حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدین اور مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کا اہتمام کرنا
تابندہ ستارے ۔حضرت مولانا محمدیوسفؒ کاندھلوی
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر میں بھیجا۔ اس لشکر کی روانگی جمعہ کے دن ہوئی، تو حضرت ابنِ رواحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو آگے بھیج دیا اور کہا:میں ذرا پیچھے رک جاتا ہوں، حضورﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھ کر پھر اس لشکر میں جاملوں گا۔ حضورﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو دیکھا آپﷺ نے فرمایا:تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح کیوں نہیں گئے، انہوں نے کہا:میں نے سوچا کہ آپ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لوں، پھر اپنے لشکر سے جاملوں گا، حضورﷺ نے فرمایا:جو کچھ زمین میں ہے اگرتم وہ سارا بھی خرچ کردو تو بھی تم ان کی اس صبح( کے ثواب ) کو نہیں پاسکتے ہو۔
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنے صحابہ کو ایک غزوہ میں جانے کا حکم دیا۔ تو ایک آدمی نے اپنے گھروالوں سے کہا :میں ذرا ٹھہرجاتا ہوں تاکہ حضورﷺکے ساتھ نماز پڑھ لوں، پھر آپ ﷺ کو سلام اور آپﷺ کو الوداع کہہ کر چلا جائوں گا، تو ہو سکتا ہے حضورﷺ میرے لئے کوئی ایسی دعا فرمادیں جو قیامت کے دن پہلے سے پہنچ کر کام آنے والی چیز ہو، جب حضورﷺ نماز پڑھ چکے تو یہ صحابی آپﷺ کو سلام کرنے کے لیے آگے بڑھے۔حضورﷺ نے ان سے فرمایا:کیا تم جانتے ہو تمہارے ساتھی تم سے کتنا آگے نکل گئے؟انہوں نے کہا:جی ہاں!وہ لوگ آج صبح گئے ہیں یعنی آدھے دن کے بقدر مجھ سے آگے نکلے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! وہ اجر و ثواب کے اعتبار سے فضیلت میں تم سے اس سے بھی زیادہ آگے نکل گئے ہیں جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک لشکر کو جانے کا حکم دیا ،انہوں نے عرض کیا:یارسول اللہ! کیا ہم ابھی رات کو چلے جائیں یا فرمائیں تو رات یہاں ٹھہر کر صبح چلے جائیں؟آپﷺ نے فرمایا:کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ تم جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں یہ رات گزارو؟
حضرت ابو زرعہ بن عمرو بن جریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ فرمایا، س میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ جب وہ لشکر چلا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر نگاہ پڑی۔ ان سے پوچھا :تم یہاں کیوں رک گئے؟انہوں نے کہا:میں نے سوچا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر پھر چلاجائوں گا( اور لشکر کو جاملوں گا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم نے حضورﷺ سے یہ نہیں سنا کہ اللہ کے راستہ میں ایک صبح یا ایک شام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
اللہ کے راستے سے پیچھے رہ جانے اور اس میں کوتاہی کرنے پر عتاب
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں غزوئہ تبوک کے علاوہ اور کسی غزوہ میں حضورﷺ( کے ساتھ جانے) سے پیچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوئہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا لیکن اس غزوہ سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کسی پر عتاب نہیں فرمایا۔ کیونکہ حضورﷺ صرف ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کا مقابلہ کرنے( اور اس سے مالِ تجارت لے لینے) کے ارادہ سے نکلے تھے( جنگ کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا دشمن سے اچانک مقابلہ کرادیا، پہلے سے جنگ کا کوئی ارادہ اور پروگرام نہیں تھا اور میں عقبہ کی اس رات کو حضورﷺ کے ساتھ تھا جس رات حضورﷺ سے ہم نے اسلام پر چلنے کا پختہ عہد کیا تھا اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ عقبہ کی یہ رات مجھے نہ ملتی اور اس کے بدلے میں غزوۂ بدر میں شریک ہوجاتا اگرچہ لوگوں میں غزوۂ بدر کی شہرت اس رات سے زیاد ہ ہے اور ( غزوئہ تبوک میں) میرا قصہ( یعنی میرے شریک نہ ہونے کا قصہ) یہ ہے کہ تبوک سے پہلے کسی لڑائی میں اتنا قوی اور مال دار نہیں تھا جتنا کہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کے وقت تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹنیاں ہونے کی نوبت نہیں آئی اور اس غزوہ میں میرے پاس دوانٹنیاں تھیں۔
اور حضور اکرمﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس طرف کی لڑائی کا ارادہ ہوتا تھا اس کا اظہار نہ فرماتے بلکہ ہمیشہ دوسری طرف کے حالات وغیرہ معلوم کرتے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ دوسری طرف جانا چاہتے ہیں۔ مگر اس لڑائی میں چونکہ گرمی بھی شدید تھی اور سفر بھی دور کا تھا اور راستہ میں بیابان اور جنگل پڑتے تھے اور دشمن کی تعداد بھی بہت زیاد ہ تھی اس لئے آپﷺ نے صاف اعلان فرمادیا( کہ تبوک جانا ہے) تاکہ لوگ اس سفرکی پوری تیاری کرلیں اور جہاں کا آپﷺ کا ارادہ تھا وہ آپﷺ نے صاف بتادیااور حضورﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی تعداد بھی بہت تھی کہ رجسٹر میں ان کا نام لکھنا دشوار تھا( اور مجمع کی کثرت کی وجہ سے) کوئی شخص چھپنا چاہتا کہ میں نہ جائوں اور کسی کو پتہ نہ چلے تو یہ دشوار نہیں تھااور وہ یہ سمجھتا کہ یہ معاملہ اس وقت تک پوشیدہ رہے گا جب تک اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی نہ نازل ہوجائے۔
٭…٭…٭