حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
ان کے بعد حضرت عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا:یہ عراق وہ علاقہ ہے کہ جس کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مغلوب کردیا ہے اور تین سال سے تم ان کا جتنا نقصان کررہے ہو وہ تمہارا اتنا نہیں کر سکے ہیں اور تم ہی بلند ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم جمے رہے اور تم نے اچھی طرح تلوار اور نیزے کو چلایا تو تمہیں ان کے مال اور ان کے بیوی، بچے اور ان کے علاقے سب کچھ مل جائیں گے اور اگر تم نے کمزوری دکھائی اور بزدل بنے( اللہ تمہاری ان باتوں سے حفاظت فرمائے) تو اس لشکر والے تم میں سے ایک کو بھی اس ڈر کی وجہ سے زندہ نہیں چھوڑیں گے تم ان پردوبارہ حملہ کر کے ان کو ہلاک نہ کردو۔ اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! اور گزشتہ جنگوں کو اور ان جنگوں میں جو کچھ تمہیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اسے یاد کرو۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ تمہارے پیچھے سرزمین عرب تو بس بیابیان اور چٹیل میدان ہی ہے، نہ تو اس میں کوئی ایسی سایہ کی جگہ ہے جس میں پناہ لی جاسکے اور نہ کوئی ایسی پناہ گاہ ہے جس کے ذریعہ اپنی حفاظت کی جا سکے۔ تم تو اپنا مقصود آخرت کو بنائو۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا جہاد کرنے کا اور اللہ کے راستہ میں نکلنے کا شوق
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس ﷺ نے بد ر جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بھی حضورﷺ کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ تو ان سے ان کے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کہا:تم اپنی والدہ کے پاس ٹھہرو۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا :نہیں، آپ اپنی بہن کے پاس ٹھہریں۔ حضورﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو آپﷺ نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو اپنی والدہ کے پاس ٹھہرنے کا حکم دیا اور حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ آپﷺکے ساتھ (غزوئہ بدرمیں) تشریف لے گئے۔ جب حضورﷺ واپس تشریف لائے تو اس وقت حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضورﷺ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تین باتیں نہ ہوتیںتو میں اس بات کی تمنا کرتا کہ اللہ سے جاملوں:اللہ کے راستے میں پیدل چلنااور سجدے میں اللہ کے سامنے مٹی میں اپنی پیشانی رکھنا اور ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنا جو عمدہ باتوں کو ایسے چنتے ہیں جیسے عمدہ کھجوریں چنی جاتی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم لوگ حج کیا کرو، کیونکہ یہ وہ عمل صالح ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، لیکن جہاد اس سے بھی افضل ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جنگ بدر کے دن مجھے حضورﷺ کے سامنے پیش کیا گیا ، لیکن حضورﷺ نے مجھے چھوٹا سمجھ کر قبول نہ فرمایا۔اس جیسی سخت رات مجھ پر کبھی نہیں آئی تھی۔ حضورﷺ کے قبول نہ فرمانے کی وجہ سے مجھے بڑا غم تھا اور میں ساری رات جاگتا رہا اور روتا رہا۔ اگلے سال پھر مجھے حضورﷺ کے سامنے پیش کیا گیا آپﷺ نے مجھے قبول فرما لیا، میں نے اس پر اللہ کاشکر ادا کیا۔ اس پر ایک آدمی نے کہا:اے عبدالرحمن! جس دن دونوں فوجیں مقابلہ میں آئی تھیں( یعنی جنگ اُحد کے دن ) کیا اس دن آپ لوگوں نے پیٹھ پھیرلی تھی؟

انہوں نے کہا :ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو معاف فرمادیا تھا اس پر اللہ کا بڑا شکر ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک آدمی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہا:اے امیر المومنین! میںجہاد میں جانا چاہتا ہوں آپ مجھے سواری دے دیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کہا:اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیت المال میں لے جائو۔ وہاں سے جو چاہے لے لے۔ چنانچہ اس آدمی نے بیت المال میں جا کر دیکھا کہ وہاں تو چاندی اور سونا رکھا ہوا ہے۔ اس نے کہا :یہ کیا ہے؟ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میں تو زادِ سفر اور سواری لینا چاہتا ہوں۔ لوگ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس واپس لے آئے اور اس نے جو کہا تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اسے زادِ سفر اور سواری دی جائے ( چنانچہ اسے دیا گیا تو) حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس کی سواری پر کجاوہ باندھا۔ جب یہ آدمی اس سواری پر سوار ہو گیا تو اس نے ہاتھ اٹھایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کے ساتھ جو حسنِ سلوک کا معاملہ کیا اور اسے دیا اس پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمدو ثنا بیان کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس تمنا میں اس کے پیچھے چلنے لگے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کردے۔ جب وہ حمدو ثنا سے فارغ ہوگیا تو اس نے کہا:اے اللہ! عمر کو تو اور بہترین جزا عطا فرما۔
حضرت ارطاۃ بن منذر کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے پاس بیٹھنے والوں سے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ اجر و ثواب و الاکون ہے؟لوگ نمازاور روزے کا ذکر کرنے لگے اور کہنے لگے:امیر المومنین کے بعد فلاں اور فلاں( زیادہ اجر وثواب والے ہیں)
(جاری ہے)