منتخب!ارشاداتِ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام
حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت ادریس علیہ السلام
حضرت لقمان علیہ السلام
حضرت خضرؑ
حضرت سلیمان علیہ السلام بہت ہی بلند مرتبہ پیغمبرِ خدا گذرے ہیں، کائنات کی کل مخلوق پر آپ کو مکمل اختیار حاصل تھا، آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے صاحبزادے تھے، آپ کی حکومت میں جن اور انسان، ہوا، پانی، غرضیکہ اللہ کے حکم سے سبھی جاندار آپ کے فرمانبردار تھے، بیت المقدس آپ ہی نے تعمیر کروایا تھا، جب آپ دربار عام فرماتے تھے تو انسانوں کے علامہ جنات اور پریوں کا بھی ہجوم ہوتا تھا اور اس دربارِ عام کے اوپر پرندے اپنے پروں سے سایہ کئے رہتے تھے اور آپ کے اشارے کے منتظر رہتے تھے، تاکہ حکم کی تعمیل جلد ہوسکے، اللہ اس برگزیدہ پیغمبر کے ارشادات پیش خدمت ہیں:
(اقوال کاخزانہ)
(۱) ہوشیار انسان بلا کو پیش بینی سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو بچالیتا ہے، مگر نادان لوگ خود ہی اس بلا میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
(۲) جب تیری آنکھیں بیگانہ آنکھوں سے لریں گی اور تیرا دل اس کے غلط مطالب نکالے گا تو تیرا انجام بُرا ہی ہوگا۔
(۳) سخن جو موقع پر کیا جائے سونے کے سیبوں کے مانند ہے، جو رَو پہلی ٹوکریوں میں ہوں۔
(۴) کج رَو آدمی اپنی راہ میں خود کانٹے اور پھندے بچھادیتا ہے، جبکہ جو آدمی اپنی اصلاح خود کرتا ہے اس کی راہ سے کانٹے اور پھندے دو بھاگتے ہیں۔
(۵) بیوقوف آدمی کے کانوں میں عقل کی باتیں مت ڈال، کیونکہ وہ عمل کے بجائے تیرے کلام کا مذاق اُڑائے گا۔
(۶) اے کاہل آدمی! چیونٹی کے پاس جا! اس کی عادت دیکھ اور عقل حاصل کر کہ وہ اس کا کوئی سردار اور حاکم نہیں پھر بھی وہ گرمیوں میں خوراک اکھٹا کرتی ہے اور سردیوں میں اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
(۷) دغا کی روٹی آدمی کو میٹھی لگتی ہے، مگر بالآخر اس کا منہ کنکریوں سے بھراتا ہے۔
(۸) ٹھٹھا کرنے والے کو سمجھانا ضروری نہیں، کیونکہ وہ تجھ سے بغض رکھنا شروع کردے گا، جبکہ دانشمند کو سمجھانے سے وہ تجھے اچھا سمجھے گا۔
(۹) کلام کی کثرت میں کچھ نہ کچھ گناہ ضرور ہے، مگر جو شخص اپنے لبوں کو روکے رکھتا ہے وہ بڑا دانا ہوتا ہے۔
(۱۰) وہ جو عالم ہے باتیں کم کرتا ہے، سرد مزاج اور خردمند ہے اور احمق بھی اگر خاموش بیٹھا رہے تو عقلمند ہی لگے گا۔
(۱۱) آدمی کی عزت اس میں ہے کہ جھگڑے سے بچتا رہتا ہے، مگر بے وقوف اس کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔
(۱۲) جھگڑا صرف مغروری ہی سے ہوتا ہے، مگر عقل ان کے ساتھ ہے جو مصلحت کو پسند کرتے ہیں۔
(۱۳) وہ شخص جو گناہوں کو چھپاتا ہے کامیاب نہ ہوگا، مگر جو گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے رحمت کاصرف وہی حقدار ہے۔
(۱۴) نیکی قوم کو اعلیٰ بنادیتی، جبکہ گناہ قوم کو ذلیل کردیتا ہے۔
(۱۵) ان قدیم اخلاقی حدود کو جو تمہارے آباء و اجداد نے قائم کی ہیں ختم مت کرو۔
(۱۶) اپنے ہمسایہ پر بدی کا منصوبہ مت بنا جبکہ وہ تیرے پڑوس میں بے فکر رہ رہا ہے۔
(۱۷) اپنے ہمسایہ کے گھر جانے سے باز رہ، ایسا نہ ہو کہ تیرے روز روز کے آنے جانے سے بُرا خیال کرے۔
(۱۸) جب تیرا ہمسایہ تجھ سے کچھ طلب کرے اور تو دینے کے قابل بھی ہو تو ہرگز نہ کہہ کہ: ابھی تو جا پھر آنا تب تجھے دے دوں گا۔
(۱۹) اپنے آپ کو عقلمند تصور مت کرو، اللہ سے ڈرو اور برائیوں سے باز رہو۔
(۲۰) بیوقوف کو اس کی حماقت کی مانند جواب نہ دو، ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس جیسے ہوجاؤ۔
(۲۱) وہ جو بیوقوف کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہے گویا اپنے پاؤں خود ہی کاٹتا ہے۔
(۲۲) جو شخص غریبوں پر ظلم کرتا ہے اپنے خالق کی حقارت کرتا ہے۔
(۲۳) خداوند عالم ان چیزوں کو برا سمجھتا ہے: اونچی آنکھیں، جھوٹی زبان، وہ ہاتھ جو بے گناہ پر ظلم کرے، وہ دل جو برے منصوبے بنائے، وہ پاؤں جو جلدی برائی کی طرف جائیں، وہ گواہ جو جھوٹ بولے اور وہ شخص جو بھائیوں کو آپس میں لڑوا دے۔
(۲۴) جس کو غصہ دیر میں آتا ہے بہت ہی عقلمند ہے اور جو جلد غصہ ظاہر کرتا ہے وہ اپنی کم عقلی اور بے وقوفی ظاہر کرتا ہے۔
(۲۵) گھر اور مال وہ میراث ہے جو باپ سے حاصل ہوتی ہے، مگر عقلمند بیوی نعمتِ خداوندی ہے۔
(۲۶) رعایا کی خوشحالی سے بادشاہ کی رونق ہے، اور رعایا کی مفلسی سے بادشاہ کی تباہی ہے۔
(۲۷) ایک خوش مزاج آدمی پژمردہ دلوں کی دوا ہے۔
(۲۸) جاہل اپنے دل کی ہر بات کو ظاہر کردیتا ہے، مگر عقلمند آخر موقع تک چھپائے رکھتا ہے۔
(۲۹) جہالت لڑکے کے دل سے وابستہ ہے، مگر بہتر تربیت کی چھڑی اسے اس سے دور کردے گی۔
(۳۰) راستی اور انصاف خداوند کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۳۱) لڑکے کی تادیب سے دست بردار نہ ہو، چھڑی مارنے سے وہ مر نہ جائے گا، مگر جہنم سے اس کی جان بچالے گا۔
(۳۲) قناعت بدن کو تازگی بخشتی ہے اور حسد بدن گلا دیتا ہے۔
(۳۳) کسی شخص کی بہترین مالیت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مکمل تعلیم یافتہ ہو۔
(۳۴) ہوسکتا ہے کہ کوئی دولت تمہیں اچانک مل جائے مگر اس کا انجام اچھا نہ ہو۔
(۳۵) تعلیم بہترین خیرات ہے۔
(۳۶) سچا گواہ آدمی کو برائی سے بچاتا ہے اور جھوٹے گواہ سے خداوند کریم نفرت کرتا ہے۔
(۳۷) ہر ایک محنت میں فائدہ ہے، مگر زبانی جمع خرچ سے مفلسی آتی ہے۔
(۳۸) بہترین تعلیم سب سے اچھا جہیز ہے۔
(۳۹) جھگڑے کو چھوڑ دو قبل اس کے کہ بڑھ جائے۔
(۴۰) کوئی آدمی شرارت سے مضبوط نہیں ہوسکتا، مگر صادقوں کی بنیاد کو کبھی آنچ نہیں آتی۔
(۴۱) شریر کی بدکاریوں سے اس کی پکڑ ہوگی اور وہ اپنے ہی گناہوں کی زنجیروں میں جکڑا جائے گا۔
(۴۲) وہ شخص جس کے دل میں بُرائی ہے فلاح نہ پائے گا اور جس کو نکتہ چینی کی عادتِ بد لاحق ہوگی بالآخر تباہ ہوگا۔
(۴۳) ہر ایک انسان اپنے سب اعمال کو صحیح سمجھتا ہے، مگر خداوند عالم دل کو تولتا ہے۔
(۴۴) خداوند کا خوف انسان کو طویل عمر دیتا ہے، مگر نافرمانوں کی عمر گھٹ جاتی ہے۔
(۴۵) شکستہ خاطر کے سب دن بُرے ہیں، مگر جو خوش مزاج ہے وہ ہمیشہ جشن کرتا ہے۔
(۴۶) ملائم جواب سے غصہ زائل ہوجاتا ہے، مگر کرختگی غضب ڈھاتی ہے۔
(۴۷) بیوقوف اپنے باھ کی نصیحت کو حقارت سے دیکھتا ہے، مگر جو نصیحت سنتا ہے اور غور کرتا ہے عقلمند ہوجاتا ہے۔
(۴۸) سچا آدمی سات بار گر کر بھی سنبھل جاتا ہے، مگر شریر مصیبت میں جب ایک مرتبہ گرفتار ہوتا ہے تو پھر سنبھل نہیں سکتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کریم غفور الرحیم کے برگزیدہ رسولوں میں سے ایک ہیں، حضرت مریمؑ صدیقہ آپ کی والدہ محترمہ تھیں، آپ بِن والد کے پیدا ہوئے، کلام اللہ شریف میں آپ کو بار بار عیسیٰ بن مریم کے نام سے پکارا گیا ہے، جب آپ پیدا ہوئے تو لوگوں نے آپ کی والدہ صاحبہ پر الزامات کی بوچھار کردی، لیکن عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ماں کی گود سے ہی بات کرکے اپنی پاکدامن پر لگائے گئے تمام الزامات کا جواب دے دیا، آپ پر توریت نازل ہوئی، لیکن آپ کی امت نے آپ کی کوئی قدر نہ کی، آپ بیت اللحم میں پیدا ہوئے اور تقریباً ۳۲ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمانوں پر اٹھا لئے گئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اندھوں کو بینا کردیتے تھے، کوڑھ کو ٹھیک کردیتے، معذور کو تندرست کردیتے تھے، مگر آپ کی امت نے کسی بھی معجزہ کو اہمیت نہ دی، آپ کی امت کو عربی میں نصاری اور اردو میں عیسائی کہا جاتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوالِ حکیمانہ ملحاظہ ہوں:
(۱) سفر دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک سفر دنیا کا اور دوسرا آخرت کا، دونوں کے لئے توشہ درکار ہوتا ہے، دنیا کے سفر میں تو ساتھ رکھنا چاہئے، لیکن آخرت کے لئے پہلے ہی روانہ کرنا پڑتا ہے۔
(۲) دنیا میں دو چیزیں پسندیدہ رکھو: ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے دل سخن پذیر۔
(۳) اونٹ کا سوائی کے ناکہ سے گذرنا ممکن ہوسکتا ہے، مگر سرمایہ دار اور امیر رب کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
(۴) اچھا عمل کرو اور دوسروں سے اس کی امید رکھو۔
(۵) میں مردوں کو زندہ کرنے سے عاجز نہ آیا، لیکن احمق اور نادانوں کی اصلاح سے عاجز آگیا۔
(۶) بدن کا چراغ تیری آنکھ ہے، آنکھ درست ہو تو تمام بدن روشن ہے ورنہ تاریک۔
(۷) لوگوں کے قصور معاف کرنے والے کے گناہ رب معاف کردیتا ہے۔
(۸) ریا کاروں کو ثواب نہیں ملتا۔
(۹) بے عمل علماء کی مثال اس اندھی کی سی ہے جس نے چراغ اٹھا رکھا ہو۔
(۱۰) میاں بیوی کو رب ایک کرتا ہے، انسان کو چاہئے کہ دونوں میں نفاق پیدا کرنے سے پرہیز کریں۔
(۱۱) اچھے کاموں کو نمود و نمائش کے لئے مت کرو ورنہ رب کے انعام سے محروم ہوجاؤ گے۔
(۱۲) گناہوں سے بچنا عبادات پر فخر کرنے سے افضل ہے۔
(اقوال کاخزانہ)
(۱۳) اللہ سے محبت کرنے والا انسانوں سے بھی محبت کرتا ہے۔
(۱۴)نبی یا نیک مرد کو اس کے شہر والوں کے سوا اور کوئی گالی نہیں دیتا کیونکہ یہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں اور وہ ان کو برا جانتے ہیں ۔
(۱۵)اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کل کلام کاحاصلِ مطلب یہ ہے کہ آخرت دنیا سے اچھی ہے ، اس میں شک کرنا کسی کو مناسب نہیں ۔
(۱۶)انسان کے نزدیک جب تک سونا اور مٹی یکساں نہ ہوں صالح نہیں ہو سکتا ۔
(۱۷)تمام جنت کا مرجع دو چیزیں ہیں لذّات اور آرام ، جو ان دونوں کو دنیا میں ترک کرےگا ، وہی جنت میں جائےگا ۔
(۱۸)اگر تم دانا عالم ہو تو اپنے کو چھلنیاں نہ بنالو کہ بھوسی رکھ لیتی ہے اور آٹا گرادیتی ہے ۔
(۱۹)ایسی چیز کو خوب جمع کرو جسے نہ آگ جلائے نہ مٹی کھائے، لوگوں نے عرض کیا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نیکی اور احسان ۔
(۲۰)جو سوالی کو خالی ہاتھ لوٹائے اس کے گھر میں سات دن تک فرشتے نہیں گھستے ۔
اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ شریف میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکرِ مبارک سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء میں فرمایا ہے، روایات میں وارد ہے کہ آپ کا زمانہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان ہے اور یہ کہ آپ کا وطن بابل تھا۔
آپ کے پُر حکمت اقوال درجِ ذیل ہیں:
(اقوال کاخزانہ)
(۱) نیک کردار اور علم میں درجہ انتہاء یہ ہے کہ آدمی جہالت اور بدکرداری کے قریب بھی نہ جائے۔
(۲) اللہ پر ایمان محکم کے ساتھ ساتھ صبر کرنا ہی صحتمندی کی علامت ہے۔
(۳) تم کبھی خود کو مطمئن اور قانع نہیں کہہ سکتے، جب تک کہ تم ضروریاتِ زندگی کے علاوہ بھی دوسری چیزوں کے طلبگار رہو۔
(۴) اصلاح نفس اور اعمال صالحہ کے لئے نیک نیت ہونا از حد ضروری ہے۔
(۵) اپنے نفس کی نگرانی نہ کرنے والے بے سعادت مند ہوتے ہیں۔
(۶) جھوٹی قسم کھانا اور دوسروں کو بھی اس فعل کے لئے آمادہ کرنا گناہ کے زمرہ میں آتا ہے۔
(۷) حکمت و دانائی ہی روح کی غذائیں ہیں۔
(۸) انسان کے بس میں نہیں ہے کہ رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرسکے، جیسا کہ شکر ادا کرنے کا حق ہے۔
حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر کلام اللہ شریف میں آیا ہے اور آپ کو بہت بڑے دانا کا خطاب کیا گیا ہے، حضرت لقمانؑ کے متعلق مورخین کا خیال ہے کہ یا تو آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے یا پھر خالہ زاد بھائی، آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے شاگرد رشید اور اپنی قوم میں کرسئ انصاف سنبھالتے تھے اور بہت علم و عقل کے مالک تھے، آپ کے نصیحت آموز کلمات عام لوگوں کو بھی ازبر ہیں، آپ کا اصل وطن تو ملک حبشہ تھا ، آپ نے اپنی تعلیم ملک شام میں مکم کی اور قاضی کے عہدہ تک پہنچے، نبوت میں کسی کو بھی یقین نہیں، بلکہ اختلاف ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی پیش کرنے والا ہی کلام شریف میں بتلایا ہے، آپ کا مرقد مبارک فلسطین کے علاقہ رملہ میں ہے، وہیں انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔
آپ کے ضیاء آفریں ارشادات ملاحظہ ہوں:
(اقوال کاخزانہ)
(۱) جس نعمت میں ناشکری ہے وہ ہمیشہ نہیں رہ سکتی۔
(۲) جس نعمت میں جذبۂ شکر گذاری ہے اس کو زوال نہیں۔
(۳) کسی بھی محفل میں ہمارے نشست و برخاست اور گفتگوسے حاضرین کی عزت بڑھنا چاہئے، یہ نہ ہونا چاہئے کہ ہمارے کسی فعل سے کسی کا دل دُکھ جائے۔
(۴) اصلاحِ نفس کی ہمہ وقت کوشش کرتے رہ تاکہ تمہارے اندر اچھی صفات پیدا ہوں۔
(۵) جس بات کا تمہیں پورا علم نہ ہو اپنی زبان سے مت کہو۔
(۶) جس بات کا تمہیں پورا علم ہو اس کو بتانے سے گریز مت کرو۔
(۷) جس قدر ممکن ہو لوگوں کے ہجوم سے بچو! اس طرح تمہارا دل سلامت رکہے گا اور نفس پاکیزہ رہے گا اور جسم کو آرام ملے گا۔
(۸) جو بات تم اپنے دشمن سے چھپانا چاہتے ہو، اپنے دوست سے بھی مت کہو، ہوسکتا ہے کہ وہ بھی کسی روز تمہارا دشمن نہ ہوجائے۔
(۹) جاہل دوستوں کی صحبت سے پرہیز کرو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کہیں تم ان جیسے نہ بن جاؤ۔
(۱۰) جس طرح تم کسی کو اپنے حسن اخلاق سے دوست بناسکتے ہو اسی طرح بداخلاقی سے اپنے دوستوں کے مخالف بھی بن سکتے ہو۔
(۱۱) ایک بات یاد رکھو کہ عقل ادب کے ساتھ ایسی ہے جیسے درخت کا پھل، اور عقل بے ادبی کے ساتھ ایسی ہے جیسے بے پھل کا درخت۔
(۱۲) اچھی صحت سے بڑھ کر کوئی دولتمندی نہیں اور استغناء سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔
(۱۳) اچھے دوست کو سرمایۂ نجات تصور کرو کہ سرمایہ کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ملتا۔
(۱۴) جو کام بھی تم انجام دو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے انجام دو، بندوں کا خوف اپنے دل میں لاؤ۔
(۱۵) عالموں اور داناؤں کی صحبت کو غنیمت سمجھو، ان میں بیٹھنے سے تم اپنے دل میں علم کی بہار دیکھوگے اور تم دیکھوگے کہ تم پر علم و حکمت کی بارش ہوتی ہوگی۔
(۱۶) اگر کسی کام کا ارادہ ہو کہ کسی کے سپرد کریں تو کسی سمجھ دار کا انتخاب کرو، اگر کسی سمجھ دار آدمی میسر نہ ہو تو اس کام کو خود انجام دو ورنہ چھوڑ دو۔
(۱۷) جس محفل میں اللہ کا ذکر سنو وہاں بیٹھ کر سنو، ہوسکتا ہے کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔
(۱۸) جس محفل میں برائیوں کی بات دیکھو وہاں سے تعلق نہ رکھو کہ کہیں تم بھی برائیوں میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔
(۱۹) دنیا کے قلیل مال پر قناعت کرو۔
(۲۰) اپنے مقدر میں لکھے رزق پر قانع رہو۔
(۲۱) دوسروں کے رزق پر آنکھ مت رکھو۔
(۲۲) اس علم سے بچو جس میں عمل نہ ہو۔
(۲۳) اس عمل سے بچو جس میں علم نہ ہو۔
(۲۴) اپنے ذہن کو بدگمانیوں سے پاک رکھو، ورنہ تم بھری دنیا میں کوئی بھی دوست اور غمخوار نہیں پاؤگے۔
(۲۵) ایک بُرا فقرہ تم کو اس طرح تباہ و برباد کرسکتا ہے کہ جس طرح ایک چنگاری پورے جنگل کو جلادیتی ہے۔
(۲۶) بد اعمال اور فتنہ انگیز عورتوں سے اللہ کی پناہ مانگو اور نیک عورتوں سے بھی بچو، کیونکہ جب تمہاری رغبت عورتوں کی طرف ہوی تو خیر کے بجائے شر تمہارا مقدر بن جائے گی۔
(۲۷) کثیر الفہم اور سخنور بن جاؤ، مگر حالت خاموشی میں بے فکر نہ بن جاؤ۔
(۲۸) کوئی ذکر اللہ کے ذکر کے بغیر اور کوئی فکر آخرت کی فکر کے بغیر مفید نہیں ہے۔
(۲۹) خود نیک کام کرو اور دوسروں کو بھی کہو۔
(۳۰) خود بُرے کاموں سے بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔
(۳۱) کمینہ خصلت لوگوں کے مقابلہ میں خاموشی سے امداد طلب کرنا چاہئے۔
(۳۲) دنیا کی مصیبتوں کو آسان تصور کرو اور موت کو یاد رکھو کہ موت بہت بڑی مصیبت ہے۔
(۳۳) خوشامد لوگوں کی کسی ایسی تعریف پر فخر نہ کرو جو تم میں موجود نہیں ہے، کیونکہ جاہلوں کے کہنے سے ٹھیکری سونا تو نہیں بن جاتی۔
(۳۴) لوگوں کے آرام کے لئے کوشش جاری رکھو، ان سے دور مت رہو اور اپنے آپ کو سخت محنت کا عادی بناؤ۔
(۳۵) خاموش رہنے کی عادت اپناؤ، کیونکہ زبان کا بھی حساب لیا جائے گا۔
(۳۶) کم کھاؤ اور زیادہ علم سیکھو۔
(۳۷) عبادت میں دل کی حفاظت کرو اور محفل میں زبان کی۔
(۳۸) غضب میں ہاتھوں کی حفاظت کرو اور دسترخوان پر اپنے پیٹ کی۔
(۳۹) کسی چیز کے حصول کو نعمتِ آخرت کے حصول پر ترجیح مت دو۔
(۴۰) کسی بے عقل کو عقلمندوں پر ترجیح مت دو اور جاہل کو اہل علم پر بھی ترجیح مت دو۔
(۴۱) ہر شخص کا مقام اس کی دانشمندی اور ہنر مندی پر ہوتا ہے۔
(۴۲) دین ایک نعمت ہے اور دین اور مال دو نعمتیں ہیں۔
(۴۳) بدطینت لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرو۔
(۴۴) عقلمندوں کی صحبت اختیار کرو۔
(۴۵) بردباری، راستی، دیانت داری، بخشش اور فروتنی عاقلوں کی نشانیاں ہیں۔
(۴۶) عقل مند اگر کلام کرتا ہے تو علم سے کرتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کرتا ہے تو حلم کی وجہ سے۔
(۴۷) تمہارا عقل مند دوست تم میں اگر کوئی برائی دیکھے گا تو لوگوں کو نہیں بتائے گا۔
(۴۸) اللہ کے نزدیک عقل سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
(۴۹) بے عقل آدمی دوسروں کو اچھے کاموں کی تلقین کرتا ہے اور خود برے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
(۵۰) بے عقل آدمی نیکوں کو برائیاں اور بُرے لوگوں کو نیکیوں کی تلقین کرتا ہے۔
(۵۱) بے عقل آدمی اپنی کم عقلی پر بھی مغرور ہوتا ہے۔
(۵۲) تیرا بے عقل دوست تجھے ہمیشہ کم عقلی ہی کے مشورے دے گا۔
(۱)اس بات سے بچتا رہ کہ ظاہر میں تو ولی اللہ معلوم ہو اور باطن میں اللہ جلّ جلالہ کا دشمن ہو کیونکہ جس کا ظاہر و باطن یکساں نہیں وہ منافق ہے ، اور منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے ۔