حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں بیان فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اے اللہ کے بندو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ میں جب تمہیں اللہ کے راستہ میں نکلنے کا حکم دیتا ہوں تو تم بوجھل ہو کر زمین سے لگے جاتے ہو؟کیا تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی پر اور عزت کے مقابلہ میں ذلت و خواری پر راضی ہو گئے ہو؟ کیا ہوا؟جب بھی تم سے جہاد میں جانے کا مطالبہ کرتا ہوں تو تمہاری آنکھیں ایسے گھومنے لگ جاتی ہیں جیسے کہ تم موت کی بے ہوشی میں ہو اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تمہارے دل ایسے بدحواس ہوگئے ہیں کہ تمہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے اور تمہاری آنکھیں ایسی اندھی ہوگئی ہیں کہ تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔اللہ کی قسم! جب راحت و آرام کا موقع ہوتا ہے تو تم شریٰ جنگل کے شیر کی طرح بہادر بن جاتے ہو اور جب تمہیں لڑنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو تم مکار لومڑی بن جاتے ہو۔ تم پر سے میرا اعتماد ہمیشہ کے لئے اُٹھ گیا اور تم لوگ ایسے شہسوار بھی نہیں ہو کہ تمہیں ساتھ لے کر کسی پر حملہ کردیا جائے اور تم ایسے عزت والے بھی نہیں تمہاری پناہ حاصل کی جائے۔ اللہ کی قسم! تم لڑائی میں بہت کمزور اور بالکل بے کار ہو اور تمہارے خلاف دشمن کی چال کامیاب ہوجاتی ہے اور تم دشمن کے خلاف کوئی چال نہیں چل سکتے ہو۔ تمہارے اعضاء کاٹے جا رہے ہیں اور تم ایک دوسرے کو بچاتے نہیں ہواور تمہارا دشمن سوتا نہیں ہے اور تم غفلت میں بے خبر پڑے ہوئے ہو۔ جنگ جو آدمی تو بیدار اور سمجھدار ہوتا ہے اور جو جھک کر صلح کرتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ آپس میں جھگڑنے والے مغلوب ہوجاتے ہیں اور جو مغلوب ہوجاتا ہے اسے خوب دبایا جاتا ہے اور اس کا سب کچھ چھین لیا جاتا ہے۔
پھر فرمایا:امابعد! میرا تم پر حق ہے اور تمہارا مجھ پر حق ہے۔ تمہارا حق مجھ پر یہ ہے کہ جب تک میں تمہارے ساتھ رہوں تمہارا بھلا چاہتارہوں اور تمہارا مالِ غنیمت بڑھاتا رہوں اور تمہیں سکھاتا رہو ں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور تمہیں ادب اور اخلاق سکھاتا رہوں تاکہ تم سیکھ جائو اور میرا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تم میری بیعت کو پورا کرو، میرے سامنے اور میرے پیچھے میر ے خیرخواہ بن کر رہو اور جب میں تمہیں بلائوں تو تم میری آواز پر لبیک کہواور جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو تم اسے پورا کرو اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما رہے ہیں تو ان کاموں کو چھوڑ دو جو مجھے پسند نہیں ہیں اور ان کاموں کی طرف لوٹ آئو جو مجھے پسند ہیں۔ اس طرح تم جو کچھ چاہتے ہو اسے پالو گے اور جن چیزوں کی امید لگائے بیٹھے ہو انہیں حاصل کر لوگے۔
حضرت عبدالواحددِ مشقیؒ بیان کرتے ہیں کہ جنگ صفین کے دن حوشب حمیری نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوپکار کر کہا: اے ابو طالب کے بیٹے! آپ ہمارے ہاں سے واپس چلے جائیں۔ ہم آپ کو اپنے اور آپ کے خون کے بارے میں اللہ کا واسطہ دیتے ہیں ( کہ آپ جنگ کا ارادہ ترک کر دیں ) ہم آپ کے لیے عراق چھوڑ دیتے ہیں آپ ہمارے لیے شام چھوڑدیں اور اس طرح مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرلیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اُمّ ظلیم کے بیٹے! ایسا کہاں ہو سکتا ہے؟اللہ کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اللہ کے دین میں مداہنت کرنے کی گنجائش ہے تو میں ضرور کرلیتا اور اس طرح میری مشکلات آسان ہوجاتیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ جب اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہو اور قرآن والے اسے روکنے کی اور غلبۂ دین کے لیے جہاد کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر قرآن والے خاموش رہیں اور مداہنت سے کام لیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جہاد کے لیے ترغیب دینا
حضرت محمد، حضرت طلحہ اور حضرت زیاد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ جنگ قادسیہ کے دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:اللہ تعالیٰ حق ہیں اور بادشاہت میں ان کا کوئی شریک نہیں، ان کی کسی بات کے خلاف نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون
اورہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔
یہ زمین تمہاری میراث ہے اور تمہارے رب نے تمہیں یہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور تین سال سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس زمین کو استعمال کرنے کا موقع دیا ہوا ہے تم خود بھی اس میں سے کھا رہے ہو اور دوسروں کو بھی کھلا رہے ہو، اور یہاں کے رہنے والوں کو قتل کررہے ہواور ان کا مال سمیٹ رہے ہو اور آج تک ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کررہے ہو،غرضیکہ گذشتہ تمام جنگوں میں تمہارے ناموروں نے ان کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور اب تمہارے سامنے ان کا یہ بہت بڑا لشکر جمع ہو کر آگیا ہے( اس لشکر کی تعداد دولاکھ بتائی جاتی ہے) اور تم عرب کے سردار اور معزز لوگ ہو ا ور تم میں سے ہر ایک اپنے قبیلہ کا بہترین آدمی ہے اور تمہارے پیچھے رہ جانے والوں کی عزت تم سے ہی وابستہ ہے، اگر تم دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کا شوق اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت دونوں دے دیں گے اور دشمن سے لڑنے سے موت قریب نہیں آجاتی۔ اگر تم بزدل بن گئے اور تم نے کمزوری دکھائی تو تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی اور تم اپنی آخرت برباد کرلوگے۔