سادہ نسخے

سادہ نسخے
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔اقوامِ عالم کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔‘‘ نواز شریف (15جولائی 2014ئ) محترم میاں نواز شریف صاحب کا یہ جملہ بہت خوب صورت ہے۔ فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی میں پیش پیش ہے۔ایسے ہی کچھ خوب صورت جملے محترم میاں صاحبہ عافیہ صدیقی کے بارے میں بھی فرما دیتے تو اچھا تھا، لیکن میاں صاحب ان دنوں سیاسی قلا بازیوں میں اُلجھ گئے ہیں… ایک تو یہ سیاسی قلابازیاں ہمیں سانس نہیں لینے دے رہیں۔ امریکا میں انتخابات ہوتے ہیں… اس کے بعد بننے والے حکمران کو حکومت چلانے کا بھر پور موقع دیا جاتا ہے… پورے ملک میں کوئی حکمران کی ٹانگیں نہیں کینچتا … بھارت میں انتخابات ہوتے ہیں… کامیاب ہونے والے صدر کو حکومت کرنے کا پور ا پورا موقع دیا جاتا ہے…کوئی اس کی ٹانگ تو کیا، بازوبھی کھینچنے کی کوشش نہیں کرتا… ایک ہم ہیں، ہمیں ٹانگیں کھینچنے کے سوا لگتا ہے کچھ آتا ہی نہیں۔
ملک میں جو اس وقت افراتفری ہے… لوڈ شیڈنگ کی کار فرمائی ہے…جو مہنگائی ہے اور جتنے بھی مسائل ہیں… ان سب مسائل کے پسِ منظر میں ٹانگیں کھینچنے کا یہ عمل بھی ایک وجہ نظر آئے گی… کیونکہ حکمران پُرسکون ہو کر کام کرنے کے قابل ہوں گے تو ملک کا کچھ بھلا ہوگا… جبکہ حال یہ ہے کہ انہیں دن رات سکون کا سانس لینا بھی میسر نہیں… سب سے بڑی فکر تو انہیں اپنے اقتدار کی لگی رہتی ہے کہ نہ جانے کب ہمارے اقتدار کی بھی ٹانگیں کھینچ لی جائیں…یہ فکر باقی سب فکروں پر حاوی ہے… یہ والی ٹانگیں کھینچ لینے والی قوت ایک طرف موجود ہے تو دوسری طرف سیاست دان اپنے اپنے حصے کی ٹانگیں کھینچ

لینے کی فکر میں ہیں، ان میں محترم عمران خان اور علامہ طاہر القادری پیش پیش ہیں۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے دوسرے سیاست دان بھی پرتولے ہوئے ہیں اور اب تو لگتا ہے، محترم زرداری صاحب بھی ان کا ساتھ دینے پر غور کرنے لگے ہیں۔
ان کے تازہ ترین بیان نے سبھی کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، لیکن جہاں دوسروں کو حیرت میں مبتلا کیا ہے وہاں حکمرانوں کو شاید سکتے میں مبتلا کردیا ہے…اس جملے کے ساتھ شاید احتیاطاً لگا دیا گیا ہے تاکہ سندر ہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ ایک طرف میاں صاحب کے عوام ہیں۔ ان کی چیخ وپکار جاری ہے، شاید مون سون کی بارشوں کی تیز آوازوں میں یہ شور کچھ ہلکا پڑ جائے اور اس طرف سے سکون کے کچھ سانس وزیر اعظم لے سکیں… ایک طرف ضرب عضب جاری ہے… عضب ذرا مشکل سا لفظ ہے… بہتر تھا کہ اس آپریشن کا نام ضربِ غضب رکھ دیا جاتا،پڑھنے اور بولنے میں سب کو آسانی رہتی… اب جب عضب بولا جاتا ہے تو زبان کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے… اس سے بہتر نام تو آپریشن ضربِ مومن ہے، خیر یہ تو ہمارے کمانڈر انچیف کی پسند کا معاملہ ہے… انہیں ضرب عضب اچھا لگا ہو، سو یہ نام رکھ دیا گیا… ہمیں ضرب عضب کے نام پر اصولی طور پر اعتراض نہیں… تلفظ کی ادائیگی پر بات کی ہے… محسوس نہ کیا جائے۔
ضربِ عضب بھی میاں صاحب کو سکون کا سانس شاید نہ لینے دے… کیونکہ دہشت گردی تو اب ان کے گھر تک پہنچ چکی ہیں، بلکہ زیادہ مناسب لفظ دہلیز ہے… جی ہاں… دہشت گردی ان کی دہلیز تک پہنچ گئی ہیں… کل ( یعنی مورخہ 17 جولائی 2014ئ) کا واقعہ پڑھ کر تو میں حیرت زدہ رہ گیا… یہ واقعہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے: ’’تم لوگ شمالی وزیر ستان پہنچ گئے ہو تو کیا ہوا… ہم بھی تو تمہاری دہلیز تک پہنچ ہوئے ہیں… ‘‘ مقابلہ سخت ہے… بلکہ سخت تر ہے…ادھر اس آپریشن کے عقب میں یعنی ضربِ عضب کے عقب میں جو لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں… ان کا کیا بنے گا… آپریشن سے پہلے ان کے بارے میں سوچ لیا جاتا تو بہتر تھا… جب یہ لوگ آپریشن کے بعد واپس جائیں گے تو کیا ہوگا… آپریشن عضب تو ختم ہوچکا ہوگا…
اس وقت آپریشن غضب شرو ع ہوگا… اﷲ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے… حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں… آیندہ آنے والے 4 سال میاں صاحب کے لیے صرف اور صرف مشکلات کا پیغام دے رہے ہیں… ہم نے ان کی حکومت شروع ہوتے ہی ایک کالم لکھا تھا… اس میں ایک سیدھا ساد ا اور بہت ہی آسان سا نسخہ تھا… لیکن آسان اور سیدھے نسخوں کو آج کل کون پسند کرتا ہے… آسان اور سیدھے نسخے تو آج کل اگر کوئی ڈاکٹر لکھ دیتا ہے تو لوگ اسے بھی پسند نہیں کرتے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس ڈاکٹر کو آتا جاتا کچھ نہیں، کسی سپیشلسٹ کو دکھائو… اب اسپیشلسٹ صاحب فوراً حکم دیتے ہیں… سٹی اسکین کراکے لائیں، خون ٹیسٹ کرائیں، الٹر ا سائونڈ کرائیں اور بھی زمانے بھر کے ٹیسٹ کرائیں… تب نسخہ لکھو ں گا… یہ نسخہ تمام نسخوں پر بھاری ہے… لوگ ایسے نسخوں سے بہت خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے بڑا ڈاکٹر… ہماری قوم دراصل آج کل ان بڑے سیاسی ڈاکٹروں کے جال میں آگئی ہے اور برُی طرح پھڑ پھڑا رہی ہے…
بہتر تھا، میاں صاحب اس سادہ نسخے پر عمل کرلیتے کہ اس میں سب کا بھلا تھا، وہ سیدھا سادہ نسخہ یہ تھا… میاں صاحب! آپ عوام کے بن جائیں… عوام آپ کے بن جائیں گے… پھرکوئی آپ کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش نہیں کرے گا، پھر آپ پانچ کیا دس سال حکومت کرلیجیے گا… آپ مسلمانوں کے امیر المؤمنین بن جائیں… ساری قوم آپ کے ساتھ ہو گی… لیکن اسپیشلسٹ کی ڈگریوں کے بغیر نقّار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے… لہٰذا اب میاں صاحب آپ جانے… نقار خانہ جانے… ہم نے تو اپنا دھکڑا سنا کے رکھ دیا… چلتے چلتے یہ ضرور کہے دیتے ہیں… آپ صرف اور صرف اﷲ کے ہو جائیے… پھر دیکھیے… کیا ہوتا ہے… کیونکہ جو اﷲ کا ہو جاتا ہے… سب اس کے ہو جاتے ہیں اور جو امریکا کا ہوجاتا ہے… سب اس کی ٹانگیں کھینچتے ہیں… اﷲ حافظ!

عید کا انتظار

یہ عید بھی عجیب چیز ہے۔، ہر سال ہی آجاتی ہے اور شاید جتنا انتظار ہم عید کا کرتے ہیں ، اتنا رمضان کا نہیں کرتے ، چنانچہ ہوتا یہ ہے ہمارے نہ چاہنے کے باوجود رمضان صاحب چپ چپاتے آدھمکتے ہیں اور پورے مہینے کا انتظار ساتھ لے آتے ہیں… جی ہاں! ادھر ہم پہلا روزہ رکھتے ہیں اور ادھر کہتے سنائی دیتے ہیں : ’’بس ! عید میں صرف 28 دن رہ گئے۔‘‘ کچھ بھلے مانس 29 کا ہندسہ بھی بول جاتے ہیں جس پر دوسرے انہیں گھور نے لگتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں : ’’28 کہتے تمہیں موت آتی ہے کیا۔‘‘ انتظار 29 دن کا ہو یا 28 دن کا، بہت مشکل ہے… وہ بھی عید کا انتظار… ایک ایک روزے کو بار بار گنا جاتا ہے… یعنی آج اٹھارہواں روزہ ہے نا… نہیں یار… سترہواں ہے… یہ کہنے والے کو تیز نظروں سے گھورا جاتا ہے… کہ اس نے اٹھارہویں کو سترہواں کیوں بنادیا…؟ بعض لوگ تو ایسے جواب پر کھاجانے والی نظروں سے گھورتے ہیں ۔
ویسے آپ کو سچی با ت بتائے دیتاہوں… عید اپنے ساتھ بے شمار خوشیاں لاتی ہے ، لیکن ان بے شمار خوشیوں میں جو خوشی سب سے وزنی ہے، وہ ہے روزوں کے ختم ہونے کی خوشی… حقیقت یہی ہے کہ اگر روزے ختم ہونے کی خوشی اس خوشی میں شامل نہ ہو تی تو عید کی خوشی ماند پڑجاتی… یا یوں کہہ لیں کہ پھیکی پڑ جاتی… مطلب یہ کہ یا ر لوگ روزوں سے فراغت کی خوشی کو عید کی خوشی کا نام دے دیتے ہیں…
اس خوشی میں ایک بات عجیب ہے… بلکہ غریب بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم لاکھ خوش ہوں… عید کی خوشیوں مںک سر شار ہوں… پھولے نہ سما رہے

ہوں ، اپنے سارے ہی شوق پور ے کر رہے ہوں… لیکن کسی کونے سے، کسی کھدرے سے، بالکل غیرمحسوس طور پر ایک ہلکا سا، بالکل مہین ساغم آدھمکتا ہے… اس قدر غیرمحسوس طور پر کہ ہمیں پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ غم کس طرف سے اچانک آنکلا ہے… اور وہ غم ہے اپنے بچھڑجانے والے پیاروں کا غم… ہر عید کے موقعے پر بچھڑے ہوئوں کا غم ضرور تشریف لے آتا ہے اور عید کی تمام تر خوشیوں پر… .
بہت وزنی اور قیمتی خوشیوں پر… ان خوشیوں پر جن کی تیاری ہم نے پورا مہنا کی تھی… روزے رکھ رکھ کر نہیں ، خریداری کر کر کے بھاری بھر کم خوشیاں خریدیں تھیں… بھاری بھر کم اس لیے بھی کہ ان خوشیوں کو خریدنے کے لیے ہم نے بھاری بھاری جیبیں جو ہلکی کی تھیں…
ان بھاری بھر کم خوشیوںپر وہ بالکل ہلکا سا ، مہین سا غم حاوی ہو جاتاہے… تمام خوشیوں کو ایک لخت سمیٹ لے جاتا ہے… پل بھر کو یوں لگتا ہے جیسے ہم حد درجے غمگین ہوں اور عید کی کوئی خوشی ہمیں جیسے چھو کر بھی نہ گزری ہو… ہم غم کے بوجھ تلے دبتے اور دبتے ہی چلے جا تے ہیں… لیکن پھر بچوں کا شور ہمیں واپس نئی دنیا میں لے آتا ہے… بچھڑنے والوں کا غم گویا پر لگا کر اڑ جاتا ہے ، اور ہم پھر سے خوشیوں کے جھولوں میں جھولنے ، مسکرانے اور ہنسنے لگ جاتے ہیں… طرح طرح کے پکوان ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں… ان کی خو شبوئیں بچھڑنے والوں کے غم کو اپنے ساتھ ملا کر اڑالے جاتی ہیں… اور ہم ان کھانوں یا ملنے کے لیے آنے والوں سے اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ہمارے آس پاس عید کی خوشیاں ہی رہ جاتی ہیں… لگتا ہے… انسان صرف محسوسات کے خول اوڑھے ہوئے ہے… ہوا کے جھونکے سے کوئی خول اڑ جاتا ہے تو پیچھے سے دوسر ا نکل آیا ہے… ویسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
شب ِغم سے کہہ دو ، دبے پائوں گزرے
چراغوں کی لو جھلملانے نہ پائے
خوشی کا یہ دن… یعنی وہ دن جس کا ہم نے پورے ایک ماہ انتظا ر کیا تھا… ایک ایک روزے کو کئی کئی بار گن گن کر کاٹا تھا… وہ اس طرح یک دم گزر جاتا ہے کہ جیسے ہماری زندگی میں آئے بغیر ہی ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گیا ہو… اور دوسرے دن پھر اپنی زندگی کا وہی معمول… زیاد ہ سے زیادہ کوئی دوسرے دن بھی عید کی خوشیاں محسوس کر لیتا ہے… تیسرے یا چوتھے دن تو پھر دفاتر کھل جاتے ہیں اور ذہنوں میں یہ تک سوار ہو جاتا ہے کہ لو بھیت… رمضان کے آنے میں صرف گیارہ مہینے ر ہ گئے ہیں… اُف رمضا ن تو بس آیا ہی کھڑا ہے…
گیارہ مہینے ہم رمضان کے مہینے کا انتظار نہیں کرتے ، لیکن وہ پھر بھی آجاتا ہے… اور رمضان کا پور ا مہینہ ہم عید کے دن کا انتظا رکرتے ہیں او ر وہ آکر ہوا کے جھونکے کی طرح گزر جاتاہے… کبھی محسوس کیا آپ نے… یہ سب کیا ہے…؟ اور کیوں ہے…؟ یہ سب دنیا میں کھو جانے کی بات ہے… اگر ہم دنیا میں کھوئے ہوئے نہیں ہیں تو پھر تو ہونا یہ چاہیے… کہ ہم گیارہ مہینے رمضان کے مہینے کا گن گن کر انتظار کریں اور رمضان کے گز رجانے کا غم محسوس کر یں اور غم اس قدر وزنی ہو… اس قدر حاوی ہو کہ عید کی تمام خوشیوں پر حاوی ہو جائے۔ ایسا حاوی ہو جائے کہ عید کی خوشیاں سرے سے ہمیں محسوس ہی نہ ہوں…لیکن ایسا نہیں ہے ، ایسا نہیں ہوتا… عید کی خوشی قدرتی ہے… ہونی چاہیے… لیکن یہ دیرپا بھی ہونی چاہیے… اس کا اثر اس قدر دیرپا ہو کہ اگلی عید تک ہم محسوس کرتے رہیں… یہ مشکل نہیں، نا ممکن نہیں… ہم خوشی کے اس دن کو پائیدار بنا سکتے ہیں… اس دن کی خوشیوں کو مستقل بناسکتے ہیں… اتنی خوشی بھی کوئی خوشی ہے… خوشی تو وہی ہے جو سارا سال رہے… یہاں تک کہ پھر عید کا دن آجائے…
عید کے دن کی خوشیوں کو آپ مستقل بنا سکتے ہیں… پائیدا ربنا سکتے ہیں… آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں ، یہ تجربہ زیادہ مہنگا بھی نہیں… نسخہ سستا ہے… آپ دوسروں کو خوشی دیں… آپ کو حقیقی خوشی محسوس ہونے لگے گی… اس خوشی میں جب تک دوسروں کو شامل نہیں کریں گے… کچھ نہیں ہو گا… عید کے دن کی خوشی عارضی ہی رہے گی… میں آپ کو مستقل خوشی کی دعوت دیتاہوں…