جواہرِ جہاد (قسط۲۱)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 596)
میدان جہاد کی چند خصوصی دعائیں
جہاد کے مخلص عاشق
ماشاء اﷲ لا قوۃ الا باﷲ… ایسے وقت میں مجھے کچھ لوگ، جی ہاں بڑے لوگ یاد آرہے ہیں… یہ ۹ھ کا زمانہ تھا اور حضور اکرمﷺاپنے تیس ہزار جانثاروں کے ساتھ غزوۂ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے مگر… کچھ لوگ رو رہے تھے، بہت زیادہ رو رہے تھے… قافلہ جارہا تھا اور دور ہو تا جارہا تھا مگر… ان حضرات کے پاس سواریاں نہیں تھیں کہ ساتھ جاسکیں… آئیے جہاد کی محبت میں رونے والے ان حضرات کا تھوڑا سا تذکرہ کرلیتے ہیں… جی ہاں تفاسیر کی روشنی میں تھوڑا سا مگر بہت دلکش تذکرہ … اور پھر آخر میں ایک چھوٹی سی بات…
کچھ تذکرہ جہاد کے مخلص عاشقوں کا
قرآن پاک نے سورۂ توبہ کی آیت (۹۲) میں جہاد کے سچے عاشقوں کا عجیب تذکرہ فرمایا ہے… یہ لوگ معذور تھے، ان کے پاس سواری نہیں تھی مگر وہ شوق جہاد میں بلک بلک کر تڑپ تڑپ کر رو رہے تھے…
۱۔ ایک طرف منافقین تھے جو اسباب ہونے کے باوجود جھوٹے بہانے بنا رہے تھے اور ایک طرف یہ مخلص عاشقینِ جہاد تھے کہ معذور ہونے کے باوجود غم اور بے چینی سے آنسو بہا رہے تھے…
۲۔ لوگ مصیبتوں، تھکاوٹوں اور سختیوں سے بچنے کے لئے ہر محنت کرتے ہیں جبکہ اسلام کے یہ بیٹے خود کو جہاد، گرمی اور سفر کی تکلیف میں ڈالنے کے لئے رو رہے تھے…
۳۔ یہ لوگ بھی کہہ سکتے تھے کہ جہاد لغت میں محنت کو کہتے ہیں اور ہم مدینہ میں رہ کر محنت کرکے جہاد کا ثواب لے لیتے ہیں مگر وہ دین کو سمجھنے والے صحابہ کرامؓ تھے ان کے پاس نہ جانے کا سچا عذر بھی تھا مگر پھر بھی ان کی آہیں اور نالے آسمان کو ہلا رہے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جہاد کیا ہے اور جہاد میں کتنی فضیلت ہے…
۴۔ ان کے آنسو سچے تھے، اﷲ پاک نے ان کو اتنا پسند فرمایا کہ ان کے آنسوؤں کا تذکرہ قرآن پاک کا حصہ بنادیا اور رسول اﷲ ﷺنے سفر جہاد کے دوران انہیں یاد رکھا اور فرمایا کہ وہ ہمارے اجر میں شریک ہیں…
۵۔ اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے کہ ان کے آنسو آج تک جہاد کے مسئلے پر پڑنے والے ہر تحریفی غبار کو دھو کر رکھ دیتے ہیں… (واﷲ اعلم بالصواب)
جوتے دیدیجئے ہم پیدل دوڑتے جائیں گے
مفسرین نے لکھا ہے کہ ان حضرات میں سے بعض نے یہاں تک عرض کیا کہ ہمیں سواری نہیں ملتی تو کوئی حرج نہیں ہمیں چمڑے کے موزے اور جوتے مل جائیں تو ہم مجاہدین کے اونٹوں کے ساتھ دوڑتے جائیں گے…
علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
فکانہم قالوا: احملنا علیٰ مایتیسر او المراد احملنا ولو علی نعالنا واخفافنا۔ (روح المعانی)
تفسیر مظہری میں ہے:
یہ بھی کہا گیا ہے کہ (جن لوگوں کے پاس سواریاںنہ تھیں ان) لوگوں نے یہ خواہش کی تھی کہ ہم کو پیوند لگے موزے اور مرمت کی ہوئی جوتیاں عنایت کردیجئے تاکہ ہم آپ کے ساتھ دوڑ سکیں۔ (مظہری)
ان کے آنسو نہیں … گویا آنکھیں بہہ رہی تھیں
’’اعینہم تفیض من الدمع:
یہ جملہ بہت بلیغ ہے کہ اس میں آنکھ ہی کو بہتا ہوا آنسو بنادیا گیا۔ (مفہوم ماجدی)
اﷲ ، اﷲ جہاد کتنی بڑی چیز ہے، حضرات صحابہ کرامؓ اس کو سمجھتے تھے اس لئے اس سے محرومی کے غم کی وجہ سے ان کے آنسو اس قدر بہہ رہے تھے کہ گویا آنکھیں ہی بہہ جائیں گی… اسی وجہ سے ان کا نام ’’البکّاؤن‘‘ یعنی بہت رونے والے پڑ گیا…
امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:
فَسُمّوا البکائین (القرطبی)
سات بھائی، ساتوں صحابی، ساتوں مجاہد
امام قرطبیؒلکھتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ آیت سات بھائیوں کے متعلق نازل ہوئی یہ سب ’’مقرّن‘‘ کے بیٹے تھے، ان کے اسماء گرامی یہ تھے:
۱۔ نعمان ۲۔ معقل ۳۔عقیل ۴۔سوید ۵۔سنان ۶۔عبداﷲ ۷۔عبدالرحمن رضی اﷲ عنہم اجمعین
یہ سب ’’صحابی‘‘ تھے اور ان کے علاوہ یہ شرف کسی کو حاصل نہیں کہ سات بھائی صحابی ہوں… انہوں نے ہجرت کی اور یہ ساتوں بھائی غزوہ خندق میں حضور اکرم ﷺکے ساتھ شریک تھے…
وقیل نزلت فی بنی مقرّن وعلیٰ ہذا جمہور المفسرین ۔ وکانوا سبعۃ اخوۃ کلہم صحبوا النبی ﷺولیس فی الصحابہ سبعۃ اخوۃ غیرہم… ہاجروا وصحبوا الرسول ﷺ… وقد قیل انہم شہدوا الخندق کلہم (القرطبی)
تنبیہ:جن حضرات کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ان کی تعیین میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں ملاحظہ فرمائیے قرطبی، ابن کثیر، مظہری، روح المعانی۔
اس پر روتے تھے کہ قربانی سے رہ گئے
’’شدّت درد و غم سے بے اختیار ہو کر رونے لگتے تھے۔ کس بات پر؟ اس پر کہ عیش و راحت میں انہیں حصہ نہیں ملا؟ نہیں… اس پر کہ راہِ حق کی مصیبتوں اور قربانیوں میں شریک ہونے سے رہ گئے۔‘‘ (ترجمان القرآن)
ان کے آنسو آج بھی زندہ ہیں
’’ ان کے دردو غم کا یہ حال تھا کہ ’’البکّائین‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے تھے، یعنی بہت رونے والے (ابن جریر)۔
سبحان اﷲ، ان چند آنسوؤں کی قدر و قیمت جو ایمان کی تپش سے بہے تھے کہ ہمیشہ کے لئے ان کا ذکر کتاب اﷲ نے محفوظ کردیا… آج بھی کہ تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں، ممکن نہیں، ایک مؤمن یہ آیت پڑھے اور ان آنسوؤں کی یاد میں خود اسکی آنکھیں اشکبار نہ ہوجائیں۔‘‘ (ترجمان القرآن)
کوئی ہے جو ایسی مثال لائے؟
حضرت شیخ الاسلامؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’سبحان اﷲ نبی کریم ﷺکی صحبت نے صحابہؓ کے دلوں میں عشق الٰہی کا وہ نشہ پیدا کیا تھا جس کی مثال کسی قوم وملت کی تاریخ میں موجود نہیں… مستطیع اور مقدور (یعنی استطاعت اور قدرت) رکھنے والے صحابہؓ کو دیکھو تو جان و مال سب کچھ خدا کے راستے میں لٹانے کو تیار ہیں اور سخت سے سخت قربانی کے وقت بڑے ولولہ اور اشتیاق سے آگے بڑھتے ہیں (اور) جن کو مقدور (یعنی قدرت) نہیں وہ اس غم میں رو رو کر جان کھوئے لیتے ہیں کہ ہم میں اتنی استطاعت کیوں نہ ہوئی کہ اس محبوب حقیقی کی راہ میں قربان ہونے کے لئے اپنے کو پیش کرسکتے، حدیث صحیح میں آپ ﷺنے مجاہدین کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم مدینہ میں ایک ایسی قوم کو پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہر قدم پر تمہارے اجر میں شریک ہے، تم جو قدم خدا کے راستے میں اٹھاتے ہو یا کوئی جنگل قطع کرتے ہویا کسی پگڈنڈی پر چلتے ہو، وہ قوم برابر ہر موقع پر تمہارے ساتھ ساتھ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں واقعی مجبوریوں نے تمہارے ہمراہ چلنے سے روکا… حسنؒ کے ’’مرسل‘‘ میں ہے کہ یہ مضمون بیان فرما کر آپ نے یہ ہی آیت
ولا علی الذین اذا ما أتوک لتحملہم قلت لا اجد الخ
تلاوت فرمائی۔ (تفسیرعثمانی)
ایک چھوٹی سی بات
ہم سب نے چند بڑے لوگوں کا تذکرہ پڑھ لیا… یقینا آنکھیں بھی بھیگ گئیں… آپ نے سوچا کہ اس ’’تذکرے‘‘ سے ہمیں کیا سبق ملا؟… یہی نا! کہ جہاد میں جانے کے لئے پور ازور لگانا چاہئے کہ مسلمان کو جہاد میں بڑی کامیابی ملتی ہے… اور اگر نہ جا سکیں تو پھر آنسو بہانے چاہئیں… یہ بالکل ٹھیک مگر ایک اور بات بھی تو سمجھ میں آتی ہے … وہ یہ کہ نیت سچی ہو تو اﷲ تعالیٰ کسی کو محروم نہیں فرماتا … اس نے کسی کو سواری دی، کسی کو راستہ دیا، کسی کو طاقت دی، کسی کو امن دیا… اور کسی کو ان چیزوں میں سے کچھ نہ دیا تو آنسو دے دیئے … انہوں نے سچے آنسو بہائے اورسواری والوں کے ساتھ پہنچ گئے اور اجر پا گئے…
٭…٭…٭