حضرت عثمان ذوالنورین

اسلام کی تعلیم نے اپنے دور میں ایسی عظیم المرتبت شخصیات کو ابھارا جو آج تک مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لئے روشنی کے میناروں کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
حضرت ابوبکر رضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کی رفاقت ،عمررضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کے عدل ،عثمان رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی طہارت ،علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے علم ،خدیجہ رضی ا ﷲتعالیٰ عنہا کے خلوص ،عائشہ رضی ا ﷲتعالیٰ عنہا کے ایثار ، ابو عبیدہ ر ضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کی شجا عت،معا ویہ رضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کی فراست ، حسین رضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کی صداقت اور عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اﷲ علیہ کے تقوے کی نظیر اسلام ہی میں نہیں تاریخ انسانیت میںبھی ناپید ہے ،ان مہتم بالشان ہستیوں کی زندگی اور کردار سے ہم کیا کچھ نہیں سیکھ سکتے ۔
سیدنا حضرت عثمان رضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کی شخصیت تاریخ اسلام میں جس درجہ اہم اور نہایت عظیم الشان ہے اسی درجہ میں ان کا واقعہ شہادت اسلام کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔
نبی اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اﷲ تعا لیٰ جل شانہ‘ نے انبیا ء المرسلین کے سوا باقی سب جہان والوں پر میرے صحابہ کو فضیلت بخشی ہے اور ان میں چار حضرات یعنی ابوبکر و عمر وعثمان وعلی رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم اجمعین کو منتخب فرما کر میرے لئے خصوصی مصاحب بنا یا پھر فرمایا :میرے لئے ہر صحابی میں بھلائی اور دوسروں پر برتری موجودہے۔
ارشادِ نبوی( حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم) ہے سن لو جس کو جنت کا وسط پسند ہو تو وہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی جماعت ہی سے منسلک ہو جا ئے اس لئے کہ الگ رہنے والے کے ہمراہ شیطان ہو گا۔
علیکم بسنتی وسنت الخلفا ء الراشدین المھدیین عضو اعلیھا باالنواجذ۔
’’لوگو!تم پر میری اور مراے ہدایت یافتہ نیکوکار خلفا ء کی سنت پر عمل کر نا واجب ہے اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رکھنا۔‘‘
حضرت عثمان ص کا سوانحی خاکہ:
نام مبارک آپ کا عثمان اور لقب ذوالنورین ہے یہ لقب اس سبب سے ہو اکہ رسولِ خدا ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی دو نورِ نظر حضرت رقیہ اورحضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہماآپ کے نکاح میں آئیں،حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا دنیا میںکوئی شخص ایسا نہیںجس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں ۔
پانچوں پشت میں آپ کا نسب رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے ،ماں اور باپ دونوں کی طرف سے بہت قریب کی قرابت رکھتے تھے ،آپ کی والدہ ارویٰ رسولِ خد ا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی پھوپھی امِ حکیم بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں یہ ام حکیم وہی ہیں جو رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے والد حضرت عبداﷲکے ساتھ پیدا ہوئی تھیں،زمانہ جاہلیت میں تو آپ کی کنیت ابو عمر تھی جب اﷲتعالیٰ نے دولت اسلام سے نوازا اور رسولِ خد ا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اپنی لختِ جگر حضرت رقیہ رضی ا ﷲتعا لیٰ عنہا کا نکاح آپ سے کرایا تو ان کے بطن سے عبداﷲ پیدا ہوئے تب حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی کنیت ابو عبدا ﷲ رکھی ۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت واقعہ فیل کے چھ برس بعد ہوئی ،ظہورِ اسلام سے ۳۴اور ہجرت ِ نبوی سے ۳۷سال پہلے پیدا ہوئے آپ رضی اﷲ تعالیٰ نبی اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے چھ سال چھوٹے تھے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رہنمائی سے مشرف بااسلام ہوئے ،حضر ت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں جو اسلام لائے خود فرمایا کرتے تھے :اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ نے میری ذات سے مسلمانوں کا چوتھا عدد پورا فرمایا ۔
اس بنا پر آپ کے سابقین اولین میں شامل ہونے پر سب متفق ہیں ،حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعا لیٰ سے بہت پہلے اورحضرت عبیدہ بن جراح اورحضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے ایک دن پہلے دولت ایمان حاصل ہوئی ۔
قبل از اسلام بھی قریش میں ان کی بڑی عزت تھی اپنی دولت وثروت کی وجہ سے غنی کہلاتے تھے ،بڑے صا حب حیا اور بڑے سخی تھے ،رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے داماد تھے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عثما ن رضی ا ﷲ تعا لیٰ عنہ سے رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی وہ مغموم تھے ،حضور اقدس صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے پوچھا ،عثمان کیا حال ہے ،عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا کسی اور پر بھی ایسا صدمہ گزرا ہے ؟جیسا مجھ پر گزراہے، بنت ِرسول رحلت کر گئیں ،میرے اور آپ کے درمیا ن جو سسرالی رشتہ تھا وہ منقطع ہو گیا ۔رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا اے عثمان !تم کیا کہتے ہو جبرئیل( علیہ السلام )نے مجھ کو اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کا یہ پیام پہنچایا ہے کہ میں رقیہ (رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا )کی بہن ام کلثوم (رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا)کا نکاح اسی مہر اور اسی طرح تمہارے ساتھ کردوں ،چنانچہ نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے رقیہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا کے بعد ام کلثوم رضی اﷲ تعا لیٰ عنہاکا نکاح حضرت عثمان رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ سے کر دیا ۔پھر حضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا تو حضور اقدس صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
’’اگر میری اور لڑکی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی عثمان سے کردیتا ‘‘۔
آپ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنی امیہ سے تھا ،ماں اور باپ دونوں قریش تھے ،یہ خاندان دورِ جاہلیت سے معزز اور محترم چلا آتا ہے ،قریش میں بنی ہاشم کے سوا کوئی ان کا مدمقابل نہ تھا ۔
حضرت فاروقِ اعظم اضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد خلافت کے لئے منتخب کئے گئے اور بار ہ دن کم بارہ سال تخت خلافت کو رونق دینے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ـ ۳۵ھ؁ کو بڑی مظلومیت سے سات باغیوں کے ہا تھ سے شہید ہوئے مقام حش کوکب میںدفن کئے گئے۔
قبل اسلام بھی بت پرستی نہیں کی اور شراب نہیں پی اس صفت میں یہ اور حضرت ابوبکر رضی ا ﷲ تعا لیٰ عنہم دونوں ممتاز تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا میں نے عہد جاہلیت میں یا اسلام میں نہ کبھی زنا کیا ہے نہ شراب پیا ہے اور نہ گانا بجایا ہے۔
حالات کے بعد از اسلام:
جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رہنمائی سے مشرف بااسلام ہوئے اور ان کے مسلمان ہو جانے کا علم قریش کو ہوا تو ان کو بڑی ایذائیں دی گئیں ، ایک روز ان کے چچا حکم بن عاص نے ان کو رسی سے مضبوط باندھا اور کہا کہ تم نے اپنے باپ دادا کا دین تر ک کرکے نیا دین اختیار کیا ہے ،اﷲکی قسم میں تم کو نہ کھولوں گا یہا ں تک کہ تم اس نئے دین کو ترک کردو ،حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا ،اﷲ کی قسم! میں اﷲ کے دین کو کبھی ترک نہیں کروں گا ،آخر ظالم اپنے ظلم سے عاجز آگئے اور ان کو رہائی ملی۔
مسلمان ہوتے ہی رسولِ خد ا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا نکاح ان کے ساتھ کردیا اورجب کفارِمکہ نے مسلمانوں کی ایذا رسانی پر کمر باندھی تو یہ حضرت رقیہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہا کے ساتھ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے ،رسولِ خداصلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا عثمان (رضی ا ﷲ عنہ )پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ اسلام کے بعدمع اپنے اہلِ بیت کے ہجرت کی ۔
جب رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فی الفور حبشہ سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے ،غزوہ بدر ان کی موجودگی میں پیش آیا ۔
جب ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں شریک رہے ۔
جب غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت رقیہ رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہا بہت بیمار تھیں نبی اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ :
’’اے عثمان !تم رقیہ کی تیمارداری کرو تمیںا شرکت بدر کا ثواب ملے گا، چنانچہ یہ نہ گئے اور تیمارداری میں مشغول رہے ،رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ان کوبدریوں میں شمار فرمایا اور بدر کے مال غنیمت میں سے ان کو بھی حصہ دیا ۔
حدیبیہ میں نبی اکرم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ان کو اپنی طرف سے منصب سفارت پر مقرر کرکے مکہ بھیجا ،کفار نے ان کو قید کر لیا مگر نبی اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید کر دئیے گئے ،آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو بڑا صدمہ ہوااورانتقام کے لئے آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم اجمعین سے موت کی بیعت لی ۔بیعت کے دوران خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زندہ ہیںمگر قیدہیں یہ خبر سن کر آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ایک ہا تھ کو حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ قرار دیا ،اور دوسرے ہاتھ پر رکھ فرمایا یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے اسی بیعت کا نام بیعتِ رضوان ہے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حصہ اس بیعت میں سب سے زیادہ رہا کیونکہ انہوں نے رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
غزوۂ تبوک میں حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شاندار کارنامہ انجام دیا اس غزوہ کے زمانے میں مسلمانوں پر افلاس طاری تھا اسی لئے اس غزوہ کا نام’’ جیش العسرۃ‘‘ رکھا گیا تھا ۔حضورِ اکرم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا تھا جو شخص اس لشکر کا سامان درست کردے اسے جنت ملے گی ،حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم میں دوسو اونٹ دوں گا ،تیسری دفعہ پھر نبی اکرم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ترغیب دی تو حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پھر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم میں تین سو اونٹ دوں گا ،چوتھی دفعہ پھر رسولِ خدا ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا تو یہ اپنے گھر گئے اور ایک ہزار اشرفیاںلا کر رسولِ خدا ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے دامن میں ڈال دیں آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم منبر پر کھڑے تھے بیٹھ گئے اور ان اشرفیوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے پر ڈالتے تھے اور فرماتے تھے ’’ماعلی العثمان ما عمل بعد الیوم۔‘‘آج کے بعد عثمان جو چاہے کرے کو ئی کام انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
خلا فتِ عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:
حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اس دنیا سے رخصت ہو نے لگے تو لو گوں نے مطالبہ کیا کہ اپنا جانشین مقرر کر دیجئے بعض نے رائے دی کہ اپنے فرزندِ رشید حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہماکو خلیفہ بنادیجئے،حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آپ نے مخالفت کی اور فرمایا میں اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر نہیںکرتا بلکہ آپ نے اس درجہ احتیاط سے کام لیا کہ خلافت کے لئے جو انتخابی کمیٹی بنائی اس میں بھی حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نام شامل نہیں کیا فرمایا چھ شخص ہیں ان میں جسے چاہو اپنا امیر اور خلیفہ منتخب کر لانم مگر تین دن سے زیادہ تا خیر نہ کر نا ۔یکم محرم چوبیس ہجری کو آپ مسندِ خلافت پر متمکن ہو گئے۔
خلافت کے لئے حضرت عثمان رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا انتخاب ہو اتو آپ کی عمرمبارک ہجری تقویم سے ستر سال اور عیسوی جنتری کے لحاظ سے اڑسٹھ سال تھی ۔
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتخاب ان کی عمر اور ان کے فضائل کو دیکھتے ہو ئے اور ان کو اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں جو عرفی اور اجتماعی حیثیت اور مقام حا صل تھا بلکہ حق بجانب اور بر محل تھا ۔
جس دن واقعہ شہادت پیش آیا ہے وہ جمعہ کا دن تھا اس روز آپ نے روزہ رکھا تھا اسی حالت میں غشی کی سی کیفیت ہو گئی اس سے افاقہ ہوا تو فرمایا کہ میں نے نیم خوابی کے عالم میں رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو دیکھا ہے ،فرماتے ہیں کہ عثمان !آج کا روزہ تم ہمارے ساتھ افطار کرنا،روزہ کے علاوہ آپ نے بیس غلام آزاد کئے اور ایک پا ئجامہ جو آپ نے کبھی استعمال نہیں کیا تھا اسے زیب تن فرمایااورشہادت کے وقت قرآن مجید کھول کر سورہ بقرہ کی تلاوت کررہے تھے پیشانی سے نکل کر خون داڑھی پر آیا اور ٹپکنے لگا تو قرآن مجید پربھی بہنے لگا یہاں تک کہ آیت:
فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہ
پر پہنچ کر خون رک گیا اور قرآن بند ہو گیا ان کی شہادت جمعہ اٹھارہ ذی الحج ۳۵؁ھ کو واقع ہو ئی شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عمر ۸۲سال تھی ،اور مدت خلافت بارہ دن کم بارہ برس ہے۔
سازش،انقلاب،شہادت:
آپ کی شہادت بلحاظ اپنی مظلومیت اور مصیبت کے اور بلحاظ ان نتائج و فتن کے جو اس شہادت سے پیش آئے اس امت میں سب سے پہلی اور بے نظیر شہادت ہے، مسلمان باہم متفق ومتحد تھے اور سب کی متفقہ قوت کفر کے فنا کرنے میں صرف ہو رہی تھی اور برکاتِ نبوت (صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم)ان میں موجود تھیں مگر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شہید ہو نا تھا کہ وہ تمام برکات ان سے لے لی گئیںاور باہم اختلاف پیدا ہو ااور وہی تلوار جو کا فروں کے قتل کے لئے تھی آپس میں چلنے لگی اس وقت سے آج تک اگلا سا اتفاق و اتحادمسلمانوں کو نصیب نہ ہوا۔بلکہ روز بروز اختلاف کا دائرہ وسیع ہو تا گیا ۔
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے نتا ئج رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے پہلے ہی پیش گو ئیوں کے سلسلے میں بیان فرمادئیے تھے مثلاً:عشرہ مبشرہ والی حدیث میں ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی باری آئی توآپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
’’ان کو جنت کی خوشخبری سناؤ اس مصیبت پر جو ان کو پہنچے گی ۔‘‘
رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ایک فتنہ کا ذکر فرمایااور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایایہ اس فتنہ میں ظلمًا قتل کیا جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا اے عثمان !اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ تجھ کو ایک قمیض پہنائے گا ۔اگر لو گ اس کو اتارنا چاہیں تو تم نہ اتارنا۔
رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ایک فتنہ کا ذکر کر کے ایک نقاب پوش آدمی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:’’یہ اس دن ہدایت پر ہو گا میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے ،میں ان کو رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے سامنے لے گیاکہ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے انہی کے متعلق فرمایا ہے رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا ،ہاں!۔
رسول خدا! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا ،اسلام کی چکی ۳۵ سال کے بعد اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت ٹھیک ۳۵ سال کے بعد ہو ئی ۔
رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا ،خدا تعالیٰ کی تلوار میان میں رہے گی جب تک کہ عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زندہ ہیں اور جس وقت حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید کر دئیے جائیں گے ،وہ تلوار میان سے نکال لی جائے گی ،اور پھر قیامیت تک میان میں نہ کی جائے گی ۔
شہادت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بڑاطویل ہے خلا صہ یہ ہے کہ آپ کی خلافت کے آخری دنوں میں کچھ لوگوں کو آپ سے اختلاف پیدا ہوا اور وہ اختلاف بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچا کہ بغاوت رونماہوئی اور باغیوںنے آپ کا محاصرہ کیا ،آپ پر پانی بند کیا اور اس طرح مظلومیت کے ساتھ آپ کو شہید کردیا ۔
ابتدا یوں ہوئی کہ رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی انگشتری مبارک جورسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی اور ان کے بعد حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی ان کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں آئی ایک روز حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ’’ الا ریس ‘‘نامی کنویں پر بیٹھے تھے اور وہ انگوٹھی ہاتھ میں تھی ہاتھ سے گر کر کنویں میں گر پڑی،تین روز تک وہ انگوٹھی تلاش کی گئی مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا،تمام کنویں کا پانی بھی نکالا گیا،مگر انگوٹھی نہ ملی اس انگوٹھی کا گم ہو نا تھا کہ سارا نظام درہم برہم ہو گیااور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر نکتہ چینیاںشروع ہو گئیں۔
آپ پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھاکہ آپ نے اپنے خاندان کے لو گوں کو بڑے بڑے عہدوں پر مقرر کر رکھا تھا۔یہ ضرور ہے کہ یہ فعل سیرتِ شیخین کے خلاف تھااور نتیجہ بھی اس کا اچھا نہیں نکلالیکن شرعی طور پر اس فعل کو ناجائزنہیں کہا جا سکتا،اس قسم کے اور اعتراضات بھی آپ پر کئے گئے مگر کو ئی اعتراض بھی ایسا نہ تھاجو شرعی طور پر قابلِ گرفت ہو سکے ۔سیدھی بات یہ ہے کہ ایک صحابی رسول ! (صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم )جو مہاجرین کی جماعت میں سے ہو جس کی تعریف قرآن میں ہے جس کو رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے متعدد بار جنت کی بشارت دی ہو جس کے لئے فرمایاہو کہ یہ ظلمًا شہید ہو گا اور یہ اس دن حق پر ہو گااس کے لئے یہ ذراذرا سی باتیں جو کسی طرح شرعًاعدم جواز کی حد میں نہیں آئیں ہر گز قابلِ گرفت نہیں ہو سکتیں۔
ان مخالفین میں سب سے بڑا فتنہ انگیز اور دشمنِ اسلام ایک بظا ہر مسلمان لیکن حقیقتًا منافق یہودی عبد اﷲ بن سبا تھا۔اسلام اور مسلمانوں کے ہا تھوں سب سے زیادہ صدمہ یہودیوں کے مذہبی وقارکو پہنچا تھا حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میںعبد اﷲ بن سباکو یہودیوں کی پرانی دشمنی نکالنے کا مو قع ہا تھ آگیایہ بڑا ذہین اور سازشی تھا اس لئے اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مگر درحقیقت اسلام کے خلاف ایک وسیع سازش کا جال پھیلایاچنانچہ اس نے محبت اہلِ بیت کے لباس میں بنی ہاشم کی حمایت کے ساتھ ساتھ خلفائے ثلاثہ خصوصًا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بنو امیہ کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا اور سادہ لوح مسلمانوں میں تفریق ڈالنے اور گمراہ کرنے کی خاطر ان کے سیدھے سادے عقائد میںخرافات شروع کردئیے مثلاً ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے۔رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے وصی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی وصیت کو پورا نہ کرنے والے ظالم ہیں اور حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ نے ظلم اور زور سے خلا فت حاصل کی ۔
اہلِ مصر نے حضرت عثمان رضی ا ﷲتعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان پرپانی بند کردیا گیا ۔جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو انہوں ایک مرتبہ تھوڑا سا پانی بھیجا جو بمشکل تمام حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تک پہنچا اور کئی آدمی پانی لے جانے کی وجہ سے زخمی ہوئے ،حضرت علی رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ نے حضرات حسنین رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم کو حکم دیا کہ تم دونوں تلوار لے کر حضرت عثمان رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ کے دروازے پر کھڑے رہو کسی کو اندر نہ جانے دینا ،حضرت طلحہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ اور زبیر رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ اور چنددیگر صحابہ کرام رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم نے بھی اپنے صاحبزادوں کوحفاظت کے لئے بھیج دیا ۔
بلوائیوں نے تیر اندازی شروع کی ایک تیر مروان کے لگا باقی تیر حفاظت کرنے والوں کے لگے ،حضرت امام حسن رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ خون میں نہا گئے ،محمد بن طلحہ بھی زخمی ہوئے ،حضرت علی رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ کے غلام قمبر کو بھی زخم لگے ۔
یہ حال دیکھ کر محمد بن ابی بکر نے کہا کہ یہ بات اچھی نہ ہوئی ،اندیشہ ہے کہ بنی ہاشم ہمارے مقابلہ پر آجائیں ، لہٰذا اب جلدی کرو میرے ساتھ چلے آئوپشت کی دیوار پھاند کر چلیں اور عثمان (رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ )کو قتل کردیں ،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا دو شخص ان کے ہمراہ پشت کی دیوار سے اندر پھاند ے سب سے پہلے محمد بن ابی بکر حضرت عثمان رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ کے پاس گئے اور آپ کی ریش مبارک پکڑ لی ،حضرت عثمان رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا :
اے محمد بن ابی بکر اگر تمہارے والدحضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ تم کو میرے ساتھ یہ برتائو کرتے ہوئے دیکھتے تو خدا کی قسم ان کو بڑ ا رنج ہوتا ،یہ سن کر محمد بن ابی بکر کے ہا تھوں پر لرزہ پڑ گیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے اس کے بعد غافقی بڑھ کر حملہ آور ہوا،اس نے قرآن کریم کو ٹھوکر مار کر الگ پھینک دیا ۔کنانہ بن بشر نے اس زور سے پیشانی پر لوہے کی کوئی چیز ماری کہ آپ چکرا کر گر پڑے ،خون کا فوارہ کلام اﷲ کے اوراق پر جاری ہوگیا ۔عمر بن الحمق نے سینہ پر چڑ ھ کر کئی وار کئے ،آپ کی زوجہ حضرت نائلہ سے دیکھا نہ گیا وہ اپنے عظیم شوہر کو بچانے کیلئے بیتابانہ آگے بڑھیں ان کی تین انگلیاں ہتھیلی سے اڑ گئیں اور بد بخت اعظم سودان بن حمران نے لپک کر آپ کو شہید کر دیا۔ صبح کے وقت آپ شہید کئے گئے اس وقت تلاوت قرآن میں مشغول تھے ان کا خون جو بہا تو قرآن مجید کی اس آیت پر گیا :
فسیکفیکھم اﷲ وھو السمیع العلیم ۔
وہ قرآن مجید اب تک مدینہ منورہ میں محفوظ ہے ۔ سلاطین عثمانیہ پر جب کوئی ایسی مصیبت آتی تھی تو قرآن مجید نکال کر پڑھا جاتا تو وہ مصیبت دفع ہوجاتی تھی ۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی زوجہ حضرت نائلہ نے بہت شور کیا مگر ان کی آواز باہر تک نہ سنی گئی آخرکوٹھے پر چڑھ کر آواز دی کہ اے لوگو! امیر المومنین شہید ہوگئے ۔ یہ آواز سن کر لوگ اندر گئے تو دیکھا کہ آپ شہدھ ہوگئے اور قاتل پشت کی دیوار پر کود کر بھاگ گئے ۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ آئے اور اپنے دونوں صاحبزادوں کو مارا کہ تم دونوں دروازے پر کھڑے رہے اور امیر المومنین شہید کر دیئے گئے ۔ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ نے کہا، ہم کیا کر سکتے تھے قاتل دروازے سے نہیں بلکہ مکان کی پشت سے اندر داخل ہوئے ۔
یہ فتنہ اور سازش حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلاف نہ تھی ان کی شخصیت کو محض بہانہ بنا یا گیا تھا ۔ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کی وحدت و تنظیم کے خلاف ایک سازش تھی ۔ محاصرہ کی حالت میں آپ نے ان دشمنان اسلام سے جو خطاب کیا اس نے آنے والے تاریک دور کی مکمل تصویر کھینچ دی ہے آپ نے قصرِ خلافت کے اوپر سے فرمایا:
’’لوگو ! یاد رکھو اگر آج تم نے مجھے قتل کر دیا تو قیامت تک نہ ایک ساتھ نماز پڑھ سکو گے ، نہ ایک ساتھ جہاد کر سکو گے ۔ ‘‘حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی یہ پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی ۔ آپ کی شہادت سے وحدت اسلامی پارہ پارہ ہوگئی اور اس سے جو رخنہ پیدا ہوا وہ آج تک پورا نہ ہوسکا۔
شہادت سے کچھ دیر پہلے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بالا خانہ تشریف لے گئے اور چند صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو پکارا، اور آپ کے فضائل میں جو ارشادات نبی اکر م صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمائے ان کی انہوں نے تصدیق فرمائی اس کے بعد انصار نے کہا ، امیر المومنین آپ کی مظلومیت اب انتہا کو پہنچ گئی ہے ہم سے دیکھی نہیں جاتی اگر آپ حکم دیں تو ان باغیوں کو ابھی تہہ تیغ کر دیں ۔ آپ نے فرمایا:’’ میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میرے حکم سے لا اِلٰہ الا اﷲ پڑھنے والوں کا خون بہایا جائے ۔‘‘ لوگوں نے کہاپھر آپ خلافت سے دستبردار ہوجائیے آپ نے فرمایا میں یہ بھی نہیں کرسکتا اس لئے کہ رسول ِ خدا ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا تھا کہ اے عثمان ! اﷲ تم کو ایک قمیض پہنائے گا۔ لوگ اس کو اتارنا چاہیں گے اگر تم نے لوگوں کے کہنے سے اتار دی تو جنت کی خوشبو تجھ کو نصیب نہ ہوگی ۔ لہٰذا میں اس پر قائم رہوں گا۔ لوگوں نے کہا پھر اس ظلم سے آپ کو کس طرح نجات ملے ، فرمایا اب نجات کا وقت قریب ہے ، آج میں نے نبی کریم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو خواب میں دیکھا ہے آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم فرمارہے تھے اے عثمان ! آج افطار ہمارے ساتھ کرنا چنانچہ میں نے روزہ رکھا ہے اور انشاء اﷲ افطار کے وقت تک رسول ِ خدا !صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے پاس پہنچ جائوں گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ، آپ کو اپنی شہادت کا ایسا کامل یقین تھا کہ جمعہ کے دن روزہ رکھا ایک نیا پاجامہ زیب تن کیا ، بیس غلام آزاد کئے اور قرآنِ حکیم کھول کر تلاوت قرآن کریم میں مشغول ہوگئے ۔
فضائل و مناقب عثمان ص:
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو صحابہ کرام میں جو فضیلت اور عظمت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے ۔ آپ ’’ السابقون الاولون‘‘ میں تھے ۔ حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہم کے بعد وہ شخص تھے جنہوںنے اسلام قبول کیا ۔ وہ ’’ ذوالنورین ‘‘ تھے کہ حضور سرورِ کائنات صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو ان کے نکاح میں دیا اور فرمایا ۔ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں توانہیں یکے بعدعثمان کے نکاح میں دے دیتا ۔ وہ ’’غنی ‘‘تھے کہ انہوںنے اپنی ساری دولت کو دین اور ملت کی نظر کر دیا ۔ غزوۂ تبوک میں جب سامان رسد کیلئے انہوں نے ایک ہزار اونٹ ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے تو حضور سرورِ کائنات صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم بے اختیار پکار اٹھے:
مَاضَرََّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ھٰذَ االْیَوْمِ
انہی کیلئے نبی اکرم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے بیعت ِ رضوان لی انہیں کاتب وحی ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کو مسجد الحرام کی توسیع کرانے کی سعادت میسر آئی ۔ انہوں نے تمام عالم اسلام کو ایک مصحف اور ایک قرأ ت پر جمع کیا اور جامع القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے ان کی سیرت کے غیرمعمولی اوصاف کے پیش نظر امت نے ان کیلئے ’’ کامل الحیاء والایمان ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ۔ زندگی کے یہ کتنے مختلف النوع گوشے ہیں جہاں انہوں نے اپنی سیرت کا غیر فانی نقش چھوڑا ہے ۔ان کے سیرت کے غیر معمولی اوصاف کے پیش نظر ان کے سیرت نگار کو ان تمام اوصاف و کمالات کا ایک ایک پہلو اجاگر کرنا ہوگاجب ہی ان کی شخصیت اور کارناموں کی حقیقی نوعیت واضح ہو سکے گی ۔
دنیا میں آج تک یہ شرف ماسوائے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے کسی اور کو حاصل نہیں ہواکہ وہ ایک نبی کی دو صاحبزادیوں کے شوہر تھے ۔ قدرت نے یہ بزرگی اور عزت صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہی کو عطا کی ۔ کیونکہ وہ اپنے فضائل اخلاق کے باعث اس اعزاز کے بجا طور پر مستحق تھے ۔
دوسرا شرف اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہ بخشا کہ انہوں نے ہر موقعہ پر اپنے مال سے اسلام کی عظیم الشان خدمت کی کہ ایسی خدمت کسی اور شخص سے بن نہ آئی۔
تیسرا شرف ان کو یہ ملا کہ اپنے نیک اعمال کے باعث اﷲ تعالیٰ نے انہیں آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا تیسرا خلیفہ بنایا۔
چوتھا شرف انہیں خدائے پاک و برتر کی درگاہ سے یہ عطا ہوا کہ ان کو آقانے اسی دنیوی زندگی میں بہشت کی خوشخبری سنادی ۔
پانچواں شرف یہ کہ آپ مسلمانوں میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت فرمائی ۔ نہ صرف ایک دفعہ بلکہ دو دفعہ ۔ پہلی بار حبشہ کی طرف اور دوسری بار مدینہ کی جانب۔
چھٹا شرف یہ آپ کے ساتھ خاص ہے کہ آپ اسلام میں سب سے پہلے خلیفہ ہیں جن کے عہد میں بحری فتوحات ہوئیں اور بحیرۂ روم کے اکثر جزیرے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲ ِ یُؤْ تِیْہِ مَنْ یَّشَآ ئُ
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی والہانہ محبت ، ان کا غیر معمولی لحاظ اور توقیر خود حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خیر مجسم ہونے کی دلیل ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید کی بعض آیات میں بھی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی طرف تلمیح کی گئی ہے ۔
عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل آیت حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شان میں وارد ہوئی :
اَمَّنْ ھُوَ قَانِت’‘ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط
’’ بھلاجو شخص رات کے اوقات تنہائی میں خدا کی بندگی میں لگاہوا ہے ( کبھی اس کی جناب میں سجدہ کرتا ہے اور کبھی اس کے حضور میں دست بستہ کھڑا ہوتا آخرت سے ڈرتا اورا پنے پروردگار کے فضل کا امیدوار ہے کہیں ایسا شخص بندہ نافرمان کے برابرہوسکتا ہے ۔‘‘
اسی طرح ایک اور آیت ہے جو عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کے بیان کے مطابق حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شان میں نازل ہوئی تھی ۔ وہ آیت ہے :
ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَمَنْ یَّاْ مُرُ بِالْعَدْلِ وَھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم
’’ کیا ایسا غلام اور وہ شخص دونوں برابر ہوسکتے ہیں جو لوگوں کو حد اعتدال پر قائم رہنے کو کہتا ہے اور خود بھی اعتدال یعنی اوصاف کے سیدھے راستے پر قائم ہے ۔‘‘
اولین و سابقین اور مہاجرین میں سے ہونے اور اسلام کی خدماتِ جلیلہ کے باعث بارگاہِ نبوت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اور مجلس صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا جو مرتبہ و مقام تھا اس کے شواہد و دلائل کثرت سے موقع بہ موقع گزرچکے ہیں ۔ بڑی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو طبعاً حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے بڑی محبت تھی۔ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ان کا بڑا لحاظ کرتے اور دلجوئی بھی فرماتے رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا نے آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے کہا : فاطمہ کے شوہر (علی) میرے شوہر ( عثمان ) سے بہتر ہیں ۔ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّمپہلے تو خاموش رہے پھر ارشاد فرمایا:
بیٹی ! تیر ا شوہر تو وہ ہے جس سے اﷲ اور اس کا رسول دونوں محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ کیا تم کو یہ بات پسند نہیں کہ تم جنت میں داخل ہوگی تو تم دیکھو گی کہ وہاں تمہارے شوہر کا مکان سب لوگوں کے مکان سے اونچا ہے ۔
ابو سعید الخدری رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے ۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اول شب سے طلوع فجر تک آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے یہ دعا فرماتے رہے ۔ اے اﷲ! میں عثمان رضی اﷲ عنہ سے خوش ہوں تو بھی اس سے خوش رہ ۔ ایک مرتبہ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو گلے سے لگا لیا اور فرمایا :
اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ
’’عثمان ! تم دنیا میں بھی میرے ولی ہو اور آخرت میں بھی۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں ۔ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تو آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے ہاتھ اتنے بلند ہوجاتے کہ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی بغل کا نچلا حصہ ظاہر ہوجاتا تھا ۔ اس طرح کسی اور کیلئے دعا مانگتے ہوئے میں نے رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّمکو نہیں دیکھا۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں تھے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی طرف سے خبصیہ جو عر ب کی محبوب غذا ہے بطور تحفہ آیا ۔ حضور صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اسے دیکھا تو بے ساختہ آسمان کی جانب دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی :اے اﷲ ! عثمان رضی اﷲ عنہ تیر ی رضا کا طلبگار ہے پس تو اس سے راضی ہوجا۔
اس غایت محبت اور تعلق خاطر کی وجہ سے اگر کوئی شخص حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے بغض و عناد رکھتا تھا تو آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اس سے سخت کبیدہ خاطر ہو جاتے تھے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی کا جنازہ آیا تو آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے نماز جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ۔ لوگوں نے سبب دریافت کیا تو ارشاد ہوا:
کَانَ یُبْغِضُ عُثْمَانَ فَلَمْ اُصَلِّ عَلَیْہِ
’’ یہ شخص عثمان رضی اﷲ عنہ سے بغض رکھتا تھا اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘
رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ شہید کردیئے گئے ۔ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے بیعت کیلئے مسلمانوں کو طلب فرمایا۔ مسلمان رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پروانہ وار حاضر ہوگئے ۔ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اس وقت ایک درخت کے نیچے تشریف فرماتھے ۔ لوگوں نے اس بات پر بیعت کی کہ وہ فرار نہیں اختیار کریں گے ۔ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ خود ہی پکڑا اور فرمایا۔ یہ عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ ہے ۔ اس طرح’’ بیعت الرضوان ‘‘ مکمل ہو گئی ۔
ان وجوہ کی بنا پر تمام صحابہ کرام ث کا اس پر اتفاق تھا کہ شیخین کے بعد مرتبہ و مقام حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہی ہے ۔
ایک روایت میں عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔ہم عہد نبوی میں لوگوں کے طبقات اور مدارج بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم کو علی الترتیب درجۂ اعلیٰ میں رکھتے تھے ۔
ایک اور روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس طرح اسی مضمون کو بیان کیا ہے کہ ہم لوگ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے زمانے میں حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کا مرتبہ و مقام سب سے اونچا جانتے تھے ۔ اس کے بعد مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا اور پھر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا مانتے تھے اور اس کے بعد صحابہ میں تعادل و تفاضل نہیں کرتے تھے ۔
یہ بات بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے خاص واقعات میں حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہم ایک ساتھ ہی بلا شرکت غیرے نظرآتے ہیں ۔ مثلاً مندرجہ ذیل دو حدیثیں دیکھئے جن میں رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت کی پیشن گوئی بھی کی ہے ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : ایک مرتبہ آنحضرت صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ایک باغیچہ میں داخل ہوئے اور مجھ کو حکم دیا کہ اس کے دروازہ کی نگرانی کروں ، اتنے میں ایک شخص آیا اس نے اجازت طلب کی تو حضور صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا اس شخص کو اندر آنے دو اور اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ اب یہ شخص اندر آیا تو دیکھا کہ یہ ابو بکر رضی اﷲ عنہ تھے ۔ ا س کے بعد ایک اور شخص آیا تو اس کی اجازت طلبی پر حضور صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے پھر وہی فرمایا: اسے اندر آنے دو اور اسے جنت کی بشارت سنادو۔ اب دیکھا تو یہ عمر رضی اﷲ عنہ تھے ۔ اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور ا س نے اجازت طلب کی تو اس مرتبہ ارشاد نبوی صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ہو ا۔ ابوموسیٰ! تم اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دے دو اور جو مصیبت اس کو پہنچنے والی ہے اس پر اسے جنت کی بشارت سنا دو۔ اب یہ شخص اندر آیا تو دیکھا کہ یہ عثمان رضی اﷲ عنہ بن عفان تھے ۔
اسی روایت کو ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے عاصم الا حوال نے بھی نقل کیا ہے اور اس میں مزید یہ بھی ہے کہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّماس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں پانی تھا۔ اور آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا گھٹنا کھلا ہوا تھا ۔ جب عثمان رضی اﷲ عنہ اندر آئے تو آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے گھٹنا ڈھانپ لیا۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثما ن رضی اﷲ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ لرزنے لگا ۔ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ( ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے پہلے پہاڑ پر پائوں مارا اور پھر فرمایا) ’’اے احد ! تیرے اوپر ایک نبی صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ، ایک صدیق رضی اﷲ عنہ اور دو شہید ہی تو ہیں۔‘‘
خدمات اور کارنامے:
اگرچہ اسلام میں ہر فعل جو احکام خداوندی کے ماتحت ہو اور جس کا مقصد حصول رضائے الٰہی ہو ، دینی اور مذہبی فعل ہے ۔ اور اس لئے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے تمام کارنامے دینی کارنامے ہیں تاہم سب سے بڑا اور نہایت عظیم الشان دینی کارنامہ مصحف عثما نی کی ترتیب و تدوین ہے ۔ یہی وہ کارنامہ ہے جس کے باعث قرآن جیسا نا زل ہوا تھا ویسا ہی ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پورے عالم اسلام کو ایک مصحف اور ایک ہی قرا‘ ت ( باعتبار حروف وترتیب آیات و سورۃ) پر متفق کر دیا ۔ مصحف کے متعدد نسخے لکھوا کر تیارکرنا اور تمام اسلامی ملکوں کے دارالحکومت میں ایک ایک سرکاری نسخہ بھیج دینا اور ایک قرأ ت کو طے کردینا حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت کا اہم ترین کارنامہ ہے ۔
امام بدرالدین رحمہ اﷲ محمد بن عبد اﷲ لکھتے ہیں ’’ لوگوں کو اختیار تھا کہ ان کو جس قدر قرآن یاد ہے اس کو جس قرأت مںا بھی پڑھنا چاہیں پڑھیں ۔ یہ صورت حال اس قدر بڑھی کہ فساد کا خوف ہونے لگا ۔ لہٰذا ایک قراٗت ان سب پر لازم قرار دے دی گئی ۔ جس طرح آج تک ہم لوگ پڑھتے ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے لوگوں پر یہ لازم قرار دیا کہ ایک قرأت کے پابندر ہیں ۔ وہ قرأ ت جس پر انصار و مہاجرین کا اتفاق ہے ۔ کیونکہ اہل عراق اور اہل شام حروف کے تلفظ اور زیر و زبر کو مختلف انداز سے پڑھنے لگے تھے اور ایک بڑا فتنہ سر اٹھا رہا تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو ایک بڑی خدمت انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ۔ اس سے اختلاف دور ہوگئے اور امت کو یکسوئی نصیب ہوئی ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا’’ اگر عثمان کے بجائے مجھے اس صورت حال سے سابقہ پڑتا تو میں بھی مصاحف کے سلسلہ میں وہی کرتا جو عثمان رضی اﷲ عنہ نے کیا۔
ابن کثیر رحمہ اﷲ نے سُوَید بن غفلہ سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
اے لوگو! عثمان رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ناانصافی سے کام نہ لو تم کہتے ہو کہ انہوں نے مصاحف میں ردّ وبدل کر دیا ۔ خدا کی قسم انہوںنے( ایک قرأت پر جمع کردینے کے بارے میں ) جو طرز عمل بھی اختیار کیا، وہ صحابہ رسول صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے علم میں تھا اور ان کی انہیں تائید حاصل تھی ۔ اگر میں ان کی جگہ پہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جوانہوں نے کیا۔
ابن عساکر نے مشہور تابعی عبدالرحمن مہدی سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ میں دو صفتیں ایسی ہیں جو ان کو شیخین پر بھی ترجیح دیتی ہیں ۔ ایک ان کا صبر جس کا انجام شہادت ہوا ، اور دوسری صفت یہ ہے کہ انہوں نے پوری امت کو ایک قرآن پر جمع کر دیا ۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہی وہ شخص تھے جنہوںنے غزوۂ تبوک کے موقع پر لشکر کیلئے سامان میا کیا تھا اور بئرِ رومہ کو خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کیا تھا۔
امام ترمذی ، حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور حاکم حضرت عبد الرحمن بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے کہ ’’ جس وقت رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم’’ جیش العسرہ ‘‘تیار کررہے تھے ، حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ ایک ہزار دینار لے کر حاضر ہوئے اور آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے دامن میں ان کو بکھیر دیا ۔ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ان کو پلٹ پلٹ کر دیکھتے اور فرماتے اگر آج کے بعد عثمان نے کوئی بڑا عمل نہیں بھی کیا تو ان کیلئے کوئی نقصان نہیں ہے یہ بات آپ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے دوبار فرمائی ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ عثمان رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّمکے ہاتھوں دو بار جنت خریدی ( یعنی جنت کی بشارت حاصل کی ) ۔ ایک اس وقت جب کہ انہوں نے بئرِ رومہ خریدا تھا اور دوسری اس وقت جب ’’جیش العسرہ‘‘ کو تیار کیا تھا۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے بئر رومہ بیس ہزار درہم میں خرید کرمسلمانوں کیلئے وقف کر دیا تھا ۔ یہ ایک بڑا کنواں تھا جس کامالک ایک یہودی تھا ۔ رسول اﷲ !ﷺ نے فرمایا تھا ۔ کوئی ہے جو بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دے ۔ اپنا ڈول ان کے ڈولوں کے ساتھ کنویں میں ڈالے ۔ مسلمان اس کے پانی سے مستفید ہوں اور اس کے عوض انہار جنت سے فائدہ اٹھانے میں اس کو خصوصی استحقاق حاصل ہو ۔ مسلمانوں کو اس وقت شیریں اور فراواں پانی کی سخت ضرورت تھی۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے ایک اہم شرف یہ حاصل ہوا کہ جب مسجد نبوی صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی تعمیر شروع ہوئی تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ بھی اس میں ایک معمار تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے ۔ فرماتی ہیں مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو پہلا پتھر رسول اﷲ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اٹھایا اور اس کی جگہ رکھا۔ دوسرا پتھر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے اٹھا یا اور اسی طرح رکھا ۔ اب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی باری تھی انہوں نے بھی یہی کیا ۔ ( مسند ابو یعلی کی ایک روایت میں حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے بعد عمر رضی اﷲ عنہ کا نام بھی ہے ) ۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں میں نے یہ دیکھا تو بولی : اے اﷲ کے رسول ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم آپ دیکھ رہے ہیں یہ دونوں کس طرح آ پ( صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم) کی مدد کر رہے ہیں ۔ ارشاد گرامی ہوا ہاں عائشہ ! یہی تو میرے بعد میرے خلیفہ ہونے والے ہیں۔
خلافت عثمانی کا ایک نہایت اہم کارنامہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے نہ صرف یہ کہ ان فتوحات کو جاری رکھا بلکہ ان میں توسیع کی جو فتوحات نامکمل رہ گئی تھیں انہیں مکمل کا ۔ جہاں کوئی بغاوت ہوئی اس کا فوراً تدارک کر کے حکومت میں استحکام پیدا کیا ۔ ـ
حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے سمندر میں لڑائی کا آغاز کیا اور اسے کامیاب کر کے رہے ۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے عہد میں آذر بائیجان اور طبرستان فتح ہوئے اور آپ ہی کے عہد میں حضرت عبد الرحمن بن ربیعہ الباہلی بلاد الخزر تک فاتحانہ داخل ہوگئے۔ بحر قزوین کے ساحل پر وسیع مقامات ہیں ( اور اسی پر بلاد الدیلم اور الجبل بھی اسی علاقہ میں ہے ) اسلامی فوجیں مسلسل بڑھتی رہیں ۔ یہاں تک کہ بالبخر پہنچ گئیں اوراس کے آگے بڑھیں تو قہستان سے نیساپور ،تغارستان اور وہاں سے مروالرود ، بلخ ، خوارزم ، آرمینیااور وہاں سے تالیقلااور تفلیس تک کا علاقہ اسلامی فتوحات میں داخل ہوگیا۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دور مںن قبرص اور براعظم افریقہ کے شمالی ساحلی علاقے طرابلس سے طنجہ تک اسلامی حکومت وسیع ہوگئی۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے عہد میں خلافتِ اسلامیہ ایک ایسی سلطنت بن گئی جس کی اپنی بحری طاقت بھی تھی ۔ آپ کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ نقطہ عروج تک پہنچ گیا تھا ۔ اس کا سبب وہ خصوصیات تھیں اور نفسیاتی تبدیلیاں تھیں جو اسلام نے مسلمانوں میں پید ا کر دی تھیں ۔ راہِ خدا میں جہاد اور حصول شہادت کا شوق ، جنت کی آرزو، دنیا اور دناد کی لذتوں کو خاطر میں نہ لانا،خارق عادت حد تک دلیری، بہادری ،دشمنوں کی تعداد اور ان کی جنگی طاقت کو اہمیت نہ دینا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مکمل مدد پہنچنا اور اس کا بار بار تجربہ و مشاہدہ ۔ یہ وہ اسباب تھے جن کی بنا پر اسلامی فتوحات کا سلسلہ ایک موج روان کی طرح فارس اور روم تک پہنچ گیا۔
شاید یہ حکمتِ الٰہی کا تقاضا اور مسلمانوں کے حق میں خیر و برکت کے الٰہی فیصلے کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی جانشینی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے حصہ میں آئی اور نئی فتوحات اسلامیہ کا جو سلسلہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میںشروع ہواتھا وہ پھیلے بڑھے اور ترقی پائے ۔ کیونکہ اکثروبیشتر مفتوحہ ممالک کے گورنر اور زیادہ تر اسلامی افواج کے سربراہ اموی تھے اور ان کا حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے رشتہ داریوں کا قریبی تعلق تھا ۔
ان ہی فتوحات کے ذریعے لاکھوں انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ یہ بجائے خود بڑے خیرو برکت کی بات اور شکر کا مقام تھا۔
کرامات عثمان رضی اﷲ عنہ :
یزید بن حبیب کہتے ہیں کہ جس قدر لوگ مصر سے عثمان رضی اﷲ عنہ پر بغاوت کر کے آئے تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کو جنون نہ ہوگیا ہو۔
حضرت نافع کہتے ہیں کہ جہچاہ غفاری نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو ایک لکڑی مار دی تھی اس کے پائوں میں گوشت خورہ نکل آیا۔
ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں ملک شام میں تھا کہ ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہائے آتش دوزخ سے میری خرابی ہو میں نے دیکھا تو اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کٹے ہوئے تھے ، منہ کے بل زمین پر گرا ہوا تھا میںنے اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا میں ان لوگوں میں تھا جو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے گھر کے اندر ان کو شہید کرنے گئے تھے جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی بیوی نے شور کیا ۔ میں نے ان کو ایک طمانچہ مارا تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے مجھ کو یہ بددعا دی کہ خدا تیرے ہاتھ پائوں کاٹ دے اور تجھے دوزخ میں داخل کرے ۔ یہ سن کر میرے بدن پر لرزہ پڑگیا اور میں بھاگا۔ اب میری حالت یہ ہے جو تم دیکھ رہے ہو ہاتھ پائوں تو میرے کٹ چکے بس اب آتش دوزخ جانا باقی ہے ۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ جا دور ہو۔
ایک روز ایک شخص حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے پاس گیا ، راستہ میں کسی اجنبی عورت پر اس کی نظر پڑگئی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ میرے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ بعد رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّمکے وحی نازل ہوئی ، آپ نے فرمایا نہیں فراست ایمانی سے یہ باتیں معلوم ہوجاتی ہیں ۔
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا گزر مقام حش کوکب میں ہوا تو آپ وہاں کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا کہ عنقریب کوئی نیک شخص یہاں دفن ہوگا۔ چنانچہ سب سے پہلے اس مقام پر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ دفن کئے گئے ۔
کلمات طیبات:
٭… حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہوگا۔
٭… فرماتے تھے کہ بندگی اس کو کہتے ہیں کہ احکام ِ الٰہی کی حفاظت کرے ، جو عہد کسی سے کرے اسے پورا کرے اور جو کچھ مل جائے اس پر راضی ہو جائے اور جو نہ ملے اس پر صبر کرے ۔
٭… فرماتے تھے کہ دنیا کی فکر کرنے سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی فکر کرنے سے روشنی پیدا ہوتی ہے ۔
٭… فرماتے تھے کہ متقی کی علامت یہ ہے کہ اور سب لوگوں کو تو سمجھے کہ نجات پاجائیں گے اور اپنے آپ کو سمجھے کہ ہلاک ہوگیا ۔
٭… فرماتے تھے دنیا جس کیلئے قید خانہ ہو قبر اس کیلئے باعث راحت ہوگی۔
٭… فرماتے تھے کہ اگر تمہارے دل پاک ہو جائیں تو کبھی قرآن شریف کی تلاوت یا سماعت سے سیری نہ ہو۔
٭… محاصرہ کے زمانہ میں لوگوںنے پوچھا کہ امیر المؤمنین آپ تو مسجد جا نہیںسکتے ، انہی باغیوںمیں سے کوئی شخص امام بنتا ہے ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایانماز اچھا کام ہے ، جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جایاکرو۔ہاں برے کام میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔