حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولاناعا شق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ تعالیٰ
یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں۔ والدہ کے نام میں اختلاف ہے بعض نے زینب بتایا ہے لیکن وہ اپنی کنیت ”اُمِ رُومان ” سے مشہور ہیں۔
آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی صرف یہی ایک بیوی ہیں جن سے کنوارے پن میں آپ نے نکاح کیا۔ اِن کے علاوہ آپ کی تمام بیویاں بیوہ تھیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو نبوت ملنے کے چار پانچ سال بعد اِن کی ولادت ہوئی اور چھ سال کی عمر میں آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے نکاح ہوا اور نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ نکاح مکہ معظمہ میں ہوا اَور رُخصتی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں نو سال رہیں جس وقت سیدِ عالم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مَلَائِ الْاَعْلٰی کا سفر اختیار فرمایا اُس وقت اِن کی عمر ١٨ سال تھی۔ ( اصابہ۔جمع الفوائد۔ بخاری شریف)

نکاح

جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات ہو گئی تو حضرت خولہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنہا نے سیدِعالم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ نکاح نہیں کر لیتے؟ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کس سے؟ عرض کیا آپ چاہیں تو کنواری سے کر لیں اور چاہے تو بیوہ سے۔ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کنواری کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا مخلوق میں جو آپ کو سب سے محبوب ہیں اُن کی بیٹی یعنی عائشہ بنت ابی بکر(صدیق ) آپ نے دوبارہ سوال فرمایا بیوہ کون ہے؟ جواب دیا سودہ بنت زمعہ جو آپ پر ایمان لا چکی ہیں اور آپ کا اتباع کرتی ہیں۔
یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بہتر ہے جاؤ دونوں جگہ میرا پیغام لے جاؤ چنانچہ حضرت خولہ پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچیں۔ اُس وقت حضرت صدیقِ اکبر تشریف نہ رکھتے تھے۔ اُن کی بیوی سے کہا اے اُمِ رومان کچھ خبر بھی ہے اللہ نے کس خیر و برکت سے تم کو نوازنے کا اِرادہ فرمایا ہے؟ اُنہوں نے سوال کیا وہ کیا؟ جواب دیا مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے عائشہ سے نکاح کرنے کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ حضرت اُمِ رومان نے جواب دیا ذرا اَبو بکر کے آنے کا انتظار کرو۔چنانچہ تھوڑی دیر میں وہ بھی تشریف لے آئے۔ اُن سے بھی حضرت خولہ نے یہی کہا کہ اے ابو بکر کچھ خبر بھی ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو کس خیر و برکت سے نوازنے کا اِرادہ فرمایا ہے؟ بولے وہ کیا؟ جواب دیا مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم اِس مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ عائشہ سے نکاح کے بارے میں آپ کا پیغام پہنچا دوں۔
یہ سن کر حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ وہ تو آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بھتیجی ہے (کیونکہ میں آپ کا بھائی ہوں )کیا اِس سے آپ کا نکاح ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب لینے کے لیے حضرت خولہ بارگاہِ رسالت میں واپس پہنچیں اَور حضرت صدیقِ اکبر کا اشکال سامنے رکھ دیا۔ اِس کے جواب میں آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر سے کہہ دو کہ تم اور میں دینی بھائی ہیں ، تمہاری لڑکی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے۔ (رشتہ کے حقیقی یا باپ شریک یا ماں شریک بھائی کی لڑکی سے نکاح دُرست نہیں ہے،دینی بھائی کے لڑکی سے نکاح جائز ہے )
چنانچہ حضرت خولہ واپس حضرت صدیقِ اکبر کے گھر آئیں اور شرعی فتوی جو بارگاہِ رسالت سے صادر ہوا تھا اُس کا اظہار کر دیا جس پر حضرت صدیقِ اکبر حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کر دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بلا کر اپنی بیٹی عائشہ کا نکاح کر دیا۔ اِس کے بعد حضرت خولہ حضرت سودہ کے پاس گئیں اور اُن کے اِشارہ سے اُن کے والد زمعہ سے گفتگو کر کے آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے حضرت سودہ کا نکاح کر دینے پر راضی کر لیا اور نکاح کرا دیا۔ (جس کی تفصیل حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے تذکرہ میں آئے گی)

ہجرت

آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کے مشورہ اور کوشش سے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ سے نکاح فرمایا لیکن چونکہ حضرت عائشہ کی عمر بہت کم(صرف ٦ سال ) تھی اِس لیے رُخصتی ابھی ملتوی رہی البتہ حضرت سودہ کی رُخصتی بھی ہو گئی اور آپ کے دولت کدہ پر تشریف لے آئیں اور گھر کی دیکھ بھال اِن کے سپرد ہوئی۔اِس کے بعد ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حضرات صحابہ مدینہ منورہ پہنچنے لگے بلکہ اکثر پہنچ گئے۔ حضرت صدیقِ اکبر نے بھی بار ہا آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے ہجرت کی اجازت چاہی لیکن آپ فرماتے رہے کہ جلدی نہ کرو، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو تمہارا رفیقِ سفر بنا دیں۔ یہ جواب سن کر حضرت ابوبکر کو اُمید بندھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ میرا سفر ہو گا چنانچہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضرت کو ہجرت کی اجازت دے دی تو آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ دونوں حضرات اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے اہل و عیال کو مکہ معظمہ سے بلانے کا انتظام فرمایا جسکی صورت یہ ہوئی کہ حضرت زید بن حارثہ اَور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہما کو دو اُونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا تاکہ دونوں کے گھرانوں کو لے آویں۔ چنانچہ وہ دونوں مکہ معظمہ پہنچے اور راستے سے اُن حضرات نے تین اُونٹ خرید لیے، مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ اُس وقت ہجرت کا اِرادہ کر چکے تھے۔ چنانچہ یہ مبارک قافلہ مدینہ منورہ کو روانہ ہواجس میں حضرت زید بن حارثہ ،اُن کا بچہ اُسامہ اور اُن کی بیوی اُمِ ایمن اور آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی دو بیٹیاں حضرت فاطمہ اور حضرت اُم کلثوم اور آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بیویاں حضرت عائشہ حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کی والدہ حضرت اُمِ رومان اور حضرت عائشہ کی بہن اسماء بنت ابی بکر اور اُن کے بھائی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔
اِس سفر میں حضرت عائشہ اور اُن کی والدہ رضی اللہ عنہما دونوں ایک کجاوہ میں اُونٹ پر سوار تھیں۔ راستہ میں ایک موقع پر وہ اُونٹ بِدک گیا جس کی وجہ حضرت اُمِ رومان رضی اللہ عنہا کو بہت پریشانی ہوئی اور گھبراہٹ میں اپنی بچی عائشہ کے متعلق پکار اٹھیں ”ہائے میری بیٹی ہائے میری دُلہن” لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد یہ ہوئی کہ غیب سے آواز آئی کہ اُونٹ کی نکیل چھوڑ دو۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے اُس کی نکیل چھوڑ دی تو وہ آرام کے ساتھ ٹھہر گیا اور اللہ نے سب کو سلامت رکھا۔
جب یہ قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تو آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم مسجد نبوی (علیٰ صاحبہِ الصلوة والسلام ) کے آس پاس اپنے اہل و عیال کیلیے حجرے بنوا رہے تھے۔ حضرت سودہ حضرت فاطمہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہن کو اِن ہی حجروں میں ٹھہرا دیا اور حضرت عائشہ اپنے ماں باپ کے پاس ٹھہر گئیں (الاستیعاب ،اَلبدایہ )۔ اِس کے چند ماہ بعد شوال میں حضرت عائشہ کی رُخصتی ہوئی۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر (حضرت عائشہ کی بہن) کا زمانۂ ولادت قریب تھا۔ وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ ہجرت کر کے آئی تھیں۔ اُنہوں نے قبا میں قیام فرمایا اور وہیں بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ حضرت اسماء کے شوہر حضرت زبیر تھے اِس لیے یہ بچہ عبداللہ بن زبیر کے نام سے مشہور ہوا۔ہجرت کے بعد مہاجرین میں یہ سب سے پہلا بچہ تولد ہوا۔ اِن کے تولد سے مسلمانوں کو بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے مشہور کر دیا تھا کہ ہم نے جادو کر دیا ہے اَب مسلمانوں کی اَولاد نہ ہو گی۔جب حضرت عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے تو یہودیوں کا دعویٰ جھوٹا ہوا۔(الاستیعاب والبدایہ )حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب عبداللہ کی پیدائش ہو گئی تو میں اُس کو لرکک آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اُس کو اپنی گود میں لے لیا اور ایک کھجور منگا کر اپنے مبارک منہ میں چبائی پھر بچہ کے منہ میں اپنے مبارک منہ میں سے ڈال دی۔ حاصل یہ ہے کہ سب سے پہلے بچہ کے پیٹ میں آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا لعاب مبارک گیا اور آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے دُعا بھی دی اور بَارَکَ اللّٰہُ بھی فرمایا۔ (البدایہ )حضرت عبداللہ بن زبیر حضرت عائشہ کے بھانجے تھے اُن کے نام سے حضرت عائشہ کی کنیت اُم عبداللہ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ (البدایہ۔ الاصابہ )

رُخصتی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رُخصتی شوال میں ہوئی۔ عرب کے لوگ شوال میں شادی کرنے کو برا سمجھتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِس جہالت کی تردید کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں میری رُخصتی ہوئی تو اَب بتاؤ مجھ سے زیادہ کونسی بیوی آپ کی چہیتی تھی۔(جب آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے نکاح بھی شوال میں کیا اور رُخصتی بھی شوال میں کی تو اَب اِس کے خلاف چلنے کا کسی مسلمان کو کیا حق ہے۔ اسی جہالت کو توڑنے کے لیے )حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چاہا کرتی تیںح کہ شوال کے مہینے میں عورتوں کی رُخصتی کی جائے۔(البدایہ عن الامام احمد)
بخاری شریف میں ہے کہ سیدِ عالم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم مجھ کو خواب میں دو مرتبہ دکھائی گئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص تم کو ریشم کے بہترین کپڑے میں اُٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے کھول کر دیکھا تو تم نکلیں ،میں نے (دل میں ) کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے دکھا یا گیا ہے تو اللہ ضرور اِس کی تعبیر پوری فرما دیں گے۔ دُوسری روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ فرشتہ بصورت اِنسان ریشم کے کپڑے میں اِن کو لے کر آیا تھا۔( بخاری شریف ج ٢ ص ٧٦٨)
رُخصتی کی پوری کیفیت اِس طرح ہے کہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے بار گاہِ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم آپ اپنی بیوی کو گھر کیوں نہیں بلا لیتے۔ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اِس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں (بطورِ قرض ) پیش کر دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے اِن کی پیشکش قبول فرمائی اور بیوی کے باپ ہی سے قرض لے کر مہر ادا کر دیا۔
مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدِ عالم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں کا مہر (عموماً) ساڑھے بارہ اَوقیہ یعنی پانچ سو درہم تھا۔ آج کل مہر میں ہزاروں روپے مقرر کیے جاتے ہیں اور مہر کی کمی کو باعثِ ننگ و عار سمجھتے ہیں حالانکہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے بڑھ اُمت میں کوئی بھی معزز نہیں ہے۔ اُن کی بیٹی کا مہر پانچ سودرہم تھا جس سے اُن کی عزت کو کچھ بھی بٹّہ نہ لگا اور دینے والے سید عالم صلی الله علیہ و آلہ وسلم تھے۔ آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے مہر نہ ہونے کی وجہ سے کم مقرر کرنے کو ذرا بھی عار نہ سمجھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعۂ رُخصتی سے اَدائیگی مہر کی اہمیت بھی معلوم ہو گئی کیونکہ مہر کے اَدا کرنے کو آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اِس قدر ضروری سمجھا کہ مہر کی اَدائیگی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے رُخصت کر لینے میں تامل فرمایا۔ اُمت کے لیے اِن باتوں میں نصیحت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعۂ رُخصتی کو اِس طرح ذکر فرماتی تھیں کہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی کہ میری والدہ نے آ کر مجھے آواز دی۔ مجھے خبر بھی نہ تھی کہ کیوں بلا رہی ہیں۔ میں اُن کے پاس پہنچی تو میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلیں اور مجھے گھر کے دروازہ کے اَندر کھڑا کر دیا۔ اُس وقت (اُن کے اچانک بلانے سے ) میرا سانس پھول گیا تھا۔ ذرا دیر بعد سانس ٹھکانے سے آیا۔ گھر کے اَندر دَروازہ کے پاس والدہ صاحبہ نے پانی لے کر میرا سر اور منہ دھویا۔ اِس کے بعد مجھے گھر میں اَندر داخل کر دیا۔ وہاں اَنصار کی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ، اُنہوں نے دیکھتے ہی کہا عَلَی الْخَیْرِ وَالْبَرْکَةِ وَعَلٰی خَیْرٍ طَائِرٍ (تمہارا آنا خیرو برکت ہے اور نیک فال ہے) میری والدہ نے مجھے اُن عورتوں کے سپرد کر دیا (اور انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کر دیا اُس کے بعد وہ عورتیں علیحدہ ہو گئیں ) اور اَچانک رسولِ خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے یہ چاشت کا وقت تھا۔ اِس وقت آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنی نئی بیوی سے ملاقات فرمائی۔ (بخاری شریف و جمع الفوائد)
غور کیجئے کس سادگی سے یہ شادی ہوئی۔ نہ دُلہا گھوڑے پر چڑھ کر آیا نہ آتش بازی چھوڑ ی گئی نہ اور کسی طرح کی دھُوم دھام ہوئی، نہ تکلف ہوا، نہ آرائشِ مکان ہوئی ،نہ فضول خرچی ہوئی اور یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ دُلہن کے گھر ہی میں دُلہا دُلہن مل لیے۔ آج اگر اییی شادی کر دی جاوے تو دُنیا نکّو بنا دے اور سونام دھرے، خدا بچائے جہالت سے اور پنے رسول پاک صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا پورا پورا اتباع نصیب فرمائے۔ (جاری ہے)

حضرت عائشہ نے مصاحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خوب فائدہ اُٹھایا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مصاحبت میں ٩ سال گزارے اور اِن ٩ سال میں خوب علم حاصل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے سوالات کر کے علم بڑھا تی رہیں اَور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود بھی اُن کو علوم سے بہرہ وَر فرمانے کا خیال فرماتے رہے۔
حضرت امام زہری نے فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام بیویوں اور اُن کے علاوہ باقی تمام عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم سب کے علم سے بڑھا ہوا رہے گا۔ حضرت مسروق تابعی فرماتے تھے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خاص شاگرد تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اکابر صحابہ کو دیکھا جو عمر میں بوڑھے تھے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرائض کے بارے میں معلومات کیا کرتے تھے۔ (جمع الفوائد ۔ الاصابہ۔ البدایہ)
حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا کہ ہم اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب کبھی علمی اُلجھن پیش آئی اور اُس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو اُن کے پاس اُس کے متعلق ضرور معلومات ملیں (جس سے مشکل حل ہوئی) ۔(جمع الفوائد ولاصابہ والبدایہ)روایت حدیث میں تابعینِ کرام کے علاوہ بہت سے صحابہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوالات

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوالات کرتی رہتی تھیں ۔ ایک مرتبہ سوال کیا یا رسول اللہ!میرے دو پروسی ہیں ۔ فرمائیے میں ہدیہ دینے میں دونوں میں سے کس کو ترجیح دُوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا اِلٰی اَقْرَبِھِمَا مِنْکِ بَاباً (کہ دونوں میں سے جس کے گھر کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اُس کو ترجیح دو )۔ (بخاری شریف )
ایک مرتبہ سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دُعا کی اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِیْراً (اے اللہ مجھ سے آسان حساب لیجیے) یہ دُعا سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا نبی اللہ !آسان حساب کی کیا صورت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اعمال نامہ دیکھ کر درگزر کر دیا جائے گا (یہ آسان حساب ہے پھر فرمایا کہ ) یقین جانو! جس کے حساب میں چھان بین کی گئی اے عائشہ وہ ہلاک ہو گیا۔ (رواہ احمد)۔ (کیونکہ جس کے حساب میں چھان بین ہو گی وہ حساب دے کر کامیاب نہیں ہوسکتا )۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ایک روز میں نے اور حفصہ نے (نفلی) روزہ رکھ لیا پھر کھانا مل گیا جو کہیں سے ہدیہ آیا تھا۔ ہم نے اُس میں سے کھا لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے (میرا اِرادہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کروں مگر مجھ سے پہلے (جرأت کر کے ) حفصہ نے پوچھ لیا۔ جرأت میں وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں ۔ یہ پوچھا کہ یا رسول اللہ !میں نے اور عائشہ نے نفلی روزہ کی نیت کی تھی پھر ہمارے پاس ہدیةً کھا نا آگیا جس سے ہم نے روزہ توڑ دیا (فرمائیے اِس کا کیا حکم ہے؟ ) سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم دونوں اِس کی جگہ کسی دُوسرے دن روزہ رکھ لینا۔(جمع الفوائد)
ایک مرتبہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز لوگ ننگے پاؤں ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اُٹھائے جائیں گے(جیسے ماں کے پیٹ سے دُنیا میں آئے تھے) ۔یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم !(یہ تو بڑے شرم کا مقام ہو گا ) کیا مرد عورت سب ننگے ہوں گے، ایک دُوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ اِس کے جواب میں سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :اے عائشہ (قیامت کی سختی اِس قدر ہو گی اور لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے ایسے بدحال ہوں گے کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش ہی نہ ہو گا ) مصیبت اتنی زیادہ ہو گی کہ کسی کو اِس کا خیال بھی نہ آئے گا۔ (الترغیب والترہیب)
ایک مرتبہ سیّدعالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دُعا کی اَلّٰلھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَّاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَةِ الْمَسَاکِیْنِ اے اللہ ! مجھے مسکین زندہ رکھ اَور حالتِ مسکینی میں مجھے دُنیا سے اُٹھا اور قیامت میں مسکینوں میں میرا حشر کیجٔو۔یہ دُعا سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ نے ایسی دعا کیوں کی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (اِس لیے کہ) بلاشبہ مسکین لوگ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے(اِس کے بعد فرمایا کہ اے عائشہ) اگر مسکین سائل ہو کر آوے تو مسکین کو کچھ دیے بغیر واپس نہ کر اور بھی کچھ نہیں تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دیا کر۔ اے عائشہ !مسکینوں سے محبت کر اور اُن کو اپنے سے قریب کر جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے روز اپنے سے قریب فرمائیں گے۔ (ترمذی )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ یہ جو اللہ جل شانہ نے (قرآن مجید میں )فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَقُلُوْبُھُمْ وَجِلَة اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَ اور وہ لوگ (اللہ کی راہ میں ) جو دیتے ہیں اور اُن کے دِل اُس سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں تو اُن خوف زدہ لوگوں سے (کون مراد ہیں ) کیا وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے صدیق کی بیٹی نہںپ !(ایسے لوگ مراد نہیں ہیں بلکہ اِس آیت میں خدا نے اُن لوگوں کی تعریف فرمائی ہے) جو روزہ رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور (اِس کے باوجود) اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال قبول ہی نہ کیے جائیں ۔ اِن ہی لوگوں کے بارے میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے اُوْلٰئِکَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ کہ یہ لوگ نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں ۔ (مشکٰوة شریف)
ایک مرتبہ سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ملاقات کو محبوب رکھتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ملاقات کو نا پسند فرماتے ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ (یہ تو آپ نے بڑی گھبرا دینے والی بات سنائی کیونکہ ) موت ہم سب کو (طبعاً) بری لگتی ہے (لہٰذا اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی ہم میں سے کسی شخص کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتے)۔ اِس کے جواب میں سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جسے طبعی طور پر موت بری لگے اللہ کو اُس سے ملاقات ناپسند ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے تو اُس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ کی طرف سے اعزازو اکرام کی خوشخبری سنائی جاتی ہے لہٰذااُس کے نزدیک کوئی چیز اُس سے زیادہ محبوب نہیں جو مرنے کے بعد اُسے پیش آنے والی ہے۔ اِس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو چاہنے لگتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی اُس کی ملاقات کو چاہتے ہیں ۔ اور بلا شبہ کافر کی موت کا جب وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملنے کی اُس کو خبر دی جاتی ہے، لہٰذا اُس کے نزدیک کوئی چیز اِس سے زیادہ ناپسند نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اُس کے سامنے پیش آنے والی ہے۔ اِسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی اُس کی ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں ۔ (مشکوة شریف عن البخاری والمسلم)
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں عورتوں پر ایسا جہاد ہے جس میں جنگ نہیں ہے یعنی حج اور عمرہ ۔(مشکوة شریف )
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یہ تو واقعہ ہے ) کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ہاں ) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہ جائے گا تین مرتبہ یوں ہی فرمایا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماتھے پر مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ مِنْہُ بِرَحْمَتِہ (میں بھی جنت میں داخل نہ ہوں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیوے)تین مرتبہ یہی فرمایا (مشکوٰة شریف)
ایک مرتبہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! یہ تو فرمائیے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلة القدر کون سی ہے (یعنی یہ علم ہو جائے کہ آج لیلة القدر ہے ) تو دُعا میں کیا کہوں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یوں کہنا اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا تو مجھے معاف فرما۔ (مشکوٰة)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیگر تمام بیویوں کی بہ نسبت زیادہ محبت تھی۔ حضرت عَمر و بن العاص نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عائشہ ،اُنہوں نے مکرر سوال کیا یا رسول اللہ مردوں میں سب سے زیادہ آپ کو کون محبوب ہے؟ فرمایا عائشہ کے والد۔ سائل نے سہ بار سوال کیا کہ اُن کے بعد؟ فرمایا عمر۔ لیکن اِس قدر محبت کے باوجود کسی دُوسری بیوی کی ذرا حق تلفی نہیں فرماتے تھے۔ سب کے حقوق اور دِلداری اور شب باشی میں برابری رکھتے تھے ۔چونکہ طبعی محبت اختیاری نہیں ہے اِس لیے بار گاہِ خداوندی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دُعا کی تھی اَللّٰہُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا اَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا اَمْلِکُ (اے اللہ !یہ میری تقسیم ہے میرے اختیار کی چیزوں میں لہٰذا مجھے ملامت نہ کیجئے اُس چیز میں جس کے آپ مالک ہیں اور میرے قبضہ کی نہیں ہے) یعنی طبعی محبت غیر اختیاری ہے اِس میں برابری کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔(جمع الفوائد)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ جل شانہ نے معلم بنا کر بھیجا تھا اِس لیے آپ کو اللہ کی طرف سے ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا جن سے اُمت کو راہ مل سکے۔ چونکہ اُمت کو چار بیویوں تک رکھنے کی اجازت ہے اِس لیے جو اُمتی اِس پر عمل کرے اُس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی سے سبق مل گیا کہ ایک بیوی سے طبعی محبت زیادہ ہو تو اِس پر مواخذہ نہیں لیکن حق کی ادائیگی میں سب کو برا بر رکھنا فرض ہے اِس میں کوتاہی کی تو پکڑ ہو گی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک مرد کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ اُن کے درمیان برابری کا خیال نہ رکھے تو قیامت کے روز اِس حال میں آئے گا کہ اُس کا ایک پہلو گرا ہوا ہو گا۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰة شریف)

تربیت کا خاص خیال

سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اگرچہ حضرت عائشہ سے بہت محبت تھی اَور اُن کی تربیت کا بھی خاص خیال فرماتے تھے اَور اللہ تعالیٰ سے ڈراتے رہتے جہاں لغزش نظر آتی فوراً آگاہ فرماتے اور سرزنش فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے میں نے پیچھے ایک اچھا سا پردہ لٹکا دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تو اُس پردہ کو اِس زور سے پکڑ کر کھینچا کہ اُس کو پھاڑ دیا پھر فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ حکم نہیں دیا کہ پتھروں کو اَور مٹی کو لباس پہناویں ۔ (مشکوٰة عن البخاری و ا لمسلم )
ایک مرتبہ چند یہودی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے اور اُنہوں نے دبی زبان سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ ”سَامْ” موت کو کہتے ہیں اُن کا مطلب بددُعا دینا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس کے جواب میں وَعَلَیْکُمْ فرما دیا (یعنی تم پر موت ہو )۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو اِسی قدر فرمایا لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت برہم ہوئیں اور غصہ سے اُنہوں نے فرمایا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ (تم پر موت ہو اور خدا کی لعنت ہو اور خدا کا غضب ٹوٹے ) یہ سن کر سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ ٹھہر نرمی اختیار کر اور بدکلامی سے بچ۔ عرض کیا آپ نے سنا نہیں اُنہوں نے کیا کہا ہے۔ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اَور تم نے نہیں سنا میں نے کیا جواب دیا؟ اُن کی بات میں نے اُن پر لُٹا دی۔ اَب اللہ تعالیٰ میری بد دُعا اُن کے حق میں قبول فرمائیں گے اور اُن کی بد دُعا میرے حق میں قبول نہ ہو گی۔ (مشکوٰة)
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی بُرائی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ صفیہ اِتنی سی ہے یعنی پستہ قد ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فوراً ٹوکا اور فرمایا کہ یقین جان ! تو نے ایسا کلمہ کہہ دیا کہ اِسے اگر سمندر میں ملا دیا جائے تو اُسے بھی بگاڑ دے۔ (مشکوٰة شریف)
ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آٹا پیس کر چھوٹی چھوٹی روٹیاں پکائیں اِس کے بعد اُنکی آنکھ لگ گئی۔ اِسی اثناء میں پڑوسن کی بکری آئی اور روٹیاں کھا گئی۔ آنکھ کھلنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُس کے پیچھے دوڑیں یہ دیکھ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! ہمسایہ کو اُس کی بکری کے بارے میں نہ ستاؤ۔

مختلف نصائح

حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر زُہد اور فکرِ آخرت اور خدا ترسی کی نصیحتیں فرماتے رہتے تھے۔ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت فرمائی اے عائشہ چھوٹے گناہوں سے (بیع) بچ کیونکہ اللہ کی طرف سے اِن کے بارے میں مواخذہ کرنے والا موجود ہے۔ (مشکوٰة شریف )
ایک مرتبہ سیّد عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ اگر تو (آخرت میں ) مجھ سے ملنا چاہتی ہے تو تجھے دُنیا میں سے اِتنا سا سامان کافی ہونا چاہیے جتنا مسا فر اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور مالداروں کے پاس بیٹھنے سے پر ہیز کر اور کسی کپڑے کو پرانا سمجھ کر پہننا مت چھوڑ جب تک تو اُس کو پیوند لگا کر نہ پہن لیوے۔ حضرت عروہ بن زُبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ خالہ جان اِس نصیحت پر عمل کر تے ہوئے نیا کپڑا اُس وقت تک نہیں بنا تی تھیں جب تک کہ پہلے بنائے ہوئے کپڑے کو پیوند لگا کر نہیں پہن لیتی تھیں اور جب تک کہ وہ خوب بوسیدہ نہ ہو جاتا۔ (الترغیب والترہیب)
کثیر بن عبید کا بیان ہے کہ میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اُس وقت اپنے کپڑے میں پیوند لگا رہی تھیں مجھ سے فرمایا ذرا ٹھہرو (ابھی بات کروں گی) اِس کام سے فارغ ہو جاؤں ۔ چنانچہ میں نے توقف کیا۔ پھر جب گفتگو شروع ہوئی تو مںم نے عرض کیا اے اُمّ المؤمنین ! اگر میں باہر جا کر لوگوں سے کہوں کہ اُم المؤمنین پیوند لگا رہی تھیں تو لوگ آپ کو بخیل سمجھیں گے۔ اِس کے جواب میں فرمایا کہ سمجھ کر بات کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے پرانا کپڑا نہ پہنا اُسے نیا کپڑا پہننے میں کیا لطف آئے گا۔

کلماتِ حکمت و موعظت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑی صاحبِ حکمت و موعظت تھیں ۔ بڑے پتہ کی بات فرمایا دیا کرتی تھیں ۔ بعض صحابہ بھی اُن سے نصیحت کرنے کی فرمائش کیا کر تے تھے۔ زیادہ کھا نے کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سب سے پہلی مصیبت یہ اُمت میں پیدا ہوئی کہ پیٹ بھر کر کھانے لگے۔ جب پیٹ بھرتے ہیں تو بدن موٹے ہو جاتے ہیں اور دِل کمزور ہو جاتے ہیں اور نفسانی خواہشیں زور پکڑ لیتی ہیں ۔ (صِفة الصفوة )
ایک مرتبہ فرمایا کہ گناہوں کی کمی سے بہتر کوئی پونچی ایسی نہیں ہے جسے لے کر تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو۔ جسے یہ خواہش ہو کہ عبادت میں محنت سے اِنہماک رکھنے والے سے بازی لے جاوے اُسے چاہیے کہ اپنے کو گناہوں سے بچائے۔ (صِفة الصفوة )
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام اِرسال کیا جس میں اپنے لیے مختصر نصیحت کر نے کی فرمائش کی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِس کے جواب میں فرمایا
سَلَامُ عَلَیْکَ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ کَفَاہُ اللّٰہُ مُؤْنَةَ النَّاسِ وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَی النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ وَکَّلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اِلَی النَّاسِ۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ ۔ (مشکوٰة شریف )
تم پر سلام ہو۔بعد سلام کے واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی کا خیال نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو اللہ تعالیٰ لوگوں کی شرارتوں سے (بھی )اُسے محفوظ فرماتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی رکھنا چاہتا ہو اللہ تعالیٰ (اُس کی مدد نہیں فرماتے بلکہ) اُسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں (وہ اُس کو جیسے چاہے استعمال کریں اور جس طرح چاہے اُس کا دلیہ بنائیں ) وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ ۔
ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ( غالباً اُن کی درخواست پر) یہ بھی لکھ بھیجا کہ
اَمَّابَعْدُ فَاِنَّ الْعَبْدَ اِذَا عَمِلَ بِمَعْصِیَةِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَادَ حَامِدُہ مِنَ النَّاسِ ذَاماً۔ ( صِفة الصفوة )
یعنی جب بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کام کرتا ہے تو اُس کو اچھا کہنے والے بھی اُسے برا کہنے لگتے ہیں ۔

نَشْرُ الْعُلُوْم

سیّدِعالمؐ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بڑی مستعدی سے علمِ دین کی اشاعت کی۔ اُن کے شاگردوں کی بڑ ی بھاری تعداد( جو دو سو کے لگ بھگ ہے) کتابوں میں لکھی ہے جن میں صحابہ کرام بھی ہیں اور تابعین حضرات بھی( رضی اللہ عنہم اجمعین)۔ اِن کی وفات ٧٨ ھ میں ہوئی۔ اِس حساب سے سیّدِ عالمؐ کے بعد اُنہوں نے ٤٨ سال مسلسل علمِ دین پھیلایا۔ محدثینِ کرام نے اُن کی روایات کی تعداد ٢٢١٠ بتلائی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بڑی فیاضی کے ساتھ علمِ دین کی اشاعت کی۔ لڑکے اور عورتیں اور جن مردوں سے اُن کا پردہ نہ تھا پردہ کے اَندر مجلسِ تعلیم میں بیٹھتے تھے اَور باقی حضرات متعلمین پردہ کے پیچھے بیٹھ کر اُن سے دینی فیض حاصل کر تے تھے۔ مختلف قسم کے سوالات کیے جاتے تھے اَور وہ سب کا جواب دیتی تھیں ۔ اور بعض مرتبہ کسی دُوسرے صحابی یا اُمہات المومنین میں سے کسی کے پاس سائل کو بھیج دیتی تھیں ۔ دینی مسائل معلوم کر نے میں کوئی شرماتا تو فرما تی تھیں کہ شر ماؤ مت کھل کر پوچھ لو۔
ہر سال حجِ بیت اللہ کے لیے تشریف لے جاتی تھیں اور ہر طرف سے مختلف شہروں سے برا بر لوگ آتے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے کے باہر ٹھہر کر دینی سوالات کر تے تھے اور وہ جواب دیتی تھیں ۔ مکہ معظمہ میں زمزم کے قریب پردہ ڈال کر تشریف فرما ہو جا تی تھیں اور فتوے طلب کر نے والوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار اُن جلیل القدر صحابہ میں کیا گیا ہے جو مستقل مفتی تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ماجد ہی کے زمانہ ٔ خلافت سے مفتی ہو گئی تھیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تو خود آدمی بھجز کر اُن سے مسائل معلوم کرا تے تھے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ ا َمارت میں دمشق میں مقیم تھے اور وقتِ ضرورت قاصد بھیج کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسئلہ معلوم کر کے عمل کر تے تھے۔ قاصد شام سے چل کر مدینہ منورہ آتا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر سوال کا جواب لے کر واپس چلا جاتا تھا۔( ماخوذ من ابن سعد)
بہت سے لوگ خطوط لکھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دینی معلومات حاصل کر تے تھے اور وہ اُن کو جواب لکھا دیتی تھیں ۔ عائشہ بنت طلحہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی شاگرد ہیں فرماتی ہیں
وَیَکْتُبُوْنَ اِلَیَّ مِنَ الْاَمْصَارِ فَاَقُوْلُ لِعَائِشَةَ یَاخَالَةُ ھٰذَا کِتَابُ فُلانِ وَھَدْیَتُہ فَتَقُوْلُ لِیْ عَائِشَةُ اَیْ بُنَیَّةُ اَجِیْبِیْہِ وَاَثِیْبِیْہِ۔
لوگ مجھے دُور دُور کے شہروں سے خطوط لکھتے تھے (اور ہدایا بھیجتے تھے ) میں عرض کرتی تھی کہ جان یہ فلاں شخص کا خط اور اُس کا ہدیہ ہے(فرمایئے اِس کا کیا جواب لکھوں ) وہ فرما دیتی تھیں کہ اے بیٹا اِسے (یہ) جواب لکھ دو اور ہدیہ کا بدلہ دے دو۔
حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فتاویٰ بکثرت آتے ہیں ۔ لوگ اُن سے خصوصیت کے ساتھ آنحضرتؐ کی اَندرونِ خانہ زندگی کے متعلق معلومات کیا کرتے تھے اور وہ بہت بے تکلفی کے ساتھ جواب دیا کر تی تھیں ۔ چونکہ آنحضرتؐ سب کچھ سکھانے اور عمل کر کے دِکھانے کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے بھیجے گئے تھے اِس لیے آپ کی زندگی کے کسی پہلو کو آپ کی اَزواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نہیں چھپا تی تھیں ۔ حضرت اَسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ رسول اللہؐ اپنے گھر میں کیا کر تے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ (بخاری شریف)
ایک مرتبہ اُنہوں نے ذرا تفصیل سے یوں بیان فرمایا کہ آنحضرتؐ اپنی جوتی کی مرمت خود کیا کر تے تھے اور اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں اِس طرح خانگی کام کاج میں مشغول رہتے تھے جیسے تم لوگ اپنے گھروں مںم کام کر تے ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا آنحضرتؐ اِنسانوں میں سے ایک اِنسان تھے۔ اپنے کپڑوں میں جوں خود دیکھ لیتے تھے اور اپنی بکری کا دُودھ خود دَوہ لیتے تھے اور اپنی خدمت خود کر لیتے تھے۔ (ترمذی شریف )
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہؐ لوگوں کی طرح بات میں بات نہیں پروتے چلے جاتے تھے بلکہ آپ کا کلام ایسا سُلجھا ہوا ہوتا تھا کہ ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ ہو تا تھا جسے پاس بیٹھنے والا با آسانی یاد کر لیتا تھا۔ (ترمذی شریف)
ایک مرتبہ سیّدِ عالمؐ کے ہنسنے کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے آپ کو کبھی پورے دانتوں اور داڑھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جس سے آپؐ کے مبارک حلق کا کوّا دیکھا جاوے آپ تو بس مسکراتے تھے۔ (بخاری شریف )
آنحضرتؐ کی توصیف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا کہ آپ نے کبھی کسی کو اپنے دستِ مبارک سے نہیں مارا نہ کسی بیوی کو نہ کسی خادم کو۔ ہاں اللہ کی راہ میں جہاد کر تے ہوئے (اللہ کے دُشمن کو) مارا تو وہ دُوسری بات ہے اور آپؐ کو کسی سے کچھ کسی قسم کی اَذیت پہنچی تو اُس کا بدلہ کبھی نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کسی سے کوئی کام ہو جاتا تو آپ اللہ کے لیے اُس کو سزا دیتے تھے۔(مشکوة )
حضرت سعد بن ہشام فرما تے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یااُمّ المؤمنین رسول اللہؐ کے اَخلاق و عادات کے متعلق اِرشاد فرمائیے کیسے تھے؟ اِس پر اُنہوں نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ فرمایا آنحضرتؐ کی زندگی قرآن ہی تھی۔ (مشکوٰة شریف )یعنی اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جن اَحکام کا حکم فرمایا ہے اور جن اَخلاق کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے وہ سب پورے آنحضرتؐ کی ذاتِ گرامی میں موجود تھے۔
حضرت عبد العزیز بن جریج روایت فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا سید عالمؐ کن سورتوں سے نمازِ وتر اَدا فرماتے تھے۔ اِس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ اور دُوسری رکعت میں قُلْ یٰآ اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور تیسری رکعت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُ پڑھا کر تے تھے۔ (مشکوة عن الترمذی و ابی داود و النسائی)
حضرت عفیف بن الحارث رضی اللہ عنہ بیان فرما تے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مںں نے عرض کیا یہ تو فرمایئے کہ آنحضرتؐ پر غسل واجب ہوتا تھا تو اَوّل رات ہی میں غسل فرما لیتے تھے یا آخری رات میں ؟ اُنہوں نے فرمایا کبھی آپ نے اَوّل وقت ہی غسل فرما لیا اور کبھی آخری رات میں غسل فرما لیا۔ یہ سنتے ہی میں نے کہا اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِی الْاَمْرِ سَعَةً (اللہ اکبر سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اِس بارے میں گنجائش رکھی ہے )۔ اِس کے بعد میں نے عرض کیا یہ تو فرمائیے کہ آپ رات کے اَوّل وقت میں وتر اَدا فرما لیتے تھے یا رات کے پچھلے حصہ میں ؟ اِس کے جواب میں اُنہوں نے اِرشاد فرمایا کبھی آپ نے اَوّل رات میں وتر اَدا فرمائے اور کبھی آخری رات میں ۔ یہ سنتے ہی میرے منہ سے پھر وہی الفاظ نکلے اَللّٰہ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِی الْاَمْرِ سَعَةً۔ (ابو داود) اِس کے بعد میں نے سہ بار سوال کیا کہ (رات کو جب نفل اَدا فرماتے تھے تو)آپ قرأت زور سے پڑھتے یا آہستہ؟ اِس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کبھی آپ نے زور سے قرأت پڑھی اور کبھی آہستہ پڑھی۔ یہ سن کر میرے منہ سے پھر (بے ساختہ) وہی کلمات نکلے اَللّٰہ اَکْبَرُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِی الْاَمْرِ سَعَةً۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جانتی تھیں کہ سیّد عالمؐ کی زندگی ساری اُمت کے لیے نمونہ ہے۔ اِس لیے آنحضرتؐ کی ہر بات اَور ہر حرکت وسکون کو اُنہوں نے اچھی طرح محفوظ رکھا تھا۔ سیّدِ عالمؐ کے اَندرونی احوال اور رات کے اعمال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بہت مروی ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سیّدِ عالمؐ (نمازِ تہجد سے فارغ ہو کر ) جب فجر کی دو سنتیں پڑھ لیتے تھے تو میں جاگتی ہوتی تو (نماز کے لیے مسجد کو جانے تک) مجھ سے باتیں فرماتے رہتے تھے ورنہ (ذرا دیر د ا ہنی کروٹ پر ) لیٹ جاتے تھے۔(مسلم شریف )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بیان فرمایا کہ سیّدِ عالمؐ جب رات کو نماز (نفل ) پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھ لیتے تھے (اِس کے بعد لمبی سورتوں سے نماز اَدا فرماتے تھے ۔
حضرت عائشہ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ سیّدِعالمؐ غیر فرض نمازوں میں جس قدر فجر کی دو رکعتوں کا خاص اِہتمام فرماتے تھے اَور کسی غیر فرض نماز کا اِس قدر اِہتمام نہیں فرماتے تھے۔ (مسلم شریف) یہ بھی روایت فرماتی تھیں کہ سیّدِ عالمؐ نے فرمایا کہ رَکَعَتَا الْفَجْرِ خَیْر مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا یعنی فجر کی دو سنتیں ساری دُنیا اور جو کچھ اِس میں ہے سب سے بہتر ہیں ۔(مسلم شریف)۔

ماخذ:

http://www.ilmedin.com/forum/