نبی کریمﷺ کی خصوصیات

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِيَائِ بِسِتٍّ أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ

سیدُناحضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ وجوہ سے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر فضیلت دی گئی ہے مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا اور میرے لئے تمام روئے زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنادی گئی اور مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (یعنی میں خاتم الانبیاء ہوں)

بلاشبہ رسولِ اکرم ﷺ علیہ وسلم محبوبِ دو جہاں، خاتم النبین، اور تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے سردار اور سب سے افضل وبرتر ہیں، اس پر تمام امت کا اجماع ہے،رسولِ اکرم ﷺ نے خود اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اپنی فضیلت واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں، اور (اپنا مقام بیان کرنے میں مجھے) کوئی فخر نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے تمام انبیاء میں ہمارے نبی ﷺ کو بطور خاص کچھ اعزازی خصوصیات سے نوازا اور آپ ﷺ کو ایسی امتیازی خوبیاں عطا کی گئیں، جو آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیا کو حاصل نہیں ہوئیں۔ چنانچہ اس امت محمدیہ کو بھی نبی کریم ﷺ کی با برکت ذات کے طفیل ان فضائل و مکارم میں سے کچھ حصہ مل گیا۔ ان خصائل میں سے چھ وہ جلیل القدرخصلتیں ہیں، جن کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے۔اول حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ•

مجھے اللہ نے جوامع الکلم دیے ہیں۔

پہلی چیز:

جوامع الکلم عطاکئے”کلم“ جمع ہے کلمہ کی، اب جوامع الکلم کا معنی یہ ہے کہ خدا نے مجھے وہ کلمات عطاء فرمائے ہیں جو جامع ہیں۔ کلم اُس لفظ کو کہتے ہیں کہ لفظ ایک ہوتا ہے اور اس کے معانی کئی سو یا کئی ہزار ہوتے ہیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ “الشفاء” میں فرماتے ہیں:

زبان کی فصاحت اور قول کی بلاغت کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ سب سے فائق ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام انتہائی شستہ ورواں، موقع و محل پر کامل منطبق، نہایت مختصر و بامقصد، بہت نکھرا ہوا اور اجلا، معانی کی صحت پر محیط اور تکلف سے یکسر خالی تھا، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں جامعیت بھرے کلمات سے نوازا گیا تھا، ہمارے نبی کو جتنے مسائل چاہیے تھے اگر اللہ اتنے کلمات عطاء فرماتے تو بتائیں ان کلمات کو کون سا پریس چھاپ لیتا، کون سا قلم لکھ لیتا، کون سا سینہ محفوظ رکھ لیتا اور کون سا بندہ پڑھ لیتا؟! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نبی ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قیامت تک کروڑوں مسائل پیش آنے ہیں، اگر اللہ کے نبی کو کروڑوں مسائل کے لیے کروڑوں کلمات عطاء کردیے جاتے تو بتائیں یہ کروڑ کلمات کون سا پریس چھاپتا، کون لکھتا اور کون ان کو پڑھتا؟اللہ نے کرم کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کروڑوں مسائل عطاء فرمائے ان کروڑوں مسائل کے لیے اللہ نے نبی کو کلمات بہت کم عطاء فرمائے، الفاظ تھوڑے ہیں مسائل زیادہ ہیں یہ ہمارے نبی ﷺکی خصوصیت ہے۔ دوم حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ

رعب دے کر میری مدد فرمائی ہے۔

دوسری چیز:

اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی ﷺ کی نصرت کی اور آپ ﷺ کے دشمنوں کے مقابلے میں رعب کے ذریعے آپ کی مدد کی، جو آپ ﷺ کے دشمنوں پر طاری ہو کر انھیں کمزور اور ان کی صفوں کو منتشر کر دیتا، اگرچہ آپ ﷺ ان سے ایک ماہ کی مسافت پر ہوتے۔ ایسا اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کی مدد و نصرت اور اللہ کے دین کے دشمنوں کو رسوا ئی اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی مدد تھی۔

سوم: رسول اللہ !ﷺ فرمایا:

وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ

اللہ نے میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کردیا ہے۔

تیسری چیز:

مالِ غنیمت کے حلال ہونے کا معنی یہ ہے کہ مسلمان میدان جنگ میں کفار کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے اور کافر کا جو مال ان کو جنگ کے بعد ملا یہ ”مالِ غنیمت“ ہے۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے یہ حلال نہیں تھا، پہلے انبیاء علیہم السلام کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ اگر مال غنیمت ملتا تو اس کومیدان میں جمع کرلیتے آسمان سے آگ آتی اس کوجلادیتی، یہ اس بات کی علامت تھی کہ جہادقبول ہو گیا ہے۔ اگروہ آسمان سے آنےوالی آگ اس مال کو نہ جلاتی تویہ اس بات کی علامت ہوتی کہ یہ جہاد قبول نہیں ہوا۔مال غنیمت، جو کفار کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لیے حلال ہے۔ وہ اسے اس طرح تقسیم کریں گے جس طرح اللہ نے بیان فرمایا ہے۔چہارم رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا

پوری زمین کو میرے لیے ”طہور “ یعنی پاک کرنے والا بنادیا ہے۔

چوتھی چیز :

اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لیے کشادگی فرما دی کہ ساری زمین کو اس امت کے لیے مسجد قرار دے دیا۔ چنانچہ ان کے لیے جائز ہے کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے، وہیں نماز ادا کر لیں۔ نماز کی ادائیگی کے لیے کچھ مخصوص جگہیں ضروری نہیں ہیں، جیسا کہ ان سے پہلے کی امتوں کے لیے تھا کہ وہ صرف اپنے کلیساؤں یا گرجا گھرو ں میں ہی عبادت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس طرح اللہ تعالی نے اپنے فضل و احسان کے ساتھ اس امت سے دشواری اور تنگی کو دور کر دیا۔ اسی طرح اس امت سے پہلے کی امتوں کے لوگوں کے لیے صرف پانی ہی حصولِ طہارت کا ذریعہ تھا۔خدانے پوری زمین کومیرے لیے طہور یعنی پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا۔ پہلے نبیوں کے لیے تیمم کی گنجائش نہیں تھی۔ اس امت کے لیے تیمم کی گنجائش موجود ہے۔ پہلے نبیوں کی امت نے وضو کرناہوتا توپانی سے،پہلے نبیوں کی امت نے غسل کرنا ہوتا تو پانی سے،فرمایا:

اس امت نے وضوکرنا ہے اگر پانی نہ ملے توتیمم کر لے، اس امت نے غسل کرنا ہے اگر پانی نہ ملے توتیمم کرلے۔ اُن کو تیمم نہیں دیا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا ہے اور پوری زمین کو ان کے لیے ”طہور“ بنا دیا۔ پچھلی امتوں کے لیےجوکام پانی سے لیا اس امت کے لیے وہی کام مٹی سے لیا ہے۔ جب کہ اس امت میں سے جسے پانی دستیاب نہ ہو، اس کے لیے مٹی کو حصولِ طہارت کا ذریعہ قرار دے دیا گیا۔ اگر ضرر پہنچنے کے اندیشے کی وجہ سے کوئی پانی کے استعمال سے قاصر ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

پنجم: حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً

مجھے پوری کائنات کا نبی بنادیا ہے۔

پانچویں چیز:

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنات کے بھی نبی ہیں، یہ ملائکہ کے بھی نبی ہیں، حور و غلمان کے بھی نبی ہیں، امتوں کے بھی نبی ہیں، یہ انبیاء کے بھی نبی ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ پیدل چلتے تھے،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ خچر پر سفر کرتے تھے،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگوں نے سائیکل پر بیٹھنا شروع کیا،اس دور کے بھی نبی ہیں جب لوگ ریل کارمیں بیٹھے،اس دورکےبھی نبی ہیں جب لوگ جہاز پربیٹھتے ہیں۔ سابقہ انبیا میں سے ہر نبی کی دعوت اس کی اپنی قوم کے ساتھ خاص تھی۔ اللہ تعالی نے اس شریعت کو ہر وقت اور ہر جگہ کے لیے موزوں بنایا ہے۔ اس موزونیت اور کمال کی وجہ سے یہی آخری شریعت ٹھہری؛ کیوں کہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کو ئی نقص پایا جاتا ہے۔ اپنے اندر پائے جانے والے بقا اور ہمیشگی کے عناصر کی وجہ سے یہ ایک جامع شریعت ہے۔

ششم: رسول اللہ!ﷺ نے فرمایا

وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ۔

اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (یعنی میں خاتم الانبیاء ہوں)

چھٹی چیز:

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد کسی قسم کانیا نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر، مرتد، زندیق اور واجب القتل ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیاتِ مبارکہ اور حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وعلی آلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر پختہ ایمان”عقیدہ ختم نبوت“کہلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بار بار تاکید کے ساتھ اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور مختلف تمثیلات کے ذریعے اس اصطلاح کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے جس کے بعد اس لفظ کے معنی میں کسی قسم کی تاویل و تعبیر کی گنجائش نہیں رہتی۔اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاسچاعشق نصیب فرمائے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا سچاغلام بنائے۔ آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ ر ب العلمین

Dars e Hadees Hadith 27 Hadees 27 Attributes of the Prophet نبی کریمﷺ کی خصوصیات Umar Gallery ویڈیو

Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadith 27 Hadees 27 Attributes of the Prophet نبی کریمﷺ کی خصوصیات Umar Gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 12:37

https://youtu.be/rN3z-urOjQc