حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا جہاد کی ترغیب دینا
حضرت زید بن وہب ؒ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوںمیں کھڑے ہو کر فرمایا: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں کہ وہ جسے توڑے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے وہ جوڑے اسے سارے توڑنے والے مل کر توڑ نہیں سکتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ان کی مخلوق میں سے دو آدمیوں میں بھی اختلاف نہ ہوتا اور نہ ہی پوری امت میں کسی بات پر جھگڑا ہوتا اور نہ ہی کم درجہ والا زیادہ درجہ والے کی فضیلت کا انکار کرتا۔ تقدیر نے ہی ہمیں اور ان لوگوں کو یہاں کھینچ کر اکٹھا کردیا ہے۔ اللہ ہماری ہر بات کو دیکھتے اور سنتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو دنیا میں ہی سزا جلد دے دیتے جس سے ایسی تبدیلی آجاتی کہ اللہ تعالیٰ ظالم کے غلط ہونے کو ظاہر فرمادیتے اور یہ واضح کردیتے کہ حق کہاں ہے؟لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا کودار العمل بنایا ہے اور آخرت کو ہمیشہ اپنے پاس رہنے کی جگہ بنایا ہے۔
چنانچہ اس نے فرمایا ہے:
(لیجزی الذین اساء وابما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی)
تاکہ وہ بدلہ دے برائی والوں کو ان کے کیے کا اور بدلہ دے بھلائی والوں کو بھلائی سے۔
غور سے سنو!کل کو تمہارا ان لوگوں سے مقابلہ ہوگا ،لہٰذا رات کو(نماز میں) قیام لمبا کرو، قرآن کی کثرت سے تلاوت کرو، اللہ تعالیٰ سے مدد اور صبر کی تو فیق مانگواور ان لوگوں سے مقابلہ میں پورا زور لگائو اور احتیاط سے کام لو اور سچے اور ثابت قدم رہنا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔
حضرت ابو عمرہ انصاری وغیرہ حضرات بیان کرتے ہیں کہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ترغیب دی تو فرمایا : اللہ عزوجلّ نے تم لوگوں کو ایسی تجارت بتائی ہے جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور جو تمہیں خیر کے قریب کردے اور وہ تجارت ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں گناہوں کو معاف کردیں گے اور جنت عدم میں عمدہ عمدہ محلات دیں گے۔ پھر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اللہ کے راستہ میں صف بنا کر اس طرح لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، لہٰذا تم اپنی صفیں اس طرح سیدھی بنانا جیسا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے اور جن لوگوں نے زرہ پہن رکھی ہے انہیں آگے رکھنااور جنہوں نے نہیں پہن رکھی ہے انہیں پیچھے رکھنا اور مضبوطی سے جمے رہنا۔
حضرت ابووداک ہمدانیؒ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے( کوفہ کے قریب) نُخَیلہ مقام پر پڑائو ڈالااور خوارج سے نااُمید ہوگئے تھے تو کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: جس نے اللہ کے راستے کا جہاد چھوڑ دیا اور اللہ کے دین میں مداہنت اختیار کی( یعنی دنیاوی اغراض کی وجہ سے دین میں کسی غلط بات پر راضی ہوگیا) تو وہ ہلاکت کے کنارے پر پہنچ گیا۔ اللہ ہی اپنے فضل سے اسے بچائے تو بچ سکتا ہے ،لہٰذا اللہ سے ڈرو،ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ سے دشمنی کرتے ہیں اور وہ اللہ کے نورکو بجھانا چاہتے ہیں اور وہ خطاکار، گمراہ،ظالم اور مجرم ہیں ، جو نہ قرآن کو پڑھنے والے ہیں اور نہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس تفسیر کا علم ہے اور نہ ہی وہ اسلام میں سبقت رکھنے کی وجہ سے اس امر( خلافت) کے اہل ہیں۔ اللہ کی قسم اگر ان کو تمہارا والی بنادیا جائے تو وہ تمہارے ساتھ کسریٰ اور ہر قل والا معاملہ کریں گے، لہٰذا تم اہل مغرب کے اپنے دشمنوں سے لڑنے کی تیاری کرو۔ ہم نے تمہارے بصرہ والے بھائیوں کے پاس پیغام بھیجا ہے کہ وہ تمہارے پاس آجائیں ۔لہٰذا جب وہ آجائیں اور تم سب اکٹھے ہوجائو تو پھر ہم ان شاء اللہ( خوارج کے مقابلہ کے لیے) نکلیں گے ۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
حضرت زید بن وہب ؒ بیان کرتے ہیں کہ جنگ ِ نہروان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیان میں فرمایا:اے لوگو! اس دشمن کی طرف جانے کی تیاری کرو جس سے جہاد کرنے میں اللہ کا قرب حاصل ہوگا اور اللہ کے ہاں بڑا درجہ ملے گااور یہ لوگ حیران وپریشان ہیں، کیونکہ حق ان پر واضح نہیں ہے، کتاب اللہ سے ہٹے ہوئے ہیں اور دین سے ہٹے ہوئے ہیں اور سرکشی میں سرگرداں ہیں اور گمراہی کے گڑھے میں اُلٹے پڑے ہوئے ہیں۔ تم قوت کے ذریعہ اور گھوڑوں کے ذریعہ ان کے مقابلہ کی جتنی تیاری کر سکتے ہو ضرور کرو۔ اللہ پر بھروسہ کرو اور اللہ ہی کام بنانے اور مدد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ حضرت زید کہتے ہیں کہ لوگوں نے نہ کوئی تیاری کی اور نہ نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو چند دن چھوڑے رکھا یہاں تک کہ جب وہ ان کے کچھ کرنے سے نااُمید ہوگئے تو ان کے سرداروں اور بڑوں کو بلا کر ان کی رائے معلوم کی کہ یہ لوگ دیر کیوں کررہے ہیں؟ ان میں سے کچھ نے اپنے عذر بیماری وغیرہ کا ذکر کیا اور کچھ نے اپنی مجبوری بتائیں ۔تھوڑے ہی لوگ خوش دلی سے جانے کے لیے تیار ہوئے۔