عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ کَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ۔رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ وہ کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے حسبِ ضرورت رزق عطا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قناعت عطا فرمائی۔‘‘اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
واقعی جس بندہ کو ایمان کی دولت نصیب ہو اور ساتھ ہی اس دنیا میں گزارے کا سامان بھی اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قناعت اور اطمینان کی دولت نصیب فرما دے تو اس کی زندگی بڑی مبارک اور بڑی خوشگوار ہے۔ یہ قناعت اور دل کا اطمینان وہ دولت ہے جس سے ایک فقیر کی زندگی بادشاہ کی زندگی سے زیادہ لذیذ اور پرمسرت بن جاتی ہے۔کسی شخص کے پاس اگر دولت کے ڈھیر ہوں لیکن اس میں اور زیادہ کے لیے طمع اور حرص ہو اور وہ اس میں اضافہ ہی کی فکر اور کوشش میں لگا رہے تو اسے کبھی قلبی سکون نصیب نہیں ہوتا وہ دل کا فقیر ہی رہتاہے لیکن اگر قناعت کی دولت حاصل ہو تو فقر و افلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا۔ دنیا بھر میں ہر پل انسان کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری زندگی آسان ہوتی چلی جاتی اور ہمارے اندیشوں اور تفکرات میں کمی ہوتی جاتی، ہُوا اس کے برعکس ہے۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان ایجادات سے فائدہ اٹھانے کے بہ جائے اس کا سراسر بے جا استعمال کر رہے ہیں اور یہی اصل میں مسائل کا سبب بن گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ ان ایجادات سے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم اپنے آس پاس دیکھ ہی رہے ہیں۔ اگر ہم قناعت اور سادہ زندگی بسر کرنا شروع کردیں تو ہماری زندگی سہل ہوسکتی ہے۔نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم سے کم سامانِ دنیا سے گزر بسر کرنے کو سادگی کہتے ہیں۔ انسان کی خواہشات کا سلسلہ تو لامتناہی ہے۔ سادگی سے مراد یہ ہے کہ ہم خود کو غیر ضروری خواہشات سے روکیں اور اپنی احتیاجات کو بھی ایک محدود دائرے میں رکھیں۔ جو کچھ میّسر ہے، بس اسی پر اکتفا کریں اور یہ بھی تمنا نہ کریں کہ کاش یہ اور وہ بھی میرے پاس ہوتا۔سیدناحضرت ابو عمامہ ایاس بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’ کیا تم سنتے نہیں کہ سادگی اور خستہ حالی بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘
جب قناعت نصیب نہ ہو تو انسان ہر وقت اس غم میں گھلتا اور کڑھتا رہتا ہے کہ یہ نہیں ملا، وہ نہیں ملا، فلاں کے پاس یہ ہے اور میرے پاس یہ نہیں، بس یہی فکر بے شمار دولت کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو بے سکون بنا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت سے بھی بڑی دولت قناعت نصیب فرمائے۔مال ودولت کی حرص عام انسانوں کی فطرت میں داخل ہوتی ہے‘ اگر دولت سے انکا گھر تو کیا جنگل کے جنگل اور صحراء بھی بھرے ہوئے ہوں تب بھی اس انسان کادل قناعت نہیں کرتا۔ یہ انسان اس میں اضافہ اور زیادتی چاہتاہے زندگی کے آخری سانس تک اس کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے۔
سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں۔ ’’یعنی اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری بھی چاہے گا اور آدمی کا پیٹ کوئی چیز بھی نہیں بھرسکتی مگر قبر کی مٹی۔‘‘
دولت کی ہوس جہاں انسان کے لیے دنیا کی بربادی کا نشان ہے وہاں آخرت کی ناکامی ہے لیکن یہی دنیا اور اس کی دولت اللہ کے احکام کے مطابق استعمال کی جائے تو وہ عبادت بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواحکامات دولت کے بارے میں عطا فرمائے ہیں ان کا تعلق اعتدال اور میانہ روی سے ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے، فرمایا:
مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَد۔
جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔
لیکن اگر انسان دولت کو حقوق پورا کرنے میں بھی صرف نہیں کرتا تو اس سے بخل پیدا ہوتا ہے اور ایسے شخص کو بخیل کہاجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ بخل اور ایمان کسی مومن بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے‘‘۔اور اگر انسان بے جا خرچ کرنا شروع کردے تو اسے اسراف اور فضول خرچی کہتے ہیں جس سے اللہ رب العزت نے منع فرمایا:
کلواوا شربوا ولا تسرفوا۔
’’کھاؤپیو لیکن فضول خرچی نہ کرو‘‘۔
شدید ضرورت کے بغیر ادھار کا لین دین اچھا نہیں لیکن بسا اوقات اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے ہر شخص قناعت اور کفایت شعاری سے زندگی گزارے۔
انسان کے پاس جس قدر آمدنی کے وسائل ہوں ان کے ذریعہ حلال مال کما کر اہل و عیال پر خرچ کرتا رہے لیکن اس خرچ میں بھی اعتدال اور میانہ روی شامل رہے، اس سے انسان کو ایک طرف تو سکون ملے گا اور دوسری طرف بیوی بچوں کے اندر قناعت پسندی پیدا ہو گی جو آئندہ چل کر اولاد کی تربیت کا حصہ بن جاتی ہے کہ وہ اولاد خود بھی فضول خرچی سے بچتی ہے لہٰذا انسان اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش میں خرچ کرے، ان کے کھانے، پینے، لباس کے لیے خرچ کرے اور پھر اللہ توفیق دے تو ان کے لیے آسائش بھی مہیا کرے یعنی گھریلو سہولیات کا انتظام کرے جس سے زندگی آرام و راحت سے گزرے اور اسلام نے جائز حد تک زیب و زینت اختیار کرنے کی بھی اجازت دی ہے اس لیے اہل و عیال پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے آرائش کی مد میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ الغرض انسان اپنے اہل و عیال کی رہائش، آسائش اور آرائش پر تو خرچ کر سکتا ہے لیکن ایک چیز سے اسلام نے قطعی طور پر روکا ہے اور وہ ہے نمائش، دکھاوا۔ دوسروں کے اہل و عیال پر اپنے اہل و عیال کی امارت اور اپنی دولت ظاہر کرنا۔
ابوداؤد کی حدیث میں آیا ہے، مفہوم:
’’ سادہ طرز زندگی ایمان کی علامت ہے۔‘‘سادگی سے زندگی بسر کر نے میں نبی اکرم ﷺ ہمارے لیے بہترین اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپؐ نے کھانے پینے، لباس اور رہائش سب میں سادگی کو اختیار کیا تاکہ امت مسلمہ آپؐ کی پیروی اور اقتدا کرے اور آپؐ کی سنت اور طریقے پر چلے۔اگر طرز حیات سادہ نہ ہو اور بود و باش میں سادگی نہ ہو تو اس عارضی دنیا میں انسان کا بنیادی نظریہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہ دنیا تو عارضی قیام گاہ ہے اور اگر اس زندگی میں ہم جہادِ اکبر یعنی اپنے نفس کے ساتھ جہاد نہ کریں اور نفس کو قوی کرتے رہیں گے تو حیات ابدی یعنی حیات بعد الموت کی ابدی راحتوں اور جنت الفردوس کو کیسے حاصل کر پائیں گے۔
تھوڑے میں خوش رہنا سیکھیں:
خوب سے خوب تر کی تلاش نے آج کے انسان کا سکون چھین لیا ہے اکثر گھرانے اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ قناعت پسند نہیں ہوتے۔ قدرت نے آپ کو جس قدر نوازا ہے اسی سے خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق ہی اخراجات کریں۔ قناعت پسندی جو سکون اور آسودگی عطا کرتی ہے وہ اسراف اور بغیر ضرورت کی چیزوں کی خریداری سے بھی نہیں ملی۔
میانہ روی اختیار کریں:
میانہ روی زندگی کے ہرمعاملے میں کامیابی کی کنجی ہے اور کسی بھی چیز کی زیادتی ہمیشہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا کوئی بھی معاملہ ہو میانہ روی ضرور سامنے رکھیں۔ اﷲ ہمیں اپنے محبوب کریم ﷺ کے طفیل سادگی، میانہ روی اور قناعت کی دولت سے سرفراز فرمائے اور تمام عالم کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین
Dars e Hadees Hadith 30 Take simplicity in the flood of inflationمہنگائی کے سیلاب میں سادگی اختیار کر ویڈیو
Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadith 30 Take simplicity in the flood of inflationمہنگائی کے سیلاب میں سادگی اختیار کر. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 10:00