آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بحیثیت معلم و مربی

محبتِ رسول جزو ایمان ہے۔ شیخ بدر الدین عینی لکھتے ہیں کہ محبت کے تین اسباب ہیں۔ جمال ٗ جودو سخا اور کمال۔ یہ تینوں اوصاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات سے زیادہ کسی کی ذات میں موجو د نہیں۔ آپ کا جمال احادیث شمائل میںموجود ہے۔ آپ کی روحانی اور جسمانی بخشش و کرم کا کون اندازہ لگا سکتاہے۔ آپ کا کمال شریعت مطہرہ اور آپ کے فیض تربیت سے ظاہر ہے ۔ ایک بہترین اور مقدس جماعت کاتیار کرنا آپ کے فیض نظرکا ہی نتیجہ تھا۔ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جزو ہے۔
تعلیم محمدی
تبلیغ ایک مقدس فریضہ ہے جس کا مقصد صداقت و حقانیت کو پھیلانا اور لوگوں کو اس کا قائل کرنا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بابرکت شخصیتیں تاریخ انسانی میں تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی ہیں۔ دنیا میں جہاںکہیں حق و صداقت کی کوئی کرن نظر آتی ہے اس کا باعث یہی نورانی وجود ہے۔ انہی حضرات کی مساعی جمیلہ کا جلوہ ہے۔ جو انسانی تاریخ میں عیاں اور پنہاں نظر آتا ہے۔ ان تمام بزرگوں میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ آپ نے اپنی تبلیغی مساعی کے ثمرات خود دیکھے ہیں۔ ان کے گہرے نقوش صفحہ ہستی پر ثبت ہیں۔
قرآن پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ چونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی انسانیت کے لیے مکمل نمونہ ہے اس لیے آپ کی شخصیت کے متنوع گوشوں کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی چند آیات ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مناصب کو بیان کیا گیا ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔
’’اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا جب کہ ان کے اندر خود ان میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ۔
’’وہی ہے جس نے امیوں کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی شخصیت کے لیے معلم کے لقب کو زیادہ پسند فرمایا اور اپنی بعثت کامقصود معلم ہونا قرار دیا۔ فرمایا:
اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا۔
’’ میں بھی معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اور صرف معلم ہی نہیں آپ کی حیثیت حلیم معلم بلکہ ایک رحیم و شفیق باپ کی سی تھی۔ خود فرمایا ’’ میں تمہارے لیے تمہارے والد کی مانند ہوں سو تم جب رفع حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف رخ نہ کرو اور نہ پشت ۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوت سرتاپا تعلیم تھی۔ ایسی تعلیم جو علام الغیوب کی طرف سے آرہی تھی جس طرح قرآن پاک آپ کی زندگی کے تئیس برسوں پر پھیلا ہوا ہے اسی طرح آپ کی تعلیم و تعلم کی مغشولیت بھی 23 برس پر مشتمل ہے۔ آپ کے پیش نظر دو کام تھے ٗ معاشرے کی اصلاح جو فکری و عملی لحاظ سے بے شمار الجھنوں میں گھرا ہوا تھا ٗ دوسرے اس معاشرے کے پسندیدہ افراد کو مجتمع کرکے نئی اجتماعیت کی بنیاد جس میں انفرادی و اجتماعی طرز عمل مثالی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریق تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پہلاطریق یہ کہ آپ قرآنی تعلیمات کو عمومی انداز میں پیش فرماتے اور نئی اجتماعیت میں شمولیت کی دعوت دیتے۔
وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ م بَلَغَ۔
’’ اور میرے پاس یہ قرآن بطورِ وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں۔‘‘
یایھا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحون۔ (الحدیث)
’’ لوگو ! کہو اللہ کے سواکوئی معبود نہیں کامیاب ہوجاؤ گے۔‘‘
تعلیم کا دوسرا طریق یہ کہ منتخب افراد کو مجتمع کیا اور ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اس کے الفاظ و معانی کی درست تعبیر فرماتے اور اگر کہیں الجھن پیش آتی تو اسے دور فرماتے۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ۔
’’ اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح وشام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں۔‘‘
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اکھٹے ہوتے۔ قرآن یاد کرتے اس کی تفہیم ہوتی۔ پیش آمدہ مسائل پر بحث ہوتی اور اس عظیم معلم سے رہنمائی حاصل کرکے یہ لوگ اپنے کام کاج میں مشغول ہو جاتے۔ اب آئیے ذرا عرب کے اس امی معلم کی درس گاہ کامطالعہ کریں۔ یہ کون طالب علم ہیں؟ یہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی ٗ طلحہ ٗ زبیر وغیرہ رضی اللہ عنہم اجمعین مکہ کے قریشی طالب العلم ہیں۔ یہ کون ہیں؟ ابوذر و انیس رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ یہ مکہ سے باہرتہامہ کے غفاری قبیلہ کے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ یہ ابوہریرہ اور طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں اوردوسی قبیلہ کے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ یہ ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ یہ بھی یمن سے آئے ہیں اوردوسرے قبیلوں کے ہیں۔ یہ کون ہیں؟ یہ ضماد بن ثعلبہ ہیں قبیلہ ازد کے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ یہ خباب بن ارت قبیلہ تمیم کے ہیں۔ یہ منقذ بن حبان اور منذر بن عائذ ہیں جو عبدالقیس قبیلہ سے ہیں اور بحرین سے آئے ہیں۔ یہ عبیدو جعفر عمان کے رئیس ہیں۔ یہ فروہ ہیں ٗ یہ معان یعنی حدود شام کے رہنے والے ہیں۔ یہ کالے کالے کون ہیں؟ یہ بلال ہیں ملک حبش سے آئے ہیں ۔ یہ کون ہیں ؟ یہ صہیب رومی کہلاتے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ یہ ایران کے سلمان فارسی ہیں۔ یہ فیروز تلہی ہیں۔ یہ بخت اور مرکبود ہیں ٗ نسلاً ایرانی ہیں۔
حضرات ! اس سے درسگاہِ محمدی کی جامعیت کا یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے رنگ و روپ ملک ووطن ٗ قوم و نسل اور زبان و لہجہ کا سوال نہ تھا بلکہ وہ دنیا کے تمام خاندانوں ٗ تمام قوموں ٗ تمام ملکوں اور تمام زبانوں کے لیے عام تھا۔
کارکن کے بغیرکوئی انقلاب بھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوت میں بھی نقطہ آغاز کارکن ہی ہے۔ آپ نے سب سے پہلے افراد کو متوجہ کیااور یہی افراد آگے چل کر انقلابی جماعت کی صورت اختیار کر گئے۔ قائد ان کی تعمیر سیرت کا منصوبہ بناتا ہے۔ ان کے اندر ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کرتا ہے تاکہ کسی وقت بھی ان میں تزلزل نہ آئے۔ اولین مخاطبین میں سے شرفِ ایمان سے بہرہ ور ہونے والی شخصیتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوری توجہ دی اور مختلف طریقوں سے انہیں پختہ اور کامل کارکن بنانے کی سعی وجہد کی ۔ تعمیر سیرت کے اس پروگرام کو ایک اصطلاح ’’تزکیہ نفس‘‘ سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ اسلام نے ایک مکمل انقلاب بپا کیا۔ عقائد و معاملات سے لے کر معیشت ٗ معاشرت اور سیاست تک ایک نیا اجتماعی نظام دیا اس انقلاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شخصیت کو بنیادی اور مرکزی مقام حاصل ہے۔
تعلیم و تربیت محمدی کی جامعیت
دنیا میں دو قسم کی تعلیم گاہیں ہیں۔ ایک وہ جہاں صرف ایک فن سکھایا جاتا ہے اور ہر فن کے لیے الگ الگ اور مستقل تعلیم گاہیں ہیں ٗ جیسے کوئی میڈیکل کالج ہے ٗ کوئی انجینئرنگ کالج اورکوئی ڈیفنس کالج ٗ دوسری قسم کی تعلیم گاہیں وہ ہیں جو اپنی وسعت کے مطابق ہر قسم کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتی ہیں۔ آئیے اس درس گاہ کادرجہ معلوم کریں جس کے معلم امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔ کیا یہ وہ سکول اورکالج ہے جہاں ایک فن کی تعلیم ہوتی ہے یا اس کی حیثیت ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی ہے جہاں ذوق مناسبت طبع اور استعداد کے مطابق ہر قسم کے لوگ ہر طرح کی تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ایک طرف اسرار فطرت کے محرم دنیا کے جہاں بان اور ملکوں کے فرمانروا اس درس گاہ سے تعلیم پا کر نکلے ہیں۔ ابوبکر صدیق ہیں عمر فاروق ہیں عثمان غنی ہیں علی مرتضیٰ ہیں او ر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں جنہوں نے مشرق سے مغرب تک افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرمانروائی کی اور ایسی فرمانروائی جو دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ اور حکمران کی سیاست و تدبیر اور نظم و نسق کے کارناموں کو منسوخ کر دیتی ہے۔ دوسری طرف خالد بن ولید سعد بن وقاص ابو عبید بن جراح عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم اجمعین پیدا ہوئے جو مشرق و مغرب کی دو ظالم و گنہگار اور انسانیت کے لیے لعنت سلطنتوں کا چند سال میں مرقع الٹ دیتے ہیں۔یہ وہ مشہور فاتحین و سپہ سالار ہیں جن کی قابلیتوں کو زمانے نے تسلیم کیا ہے اورتاریخ نے ان کی عظمت کی شہادت دی ہے۔ تیسری طرف علماء و فقہاء کی صف ہے۔ عمر بن خطاب ٗ علی ابن ابی طالب ٗ عبداللہ بن عباس ٗ عبداللہ بن مسعود ٗ عبداللہ بن عمر ٗ حضرت عائشہ ٗ زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ ہیں۔ جنہوں نے اسلام کے فقہ و قانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقننین میں درجہ پایا۔ چوتھی جماعت ان ستر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اہل صفہ کی ہے جن کے پاس سر رکھنے کے لیے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چبوترہ کے سواکوئی جگہ نہ تھی اور جن کی راتیں طاعت و عبادت میں بسرہوتی تھیں۔ ایک اور طرف دیکھئے یہ بہادر کار پروازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے۔ اس میں طلحہ ہیں ٗزبیر ہیں ٗمقداد ہیں ٗ سعدبن معاذ ہیں ٗ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں۔ ایک جماعت حق کے شہیدوں اور بے گناہ مقتولوں کی ہے جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنی عزیز جانیں قربان کیں مگر حق کاساتھ چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے۔ حضرت ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلواروں سے قیمہ کئے گئے ٗ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کفار کے ہاتھوں اذیت اٹھاتے اٹھاتے مر گئے ٗحضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے سولی پر جان دی ۔ ستر رفقائے رسول نے بئیر معونہ پر بے کسی کے ساتھ جامِ شہادت پیا۔ دنیا کے ایک مشہور مذہب کو صرف ایک سولی پر ناز ہے مگر دیکھو اسلام میں کتنی سولیاں اورکتنے مقتل ہیں۔
تلوارکی دھار ہو کہ برچھی کی انی یا سولی کی لکڑی ٗ بہرحال یہ ایک آنی تکلیف ہے ۔ اس سے زیادہ استقلال اور اس سے زیادہ صبر و آزمائش کی وہ زندگیاں ہیں جو سالہاسال حق کی مصیبتوں میں گرفتار رہیں جنہوں نے آگ کے شعلوں اور گرم ریت پر آرام کیا اور پتھر کی سلوں کو اپنے سینوں پر رکھا۔ جن کے گلوں میں رسیاں ڈال کر گھسیٹا گیا اورجب پوچھا گیا تو وہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ ان کی زبانوں پر تھا۔ شعب ابی طالب کی قید میں جنہوں نے تین سال تک درخت کے پتے کھا کھا کر زندگی بسر کی۔ عقبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سات مسلمان تھے ان غیر فطری غذاؤں کو کھا کھا کر ہمارے منہ زخمی ہوگئے مگر جو نشہ چڑھ چکا تھا وہ اترتا نہ تھا۔
یہ ہے درسگاہِ محمدی یا مدینہ یونیورسٹی کا ایک جائزہ ٗ اس کودیکھ کر اس کے سوا کیا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات انسانی کمالات اور صفات حسنہ کا ایک کامل نمونہ تھی اور یہ سب انہی کی جامعیت کی نیرنگیاں تھیں جو کبھی صدیق و فاروق ہو کر چمکتی تھیں اور کبھی ذوالنورین اور مرتضیٰ ہو کر نمایاں ہوتی تھیں۔ گویا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود مبارک آفتاب عالم تاب تھا جس سے اونچے پہاڑ ٗ ریتلے میدان بہتی نہریں ٗ سرسبز کھیت اپنی اپنی طاقت کے مطابق مختلف قسم کے نور حاصل کرتے تھے۔
غور کا مقام ہے یہ وہی وحشی عرب وہی بت پرست عرب وہی بداخلاق عرب ہیں۔ یہ کیا انقلاب ہوگیا تھا ایک امی کی تعلیم جاہل عربوں کو عاقل ٗ روشن دماغ اور مقنن کیونکر بنا گئی۔ ایک نہتے پیغمبر کاولولہ تبلیغ کسمپرس عربوں کو سپہ سالاراور بہادر بنا کر نئے زوروقوت کا خزانہ کیسے عطا کر گیا۔ جو خدا کے نام سے بھی آشنا نہ تھے وہ شب زندہ دار ٗ عابد متقی اور اطاعت گزار کیونکر ہوگئے۔
فیض محبت کے نتائج و ثمرات
بے شمار اصلاحی اور تعمیری اور انقلابی تحریکیں ہمارے سامنے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک نے انسان کو جوں کا توں رکھ کر خارجی نظام کو بدلنے کی تدبیریں کی ہیں۔ لیکن انسان کو اندر سے نہیں بدل سکیں۔ معلم انسانیت کے فیض تربیت کایہ پہلو بڑا اہم ہے کہ انسان اندرون سے بدل گیا اور یکسر بدل گیا۔ اس نئے انسان کے کردار کی درخشانی دیکھئے تو آنکھوں میں چکا چوند آجاتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا مکہ کا ایک میخوار بدلا تو کہاں پہنچا۔ فضالہ رضی اللہ عنہ میں تبدیلی آئی توکس شان سے آئی۔ ذوالبجادین کو دیکھئے کہ کس طرح دولت وآسائش کولات مار کر درویشانہ زندگی اختیارکرتا ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو لیجئے کہ کیا انقلابی جذبہ ہے کہ کعبہ میں کھڑے ہو کر جاہلیت کو چیلنج کیا اور خوب مار کھائی۔ نجاشی کے دربار میں جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی جرأت سے سبق لیجئے اور تاروں کے اس جھرمٹ میں سے کون ہے جس کا ایمان لمعہ افگن نہیں ہے۔ سچ فرمایا تھا معلم اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے
اصحابی کالنجوم
یعنی ’’ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ ‘‘
ان ہستیوں سے وہ معاشرہ بنا اور ایسے کارکنوں کے ہاتھوں وہ نظام حق چلا جس نے اگر بندش شراب کی منادی کی تو ہونٹوں سے لگے ہوئے پیالے فوراً الگ ہوگئے۔ اور بہترین شرابوں کے مٹکے گلیوں میں لنڈھا دیئے گئے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہاتھا کہ رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرمت شراب کی منادی کرائی۔ ابو طلحہ نے مجھ سے کہا نکل کر دیکھو یہ کیسی آواز ہے میں گھر سے نکلا اور پلٹ کر کہا ایک منادی اعلان کر رہا ہے کہ شراب حرام ہوگئی۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ ’’ تو شراب گرادو‘‘ اور لوگوں نے اس کثرت سے شراب گرائی کہ مدینہ کی گلیوں میںبہنے لگی۔‘‘
اسی فیض تربیت کا نتیجہ تھا کہ اگر عورتوں کو سر و سینہ ڈھانپنے کا حکم دیا تو حکم ملتے ہی کسی تاخیر کے بغیر دوپٹے اور اوڑھنیاں بنالی گئیں۔ جس نے اگر جہاد کے لیے پکارا تو نو عمر لڑکے تک ایڑیوں پر کھڑے ہو ہو کر یہ کوشش کرتے دکھائی دیئے کہ وہ لوٹائے جانے سے سچ جائیں۔ اسی مقدس تعلیم نے وہ لوگ پیدا کئے کہ اگر چندہ طلب کیا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے دولت مند تاجروں نے سامان سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطاریں لا لا کر کھڑی کردیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے فدائیوں نے گھر کی ساری متاع اپنے مرشداعظم کے قدموں میں ڈال دی۔ وہاں ایسے مزدور بھی تھے جنہوں نے دن بھر کی مزدوری سے حاصل شدہ کھجوریں جنگی فنڈ میں دے کر دامن جھاڑ دیا۔ اسی فیض صحبت نے وہ مقدس نفوس پید ا کئے کہ اگر معلم اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مہاجرین کی بحالی کے لیے انصار کو پکارا تو انہوں نے اپنے مکان ٗ کھیت اور باغ آدھوں آدھ بانٹ دیئے اور اخوت کا ایک بے مثل سماں پیدا کر دیا اور اگر عہدوں کی خدمت کی روح سے بالاتر کرکے سول سروس کے لیے کارکن طلب کیے تو ایک درہم روز کے قلیل معاوضے پر گورنری کے فرائض انجام دینے والے حکام دنیا کے سامنے نمودار ہوئے۔ اگر مالِ غنیمت کو سپہ سالار کے پاس جمع کرانے کاحکم دیا گیا تو اس شان سے تعمیل کی گئی کہ فوج ایک ایک سوئی اپنے افسر کوپیش کر دیتی تھی۔ اور یہ واقعہ ہمیشہ تاریخ میں درخشاں رہے گا کہ مدائن کے اموال کا ایک قیمتی حصہ عامر نامی سپاہی کے ہاتھ آتا ہے اور بغیر اس کے کہ کسی کو بھی اس خزانہ زر و جواہر کا علم ہو ٗ وہ رات کی تاریکی میں چپکے سے اپنے سردار تک پہنچا دیتا ہے۔ فیض نبوت سے وہ ہستیاں وجود میں آئیں جنہوں نے نیکی کا ایسا ماحول تیارکیا جس میں شاذ و نادر ہی جرائم ہوتے تھے اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پورے دس سالہ دور میں گنتی کے مقدمات عدالتوں میں آئے۔ یہ نیکی کا ایسا ماحول تھا جس میں کوئی سی آئی ڈی نہیں رکھی گئی بلکہ لوگوں کے ضمیر ہی ان کے پاسبان اور نگران بن گئے ۔ قائد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ انسان شناس ہو اورا پنے پیراؤں کو اچھی طرح پہنچانتا ہو۔ اس معرفت کے لیے بہت اہم بات اعتماد ہے جو کسی قائد کو اپنے پیراؤں پر ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے رفقاء پر بے حد اعتماد کیا اور اس اعتماد کی مثالیں مکی اور مدنی زندگی میںبکھری پڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس طرح مختلف مقامات پر اپنے رفقاء کی تعریف کی ہے اور ان کے سپرد جوکام کئے ہیں وہ اس اعتماد کی غمازی کرتے ہیں اس سارے نظام میں کوئی ایسا مرحلہ نظر نہیں آتا جہاں کسی رفیق نے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہو یا عذر کیا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنا نمائندہ بنایا ٗ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنایا ٗ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے موقع پر امانتوں کی ذمہ داری سونپی۔ مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا ٗ مختلف لوگوں کو جنگی مہموں پر بھیجا اور سراغ رسانی کا کام بھی لیا۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیںجن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے رفقاء پر بے پناہ اعتماد تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کا اظہار بھرپور طریق پرکیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے رفقاء سے جو لگاؤ تھا اس کاا ظہار اللہ تعالیٰ نے بھی کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے صحابہ سے اتنی الفت تھی کہ ان کی ادنیٰ سی تکلیف بھی سخت ناگوار گزرتی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں ٗ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں اور مومنوںپر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔‘‘
قرآن پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تربیت یافتہ شخصیتوں کو قابل اعتماد اور معزز ترین قرار دیا ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمتوں کا مستحق اور اس کی رضا کا اہل بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور اے پیغمبر ! جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اور جو خلوص و صدق ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسلی نازل فرمائی۔‘‘
پھر فرمایا:
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا ۔ اللہ کے نزدیک بہت بلند مرتبہ ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ ان کا رب ان کو اپنی خوشنودی رحمت اور ایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کو دائمی آسائش ہے اور یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے رفقاء کے متعلق مجموعی طور پر عمدہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں۔ بعض صحابہ کے خصوصی مناقب کو بھی بیان فرمایا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ میرے رفقاء کو برا نہ کہو کیونکہ تم میں سے ایک آدمی احد جتنا سونا خرچ کرلے تو بھی ان جیسا یا ان سے آدھا درجہ نہیں پاسکے گا۔‘‘
عمران بن حصین کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ میری امت کا بہترین زمانہ میراہے ٗ پھر ان کے بعد آنے والوں کا پھر ان کے بعد آنے والوں کا۔ ‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض تربیت کا اس سے بڑھ کر او ر کرشمہ کیا ہوگا کہ صحابہ کا ایمان بھی قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے معیاری ہے اور ان کا اسوہ بھی معیاری ہے۔ ایمان بھی وہی مقبول ہے جو صحابہ کاتھا اور عملی زندگی بھی وہی معیاری ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شاگردوں کی زندگی کے مطابق ہو۔
ارشادِ الٰہی ہے:
’’ سو اگر وہ بھی ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو انہوں نے بھی ہدایت پائی اور اگر پھر جائیں تو پھر وہی ضد پر ہیں سو اب کافی ہے تیری طرف سے اللہ اور وہی ہے سننے والا جاننے والے۔ ‘‘
اس ارشاد ِ الٰہی میں اٰمنتم کے مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایمان کو ایک مثالی نمونہ قرار دے کر حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و معتبر صرف اس طرح کاایمان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اختیار فرمایا۔ جو اعتقاد اس سے سرمومختلف ہو اللہ کے نزدیک مقبول نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا جس طرح ایمان معیاری ہے فیض صحبت نبوی ہے کہ ان کا اسوہ بھی معیاری ہے اور ان کاا تباع راہِ نجات ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
’’ اور جو مہاجرین و انصار ایمان لانے میں سب امت سے مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ایمان و عمل میں ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہو ا کہ ان کا ایمان قبول فرمایا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘
اس آیت کی رو سے پہلا مرتبہ مہاجرین و انصار صحابہ کا ہے۔ دوسرادرجہ ان کے بعد کے سب مسلمانوں کاہے جو قیامت تک ایمان اورا عمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اسوہ پر چلے اور ان کامکمل اتباع کیا۔
اسی لیے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ۔
یعنی ’’ جن لوگوں نے اعمال و اخلاق میں سابقین اولین کا اتباع مکمل طور پر کیا۔ ‘‘
ما انا علیہ واصحابی کا ارشاد نبوی اسی راز کو آشکار کررہا ہے کہ راہِ جنت انہی لوگوں کومیسر ہوگی جو رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت اور طریقے اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقہ پر گامزن ہوں گے۔
یہ تھا وہ انقلاب جو تعلیم محمدی اور تربیت نبوی نے پیدا کیا۔ جس نے باہر کے نظام کے ساتھ ساتھ اندر سے انسانی قلب و ذہن کو بدلا اور نیا کردار پیدا کردیا اور دنیا نے شاید پہلی دفعہ یہ منظر دیکھا کہ ؎
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکہ
فاش کرنے لگے جبریل امین کے اسرار
اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمال کا یہ وہ پہلو ہے جس کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔
بقول شاعر ؎
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
اور اسی بات کا اظہار مولانا حالی نے کیا ہے ؎
درفشانی نے تیری قطروں کو دریا کر دیا
دل کو روشن کر دیا آنکھوں کو بینا کر دیا
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
آئیے ہم خداسے توفیق مانگیں اور حکیم الامت کی اس نصیحت پر عمل کریں ؎
سوزِ صدیقؓ و علیؓ از حق طلب ذرہِ عشق نبیؐ از حق طلب
اس لیے کہ دورِ حاضر میں مسلمانوں کو جس چیلنج کاسامنا ہے اس کا مقابلہ اسوۂ محمدی اور اسوۂ صحابہ کواپنائے بغیر ناممکن ہے۔ سچ کہا شاعر مشرق نے ؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر ٗ فقر بوذر صدق سلمانی