عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ عَلَى غَائِطِهِمَا، يَنْظُرُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى عَوْرَةِ صَاحِبِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَمْقُتُ عَلَى ذَلِكَ،
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں “۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارہ، )
انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں ، یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔
حضرت عباس فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ننگا ہونے سے منع فرمایا ہے، لہذا اس کے ان فرشتوں سے حیا کرو، جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں یعنی کراماً کاتبین، جوتم سے تین ضرورتوں کے وقت علیحدہ ہوتے ہیں :
1۔ قضائے حاجت کے وقت،
2۔ جنابت کے وقت اور
3۔ غسل کرتے وقت۔ (الدرالمنثور: ج 15ص286)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کراما کاتبین بیت الخلاء میں انسان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ بیت الخلاء میں بلا ضرورت باتیں کرنا درست نہیں ، البتہ ضرورت کے وقت بات کرنے کی گنجائش ہے۔
اسی طرح بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنا، کوئی ذکر کرنا، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جاکر مسنون دعاپڑھناجائزنہیں (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارہ، الفصل الثالث في الاستنجاء: ۱/۵۰، رشیدیہ)
اوربیت الخلاء میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا، جس پر لفظِ اللہ یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔
(سنن أبی داوٴد، کتاب الطھارہ، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، ۱/۳، دار ابن الحزم)
اگر یہ چیزیں کسی چیز میں لپٹی ہوئی ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان کے ساتھ بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے؛لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیاء باہر رکھ کے اندر جائیں ۔
کن چیزوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟ کاغذ، کھانے کی چیز، گوشت، درخت کے پتوں ، نجس اشیاء، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ، ٹھیکری، بال اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں ، اس کے علاوہ ہرایسی چیز جوقابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہواور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔ (الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الطھارہ، صفۃ الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیہ)
اگر کوئی شخص پانی سے استنجاء کرنے کے بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرنجاست مخرج سے تجاوز کرجائے اور زائد کی مقدار ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی نجاست اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔
(رد المحتار: کتاب الطھارہ، باب الأنجاس: ۱/۵۲۲، دار عالم الکتب)
قرآن مجید نے اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد اور طرز عمل نے امت مسلمہ کو ہدایت دی کہ اگر بالفرض کسی کا حال یہ ہو کہ اجابت کی خشکی کی وجہ سے ڈھیلے، پتھر وغیرہ کا استعمال کافی ہو، تب بھی وہ پانی سے استنجا کرے اور ہاتھ کو مٹی وغیرہ سے مانجھے۔ پاکیزگی پسندی کا تقاضا یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی طریقہ پسند ہے۔
قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہو کر) غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں ، جنگل میں ہو یا صحرا میں ، تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لیے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔
(صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلہ بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: ۱۴۴، ۱/۶۸، المکتبہ السلفیہ)
اگر کسی گھر میں بیت الخلاء قبلہ ُرو بنا ہوا ہو یا اس طرح بنا ہو کہ قبلہ کی طرف پُشت ہوتا ہو تو اہلِ خانہ پر ٹھیک سمت میں بیت الخلاء بنانا واجب ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلاء میں اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو جائز ہے۔
(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الطھارہ، صفہ الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیہ)
والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لیے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کر کے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں ؛، بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباًبیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں ۔
(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارہ، باب الأنجاس: ۱/۵۵۵، دار عالم الکتب)
جو شخص مرض کی وجہ سے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر نہ ہو تو اس شخص کے تیمار دارقضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بہ وقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ / بستر قبلہ رُ خ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں ۔
اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو؛ تو دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجاء معاف ہے۔
(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الطھارہ، صفۃالاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیہ)
مریض آدمی کے لیے استنجاء کا حکم
ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو؛لیکن اس کی بیوی موجود ہو تو وہ اسے استنجاء اور وضو کرائے اوراگر اس کی بیوی نہ ہو؛ لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کرائے۔ اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہواور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجاء بھی کروائے گااور اگر اس کا شوہر نہ ہو؛ لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہوں تو وہ وضو کرائیں ۔
(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الطھارہ، )
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم: اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ہے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارہ، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث: ۳۴۴، ۱/)
یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا ہر گز جائز نہیں کیونکہ اس سے پانی نجس ہو کر غسل و وضو وغیرہ کے قابل نہ رہے گا جس سے اسے بھی تکلیف ہوگی اور دوسروں کو بھی۔ اور یہ فعل مکروہ تحریمی ہے۔ نبی ﷺ نے ایسے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا جو ٹھہرا ہوا ہو اورجاری نہ ہو۔ کیونکہ اس کی وجہ سے یہ نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ وہ امراض جو پیشاب کے بسبب در آ سکتے ہیں ہر اس شخص کو نقصان دے سکتے ہیں جو پانی کو استعمال کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود پیشاب کرنے والا ہی اس پانی کو استعمال کرے اور اس سے غسل کرے۔ چنانچہ اس کے لیے کیسے روا ہے کہ وہ ایسی شے میں پیشاب کرے جو بعد میں اس کے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ ہو گی۔ اسی طرح نبی ﷺ نے جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ایسا کرنا پانی کو جنابت کی گندگی سے آلودہ کر دیتا ہے۔
حصول طہارت کا بنیادی ذریعہ پانی ہے۔ پانی کے مختلف طریقے سے استعمال کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں پیشاب کرنا ایک پاکیزہ دل اور پاکیزہ فکر و خیال کے آدمی کو ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ اس ناگواری کا احساس عام طور سے اس پانی میں پیشاب کرنے سے ہوتا ہے جو قابلِ استعمال ہو۔ پانی کا تقدس اپنی جگہ مسلّم ہے۔ پانی پر پوری کائنات کی حیات کا دارومدار ہے۔ رسول پاک ﷺ کی یہ تنبیہ ہمیں اسلام کے نظریہ کی بنیادوں سے آگاہ کرتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ پانی کے استعمال میں جس طرح احتیاط لازمی ہے اسی طرح کا تحفظ بھی بھی اہمیت رکھتا ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے مسائل سیکھنےاور نبی پاک ﷺ کےحکموں اور نبی کریم ﷺ کی ہر ہر ادا کو کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Lesson 05 قضاء حاجت کے وقت گفتگو کرنا منع ہے It is Forbidden to Talk While Defecating dars e Hadees ویڈیو
Please watch full video, like and share Lesson 05 قضاء حاجت کے وقت گفتگو کرنا منع ہے It is Forbidden to Talk While Defecating dars e Hadees. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 10:25