خلق عظیم

انسان معاشرہ میں پیدا ہوتا ہے اور اسی میں جیتا اور مرتا ہے ٗ ارسطو نے اسے ایک معاشرتی جانور کہا ہے ٗ ماں کی آغوش سے لے کر لحد کی آغوش تک اس کی زندگی معاشرہ کے مختلف علاقوں اور رابطوں سے جڑی ہوئی ہے ان علاقوں اور رابطوں کی اسے ہر وقت ضرورت ہے۔ یہ اس کی بشریت کے اجزاء ہیں ان کو توڑ کر وہ ایک انسان کی طرح زندگی نہیں بسر کرسکتا ارسطو ہی کاقول ہے کہ جسے معاشرہ کی حاجت نہ ہو وہ یا خدا ہے یا درندہ ٗ انسان نہیں۔
ہماری اس خصوصیت نے ہمارے وجود کے گرد حقوق و فرائض کا ایک وسیع جال بنا دیا ہے ہم پر ہمارے گھر کے حقوق ہیں ٗ ہمارے محلہ کے حقوق ہیں ٗ ہمارے شہر ہمارے ملک اور کل دنیا کے حقوق ہیں اور ان سب پر ہمارا حق ہے جو شخص ان حقوق اور ذمہ داریوں کو برتنے میں جتنا زیادہ کامیاب ہواا سے اتنا ہی زیادہ شریف ٗ شائستہ اور معیاری شہری سمجھا جاتا ہے ایک فرد اوردوسرا فرد یا افراد اور معاشرہ کے رشتوں اور تعلقات کے عدل و انصاف اور ہمدردی اور سلامتی کی بنیادوں پر رکھنے کے لیے د و چیزیں ہیں قانون اوراخلاق ہماری نجی اور اجتماعی زندگی کی عافیت اور اس کے صاف ستھرے پن کا انحصار انہی پر ہے۔
دنیا کے سارے مذہبوں نے اپنی بنیاد اخلاق پر رکھی ہے اسلام نے تو ایک طور سے اخلاق کی اہمیت کو عبادت سے بھی بڑھا دیا ہے اور جب کہ کفر و شرک کے علاوہ ہر گناہ خدا کے نزدیک معافی کے قابل قراردیا ہے۔ باہم انسانوں کے اخلاقی فرائض کی کوتاہی کی معافی ان بندوں کے ہاتھ رکھی ہے جن کے حق میں وہ ظلم ہوا ہے۔
اسلام اخلاقِ حسنہ کو ایمان کی پہچان اور اس کے نتائج و ثمرات بتاتا ہے جن مسلمانوں کے اخلاق جتنے اچھے ہوں اتنا ہی اس کاایمان مضبوط اور اس کی عبادت مقبول ہوگی۔
اگر کوئی شخص ایمان کا دعویدار ہو اورخدا تعالیٰ کی عبادت کا اہتمام بھی رکھتا ہو ٗ مگر اخلاق کی دولت سے محروم ہو اور اہل و عیال اعز و اقرباء ٗ دوست و احباب پڑوسی اور اہل وطن او ر ساری انسانی برادری حتیٰ کہ جانوروں تک سے جواس کا تعلق ہے اسے بحسن و بخوبی انجام نہ دیتا ہو تو یہ عملی ثبوت اسی بات کا ہوگا کہ اس کا ایمان اس کی زبان سے اتر کرنفس کی گہرائیوں تک نہیں پہنچا ہے گویا کہ ہمارے اخلاق ہماری ایمانی حالت کی کسوٹی ہیں ہم اپنے اخلاق کے آئینہ میں اپنے روح کاعکس دیکھ سکتے ہیں۔
تعلیم محمدی ﷺ اور اخلاق
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی احادیث میں اس طرح کے مضامین بکثرت آئے ہیں ’’ مسلمانوں میں کامل ایمان اسی کاہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو ۔ ‘‘
’’ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے بندوں میں اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ ‘‘
’’ لوگوں کو قدرتِ الٰہی کی طرف سے جو چیزیں عطا ہوئی ہیں ان میں سب سے بہتر اچھے اخلاق ہیں۔ ‘‘
’’ تم میں میرے سب سے پیارے اور مجھ سے سب سے قریب وہ ہیں جو تم میں خوش خلق ہیں اور مجھے ناپسند اور قیامت میں مجھ سے دور وہ ہوں گے جوتم میں بداخلاق ہوں۔ ‘‘
’’ جس کی نماز اس کو برائی اور بدی سے باز نہ رکھے اس کی نماز نماز نہیں۔‘‘
’’ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘
’’ اچھے خلق کو ہی اسلام کہتے ہیں۔ ‘‘
حسنِ اخلاق کے پایہ اور مرتبہ کا اندازہ اوپر کی ان ا حادیث سے ہوگیا ہوگا کہ اچھے اخلاق ایمان کے لوازم ہی نہیں بلکہ وہ انسان کو ان بلندیوں تک بھی پہنچا دیتے ہیں جن تک وہ کثرت عبادت کے ذریعہ پہنچ سکتا ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
’’ انسان حسنِ خلق سے وہ درجہ پا سکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتاہے۔‘‘
’’ قیامت کے ترازو میں حسنِ خلق سے زیادہ بھاری اور چیز نہ ہوگی۔ ‘‘
’’ اچھے اخلاق والا دنیا اور آخرت کی نیکیاں لے گا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عہد مبارک میں دو صحابی بی بیاں تھی ایک دن بھر روزہ رکھتی اوررات بھر عبادت کرتی اور صدقہ دیتیں مگر زبان دراز ایسی تھیں کہ پڑوسیوں کے دل چھلنی کئے رہتیں ٗ دوسری بی بی صرف فرض نماز پڑھتی اور غریبوں کو کپڑے بانٹ دیا کرتیں مگر ایذا ان سے کبھی کسی کونہ پہنچتی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان دونوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلی کے بابت فرمایا کہ اس میں کوئی نیکی نہیں وہ اپنی بدخلقی کی سزا بھگتے گی اور دوسری کی بابت فرمایا کہ وہ جنتی ہوگی۔
مختلف لوگوں کی متاثر ہونے کی کیفیات میں جو اختلاف ملتا ہے اس کا اقتضایہ ہے کہ ہمارا نظام اخلاق ایسامتوازن اور معتدل ہو کہ اس میں نرم و گرم جمالی و جلالی دونوں قسم کی قوتوں کا مناسب امتزاج پایاجاتا ہو نہ وہ شروع سے آخر تک مسیحیت کی انفعالیت اورعاجزی ہی کی تشریح ہو ٗ اور نہ شریعت موسوی کی قانونیت اور سختی ہی کی توضیح ٗ بلکہ ان دونوں کواپنے آغوش میں لے کر ایک ایسا توسط اور توازن پیدا کرے کہ امن و عدل ٗ بلند ہمتی اور استقلال قوت و حرکت آزادی اور حق گوئی ٗ عزم وقار ٗ عاجزی اور فروتنی رحم و عفو ٗ حکم و بردباری ٗ صبر و سکون ٗ رفاقت و محبت ٗ استغناء قناعت ٗ توکل و سخاوت ٗ عصمت و حیا ٗ شجاعت مردانگی ٗ سیر چشمی ٗ بلند نظری ٗ غرض تمام انسانی اوصاف اس میں نمایاں ہوں۔
خلق عظیم
اسلامی اخلاقیات کی ایک اور خوبی جو اسے دوسرے مکاتب اخلاق پر فوقیت دیتی ہے اس کے معلم اخلاق کا وہ عظیم الشان اور آسان اسلوب تعلیم ہے جس کی مثال تاریخ کو لاکھ کنگالئے نہیںملتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قول کے ساتھ عمل کو اتنے مکمل طریقہ پر ملا لیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک قرآن مجید کی جیتی جاگتی زندہ و تابندہ تفسیر بن گئی تھی۔
جس کے سپرد روح انسانی کی تعلیم اور تزکیہ ہو وہ خود اگر زندگی کے تمام نشیب و فراز اور معاشرہ کے رنج و غم سے ہو کر نہ گزرے تو اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتا ٗ کیونکہ پھر اس کی تعلیم عملی حیثیت رکھنے کی بجائے علمی و نظریاتی یعنی اصولوں کا گلدستہ بن جائے گی۔ پیغمبر اسلام کی شخصیت میں ہم کو ایک بے مثال جامعیت ملتی ہے ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت سے زندگی کے تمام پہلو ابھرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ظلم کے پہاڑ ٹوٹے مصیبتوں اور آزمائشوں کی آندھیاں بھی آئیں ناکامیوں کا اندھیرا بھی چھایا اور فتح مندی اور کامرانی کے شادیانے بھی بجے قوت و حکومت کے پرچم بھی لہرائے اور مسرتوں کے پھول بھی کھلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دوستی بھی برت کر دکھائی اور دشمنی بھی ٗ جنگیں بھی لڑیں ٗ صلح و آشتی کے عہد نامے بھی کئے ٗ دن دن بھر روزے رکھے اور رات رات بھر نمازیں بھی پڑھیں ملکی اور سیاسی گتھیاں بھی سلجھائیں ٗ غارِ حرا میں خلوت نشیں اور ماہِ رمضان میں معتکف بھی ہوئے اور خانگی زندگی کا لطف بھی اٹھایا ٗ دین پاک کے سب سے بڑے مبلغ ہادی اور رہبر کا فرض بھی انجام دیا اور مسلمانوں کی آزاد ریاست کی داغ بیل بھی ڈالی۔
نرمی اور سختی کے مواقع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خوب پہچانتے تھے جہاں حدودِ الٰہی کے ٹوٹنے کا سوال ہوتا تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سختی کرنے میں تامل نہ فرماتے تھے اور جہاں مستحبات اوراخلاقی فضائل اور رذائل ہی سے تعلق ہوتا تھا وہاں نرمی سے کام لیتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا مگر جو کوئی شریعت کی حد توڑتا تھا اسے سزا دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خندہ جبیں اور نرم خو تھے ٗ سخت مزاج اور سنگدل نہ تھے ٗ نہ شوروغل کرتے تھے ٗ نہ کوئی برا کلمہ منہ سے نکالتے تھے نہ عیب جو سخت گیر تھے کوئی بات ناپسند ہوتی تو اغماض فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے نفس سے یہ تین باتیں بالکل خارج کر دی تھیں۔
۱… بحث و مباحثہ۔
۲… بے ضرورت باتیں کرنا۔
۳… بے مطلب کی بات میں پڑنا۔
دوسروں کے متعلق بھی تین باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔
۱… کسی کو برا نہیں کہتے تھے۔
۲… کسی کی عیب گیری نہیں کرتے تھے۔
۳… کسی کی ٹوہ میں نہیں لگتے تھے۔
دوسروں کی منہ سے اپنی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے نہایت فیاض ٗ نہایت راست گو ٗ نہایت نرم طبع اور نہایت خوش صحبت تھے اگر کوئی دفعتاً سامنے آجاتا تھا تو مرعوب ہو جاتا تھا لیکن جیسے آشنا ہو تا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنے لگتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خادم خاص تھے کہتے ہیں کہ میں نے دس برس تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی کسی معاملے میں بازپرس نہیں فرمائی۔
جرمن ڈاکٹر گستاف وائل نے لکھا ہے:
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنی قوم میں ایک روشن مثال تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کاکردار پاک اور بے داغ تھا ٗ لباس اور غذا سب میں ایک انوکھی سادگی تھی ٗ مزاج میں اتنی سادگی اور بے تکلفی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنے ساتھیوں سے کوئی خاص تعظیم و تکریم قبول نہیں فرماتے تھے اور اپنے غلام سے بھی ایسی خدمت نہ لیتے تھے جو انجام دے سکتے آئے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) بازاروں میںسودا خریدتے اور گھرمیں کپڑے میں پیوند لگاتے اور بکری کا دودھ دوھتے نظر آتے تھے ہر وقت ہر شخص کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تک رسائی ہوسکتی تھی ٗ بیماروں کی عیادت کرتے تھے اور ہر ایک سے ہمدردی رکھتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کی سخاوت او ر خیروخیرات کی کوئی حد نہ تھی ٗ باوجود ان بے اندازہ تحائف کے جن کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پرہر وقت بارش ہوا کرتی تھی ٗ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے نہایت مختصر ترکہ چھوڑا اور وہ بھی بیت المال کو ہبہ فرما گئے تھے۔
پیغمبرِ اسلام کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ اوصاف کا کچھ اندازہ ذیل کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔
٭… ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملاقات کرنے آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ قبیلے کا اچھا آدمی نہیں ہے مگر آنے دو۔ وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نرمی سے گفتگو کی اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تعجب ہوا اور اس کے واپس جانے کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اسے اچھا آدمی نہیں سمجھتے تھے پھر اتنا شگفتہ مزاجی سے کیوں باتیں کیں ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے جواب دیا خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ آدمی سب سے برا ہے جس کی بدزبانی کے باعث لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں۔
اپنی غیر معمولی فیاضی اوردریادلی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثر مقروض رہا کرتے تھے مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وقتاً فوقتاً یہودیوں سے قرض لیا کرتے تھے اگر کبھی ادائیگی میں دیر ہو جاتی تو وہ سختی سے تقاضا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بدمزاجی خندہ پیشانی سے برداشت کرلیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بار ایک سائل حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بٹھا لیا پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے بھی کہا کہ بیٹھو میرے پاس تو اس وقت کچھ نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ دے گا توتمہاری حاجت پوری کروں گا اتنے میں کسی نے چار اوقیہ چاندی ہدیہ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک ایک اوقیہ تینوں میں تقسیم کر دی اور چوتھی کے بابت اعلان کر دیا کہ جسے ضرورت ہو لے لے مگر رات ہوگئی تو اس کا کوئی خواہشمند نہ ہوا مجبوراً جب سونے کے لیے لیٹے تو اسے سرہانے رکھ دیا ٗ مگر نیند نہ آئی بار بار اٹھتے تو نمازپڑھنے لگتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ دیکھا تو انہیں تشویش ہوئی انہوں نے پوچھا کیا کچھ طبیعت ناساز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں ‘‘ انہوں نے کہا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس قدر بے چین کیوں ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سرہانے سے چاندی نکال کر دکھائی تو فرمایا اس نے مجھے بے چین کر رکھا ہے مجھے ڈر ہے کہیں مجھے اس حال میں موت نہ آجائے کہ یہ چاندی میرے پاس ہو۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: کہ ابو ذر ! اگر احد پہاڑ بھی میرے لیے سونا چاندی ہو جائے تب بھی میں یہ پسند نہ کروں گا کہ تین راتیں گذر جائیں اور میرے پاس ایک دینار بھی رہ جائے علاوہ اس کے کہ جو میں ادائیگی قرض کے لیے چھوڑوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عد ل و انصاف کی شہرت تھی کہ یہودی تک اپنے مقدمات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیش کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی شرع کے مطابق فیصلہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قول تھا کہ ’’ قیامت کے دن جب کہ خدا تعالیٰ کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا تو سات اشخاص کو خدا تعالیٰ جل شانہٗ اپنے سایہ میں لے گا جن میں ایک عادل فرمانروا ہوگا۔‘‘
شرعی حدود کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی سے سفارشات نہیں سنتے تھے ٗ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو بہت محبوب تھے ایک بار انہوں نے ایک ملزمہ کی معافی کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہایت برہم ہو کر فرمایا کہ تم شرعی حدود میں مداخلت کرتے ہو ؟ خدا تعالیٰ کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بھی ایسا کرتی تو میں اسے وہی سزا دیتا جو اس کو دوں گا۔
ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مالِ غنیمت تقسیم کر رہے تھے لوگوں کا بہت ہجوم تھا ایک شخص منہ کے بل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو ٹھوکا دیا اتفاق سے چھڑی اس کے سر پر لگی اور خراش آگئی ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً اس کی طرف بڑھا دی اور کہا بدلہ لے لو اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں نے معاف کیا۔
بچوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑی محبت فرماتے تھے انکے قریب سے گزرتے تو خود سلام کرتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے بوڑھوں کا بھی بہت احترام کرتے تھے ٗ مکہ فتح ہونے کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بوڑھے اور نابینا باپ کو بیعت کرانے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بڑی نرمی سے فرمایا ’’ تم نے ان کو کیوں زحمت دی ؟ میں خود ان کے پاس چلاجاتا۔‘‘
شجاعت کے ساتھ ساتھ بقول حضرت ابو سعید خدری ’’ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیا تھی‘ ‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیا کو ’’ جزوِ ایمان‘‘ فرماتے تھے۔
خدمت گزاری کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جسم و جان سے حاضر رہتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے ادنیٰ سے ادنیٰ کام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عار نہ تھی ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاگھرمیں کیا مشغلہ رہتا تھا تو انہوں نے بتایا کہ :
’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگاتے تھے جھاڑو بھی دے لیتے تھے ٗ دودھ دوھ لیتے تھے جوتا پھٹ جاتا تو خود مرمت کرلیتے تھے اونٹ کو چارہ ڈال دیتے تھے اور بازار سے سوداخرید لاتے تھے۔ ‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ سے اونٹ کے بدن پر تیل مل رہے ہیں۔
اجتماعی محنت و مشقت کے کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم برابر کی شرکت فرماتے تھے ٗ قبا اور مدینہ کی مسجدوں کی تعمیر ہویا جنگ میں خندق کو کھودنا ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ایک سفر میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بکری ذبح کی اور اس کو پکانے کا کام آپس میں بانٹ لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا جنگل سے لکڑیاں میں لاؤں گا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آرام سے بیٹھیں ہم سارا انتظام کرلیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں امتیاز پسند نہیں کرتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک عرصہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خادم رہے تھے ان کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی نہیں پوچھا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا کیوں نہ کیا انہی سے روایت ہے کہ ان کے لڑکپن کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کو کسی کام پر بھیجناچاہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ میں نہ جاؤں گا ٗ اور باہر جا کر لڑکوں کے ساتھ کھیلنے لگے ٗ کچھ دیر بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آکر پیار کے ساتھ ان کی گردن پکڑلی اور فرمایا انس اب وہ کام کردو۔
زہد و قناعت کی یہ صورت تھی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی ہیں کہ ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کبھی مسلسل تین روز تک گیہوں کی روٹی میسر نہ ہوئی اکثر دو دو مہینہ گھر میں چولہا نہیںجلتا تھا اور اہل بیت کھجور اور پانی پر بسر اوقات کرتے تھے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ فاقہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بات کرنا مشکل ہو جاتا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ کیفیت دیکھ کرسمجھ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مہمان بنا کر اپنے گھر لے جاتے۔
عہد کے اتنے پابند تھے ٗ بات کے اتنے سچے ٗ قول کے اتنے پکے اور معاملات کے اتنے صاف تھے کہ قریش تک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو متفقاً ’’ امین‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کااصول تھا کہ ’’ جس میں پاس عہد نہیں اس میں دین نہیں۔‘‘
ایک بار مکہ کے ایک غلام ابورافع قریش کے سفیر بن کر مدینہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دلآویز شخصیت سے ایسا متاثر ہوا کہ انہوں نے فوراً اعلان کر دیا کہ اب کبھی لوٹ کرکافروں میں نہیں جائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ میں ایک قاصد کو اپنے پاس روک کر عہد شکنی نہیںکرسکتا تم اس وقت لوٹ جاؤ اور اگر مکہ پہنچ کر تمہارے دل کی یہی کیفیت رہے تو پھر چلے آنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کابدترین دشمن ابوجہل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کامعترف تھا اس نے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے اس کا اقرار یوں کیا کہ ’’ محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا لیکن اپنے دین کی جو باتیں تم ہم کو بتاتے ہو ان کو میں صحیح نہیں مانتا۔
حق گوئی دراصل شجاعت ہی کی ایک شاخ ہے ایک خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہ نصیحت کی کہ ’’ کسی شخص کو جب کوئی حق بات معلوم ہو تو چاہیے کہ اس کے کہنے سے کسی انسان کا خوف مانع نہ ہو۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’ کوئی شخص خود کو حقیر نہ سمجھے ‘‘ اس پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ ’’ ہم میں کوئی شخص اپنے آپ کو کیوں کر حقیر سمجھ سکتا ہے؟
ارشاد ہوا کہ ’’ وہ اس طرح کہ اس کو خدا تعالیٰ کے بارے میں ایک بات کہنے کی ضرورت ہو اور وہ نہ کہے قیامت کے روز خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تم کو میرے متعلق فلاں بات کہنے سے کس نے روکا ؟ وہ کہے گا کہ انسان کے خوف نے خدا تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے اس کو یہ جواب ملے گا کہ تم کو سب سے زیادہ میراخوف ہونا چاہیے۔
سائب ایک تاجر تھے وہ مسلمان ہوکر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان کا تعارف کرانا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’ میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘‘ سائب نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تجارت میں میرے ساتھ شریک تھے ٗ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔
امانت کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نزدیک صرف مادی اشیاء سے نہیں تھا قانونی اور اخلاقی اموربھی اس میں شامل تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث میں ہے کہ کسی کا کوئی بھید معلوم ہو تو اس کو چھپانا بھی امانت ہے یا کسی کی بابت کوئی شخص کوئی نامناسب بات کہے یا بری رائے ظاہرکرے تو اس کو اس تک پہنچا کر فتنہ و فساد کا باعث نہ بننا بھی امانت ہے یا کوئی کسی نجی معاملہ میں مشورہ کرے تو اسے اپنے ہی تک محدود رکھنا اور حتی المقدور بہترین مشورہ دینا بھی امانت داری میں شامل ہے۔ اس طرح ملازم کا خیر خواہی اور مستعدی سے خدمت انجام دینا ٗ بیوی ٗ بچوں ٗ اعزّا ٗ احباب اور ہمسایہ وغیرہ کے حقوق ادا کرنا یہ سب امانتیں ہیں اور ان میں کوتاہی کرنا امانت داری کے خلاف ہے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ حدیث بھی کس قدر جامع ہے کہ ’’ اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم)کی جان ہے کسی بندہ کا اس وقت تک دین درست نہ ہوگا جب تک اسکی زبان درست نہ ہو … اور جو کوئی ناجائز راستہ سے مال پائے گا اور خیرات دے گا تو قبول نہ ہوگی اور جواس میں سے بچ رہے گا وہ اس کے سفر دوزخ کا توشہ ہوگا ٗ بری چیز کفارہ نہیں بن سکتی البتہ اچھی چیز ٗ اچھی چیز کا کفارہ ہوتی ہے۔
غیبت ٗبہتان ٗ عیب جوئی ٗ بدگوئی ٗ بدگمانی ٗ دورخا پن وغیرہ سے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سخت نفرت فرماتے تھے ٗ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ جو کوئی اپنے غلام پرتہمت لگائے جب کہ وہ بے گناہ ہو تو قیامت کے روز اس کی پیٹھ پرکوڑے پڑیں گے۔‘‘
خوشامد اور بے جا تعریف و توصیف سے نفرت کرتے تھے ایک شخص کسی حاکم کی مدح کررہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے انہوں نے زمین سے خاک اٹھا کر اس کے منہ میں جھونک دی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہم کو حکم دیا ہے کہ مداحوں (تعریف میں مبالغہ کرنے والوں) کے منہ میں خاک بھر دیں۔
اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کثرت سے عبادت کرنے والے تھے لیکن رہبانیت اورجوگی پن کو پسند نہیں فرماتے تھے ٗ ایک گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں چھت سے رسی لٹک رہی تھی دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ فلاں عورت نے لٹکا رکھی تھی ٗ وہ رات بھر عبادت کرتی ہے اور جب نیند کی شدت سے اونگنے لگتی ہے تو اس سے لٹک جاتی ہے ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رسی کھلوا دی اور فرمایا کہ عبادت نافلہ بس اس وقت تک کرو جب تک نشاط طبع قائم رہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے مرتبہ کے زاہد تھے انہوںنے عمر بھر روزہ رکھنے کاعہد کر لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کومعلوم ہوا تو ان کو بلوا بھیجا اور نصیحت فرمائی کہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے ٗ بیوی کا حق ہے ٗ مہینے کے تین دن کے روزے کافی ہیںانہوں نے عرض کیا کہ مجھ میں ان سے زیادہ کی طاقت تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھا کرو ٗ انہوں نے پھر اصرار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے زیادہ کی اجازت نہ دی۔
ایک دفعہ دو صحابیوں نے آکر عرض کیا کہ انہوںنے ترکِ حیوانات اور ترکِ نکاح کا عزم کرلیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ میں ان دونوں سے متمتع ہوتا ہوں۔ ‘‘
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا کے ہاں دعوت میں تشریف لے گئے تو وہاں آرائش کی خاطر پر دے لٹکے ہوئے تھے ٗ ان پر نظر پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوٹ آئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ’’ پیغمبر کو مناسب نہیں کہ زیب و زینت والے مکان میں جائے۔ ‘‘
عرب کے جاہل لوگ عورتوں پر بے دھڑک سختیاں کیاکرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورتوں کے حقوق قائم کئے اور اپنے برتاؤ سے ان حقوق کو مستحکم بنا دیا۔
رہبانیت پسندی کے تحت تجرد کی زندگی کی مذمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’ میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں تو جس نے میرے طریقہ سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں۔ ‘‘
ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ تھیں جب وہ سوار ہونے لگتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا گھٹنا بڑھا دیتے اور وہ اسی پر پاؤں رکھ کر سوار ہو جاتیں ٗ ایک بار اونٹ کا پاؤں پھسلاا ور آپ دونوں زمین پر گر پڑے ٗ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ مدد کو دوڑے وہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ پہلے عورت کی خبر لو۔‘‘
قدیمِ عرب میں بیواؤں سے شادی کرنا عیب کی بات سمجھا جاتا تھا ٗ بعض ممالک میں اب بھی یہی دستور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی مخالفت میں عملی مثال پیش کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پہلی بیوی ایک بیوہ خاتون تھیں اور بعد میںبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جن محترم خواتین کو شرفِ زوجیت بخشا سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وہ سب بیوہ ہی تھیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سے سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے بھلائی کی جارہی ہو اور سب سے برا وہ گھر ہے جس میں کسی یتیم سے بدسلوکی کی جاتی ہو۔
عربوں کی جاہل قوم جانوروں کے حقوق میں بلا کی بے درد تھی زندہ اونٹ کی پیٹھ پر سے گوشت کا لوتھڑا کاٹ لیا کرتے تھے ٗ جانوروں کو کھڑا کرکے تیراندازی کی مشق کراتے تھے جانوروں کا خون بھی پیا جاتا تھا ٗ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سب باتوں کو حرام قرار دیا۔
ایک دفعہ ایک اونٹ نظر سے گذرا جو بھوک سے بہت لاغر ہوگیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ ان بے زبانوں کی بابت خدا تعالیٰ سے ڈرو‘‘ اسی طرح ایک گدھے کو دیکھ کر جس کا چہرہ داغا گیا تھا زبانِ مبارک سے نکلا ’’ جس نے اسے داغ دیا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی سلسلہ میں یہ حکایت بھی بیان فرمائی کہ ایک مسافر کوشدید پیاس معلوم ہوئی پانی کاکہیں نشان نہ تھا ٗ بڑی مشکل سے ایک کنواں ملااس نے اپنے چمڑے کے موزہ میں ڈور باندھ کر پانی بھر ا اور پینے ہی والا تھا کہ اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو پیاس سے مر رہا تھا اس نے وہ پانی کتے کو پلادیا اور خود دوبارہ بھر کر پیایہ بات خدا تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے مسافر کو بخش دیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر پوچھا کیا کتوں کے ساتھ ہمدردی کرنے پربھی اجر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ ہاں ہر جاندار کے ساتھ حسن سلوک میںاجر ہے۔ ‘‘
درخت لگانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بہت پسند تھا اسے ثواب کا کام فرماتے تھے ٗ ایک حدیث میں ہے کہ جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کے پھل کسی جانور یا انسان نے کھائے تو یہ لگانے والے کاصدقہ ہوگا۔