جب علم کاسورج غروب ہوا

جب علم کاسورج غروب ہوا
خلافت کا فیصلہ کرنے کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمر وبن عاصؓ کو حَکم مقرر کیا گیا تھا، یعنی یہ دونوں حضرات مل کر فیصلہ کریں گے کہ حضرت علیؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ میںسے کون خلیفہ ہوں گے۔ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے ایک اچھی بھلی تعداد نے ان دونوں حضرات کو حکم مقرر کرنے کو نا پسند کیااور لشکرسے الگ ہو گئے… یہ لوگ اسی وقت وہاں سے چلے گئے… ان کی تعداد بارہ ہزار بتائی جاتی ہے… ان کا کہنا تھا، دین کے معاملات میں کسی کو حکم مقرر نہیں جا سکتا… اور ایسا کرنا کفر ہے… ان لوگوں نے حضرت علیؓ کے لشکر سے علیحدہ ہونے کے بعد دوسرے لوگوں سے یہ پوچھنا شروع کیا… ’’تم حکم مقرر کرنے کوکفر کہتے ہو یا نہیں۔‘‘ اب جو ان کی بات کے جواب میں کہتا، ہاں حکم ماننا کفر ہے، اسے تو یہ لوگ چھوڑ دیتے اور جو کہتا، حکم ماننا کفر نہیں ہے تو اسے قتل کر دیتے… اس طرح ان لوگوں نے کچھ لوگوں کو قتل کر دیا
… یہ خبریں حضرت علیؓ تک پہنچیں تو آپ نے حضرت امیرمعاویہؓ کے بجائے، ان لوگوں سے جنگ کا فیصلہ فرمایا، چنانچہ آپ نے پہلے ایک قاصد ان کی طرف روانہ فرمایا۔ ان لوگوں نے قاصد کی بات سننے کی بھی زحمت نہ کی اور اسے قتل کر دیا… قاصد کے قتل کی خبر سنتے ہی حضرت علی فور ی طورپر ان کی طرف روانہ ہوئے… آپ نے نہروان کے مقام پر پہنچ کر پڑائو ڈالا… اس مقام پر آپ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور حضرت قیس بن عبادہؓ کو خارجیوں کے پا س بھیجا تاکہ ان سے بات کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں… خارجیوں نے ان کی بات بھی نہ سنی… اب حضرت علیؓ نے ان کی طرف سے ایک

آدمی کو بلایا تاکہ خود بات کریں… جو شخص آیا، اس کا نام ابن الکوا تھا… آپ نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی… لیکن ان لوگوں کے دل پتھر ہو چکے تھے… سمجھانے کی ہر کوشش ناکام رہی… آخر حضرت علیؓ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا
… خارجیوں کا سردار عبداللہ بن وہب راسبی تھا… دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے… جنگ شروع ہوئی… اور بہت ہو لناک جنگ لڑی گئی… خارجی مرنے مارنے پر تلے ہوئے تھے… اور کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے… البتّہ جنگ سے پہلے بہت سے خارجی جان بچانے کے لیے میدان سے کھسک گئے تھے، باقی وہ تھے جنھوں نے آخری دم تک لڑنے کا فیصلہ کیا تھا… جب جنگ شروع ہوئی، اس وقت عبدا للہ بن وہب راسبی کے ساتھ صرف چار ہزار خارجی رہ گئے تھے… سب کے سب میدان میں ڈٹے رہے۔ ایک ایک کر کے قتل ہوتے چلے گئے… یہاں تک کہ سب کے سب قتل کر دیے گئے… جنگ ختم ہوئی تو میدان خا رجیوں کی لاشوں سے پٹا پڑا تھا… حضرت علیؓ ان لاشوں میں کسی کو تلاش کرنے لگے… لوگ حیران ہوئے کہ آپ کیا تلاش کر رہے ہیں… آپ ایک ایک مقتول کود یکھتے پھرتے رہے… پھر اچانک آپ کے منہ سے بلند آواز میں نکلا۔ ’’اللہ اکبر !اللہ کے رسول نے بالکل درست فرمایا تھا۔‘‘ اس وقت آپ نے بتایا کہ حضوربنی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا تھا… ’’کچھ لوگ تم سے جنگ کریں گے… ان میں سے ایک کا حلیہ ایسا ایسا ہو گا۔
‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس کا مکمل حلیہ بیان فرمایا تھا… اس وقت حضرت علیؓ اس پیش گوئی کی بنیاد پر اس حلیے والے شخص کو تلاش کر رہے تھے…۔ اس کے مل جانے پر آپ نے یہ الفاظ ادا فرما ئے تھے… اس جنگ کا نام جنگ نہروان ہے… ا س سے فارغ ہو کر حضرت علیؓ نے پھر شام پر چڑھائی کا ارادہ فرمایا، اس موقعے پر اشعت بن قیس نے کہا: ’’اے امیر المومنین ! ہمارے ترکش خالی ہو گئے، تلوار وں کی دھاریں مڑ گئیں، نیزوں کے پھل خراب ہو گئے، اس لیے آپ جنگ سے پہلے ہمیں تیاری کی مہلت دے دیجیے… آپ نے انہیں مہلت دی اور نخیلہ کے مقام پر پڑائو فرمایا۔ آپ کے ہمراہی جنگوں سے تنگ آچکے تھے، لہذا رات کی تاریکی میں وہاں سے کھسکنے لگے… یہاں تک کہ آپ کے ساتھ صرف ایک ہزار افراد رہ گئے… یہ دیکھ کر آپ نے شام پر چڑھائی کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس کوفہ چلے آئے

… اس جنگ کے بعد آپ کے دن رات بغاوتوں کے خلاف کوششیں کرنے میں بسر ہوتے رہے… دوسری طرف حضرت امیر معاویہؓ برابر اپنی طاقت بڑھا رہے تھے۔ اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہو رہے تھے، ان حالات میں آپ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا… جس کا ذکر کرنے کے لیے آج کا یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔ نہروان کی جنگ کے بعد کچھ خارجی حج کے موقعے پر جمع ہوئے… انہوں نے اس وقت کے حالات پر بات کی… یہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک تین آدمی زندہ ہیں، اسلامی دنیا کو جنگوں سے نجات نہیں مل سکتی… اور وہ تین حضرت علیؓ، حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمروبن عاصؓ ہیں… اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد ان میں سے تین آدمی ان تین حضرات کے قتل پر تیار ہو گئے… ان میں ایک عبدا لرحمن بن ملجم تھا… اس نے کہا: ’’میں حضرت علیؓ کو قتل کروں گا۔‘‘ دوسرے کا نام نزال تھا… اس نے کہا: ’’میں حضرت امیر معاویہؓ کو قتل کروں گا۔‘‘ تیسرے کا نام عبداللہ تھا… ا س نے کہا: ’’میںحضرت عمرو بن عاصؓ کو قتل کروں گا۔‘‘ یہ ذمے داری لینے کے بعد تینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہو گئے… رمضان 40ہجری میں تینوں نے ایک ہی روز صبح کے قت ان تینوں حضرات پر حملے کرنے کا پروگرام ترتیب دیا… جیسے آج کل تخریب کار پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور ملک میں انتشار پیدا کر تے ہیں۔
نزال نے حضرت امیرمعاویہؓ پر وار کیا، لیکن اس کا وار اوچھاپڑا… آپ بچ گئے… حضرت عمر وبن عاصؓ اس روز نماز کی امامت کے لیے آہی نہ سکے… ان کی جگہ نماز پڑھانے کے لیے جو صاحب مصلّے پر آئے… عبداللہ نے ان پر وار کیا۔ وہ صاحب عمر وبن عاصؓ کی بجائے شہید ہوگئے۔ حضرت علیؓ کے دن پورے ہو چکے تھے… آپ امامت کے لیے مسجد میں تشریف لائے… عبد الرحمن ابن ملجم پہلے ہی مسجد میں آکرلیٹا ہو اتھا… آپ نے اسے لیٹے ہوئے دیکھا تو اٹھا دیا… آپنے نماز شروع کی… جب سجد ے میں گئے تو اس بد بخت اور بزدل نے نماز کی حالت میں تلوار کا وار آپ پر کیا… اس کا وار سر پر لگا… وار کرنے کے بعد اس نے بھاگنے کی کوشش کی… لیکن لوگوں نے اس کی کوشش ناکام بنا دی… اسے گرفتار کر لیا
… حضرت علیؓ اس کے وار سے شدید زخمی ہوئے تھے… تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی… آپ کو اٹھا کر گھر لایا گیا… آپ نے فوراً ہی محسوس کر لیا کہ اس زخم سے وہ بچ نہیں سکیں گے… اس لیے آپ نے فوراً حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بلا لیا… انہیں نصیں ںپ شروع کیں… محمد بن حنفیہ سے اچھا سلو ک کرنے کی نصیحت فرمائی… جندب بن عبداللہ نے پوچھا: ’’امیر المومنین ! آپ کے بعد ہم لو گ حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔‘‘ جواب میں آپ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہتا، تم لوگ خود اس معاملے کو طے کرنا۔‘‘ آپ نے اپنے قاتل عبدا لرحمن بن ملجم کے بارے میں فرمایا: ’’اسے اچھا کھانا کھلائو، اسے نرم بستر پر سلائو، اگر میں زندہ بچ گیا تو اسے معاف کرنے یا بدلہ لینے کا اختیار مجھے ہو گا… اگرمیں مر گیا تو اسے مجھ سے ملو ادینا… یعنی قتل کر دینا… میں اللہ کے سامنے اس سے جھگڑ لوں گا۔‘‘ اسی روز یعنی جس روز آپ پر وار کیا گیا، 20رمضان 40ہجری، جمعے کی رات کو آپ اپنے اللہ سے جا ملے… علم اور فیض کایہ سورخ غروب ہو گیا… خلافت کے بارے میں آپ نے یہ فرمایا تھا، تم جسے چاہو، اس کے ہاتھ پر بیعت کر لینا، اس سے مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ آپ نے حضرت حسن کی بیعت کی اجازت دی ہے، چنانچہ لوگ حضرت حسنؓ کے پاس آئے۔ ان سے بیعت ہونے لگے… آپ ان سے فرماتے جاتے تھے: ’’میرے کہنے پر عمل کرنا،جس سے میں صلح کروں، اس سے تم صلح کرنا اور جس سے میں جنگ کروں، تم بھی اس سے جنگ کرنا۔
‘‘ ان حالات میں حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے آپ کو پیغام ملا: ’’صلح جنگ سے بہترہے۔ آپ کے لیے بہترہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرکے میرے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔‘‘ اس موقعے پر خارجیوں اور منافقوں نے یہ بات مشہور کر دی کہ حضرت حسنؓ حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرنا چاہتے ہیں، ان ظالموں نے اس بات کو ا س قدر اچھالا کہ حضرت حسنؓ کے لشکر میں ہل چل مچا دی… وہ دوحصّوں میںبٹ گئے اور آپس میں ہی لڑنے لگے… یہاں تک کہ کچھ لوگ حضرت حسن کے خیمے میں گھس گئے… انہوں نے آپ کا لباس پکڑ کر کھینچا، یہاں تک کہ آپ کا لباس تارتار ہو گیا… وہ لو گ آپ کی چادر اور خیمے کی ہر چیز لوٹ کر لے گئے… ان حالات میں حضرت حسنؓ نے قبیلہ ربیعہ اور ہمدان کو آواز دی… یہ دونوں قبیلے آپ کی مدد کو آگئے… انہوںنے شر پسندوں کو آپ کے پاس سے ہٹا دیا… اس واقعے کے بعد آپ مدائن کی طرف جا رہے تھے کہ ایک خارجی نے آپ پر نیزے کا وار کیا… نیزہ آپ کی ران میں لگا… آپ کو اٹھا کر مدائن لایا گیا… جراحوں کے علاج کے بعد آپ تندرست ہو گئے، لیکن ان تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد آپ نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کر فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ بہت ہی خوب تھا… کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا تھا… ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گرہوں میں صلح کر ادے گا۔‘‘ حضرت حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے بیعت کے بعد فرمایا تھا: ’’میں مسلمانوں میں فتنوں کو بہت مکروہ سمجھتا ہوں، اپنے جدِ امجد کی امّت میں فتنے اور فساد کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان اور مال محفوظ کرنے کے لیے میں نے حضرت امیرمعاویہؓ سے صلح کی ہے… اور انہیں اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کیاہے… اگر امامت اور خلافت ان کا حق تھا توانہیں پہنچ گیا۔ اگر یہ حق میرا تھا تو میں نے اپنا حق انہیں بخش دیا۔
‘‘ حضرت امیر معاویہؓ نے اس موقعے پر حضرت حسنؓ سے فرمایا: ’’اے ابو محمد ! آج آپ نے ایسی جوان مردی اور بہادری دکھائی ہے کہ آج تک کوئی نہیں دکھا سکا۔‘‘ یہ صلح حضرت علیؓ کی شہادت کے چھ ماہ بعد 41ہجری میں ہوئی… اس لیے 41ہجری کو عام الجماعت کہا گیا یعنی جماعت کا سال… اس صلح کے نتیجے میں حضرت امیرمعاویہؓ پورے عالمِ اسلام کے خلیفہ ہو گئے۔ قریب قریب سبھی نے حضرت امیر معاویہؓ کی خلافت کو تسلیم کر لیا…حضرت حسن کوفے کی سکونت کو چھوڑکر مدینہ منورہ آگئے۔ باقی زندگی آپ نے مدینہ منورہ میں بسر فرمائی… اس صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کی آپس کی 10 سالہ خا نہ جنگوں کا خاتمہ ہوا…