یکم محرم یوم شہادت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

کچھ پیاری باتیں امیرالمو منین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو بکر، عمر اور عثمان )رضوان اللہ علیہم اجمعین( کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احد قرار پکڑ )ٹہر جا، تھم جا( کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق )ابو بکر( اور دو شہید )عمر اور عثمان( ہیں.(صحیح بخاری 3675جلد 5)
نوٹ: نبی اللہ کے اذن )حکم( کے بغیر کچھ نہیں کہتے. مذکورہ بالا حدیث خلفاء ثلاثہ کے بارے میں زبان درازی کرنے والوں کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ )سیدنا( عمر(رضی اللہ عنہ)ہیں.(صحیح بخاری 3689جلد 5)
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے )عمر( ابن خطاب (رضی اللہ عنہ)اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کبھی شیطان تم کو کسی راستے پر چلتا دیکھ لیتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔(صحیح بخاری 3683 کا کچھ حصہ جلد 5)
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) ہوتا۔(سنن ترمذی 3686مسند احمد 17540صحح الحاکم 85/3)
جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے:
سیدنا عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : ائے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب ، دونوں میں جو تیرے محبوب ہیں ان کے ذریعے اسلام کوغلبہ عطا فرما۔)جامع ترمذی شریف، باب فی مناقب عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)،حدیث نمبر: 4045))

حضرت عمر ر(رضی اللہ عنہ)کے سنہری اقوال
٭…مجھے سب سے زیادہ عزیز وہ شخص ہے جو مجھے میرے عیب بتائے ۔۔
٭…زبان درست ہو جائے تو دل بھی درست ہو جاتا ہے
٭…’دنیا کی عزت مال میں ہے اور آخرت کی عزت اعمال ِ صالحہ میں ہے”
٭…یہ دنیا ایک ایسا تنگ رستہ ہے جس کے ارد گرد کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آپ کو اس تنگ راستے سے بچا کر گزرا جائے۔
٭…اے لوگو!…”اللہ کا “ذکر” کیا کرو،کیونکہ اس میں “شفاء” ہے .اورلوگوں کے”عیب” بیان نہ کیا کرو،کیونکہ اس میں “بیماری” ہے “.
٭…جس نے رب کے لیئے جھکنا سیکھ لیا وہی علم والا ہے کیوں کہ علم کی پہچان عاجزی ہے اور جاہل کی پہچان تکبر ہے
ایک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہُ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:…
پہلا سوال:… ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟
دوسرا سوال:…وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں’ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔
تیسرا سوال:…وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔
چوتھا سوال:…وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہُ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہُ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہُ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔
پہلاجواب:… جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ “وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔” دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔
دوسرا جواب:…وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔
تیسرا جواب:…جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔
چوتھا جواب:…وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے….اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے …لگا …….امیر المومنین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے……آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہو ں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو……….
بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو )جسے درا مارا تھا( بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو میں نے تم سے زیادتی کی ہے ….وقت کا بادشاہ ،چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو اس شخص نے کہا میں نے آپ کو معاف کیا ……آپ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں نہیں ..کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے…..آپ رضی اللہ عنہ روتے جاتے تھے اور فرماتے ….اے عمر تو کافر تھا …..ظالم تھا…..بکریاں چراتا تھا……خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔
٭…٭…٭…٭