کوئی کام بھی اگر اخلاص للہیت کے بغیر کیا جائے گا تو وہ ایسے عظیم نقصان و
خسارہ کا ذریعہ ہوگا جس کی کوئی نظیر نہیں ملیگی ، بلا فائدہ کی مشقت اور بلا اجر و ثواب کا کام شمار ہوگا اور ایسا کرنے والا اپنے آپ کو خود ہی دوزخ کی آگ میں ڈال دیتا ہے ۔
نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے جن لوگوں کا فیصلہ ہوگا ان میں سے ایک ایسا شخص ہوگا جسے شہید کر دیا گیا ہوگا ، اس کو لایا جائے گا ۔ اﷲ تعالیٰ اسے نعمتیں شمار کرائیں گے وہ سب کا اعتراف کرے گا ، اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے ان کا کیا شکریہ ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ میں نے آپ کیلئے جنگ کی حتیٰ کہ میں شہید ہوگیا ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے جھوٹ کہا بات یہ نہیں ہے تو نے اس لئے جنگ کی تھی کہ یہ کہا جائے کہ تو بڑا بہادر ہے اور دنیا میں تجھے یہ کہا گیا ۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا اور وہ اسے منہ کے بل جہنم میں گرادیں گے ۔
اور ایک شخص وہ ہوگا جس نے علم پڑھا اور پڑھایا ہوگا اور قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کی گئی ہوگی ۔ اسے اﷲ تعالیٰ کے دربا ر میں پیش کیا جائے گا ۔ اﷲ تعالیٰ اس سے بھی اپنی نعمتیں شمار کرائیں گے ، وہ ان سب کا اعتراف کرے گا پھر اﷲ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائیں گے کہ تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میںنے علم حاصل کیا اور اس پر عمل کیا اور آپ کی رضا کیلئے قرآنِ کریم پڑھا ۔ اﷲ تعالیٰ ارشادفرمائیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا تھا تاکہ یہ کہاجائے کہ تو عالم ہے اور تونے قرآنِ کریم اسلئے پڑھا تھا تاکہ یہ کہا جائے کہ تو قاری ہے اور تجھے یہ کہا جاچکا ۔ اور پھر حکم دیں گے اور اسے بھی منہ کے بل جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔
اور ایک شخص وہ ہوگا جس کو اﷲ نے مال و دولت کی خوب فراوانی عطا کی ہوگی ، اور ہر قسم کا مال دیا ہوگا ۔ اسے لایا جائے گا اور اسے اﷲ تعالیٰ اپنے انعامات و احسانات شمار کرائیں گے وہ ان سب کا اعتراف کرے گا ، پھر اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو نے اس کا کیا کیا ؟ وہ کہے گا کہ میں نے کوئی خیر کا ایسا مصرف نہیں چھوڑا جہاں خرچ کرنا آپ کو پسند ہو ، مگر یہ کہ میںنے آپ کی رضا کیلئے وہاں مال خرچ کیا ۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فر مائیں گے : تو نے جھوٹ کہا ، تو نے یہ اس لئے کیا تھا تاکہ یہ کہا جائے کہ وہ شخص بہت سخی ہے اور تجھے دنیا میں کہا گیا ۔ پھر حکم ہوگا اور اسے بھی جہنم کی آگ میں منہ کے بل اوندھا گرادیا جائے گا ۔
غرض عمل کا اصل پیکر وہی ہے جو دل کے کارخانہ میں تیار ہوتا ہے اسی لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر کام سے پہلے دل کی نیت کا جائزہ لے لیا جائے ، اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد یہ نکتہ خود بخود حل ہوجائے گا کہ اسلام نے ہر عبادت کے صحیح ہونے کیلئے ارادہ اور نیت کو کیوں ضروری قرار دیا ہے ۔
شیطان کے فتنہ سے اﷲ کے نیک و مخلص بندے ہی محفوظ رہتے ہیں اور جس روز نہ مال و دولت کام آئے گی نہ آل اور اولاد فائدہ پہنچائے گی اس روز وہی شخص کامیاب ہوگا جو اﷲ کے دربا میں قلبِ سلیم لیکر حاضر ہو ۔ اگر آپ کوئی اچھا کام کریں اور لوگ اس پر آپ کی تعریف کردیں اور آپ کی حیات یا موت کے بعد آپ کے کارناموں کو سراہیں اور آپ کو اس سے خوشی حاصل ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ بشرطیکہ یہ تعریف و توصیف بلاقصد و تمنا کے ہو اور اﷲ آپ کو دنیا ہی میں یہ نعمت عطا کردے اور آپ کے بعد آنے والوں کو آپ سچی زبان سے مدح و سرائی پر مجبور کردے ۔
ہم اﷲ سے دست بدعا ہیں کہ وہ ہمیں حق کی معرفت اور اخلاص کے ساتھ عملِ صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے بغیر اخلاص کچھ بھی نہیں ہوتا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ ہ
’’ اور واقعہ یہ ہے کہ آپ کی طرف بھی اور جو آپ سے قبل گذر چکے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ (اے مخاطب ) اگر تونے شرک کیا تو تیرا عمل (سب ) غارت ہوجائے گا اور تو خسارہ میں پڑ کر رہے گا ، تو تو اﷲ ہی کی عبادت کرنا اور شکر گزار رہنا ۔
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ ہ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ہ
’’ اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں وہ بالکل نزدیکی حاصل کئے ہوتے ہیں ‘‘
ان سے مراد خواص مومنین ہیں جو ایمان قبول کرنے میں سبقت کرتے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ ان کو قرب خاص سے نوازے گا سابقین وہی لوگ ہیں جنہوںنے دنیا میں نیک کاموں کی طرف مسابقت کی ہوگی تو جو آدمی اس دنیا میں اعمال صالحہ کے اندر دوسروں سے آگے بڑھا رہا وہ آخرت میں بھی سابقین میں سے ہوگا کیونکہ آخرت کی جزا عمل کے مناسب دی جائے گی ۔