منتخب!ارشاداتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم

منتخب!ارشاداتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
خلیفۂ اوّل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (۵۷۲ء۔تا۔۶۳۴ء)
خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ (۵۸۶۔تا۔۶۴۴ء)
خلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (۵۷۶ء۔تا۔۶۹۷ء)
خلیفۂ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (۶۰۱ء۔تا۔۶۶۰ء)
مدتِ خلافت:۔ ۱۱ہجری۔تا۔۱۳ ہجری
مختصر حالاتِ زندگی: آپ کا اسمِ گرامی عبد اللہ اور والد کا نام گرامی ابو قحافہؓ ہے، صدیق اکبر اور عتیق القابات ہیں، آپ کی کنیت ابوبکر ہے اور یہ زیادہ مشہور و معروف ہے، آپ واحد صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کے والد ابو قحافہؓ اور بیٹے عبد اللہ اور پوتے محمد بن عبد الرحمن یعنی چار پشتیں اسلام سے فیض یاب تھیں، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ با سعادت کے تقریباً ۲سال بعد پیدا ہوئے، قبل از اسلام آپ مکہ کے ایک نہایت شریف النفس شخص تھے، کاروبار تجارت تھا، زمانہ جاہلیت میں بھی بُرے کاموں سے پَرے رہے، شراب،جُوّے سے نفرت کی، حالانکہ یہ اس زمانہ میں قابل فخر امور تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو آپؓ نے سب سے پہلے تصدیق فرمائی اور اپنی مکمل پونجی جو کہ تقریباً چالیس ہزار درہم تھی اسلام کے لئے وقف فرمادی، اس رقم سے ان غلاموں کو آزادی دلانے میں بڑی مدد ملی جن پر مشرکین بہت ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے تھے، حضرت بلال حبشیؓ مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ ہی کے آزاد کردہ غلام تھے۔
جب اللہ کے حکم سے اہل اسلام مکہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ہجرت فرمائی اور یارِ غار کی مثال قائم فرماگئے، پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو اہل اسلام نے اتفاقِ رائے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ اول چن لیا اور تقریباً سوا دو سال تک فرائضِ خلافت انجام دئے اور اسلام کو مضبوط کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
آپ کے فرمودات بہت کم تعداد میں اکھٹے ہوسکے ہیں، وجہ یہ کہ عرب میں اس وقت تاریخ اکھٹا کرنے کا رواج نہ تھا اور دوسرے یہ کہ آپ بہت کم گو تھے۔ چند ارشاداتِ عالیہ یہ ہیں:
(۱) لوگو! میں تاکید کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور اس خوش بختی اور انعام کے مستحق بنو جو اللہ تعالیٰ تم کو دینا چاہتا ہے۔
(۲) اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو کیونکہ جس کی وہ رہبری نہ کرے گمراہ ہے اور جس کو وہ فکر و نظر کے مرض سے شفا نہ دے وہ روگی ہے اور جس کا وہ دستگیر نہ ہو وہ خوار ہے۔
(۳) ہر کام میں اللہ رب العزت سے ڈرو خواہ کھلا ہو یا پوشیدہ، جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کی مشکلات آسان فرمادیتا ہے، اس کی خطائیں معاف فرمادیتا ہے اور اس کو عمدہ انعام دیتا ہے۔
(۴) دشمنِ دین شیطان کے دھوکہ میں نہ آؤ، کیونکہ وہ تمہارا اصل دشمن ہے۔
(۵) آخرت کی کامرانی کو دنیا کی کامرانی پر ترجیح مت دو۔
(۶) دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دو، ورنہ دنیا تمہیں حقیر بنادے گی۔
(۷) اللہ کی نافرمانی کروگے تو اللہ تمہیں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی سے محروم کردے گا۔
(۸) اپنے کسی کام پر بھی بھروسہ نہ کرو، کیونکہ کامیابی کا دار و مدار انسانی کوشش پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لطف و احسان پر ہے، اچھے اور بُرے اعمال کی جزاء اور سزاء بھی اسی کے ہاتھ ہے۔
(۹) اللہ ان لوگوں کی مدد فرماتا ہے جو اس کے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانی پیش کرتے ہیں۔
(۱۰) بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی اور نیک عمل کئے۔
(۱۱) اے مسلمانو! مجھے تمہارا حاکم مقرر کیا گیا ہے، مگر میں تم سے بہتر نہیں ہوں، میرے نزدیک کمزور آدمی بھی قوی ہے جب تک کہ میں اس کو اس کا حق نہ دلوادوں اور میرے نزدیک قوی آدمی بھی کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے کمزور کا حق وصول نہ کروالوں۔
(۱۲) اے لوگو! میری حیثیت تمہارے ایک معمولی فرد سے بڑھ کر نہیں ہے، اگر تم مجھے صراط مستقیم پر دیکھو تو میری پیروی اور مدد کرو اور اگر نہ دیکھو تو ٹوک دو، یاد رکھو! جہاد کو ترک نہ کرنا جب کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیتی ہے تو وہ ذلیل ہوجاتی ہے۔
(۱۳) عاجز ترین وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو اور اگر بہم پہنچے تو معمولی ملال سے اُسے چھوڑ دے۔
(۱۴) ماں باپ کی خوشنودی دنیا میں موجب دولت اور آخرت میں باعثِ نجات ہے۔
(۱۵) پاک نفس آدمی شہرت میں عورتوں سے بھی زیادہ شرماتا ہے اور جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو بولنا خود بخود کم ہوجاتا ہے۔
(۱۶) رزق کی وسعت انسان کے لئے دین کی سلامتی ہے اور دل کو سکون بخشتی ہے۔
(۱۷) عالم بے عمل کی صحبت دل سے عظمتِ اسلام نکال دیتی ہے۔
(۱۸) وہ جانور بروز محشراللہ کے حکم سے جواب طلب کرے گا جس کو بے وجہ کے مارا گیا ہو یا بوجھ لادا گیا ہوگا۔
(۱۹) خوش خلق جنت میں اعلیٰ مرتبہ حاصل کرے گا خواہ اس کی عبادت زیادہ نہ ہو۔
(۲۰) فضول باتوں کا سننا خطراتِ نفسانی کا پیش خیمہ ہے۔
(۲۱) عقل مند سوچ کر بولتا ہے جبکہ بے عقل بول کر سوچتا ہے۔
(۲۲) جو کسی کے گناہ کی ٹوہ میں رہتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اللہ پردہ داری پسند فرماتا ہے۔
(۲۳) کسی سے اپنے استقبال کا خواہاں نہ ہو، بلکہ خود کو موت کے استقبال کے لئے تیار رکھ۔
(۲۴) لعنت ہے اس شخص پر جو ظالم کو ظلم سے نہ روکے، حالانکہ وہ قدرت رکھتا ہو۔
(۲۵) تنہائی سے زیادہ کسی حال میں امن نہیں اور زیارت قبور سے زیادہ کوئی ناصح نہیں۔
(۲۶) انسان تنہائی میں فرشتہ سے افضل یا حیوان سے کمتر ہے، مگر انسان کے علم، عقل اور بصیرت پر منحصر ہے۔
(۲۷) عیب کرنے والا بد ہے اور عیب کو ظاہر کرنے والا بدتر ہے۔
(۲۸) انکساری یہ ہے کہ آدمی کو غصہ ہی نہ آئے۔
(۲۹) محض لباس کی عمدگی یا کمتری سے انسان کی شناخت نہیں ہوسکتی، کیونکہ انسان کو اللہ بناتا ہے اور لباس کو انسان۔
(۳۰) بے احسان سخاوت، قدرت میں عفو، دولت میں تواضع اور عداوت میں نیکی ہی اصل جواں ہمتی ہے۔
(۳۱) تین آدمی صرف تین موقعوں پر ہی پہچانے جاتے ہیں: بہادر لڑائی میں، دانا غصہ میں اور دوست بوقتِ سفر۔
(اقوال کاخزانہ)
۱۔اللہ سے ڈرنے والا ہی (ہر خوف سے) امن میں ہوتا ہے اور(ہرشر اورمصیبت سے)محفوظ ہوتا ہے۔
(الترغیب والترھیب:۴/۱۵)

۲۔اللہ تعالی کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ)دن میں کچھ ایسے عمل ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرتے ہیں اور ایسے ہی اللہ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ) رات میں کچھ عمل ایسے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے اور جب تک فرض ادا نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے،دنیا میں حق کا اتباع کرنے اورحق کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہوگا۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۱۵۲،۱۵۶)

۳۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی جہاں سختی اور تنگی کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی نرمی اور وسعت کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں اور جہاں نرمی اور وسعت کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی سختی اور تنگی کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں تاکہ مو من کے دل میں رغبت اور ڈر دونوں ہوں اور وہ (بے خوف ہوکر)اللہ سے نا حق تمنائیں نہ کرنے لگے اور(ناامید ہوکر)خودکو ہلاکت میں نہ ڈال لے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۴۸۰)

۴۔اپنے ہرکام میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے وہ کام چھپ کر کرو یا سب کے سامنے،اللہ سے شرم کرتے رہنا ؛کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام کاموں کو دیکھتا ہے۔
(تاریخ الطبری:۴/۲۹)

۵۔لوگوں کی اندر کی باتوں کو ہرگز نہ کھولنا ؛بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کرلینا اوراپنے کام میں پوری محنت کرنا اوردشمن سے مقابلہ کے وقت جم کر لڑنا اور بزدل نہ بننا(اور مال غنیمت میں اگر خیانت ہونے لگے تو اس )خیانت کو جلدی سے آگے بڑھ کر روک دینا۔
(تاریخ الطبری:۴/۲۹)

۶۔ظاہر اورباطن میں اللہ سے ڈرتے رہو؛کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے (ہر مشکل،پریشانی اورسختی سے)نکلنے کا راستہ ضروربنادے گا اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگا اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیاں دور کردے گا اوراسے بڑا اجردے گا۔
(تاریخ الطبری:۴/۲۹)

۷۔جب کوئی آدمی امیر بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور یہ امیر ظالم سے مظلوم کا بدلہ نہیں لیتا ہے تو پھر ایسے امیر سے اللہ بدلہ لیتا ہے جیسے تم میں سے کسی آدمی کے پڑوسی کی بکری ظلماً پکڑلی جاتی ہے تو سارادن اس پڑوسی کی حمایت میں غصہ کی وجہ سے اس کی رگیں پھولی رہتی ہیں،ایسے ہی اللہ تعالی بھی اپنے پڑوسی کی پوری حمایت کرتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۳،۸۴)

۸۔جب کچھ لوگ ایسے لوگوں کے سامنے گناہ کے کام کریں جو ان سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہوں اور وہ انہیں ان برے کاموں سے نہ روکیں تو ان سب پر اللہ تعالی ایسا عذاب نازل فرمائیں گے جسے ان سے نہیں ہٹائیں گے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۱۰،۸۱۱)

۹۔سب سے بڑی عقلمندی تقویٰ ہے اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجور ہے اورجو تم لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے (اوروہ طاقت کے زور سے کمزوروں کے حق دبالیتا ہے)وہ میرے نزدیک کمزور ہے میں کمزور کو اس طاقتور سے اس کا حق دلواکر رہوں گا اور جو تم میں سب سے زیادہ کمزور ہے (جس کے حق طاقتوروں نے دبا رکھے ہیں)وہ میرے نزدیک طاقتور ہے میں اس کے حق طاقتوروں سے ضرور لے کر دوں گا۔
۱۰۔جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑدے گی ان پر اللہ تعالی فقر مسلط کردیں گے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے گی اللہ تعالیٰ ان سب پر مصیبت بھیجیں گے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۰)

۱۱۔جب تک موت نے مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک تم لوگ نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اس سے پہلے کہ موت آجائے اور عمل کرنے کا موقع نہ رہے۔
(اخرجہ الطبرانی فی تاریخہ:۲/۴۶۰،حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۳،۴۶۴)

۱۲۔اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضا مقصود نہ ہو اور اس مال میں کوئی خیر نہیں جسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اس کی برد باری پر غالب ہو اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے،یعنی وہاں تو خیر اورشر کا معیار بندے کے اعمال ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر:۴/۳۴۲)

۱۳۔اللہ تعالی کے اور اس کی کسی مخلوق کے درمیان کوئی ایسا نسب کا رشتہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اللہ اسے خیر دے اور اس سے برائی کو دور کرے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۶)

۱۴۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگرتم تقویٰ اورپاکدامنی اختیار کروتو تھوڑا عرصہ ہی گزرےگا کہ تمہیں پیٹ بھر کر روٹی اور گھی ملنے لگے گا۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۷۰)

۱۵۔اللہ سے معافی بھی مانگو اور عافیت بھی؛کیونکہ کسی آدمی کو ایمان ویقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی نعمت نہیں دی گئی یعنی سب سے بڑی نعمت تو ایمان ویقین ہےاور اس کے بعد عافیت ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۷۴)

۱۶۔سچ کو لازم پکڑے رہو کیونکہ سچ بولنے سے آدمی نیک اعمال تک پہنچ جاتا ہے ،سچ اور نیک اعمال جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بولنے سے آدمی فسق وفجور تک پہنچ جاتا ہے اورجھوٹ اور فسق وفجور دوزخ میں لے جاتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۷۱)

۱۷۔صدقہ فقیر کے سامنے عاجزی سے باادب پیش کر؛کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔
۱۸۔عبادت ایک پیشہ ہے،دکان اس کی خلوت ہے،راس المال اس کا تقویٰ ہے اورنفع اس کا جنت ہے۔
۱۹۔شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے،توبہ بوڑھے سے خوب اور جوان سے خوب تر ہے،سخاوت مالدار سے خوب ہے ؛لیکن محتاج سے خوب تر ہے، جوان کا گناہ بد ہے؛ لیکن بوڑھے کا بد تر ہے۔
۲۰۔اللہ تعالی کی عبادت کی سستی عام لوگوں سے بد ہے،لیکن عالموں اورطالب علموں سے بدتر ہے۔
۲۱۔صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لئے باعث ندامت ہے۔
۲۲۔لوگوں سے تکلیف کو دور کرکے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔
۲۳۔جاہ وعزت سے بھاگو تو عزت تمہارے پیچھے پھرےگی اور موت پر دلیر رہو ؛تاکہ تمہیں ابدی زندگی بخشی جائے۔
۲۴۔شکر گزار مومن عافیت سے قریب تر ہے۔
۲۵۔بد بخت انسان وہ ہے جو خود تو مرجائے لیکن اس کا گناہ نہ مرے،یعنی کوئی بری بات جاری کرجائے۔براعمل جاری کرجائے یابری کتاب کی اشاعت کرجائے۔
(مخزن اخلاق :۶۶،۶۸)

(۱)یہ بات ناممکن ہے کہ دولت مندی خواہشات سے ، جوانی خضاب سے ،اور صحت دواؤں سے حاصل ہوجائے(یعنی محض تمناؤں اور آرزوؤں سے کوئی شخص مالدار نہیں بن جاتا، اسی طرح بالوں کو سیاہ کرکے اپنی کھوئی جوانی حاصل نہیں کرسکتا ، اور جب صحت ایک مرتبہ تباہ ہوجاتی ہے تو دواؤں سے اسے مکمل طور پر واپس نہیں لایا جاسکتا ہے)۔
(۲)دنیا کی محبت ایک اندھیرا ہے اور تقویٰ اس اندھیرے کے لئے بمنزلۂ چراغ ہے، گناہ ایک اندھیرا ہے اور توبہ اس کا چراغ ہے ، قبر ایک اندھیرا ہے اور کلمۂ طیبہ اس کا چراغ ہے ، آخرت اندھیری ہے اور اعمالِ صالحہ اس کا چراغ ہے ، اور پل صراط اندھیرا ہے اور یقین اس کا چراغ ہے ۔
(۳)ابلیس ترکِ دین کی دعوت دیتا ہے ، خواہشات شہوت کی طرف دعوت دیتے ہیں، دنیا اپنے سے محبت اور اپنے کو اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے ، اعضاء گناہوں پر انہیں استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہیں ، نفس معصیت کی طرف دعوت دیتاہے اور اللہ تعالیٰ جنت و مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے ’’واللہ یدعو الی الجنۃوالمغفرۃ ‘‘ ؛ پس جس شخص نے ابلیس کی بات مان لی اس کا دین غارت ہوگیا ، جس نے خواہشات کی اتباع کرلی اس کی عقل برباد ہوگئی ، جس نے دنیا کی دعوت قبول کرلی اس کی آخرت ہاتھ سے نکل گئی ، جس نے اعضاءکا کہا مان لیا وہ جنت سے محروم ہوا ، جس نے نفس کی دعوت تسلیم کرلی اس کی روح خراب ہوگئی اور جس نے اللہ کے بلاوے کی طرف چلنا شروع کردیا تو اس کے گناہ مٹ گئے اور خیر و خوبی کا مستحق قرار پایا ۔
(۴)پاکدامنی فقیری کی زینت ہے ، شکر نعمت کی زینت ہے ، خشوع و خضوع نماز کی زینت ہے ، صبر بلا کی زینت ہے ، وقار علم کی زینت ہے ، عاجزی طالبِ ِ علم کی زینت ہے کثرتِ گریہ صفتِ خوف کی زینت ہے اور احسان نہ جتانا احسان کی زینت ہے ۔
(۵)اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو یہ دس خصلتیں عطا فرمائیں وہ تمام آفات اور مصائب سے نجات پاجاتا ہے اور متقین و اولیاء کے درجات کو پہونچایاجاتا ہے : ہمیشہ سچ بولنا اور اس کے ساتھ قناعت پسند دل کا ہونا، اچھی طرح صبر کرنا اور اس کے ساتھ ہمیشہ شکر گزار رہنا ، معاش کی مسلسل تنگی اور اس کے ساتھ دنیا سے بے نیازرہنا ، ہمیشہ فکرِ دین میں رہنا اور اس کے ساتھ فاقہ کا بوجھ اٹھانا ، ہمیشہ غمگین رہنا اور اس کے ساتھ ہی اللہ سے ڈرتے رہنا ، مستقل مجاہدہ کرتے رہنا اور اس کے ساتھ متواضع جسم والا ہونا ، ہمیشہ نرم خو رہنا اور اس کے ساتھ ہی رحم و کرم کا جذبہ ہونا ، محبتِ الٰہی میں سرشار رہنا اور ساتھ ہی پوری حیا ءکا مظاہرہ کرنا ، علم پر عمل کرتے رہنا اور برد باری و حلم کو قائم رکھنا ، ایمان پر ثبات کے ساتھ عقل کا کمال حاصل ہونا ۔
(۶)اےلوگو! اللہ سے معافی اور عافیت کے خواستگار رہو کیونکہ اسلام کے بعد مؤمن کے لئے مغفرت اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ۔
(۷)کوئی مسلمان کسی مسلمان کو حقیر نہ جانے کیونکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی شان والا ہے ۔
(۸)جسے یہ پسند ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت میں نارِ جہنم سے محفوظ رکھے اسے مسلمان پر رحم کرنا ضروری ہے ۔
(۹)سب سے بڑی سمجھداری تقویٰ ہے ، اور اعلیٰ درجہ کی حماقت فسق و فجور ہے ، اور امانت بہت بڑی سچائی ہے ، اور بدترین جھوٹ خیانت ہے۔
(۱۰)ہم نے بزرگی تقویٰ میں اور مالداری یقین میں اور عزت تواضع میں پایا ۔
مدتِ خلافت:۔ ۱۳ہجری۔تا۔۲۴ ہجری
حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے با اعتماد ساتھی تھے اور بہت ہی برگزیدہ صحابی تھے، آپ کے قبول اسلام سے دین اسلام بہت مضبوط ہوا اور آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد تبلیغ دین کا کام آزادانہ شروع ہوا، کلام اللہ شریف میں بہت سی آیات آپؓ کی تائید میں نازل ہوئی ہیں۔
قبولِ اسلام کے وقت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عمر ۲۶ سال تھی ، پیشہ تجارت تھا اور ایک مستحکم حیثیت کے مالک تھے، آپ نہایت طویل القامت اور ورزشی جسم کے مالک تھے اور بائیں ہاتھ سے لکھتے اور تمام کام کرتے تھے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت سادگی پسند تھے، نہ ہی آپ کو عمدہ لباس کا شوق تھا اور نہ ہی پُر تکلف کھانوں کا، ظاہری ٹھاٹ باٹ بھی پسند نہیں فرماتے تھے، جب خلافت کی ذمہ داری ڈالی گئی تو اور بھی سادگی پسند ہوگئے تاکہ عمدہ مثال قائم ہوسکے۔
آپ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر تھے اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے داماد تھے، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ۴۵ سال کی عمر میں بحیثیت خلیفہ دوم مقرر ہوئے اور تقریباً گیارہ سال خلاف فرمائی، حتی کہ ایک ایرانی مجوسی فروز لؤلؤ نے دورانِ نماز آپ کو شہید کردیا، بوقتِ شہادت دس ہزار مربع میل کا علاقہ آپ کے زیرِ خلافت تھا، آپ بہت ہوشمند خلیفۂ اسلام تھے، آپ سے بڑا مجتہد آج تک پیدا نہیں ہوا، دین میں استحکام پیدا کرنے میں آپ کی بہت کاوشیں ہیں، اسی لئے مائیکل ہرٹ نے اپنی کتاب The Hundred میں آپ کا تعارف بڑے عمدہ الفاظ میں کیا اور ان کا مرتبہ جولیس سیزر اور سکندر اعظم سے بڑھ کر بتایا ہے، آپ کی خدمت میں اس عظیم المرتبت شخصیت کے چند ارشادات گرامی پیش ہیں:
(۱) دنیا کے ٹھاٹ باٹ سے نظریں ہٹالو اور دنیا کی محبت دل میں نہ لاؤ، خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت تمہیں ہلاک کرڈالے، جیسے پچھلی قوموں کو ہلاک کردیا تھا۔
(۲) اللہ پر اعتماد پختہ رکھو کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کوئی وعدہ جھوٹا نہیں ہوتا۔
(۳) سرکاری عہدہ دارو! تم دولت کے سوتوں پر بیٹھ گئے ہو، حرام طریقوں سے مال کماتے ہو، حرام کھاتے ہو اور اپنی اولاد کو حرام دولت کا وارث بناتے ہو۔
(۴) میں سب کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔
(۵) اسلامی حکومت صرف وہ شخص قائم کرسکتا ہے جو محکم تدبیر ہو، فرائض کی انجام دہی میں جو ذرا غفلت نہ برتے، جس کا چال چلن لوگوں کی نظر میں بے داغ ہو، جس کے دل میں رعایا کی طرف سے کینہ نہ ہو اور جو صحیح کام کرنے اور حق بات کہنے میں کسی سے نہ ڈرتا ہو۔
(۶) ہر حاکمِ وقت رعایا کی بہ راہروی کا ذمہ دار ہے اور اللہ جل شانہ کے آگے جوابدہ ہے۔
(۷) جو اللہ سے راہنمائی کا طالب ہوتا ہے اللہ اس کا دل اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔
(۸) وعدہ ہر حال میں وفا کرو، وفا تو بے وفائی میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے۔
(۹) کیوں تم لوگوں کو قیدی بناتے ہو؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا۔
(۱۰) ایمان کے بعد سے بری نعمتِ الٰہی نیک بیوی ہے۔
(۱۱) جو شخص اپنے راز کو پوشیدہ رکھتا ہے وہ اپنی سلامتی کو اپنے قبضہ میں رکھتا ہے۔
(۱۲) انسان کا اسراف اس کا نام ہے کہ جس چیز کو وہ چاہے کھائے۔
(۱۳) قوت فی العمل یہ ہے کہ آج کے کام کل پر نہ اٹھا رکھے جائیں۔
(۱۴) توبۃ النصوح کا مطلب یہ ہے کہ بُرے فعل سے اس طرح توبہ کی جائے کہ پھر اس کو کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
(۱۵) خشوع خضوع کا تعلق دل سے ہے نہ کہ ظاہری حرکات سے۔
(۱۶) مقدمات کا تصفیہ جلد کرنا چاہئے تاکہ دعویٰ کرنے والا دیر کے سبب کہیں اپنے دعویٰ سے مجبوراً دست بردار نہ ہوجائے۔
(۱۷) احمق کی دوستی سے احتراز کرو، کیونکہ اگر وہ بھلائی بھی کرنا چاہے تو بھی نہیں کرسکتا۔
(۱۸) ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ واحد کو دل سے پہچانے اور زبان سے اس کا اقرار کرے اور احکاماتِ شریعت پر عمل کرے۔
(۱۹) شبہ کی ساتھ کمانا بھیک مانگنے سے بہتر ہے۔
(۲۰) کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ تلاش رزق میں بیٹھ جائے اور دعاء کرے کہ: اے اللہ مجھے رزق دے، کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ آسمان سے سونا اور چاندی نہیں برسا کرتے۔
(۲۱) جو تمہاری خوشامد کرتا ہے وہ تمہارے اور خود اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔
(۲۲) میں کسی چیز کو نہیں دیکھتا مگر اس کے ساتھ اللہ کو دیکھتا ہوں۔
(۲۳) انسان کی سب آرزوئیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔
(۲۴) جو شخص اپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل اور جو اپنے آپ کو جنتی کہے وہ جہنمی ہے۔
(۲۵) بڑھاپے سے پہلے علم حاصل کرو۔
(۲۶) جب عالم دین کو لغزش ہوتی ہے تو اس سے ایک عالم لغزش میں پڑجاتا ہے۔
(۲۷) جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی جانب مائل دیکھو تو سمجھ لو کہ دین بارے میں وہ قابلِ الزام ہے، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کا خواہاں ہوتا ہے وہ اسی کی دھن میں ہر وقت مشغول رہتا ہے۔
(۲۸) خدا اس شخص پر رحمت فرمائے جو میرے عیبوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
(۲۹) تین چیزیں محبت بڑھانے کا موجب ہیں: اول سلام کہنا، دوم دوسروں کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا اور تیسرا مخاطب کو بہترین نام سے پکارنا۔
(۳۰) ندامت چار قسم کی ہوتی ہے:
(الف)ندامت ایک اس دن کی جب کوئی شخص تیرے گھر سے کھانا کھائے بغیر چلا جائے۔
(ب) ندامت سال بھر کی جبکہ کھیتی باڑی کا وقت غفلت میں گذر جائے۔
(ج) ندامت عمر بھی کی جبکہ بیوی سےمواقفقت (Understanding) نہ ہو۔
(د) ندامتِ ابدی کہ تم سے اللہ تعالیٰ خوش نہ ہو۔
(۳۱) اگر غیب دانی کے دعوے کا خیال نہ ہوتا تو میں کہتا کہ پانچ شخص جنت میں جائیں گے:
(الف) وہ عیالدار جو محتاج ہوتے ہوئے بھی صبر کرے۔
(ب) وہ عورت جس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو۔
(ج) وہ عورت جس نے اپنے شوہر کا حقِ معاف کردیا ہو۔
(د) وہ شخص جس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں۔
(ہ) وہ شخص جو اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرے۔
(۳۲) آدمیوں کی تین اقسام ہوتی ہے:
(الف) کامل: وہ ہے جو لوگوں سے مشورہ کرکے اس پر غور کرے۔
(ب) کاہل: وہ ہے جو اپنی رائے پر چلے اور کسی سے مشورہ نہ کرے۔
(ج)لاشئی: وہ ہے جو نہ خود سمجھدار ہو اور نہ وہ دوسروں سے مشورہ کرے۔
(۳۳) مومن کے نماز اور روزے کو نہیں بلکہ اس کی دانائی اور راست بازی کودیکھنا چاہئے۔
(۳۴) جس نے ہوس ریاست اور حکومت کی بے تشک اس کے لئے ہلاکت ہے۔
(۳۵) اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات تمہارے لئے پیدا فرمائی ہے اور تمہیں اپنے لئے۔
(۳۶) ’’واللہ اعلم‘‘ مت کہو، جو بات نہیں جانتے اس کے متعلق سیدھے طور پر کہو کہ میں نہیں جانتا۔
(۳۷) اللہ رب العزت انسانوں کو براہ راست رزق نہیں دیتا بلکہ انسانوں کے ذریعہ دیتا ہے۔
(۳۸) متوکل وہ ہے جو زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور پھر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔
(۳۹) اللہ اقوام عالم کے عروج و زوال کے فیصلے قرآن کے مطابق کرتا ہے۔
(۴۰) محض لا الٰہ کہنے سے جنت نہیں مل سکتی، بلکہ جنت عمل سے ملتی ہے۔
(۴۱) کسی قوم سے مقابلہ کے وقت یہ نہ دیکھو کہ اس کی اخلاقی خرابیاں تمہاری اخلاقی خرابیوں سے زیادہ ہیں، بلکہ یہ دیکھو کہ تمہاری اخلاقی خوبیاں اس سے کس قدر زیادہ ہیں اور یہی تمہاری کامیابی کا راز ہے۔
(۴۲) اگر تم یہ جاننا چاہو کہ اللہ کے ہاں تمہارا کیا مقام ہے تو دیکھو کہ اللہ کی مخلوق تمہیں کیسا سمجھتی ہے۔
(۴۳) جب حاکم بگڑ جاتا ہے تو رعایا بھی بگڑ جاتی ہے، سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب رعایا بگڑ جائے۔
(۴۴) مومن وہ ہے جو نہ کسی کو دھوکہ دے اور نہ دھوکہ کھائے۔
(۴۵) ہماری عزت و عظمت صرف اسلام کے صدقہ میں ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ سب تعریف اسلام کی ہو، ہماری نہیں۔
(۴۶) خلافت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب دیتے وقت بتایا جاسکے کہ کہاں سے لیا تھا اور کس کو دیا تھا، اگر یہ جواب اطمینان بخش ہے تو وہ خلافت ہے، ورنہ ملوکیت ہے۔
(۴۷) کسی کے ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ باہمی معاملات میں کھرا ثابت ہو، یہ نہیں دیکھتا کہ وہ نمازیں بہت پڑھتا ہے۔
(۴۸) بھوک کی حالت میں چوری کرنے والے کو سزا نہیں دینی چاہئے بلکہ اس کو سزا ملنی چاہئے جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچا۔
(۴۹) اگر کسی کی خاندانی وجاہت کے خیال سے قانون کا پلڑا اس حق میں جھک جائے تو پھر اللہ کی بادشاہت اور قیصر و کسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟
(۵۰) جب تک سربراہ مملکت پر وہی کچھ نہ گذرے جو رعایا پر گذرتی ہے تو اُسے ان کی تکالیف کا احساس کیسے ہوسکتا ہے۔
(۵۱) اللہ تعالیٰ حالات اور زمانے کے تقاضوں سے لوگوں کے لئے نئے نئے مسائل پیدا فرماتا ہے، اس لئے ان کے حل کے لئے جدید قوانین ضرورت ہوتی ہے۔
(۵۲) عمر کی رائے وحئی الٰہی نہیں بلکہ یہ ایک انسان کی رائے ہے، جو غلط بھی ہوسکتی ہے، اُسے سند اور سنت نہ بنا ڈالنا۔
(۵۲) حکومت کے منصب کے لئے وہ شخص سب سے موزوں ہے کہ جب وہ اس منصب پر فائز نہ ہو تو قوم کا سردار نظر آئے اور جب فائز ہو تو انہی میں کا ایک فرد نظر آئے۔
(۵۳) طاقتور خائن اور کمزور دیانت دار دونوں حکومت کے لئے نقصان رساں ہوتے ہیں۔
(۵۴) جس کے دل میں اپنی اولاد کے لئے محبت نہیں وہ رعایا کے لئے کس طرح شقیق ہوسکتا ہے؟
(۵۵) جو شخص خود کسی منصب کا خواہشمند ہو اُسے اس پر تعینات نہیں کرنا چاہئے۔
(۵۶) رعایا اس وقت تک اپنے حاکم کی اطاعت کرتی ہے جب تک وہ قوانین الٰہی کی اطاعت کرتا رہتا ہے اور جب وہ فسق و فجور میں پڑجاتا ہے تو رعایا اس سے بھی زیادہ فاسق و فاجر ہوجاتی ہے۔
(۵۷) ایک گورنر کو فرمان جاری فرمایا کہ تم اپنی رعایا کے لئے ایسے بن جاؤ کہ اگر تم رعیت ہوتے تو چاہتے کہ ہمارا امیر ایسا ہونا چاہئے۔
(۵۸) وہی حکومت درست رہ سکتی ہے جس میں نرمی ہو، لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اور سختی ہو لیکن استبداد کی بناء پر نہیں۔
(۵۹) گورنر کو فرمایا: ایسے بن کر رہو کہ امن پسند تم سے بے خوف ہو اور بدقماش خوف زدہ۔
(۶۰) جو شر پیدا کرکے غالب آیا وہ غالب نہیں مغلوب ہے، جو ناجائز طریقہ سے کامیاب ہوا وہ کامیاب نہیں ناکام ہے۔
(۶۱) جب تک اسلام میں حکومت کا زور ہے وہ ناقابلِ شکست رہے گا، لیکن حکومت کے زور کا مطلب تلوار نہیں، اس کا مطلب حق کے ساتھ فیصلہ اور انصاف کے ساتھ مواخذہ ہے۔
(۶۲) جو شخص مسلمانوں کا امیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ غلاموں کی طرح مخلص اور امین ہو۔
(۶۳) جھوٹا کھاؤ، گاڑھا پہنو، عجمیوں کی طرح تکلف نہ کرو۔
(۶۴) جس میں تکبر دیکھو سمجھ لو کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔
(۶۵) اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
(۶۶) جس حاکم کے محل کے دروازے عوام کے لئے بند ہوجائیں وہ قصر سعد نہیں بلکہ قصر فساد ہے۔
(۶۷) مرد کا حسب اس کا دین، نسب اس کی عقل اور مردانگی اس کا حسن خُلق ہے، نکاح کے رشتوں کے لئے یہ خوبیاں تلاش کرو۔
(۶۸) ازدواجی تعلقات میں تصوراتی معیار (Idealism) کام نہیں دیتا اس میں لچک رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
(۶۹) قبیح صورت اور کمینہ خصلت مردوں سے اپنی عورتوں کی شادیاں مت کرو۔
(۷۰) یاد رکھو! جو کچھ تم بیوی کے سلسلہ میں پسند کرتے ہو وہی کچھ عورتیں اپنے خاوندوں کے سلسلہ میں پسند کرتی ہیں۔
(۷۱) جب تمہاری اولاد بالغ ہوجائے تو ان کا نکاح کردیا کرو، خواہ مخواہ ان کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادو۔
(۷۲) کفر بدترین شئی ہے، اس کے بعد ایک تیز زبان اور بدخلق بیوی سے بدتر کوئی شئ نہیں، اسی طرح ایمان بہترین شئی ہے اس کے بعد ایک خوش خلق محبت کرنے والی بیوی سے بہتر کوئی شئی نہیں۔
(۷۳) زیب و زینت کے لباس عورتوں کے لئے رہنے دو، اپنی ہیئت عورتوں جیسی کبھی نہ بناؤ۔
(۷۴) کم مال اور کثرتِ عیال سب سے بڑی مصیبت ہے۔
(۷۵) جوانی کے زمانہ میں ہر ایسی بات سے بچو جو تمہاری بدنامی کا باعث ہو، تاکہ اگر تم بعد میں بڑے آدمی بن جاؤ تو تمہارا ماضی تمہارے لئے باعثِ ندامت نہ ہو۔
(۷۶) کسی کے اخلاق پر بھروسہ نہ کرو، جب تک تم اس کو غصہ کی حالت میں نہ آزمالو۔
(۷۷) انسان کی عجیب حالت ہے، اس کے بیل یا گدھے میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو اس کی اصلاح کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے، مگر اس کی ذات میں جو خرابی پیدا ہوجائے اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتا، یعنی یہ اپنے آپ کو بیل اور گدھے جتنی اہمیت بھی نہیں دیتا۔
(۷۸) ایک شخص نے آپؓ کی تعریف کی تو فرمایا: تو مجھے اور اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
(۷۹) اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو عمرؓ سے اس کی باز پرس ہوگی۔
(۸۰) اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر کھانا وہ ہے جو سب مل کر کھائیں
(۸۱) رعایا پر حکومت کے واجبات کی ادائیگی اس وقت لازم آتی ہے جب وہ حکومت کے رفاہ عامہ سے مستفید ہوجائے۔
(۸۲) اللہ نے مجھے اس کا ذمہ دار ٹہرایا ہے کہ میں تمہاری دعائیں اس تک نہ پہنچنے دوں، کیونکہ میں تمہاری فریاد سن کر تمہیں غمگین ہونے کا موقع ہی نہیں دیتا۔
(۸۳) حکومت کی اصلاح تین چیزوں سے ہوسکتی ہے:
(الف) امانات (ذمہ داریوں) کی ادائیگی۔
(ب) جرائم پر قوت کے ساتھ گرفت۔
(ج) قرآن حکیم کے مطابق فیصلے۔
(۸۴) ہم انہیں باتوں کا حکم دیں گے جن کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے اور انہیں روکیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔
(۸۵) جس نے اپنی مدد کے لئے ’’فلاں خاندان‘‘ کہہ کر آواز دی سمجھ لو کہ وہ شیطان کی آواز ہے، اسلام کے بعد قبائیلی اور خاندانی تفریقات ختم ہوجاتی ہیں۔
(۸۶) میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ زمانہ قریب آرہا ہے کہ قرآن کی قاری تو بہت ہوں گے مگر فقیہ بہت کم ہوں گے۔
(۸۷) لوگو! قرآن پڑھو! قرآنی علم بناء پر تم میں امتیاز کیا جائے گا، قرآن پر عمل کرو اور اس طرح اہل قرآن کہلاؤ۔
(۸۸) قیامت کے دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو، کیونکہ جب تم اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے تو تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں رہے گی۔
(۸۹) یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کسی قوم کو فتح عطا نہیں فرماتا جب تک ان کی نیتیں درست نہ ہوں۔
(۹۰) حقیقت تو یہ ہے کہ تم زمینوں کو تلوار سے فتح کرسکتے ہو مگر انسانی قلوب تلوار سے فتح نہیں کئے جاسکتے، اس کے لئے حسنِ اخلاق درکار ہے۔
(۹۱) جب بھی کبھی دو ایسے معاملات سامنے آئیں جن میں ایک اللہ کے لئے ہو اور دوسرا دنیا کے لئے تو دنیا سے متعلق حصہ پر اللہ سے متعلق حصہ کو ترجیح دو۔
(۹۲) اگر میں دن کو سوجاؤں تو رعایا کا نقصان ہے اور اگر رات کو سوجاؤں تو میری عبادت نہ کرنے کی وجہ سے میرا اپنا نقصان ہے۔
(۹۳) شبہ کی صورت میں سزا دینے کے مقابلہ میں سزا نہ دینا بہتر عمل ہے۔
(۹۴) غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرو بلکہ فیصلہ ملتوی کردو۔
(۹۵) یاد رکھو! قاتل مقتول کا وارث نہیں بن سکتا۔
(۹۶) لوگوں کے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ کو ہمیشہ محاسبہ کے لئے تیار رکھو۔
(۹۷) مجھے لوگوں کی تکالیف کا احساس کس طرح ہوسکتا ہے جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گذرے جو ان پر گذرتی ہے۔
(۹۸) قانون کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے، اس کے احکام، اصول اور قواعد سب غیر متبدل ہیں، ان میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا کسی کو حق یا اختیار نہیں۔
(۹۹) اللہ خائن کی قوت اور ثقہ انسان کے عجز سے بچائے۔
(۱۰۰) جب حاکمِ وقت انصاف کا تقاضا پورا کرنے میں بد دل ہوجائے تو وہ منصبِ حکومت کے قابل ہی نہیں رہتا۔
(اقوال کاخزانہ)
۱۔جو شخص اپنا راز چھپاتا ہے وہ اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔
۲۔جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔
۳۔آج کاکام کل پر اٹھا نہ رکھو۔
۴۔روپے،سراونچاکئے بغیر نہیں رہتے جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھی۔
۵۔جو شخص بُرائی سے بالکل واقف نہیں،وہ برائی میں مبتلا ہوگا۔
۶۔جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو مجھ کو اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
۷۔لوگوں کی فکر میں تم اپنے نفس سے غافل نہ ہو جاؤ۔
۸۔دنیا تھوڑی سی لوتو آزادانہ بسر کرسکو گے۔
۹۔توبہ کی تکلیف سے گناہ کا چھوڑدینا زیادہ آسان ہے۔
۱۰۔ہر بددیانت پر میرے دوداروغے متعین ہیں،آب وگل۔
۱۱۔اگرصبروشکر دو سواریاں ہوتیں تو میں اس کی نہ پرواہ کرتا کہ دونوں میں سے کس پر سوار ہوں۔
۱۲۔خدا اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب میرے پاس تحفے میں بھیجتا ہے۔(یعنی مجھ پر میرے عیب ظاہر کرتا ہے)
۱۳۔سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اپنے افعال کی اچھی تاویل کرسکتا ہو۔
(الفاروق از علامہ شبلی نعمانی:۴۵۱،۴۵۵)

۱۴۔سردار بننے سے پہلے دینی سمجھ حاصل کرلو۔
(سنن الدارمی،المقدمۃ،باب فی ذھاب العلم،رقم الحدیث:۲۵۲)

۱۵۔جس طرح تم قرآن سیکھتے ہو اسی طرح علم میراث، عربی زبان اورسنتوں کو بھی سیکھو۔
(سنن الدارمی،کتاب الفرائض،باب فی تعلیم الفرائض،رقم الحدیث:۲۷۲۶)

۱۶۔علم کو لکھ کر محفوظ کرلو۔
(سنن الدارمی،المقدمۃ،باب من رخص فی کتابۃ العلم،رقم الحدیث:۴۹۸)

۱۷۔کسی بندےنے غصے کے گھونٹ سے زیادہ شیریں گھونٹ دودھ یا شہد کا کبھی نہیں پیا۔
۱۸۔معد بن عدنان کی ہیئت اختیار کرو یعنی عجم کا لباس اوران کی ہیئت اختیار نہ کرو اورشدائد پر صبر کرو اورموٹا پہنو یعنی خوش پروری میں نہ پڑو۔
(سیرۃ المصطفیٰ للکاندھلوی:۱/۷۰)

۱۹۔پیٹ بھر کر کھانے سے بچو ؛کیونکہ یہ زندگی میں بھاری پن کا سبب ہے اور مرنے کے وقت گندگی اور عفونت ہے۔
۲۰۔جو چیز تمہیں تکلیف دیتی ہے اس سے تم کنارہ کشی اختیار کرلو۔
۲۱۔نیک آدمی کو دوست بناؤ؛ لیکن ایسا آدمی مشکل سے ملے گا۔
۲۲۔اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لوجو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۴)

۲۳۔جوزیادہ ہنستا ہے اس کا رعب کم ہوجاتا ہے۔
۲۴۔جو مذاق زیادہ کرتا ہے لوگوں کی نگاہ میں وہ بے حیثیت ہوجاتا ہے۔
۲۵۔جو کسی کام کو زیادہ کرتا ہے وہ اسی کام کے ساتھ مشہور ہوجاتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۶)

۲۶۔بہت زیادہ کھانے سے بچو؛ کیونکہ زیادہ کھانے سےجسم خراب ہوجاتا ہے اور اس سے کئی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور نماز میں سستی آجاتی ہے ،لہذا کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو ؛کیونکہ میانہ روی سے جسم زیادہ ٹھیک رہتا ہے اور اسراف سے انسان زیادہ دور رہتا ہے۔
۲۷۔عمل میں قوت اورپختگی اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ تم آج کا کام کل پر نہ چھوڑو ؛کیونکہ جب تم ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام جمع ہوجائیں گے پھر تمہیں پتہ نہیں چلے گا کہ کونسا کام کرو اورکونسا نہ کرو اوریوں بہت سارے کام رہ جائیں۔
۲۸۔اگر تمہیں دوکاموں میں اختیار دیا جائے جن میں سے ایک کام دنیا کا ہو اوردوسرا آخرت کا تو آخرت والے کام کو دنیا والے کام پر ترجیح دو؛کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۱۶۹،کنز العمال:۸/۲۰۹)

۲۹۔جو لوگوں کے ساتھ انصاف کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی جان پر جو مشقت جھیلنی پڑے اسے جھیلتا ہے،اسے اپنے تمام کاموں میں کامیابی ملےگی۔
۳۰۔اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی وجہ سے ذلت اٹھانا نافرمانی کی عزت کی بہ نسبت نیکی کے زیادہ قریب ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۷،کنزالعمال:۸/۲۳۵)

۳۱۔حکمت ودانائی عمر بڑی ہونے سے حاصل نہیں ہوتی؛بلکہ یہ تو اللہ کی دین ہے جسے اللہ چاہتے ہیں عطا فرمادیتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۷،کنز العمال:۸/۲۳۵)

۳۲۔مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میری صبح کس حالت پر ہوتی ہے،میر ی پسندیدہ حالت پر یاناپسندیدہ حالت پر؛کیونکہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ جو میں پسند کررہا ہوں اس میں خیر ہے یا جو مجھے پسند نہیں اس میں خیر ہے۔
(کنز العمال:۲/۱۴۵)

۳۳۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ لالچ فقر کی نشانی ہے اورناامیدی سے انسان غنی ہوجاتا ہے،آدمی جب کسی چیز سے نا امید ہوجاتا ہے تو آدمی کو اس کی ضرورت نہیں رہتی۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۹۱)

۳۴۔جب بندہ اللہ تعالی کی وجہ سے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی قدر ومنزلت بڑھادیتے ہیں اور فرماتےہیں ‘‘بلند ہوجا اللہ تجھے بلند کرے’’یہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے لیکن لوگوں کی نگاہ میں بڑا ہوتا ہے۔
۳۵۔جب بندہ تکبر کرتا ہے اور اپنی حد سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالی اسے توڑکر نیچے زمین پر گرادیتے ہیں اور فرماتے ہیں دور ہوجا اللہ تجھے دور کرے اور یہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے ؛لیکن لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کے نزدیک سورسے بھی زیادہ حقیر ہوجاتا ہے۔
(کنزالعمال:۲/۱۴۳)

۳۶۔ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے،اللہ تعالی نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت عطافرمائی،اب جس اسلام کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اورچیز سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالی ہمیں ذلیل کردیں گے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۷۳۶)

۳۷۔تین باتوں سے اسلام منہدم ہوتا ہے:
۱۔عالم کی لغزش
۲۔منافق جو کتاب اللہ کے ذریعہ جھگڑا قائم کرے
۳۔گمراہ حکام کے فیصلے
(السنن للدارمی،المقدمۃ،باب فی کراھیۃ اخذالرائ،رقم الحدیث:۲۱۶، ۱/۷۳۶)

حضرت سعید بن مسیب ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کے لئے اٹھارہ باتیں مقرر کیں جو سب کی سب حکمت ودانائی کی باتیں تھیں۔
انہوں نے فرمایا:
۱۔جوتمہارے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے تم اسے اس جیسی اورکوئی سزا نہیں دے سکتے کہ تم اس کے بارے میں اللہ کی اطاعت کرو۔
۲۔اپنے بھائی کی بات کو کسی اچھے رخ کی طرف لے جانے کی پوری کوشش کرو،ہاں اگر وہ بات ہی ایسی ہو کہ اسے اچھے رخ کی طرف لے جانے کی تم کوئی صورت نہ بناسکو تو اوربات ہے۔
۳۔مسلمان کی زبان سے جو بول بھی نکلا ہے اور تم اس کا کوئی بھی خیر کا مطلب نکال سکتے ہو تو اس سے برے مطلب کا گمان مت کرو۔
۴۔جو آدمی خود ایسے کام کرتا ہے جس سے دوسروں کو بد گمانی کا موقع ملے تو وہ اپنے سے بد گمانی کرنے والے کو ہرگز ملامت نہ کرے۔
۵۔جواپنے راز کو چھپائے گا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
۶۔سچے بھائیوں کے ساتھ رہنے کو لازم پکڑو،ان کے سایہ خیر میں زندگی گزارو؛کیونکہ وسعت اوراچھے حالات میں وہ لوگ تمہارے لئے زینت کا ذریعہ اورمصیبت میں حفاظت کا سامان ہوں گے۔
۷۔ہمیشہ سچ بولو،چاہے سچ بولنے سے جان ہی چلی جائے۔
۸۔بے فائدہ اوربیکار کاموں میں نہ لگو۔
۹۔جو بات ابھی پیش نہیں آئی اس کے بارے میں مت پوچھو؛ کیونکہ جو پیش آچکا ہے اس کے تقاضوں سے ہی کہاں فرصت مل سکتی ہے۔
۱۰۔اپنی حاجت اس کے پاس نہ لے جاؤ جو یہ نہیں چاہتا کہ تم اس میں کامیاب ہو جاؤ۔
۱۱۔جھوٹی قسم کو ہلکانہ سمجھو ورنہ اللہ تعالی تمہیں ہلاک کردیں گے۔
۱۲۔بدکاروں کے ساتھ نہ رہو ورنہ تم ان سے بدکاری سیکھ لو گے۔
۱۳۔اپنے دشمن سے الگ رہو۔
۱۴۔اپنے دوست سے بھی چوکنے رہو؛لیکن اگر وہ امانتدار ہے تو پھر اس کی ضرورت نہیں اورامانتدار صرف وہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو۔
۱۵۔قبرستان میں جاکر خشوع اختیار کرو۔
۱۶۔جب اللہ کی فرمانبرداری کا کام کرو تو عاجزی اورتواضع اختیار کرو۔
۱۷۔جب اللہ کی نافرمانی ہوجائے تو اللہ کی پناہ چاہو۔
۱۸۔اپنے تمام امور میں ان لوگوں سے مشورہ کیا کرو جو اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں ؛کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
‘‘إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ”
(فاطر:۲۸)

‘‘خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں’’
(کنز العمال:۸/۱۳۵،حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۵)

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ‘‘اس امر خلافت کا ذمہ دار اس شخص کو ہی بننا چاہیے جس میں یہ چار خوبیاں پائی جاتی ہوں:
۱۔نرمی ہو لیکن کمزوری نہ ہو۔
۲۔مضبوطی ہولیکن درشتی نہ ہو۔
۳۔احتیاط سے خرچ کرتا ہو لیکن کنجوس نہ ہو۔
۴۔سخی ہو ؛لیکن فضول خرچ نہ ہو۔
اگر اس میں سے ان میں ایک خوبی بھی نہ ہوئی تو باقی تینوں خوبیاں بیکار ہوجائیں گی۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۵۷)

(۱)دنیا کی عزت مال میں ہے اور آخرت کی عزت اعمال ِ صالحہ میں ہے۔
(۲)لوگوں سے اچھی طرح برتاؤ کرنا آدھی عقل ہے ، بات کو اچھی طرح پیش کرنا آدھا علم ہے ، اور حسنِ تدبیر نصفِ معیشت ہے ۔
(۳)سب سے عمدہ دولت زبان کی حفاظت ہے ، سب سے عمدہ لباس تقویٰ ہے ، سب سے عمدہ مال قناعت ہے ، سب سے عمدہ نیکی مسلمان کی خیر خواہی ہے اور سب سے مزہ دار کھانا صبر ہے ۔
(۴)جو شخص زیادہ ہنستا ہے اس کا دبدبہ کم ہوجاتا ہے ، جو لوگوں کی تذلیل کرتا ہے خود ذلیل ہوتاہے ، جس چیزکی کثرت کرتا ہے اسی کے ساتھ موسوم ہوجاتا ہے ، جو بہت بولنے کا عادی ہو اس سے غلطیاں بہت ہوتی ہیں ، جو بہت غلطیاں کرے اس کی شرم گھٹ جاتی ہے ، جس کی حیاء کم ہوجاتی ہے اس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کا دل مر جاتا ہے ۔
(۵)جو لا یعنی کو ترک کیا وہ حکمت سے نوازا جاتا ہے ، جو شخص بےجا نظر کو ترک کیا وہ خشوعِ قلب کی دولت سےسرفراز کیا جاتا ہے ، جو زیادہ کھانے سے پرہیز کرتا ہے اسے عبادت کی لذّت حاصل ہوتی ہے ، جو بےجا مذاق کو چھوڑ دیتا ہے اسے نورِ باطن عطا کیا جاتا ہے ، جو حبِ ِ دنیا کو ترک کرتا ہے اسے حبِ ِآخرت ملتی ہے ، جو دوسروں کی عیب گیری سے بچتا ہے اسے اپنے عیبوں کے اصلاح کی توفیق ملتی ہے ، اور جو اللہ کی ذات میں غور و خوض کو چھوڑ دیتا ہے وہ نفاق سے بری ہوجاتا ہے ۔
(۶)عقل بغیر تقویٰ کے درست نہیں رہتی ، بزرگی بغیر علم کے قائم نہیں رہتی ، نجات بغیر خشیتِ الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی ، سلطنت بغیر انصاف کے قائم نہیں رہتی ، شرافت بغیر ادب کے معتبر نہیں ہوتی ، خوشی بغیر امن کے حاصل نہیں ہوتی ، مالداری بغیر سخاوت کے اچھی نہیں ہوتی ، فقر و فاقہ بغیر قناعت کے بھلا نہیں ہوتا ، بلندئ شان بغیر تواضع کے اچھی نہیں لگتی ، اور جہاد بغیر تیاری کے صحیح نہیں ہوتا ۔
(۷)میں اس امت پر سب سے زیادہ اس عالم سے خائف ہوں جو زبان کا عالم ہو مگر دل کا جاہل ۔
(۸)کسب کو چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھو ، اور بغیر سبب اختیار کئےیہ مت کہو کہ اے اللہ مجھے رزق دے کیونکہ یہ خلافِ سنت ہے؛ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ آسمان سونا چاندی نہیں برساتا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خشکی اور دریا میں تجارت کیا کرتے تھے ، لہٰذا ان کی اقتداء انسب ہے ۔
(۹)جو لوگ دنیا جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے پاس مت جاؤ کیونکہ یہ سب اللہ جلّ و علیٰ کو ناراض کرنے والے ہیں ؛ اور بسا اوقات تم ان کے اسباب کو دیکھ کر اپنے انعامات کو حقیر جاننے لگو تو ناشکری میں مبتلا ہوجاؤگے ۔
(۱۰)سب سے زیادہ اہتمام کے قابل میرے نزدیک نمازہے جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا ، اور جس نے نماز کو ضائع کردیا تو وہ بدرجہ اولیٰ ضائع کردےگا ۔
(۱۱)سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ فرائض کو ادا کرے اور منہیات سے بچے اور اپنی نیت خدا کے ساتھ درست رکھے ۔
مدتِ خلافت:۔ ۲۴ھ۔تا۔۳۵ھ
سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بہت بلند مرتبہ صاحب کردار خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ شرم و حیاء کا مکمل پیکر تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں تھیں، جس کی بناء پر آپ کا لقب ’’ذو النورین‘‘ ہوا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ کے متمول ترین شخصیات میں شمار کئے جاتے تھے، آپ کا ذریعۂ معاش تجارت تھا، غلاموں پر بہت مہربانی فرماتے، ان سے حاصل شدہ منافع سے ان کو ان کے مالکوں سے آزاد کرالیتے، یہ ایام جاہلیت کی بات ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد تمام تر دولت و ثروت کے ساتھ بذاتِ خود دین اسلام کے لئے سرگرم ہوگئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دون صاحبزادیاں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا یکے بعد دیگرے آپ کی زوجیت میں آئیں، آپؓ نے دو ہجرتیں فرمائیں، آپؓ کی سخاوت اور امانت کو سبھی مانتے ہیں، اہل مدینہ کو پانی از حد پریشانی تھی، مگر ایک ہی کنواں اس وقت موجود تھا، جس کا مالک ایک یہودی تھا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کو خرید کر مسلمانوں کے حوالے کردیا، مگر صد افسوس کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو محاصرہ کے دوران اس کنویں سے پانی نہ مل سکا، حالانکہ مدینہ شریف میں بڑے بڑے نامی گرامی فرزندانِ اسلام موجود تھے اور ان کی موجودگی میں حضرت عثمان غنیؓ کو بڑی سنگدلی سے شہید کردیا گیا اور تین دن تک آپ کی نعش بے گور و کفن پڑی رہی اور پھر حضرت علیؓ سے اجازت لے کر بغیر غسل اور کفن کے ہی دفن کردیا گیا، امت مسلمہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد کسی ایک جگہ اور کسی ایک معاملہ پر کبھی متحد نہ ہوسکی۔
اسلام کا بہت بڑا کارنامہ جمع و ترتیب قرآن مجید بھی آپ ہی نے انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے، موجودہ نسخہ نسخۂ عثمانی ہی ہے۔
آپ کے جامع فرمودات ملاحظہ فرمائیں:
(۱) جب کوئی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے تو اس کے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔
(۲) واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ رعایا کی دیکھ بھال کریں اور اس بات کی تاکید نہیں فرمائی کہ رعایا سے ٹیکس وصول کریں۔
(۳) ایمانداری اور ایفائے عہد کی پاسداری کے ذریعہ قلوب انسانی فتح کئے جاسکتے ہیں۔
(۴) امانت اور دیانت کے ساتھ ضروری ہے کہ آپ اپنے عہد و پیمان پر قائم رہیں۔
(۵) آپ کی سیرت میں برائیوں کی جھلک بھی نظر نہیں آنا چاہئے۔
(۶) سب کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ اور سب کے رتبہ کا خیال رکھو، کیونکہ رتبہ کی پاسداری ہی انصاف ہے۔
(۷) نہ تو خرچ کرنے سے بالکل ہاتھ روک لو اور نہ اتنی فراخدلی سے خرچ کرو کہ باقی کچھ نہ بچے۔
(۸) کینہ اور حسد مومن کو منافق بنادیتا ہے۔
(۹) مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔
(۱۰) شریفوں کے لئے گھٹیا اور ادنیٰ لوگوں سے نمٹنا اور عہدہ برآ ہونا بہ حد مشکل ہوتا ہے۔
(۱۱) بعض اوقات جرم سے چشم پوشی مجرم کو بہت خطرناک بنادیتی ہے۔
(۱۲) کلام اللہ شریف ایک ہے اور ایک ہی ذاتِ اقدس کی طرف سے آیا ہے۔
(۱۳) آہستہ بولنا، نیچی نگاہ رکھنا، درمیانی چال چلنا، اہل ایمان کی علامت ہے۔
(۱۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔
(۱۵) تنگ دستی پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ فراخی عطا فرماتا ہے۔
(۱۶) اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا اس لئے دی ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ آخرت کا آرام طلب کرو۔
(۱۷) اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کا نام ہی بزرگی ہے۔
(۱۸) تلوار کا وار جسم کو زخمی کرتا ہے اور بری بات روح کو گھائل کرتی ہے۔
(۱۹) خاموشی غصہ کا بہترین علاج ہے۔
(۲۰) حق پرست اگرچہ تعداد میں کم ہوتے ہیں مگر ان کا رتبہ زیادہ ہوتا ہے۔
(۲۱) گناہ کسی نہ کسی صورت دل کو بے چین رکھتا ہے۔
(۲۲) غلط جگہ پر مال و دولت خرچ کرنا کفرانِ نعمت ہے۔
(۲۳) اپنا بوجھ دوسروں پر مت ڈالو چاہے کم ہو یا زیادہ۔
(۲۴) اللہ نے انسانوں کو اپنے لئے بنایا، چنانچہ انسانوں کو چاہئے کہ دوسرے کا نہ بنے۔
(۲۵) جو شخص تمہاری نگاہوں سے تمہاری ضرورت کو سمجھ نہیں سکتا اس کو مددگار کہنا اور اس سے امید رکھنا خود کو شرمسار کرنے کے برابر ہے۔
(۲۶) اللہ کے سوائے کسی سے امید رکھنا شرک ہے۔
(۲۷) پر خوری بھی ایک طرح کی بیمار ہے۔
(۲۸) جس نے انسانوں کا حق نہیں پہچانا اس نے اللہ کا حق نہیں پہچانا۔
(۲۹) حقیر سے حقیر پیشہ بھی بھیک مانگنے سے افضل ہے۔
(۳۰) اللہ تعالیٰ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ محسوس کرنا افضل ترین ایمان ہے۔
(۳۱) حیرت ہے کہ تم اللہ پر ایمان بھی رکھو اور دوسروں سے بھی مانگو!
(۳۲) زندگی کا ایک نصب العین متعین کرول اور پھر بھرپور قوت و توانائی سے سرگرم عمل ہوجاؤ، یقیناً کامیاب و کامران ہوگے۔
(۳۳) تعجب ہے اس پر جو دنیا کو فانی جانے اور محبت بھی اُسی سے کرے۔
(۳۴) حیرت اور افسوس ہے اس پر جو دوزخ پر ایمان بھی رکھے اور گناہ سے تائب نہ ہو۔
(۳۵) زبان درست ہو تو دل بھی درست ہوتا ہے۔
(۳۶) عقل مند آدمی وہ ہے جو وقت پر کام سر انجام دیتا ہے۔
(۳۷) سخاوت پھل ہے مال کا، عمل پھل ہے علم کا اور رضائے الٰہی پھل ہے اخلاص کا۔
(۳۸) دنیا کی پہچان رکھنے والا اس سے نفرت کرتا ہے۔
(۳۹) ہر وہ کام اچھا ہے جس سے آخرت کی بھلائی مقصود ہو۔
(۴۰) ظالموں اور فاسقوں سے دوستی نہ رکھو۔
(۴۱) وہ انسان بہت گناہگار ہے جس کو لوگوں کی برائی ہی کے لئے وقت ملے۔
(۴۲) آنکھیں کھلی اور روشن ہوں تو ہر روز روزِ محشر ہے۔
(۴۳) علماء کی مالداروں سے دوستی یقیناً ریاکاری ہے۔
(۴۴) تم نیکی ہی کا راستہ اختیار کرو اگرچہ مشکلات ہی درپیش ہوں۔
(۴۵) وہی مومن ہے جس کو یادِ الٰہی سے فرحت ملے۔
(۴۶) محب اللہ کو تنہائی پسند ہوتی ہے۔
(۴۷) لوگ تمہارے عیبوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
(۴۸) جس نے کسی کی غیبت سنی گویا اسی نے غیبت کی۔
(۴۹) قضاء پر رضاء دنیا کی جنت ہے۔
(۵۰) غریبوں اور مسکینوں کا تمہارے دراوزے پر آنا انعامِ الٰہی ہے۔
(۵۱) دوسروں کو صدقہ کی طرف راغب کرنے کے لئے سر عام صدہ دینا چپکے سے دینے سے بہتر ہے۔
(۵۲) بد زبان آدمی اپنی بدزبانی سے اپنا نقصان کرتا ہے اور اس کا نقصان کرتا ہے جس کی برائی کرتا ہے۔
(۵۳) اچھے کھانوں کے شوقینو! سن لو آخر کار تم کو قبر کے کیڑے ہی کھائیں گے۔
(۵۴) مرنے والوں کے انجام سے عبرت حاصل کرو۔
(۵۵) دوسروں کے بوجھ کو اپنا سمجھنا عبادت گذروں کی عبادت سے بہتر ہے۔
(۵۶) مسلمانو! تمہاری ذلت کا اصل سبب دین سے بے رغبتی ہے ناکہ مفلسی۔
(۵۷) حیرت ہے کہ جانور تو اپنے مالک کو پہچانے مگر انسان اپنے مالک کو نہ پہچانے۔
(۵۸) مسلمانو! تم جب اپنے دین سے غافل ہوجاؤگے تو ذلیل و خوار ہوجاؤگے۔
(۵۹) حد سے زیادہ تکلف آپس میں نفرت ڈال دیتی ہے۔
(۶۰) مدینہ الرسولؐ کی جس قدرت عزت کرو کم ہے۔
(۶۱) قرآن و سنت کی اتباع کرنے والا مومن ہے، نہ کرنے والا منافق۔
(۶۲) فانی چیزوں کو ترک کرکے ابدی خوشی حاصل کرو۔
(۶۳) میں تاریک گھروں میں غسل کرنے کے باوجود اللہ سے شرم کی وجہ سے ڈرتا رہتا ہوں۔
(۶۴) پرہیزگار وہ ہے جو خود کو گناہگار اور دوسروں کو پاک خیال کرے۔
(۶۵) زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ نقصاندہ ہے۔
(۶۶) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے صحیح طریقہ سے پورے کرنے سے جنت کی امید کرسکتے ہو۔
(۶۷) بے شک دنیا ایک دکھاوا اور مومن کی آزمائش ہے۔
(۶۸) غریب آدمی کا صدقہ امیر آدمی کے صدقہ سے ہزار گنا بڑھ کر ہے۔
(۶۹) آسودہ حالی کے باوجود مال و دولت کی طلب کفرانِ نعمت ہے۔
(۷۰) ملامت خلق کا شکوہ نہ کرو کہ ذاتِ حق بھی زبانِ خلق سے محفوظ و سلامت نہیں۔
(۷۱) بات شروع کرنے سے پہلے تأمل کرلینا اس سے بہتر ہے کہ کرنے کے بعد اُسے موقوف کیا جائے۔
(۷۲) بے نفس وہ ہے جو اپنی مذمت اور دوسروں کی تعریف سے خوش ہو۔
(۷۳) جاہل وہ ہے جو اپنی خطا پر نادم نہ ہو اور کبھی اپنا قصور تسلیم نہ کرے۔
(۷۴) اس شخص کی زندگی بے معنی ہے جس سے دنیا میں کوئی کام اچھا سرزد نہ ہوا ہو۔
(۷۵) اگر یہ منظور ہو کہ اپنے راز سے دشمن بھی واقف نہ ہونے پائے تو اس راز کو اپنے دوست سے بھی خفیہ رکھو۔
(۷۶) جو شخص دین کی پرواہ نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بے لگام گھوڑا۔
(۷۷) تمہارا بھائی وہ ہے کہ تمہارا نفس اس پر بھروسہ رکھے اور تمہارے دل کو اس سے آرام رہے، اور جو تمہیں یادِ الٰہی سے غافل کردے۔
(۷۸) مومن کا سب سے بڑا دشمن فعلِ بد ہے اور سب سے بڑا خیر خواہ نیک عمل ہے۔
(۷۹) عذاب کی تلخی گناہ کی شیرینی کو بھلادیتی ہے۔
(۸۰) جب تم تنہائی میں ہو تو اپنے خیالات کو قابو میں رکھو اور جب کسی محفل میں ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
(۸۱) جس شخص میں عہدہ کی قابلیت موجود نہ ہو اُسے کوئی ذمہ داری نہ دو۔
(۸۲) دنیا میں چار چیزیں وبالِ جان ہیں: (۱)کثرتِ عیال، (۲) مال کی کمی، (۳)بُرا پڑوسی، (۴)خائنہ بیوی۔
(۸۳) تین کام افضل تر ہیں: ۱۔فاسق و فاجر کو راہ راست پر لانا، ۲۔تعلیم و تربیت سے جاہل کو عالم بنانا، ۳۔ دشمن کو دوست بنانا۔
(۸۴) بہادر کا امتحان میدانِ جنگ میں، دوست کا امتحان ضرورت کے وقت اور عقلمند کا امتحان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
(۸۵) انسان اپنی مصیبت کو اس وقت آرام سے سہہ لیتا ہے جب وہ اپنے دشمنوں کو اپنے سے بدتر حال ت میں دیکھتا ہے۔
(۸۶) جو کام تم خود کرسکتے ہو اس کو دوسروں پر مت چھوڑو اور جو کام تم آج کرسکتے ہو اُسے کل پر مت ڈالو۔
(۸۷) ہمارا امیر ہونا اور غریب ہونا ہماری روح پر منحصر ہے۔
(۸۸) انسان اپنے برے افعال کو انجام دینے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
(۸۹) ظالم کی مدد کرنا بجائے ترک تعلق کے اسی کے ساتھ نیکی کرنا خلق خدا کا خون اپنی گردن پر لینا ہے۔
(۹۰) ضرورت سب چیزوں پر غالب آجاتی ہے۔
(۹۱) اس دنیا میں خود کو پہچاننا مشکل ترین کام ہے۔
(۹۲) عقلمند کے سامنے زبان کو، حاکم کے ساتھ آنکھ کو اور بزرگوں کے سامنے دل کو قابو میں رکھنا چاہئے۔
(۹۳) انسان کو اپنے نسب پر فخر نہ کرنا چاہئے بلکہ کسب و حسب کو دیکھنا چاہئے۔
(۹۴) دنیا میں کامیاب ہونا، اپنی قوت، اپنے حوصلے اور اپنی روحانی طاقت پر ہی منحصر ہے۔
(۹۵) جس نے خاموشی اختیار کی اس نے گویا زندگی بڑھائی۔
(۹۶) جو بات تمہارے دل میں پیدا ہو اس کو پہلے ہی درست نہ سمجھو بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرو۔
(۹۷) متقی لوگ ریاضت کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہی صابر ہوتے ہیں۔
(۹۸) محنتی اور جفا کش کی نیند خواہ وہ کم کھائے یا زیادہ، میٹھی ہوتی ہے، مگر مال کی زیادتی صاحب مال کو آرام سے سونے نہیں دیتی۔
(۹۹) خوشی سے انسان کے چہرے پر نور برستا ہے اور رنجیدہ بات سے بگڑ جاتا ہے۔
(۱۰۰) نوجوانی کی بے وقوفیاں بڑھاپے میں توبہ کے لئے خوراک بنتی ہیں۔
۱۔دل کا غنا آدمی کو غنی بنادیتا ہے؛ حتی کہ اسے بڑے مرتبے والا بنادیتا ہے،اگرچہ یہ غنا اسے اتنا نقصان پہنچائے کہ فقراُ سے ستانے لگے۔
۲۔اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو تم اس پر صبر کرو ؛کیونکہ ہر مشکل کے بعد آسانی ضرورآتی ہے۔
۳۔جوزمانہ کی سختیاں برداشت نہیں کرتا اسے کبھی غم خواری کے مزے کا پتہ نہیں چل سکتا،زمانے کے حوادث پر ہی اللہ تعالی نے سب کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ:۲/۱۳۳)

۴۔اگر ہمارے دل پاک ہوتے تو ہم اپنے رب کے کلام سے کبھی سیر نہ ہوتے اورمجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری زندگی میں کوئی دن ایسا آئے جس میں،میں دیکھ کر قرآن نہ پڑھوں۔
۵۔دنیا سرسبز وشاداب ہے اورتمام لوگوں کے دلوں میں اس کی رغبت رکھ دی گئی ہے اوربہت لوگ اس کی طرف مائل ہوچکے ہیں، لہذا تم دنیا کی طرف مت جھکو اور اس پر بھروسہ نہ کرو یہ بھروسے کے قابل نہیں اوریہ اچھی طرح سمجھ لوکہ یہ دنیا صرف اسے چھوڑتی ہے جو اسے چھوڑدے۔
(تاریخ الطبری:۳/۴۶)

۶۔اے ابن آدم!جان لوکہ اگر تم اپنے بارے میں غفلت میں پڑ گئے اور تم نے موت کی تیاری نہ کی تو تمہارے لئے کوئی اورتیار نہیں کرے گا اور اللہ تعالی سے ملاقات ضرور ہونی ہے، اس لئے اپنے لئے نیک اعمال لے لو اوریہ کام دوسروں پر نہ چھوڑو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۹۵)

۷۔یقین رکھو کہ جس کے ساتھ اللہ ہوگا وہ کسی چیز سے نہیں ڈرے گا اور اللہ جس کے خلاف ہوگا وہ اللہ کے علاوہ اور کسی سے مدد کی کیا امید کرسکتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۸۵)

۸۔چھوٹی عمر کے غلام کو کما کر لانے کا مکلف نہ بناؤ ؛کیونکہ اگر تم اسے کمانے کا مکلف بناؤ گے تو وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کما نہیں سکے گا اس لئے چوری شروع کردے گا،ایسے ہی جو باندی کوئی کام یا ہنر نہ جانتی ہو اسے بھی کما کر لانے کا مکلف نہ بناؤ ؛کیونکہ اگر تم اسے کما کر لانے کا مکلف بناؤ گے تو اسے کوئی کام اورہنر تو آتا نہیں اس لئے وہ اپنی شرم گاہ کے ذریعہ یعنی زنا کے ذریعہ کمانے لگ جائے گی۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۹۶)

۹۔ضائع ہے وہ عالم جس سے علم کی بات نہ پوچھیں ،وہ ہتھیار جس کو استعمال نہ کیا جائے ،وہ مال جو کار خیر میں خرچ نہ کیا جائے،وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے،وہ مسجد جس میں نماز نہ پڑھی جائے،وہ نماز جو مسجد میں نہ پڑھی جائے،وہ اچھی رائے جس کو قبول نہ کیا جائے،وہ مصحف جس کی تلاوت نہ کی جائے،وہ زاہد جو خواہش دنیا دل میں رکھے،وہ لمبی عمر جس میں آخرت کا توشہ نہ لیا جائے۔
۱۰۔بعض اوقات جرم معاف کرنا مجرم کو زیادہ خطرناک بنادیتا ہے۔
۱۱۔دنیا ہر وہ کام ہے جس سے آخرت مقصود نہ ہو۔
۱۲۔زبان کی لغزش پاؤں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے۔
۱۳۔اگر تو گناہ پر آمادہ ہے تو کوئی ایسا مقام تلاش کر جہاں اللہ تعالی نہ ہو۔
۱۴۔ترغیب دلانے کی نیت سے علانیہ صدقہ دینا خفیہ سے بہتر ہے۔
۱۵۔امراء کی تعریف کرنے سے بچ کہ ظالم کی تعریف سے غضب الہی نازل ہوتا ہے۔
۱۶۔تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اوربرے گفتار کا روح پر۔
(مخزنِ اخلاق:۸۳،۸۴)

(۱)دنیا کی فکر دل کا اندھیرا ہے اور آخرت کی فکر دل کی روشنی ہے ۔
(۲)جو شخص دنیا کو چھوڑ دیتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں ، جو شخص گناہوں کو ترک کردیتا ہے اس سے فرشتے محبت کرتے ہیں ، اور جو بندوں سے لالچ و طمع کو اٹھا لیتا ہے بندے اس سےمحبت کرتے ہیں ۔
(۳)فرمایا کہ میں نے عبادت کا مزہ چار چیزوں میں پایا :اللہ کے فرضوں کو ادا کرنے میں ، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنے میں ، ثواب کی امید پر اچھی باتوں کے پھیلانے میں ، اور عذابِِ الٰہی سے بچنے کی نیت سے لوگوں کو برائیوں سے روکنے میں ۔
(۴)چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا ظاہر فضیلت ہے اور ان کا باطن فریضئہ خداوندی ہے : صالحین کی صحبت فضیلت ہے اور ان کی اتباع کرنا فرض ہے ، قرآن کی تلاوت فضیلت ہے اور اس پر عمل کرنا فرض ہے ، قبروں کی زیارت فضیلت ہے اور اس کی تیاری کرتے رہنا فرض ہے ، اور مریض کی عیادت فضیلت ہے اور اس کی وصیت پوری کرنا فرض ہے ۔
(۵)مجھے تعجّب ہے! اس شخص پر جو موت کی حقیقت جانتا ہے پھر بھی ہنستا ہے ۔
تعجّب ہے! اس شخص پر جو دنیا کی حقیقت سے واقف ہو کہ وہ فانی ہے پھر بھی اس سے رغبت کرتا ہے ۔ تعجّب ہے! اس شخص پر جو جانتا ہے کہ سب معاملات تقدیر سے متعلق ہیں پھر بھی کسی نعمت کے فوت ہونے پر غمگین رہتا ہے ۔
تعجّب ہے! اس شخص پر جو حساب کی سختی کو جانتا ہے پھر بھی مال جمع کرکے رکھتا ہے۔
تعجّب ہے ! اس شخص پر جو دوزخ کے بارے میں علم رکھتا ہے پھر بھی گناہ پر جرأت کرتا ہے ۔
تعجّب ہے ! اس شخص پر جو اللہ پاک کی ذات پر یقین رکھتا ہے پھر بھی اس کے غیر کے ذکر میں رہتا ہے ۔ تعجّب ہے! اس شخص پر جو شیطان کو بالیقین اپنا دشمن سمجھتا ہے پھر بھی اس کا کہا مانتا ہے ۔
(۶)عارفِ کامل کی آٹھ صفات ہیں: اس کا دل خوف و رجاء سے متصف رہتا ہے ، اس کی زبان حمد و ثنا ء کے ساتھ متصف رہتی ہے ، اس کی آنکھیں حیاء و بکاء کی صفت سے مزین رہتی ہیں ، اور اس کا ارادہ اپنی خواہش کے ترک اور رضاءِ الٰہی کی طلب میں رہتا ہے ۔
(۷)جو شخص نماز کو وقت پر پابندی سے پڑھا کرے اس کو اللہ تعالیٰ نو عزّتیں نصیب فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں ، اس کی صحت قائم رکھتے ہیں ، فرشتے اس کی نگہبانی کرتے ہیں اس کے گھر میں برکت نازل ہوتی ہے ، اس کے چہرہ پر صالحین کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں ، اس کے دل کو اللہ تعالیٰ نرم فرمادیتے ہیں ، اور پل صراط سے وہ اس طرح گزرجائے گا جس طرح بجلی کی چمک ، اس کو جہنم سے بچالیا جائے گا ،اور اس کو ان لوگوں کا مقرب بنایا جاتا ہے جنہیں نہ کوئی غم ہوگا نہ کوئی فکر(یعنی اللہ والوں کا )۔
(۸)اللہ کے ساتھ تجارت کرو نفع بہت ہوگا (یعنی خوب صدقہ خیرات کرو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو )۔
(۹)متقی کی علامت یہ ہے کہ تمام لوگوں کے بارے میں یہ سمجھے کہ نجات پاجائیں گے اور اپنے بارے میں یہ سمجھے کہ میں ہلاک ہوگیا ۔
(۱۰)سب سے بڑی بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفرِ آخرت کی تیاری نہ کرے ۔
(۱۱)دنیا جس کے لئےقید خانہ ہو تو قبر اس کے لئے باعث ِ راحت ہوگی ۔
(۱۲)اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو دنیا اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرو ،اس لئے نہیں دی ہے کہ تم اسی کے ہوکر رہ جاؤ ۔
(۱۳)لوگو اللہ بڑا غیرت مند ہے اس سے ہوشیار رہو اپنی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑو اور اپنی اپنی ٹولیاں الگ نہ بناؤ ۔
(۱۴)یاد رکھو !دنیا ایک دھوکہ کی ٹٹی ہے جو لوگ گزر گئے ان سے عبرت حاصل کرو ۔
مدتِ خلافت:۔ ۳۵ھ۔تا۔۴۰ھ۔
سیدنا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے بہت برگزیدہ بزرگوں میں ہوتا ہے، آپ کو فقہ پر عبور حاصل تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام ہی غزوات میں بہادری کا مظاہرہ کیا، سیدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جہاد سے پردہ فرمانے کے بعد حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے حکومتی کاموں میں مشیر خاص اور پُر اعتماد ساتھی رہے، آپ تقریباً ۶۰۱ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور ۵۹ برس کی عمر میں ۶۶۰ء کو مسجد میں شہید ہوگئے، عبد الرحمن ابن ملجم نے آپ بحالتِ نماز شہید کیا، آپ کا تقریباً ساڑھے چار سالہ دورِ خلافت فتنوں و فسادوں اور آزمائشوں میں گذرا، آپؓ کے دورِ خلافت میں دو بڑی جنگیں خود مسلمانوں کے درمیان لڑی گئیں جن میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، آپؓ کے اقوالِ پُر حکمت ملاحظہ فرمائیں:
(۱) خندہ پیشانی سے پیش آنا سب سے بڑی نیکی ہے۔
(۲) انسان کی بزرگی کم گفتاری میں اور فضیلت تحمل و برداشت کا مظاہر کرنے میں ہے۔
(۳) خلق خدا کے ساتھ نیکی کرنے سے جس قدر شکر گذاری ہوتی ہے وہ اور کسی صورت ممکن نہیں۔
(۴) جب مومن کا خلق اچھا ہو تو کلام لطیف ہوجاتا ہے۔
(۵) جب کسی کے احسان کا بدلہ اتارنے سے تمہارے ہاتھ قاصر رہیں تو زبان سے ضرور اس کا شکریہ ادا کرو۔
(۶) جو حقوق تمہارے نفس کے ذمہ ہیں ان کے ادا کرنے کا تم خود سے تقاضا کرو، تاکہ تم اواروں کے تقاضے سے محفوظ رہو۔
(۷) انسان کے چہرے کا حسن اللہ تعالیٰ کی عمدہ عنایت ہے۔
(۸) کارخانۂ قدرت میں فکر کرنا بھی عبادت ہے۔
(۹) دوسروں کے حال پر غور کرنے سے نصیحت حاصل ہوتی ہے۔
(۱۰) عقلمند آدمی ہمیشہ فکر اور غم میں مبتلا رہتا ہے۔
(۱۱) برائیوں سے پرہیز کرنا نیکیاں کمانے سے بہتر ہے۔
(۱۲) اگرچہ کوئی قدر شناس نہ ملے مگر تم اپنی نیکی بند نہ کرو۔
(۱۳) عقیدہ میں شک رکھنا شرک کے برابر ہے۔
(۱۴) صدق دل کے ساتھ سو رہنا اس نماز سے کہیں اچھا ہے جو شک کے ساتھ ادا کی جائے۔
(۱۵) جب تک آدمی کا حال پوری طرح معلوم نہ ہو اس کی نسبت بزرگی کا اعتقاد نہ رکھو۔
(۱۶) قابلِ صحبت بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔
(۱۷) بدکاروں کی صحبت سے بچو کیونکہ برائی برائی سے جلد مل جاتی ہے۔
(۱۸) بے موقع حیاء بھی باعثِ محرومی ہے۔
(۱۹) گناہوں سے نادم ہونا بھی گناہوں سے معافی مانگنے جیسا ہے۔
(۲۰) گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے اور نیکیوں پر غرور کرنا نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔
(۲۱) برا کام لوگوں کے سامنے کرنا مناسب نہیں بلکہ اُسے چھپ کر بھی نہ کرو۔
(۲۲) مشورہ باعث تقویت ہے۔
(۲۳) شکر نعمت کا باعث اور ناشکری حصولِ زحمت کا باعث ہے۔
(۲۴) کسی دوسرے کے گرنے سے خوش مت ہونا، تمہیں کیا معلوم کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟
(۲۵) ادب بہترین کمالات اور خیرات افضل ترین عبادات میں سے ہے۔
(۲۶) سخاوت کے ساتھ احسان رکھنا نہایت کمینگی ہے۔
(۲۷) بہترین بخشش وہ ہے جو سوال سے پہلے کی جائے۔
(۲۸) مال فتنوں کا سبب، حوادت کا ذریعہ، تکلیف کا باعث اور رنج و مصیبت کی سواری ہے۔
(۲۹) بےشک لوگ سونے چاندی کی نسبت اچھے ادب کے زیادہ بخیل ہو وہ اپنی عزت کے دینے میں اسی قدر سخی ہوتا ہے۔
(۳۰) دولتمندی کی مستی سے اللہ کی پناہ مانگو، یہ ایسی لمبی مستی ہے کہ اس ےس بہت دیر میں ہوش آتا ہے۔
(۳۱) جو شخص مال دینے میں زیادہ بخیل ہو وہ اپنی عزت کے دینے میں اسی قدر سخی ہوتا ہے۔
(۳۲) دولت، حکومت اور مصیبت میں انسان کی عقل کا امتحان ہوتا ہے۔
(۳۳) کمینوں کی دولت تمام مخلوق کے لئے مصیبت ہے۔
(۳۴) تنگ دستی جسے لوگ معیوب سمجھیں اس مالداری سے اچھی ہے جس سے انسان گناہوں اور خرابی میں مبتلا ہوکر ذلیل و خوار ہو۔
(۳۵) تنگ دست آدمی جو رشتہ داروں سے میل ملاپ رکھے اس مالدار سے اچھا ہے جو ان سے قطع تعلق رکھے۔
(۳۶) تنگ دستی میں سخاوت کی کوئی صورت نہیں اور کھانے کی حرص کے ساتھ اچھی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔
(۳۷) حرص سے روزی بڑھ نہیں جاتی، مگر آدمی کی قدر گھٹ جاتی ہے۔
(۳۸) تواضع علم کا ثمر ہے۔
(۳۹) لوگوں کے پاس عاجزی کرنے سے ان سے نا امید ہونا اچھا ہے ۔
(۴۰) آدمی اگر عاجز ہو اور نیک کام کرتا رہے تو اس سے اچھا ہے کہ قوت رکھے اور بُرے کام نہ چھوٹے۔
(۴۱) ظلم نعمتیں دور کرتاہے اور سرکشی موجب عذابِ الٰہی ہے۔
(۴۲) بے قراری کچھ تقدیر ِ الٰہی کو نہی مٹاتی مگر اجر اور ثواب کو ضرور ضائع کردیتی ہے۔
(۴۳) غضب سے بچو کہ اس کا شروع جنون اور آخر ندامت ہے۔
(۴۴) تمام لوگوں میں نیک کام پر سب سے زیادہ قادر وہ شخص ہے جس کو جلد غصہ نہ آئے۔
(۴۵) دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کا اول تکلیف اور اس کا آخر فناء ہے۔
(۴۶) دنیا اگر آنے لگے تو آتی رہتی ہے اور اگر پیٹھ پھیر لے تو چلی ہی جاتی ہے۔
(۴۷) دنیا ایسی مصیبتوں اور اموات کا مجموعہ ہے جو سخت تکلیف دہ اور غیر مختتم ہیں۔
(۴۸) دین کی دوستی دنیا کا نقصان کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
(۴۹) خدا کی رحمت سے نا امید ہونا نہایت نقصاندہ ہے۔
(۵۰) انسان کی سب آرزوئیں کبھی پوری ہونے والی نہیں۔
(۵۱) لمبی آرزو اور خلوصِ عمل کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔
(۵۲) فضول امیدوں پر بھروسہ کرنے سے بچو، کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہے۔
(۵۳) سب سے بڑی مصیبت امید کا منقطع کردینا ہے۔
(۵۴) جو شخص بہت بڑی بڑی امیدیں باندھتا ہے وہ موت کو بہت کم یاد کرتا ہے۔
(۵۵) جب تم امیدیں باندھتے باندھتے دور جا پہنچو تو موت کی ناگہانی آمد کو یاد کرو۔
(۵۶) کسی چیز سے اچھی طرح ناامید ہوجانا اس کی طلب میں ذلت اٹھانے سے بہتر ہے۔
(۵۷) موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔
(۵۸) مال امیدوں کو مضبوط کرتا ہے اور موت آرزوؤں کی جڑ کاٹتی ہے۔
(۵۹) تکلیف اور تنگی آرام سے موت و حیات سے نہایت قریب ہے۔
(۶۰) موت سے بڑھ کر کوئی چیز سچی نہیں اور امید سے بڑھ کر کوئی چیز جھوٹی نہیں۔
(۶۱) زمانے کے پل پل کے اندر آفات پوشیدہ ہیں۔
(۶۲) دنیا مسافر خانہ ہے، مگر بدبختوں نے اُسے اپنا وطن بنا رکھا ہے۔
(۶۳) عادت پر غالب آنا کمالِ فضیلت ہے۔
(۶۴) خواہش پرستی ہلاک کرنے والا ساتھی ہے اور بری عادت ایک مور آور دشمن ہے۔
(۶۵) خواہش کی تابعداری ایک لا علاج مرض ہے۔
(۶۶) عقلمند آدمی اپنے آپ کو پست کرکے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کو بڑھا کر ذلت اٹھاتا ہے۔
(۶۷) عقلمند وہ ہے جو غیروں سے عبرت حاصل کرے نہ کہ خود باعث عبرت بن جائے۔
(۶۸) ہوشیار وہ ہے جو زمانہ کی روشنی پر چلے۔
(۶۹) عقلمندی کا ایک نصف بردباری اور دوسرا نصف چشم پوشی ہے۔
(۷۰) کمینے کے ساتھ بھلا کرنا نہایت بُرا فعل ہے۔
(۷۱) فاسق کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں۔
(۷۲) بُرا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا، کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا خیال کرتا ہے۔
(۷۳) فسق و فجور کے مقامات سے دور رہو، کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مقام اور اس کے عذاب کے محلات ہیں۔
(۷۴) فرصت کو کھونا بڑی مصیبت ہے۔
(۷۵) علم مالدار کی زینت اور تنگدستوں کے لئے فراخی کا ذریعہ ہے۔
(۷۶) علم بے عمل ایک آزار اور عمل بغیر اخلاص بیکار ہے۔
(۷۷) علم مال سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی۔
(۷۸) علم کی خوبی اس پر عمل کرنے اور احسان کی خوبی اس کے جتلانے پر منحصر ہے۔
(۷۹) جس بات کا عالم نہ ہو اُسے بُرا مت سمجھو، ہوسکتا ہے کہ کئی باتیں ابھی تک کان تک نہ پہنچی ہوں۔
(۸۰) خود ستائی کے برابر کوئی حماقت اور علم سے زیادہ کوئی رہنما نہیں۔
(۸۱) تھوڑا علم فساد علم کا موجب ہے اور صحت عمل اور صحتِ علم پر منحصر ہے۔
(۸۲) علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں، لیکن بہت کم عمل کرنے والے ہیں۔
(۸۳) اپنی لاعلمی کے اظہار کو کبھی بُرا نہ سمجھو۔
(۸۴) دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔
(۸۵) دشمن ایک بھی بہت ہے اور دوست زیادہ بھی تھوڑے ہیں۔
(۸۶) دنیاداروں کی دوستی ایک ادنیٰ بات سے دور ہوجاتی ہے۔
(۸۷) اگر کوئی قابل شخص دوستی کے لائق نہ ملے تو کسی نااہل سے دوستی مت کرو۔
(۸۸) دوست سے دھوکہ کھانے اور دشمن سے مغلوب ہونے سے بچو۔
(۸۹) انسان جو حالت اپنے لئے پسند کرے اُسی حالت میں رہتا ہے۔
(۹۰) تجربہ سے پہلے کسی پر اطمینان کرنا عقلمندی کے خلاف ہے۔
(۹۱) تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے، عقل مند وہ ہے جو ان میں ترقی کرتا ہے۔
(۹۲) بات کی جانچ کرو اور کہنے والے کی طرف خیال نہ کرو کہ کون ہے۔
(۹۳) جب تک کسی آدمی سے بات چیت نہ ہو اس کو حقیر نہ سمجھو۔
(۹۴) حق نہایت زبردست مددگار اور جھوٹ بہت ہی کمزور معاون ہے۔
(۹۵) سچائی میں اگرچہ خوف ہو مگر باعثِ نجات ہے اور جھوٹ میں گو اطمینان ہو مگر موجبِ ہلاکت ہے۔
(۹۶) سچا آدمی سچائی کی بدولت اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے جھوٹا اپنے مکر و فریب سے نہیں پاسکتا۔
(۹۷) جیسے جہالت کی بات کہنے میں کوئی خوبی نہیں، ایسا ہی حق سے چپ رہنے میں کوئی بھلائی نہیں۔
(۹۸) صبر ایک ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔
(۹۹) صبر کی بہ نسبت بے قراری زیادہ تکلیف دہ ہے۔
(۱۰۰) مصائب کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کی حفاظت شکر سے کرو۔
(اقوال کا خزانہ)
۱۔ہرانسان کی قیمت اس کام سے لگائی جاتی ہے جس کو وہ(دوسروں کے مقابلہ میں اوراپنے دوسرے کاموں کے مقابلہ میں)بہتر طریقہ پر انجام دیتا ہے ۔(انسان کی قیمت اس کے خاص ہنر سے لگائی جاتی ہے)
۲۔لوگوں سے ان کی ذہنی سطح اورفہم کے مطابق بات کرو کیا تمہیں پسند ہے کہ کوئی (اپنے فہم اورادراک سے بالا ہونے کی وجہ سے)اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلائے۔
۳۔ایک شریف آدمی اس وقت بے قابو ہوتا ہے،جب بھوکا ہو اورایک پست فطرت انسان اس وقت بے قابو اورجامہ سے باہر ہوتا ہے،جب شکم سیر ہو(اس کو کسی کی ضرورت نہ ہو)
۴۔ان دلوں کو بھی آرام دو،ان کے لئے حکمت آمیزلطیفے تلاش کرو،کیونکہ جسموں کی طرح دل بھی تھکتے اوراکتاجایا کرتے ہیں۔
۵۔نفس خواہشات کو ترجیح دیتا ہے،سہل اورسست راہ اختیار کرتا ہے،تفریحات کی طرف لپکتا ہے،برائیوں پر ابھارتا ہے،بدی اس کے اندر جاگزیں رہتی ہے،راحت پسند ہے،کام چور ہے،اگر اس کو مجبور کروگے،تولاغر ہوجائے گا اوراگر چھوڑوگےتو ہلاک ہوجائے گا۔
۶۔خبردار ہوشیار! اللہ کے سوا قطعاً تم میں سے کوئی کسی سے امید نہ قائم کرے،اپنے گناہوں کے سوا کسی بات سے نہ ڈرے،اگر کوئی چیز نہ آتی ہو تو سیکھنے سے شرم نہ محسوس کرے،اوراگر اس سے کوئی ایسی بات دریافت کی جائے جس کو نہیں جانتا ہو تو کہہ دے مجھے معلوم نہیں۔
۷۔غربت ذہانت کو کند کردیتی ہے،ایک غریب آدمی اپنے وطن میں رہ کر بھی پردیسی ہوتاہے۔
۸۔ناکارگی آفت ہے،صبر بہادری ہے،زہد خزانہ ہے،خوف ِخدا ڈھال ہے۔
۹۔اخلاق وآداب ایسے جوڑے ہیں جو بار بار نئے نئے پہنے جاتے ہیں،ذہن ایک صاف و شفاف آئینہ ہے۔
۱۰۔جب کسی کااقبال ہوتا ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اس سے منسوب کردی جاتی ہیں اورجب زوال آتا ہے تو اس سے اُس کی ذاتی خوبیوں کا بھی انکار کردیا جاتا ہے۔
۱۱۔جب کوئی بات آدمی دل میں پوشیدہ رکھتا ہے تو زبان سے اس کے اشارے مل جاتے ہیں،چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہوتا ہے۔
۱۲۔کسی دوسرے کے غلام مت بنو،جب کہ اللہ تعالی نے تم کو آزاد پیدا کیا ہے۔
۱۳۔جھوٹی تمناؤں پر بھروسہ کرنے سے بچتے رہو، تمنائیں بیوقوفوں کا سرمایہ ہیں۔
۱۴۔تم کو بتاؤں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟وہ جو بندگانِ خدا کو معصیت کی باتیں حسین بناکر نہ دکھائے اورخدا کی کاروائی سے بے خطر نہ رکھے اور اس کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے۔
۱۵۔لوگ محوخواب ہیں جب مریں گے تو ہوش آجائے گا۔
۱۶۔لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔
۱۷۔لوگ اپنے آباء واجداد سے زیادہ اپنے زمانہ کے مشابہ ہوتے ہیں (یعنی لوگوں پر وقت اورماحول کا اثر زیادہ پڑتا ہے)
۱۸۔انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے (یعنی جب تک آدمی بولے نہیں اس کی علمیت اورحقیقت پوشیدہ رہتی ہے)
۱۹۔جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس کے لئے کوئی بڑا خطرہ یادھوکہ کا اندیشہ نہیں۔
۲۰۔کبھی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نعمتوں کو چھین لیتا ہے۔
(المرتضیٰ از مولانا ابوالحسن علی ندوی:۲۸۶،۲۹۱)

۲۱۔آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اور اتنا نہ لگیں کہ گویا آپ کو اس میں کچھ شک ہے)اوراپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتا وہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں)اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حق نہ سمجھیں)اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے چلا دیا یا تقسیم کرکے برابر کردیا پہن کر پرانا کردیا۔
(کنز العمال:۸/۲۲۱)

۲۲۔خیریہ نہیں ہے کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے ؛بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو اورتمہاری بردباری کی صفت بڑی ہو اوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔
۲۳۔اگر تم سے نیکی کا کام ہوجائے تو اللہ تعالی کی تعریف کرو اوراگر برائی کا کام ہوجائے تو اللہ تعالی سے استغفار کرو۔
۲۴۔دنیا میں صرف دو آدمیوں کے لئے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو۔
۲۵۔جو عمل تقویٰ کےساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے۔(کیونکہ قرآن میں ہے کہ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں)
(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے،حلیۃ الاولیاء:۱/۷۵)

۲۶۔سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے ؛یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اورسب سے بڑی فقیری حماقت اوربے وقوفی ہے،سب سے زیادہ وحشت کی چیز اورسب سے بڑی تنہائی عجب اورخود پسندی ہے اورسب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں۔
۲۷۔بے وقوف کی دوستی سے بچنا؛ کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کردے گا اورجھوٹے کی دوستی سے بچنا ؛کیونکہ جو تم سے دور ہے یعنی تمہارا دشمن ہے اسے تمہارے قریب کردے گا اور جو تمہارے قریب ہے یعنی تمہارا دوست ہے اسے تم سے دور کردے گا(یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اورنزدیک والی چیز کو دور بتائے گا اورتمہارا نقصان کردے گا)اورکنجوس کی دوستی سے بھی بچنا ؛کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہوگی وہ اس وقت تم سے دور ہوجائے گا اوربد کار کی دوستی سے بچنا ؛کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۹)

۲۸۔توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اور اچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں،عقلمندی بہترین مصاحب ہے ،حسن ادب بہترین میراث ہے اور عجب وخود پسندی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔
حیاۃ الصحابۃ:۳/۵۴۹)

۲۹۔اسے مت دیکھو کہ کون بات کررہا ہے ؛بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کہہ رہا ہے۔
۳۰۔ہربھائی چارہ ختم ہوجاتا ہے صرف وہی بھائی چارہ باقی رہتا ہے جو لالچ کے بغیر ہو۔
۳۱۔اللہ کی قسم! اہل حق کا اکٹھا ہونا ہی اصل میں اکٹھا ہونا ہے چاہے وہ تعداد میں کم ہوں اوراہل باطل کا اکٹھا ہونا حقیقت میں بکھر جانا ہے چاہے وہ مقدار میں زیادہ ہوں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۲۰،کنزالعمال:۱/۶۹)

۳۲۔بیشک مومن تو ایسے لوگ ہیں کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے وطن اورجسم دور ہوں اورمنافقین ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔
(کنز العمال:۳/۱۴۱)

۳۳۔ میں کسی مسلمان کی ایک ضرورت پوری کردوں یہ مجھے زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔
(کنزالعمال:۳/۳۱۷)

۳۴۔تواضع کی بنیاد تین چیزیں ہیں،آدمی کو جو بھی ملے اسے سلام میں پہل کرے اورمجلس کی اچھی جگہ کے بجائے ادنی جگہ میں بیٹھنے پر راضی ہوجائے اور دکھاوے اورشہرت کو بُرا سمجھے۔
(کنزالعمال:۲/۱۴۳)

۳۵۔جو آدمی بھی اللہ تعالی پر بھروسہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالی جو حالت بھی اس کے لئے پسند فرماتے ہیں وہ خیر ہی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی حالت کے علاوہ کسی اور حالت کی کبھی تمنا نہ کرے گا اور یہ کیفیت رضا بر قضا کے مقام کا آخری درجہ ہے۔
(کنزالعمال:۲/۱۴۵)

۳۶۔جو اللہ کے فیصلہ پر راضی ہوگا تو اللہ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تو ہوکر رہے گا ؛لیکن اسے (اس پر راضی ہونے کی وجہ سے)اجر ملے گا اورجو اس پر راضی نہ ہوگا تو بھی اللہ کا فیصلہ ہوکر رہے گا؛ لیکن اس کے نیک عمل ضائع ہوجائیں گے۔
(کنز العمال:۲/۱۴۵)

۳۷۔جہاد کی تین قسمیں ہیں ایک ہاتھ سے جہاد کرنا دوسرا زبان سے جہاد کرناتیسرا دل سے جہاد کرنا،سب سے پہلے ہاتھ والا جہاد ختم ہوگا، پھر زبان والا ختم ہوگا پھر دل والا،جب دل کی یہ کیفیت ہوجائے کہ وہ نیکی کو نیکی نہ سمجھے اوربرائی کو برائی نہ سمجھے تو اسے اوندھا کردیا جاتا ہے یعنی اس کے اوپر والے حصے کو نیچے کردیا جاتا ہے۔ (پھر خیر اورنیکی کا جذبہ اس میں نہیں رہتا )
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۱۲)

۳۸۔زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے، جب زبان ٹھیک ہوجائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہوجاتے ہیں اورجب زبان بے قابو ہوجاتی ہے تو تمام اعضاء بے قابوہوجاتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷)

۳۹۔اپنا بھید اپنے تک محفوظ رکھو اورکسی پر ظاہر نہ کرو؛ کیونکہ ہر خیرخواہ کے لئے کوئی نہ کوئی خیر خواہ ہوتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷ٌ)

۴۰۔میں نے گمراہ انسانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی آدمی کو بے داغ صحیح نہیں رہنے دیتے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۷۹۷)

۴۱۔جیسے تم خوف کے وقت عمل کرتے ہو ایسے ہی دوسرے اوقات میں بھی شوق اوررغبت سے عمل کیاکرو۔
۴۲۔میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی جو جنت جیسی ہو اور پھر بھی اس کا طالب سویا ہوا ہو اورنہ ہی ایسی کوئی چیز دیکھی جو جہنم جیسی ہو اورپھر بھی اس سے بھاگنے والا سوتا رہے۔
۴۳۔غورسے سنو!جو حق سے نفع نہیں اٹھاتا اسے باطل ضرور نقصان پہنچاتا ہے۔
۴۴۔جسے ہدایت سیدھے راستے پر نہ چلاسکی،اسے گمراہی سیدھے راستہ سے ضرور ہٹا دے گی۔
(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: البدایۃ والنھایۃ:۷۱۸)

۴۵۔جو جان بوجھ کر محتاج بنتا ہے وہ محتاج ہوہی جاتا ہے۔
۴۶۔جو بلا اورآزمائش کے لئے تیاری نہیں کرتا جب اس پر آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرسکتا۔
۴۷۔جو کسی سے مشورہ نہیں کرتا اسے ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔
۴۸۔آدمی کو سیکھنے میں حیا نہیں کرنی چاہیے اورجس آدمی سے ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں حیا نہیں کرنی چاہے کہ میں نہیں جانتا۔
(مذکورہ اقوال کے لئے دیکھئے: کنزالعمال:۸/۲۱۸)

۴۹۔علم مال سے بہتر ہے،علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے،علم عمل کرنے سے بڑھتا ہےاور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے ،عالم کی محبت دین ہے جس کا اللہ کے ہاں سے بدلہ ملے گا،علم کی وجہ سے عالم کی زندگی میں اس کی بات مانی جاتی ہے اوراس کے مرنے کے بعد اس کا اچھائی سے تذکرہ کیا جاتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۸۰،۱۸۱)

۵۰۔حقیقی عالم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے اورنہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی انہیں کھلی چھٹی دے اور نہ انہیں اللہ کی پکڑسے بے خوف اوربے فکر ہونے دے اور نہ قرآن کے علاوہ کسی اورچیز میں ایسا لگے کہ قرآن چھوٹ جائے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)

۵۱۔اس عبادت میں خیر نہیں ہے جس میں دینی علم نہ ہو اور اس دینی علم میں خیر نہیں ہے جسے آدمی سمجھا نہ ہو یا جس کے ساتھ پرہیزگاری نہ ہو اورقرآن کی اس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جس میں انسان قرآن کے معنی اورمطلب میں غوروفکر نہ کرے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)

۵۲۔حضرت علیؓ نے استاد کے آداب کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:
۱۔تمہارے استاد کا یہ حق ہےکہ تم اس سے سوال زیادہ نہ کرو اوراسے جواب دینے کی مشقت میں نہ ڈالو یعنی اسے مجبور نہ کرو۔
۲۔جب وہ تم سے منہ دوسری طرف پھیرلے تو پھر اس پر اصرار نہ کرو اور جب وہ تھک جائے تو اس کے کپڑے نہ پکڑو اورنہ ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرو اورنہ آنکھوں سے۔
۳۔اس کی لغزشیں تلاش نہ کرو اوراگر اس سے کوئی لغزش ہوجائے تو تم اس کے لغزش سے رجوع کا انتظار کرو اور جب وہ رجوع کرلے تو تم اسے قبول کرلو۔
۴۔اپنے استاد سے یہ نہ کہو کہ فلاں نے آپ کی بات کے خلاف بات کہی ہے۔
۵۔اس کے کسی راز کا افشاء نہ کرو۔
۶۔اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرو اس کے سامنے اوراس کے پیٹھ پیچھے دونوں حالتوں میں اس کے حق کا خیال کرو۔
۷۔تمام لوگوں کو سلام کرو ؛لیکن استادکو خاص طور پرسلام کرو۔
۸۔اس کے سامنے بیٹھو اگر اسے کوئی ضرورت ہوتو دوسروں سے آگے بڑھ کر اس کی خدمت کرو۔
۹۔اس کے پاس جتنا وقت بھی تمہارا گزرجائے تنگدل نہ ہونا ؛کیونکہ یہ عالم کھجور کے درخت کی طرح ہے جس سے ہر وقت کسی نہ کسی فائدے کے حصول کا انتظار رہتا ہے،یہ عالم اس روزہ دار کے درجہ میں ہے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کررہا ہو جب ایسا عالم مرجاتا ہے تو اسلام میں ایسا شگاف پڑجاتا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہوسکتا۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۸)

۵۳۔((الأیام صحائف اعمار کم فخلدوھاصالح اعمالک))
‘‘یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں،اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو’’
(متاع وقت اورکاروان علم :۵۵)

۵۴۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد مجھے جتنا فائدہ حضرت علیؓ کے اس خط سے ہوا اتنا فائدہ اورکسی چیز سے نہیں ہوا،آپ نے میری طرف خط میں لکھا تھا:
‘‘اما بعد!یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ آدمی کو اس چیز کے حاصل کرنے سے خوشی ہوتی ہے جو کبھی اس سے ضائع نہ ہو اورآدمی اس چیز کے ضائع ہونے پر غمگین اورنادم ہوتا ہے،جس کا حاصل کرنا اس کے لئے ممکن نہیں،پس آپ کی خوشی ہمیشہ آخرت کی چیزوں کے حصول اورآپ کا غم آخرت کی چیزوں سے محرومی سے وابستہ ہونا چاہیے،دنیا کی کوئی چیز ضائع ہوجائے تو افسوس مت کرنا اوراگر دنیا کی کوئی چیز مل جائے تو خوشی کی وجہ سے تکبراورخود پسندی کا شکار مت ہونا،تمہارے زیر نظر آخرت کی زندگی ہی ہونی چاہئے’’
(نفحۃ العرب:۱۳۱)

۵۵۔کچھ لوگ اللہ کی عبادت جنت کی رغبت اورلالچ کی وجہ سے کرتے ہیں ‘ فتلک عبادۃ التجار’ یہ تاجروں والی عبادت ہے،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خوف اورڈر کی وجہ سے اللہ کی عبادت میں مصروف نظر آتے ہیں ‘فتلک عبادۃ العبید’ یہ غلاموں والی عبادت ہے اور اللہ کی مخلوق میں کچھ ایسے بلند ہمت لوگ بھی ہیں جو اللہ کی عبادت جنت کی لالچ اورجہنم کے خوف سے بے نیاز ہوکر صرف اورصرف اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے کرتے ہیں‘فتلک عبادۃ الاحرار’ یہ آزاد اور بلند حوصلہ لوگوں کی عبادت ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح:۳/۱۴۲)

۵۶۔جس شخص کی زبان اس پر حاکم بن جائے وہ ذلیل ہوکر رہتا ہے۔
۵۷۔عقل مند کا سینہ اس کے رازوں کا صندوق ہوتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۳۹)

۵۸۔انسان پر تعجب کرو جو چکنائی سے بنی ہوئی چیز(آنکھ)سے دیکھتا ہے،گوشت (زبان)سے بولتا ہے،ہڈی (کان)سے سنتا ہے اور ایک خالی جگہ(ناک)سے سونگھتا ہے۔
۵۹۔جب دنیا کسی کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے مل جاتی ہیں اورجب کسی سے رخ پھیرتی ہے تو اس کی خوبیوں سے بھی اسے محروم کردیتی ہے۔
۶۰۔لوگوں کے ساتھ ایسا طرز زندگی اختیار کرو کہ تمہارے مرنے پر وہ آبدیدہ ہوجائیں اورتمہاری زندگی میں وہ تمہارے ہم نشین رہیں۔
۶۱۔سب سے کمزورآدمی وہ ہے جو لوگوں کو دوست نہ بناسکے اوراس سے بھی کمزور وہ شخص ہے جو لوگوں کو دوست بنانے کے بعد ضائع کردے۔
۶۲۔جس کے قریبی لوگ اس کی قدر نہیں کرتے تو دور والے اس کی توقیر وتعظیم میں لگ جاتے ہیں۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۰)

۶۳۔ہیبت وخوف سے ناکامی اورحد سے زیادہ حیاء کرنے سے محرومی ملتی ہے۔
۶۴۔مواقع بادلوں کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں پس اگر کسی خیر کا موقع مل جائے تو اسے ضائع مت کرو۔
۶۵۔اے ابن آدم !تو دیکھ رہا ہے کہ تیرا رب تجھ پر ہر آن ہر گھڑی نعمتیں برسارہا ہے ؛جبکہ تو اس کی معصیت پر ڈٹا ہوا ہے،ان نعمتوں کو دیکھ کر تجھے گناہوں سے باز آجانا چاہیئے۔
۶۶۔جب کوئی کسی بات کو چھپاتا ہے تو وہ اس کی زبان کی لغزشوں اورچہرے کے خدوخال سے ظاہر ہوجاتی ہے۔
۶۷۔جب تک بیماری کے ساتھ کام کرنا ممکن ہو کرتے رہو۔
۶۸۔سب سے افضل زہد،زہدکوچھپانا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۲)

۶۹۔سب سے بڑی مال داری امید کو خیربادکہنا ہے۔
۷۰۔جس کی امید لمبی ہوگی اس کا عمل خراب ہوجائے گا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۵)

۷۱۔اگر نفلی عبادت فرائض میں نقصان کا سبب بن رہی ہوں تو ایسے نوافل سے ثواب حاصل نہ ہوگا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۶)

۷۲۔وہ گناہ جو آپ کو غمگین کردے اس نیکی سے بہتر ہے جو آپ کو عجب اورخود پسندی میں مبتلا کردے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۷)

۷۳۔سخاوت تو وہ ہے جو بن مانگے عطا کیا جائے،جو چیز مانگ کر دی جائے وہ حیاء اورشرمندگی سے بچنے کے لئے ہے۔
۷۴۔عقل جیسی مالداری نہیں،جہالت جیسی ناداری نہیں،ادب جیسی میراث کوئی نہیں اورمشورہ جیسی دانش مندی کوئی نہیں۔
۷۵۔صبردو طرح کا ہوتا ہے،ایک وہ صبر جو کسی ناگوار صورت کے پیش آنے پر کیا جائے اور دوسرا وہ صبر جو کسی محبوب چیز سے محرومی پر کیا جائے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۸)

۷۶۔مال تمام شہوات کا مادہ اور بنیاد ہے۔
۷۷۔زبان ایک درندہ ہے،اگر اسے آزاد چھوڑدیا جائے تو ہلاک کردے گا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۸)

۷۸۔محبوب لوگوں کو کھودینا انسان کو وطن میں بھی پردیسی بنادیتا ہے۔
۷۹۔جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو کلام کم ہوجاتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۴۹)

۸۰۔مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید ہوبیٹھا ہے ؛حالانکہ اس کے پاس استغفار موجود ہے،جس کے ذریعے وہ اپنے گناہوں کو معاف کروا سکتا ہے۔
۸۱۔جوشخص اپنے اور اللہ تعالی کے تعلق کو درست کرلےگا اللہ تعالی اس کے اور لوگوں کے تعلق کو درست کردے گا،جوشخص آخرت کے معاملہ کو درست کردے گا اللہ تعالی اس کی دنیا کے معاملہ کی اصلاح فرمادے گا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۲)

۸۲۔کامیاب فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہ کرے ،اور انہیں اللہ کے عذاب سے مامون نہ کرے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۳)

۸۳۔تقویٰ کے ساتھ تھوڑا عمل بھی بہت ہے،جو چیز قبول ہوجائے وہ تھوڑی کیسے ہوسکتی ہے۔
۸۴۔اللہ تعالی پر یقین کے ساتھ سوجانا شک کی نماز سے بہتر ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۴)

۸۵۔دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے،اس کاظاہر نرم وملائم اور دلکش ہے جبکہ اس کے اندر ہلاکت خیز زہر چھپا ہوا ہے،بےوقوف جاہل اس میں دلچسپی رکھتا ہے جب کہ سمجھدار اوردانش مند شخص اس سے دور بھاگتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۵۹)

۸۶۔جس شخص کے دل میں خالق کی عظمت ہوتی ہے ساری مخلوق اس کی نگاہ میں چھوٹی ہوجاتی ہے۔
(نھج البلاغۃ،السحرہ الرابع:۵۶۱)

۸۷۔جسے چار چیزیں عطا کردی جائیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوسکتا(۱)جسے دعا عطا کردی جائے وہ عطا سے محروم نہیں ہوتا۔(۲)جس توبہ عطا کردی جائے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا۔(۳)جسے استغفار عطا کردیا جائے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا۔ (۴)جسے شکر عطا کردیا جائے وہ زیادتی سے محروم نہیں ہوتا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۲)

۸۸۔صدقہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے رزق طلب کرو۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۴)

۸۹۔اپنے آپ کو تہمت کی جگہوں پر لے جانے والا اس شخص کو ملامت نہ کرے جو اس کے بارے میں بد گمانی کرتا ہے۔
۹۰۔فقر بڑی موت ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۶۳)

۹۱۔لوگ جس چیز سے ناواقف ہوں اس کے دشمن ہوتے ہیں۔
۹۲۔سینہ کا کشادہ پن سرداری کا زینہ ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۰)

۹۳۔جیسے جہالت کی بات کرنا خیر سے خالی ہے اسی طرح دانش مندی کی بات نہ کرنے میں بھی خیر نہیں۔
۹۴۔جسے صبر فائدہ پہنچاسکے اسے بے صبری ہلاک کردیتی ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۱)

۹۵۔ہر برتن کی یہ حالت ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے تو وہ تنگ ہوتا ہے،لیکن علم کا برتن ایسا ہے کہ جب اس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے وہ کھلتا چلاجاتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۴)

۹۶۔مختلف حالات کے الٹ پلٹ ہونے میں آدمی کے جواہر کا پتہ چلتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۴)

۹۷۔لالچی ذلت کی بیڑیوں میں جکڑارہتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۷۷)

۹۸۔اگر کوئی شخص آپ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو آپ اس کے گمان کو سچا کرکے دکھائیں۔
۹۹۔میں نے اللہ تعالیٰ کو ارادوں کے ٹوٹنے اور نیتوں کے بکھرنے سے پہچانا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۸۰)

۱۰۰۔تمہارے دوست بھی تین ہیں اوردشمن بھی،تمہارے تین دوست یہ ہیں۔ (۱)تمہارا دوست (۲)تمہارے دوست کا دوست (۳)تمہارے دشمن کا دشمن،تمہارے تین دشمن یہ ہیں۔ (۱)تمہارا دشمن (۲)تمہارےدوست کا دشمن(۳)تمہارے دشمن کا دوست
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۹۴)

۱۰۱۔غیرت مند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔
۱۰۲۔موت بہترین پہرے دار ہے۔
۱۰۳۔آدمی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالی کے خزانوں پر اس کا اعتماد اپنے پاس موجود چیزوں سے زیادہ نہ ہوجائے۔
۱۰۴۔تنہائیوں میں گناہ کرنے سے بچو؛ کیونکہ جو تمہیں دیکھ رہا ہے فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۵۹۸)

۱۰۵۔ہرآدمی کے مال میں دوشریک ہوتے ہیں ایک وارث اوردوسرا حوادثات زمانہ۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۰)

۱۰۶۔کسی کے استحقاق سے بڑھ کر اس کی تعریف کرنا خوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرنا حسد۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۱)

۱۰۷۔بغیر عمل کے دعوت دینے والا ایسے ہے جیسے بغیر کمان کے تیر پھینکنے والا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۰)

۱۰۸۔کسی کی زبان سے برائی کا کوئی کلمہ نکلے تو اس کے بارے میں اس وقت تک بد گمانی نہ کرو جب تک اس کی بات میں بھلائی کا احتمال موجود ہے۔
۱۰۹۔علم عمل کے ساتھ ملا ہوا ہے،پس جو علم حاصل کرے وہ عمل بھی کرے، علم عمل کی طرف پکارتا ہے اگر اس کی پکار سن لی جائے تو وہ ٹھہرجاتا ہے اور اگر اس کی پکار پر لبیک نہ کہا جائے تو علم رخصت ہوجاتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۰۴)

۱۱۰۔بخل تمام خرابیوں کو جمع کرنے والا ہے،یہ ایک لگام ہے جس کے ذریعہ انسان کو تمام خرابیوں کی طرف ہنکایا جاسکتا ہے۔
۱۱۱۔جب آدمی کسی چیز کی طلب کرتا ہے تو وہ اسے مل ہی جاتی ہے اگر ساری نہ بھی ملے تو کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آہی جاتا ہے۔
۱۱۲۔وہ خیر کوئی خیر نہیں جس کے بعد جہنم ہے اور وہ شر کوئی شر نہیں جس کے بعد جنت ہے،دنیا کی ہر نعمت جنت کے مقابلہ میں حقیر ہے اوردنیا کی ہر مصیبت جہنم کی مصیبتوں کے مقابلہ میں عافیت ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۰)

۱۱۳۔جو دنیا مل جائے وہ لے لو اور دنیا کی جو چیز تم سے دورہے تم بھی اس سے دور رہو۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۱)

۱۱۴۔جو حق سے مقابلہ کرے گا حق اس کو پچھاڑ کر رکھ دے گا۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۲)

۱۱۵۔رزق کی دو قسمیں ہیں ایک رزق طالب ہے اوردوسرا رزق مطلوب ہے،جو شخص دنیاکو طلب کرتا ہے موت اس کی طالب بن جاتی ہے،یہاں تک کہ اسے دنیا سے نکال دیتی ہے اور جو شخص آخرت کا طالب بن جاتا ہے دنیا اس کی طالب بن جاتی ہے،یہاں تک کہ اسے اپنا رزق ضرورت کے مطابق مل جاتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۶)

۱۱۶۔جو چھوٹی مصیبتوں پر صبرنہ کرے اللہ تعالیٰ اسے بڑی آزمائشوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔
۱۱۷۔انسان کا کیا فخر کرنا ؟ اس کی ابتداء ناپاک پانی ہے اورانتہاء مردار لاش ہے،نہ اپنا رزق خود پیدا کرسکتا ہے اورنہ اپنی موت کو دور کرسکتا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۱۹)

۱۱۸۔سب سے خطرناک گناہ وہ ہے جسے اس کا کرنے والا ہلکا سمجھے۔
۱۱۹۔بدترین دوست وہ ہے جس کے لئے تکلف کرنا پڑے۔
۱۲۰۔جب کسی مومن کو اس کا بھائی شرمندہ کرے یا غصہ دلائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کی جدائی کا وقت قریب آگیا ہے۔
(نھج البلاغۃ،الجزء الرابع:۶۲۴)

۱۲۱۔عقل مند اپنے آپ کو پست کرکے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کوبڑھاکرذلت اٹھاتا ہے۔
۱۲۲۔دوستی ایک خود پیدا کردہ رشتہ ہے۔
۱۲۳۔گناہوں پر نادم ہونا ان کو مٹادیتا ہے اور نیکیوں پر مغرور ہونا ان کو برباد کردیتا ہے۔
۱۲۴۔بے کاری میں عشق بازی یاد آجاتی ہے۔
۱۲۵۔معافی نہایت اچھا انتقام ہے۔
۱۲۶۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔
۱۲۷۔تجربے کبھی ختم نہیں ہوتے اور عقل مند ان میں ترقی کرتا ہے۔
۱۲۸۔مصیبت میں گھبرانا کمال درجے کی مصیبت ہے۔
۱۲۹۔جلدی سے معاف کرنا انتہائے شرافت اور انتقام میں جلدی کرنا انتہائے رذالت ہے۔
۱۳۰۔شریف کی پہچان یہ ہے کہ جب کوئی سختی کرے تو سختی سے پیش آتا ہے اورجب کوئی نرمی کرے تو ڈھیلا ہوجاتا ہے اورکمینے سے جب کوئی نرمی کرےتو سختی سے پیش آتا ہے اور جب سختی کرے تو ڈھیلا ہوجاتا ہے۔
۱۳۱۔انسان جوحالت اپنے لئے پسند کرتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔
۱۳۲۔بُرا آدمی کسی کے ساتھ نیک گمان نہیں رکھتا؛ کیونکہ وہ ہر ایک کو اپنے جیسا گمان کرتا ہے۔
۱۳۳۔جب تک کوئی بات تیرے منہ میں ہے تب تک تو اس کا مالک ہے،جب زبان سے نکال چکا تو وہ تیری مالک ہے۔
۱۳۴۔اول عمر میں جو وقت ضائع کیا ہے آخر عمر میں اس کا تدارک کر؛تا کہ انجام بخیر ہو۔
۱۳۵۔جس شخص کے دل میں جتنی زیادہ حرص ہوتی ہے اس کو اللہ تعالی پر اتنا ہی کم یقین ہوتا ہے۔
(مخزن اخلاق :۸۸،۸۹)

(۱)جو شخص علم ِدین کی طلب میں ہوتا ہے جنت اس کی طلب میں ہو تی ہے، اور جو شخص گناہوں میں لگا رہتا ہے جہنم اس کی طلب و تلاش میں رہتی ہے ۔
(۲)سب سے بڑی نعمت اسلام کی نعمت ہے ، سب سے اہم مشغولیت بندگی کی مشغولیت ہے ، اور سب سے بڑی نصیحت و موعظت موت کی نصیحت ہے ۔
(۳)جس شخص کے پاس اللہ کی سنّت ، اس کے رسول کی سنّت، اور اس کے دوستوں کی سنّت نہ ہو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ؛ لوگوں نے پوچھا کہ اللہ کی سنت کیا ہے ؟ فرمایا عیوب کی پردہ پوشی اور بھیدوں کو راز میں رکھنا ، لوگوں نے پوچھا رسول اللہ کی سنت کیا ہے ؟ فرمایا انسانوں سے مدارات و محبت، پھر پوچھا گیا کہ اس کے دوستوں کی سنت کیا ہے ؟ فرمایا لوگوں کی ایذاء رسانی کو برداشت کرنا ۔
(۴)اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر نفس کے نزدیک سب سے بدتر اور مخلوق میں سب کے برابر ہو جاؤ ۔
(۵)احسان آدمی کے مرتبہ کو بڑھادیتا ہے ، سوال آدمی کو لوگوں کی نظر سے گرادیتا ہے، اور بے نیازی آدمی کو سب کا ہم مرتبہ بنادیتی ہے ۔
(۶)تین چیزیں حافظہ کو بڑھاتی ہیں اور بلغم کو گھٹاتی ہیں : مسواک کا اہتمام ، روزہ کی عادت ، اور تلاوت ِ قرآن کی پابندی ۔
(۷)بہترین عمل وہ ہے جسے اللہ قبول فرمالیں ، بہترین مہینہ وہ ہے جس میں آدمی اللہ پاک سے سچی توبہ کرلے ، اور بہترین دن وہ ہے جس میں حالتِ ایمان پر موت آجائے ۔
(۸)جس شخص کو جنت کا شوق ہوتا ہے وہ نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے ، جو جہنم سے خوف کرتا ہے وہ شہوات و خواہشات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے ، جو موت کا یقین رکھتا ہے اس کی لذّاتِ دنیویہ پھیکی پڑجاتی ہیں ، اور جو دنیا کو پہچان لیتا ہے اس کے لئے مصیبتیں سہنا آسان ہوجاتا ہے ۔
(۹)جب تک چار صفات قائم رہیں گی دین و دنیا قائم رہیں گے : مالداروں کا اپنی دولت خرچ کرنے میں بخل نہ کرنا ، علماء کا اپنےعلم پر عمل کرتے رہنا ، جاہلوں کا اپنی جہالت تسلیم کرلینا، اور فقیروں اور درویشوں کا اپنی آخرت کو دنیا کے عوض نہ بیچنا ۔
(۱۰)غصہ کے وقت معاف کردینا ، تنگی کے باوجود سخاوت کرنا تنہائی میں بھی پاکدامن رہنا اور اس شخص کے سامنے حق بات بولنا جس سے کچھ طمع یا خوف ہو نہایت مشکل کام ہیں اور جس کو یہ صفات حاصل ہوگئیں وہ خوش نصیب ہے ۔
(۱۱)اگر پانچ خصلتیں نہ ہوتیں تو سب انسان نیک بن جاتے : جہالت پر اطمینان ، دنیا کی حرص ، بخل ، ریاکاری ، اور اپنی عقل پر بھروسہ۔
(۱۲)جو شخص ان چھ باتوں پر عمل کرےگا وہ اس کو جنت میں لے جائیں گی اور جہنم سے بچائیں گی : اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت کرنا ، شیطان کی معرفت اور اس کی نافرمانی کرنا ، آخرت کی معرفت اور اس کی تیاری کرنا ، دنیا کی معرفت اور اس سے علاحدگی اختیار کرنا ، حق کی معرفت اور اس کی اتباع کرنا ، باطل کی معرفت اور اس سے احتراز کرنا ۔
(۱۳)اسلام ، قرآن ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، عافیت ، عیب پوشی ، اور مخلوق سے استغناءبڑی قابلِ قدر نعمتیں ہیں ۔
(۱۴)نیک لوگوں کو بدنام کرنا آسمان سے زیادہ بھاری ہے ، دینِ حق زمین سے زیادہ وسیع ہے ، قناعت پسند دل سمندر سے زیادہ بے نیاز ہے ، منافق کا دل پتھر سے زیادہ شدید ہے ، ظالم بادشاہ آگ سے زیادہ گرم ہے ، بخیل کے سامنے حاجت ظاہر کرنا زمہریر سے زیادہ ٹھنڈا ہے ، اور صبر زہر سے زیادہ کڑوا ہے یا فرمایا کہ چغلی زہر سے زیادہ کڑوی ہے ۔
(۱۵)نماز خشوع کے بغیر ، روزہ ترکِ لغو و لا یعنی کے بغیر ، تلاوتِ قرآن تدبر کے بغیر ، علم پرہیزگاری کے بغیر ، دولتمندی سخاوت کے بغیر ، بھائی چارگی حفظِ مراتب کے بغیر ، نعمت بقائے دوام کے بغیر ، اور دعاء اخلاص کے بغیر اچھی نہیں لگتی۔
(۱۶)علم بہترین میراث ہے ، ادب بہترین پیشہ ہے ، تقویٰ بہترین زادِراہ ہے ، عبادت بہترین پونجی ہے ، عملِ صالح بہترین قائد ہے ،حسنِ خلق بہترین ساتھی ہے ، حلم بہترین وزیر ہے ، قناعت بہترین مالداری ہے ، توفیق بہترین مدد ہے ، اور موت بہترین آموزگار ہے (سبق سکھانے والی ہے )۔
(۱۷)در حقیقت کوئی کسی پر ظلم یا تعدی نہیں کرتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےفرمایا ہے ’’من عمل صالحا فلنفسہ و من اساء فعلیھا‘‘یعنی جو نیک عمل کرے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور جو برائی کرے وہ اپنے اوپر کرتا ہے ۔
(۱۸)آدمی کی سعادت مندی کی پانچ باتیں ہیں : اس کی بیوی اس کے موافق ہو ، اس کی اولاد نیک ہو ، اس کے دوست متقی ہوں، اس کا ہمسایہ نیک ہو ،اور اس کی روزی اپنے شہر میں ہو۔
(۱۹)سب سے بڑھ کر عارفِ الٰہی وہ ہے جو اہلِ علم کی زیادہ تعظیم کرے ۔
(۲۰)مسلمانوں میں اچھا وہ ہے جو ان کی مدد کرے اور ان کو نفع پہونچائے۔
(۲۱)مجھے سب سے زیادہ خوف اتباع ہویٰ اور طول امل سے ہے ، اس لئے کہ اتباع ہویٰ سے آدمی حق سے ہٹ جاتا ہےاور لمبی لمبی امیدوں سے آخرت کو بھول جاتا ہے ۔
(۲۲)تقویٰ یہ ہے کہ معصیت پر اصرار نہ کرے اور اپنی طاعت و عبادت کی وجہ سے غرور میں نہ پڑے ۔
(۲۳)احسان زبان کو قطع کردیتا ہے ۔
(۲۴)جب دشمن پر قابو حاصل ہو تو اس قابو پانے کا شکر یہ ہے کہ اس کا قصور معاف کردو ۔
(۲۵)علم ادنیٰ کو اعلیٰ کردیتا ہے اور جہل اعلیٰ کو ادنیٰ بنادیتا ہے ۔
(۲۶)ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں سچ بولنے سے نقصان کا اندیشہ ہو وہاں بھی سچ بولے ۔
(۲۷)جب تم کو دنیا ملے تو زیادہ خوشی نہ مناؤ اور اگر کچھ فوت ہو جائے تو حزن و غم کی وجہ سے مایوس نہ ہو بلکہ تمہاری تمام فکر و ہمت تو مرنے کے بعد کے معاملہ میں ہونا چاہئے۔
(۲۸)جس کی زبان شیریں ہوگی اس کے بھائی بہت ہوں گے ۔