فضائل مسواک

طہارت و نظافت کے سلسلہ میں رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے جن چیزوں پر خاص طور سے زور دیا ہے اور بڑی تاکید فرمائی ہے ، ان میں سے ایک مسواک بھی ہے ۔
ایک حدیث میں آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت پر بہت مشقت پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنا ان پر لازم کردیتا ۔ مسواک کے جو طبی فوائد ہیں اور بہت سے امراض سے تحفظ ہوتا ہے اس کی وجہ سے آج کل کا ہر صاحب شعور اس سے کچھ نہ کچھ واقف ہے ، لیکن دینی نقطہ نگاہ سے اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کو بہت زیادہ راضی کرنے والا عمل ہے ۔
فضیلت و اہمیت
’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا ۔ دس چیزیں ہیں جو امورِ فطرت میں سے ہیں ، مونچھوں کا ترشوانا ، داڑھی کا چھوڑنا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی لے کر اس کی صفائی کرنا ، ناخن ترشوانا ، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتا ہے اہتمام سے ) دھونا ، بغل کے بال لینا ، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا اور پانی سے استنجاء کرنا ۔ ‘‘ حدیث کے راوی زکریا کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کیں اور فرمایا دسویں چیز بھول گیا ہوں اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے ۔
اس حدیث میں ان دس چیزوں کو ’’ مِنَ الفطرہ ‘‘ یعنی امورِ فطرت میں سے کہا گیا ہے ۔ بعض شارخین حدیث کی رائے یہ ہے کہ الفطرہ سے مراد یہاں سنت ِ انبیاء یعنی پیغمبروں کا طریقہ ہے ۔
انبیاء علیہم السلام نے جس طریقہ پر خود زندگی گذاری اور اپنی اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں یہ دس باتیں شامل تھیں ۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کے متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات سے ہیں ۔
بعض شارخین نے الفطرہ سے دینِ فطرت یعنی دینِ اسلام مراد لیا ہے ۔ قرآن مجید میں دین کو فطرت کہا گیا ہے ۔ ارشاد ہے :
فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۔
’’ لہٰذا تم یک سو ہوکر اپنا رُخ اِس دین کی طرف قائم رکھو ۔ اﷲ کی بنائی ہوئی اُس فطرت پر چلو جس پر اُس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ اﷲ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے،‘‘
اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں دینِ فطرت یعنی اسلام کے اجزاء یا احکام میں سے ہیں ۔
اور بعض شارخین نے الفطرہ سے انسان کی اصل فطرت و جبلت ہی مراد لی ہے اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں انسان کی اصل فطرت کا تقاضا ہیں جو اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ نے اس کی بنائی ہے ۔ گویا جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان اور نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے ، اور کفر و فواحش و منکرات اور گندگی و ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے ۔ اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے مائوف اور فاسد نہ ہوچکی ہو ) تو ان کو پسند ہی کرتی ہے اور حقیقت شناسوں کو یہ بات معلوم اور مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو دین اور زندگی کا طریقہ لے کر آئے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے ۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا : چار چیزیں پیغمبروں کی سنتوں میں سے ہیں ، ایک حیا ، دوسرے خوشبو لگانا ، تیسرے مسواک کرنا ،چوتھے نکا ح کرنا۔
رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اس حدیث میں یہ بتلاکر کہ یہ چاروں چیزیں اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے پیغمبروں کی سنتیں اور ان کے معمولات میں سے ہیں اپنی امت کو ان کی ترغیب دی ہے اور بلاشبہ یہ بڑی مؤثر ترغیب ہے ۔ تعطر یعنی خوشبو لگانا بڑی اچھی صفت ہے ، انسان کے روحانی اور ملکوتی تقاضوں میں سے ہے اس سے روح اور قلب کو ایک خاص نشاط حاصل ہوتا ہے ۔ عبادت میں کیف اور ذوق پیدا ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے دوسرے بندوں کو بھی راحت پہنچتی ہے اس لئے تمام انبیاء علیہم السلام اور اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے سارے اچھے بندوں کی محبوب سنت ہے ۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا اﷲ کے فرشتے جبرئیل جب بھی میرے پاس آئے ہر دفعہ انہوں نے مجھے مسواک کیلئے ضرور کہا ۔ خطرہ ہے کہ (جبرئیل علیہ السلام کی بار بار کی تاکید اور وصیت کی وجہ سے ) میں اپنے منہ کے اگلے حصہ کو مسواک کرتے کرتے گھس نہ ڈالوں ۔
مسواک کے بارہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی بار بار تاکید و وصیت دراصل اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ ہی کے حکم سے تھی اور اس کا خاص راز یہ تھا کہ جو ہستی اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ سے مخاطبہ اور مناجاۃ میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہو اور اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کا فرشتہ جس کے پاس بار بار آتا ہو اور اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے کلام کی تلاوت اور اس کی طرف دعوت جس کا خاص وظیفہ ہو اس کیلئے خاص طور سے ضروری ہے کہ وہ مسواک کا بہت زیادہ اہتمام کرے ۔ اسی لئے رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم مسواک کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت پر بہت مشقت پڑ جائے گی تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حتمی امر کرتا ۔
مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کی نگاہ میں مسواک کی محبوبیت اور اس کے عظیم فوائد دیکھتے ہوئے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے ہر امتی کیلئے حکم جاری کردوں کہ وہ ہر نماز کے وقت مسواک ضرور کیا کریں ۔ لیکن ایسا حکم میںنے صرف اس خیال سے نہیں دیا کہ اس سے میری امت پر بہت بوجھ پڑ جائے گا اور ہر ایک کیلئے اس کی پابندی مشکل ہوگی ۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی ترغیب و تاکید کا ایک عنوان ہے اور بلاشبہ بڑا مؤثر عنوان ہے ۔
اسی حدیث کی بعض روایات میں ’’ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ ‘‘ کے بجائے ’’ عِنْدَ کُلِّ وُضُوْئٍ ‘‘ بھی وارد ہوا ہے اور مطلب دونوں کا قریب قریب ایک ہی ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسواک منہ بہت زیادہ پاک و صاف کرنے والی اور اﷲ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوش کرنے والی چیز ہے ۔
کسی چیز میں حسن کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہ حیاۃ دنیا کے لحاظ سے فائدہ مند اور تمام انسانوں کے نزدیک پسندیدہ ہو ، اور دوسرے یہ کہ وہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کی محبوب اور اجرِ اخروی کا وسیلہ ہو، رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اس حدیث میں بتلایا ہے کہ مسواک میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں اس سے منہ کی صفائی ہوتی ہے ۔ گندے اور مضر مادے خارج ہوتے ہیں ، منہ کی بدبو زائل ہوجاتی ہے یہ اس کے نقد دنیوی فوائد ہیں اور دوسرا اخروی اور ابدی نفع اس کا یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کی رضا حاصل ہونے کا بھی خاص وسیلہ ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ !صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : وہ نماز جس کیلئے مسواک کی جائے اس نماز کے مقابلہ میں جو بلا مسواک کے پڑھی جائے ستر گنی فضیلت رکھتی ہے ۔
ستر اور اسی طرح دوسرے عددمطلق کثرت اور بہتات کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں ، غالباً اس حدیث میں بھی سبعین کا لفظ اس محاورہ کے مطابق کثرت اور بہتات ہی کیلئے استعمال ہوا ہے ۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز کے مقابلہ میں جو بلا مسواک پڑھی جائے بدرجہا اور بہت زیادہ افضل ہے اور اگر سبعین سے مراد ستر کا خاص عدد ہو تب بھی کوئی استبعاد کی بات نہیں ہے ۔
جب کوئی بندہ مالک الملک اور احکم الحاکمین کے دربار عالی میں حاضری اور نماز کے ذریعہ اس سے مخاطبت اور مناجاۃ کا ارادہ کرے اور یہ سوچے کہ اس کی عظمت و کبریائی کا حق تو یہ ہے کہ مشک و گلاب سے اپنے ذہن و زبان کو دھو کے اس کا نام نامی لیا جائے اور اس کے حضور میں کچھ عرض کیا جائے ۔ لیکن چونکہ اس مالک نے اپنی عنایات و رحمت سے صرف مسواک ہی کا حکم دیا ہے اس لئے میں مسواک کرتا ہوں ۔ بہرحال جب کوئی بندہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کی عظمت کے اس احساس اور ادب کے اس جذبہ سے نماز کیلئے مسواک کرے تو وہ نماز اگر اس نماز کے مقابلہ میں جس کیلئے مسواک نہ کی گئی ہو ستر یا اس سے بھی زیادہ درجے افضل قرار دی جائے تو بالکل حق ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے :
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
حدیث میں وارد ہے کہ مسواک کا اہتمام کیا کرو اس میں دس فائدے ہیں ، منہ کو صاف کرتی ہے ، اﷲ کی رضا کا سبب ہے ، شیطان کو غصہ دلاتی ہے ، مسواک کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ محبوب رکھتے ہیں ، اور فرشتے محبوب رکھتے ہیں ، مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے ، بلغم کو قطع کرتی ہے ، منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے ، صفراء کو دور کرتی ہے ، نگاہ کو تیز کرتی ہے ، منہ کے بدبو کو زائل کرتی ہے اور اس سب کے علاوہ یہ ہے کہ سنت ہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل افیون کھانے میں ستر مضرتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا ۔