سبق نمبر 19: مَوزَوں پر مسح کرنے کے احکام و مسائل

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِى وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ.

سیدناحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ (سنن النسائی ج 1 ص 31)

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مغیرہ پانی والا برتن لے لے۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ لے لیا اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلتے میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے قضائے حاجت کر کے واپس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام میں تیار ہونے والا جبہ زیب تن فرمایا ہوا تھا اس کی آستینیں قدرے تنگ تھیں آپ نے اپنے ہاتھ کو آستین سے نکالنا شروع کیا تو چونکہ وہ تنگ تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو آستین کے اندر والے حصے سے نکالا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی سے نماز والا وضو کیا پھر اپنے موزوں پر مسح کیا اس کے بعد نماز ادا فرمائی۔

سردیوں کے موسم میں موزوں پر مسح اللہ تبارک وتعالیٰ کے ان بے پائیاں احسانوں میں ایک احسان ہے جس پر اہل ایمان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اورموزوں پر مسح کرنا رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل سے بطریق صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مسح کا لغوی معنی ’کسی چیز پر ہاتھ پھیرنا‘ ہے اور شریعت کی اصطلاح میں مسح سے مراد ’تَر ہاتھ کا کسی عضو یا موزوں پر پھیرنا‘ ہے۔ موزوں پر مسح کرنا جائز اَمر ہے اور شریعتِ محمدی میں اس کی اجازت دی گئی ہے کہ سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ۔ یہ حکم دراصل ایک رخصت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کیلئے آسانی فرماتے ہوئے عطا کر رکھی ہے۔

اگر موزے مخصوص شرائط پر پورے اترتے ہوں اور پاکی کی حالت میں پہنے گئے ہوں تو پاوں دھونے کی بجائے ان موزوں پر مسح جائز ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایسے موزے جو پورے چمڑے کے ہوں یا ان کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو یا صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان پر مسح کرنا جائز ہے، اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں :

1 گاڑھے ہوں کہ ان پر پانی ڈالا جائے تو پاوں تک نہ پہنچے.

2 اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی تین میل پیدل چلنا ممکن ہو.

3 سخت بھی ایسی ہوں کہ بغیر باندھے پہننے سے نہ گریں ،

ان پر بھی مسح جائز ہے، ان کے علاوہ اونی سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ، مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے پاوں دھوکر پاکی کی حالت میں موزے پہنے جائیں ، اس کے بعد پہلی بار وضو ٹوٹ جانے پر وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرسکتے ہیں ۔

موزوں پر مسح کی مدت مقیم شخص (جو مسافر نہ ہو) کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے جبکہ مسافر کے لیے مدت تین دن اور تین راتیں ہے۔ حضرت شریح بن ہانی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کرنے کی مدت پوچھی تو آپ نے فرمایا: حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرو کیونکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اکثر سفر میں رہا کرتے تھے۔ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔

(صحيح مسلم، کتاب الطہارہ، باب التوقيت فی المسح علی الخفين، 1: 232، رقم: 272)

یہ حدیث مبارکہ جمہور فقہاء کے مذہب پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ موزوں پر مسح کی درج بالا مدت متعین ہے۔

موزوں پر مسح اس وقت جا ئز ہے جبکہ موزے وضوکرکے پہنے ہوں ، اگر صرف پاؤؐ دھوکر موزے پہن لئے اور باقی وضو نہیں کیا تو اب ان موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ۔

موزوں پر مسح کے دوفرائض ہیں:

(1) موزوں کی اوپر کی جانب مسح کرنا،

(2) ہاتھ کی چھوٹی تین انگلیوں کی مقدار مسح کرنا۔

موزوں پر مسح کرنے کا مسنون ومستحب طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں بھگوکر کھلی ہوئی حالت میں موزوں کے اگلے ظاہری حصہ سے اوپر ٹخنوں سے اوپر تک لے جائیں ، انگلیاں پوری رکھی جائیں ؛ بلکہ اگر انگلیوں کے ساتھ ہتھیلی بھی شامل کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہے ” (بہشتی زیور)

اگر پوری انگلیوں کو موزے پر نہیں رکھا بلکہ صرف انگلیوں کا سرا موزے پر رکھااور انگلیاں کھڑی رکھیں تو یہ مسح درست نہیں ہوا۔ البتہ انگلیوں سے پانی برابر ٹپک رہا ہو جن سے بہہ کر تین انگلیوں کے برابر پانی موزے کو لگ جا ئے تو مسح درست ہوجائے گا۔

اگر تلوے کی طرف یا ایڑی پر مسح کیا یا موزے کے اطراف میں مسح کیا تو یہ مسح درست نہیں ہوا۔

مسح کرنے کے لیے چند شرطیں ہیں :

1.چمڑے کے ہوں یا کم اَز کم تلا چمڑے کا ہو باقی حصہ کسی اور موٹی چیز کا ہو۔

2.موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں ۔

3.پاؤں سے چپٹے ہوئے ہوں کہ انہیں پہن کر آسانی سے چل پھر سکے۔

4.وضو کر کے پہنا ہو۔

5.پہننے سے پہلے جنبی ہو نہ پہننے کے بعد جنبی ہوا ہو۔

6.مقررہ مدت کے اندر پہنے جائیں ۔

7.کوئی موزہ پاؤں کی تین انگلیوں کے برابر پھٹا ہوا نہ ہو۔

مسئلہ:

پاکستان میں جو عموماً سوتی یا اُونی موزے یعنی جرابے پہنے جاتی ہیں اُن پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔ وُضو کرکے پہنا ہو، یعنی پہننے کے بعد اور حدث سے پہلے ایک ایسا وقت ہو کہ اس وقت میں جب وہ شخص با وُضو ہوکر پہنے۔

مسئلہ:

اور اگر صرف پاؤں دھو کر پہنے اور بعد پہننے کے وُضو پورا نہ کیا تو اب وُضو کرتے وقت مسح جائز نہیں ۔

مسئلہ:

وُضو کرکے ایک ہی پاؤں میں موزہ پہنااوردوسرا نہ پہنا، یہاں تک کہ حدث ہوگیایعنی وضو ٹوٹ گیاتو اس ایک پر بھی مسح جائز نہیں دونوں پاؤں کا دھونا فرض ہے۔

مسئلہ:

غسل کرنے والے کے لئے مسح جا ئز نہیں خواہ غسل فرض ہو یا سنت اس کو پیر دھونے ہوں گے۔

مسئلہ ۱۰:

جنبی نے غُسل کیا مگر تھوڑا سا بدن خشک رہ گیا اور موزے پہن لیے اور قبل حدث کے اس جگہ کو دھوڈالا تو مسح جائز ہے اور اگر وہ جگہ اعضائے وُضو میں دھونے سے رہ گئی تھی اور قبل دھونے کے حدث ہوا تو مسح جائز نہیں ۔

کوئی موزہ پاؤں کی چھوٹی تین انگلیوں کے برابر پھٹا نہ ہو یعنی چلنے میں تین اُنگل بدن ظاہر نہ ہوتا ہو اور اگر تین انگل پھٹا ہو اور بدن تین اُنگل سے کم دکھائی دیتا ہے تو مسح جائز ہے اور اگر دونوں تین تین اُنگل سے کم پھٹے ہوں اور مجموعہ تین اُنگل یا زِیادہ ہے تو بھی مسح ہو سکتا ہے۔ سلائی کھل جائے جب بھی یہی حکم ہے کہ ہر ایک میں تین انگل سے کم ہے تو جائز ورنہ نہیں ۔ مسئلہ ۱۴: ایسی جگہ پھٹا یا سیون کھلی کہ انگلیاں خود دکھائی دیں ، تو چھوٹی بڑی کا اعتبار نہیں بلکہ تین انگلیاں ظاہر ہوں ۔

Lesson 19 مَوزَوں پر مسح کرنے کےاحکام و مسائل Rulings and Problems of Anointing the Feet Umargallery ویڈیو

Please watch full video, like and share Lesson 19 مَوزَوں پر مسح کرنے کےاحکام و مسائل Rulings and Problems of Anointing the Feet Umargallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 08:47

https://youtu.be/IgKQwsSQsl0