بنی نوع انسان پر یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات بے حد و حساب ہیں ان کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن سب سے بڑی نعمت اور احسان عظیم آقائے نامدار فداہ ابی و امی ﷺ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی کائنات کیلئے رحمت اور آپ کی بعثت بنی نوعِ انسان کے لیے نعمت ہے۔ اور خداوند قدوس کے بعد کائنات کی معزز ترین ہستی اور بزرگ ترین ذات ہونے کی حیثیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حاصل ہے۔
’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت ہمارا جزو ایمان ہے اور محبت کااولین تقاضا ہے محبوب کی شخصیت کے حالات کی جستجو۔ ان احوال و مقامات کا بار بار تذکرہ جن سے وہ شخصیت گزری ہوتی ہے۔
ع ذکر حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے
اورا س شخصیت کے احکام و فرامین بلکہ اشارات و ہدایات کی اطاعت۔ ربیع الاول کا مقدس مہینہ ہر سال ہمیں اسی سعادت سے بہرہ ور ہونے کا پیغام لاتا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت موضوع رکھا ہے۔
دنیا میں یک حیثیتی بڑے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی مثلاً اگر ہم سکندر اعظم ٗ نپولین اور ہٹلر کولیں تو ان کی زندگی صرف ایک سپہ سالار اور فاتح کیلئے مفید مواد مطالعے کے لیے پیش کرسکتی ہے۔ گوتم بدھ کی زندگی میں ریاضت وعبادت ہی خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔ شکسپیئر صرف شاعر تھا ٗ افلاطون و ارسطو صرف حکیم و فلسفی تھے ٗ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔ ایک پہلو اگر روشن ملتا ہے تو دوسرا پہلو تاریک دکھائی دیتا ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشہ کے ساتھ پوری طرح متوازن ہے اور پھر ہر گوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ ہے۔ جلال ہے تو جمال ہے ٗ روحانیت ہے تو مادیت بھی ہے ٗ معاد ہے تو معاش بھی ہے ٗ دین ہے تو دنیا بھی ہے ٗ ایک گوشہ بے خودی ہے مگر اس کے اندر خودی کا بھی ذکر ہے ٗ خدا کی عبادت ہے تو اس کے ساتھ بندوں کے لیے محبت و شفقت بھی ہے ۔ گہری مذہبیت ہے تو دوسری طرف ہمہ گیر سیاست بھی ہے ۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے مگر ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی کا بکھیڑا بھی نہایت خوبصورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی ہے ٗ ایک بار جو اس درس گاہ تک آپہنچا پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں۔ انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی ہے وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گر ہے۔ اسی لیے اس ہستی کو بجا طورپر ’’ انسان اعظم‘‘ کے لقب سے پکارا جاسکتا ہے۔
حسنِ یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
مطالعہ سیرت کیوں اور کیسے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کس لیے کیا جائے ٗ کیسے کیا جائے؟
ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت یعنی سوانح حیات و تعلیمات کا مطالعہ اب بھی کیوں کیا جائے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ علوم و فنون میں بے انتہا ترقی ہو چکی ہے ٗ متمدن قوموں کے تصور حیات میں زمین و آسمان کا فرق ہو چکا ہے؟ یہ سوال ایک تفصیلی جواب چاہتا ہے کہ خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بن عبداللہ فداہ ابی و امی کی سیرت کا مطالعہ کیوں کیا جائے اوراس غرض کے لیے کسی اورکاکیوں نہیں؟
انسانی زندگی کے دوہی بڑے شعبے ہیں۔ ایک معاش اور ایک معاد۔ ایک تو انسان کے تعلقات اپنے خالق و مالک کے ساتھ اور دوسرے انسان کے تعلقات انسان اور دیگر مخلوق کے ساتھ۔ پہلی قسم میں اعلیٰ ترین مرتبہ عقائد و عبادت کے متعلق رہنمائی اور پیغمبری ہے تو دوسری قسم میں اعلیٰ ترین مرتبہ حکمرانی ہے۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بیک وقت یہ دونوں کمالات حاصل تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات والا صفات جس نے ایسے زمانے میںمبعوث ہو کر جب کہ دنیا جہالت و گمراہی کی انتہائی حدود پر پہنچ چکی تھی اس کو انسانیت صحیحہ کے راستے پر کھڑا کر دیا۔ آج بھی جب کہ ہم مختلف وجوہ کی بناء پر ایام جاہلیت سے قریب تر ہو رہے ہیں صرف اسی شمع ہدایت سے اکتساب ہی ہماری نجات کا حقیقی باعث ہوسکتا ہے۔
ہر نعمت کا شکر ادا کرنا مہذب انسانوں کا لازمی خاصہ ہوتا ہے۔ اس عظیم ترین نعمت کا شکر ادا کرنا بھی اسی بناء پر نہایت ضروری ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اس نعمت عظیم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حالات اور واقعات کا علم حاصل کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی دنیاوی زندگی میں کن کن مراحل سے گزرے ۔ کون کون سی مشکلات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو درپیش تھیں اور کن کن احوال و ظروف میں زندگی کے مروجہ نظام میں انقلاب برپا کیا۔ پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوت کیا تھی ٗ کس پیغام کو عام کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شب و روز ہمہ تن مصروف رہے۔اس کے بعد یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوت و پیغام کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات طیبہ میں کتنا حصہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا رنگ کیا تھا ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی نجی زندگی کیسی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معاشرتی زندگی میں کیا احوال کارفرما تھے اور آخر میں یہ کہ اس دعوت و پیغام کانتیجہ کیا نکلا۔ دنیا کے اخلاق و عادات ٗ علوم و فنون ٗ تہذیب و تمدن ٗ معاشرت و معیشت ٗ آداب و سیاست ٗ غرض یہ کہ ہر شعبہ زیست میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اور دنیا کی اس زندگی کے انفرادی اوراجتماعی نقشوں میں کتنی عظیم خوشگواری اور ہم آہنگی پیدا ہوئی۔
تاریخیت ٗ مختصر حالا ت زندگی
(الف) تاریخیت:
وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک آئیڈیل سیرت کا کام دے اس کے لیے متعدد شرطوں کی ضرورت ہے۔ جن میں سب سے پہلی اور اہم شرط تاریخیت ہے۔ تاریخیت سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو سوانح اور حالات پیش کئے جائیں وہ تاریخ اور روایات کے لحاظ سے مستند ہوں۔ ا ن کی حیثیت قصوں اورکہانیوں کی نہ ہو۔ روزمرہ کا تجربہ ہے کہ انسان کی ایک سائیکالوجی یہ ہے کہ کسی سلسلۂ حیات کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ فرضی یا خیالی یامشتبہ ہے تو خواہ وہ کسی قدر مؤثر انداز میں کیوں نہ پیش کیا جائے ٗ طبیعتیں اس سے دیرپا اور گہرا اثر نہیں لیتیں۔ اس لیے ایک کامل انسان کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کے تمام اجزاء کی تاریخیت پر یقین ہو۔
تاریخیت کے باب میں تمام دنیا متفق ہے کہ اس حیثیت سے اسلام نے اپنے پیغمبر کی اور نہ صرف اپنے پیغمبر کی بلکہ ہر اس چیز کی اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک سے تھا جس طرح حفاظت کی ہے ٗ وہ عالم کے لیے مایۂ حیرت ہے۔
جان ڈیون پوٹ نے اپنی کتاب ’’ اپالوجی فارما اینڈ دی قرآن‘‘ کو اس طرح شروع کیا ہے:
’’ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام مقننین اور فاتحوں میں ایک اور فاتحوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے وقائع عمری محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقائع عمری سے زیادہ تر مفصل اور سچے ہوں۔ ‘‘
اگر یتیم ہو تو عبداللہ اور آمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو ٗ اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے کو دیکھو ٗ اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو ٗ اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو ٗ جو حجر اسود کو ایک گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے ۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو۔ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ و عائشہ (رضی اللہ عنہما) کے مقدس شوہر کی حیات پاک کامطالعہ کرو ۔ غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ تمہاری سیرت کی درستی اور اصلاح کا سامان تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔
(ب) مختصر حالات زندگی
اس شاخ گل کی اٹھان دیکھئے جس کی تواضع کانٹوں سے کی گئی۔
عرب کے ممتاز ٗ مہذب اوراعلیٰ روایات رکھنے والے خاندان قریش میں سلیم الفطرت والدین حضرت عبداللہ اور آمنہ سے ایک انوکھا سا بچہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نام یتیمی کے سایہ میں پیدا ہوئے۔ یہ 20 اپریل 571ء میں 9 ربیع الاول اور دو شنبہ کی بات ہے۔ ایک غریب مگر شریف ذات کی دایہ حضرت حلیمہ سعدیہ کا دودھ پی کر دیہات کے صحت بخش ماحول کے اندر فطرت کی گود میں پلتا ہے۔ بکریاں چرا کر گلہ بانیٔ اقوام کی تربیت پاتا ہے۔ بچپن کی پوری مسافت طے کرنے سے پہلے یہ انوکھا بچہ ماں کے سایۂ شفقت سے محروم ہو جاتا ہے بعمر 6 سال ۔ دادا کی ذات کسی حد تک والدین کے اس خلا کو پرُ کرنے والی تھی ٗ لیکن یہ سہارا بھی چھین لیا جاتا ہے ٗ بعمر8 سال۔ بالآخر چچا حضرت ابو طالب کفیل بنتے ہیں۔ یہ گویا مادی سہاروں سے بے نیاز ہو کر ایک آقائے حقیقی کے سہارے گراں بہا فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی تیاری ہو رہی ہے ؎
ع خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے
جوانی کے دائرہ میں قدم رکھنے تک یہ انوکھا بچہ عام بچوں کی طرح کھلنڈرا اور شیریر بن کر سامنے نہیں آتا ٗ بلکہ بوڑھوں کی سی سنجیدگی سے آراستہ نظر آتا ہے۔ جوان ہوتا ہے تو انتہائی فاسد ماحول میں پلنے کے باوجود اپنی جوانی کو بے داغ رکھتا ہے۔ جہاں گلی گلی شراب کے کشید کرنے کی بھٹیاں لگی ہوں اور گھر گھر شراب خانے کھلے ہوں وہاں یہ جداگانہ فطرت کا نوجوان قسم کھانے کو بھی شراب کا ایک قطرہ تک زبان پر نہیں رکھتا۔ جہاں داستان گوئی اور موسیقی کلچر کا لازمہ بنے ہوئے تھے ٗ وہاں کسی اور ہی عالم کا یہ نوجوان لہو و لعب سے بالکل الگ رہا۔ اور دو مرتبہ ایسے مواقع پیدا ہوئے بھی کہ یہ نوجوان ایسی مجالس تفریح میں جا پہنچا لیکن جاتے ہی ایسی اونگھ طاری ہوئی کہ سمع و بصر کا دامن پاک رہا۔ جہاں جنگ ایک کھیل تھی اور انسانی خون بہانا ایک تماشا تھا ٗ وہاں احترام انسانیت کا علمبردار یہ نوجوان ایسا تھا کہ جس کے دامن پر خون کی ایک چھینٹ نہ پڑی تھی ٗ نو عمری میں اس نوجوان کو حربِ فجار نامی جنگ عظیم میں شرکت کا موقع پیش آیا اور اگرچہ اس نے قریش کے برسرحق ہونے کی بناء پر اس میں حصہ لیا تھا لیکن پھر بھی کسی انسانی جان پر خود ہاتھ نہیں اٹھایا۔
پھر اس پاکباز و عفیف نوجوان کی دلچسپیاں دیکھئے کہ عین بہک جانے والی عمر میں وہ اپنی خدمات اپنے ہم خیال نوجوانوں کی ایک اصلاح پسند انجمن کے حوالے کرتا ہے جو حلف الفضول کے نام سے غریبوں اور مظلوموں کی مدد اور ظالموں کی چیرہ دستیوں کے استیصال کے لیے قائم ہوئی تھی۔ اس کے شرکاء نے اس مقصد کے لیے حلفیہ عہد باندھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دورِ نبوت میں اس کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ :
’’ اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں اس سے نہ پھرتا اور آج بھی ایسے معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں۔ ‘‘
پھر اس نوجوان کی صفات اور صلاحیتوں کا اندازہ اس سے کیجئے کہ تعمیر کعبہ کے موقعہ پر حجر اسود نصب کرنے کے معاملہ میں قریش میں کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اور تلواریں میانوں سے باہر نکل آتی ہیں۔ انتہائی جذباتی تناؤ کی اس فضا میں یہ جج اور صلح کاعلمبردار ایک چادر بچھاتا ہے اورا س پر پتھر کو اٹھا کر رکھ دیتا ہے اور پھر دعوت دیتا ہے کہ تمام قبیلوں کے لوگ مل کر اس چادر کو اٹھائیں۔ جھگڑے کا سارا غبار چھٹ جاتا ہے اور چہرے خوشی اور اطمینان سے چمک اٹھتے ہیں۔
یہ نوجوان میدانِ معاش میں قدم رکھتا ہے تو تجارت جیسامعزز اور پاکیزہ مشغلہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کوئی بات تو اس نوجوان میں تھی کہ اچھے اچھے اہل سرمایہ نے پسند کیا کہ یہ نوجوان ان کا سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے اورکاروبار کرے۔ پھر سائب قیس بن سائب مخزومی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور جن دوسرے لوگوں کواس نوجوان سے حسن معاملت کاتجربہ ہوا ان سب نے اسے تاجر امین کا لقب دیا۔
پھر دیکھئے کہ یہ نوجوان رفیقۂ حیات کا جب انتخاب کرتا ہے تو ایک ایسی خاتون سے رشتۂ مناکحت استوار کرتاہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خاندان اور سیرت و کردار کے لحاظ سے نہایت اشرف خاتون ہے۔ اس کا یہ ذوق انتخاب ٗ اس کے ذہن ٗ اس کی روح ٗ اس کے مزاج اور سیرت کی گہرائیوں کو پوری طرح نمایاں کر دیتا ہے۔
پھر دیکھئے کہ یہ یکتائے زمانہ نوجوان گھر بار کی دیکھ بھال تجارت اور دنیوی معالات کی گوناگوں مصروفیات سے فارغ ہو کر جب کبھی کوئی فرصت کا وقت نکالتا ہے تو اسے تفریحات اور تعیشات میں صرف نہیں کرتا ٗ اسے کوچہ گردی میں اور مجلس کی آرائیوں اور گپوں میں نہیں کھپاتا ٗ اسے سو سو کر غفلت میں بیکار پڑے رہ رہ کر بھی نہیں گزارتا بلکہ سارے ہنگاموں سے کنارہ کش ہو کر حرا کی خلوتوں میں خدائے واحد کی عبادت اوراس کا ذکر اپنی فطرت مطہرہ کی رہنمائی کے مطابق کرتاہے۔ اپنی قوم اور اپنے ابنائے نوع کو اخلاقی پستیوں سے نکال کر مرتبۂ ملکوتی پر لانے کی تدبیریں سوچتا ہے۔
کیا یہ نقشۂ زندگی بول بول کر نہیں بتا رہا کہ یہ ایک نہایت غیر معمولی عظمت رکھنے والا انسان ہے؟ خود قریش نے اسے صادق و امین ٗ دانا و حکیم ٗ اور پاک نفس وبلند کردار تسلیم کیا۔ داعیٔ برحق کے نقشہ زندگی کو خود قرآن نے دلیل بنا کے پیش کیا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔
’’ کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے۔‘‘
بدقسمتی سے اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات مختلف نظریات نظام ہائے زندگی اورغیر مسلم لیڈروں اور جرنیلوں کے حالات سے تو واقف ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے جزئیات بھی انہیں معلوم ہوتے ہیں مگر اپنے اکابر کے حالات و واقعات اور ہدایات و تعلیمات کی اہم اور بنیادی باتوں سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے اور ہماری قوم کے عوام و خواص کے لیے لمحہ فکریہ ۔ نوجوان نسل کو جب تک اپنے اکابر کے حالات معلوم نہیں ہوں گے وہ بحیثیت مجموعی احساس کمتری میں مبتلا رہے گی۔ اپنے شاندار ماضی اور عظیم روایات سے اس کا رشتہ کٹ جائے گا اور نتیجہ کے طورپر وہ اپنی زندگی میں ’’ ہدایت‘‘ طلب کرنے کے لیے ان قوموں اور شخصیتوں کے افکار و نظریات کی طرف رجوع کرتی رہے گی جو بحیثیت ایک ’’ عظیم قوم‘‘ کے مسلمانوں کا وجود تک برداشت نہیں کرسکتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ محبت کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور ان کو پورا کرنے کا عزم صمیم کر لیا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم انفرادی طورپر اور اجتماعی طورپر بھی اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی امید رکھ سکتے ہیں:
وَاَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
’’اور اللہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ اور فتح سے ہمکنار ہونے اور رضائے الٰہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اپنی تاریخ اپنی ملت سے رہو تم باوفا
بندگی تم کو مبارک صاحبوں کو صاحبی
تیری ذات سے محبت تیرے حکم کی اطاعت
یہی زندگی کا مقصد یہی اصل دین و ایماں