(4)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی چوتھی خصوصیت)عملیت(

اسلام کے احکام اور آنحضرتﷺ کے زبانِ مبارک سے جو تعلیمات انسانوں کو پہنچائی گئی ہیں، قرآن پاک اُن کا مجموعہ ہے اوربحیثیت ایک عملی پیغمبر کے آنحضرتﷺ کی سیرتِ مبارک در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے،جو حکم آپﷺ پر اتارا گیا آپﷺ نے خود اُسے کردکھایا؛ خواہ وہ ایمان، توحید،نماز،روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ، خیرات، جہاد، ایثار، قربانی، عزم واستقلال، صبروشکر، سے تعلق رکھتا ہو یا اِن کے علاوہ حسنِ عمل وحسنِ خُلق سے غرض جس قدر بھی آپﷺپراحکامات اتارے گئے سب سے پہلے آپﷺ نے ہی اس پر عمل کرکے امت کے لیے ایک عملی مثال ونمونہ پیش فرمایا،جو کچھ قرآن میں تھا وہ سب مجسم ہوکر آپﷺ کی زندگی میں نظر آتا؛اِسی کوحضرت عائشہ صدیقہؓ نے کسی صحابیؓ کے پوچھنے پر کہ آپﷺ کی زندگی کیسی تھی تواِس پرآپ صدیقہؓ نے یہی جواب دیا تھا کہ جوکچھ قرآن میں ہے وہی عملی تصویر بنکر آنحضرتﷺ کی زندگی میں نظرآتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات قرآن مجید کی شکل میں اتارا ہے اُسی طرح اُس پر عمل آوری کے لیے سب سے پہلی وعمدہ مثال آنحضرتﷺ کی ذاتِ اقدس کی شکل میں مبعوث فرمایا؛ تاکہ لوگوں کوایک عملی نمونہ وآئیڈیل مل جائے؛ چنانچہ آنحضرتﷺ نے بھی اپنے عملِ معجز سے ایک ایساعملی نمونہ امت کے سامنے پیش فرمایا جو تمام انسانی زندگیوں پرایسے ہی اعجاز وفوقیت رکھتا ہے جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر، جس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں اُسوۂ حسنہ
پنج وقتہ نماز کی فرضیت کے بعدتہجد کی نمازعام مسلمانوں سے معاف ہوگئی تھی،مگر آنحضرتﷺ اس کوبھی تمام عمر ہر شب ادا فرماتے رہیاور پھر کیسی نماز کہ رات رات بھر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، کھڑے کھڑے پائے مبارک پر ورم آجاتا )اور پائے مبارک سوجھ جاتے( یہ دیکھ کرحضرت عائشہ صدیقہؓ عرض کرتیں: جب اللہ تعالی نے آپ کومعصوم وبخشے بخشایا بنایا تو پھر آپ اِس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، فرماتے: اے عائشہ! کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
نماز کا سب سے سخت موقع میدانِ جنگ میں دشمن کے مقابل کے وقت ہوتا ہے اس وقت بھی آپﷺ کا اُسوہ بدر کے موقع پر جیسے ہی نماز کا وقت ہوا فوراً اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔
مرض الموت میں شدت کا بخار تھا بہت تکلیف تھی،مگر نماز حتی کہ جماعت بھی ترک نہ فرمائی،قوت جواب دے چکی تھی خود چلکر نہ آسکتے تھے؛ مگرشوقِ نماز وشرکتِ جماعت اِتنی کہ دوصحابہؓ کے کندھوں پر سہارا لے کر مسجد تشریف لے آئے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ میں اُسوۂ حسنہ
عام مسلمانوں پر سال بھر میں صرف ایک مہینہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں،مگرآپﷺ کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں جاتا تھا، رمضان کا پورا مہینہ اور شعبان کے اکثر دن روزوں میں گزرتے تھے، ہر مہینے کے ایامِ بیض یعنی اسلامی مہینوں کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کواور ہرہفتہ میں جمعرات وپیر کواکثر روزہ رکھتے تھے،محرم کے دس دن اورشوال کے چھ دن روزوں میں گزرتے تھے، اس کے علاوہ عام حالات میں بھی اگرگھر میں کچھ کھانے کونہیں ہے تب بھی روزہ رکھتے تھے۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ومتاع میں اسوۂ حسنہ
امت کواپنے پاس مال وجائیداد رکھنے سے منع نہیں فرمایا؛ بلکہ حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ان کوحاصل کرنے کا حکم فرمایااور اُس میں چند شرائط کے ساتھ زکوٰۃ کے طور پر ڈھائی فیصد غریبوں ومحتاجوں کو دینے کا حکم فرمایا؛ لیکن اپنی ذات سے یہ عمل کرردکھایا کہ آپﷺ کے نام پرکوئی زمین وجائیداد نہ تھی اور نہ آپﷺکوعمربھر میں کبھی زکوٰۃ نکالنے کی نوبت آئی، اس لیے کہ آپﷺ اپنے پاس کچھ رکھتے ہی نہ تھے، جو کچھ کہیں سے غلہ آپﷺ کے حصہ میں آتا آپﷺ سال میں ایک مرتبہ پورے سال کا غلہ ازواجِ مطہرات کے یہاں بقدرِ ضرورت بھجوادیتے، بقیہ تمام کا تمام مدینہ کے محتاجوں وضرورتمندوں میں تقسیم فرمادیتے؛ اگرآپ ﷺکے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا توکسی سے قرض لیکر دیتے تھے؛ لیکن پوری زندگی میں آپﷺ نے کسی کے سوال کے جواب میں “نہیں” کا لفظ نہیں فرمایا؛ بلکہ مسلمانوں میں عام حکم تھا کہ جوکوئی مسلمان قرض چھوڑ کرمرجائے تواس کی اطلاع مجھکو دو میں اس کا ذمہ دار ہوں، میں اس کا قرض ادا کرونگا۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہدوقناعت میں اُسوۂ حسنہ
اُمت کوزہدوقناعت کی صرف تعلیم ہی نہ دی؛ بلکہ عمل کرکے بھی دکھلادیا، عرب کے گوشے گوشے سیجزیہ،خراج،عشر اور زکوۃ وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے؛مگر امیر عرب کے گھر میں وہی فقر تھا اور وہی فاقہ تھا،آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ کہا کرتی تھیں کہ حضور ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر دووقت بھی سیر ہوکر آپﷺ نے نہیں کھایا؛وہی بیان کرتی ہیں کہ جب آپﷺ نے وفات پائی تو گھر میں اس دن کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کے سوا کچھ موجود نہ تھا اور چند سیر جو کے بدلے میں آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں رہن تھی۔
آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو،اِن چند چیزوں کے سوا اور کسی چیز کا حق نہیں، رہنیکوایک جھونپڑی، تن ڈھانکنے کوایک کپڑا، پیٹ بھرنے کوروکھی سوکھی روٹی اور پانی، یہ محض آپﷺ کے خوشنما الفاظ کی بندش نہ تھی؛ بلکہ یہی آپﷺ کا طرزِ عمل اور زندگی کا عملی نمونہ تھا، آپﷺ کے رہنے کا مکان ایک حجرہ )چھوٹا ساکمرہ( تھا اتنا چھوٹا کہ ایک شخص لیٹے اوردوسرا شخص نماز پڑھے تولیٹنے والے کوپیر قریب کرلینا پڑے وہ بھی حجرہ ایساکہ جس کی کچی دیواریں اور کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں کی چھت تھی، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جوبدنِ مبارک پر کپڑا ہوتا تھا اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہوتا ہی نہ تھا کہ جس کو تہہ کرکے رکھا جائے، ایک مرتبہ ایک سائل خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں بہت بھوکا ہوں آپﷺ نے ازواجِ مطہراتؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کوہوتوبھیج دیں، ہرجگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایک مرتبہ صحابہؓ نے آپﷺ کی خدمت میں فاقہ کشی کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ اُن پرایک پتھر بندھا ہے، آپﷺ نے اپنے شکمِ مبارک پر سے کپڑا ہٹایا توایک کے بجائے دوپتھر بندھے ہوئے تھے )یعنی آپﷺ ان سے سخت بھوکے تھے( اکثربھوک کی وجہ سے آواز میں کمزوری ونقاہت آجاتی تھی، سنہ۹ھ میں جب اسلامی حکومت یمن سے شام تک پھیلی ہوئی تھی اُس وقت بھی آپؐ کے گھرکی مالیت جسم مبارک پر ایک تہبند، ایک کھڑی چار پائی، سرہانے ایک تکیہ جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری تھی، ایک طرف تھوڑے سے جو، ایک کونے میں ایک جانور کی کھال، کھونٹی پر پانی کا مشکیزہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایثار )اپنی ذات پردوسروں کوترجیح دینے( میں اسوۂ حسنہ
اپنی چھیتی ولاڈلی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا دربارِ رسالت میں اپنی عسرت وتنگدستی کی وجہ سے چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اور مشک میں پانی بھربھر کرلانے سے سینہ پر نیل کے داغ پڑھ گئے تھے، جس کی وجہ سے دربارِ رسالت میں ایک خادمہ کی درخواست پیش فرماتی ہیں، اس پر آپﷺ کا جواب ملتا ہے کہ ابھی صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہواہے بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست پیش کرچکے ہیں، اُن سے پہلے تمہاری درخواست کیسے قبول کی جائے۔
ایک مرتبہ آپﷺ کے پاس چادر نہ تھی، ایک صحابیہؓ نے لاکر پیش فرمائی اسی وقت ایک صاحب نے کہا کہ کیسی اچھی چادر ہے! آپﷺ نے فوراً اتار کر ان کی نذر کردی۔
ایک صحابی کے گھر کوئی تقریب تھی؛ مگرکوئی کھانے کا انتظام نہ تھا اُن سے کہا کہ عائشہؓ کے پاس جاکر آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ وہ گئے اور جاکر لے آئے؛ حالانکہ آپﷺ کے گھر میں آٹے کے سوا رات کے کھانے کوکچھ اور نہ تھا، ایک دن صفہ کے غریبوں کولیکر حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا جوکچھ کھانے کوہو لاؤ، دال کا پکا ہوا کھانا حاضر کیا گیا وہ کافی نہ ہوا، کوئی اور چیز طلب کی توسوکھے کھجور کا حریرہ پیش ہوا؛ پھرآخر میں دودھ آیا؛ یہی مہمان نوازی کی گھر میں آخری قسط تھی جوحاضرِ خدمت کردی گئی۔