلاکر مدینہ منورہ لائیں، جب آنحضرتﷺ کواُن کی آمد کی اطلاع ہوتی ہے تواُن کے استقبال کے لیے آپﷺ اِس تیزی سے اُٹھتے ہیں کہ جسمِ مبارک پرچادر تک نہیں رہتی؛ پھرجوشِ مسرت سے فرماتے ہیں:
“مَرْحَباً بِالرَّاکِبِ الْمُھَاجِرِ”۔ ترجمہ:اے مہاجر سوار تمہارا آنا مبارک ہو۔
ذراغور فرمائیے یہ مبارکبادی کس کودی جارہی ہے؟ یہ خوشی ومسرت کا اظہار کس کے آنے پر ہورہا ہے؟یہ معافی نامہ کس کوعطاء ہورہا ہے؟ اُس کوکہ جس کے باپ نے آپﷺ کومکی زندگی میں سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، جس نے آپﷺ کے جسمِ مبارک پر نجاست ڈلوائی، جس نے آپﷺ پرحالتِ نماز میں حملہ کرنا چاہا، جس نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کرآپﷺ کوپھانسی دینی چاہی، جس نے دارالندوہ میں آپﷺ کے قتل کا مشورہ دیا، جس نے بدر کی لڑائی برپا کی اور صلح کی کسی بھی قسم کی تدبیر کوطئے ہونے نہیں دیا آج اسی کی جسمانی یادگار بیٹے کی آمد پر یہ مسرت وشادمانی ہے۔
اس طرح کے بے شمار واقعات سیرت کی بڑی بڑی کتابوں میں آپ کوملیں گے کہ آپﷺ نے اپنے دشمنوں کوعداوت کاجواب کس خوش اخلاقی، رحم دلی، عفوودرگذر اور اُس کے مقام ومرتبہ کی رعایت اور دعائے خیر کے ساتھ دیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی آپﷺ کے سامنے اپنی ماضی کی زندگی پرشرمندگی وپشیمانی سے پانی پانی ہوجایا کرتا تھا؛ پھرآپﷺ پرایسا فداوجانثار ہوجاتا تھا کہ جس کی مثال تاریخِ انسانی میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اِسی طرح آپﷺ نے اپنی کی زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ اعتقادات، عبادات ومعاملات کی رو سے ہوں یاحسنِ معاشرت واخلاقیات کی رو سے، کمالِ عبدیت وانسانیت کا اعلیٰ سے اعلیٰ اسوہ ونمونہ پیش فرمایا جس سے سیرت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اورآپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں ہے؛ بلکہ چھوٹے سے چھوٹا قول وفعل بھی محفوظ وموجود ہے، جومسلمانوں کے عمل اور دنیا کی مختلف زبانوں میں مستقل مضامین وکتابوں کی شکل وصورت میں موجود ومحفوظ ہیں، جس کے لکھنے اور واعتراف کرنے والے صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ دیگر مذہبوں کے ماننے والے مؤرخین ومضامین نگار بھی ہیں، یہ باتیں توآپﷺ کی شخصی ذات سے متعلق تھیں؛ اِسی طرح آپﷺ کی پوری تعلیمات بھی اپنی ساری امت کواِسی کا درس دیتی ہیں۔