بیانیہ تبدیل کرنے کے خطرناک نتائج
اوریا مقبول جان پير 15 فروری 2016
تاجکستان کے دارالحکومت سے ایک راستہ قلاب سے ہوتا ہوا افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ دوشنبہ سے قلاب جاتے ہوئے میں ظہر کی نماز کے لیے ایک چھوٹے سے قصبے میں رکا۔ سر راہے مٹی اور پتھروں سے بنی ہوئی ایک مسجد تھی جس میں درختوں کی چھال کی بوسیدہ چٹایاں پڑی تھیں۔ ایک بڑی سی جستی ٹینکی تھی جس سے مخروطی سے لوٹے میں پانی لے کر وضو بناتے تھے۔ مسجد میں ایک نوے سالہ بوڑھا صحن میں بیٹھا چمڑے کے جزدان میں لپٹے ہوئے قرآن پاک کو پڑھ رہا تھا۔
مجھے پانی کی تلاش میں سرگرداں دیکھ کر وہ میری طرف آیا چونکہ ٹینکی کے ساتھ ایک پائپ لگا ہوا تھا جو مجھے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اس پائپ سے اس مخروطی لوٹے میں پانی بھرا اور پھر مجھے مہمان خیال کرتے ہوئے وضو کرانے پر اصرار کرنے لگا۔ میں نے اس کے بڑھاپے کی وجہ سے لوٹا لے لیا اور خود ہی وضو کرنے لگا۔ اس کی تاجکی لہجے کی فارسی اور میری اردو لہجے کی فارسی نے مل کر آپس میں بات کرنے کا راستہ نکال لیا۔
اس نے کہا میری عمر نوے سال کے قریب ہے یا اس سے زیادہ ہے۔ میں ٹھیک اس سال پیدا ہوا جب سوویت انقلاب آیا تھا۔ میرا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ ہم ویسے ہی سادہ سے مسلمان تھے جیسے باقی مسلمان زار روس کی بادشاہی میں زندگی گزار رہے تھے۔ سوویت انقلاب کے بعد ریاست کا بیانیہ بالکل تبدیل ہو گیا اور وہ مذہب کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے۔ تمام مساجد پر تالے لگ گئے، قرآن پاک اٹھا کر ٹرکوں میں ڈال کر لے جائے گئے۔ وہ سرزمین جہاں سے امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین پیدا ہوئے تھے وہاں دینی تعلیم ایک شجر ممنوعہ بنادی گئی۔ دین کے مقابلے میں کلچرل سینٹر قائم کیے گئے۔
روسی معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر ہمیں اپنے ناموں کو بھی بدلنے کو کہا گیا۔ کریم سے کریموف اور نذیر سے نذیروف ہو گئے۔ وہ تمام اساتذہ جو مدارس میں پڑھاتے تھے فیکٹریوں میں مزدوریاں اور کھیتوں میں کام پر لگا دیے گئے۔ میں نے سوال کیا کہ پھر تم نے یہ قرآن پاک کب پڑھنا سیکھا۔ وہ مجھے ساتھ ہی اپنے گھر لے گیا جس کا ایک تہہ خانہ تھا۔ اس نے کہا کہ اس بستی کے بچے ایسے ہی تین چار تہہ خانوں میں چھپ کر قرآن پڑھتے ہیں اور دین کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔
میرے والد کوئی مذہبی آدمی نہ تھے لیکن انقلاب کے آتے ہی اور ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوتے ہی وہ کٹر مذہبی ہو گئے۔ ہمارے باہر بازار میں تمام روسی کمیونسٹوں کی زندگی گزارتے لیکن گھر کی چار دیواری ایک مکمل مسلمان گھرانے کا منظر پیش کرتی۔ ایسے کئی گھر تھے جن کے بچوں کی دینی معلومات کسی بھی مدرسے کے استاد کے برابر تھیں۔ عبادات سے لے کر جہاد فی سبیل اللہ تک ہمیں ہر بات کا علم تھا۔ لیکن ریاست کا کنٹرول اسقدر سخت تھا کہ ہم یہ سب بیان نہیں کر سکتے۔
بدترین ریاستی تشدد سائبیریا کی سرد ترین جیلیں، موت، بلکہ بعض دفعہ تو پورے خاندان کی موت مقدر ہو جاتی اگر تھوڑا سا بھی ہم ریاستی جبر سے متعلق آواز اٹھاتے یا صرف گفتگو ہی کرتے۔ پورے 75 سال ایسے گزرے اور پھر جب سوویت یونین ٹوٹا، ہمیں آزادی ملی تو ہمیں ایک لمحے کے لیے اپنی مساجد دوبارہ آباد کرنے، مدرسے کھولنے اور دین کی تعلیم دینے میں دیر نہ ہوئی جب کہ یہی سب کچھ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ہوا۔ یہودی تو بھاگ لیے اور عیسائی البتہ کمیونسٹ اقدار میں رچ بس گئے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ملحد رہے، سیکولر اور لبرل ہو گئے۔
تاجکستان، ازبکستان اور چیچنیا یہ تین ایسے علاقے ہیں جو پوری دنیا کی نظر میں خطرناک ترین سمجھے جاتے ہیں کہ یہاں سے مجاہدین اٹھ اٹھ کر افغانستان، عراق، بوسنیا اور شام میں جا کر لڑتے ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں 75 سال تک ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر مذہب کے خلاف تھا کہ کارل مارکس مذہب کو افیون قرار دیتا تھا۔ اس ریاست کے بیانیے کے ساتھ ساتھ تمام مدارس مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے تا کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی نہ پھلے پھولے جو کوئی تھوڑا بہت ایسا نظر آتا کوئی گروہ منظم ہونے لگتا تو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا۔
اس سب کے باوجود آزاد ہونے کے بعد تاجکستان اور ازبکستان میں جس طرح اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اس کی تاریخ بہت خون آشام ہے۔ ریاستی طاقت کے مقابلے میں یہ لوگ آج بھی لڑتے چلے آ رہے ہیں۔ تاجکستان میں ازبکستان اسلامی حرکتی کی بنیاد ڈالی گئی جس کی قیادت طاہر یلدشف اور جمعہ غنگاتی کرتے تھے۔ یہ ازبکستان کے حکمران اسلام کریموف کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ تاجکستان کا ماحول اس وقت بہت گرم تھا۔ 1992ء میں رحمانوف نے اسلامسٹوں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور وہاں اسلامک رینائنس پارٹی نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تھیں۔
سعید عبداللہ نوری اس کا سربراہ تھا جس کی پورے ملک میں بہت عزت تھی۔ نوری نے رحمانوف کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا اور تاجکستان کی فوج سے لڑ پڑا۔ آخر کار 1997ء میں صدر رحمانوف اور عبداللہ نوری کے درمیان معاہدہ ہو گیا لیکن ازبکستان کی تنظیم یہاں کام کرتی رہی اور تاشقند کے بازار دھماکوں سے گونجتے رہے۔ دوسری جانب تاجکستان میں آج تک حکومت وہاں پر موجود عسکری گروہوں سے لڑتی رہتی ہے۔ یہی حال چیچنیا کا ہے جہاں روسی افواج کو آئے دن عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سوویت یونین کے یہ تمام علاقے زار روس کے زمانے میں بہت آرام سے اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی ان کا لائف اسٹائل بہت پرسکون تھا۔ ان میں شدت پسندی نام کو بھی نہیں تھی۔ سب کے سب ایک معمول کی زندگی گزار رہے تھے لیکن دو چیزوں نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ ایک جب ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوا اور مسلمانوںکواپنا دین ہاتھ سے جاتا ہوا محسوس ہوا اور دوسرا جب ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان سے ہر وہ شناخت چھیننے کی کوشش کی گئی جسے وہ صدیوں سے اپنے سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ وہ ان کے آباؤ اجداد کی میراث بھی تھی اور مذہب کی علامت بھی۔ بڑے بڑے کلچرل سینٹر‘ نائٹ کلب‘ سستی شراب‘ جنسی آزادی اور ایسا بہت کچھ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور وہ آج دنیا کے خطرناک ترین جہادی افراد کی آماجگاہ تصور کیے جاتے ہیں۔
روس سے علیحدہ ہونے والے یہ ملک تو بسں یوں ہی رنگ‘ نسل اور علاقے کی بنیاد پر تخلیق کیے گئے تھے۔ ان کی بنیاد وہ بیانیہ نہیں تھا جو پاکستان کی تخلیق کی بنیاد بنا۔ ان کی جنگ کسی ایسے دشمن سے نہیں تھی جسے بھارت کہتے ہیں اور جس سے جنگ علاقے کی جنگ نہیں بلکہ کفر اور اسلام کی جنگ تصور کی جاتی ہے اور تمام تقریریں‘ تمام نظمیں اور ترانے جذبہ شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے مامور ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی افواج اور قومیں‘ زمین‘ رنگ‘ نسل اور زبان کے ساتھ ساتھ علاقے کے تحفظ میں تخلیق کی جاتی ہیں اسی لیے ان کے ترانے بھی وطن کی مٹی سے زیادہ نہیں ہوتے۔
ان کا نصاب تعلیم بھی ان کو مٹی اور ثقافت کی محبت کا درس دیتا ہے۔ قومی فوج اور نظریاتی فوج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کو ایک قومی فوج ملی تھی جو برما سے لے کر بیلجئم تک لڑی لیکن تخلیق پاکستان نے اسے ایک نظریاتی فوج بنا دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھارت سے صرف مسلمانوں کے کشمیر کے لیے ہی نہ لڑتی بلکہ تاملوں‘ سکھوں اور ناگا اور میزو لینڈ کے لیے بھی ویسے ہی لڑتی۔ مزید شہادت وہ تصور ہے جو اگر ریاست کا بیانیہ نہ ہو اور نصاب کا حصہ نہ ہو تو آپ اس فوج کو میدان میں نہیں اتار سکتے اسی لیے شہادت کے ترانے ایسے ہوتے ہیں
علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
رسول پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
اگر ریاست کے بیانیے سے جہاد اور جذبہ شوق شہادت خارج کر دیا جائے نصاب کی کتب سے ایسے تمام ہیروز کے تذکرے ختم ہو جائیں۔ وہ نسل جو آیندہ بھارت کے سامنے بندوق اٹھائے‘ اسے ان سب کا علم نہ ہو تو کیا ترانہ ایسے لکھا جائے گا۔
یحییٰ خان تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
ایوب خان نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
ایسا نا ممکن ہے۔ ایسی ترغیب آپ کو کسی بھی میدان میں کام نہ آئے گی۔ دہشت گردی ختم کرو کہ یہ ظلم کی داستان ہے لیکن جس دن آپ نے ریاست کا بیانیہ بدلنے کی کوشش کی یاد رکھو آپ کا بیانیہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے بیانیے سے مختلف ہو جائے گا۔ ایسے میں ایک عام سا سادہ سا‘ مرنجا مرنج مسلمان بھی تاجکستان‘ ازبکستان اور چیچنیا کے مسلمانوں کی طرح شدت پسند بنتا چلا جائے گا۔ پھر ماتم مت کرنا اپنی پالیسیوں پر۔
پروٹو ٹائپ
اوریا مقبول جان جمعرات 11 فروری 2016
رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ ’’کابلی والا‘‘ ایک ایسے دکھ، کرب اور نفرت کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جو پورے برصغیر میں پشتونوں کے بارے میں ایک مخصوص پراپیگنڈے کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا۔ یہ تاثر بھی انگریزوں کی 1857ء کی آخری لڑائی کے بعد نظر آتا ہے‘ ورنہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ قوم ہندوستان کے شہروں میں ایسے مدغم ہو گئی تھی کہ ان کی شخصیات وہاں کی ثقافت، ادب اور معاشرت کی پہچان سمجھی جاتی تھیں۔
شاعری اور ادب کا کونسا بڑا نام ہے جس کا تعلق افغانستان سے نہ ہو۔ ان کے آباء اجداد وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آئے تو ان کی نسلوں سے میر، سودا، ذوق، داغ، غالب اور جوش ملیح آبادی تک اردو کے درخشندہ ستارے پیدا ہوئے۔ لیکن 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز کا جن اقوام نے سامنا کیا اس نے انگریز پر واضح کر دیا کہ دو طبقات ایسے ہیں جن سے نفرت انگریز سرکار کے امن کے لیے ضروری ہے۔
ایک مولوی اور دوسرے پشتون۔ مولوی اس لیے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کا فتویٰ دہلی کی جامع مسجد سے جہاد کی صورت جاری ہوا اور فوج کی سپہ سالاری ایک پشتون جنرل بخت خان کر رہا تھا۔ انگریز نے سب سے پہلے اس جنگ آزادی کو ہندو مسلم مشترکہ لڑائی بنا کر پیش کیا گیا تا کہ لفظ جہاد مسلمانوں کی لغت سے خارج ہو جائے۔
یہ تو بھلا ہو ولیم ڈارلپل کا جس نے طویل تحقیق کے بعد ’’لاسٹ مغل‘‘ تحریر کی اور ثابت کیا کہ 1857ء کی جنگ تو صرف مسلمانوں نے جہاد کے طور پر لڑی تھی اور فتح کے بعد دلی میں وسیع پیمانے پر قتل عام بھی انھی کا ہوا تھا۔ اسی لیے انگریز نے دو کرداروں کو ہمیشہ تضحیک کا نشانہ بنایا، ایک مولوی اور دوسرے پٹھان۔ وہ پٹھان جو برصغیر میں سب سے کامیاب اور عوامی فلاح، گڈگورننس اور انتظامی معاملات میں نابغہ روزگار کے طور پر مشہور شیرشاہ سوری کی ذات میں جلوہ گر ہوا تھا۔
اس پشتون کا تصور اجڈ، گنوار، بے رحم اور ظالم کے طور پر پیش کیا گیا۔ محاورے اور کہانیوں کی کہانیاں تخلیق کی گئیں۔ ٹیگور کی ’’کابلی والا‘‘ ان محاوروں اور کہانیوں کی ضد تھی۔ ایک کابلی والا جو بازار میں ڈرائی فروٹ بیچتا ہے۔ ایک چھوٹی بچی اس سے مانوس ہو جاتی ہے، جسے وہ اپنی بیٹی جو اس کے وطن افغانستان میں ہے، یاد کر کے پیار کرتا ہے، لیکن بچی کی ماں ہمیشہ اس سے خائف رہتی ہے۔
اسی افسانے پر اپنے وقت کی کامیاب فلم کابلی والا بنی تھی جس کا کردار بلراج ساہنی نے ادا کیا تھا۔ کسی ایک قوم کو بحیثیت مجموعی بدنام کرنے، اس کے خلاف نفرت کا تاثر پیدا کرنے اور ان کا ایسا خاکہ لوگوں کے دلوں میں جاگزیں اور ذہن نشین کرنے کا کھیل ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور کی تخلیق کہا جاتا ہے اور اس معاملے میں انگریز کو کمال حاصل تھا۔ فورٹ ولیم کالج میں ہزاروں ایسے محاورے تخلیق کیے گئے جس میں کسی قوم کو بحیثیت مجموعی ایک مخصوص کردار کے ساتھ نتھی کر دیا جائے۔ ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور کا تخلیق کرنے اور اسے دنیا میں عام کرنے کا فن اب ایک سائنس بن چکا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں روس کے کیمونسٹ نظام کے بارے میں کئی سیل منظم تھے جو اس کے بارے میں لطیفے گھڑا کرتے تھے جنھیں ریڈر ڈائجسٹ جیسا معتبر رسالہ بھی بڑے اہتمام سے شایع کرتا تھا۔ روس جب افغانستان میں داخل ہوا تو امریکا پر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی۔
آپ ریگن کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان لطیفوں میں سے کوئی نہ کوئی کسی تقریر میں ضرور ملے گا۔ اسی طرح جیمز بانڈ کی ساری فلمیں اسی پراپیگنڈے اور ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور تخلیق کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔ باقاعدہ افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور دیگر اصناف میں کسی قوم، کسی پیشے سے وابستہ افراد یا پھر کسی مذہب سے وابستہ افراد کا منفی تصور ابھارنے کے لیے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو اس معاملے میں طاق تھا۔ اس نے جس مولوی کا کردار بھی گھڑا اس میں چھپا ہوا ایک شیطان ضرور دکھایا اور جس طوائف کا کردار تخلیق کیا، اسے انسانیت کے کسی اعلیٰ وصف کا حامل فرد دکھایا۔ فلموں میں بھی اسی طرح مخصوص اقوام اور گروہوں کے بارے میں ایک ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور تخلیق کیا جاتا ہے جیسے مراثی کو سردی بہت لگتی ہے اور جولاہے بے وقوف ہوتے ہیں۔ شیخ سعدی جیسا جہاں گرد شخص بھی جب قوموں کے بارے میں مجموعی تاثر تخلیق کرنے لگتا ہے تو افغانوں کو بحیثیت مجموعی رگید دیتا ہے۔
سعدیا روز ازل حسن بہ ترکاں دادند
زلفِ پیچاں، کمرِ نرم بہ ایراں دادند
ناز و انداز و ادا ختم بہ زنان ہند
جہل و نادانی و جنگ بہ افغان دادند
’’سعدی! روز ازل حسن ترکوں کو عطا کر دیا گیا، پیچ دار زلف اور نرم کمر ایرانی حسیناؤں کا حصہ ہوئی، ہندوستان کی عورتوں کو ناز نخرے اور ادائیں ملیں اور افغان قوم کو جہالت، نادانی اور جنگ عطا کی گئی‘‘ دراصل اس قطعے کے پہلے تین مصرعے صرف اور صرف افغان قوم کا ایک منفی تاثر پیدا کرنے کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔
ایرانی ایسا کیوں کرتے تھے، یہ ایک طویل تاریخی بحث ہے۔ لیکن آج بھی کسی قوم کے بارے میں ایسا تاثر بنانا ہو تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی تحریروں کو پیش کیا جاتا ہے جو قوموں سے تعصب کی بنیاد پر لکھی گئیں۔ جدید دنیا میں جس پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کسی قوم کا ایک ’’پروٹوٹائپ امیج‘‘ ’’Prototype Image‘‘ تخلیق کیا جاتا ہے۔
اس کا طریق کار اسقدر حیران کن ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرتا کہ ایسا ایک پلاننگ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس کا آغاز اسکول کی کتابوں سے کیا جاتا ہے۔ کہانیوں کے ساتھ جو تصویریں بنائی جاتی ہیں اس میں منفی کرداروں کا حلیہ بالکل ویسا رکھا جاتا ہے جیسا اس قوم کا ہوتا ہے جس کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ انھیں ویسے ہی کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح انتہائی معصومانہ انداز سے کہانیاں لکھی جاتی ہیں اور منفی کردار اسی قوم یا گروہ سے لیے جاتے ہیں جیسے تاریخ کے دو مزاحیہ کردار دوپیازہ اور نصیرالدین کے ساتھ ملاّ کا لفظ لگا کر تمام ملاؤں کے تمسخر کا انتظام کیا گیا‘ ویسے ہی جدید دور کی ہی کہانیوں میں انتہائی خاموش انداز سے مخصوص گروہوں اور اقوام کے بارے میں منفی کردار گھڑے جاتے ہیں۔
اس کے بعد کارٹونوںکی باری آتی ہے‘ وہاں بھی یہی انداز اپنایا جاتا ہے۔ لباس اور حلیے سے شناخت کروائی جاتی ہے کہ فلاں قوم جاہل‘ اجڈ‘ گنوار یا خونخوار ہے۔ ان دونوں یعنی نصابی کتب اور کارٹون کی دنیا کے دیرپا اور انمٹ نقوش ایک بچے کے ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج آپ دیکھ لیںکہ بچوں کو پینٹ قمیض میں ملبوس شخص مہذب‘ پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ لگتا ہے جب کہ شلوار قمیض والا جاہل‘ گنوار اور پسماندہ۔ یہی فرق کلین شیو اور داڑھی والے کے درمیان پایا جاتا ہے۔
جب بچپن سے آپ نے بچے کے ذہن میں تہذیبی برتری اور تہذیبی پستی ڈال دی‘ اب آپ کھل کھیلتے ہیں۔ ڈرامہ بنائیں‘ فلم بنائیں‘ اشتہار چلائیں‘ جہاں چاہیں اس ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور یا امیج کو ذلیل و رسوا کریں۔ آپ کو کوئی کچھ نہ کہے گا۔ گزشتہ پندرہ سال کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو گروہوں کا ’’پروٹوٹائپ‘‘ تصور منفی طور پر پیش کیا گیا‘ ایک افغان قوم اور دوسرا مولوی۔ آج دنیا بھر کے ہر ملک کی چیک پوسٹ پر اسی حلیے کے لوگ دھر لیے جاتے ہیں‘ قابل تفتیش تصور ہوتے ہیں اس کا تازہ ترین اظہار وہ اشتہار ہے جو دہشت گردوں کے بارے میں ہمارے اخبارات میں شایع ہوا ہے
۔ اس میں کسی مصور نے کمال مہارت اور چابکدستی سے دہشت گردوں کے حلیے اور لباس کو کسی مدرسے کے طالب علم یا مولوی اور پشتون قوم سے ملا دیا ہے۔ ان میں کوئی تصویر بھی ایک عام آدمی یا بچے بوڑھے کے ذہن میںیہ تاثر بنا دینے کے لیے کافی ہے کہ کراچی سے لے کر گلگت تک جو کوئی اس حلیے کا آدمی ٹرک چلا رہا ہو‘ ہوٹل پر کام کرتا ہو‘ جوتے پالش کرتا ہو یا پھر اسی دہشت گردی کے ہاتھوں لٹ پٹ کر کچرا دان پر اپنا رزق تلاش کر رہا ہو‘ وہ مشکوک ہے‘ اس میں ایک دہشت گرد چھپا ہوا ہے۔
اسی طرح مسجد کی طرف رخ کرنے والا تہجد گزار ہو یا راتوں کو گڑ گڑا کر اللہ سے اس ملک کے لیے امن کی بھیک مانگنے والا ہو‘ وہ مشکوک ہے اور ہو سکتا ہے اس نے کمر پر خود کش جیکٹ پہن رکھی ہو۔ آرٹسٹ کو تصویر بناتے وقت بلوچستان کے وہ لوگ یاد نہ آئے جنہوں نے شناختی کارڈ دیکھ کر اس ملک میں قتل کرنے کی رسم کا آغاز کیا۔ بلدیہ فیکٹری کے وہ ظالم اسے بھول گئے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے ظالم ترین فعل کا ارتکاب کیا اور چار سو معصوم اور بے گناہ لوگوں کو زندہ جلا دیا۔
اس لیے کہ اگر مصور ایسا کرتا تو لوگ ہر پتلون اور شرٹ پہننے والے شخص کے بارے میں یہ تاثر لیتے کہ اس کے ہاتھ میں کیمیکل ہے اور وہ کسی گھر پر چھڑکنے والا ہے۔ لیکن یہ ’’پروٹوٹائپ‘‘ تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کے چہرے سنت رسولؐ سے مزین ہیں‘ ماتھے پر سجدے کا نشان ہے اور لباس مقامی‘ یا پھر وہ جو پشتون پگڑی یا ٹوپی اور لباس پہنتے ہیں۔ لیکن تاریخ بڑی ظالم ہے۔ آپ صرف ان قوموں کی تاریخ اٹھا لیں جن کا پروٹوٹائپ تصور منفی تخلیق کیا گیا تو ان کا ردعمل کیسا تھا۔
چین کے باسیوں نے منگولوں کے بارے میں ایسا ہی منفی پروٹوٹائپ تخلیق کرنے میں صدیاں لگائیں اور ردعمل کے طور پر چنگیز خان نے دنوں میں انھیں تاراج کر دیا۔ اس کے سپاہی بیجنگ میں قتل و غارت کرتے ہوئے یہی کہتے پھرتے تھے‘ ہم گنوار ہیں‘ ہم اجڈ ہیں‘ ہم ظالم اور جاہل ہیں بتاؤ ذرا۔ پروٹوٹائپ بنا کر ذلیل و رسوا کرنا آسان ہے لیکن اس کے اجتماعی ردعمل کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل۔ جب آپ ایک قوم کو نفرت کی علامت بنا دیتے ہیں تو اس کا انتقام نسل در نسل چلتا ہے۔
کھیلن کو مانگے چاند
اوریا مقبول جان پير 8 فروری 2016
جلال الدین محمد اکبر کے ہاں جب ہزار منتوں اور مرادوں کے بعد شہزادہ سلیم کی پیدائش ہوئی تو مشہور موسیقار تان سین نے بادشاہ کی اس خوشی کے موقع پر راگ درباری میں جو گیت پیش کیا اس کے بول اور خود راگ درباری آج تک مقبول ہے۔ گیت کے بول تھے ’’انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند، کیسی انوکھی بات رے۔‘‘ شاہی خاندان میں جنم لینے والے تو ایسی انوکھی فرمائشیں کرتے ہی رہے ہیں اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے رعایا کا بھرکس نکالا جاتا رہا ہے۔
کسی کو کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کا شوق ہوتا تو کسی کو باغات اور محلات بنانے کا۔ اقتدار ایک ایسی مسند ہے جس پر آپ فوج کے ذریعے علاقے فتح کر کے برسراقتدار آئیں یا جمہوری طور پر لوگوں کے ووٹوں سے براجمان ہوں، اس کا نشہ حکمرانوں کو ضرور چڑھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ علاقے فتح کر کے حکمرانی کا تاج سر پر سجانے والے بھی عوام دوست، منصف مزاج اور خلق خدا کی خدمت کے جذبے سے معمور ہوتے ہیں اور جمہوریت میں تو ایسا دکھاوا بہت ضروری ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یا کبھی نہ کبھی آپ کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب عوام بے قابو ہو کر آپ کی بساط الٹ دیں۔ اسی لیے جمہوری حکمران جب انوکھی فرمائشیں کرتے ہیں تو انھیں عوامی فلاح و بہبود اور قوم کی ترقی کے خوبصورت دعوؤں میں لپٹا کر کیا کرتے ہیں۔
پاکستان بھی ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں خواہ جمہوریت کے ذریعے حکمران برسراقتدار آئیں یا فوج کے راستے سے، ان کے شوق نرالے اور فرمائشیں انوکھی ہوتی ہیں۔ ان کو کچھ کھلونے چاہئیں جنھیں وہ توڑ مروڑ کر برباد کر دیں اور کچھ کھلونے ایسے ہونے چاہئیں جن سے ان کا دل بہلتا رہے۔ جسے دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہوتے رہیں۔ پی آئی اے اور میٹروبس ان دو انتہاؤں کی مثالیں۔ ایک کھلونے یعنی پی آئی اے کو اس لیے تباہ و برباد کیا جا رہا ہے کہ یہ خسارے کا سودا ہے۔ اس پر روزانہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور دوسرے یعنی میٹروبس اور اورنج ٹرین کو بادشاہ کی انوکھی خواہش کی وجہ سے خسارے کے سودے پر ہی تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس پر بھی روز عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ ہو گا۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا مقدر یہ ہے کہ جن ارباب سیاست نے اسے لوٹا، کھسوٹا، اس کے جسم سے بوٹیاں نوچ نوچ کر کھائیں۔ اسے ایک زندہ لاش کی صورت بنا دیا، وہی اس کا سودا کرنے جا رہے ہیں۔ وہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس ادارے کی خیر خواہی میں اسے بیچ رہے ہیں۔ جو لوگ اپنی اسٹیل مل، شوگر مل، دودھ کی فیکٹری یا مرغی کے گوشت کے کاروبار میں ایک سفارشی شخص بھرتی نہیں کرتے، جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو ہر ادارے میں اپنے منظور نظر نالائق، نکمے اور نااہل لوگوں کو دھڑا دھڑ بھرتی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ادارے ان کی ذاتی دولت سے نہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے پی آئی اے میں لاتعداد بھرتیاں کی گئیں اور ہر دور میں ہوئیں جس کی وجہ سے پی آئی اے خسارے میں ہے۔ حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی وہ غزل کا شعر یاد آ رہا ہے۔
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر، تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
پی آئی اے کی کشتی تو تم ڈبو تو رہے ہو اب جس جس حکمران کے جس جس سفارشی کو بھرتی کیا اسے اسی حکمران کی ملوں میں بھیج دیا جائے۔ ’’اللہ کے فضل و کرم‘‘ سے نواز شریف ہوں یا آصف زرداری دونوں کے وسیع کاروبار ہیں۔ پی آئی اے کے سب سفارشی ملازمین کو ان کی اسٹیل ملوں، شوگر ملوں، دودھ اور مرغی کے کاروبار میں کھپایا جائے تا کہ یہ بھی مزا چکھیں کہ ادارے، فیکٹریاں اور ملیں کیسے برباد ہوتی ہیں۔ انھیں اس ملک کے کھلونے توڑ کر تماشا دیکھنے میں لطف آتا ہے، اپنے ذاتی کھلونوں کو بھی توڑ کر اس تماشے کا مزا لیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سفارشی اگر ان کی ملوں میں بھیج دیے جائیں تو پی آئی اے کا خسارہ ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن شاید پی آئی اے کی لاش کو گرانے کا مکمل بندوبست کر لیا گیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں گدھ منڈلا رہے ہیں۔ عقل کے اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ کوئی کچھ کر لے یہ سب ہونا ہی ہونا ہے۔ جس فیکٹری، مل یا ادارے میں ہڑتال چل رہی ہو، جس کا مستقبل مخدوش ہو، اس کے حصص اسٹاک ایکسچینج میں گر جاتے ہیں، لوگ اس کے شیئرز فروخت کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی الٹی گنگا ہے کہ جس دن پی آئی اے میں فلائٹ آپریشن بند ہوا اس روز اس کے سترہ لاکھ شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی۔
صرف دو دنوں میں شیئرز کی قیمت میں دو روپے کے قریب اضافہ ہوا۔ وہ جو سرمایہ پرست ہیں، جو اسٹاک ایکسچینج کے کھلاڑی ہیں، انھیں علم ہے کہ پی آئی اے کی لاش گرائی جانے والی ہے اور وہ ابھی سے گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ اس کے تن مردہ کا چھبیس فیصد گوشت تو وہ پارٹنر لے جائے گا جس کے ہاتھ یہ فروخت ہوئی لیکن باقی گوشت کی خرید و فروخت کے لیے گدھ اسٹاک ایکسچینج کے اردگرد خونخوار پنجے نکالے تاک میں بیٹھے ہیں۔
ایسے میں انوکھا لاڈلا کس قدر خوش ہو گا کہ اس کی خواہش کے مطابق وہ ادارہ جسے اس قوم کے محنت کش عوام نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا۔ جس نے ایک عالمی سطح کا مقام حاصل کیا تھا۔ جو جائیدادوں کے حساب سے آج بھی اس قدر امیر ہے کہ اس پر ہر کسی کی للچائی ہوئی نظریں پڑتی ہیں۔ اس ادارے میں پہلے خود اپنے سفارشی بھیج کر تباہ کیا گیا۔ جس ادارے پر جونکوں کی طرح لوگوں کو پالا گیا۔ اپنے شوق پرواز کو بھی اسی ادارے پر مفت خوری سے پورا کیا گیا۔
جب اس کا گوشت جگہ جگہ سے نوچ لیا گیا اب کہا جاتا ہے کہ لاغر و بیمار ہے، نکما ہے، اسے بیچ دو، یہ لاغر و بیمار آج بھی پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں رعائتی کرایوں پر جہاز چلاتا ہے۔ لیکن ہمارے انوکھے لاڈے، کبھی گوادر، پنجگور، تربت، ژوب، چترال، گلگت جیسے مقام پر رہے نہیں۔ اگر رہیں بھی تو ان کا کوئی مہربان ان کے لیے چارٹر طیارے یا ہیلی کاپٹر کا بندوبست کر دیتا ہے۔
اس کا انجینئرنگ کا شعبہ صرف پی آئی اے نہیں بلکہ پاکستان کی ایئرفورس کو سروس مہیا کرتا ہے۔ وہ جو 26 فیصد کا مالک بن کر پورے پی آئی اے کا انتظام سنبھالے گا، کیا وہ یہ سب کرے گا۔ دنیا بھر کا سرمایہ دار صرف ایک مقصد کے لیے غریب ملکوں کے اثاثے خریدتا ہے تا کہ اس کی دولت میں اضافہ ہو۔ اس کے ہاں کاروباری اخلاقیات یا انسانی ہمدردی نام یک چڑیا کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہ اس محاورے کے مصداق ہوتا ہے کہ ’’گھوڑا گھاس پر ترس کھائے گا تو پھر کھائے گا کیا۔‘‘ پی آئی اے کی صورت میں ہری ہری گھاس سب کو نظر آ رہی ہے۔
انوکھا لاڈلا ہر دور میں چالاک ہوتا ہے۔ تیمور جب کھوپڑیوں کے مینار بنا رہا تھا تو کہتا تھا میں یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ جب ان پر چربی ڈال کر آگ لگائی جائے گی تو دور دور تک میری ہیبت چھا جائے گی۔ ہم بھی پی آئی اے کو بیچ دیں گے تو آئی ایم ایف سے لے کر دنیا بھر کے کاروباری اداروں میں ہماری دھاک بیٹھ جائے گی کہ ہم کسی قدر ’’بزنس فرینڈلی‘‘ ہیں، کیسے اپنا ہی گھر پھونک کر عالمی برادری کے لیے آتشبازی کا سامان کرتے ہیں۔
کھلونا توڑ کر خوش ہونا تو دوسری جانب انوکھے لاڈلے کو نیا کھلونا بھی تو چاہیے ہوتا ہے جس سے کھیلا جا سکے۔ جمہوری حکمران کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ نیا کھلونا بنائے تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ میرے نہیں آپ کے فائدے میں ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے جب موٹروے اسلام آباد سے لاہور تک بنی تھی تو یہی منطق دی جاتی تھی۔ چار سو کلو میٹر کی اس موٹروے کے دونوں طرف موجود آبادی آج بھی ہزار سالہ پرانی زندگی گزار رہی ہے۔ گندے جوہڑ، اوپلے، نہ صحت کی سہولت اور نہ تعلیم کی، بیمار، غریب، مفلوک الحال، بے روزگار دونوں جانب یہی منظر آج بھی ہے۔ ان پسماندہ لوگوں کے درمیان ایک چمکتی سڑک گزرتی ہے جس پر چند ہزار لوگوں کا سفر آسانی سے کٹتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک سفاری پارک کی ’’رائیڈ‘‘ بھی ہو جاتی ہے۔
البتہ اس سفاری پارک میں شیر اور زرافے وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ انسان ہوتے ہیں جنھیں ہم گاڑیوں میں بیٹھے اپنے بچوں کو معاشرتی علوم کے سبق کی طرح دکھاتے ہیں۔ بچو! دیکھو یہ ہے ہمارے کسان، دیکھو کیسے ایک جوہڑ میں جانوروں کے ساتھ کھڑے نہارے ہیں، ہے نا مزے کا سین، ایسا ہی کچھ سین میٹرو اور اورنج ٹرین میں ہوتا ہے۔ جب ایک بیمار، بیروزگار، مفلوک الحال ایک تنگ و تاریک گھر سے نکلتا ہے جہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی، بیماری نے جہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور پھر میٹرو کے ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں سفر کرنے کے بعد واپس اسی تاریکی میں لوٹ جاتا ہے لیکن کیا کریں انوکھے لاڈلوں کے کھیلنے کی یہ قیمت تو عوام کو بھرنا پڑتی ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
اوریا مقبول جان جمعرات 4 فروری 2016
جس واقعہ نے گزشتہ پندرہ سال سے اس دنیا کو ایک جہنم میں بدل کر رکھ دیا ہے وہ نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر چار امریکی طیاروں کو اغوا کر کے حملہ کرنا ہے۔ ان میں دو تو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر نشانہ بناتے ہوئے پوری دنیا کی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نظر آئے جب کہ ایک پینٹاگون کی عمارت اور دوسرا پنسلونیا کے آس پاس کہیں گرا۔ گزشتہ پندرہ سال سے اس واقعے کو نائن الیون یعنی گیارہ ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کی دنیا اور اس کے بعد کی دنیا میں اس قدر فرق آیا ہے کہ دنیا بھر میں جرم کے معیارات اور مجرم کی شناخت کے پیمانے تک بدل گئے ہیں۔ دنیا بھر میں مشتبہ لوگوں کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کی اصطلاح عام ہوئی تو دنیا کے کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے میڈیا نے دہشت گردوں کی نرسریوں سے لے کر ان کے اعتقادات‘ خیالات‘ علم حاصل کرنے کے مقامات اور آخر کار ان کے حلیوں تک کو ایسے پیش کیا جیسے ہر وہ شخص جو اسلام میں بظاہر دلچسپی لیتا ہو‘ داڑھی بڑھا لے‘ ٹخنوں سے اونچی شلوار کر لے‘ پانچ وقت نماز کے لیے قریبی مسجد کا رخ کرے‘ سر پر پگڑی‘ ٹوپی یا صافہ رکھ لے‘ تو ایسا شخص عین ممکن ہے دہشت گرد ہو یا پھر ایسے حلیے والے بہت سے لوگوں کے درمیان دہشت گرد چھپ سکتا ہے۔
گزشتہ پندرہ سال کی اس میڈیا جنگ نے آج پوری دنیا میں ظالم‘ دہشت گرد اور تخریب کار ایک ایسا چہرہ تسلیم کروا لیا ہے جو کبھی ایک تہجد گزار‘ اللہ کے دین پر عمل پیرا‘ دنیا کے طعنوں سے بے نیاز ایک ایسا لباس زیب تن کرنے والا تھا جو قرون وسطیٰ کے مسلمان پہنا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے بالکل حیرت اور تعجب نہیں ہوا جب حکومت پنجاب نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ ایسے حلیے کے لوگ اس مغرب زدہ مخلوط تعلیمی اداروں میں کتنے برے لگتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا تصور ہی پاش پاش ہو جاتا ہے جو ہم نے ’’سافٹ‘‘ پاکستان کا بنا رکھا ہے۔
تبلیغ پر تو ویسے بھی پابندی لگانی ہی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ جس طرح ہم اسلام کو خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں‘ یہ لوگ تو بالکل اس کے الٹ ہیں۔ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ عصر کے بعد لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔
ایک ان میں نظریں نیچی کیے میرے بھائی کے لفظ سے آغاز کرتا ہے۔ اور پھر کہتا ہے کہ میری اور آپ کی بھلائی پورے دین میں ہے۔ اور بات کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد مسجد میں اس سلسلے میں بیان ہو گا‘ آپ تشریف لائیے گا۔ گزشتہ پچاس سال سے میں ان کا یہ رویہ دیکھ رہا ہوں اور اس معاشرے کا رویہ بھی جو ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ کون ہے جو ان پر اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔ انھیں تمسخر کا نشانہ نہیں بناتا۔ ان پر مغلظات نہیں بکتا۔ لیکن یہ بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک دروازے سے گالیاں سن کر اگلے دروازے پر دستک ضرور دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں انا‘ غرور اور نفس کو کچلنے کی اس طرح ترغیب دی ہو۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے تبلیغی جماعت کے لوگ۔ اہل تصوف تو کسی میں ذرا سا بھی غرور یا تکبر دیکھتے تو کشکول ہاتھ میں پکڑا دیتے کہ جاؤ بھیک مانگ کر لاؤ یا پھر جھاڑو پکڑا دیتے کہ تم خانقاہ کی صفائی پر مامور کر دیے گئے ہو۔ تبلیغی جماعت والوں نے بھی ضبط نفس کی جو تربیت پائی ہے اس پر حیرت ہوتی ہے۔
گریڈ بائیس کے بیوروکریٹ سے لے کر کروڑوں کمانے والے تاجر تک اور جسمانی طور پر دس لوگوں پر بھاری انسان تک سب کے سب اس طرح سر جھکائے لوگوں کو اللہ کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ اس شخص کے مجرم ہوں جسے دعوت دے رہے ہیں۔ کوئی ان کی ہنسی اڑائے‘ ان کی بات سننے سے انکار کرے‘ انھیں بے نقط سنائے‘ یہ خاموشی سے چپ چاپ اپنی راہ لیتے ہیں۔ ایسا رویہ اگر اسی طرح کے گریڈ بائیس کے افسر‘ کروڑ پتی تاجر یا جسمانی طور پر مضبوط شخص کے ساتھ عام زندگی میں کیا جائے تو اس کا نتیجہ انتہائی خوفناک نکلتا ہے۔
گیارہ ستمبر سے پہلے ان لوگوں کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا۔ دفتر میں ان کو چار ماہ کے چِِلّے کے لیے چھٹی مانگنے پر دے دی جاتی تھی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ اسکینڈے نیویا کے ممالک کی طرح سیکس فری ملک کیوں نہ ہو‘ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کبھی ویزا کی مشکلات نہ ہوئیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا کے ساحلوں تک یہ لوگ آزادانہ تبلیغی کام کرتے تھے لیکن گیارہ ستمبر کے بعد صرف ان کے حلیے نے انھیں مشکوک کر دیا۔
یہ میڈیا کس قدر طاقتور چیز ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کی مشنری کس قدر خوفناک ہے کہ جرم کوئی بھی کرے آپ مجرم جس کو چاہے ثابت کر دیں۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ جن چودہ افراد نے کیا ان میں چار لیڈران جنھوں نے جہاز اغوا کیے ان کے حلیے اور حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ محمد الامیر السید عطا جس نے امریکن ایئر لائن کی فلائٹ نمبر11 کو اغوا کیا۔ ایک کلین شیو نوجوان جس نے قاہرہ یونیورسٹی سے آرکیٹیکٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1990ء میں جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔
مروان یوسف محمد رشید لکراب شیحی۔ متحدہ عرب امارات سے انگلش میڈیم اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوا۔ فوج سے وظیفہ لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی روانہ ہوا اور پہلے یونیورسٹی آف بون اور پھر ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں پڑھتا رہا۔ اس نے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز اغوا کی۔ ہانی صالح حسن حنجور‘ ایریزونا یونیورسٹی امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے سیرا اکیڈیمی Sierra Acadmy of Aeronotics میں کورس مکمل کیا۔ اس نے یونائٹیڈ ائر لائن کی پرواز 175 کو اغوا کیا۔ زیاد سمیر جراح لبنان کے شہر بیروت سے 1996ء میں جرمنی کی یونیورسٹی GREIFSWALD میں جرمنی زبان سیکھنے کے لیے داخل ہوا اور پھر ہمبرگ کی یونیورسٹی فار اپلائڈ سائنسز Applied Sciences میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ یہ وہ چار لوگ تھے جنھوں نے باقی دس لوگوںکے ساتھ مل کر جہاز اغوا کیے اور گیارہ ستمبر کا معرکہ برپا کیا۔
ان میں سے کوئی ایک بھی کسی مدرسے کا پڑھا لکھا نہیں تھا جنھیں آج کا میڈیا جہاد کی نرسریاں بتایا جاتا ہے۔ سب کے سب سیکولر مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھ کر نکلے تھے۔ ان میں کسی کا حلیہ بھی ویسا نہ تھا جیسا آج دہشت گردوں کا بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ یہی نہیںبلکہ القاعدہ کی پوری کی پوری قیادت کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کوئی بھی کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل نہیں ملے گا۔ خود اسامہ بن لادن مغربی طرز پر قائم یونیورسٹی میں پہلے انجینئرنگ اور پھر اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے والا‘ ایمن الظواہری میڈیکل کالج سے میڈیسن کی ڈگری لیے ہوئے‘ خالد شیخ محمد جسے انتہائی خطرناک بنا پر پیش کیا جاتا ہے‘ پہلے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں پڑھتا رہا اور پھر اس نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔
رمزی یوسف کویت سے پڑھائی کے لیے نکلااور مشہور عام سوانسا Swansaانسٹیٹیوٹ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے لوٹا۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنھوںنے گیارہ ستمبر برپا کیا یا القاعدہ قائم کی۔ آج اس وقت وہ لوگ جو ہزاروںکی تعداد میں یورپ کے ممالک سے شام میں جا کر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہو۔ پورا یورپ حیران ہے کہ یہ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سائنس اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے والے‘ جدید سیکولر نظام تعلیم میں پلے بڑھے‘ انھیں کس بات نے مجبور کیا کہ یہ شام میں لڑنے والے گروہوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن کمال ہے اس میڈیا کا جس کی طنابیں اس کارپوریٹ انڈسٹری کے ہاتھ میں ہیں جو اس دنیا کو پرامن دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس دنیا میں جتنے میدان جنگ ہوں گے ان کا اسلحہ اتنا ہی بکے گا۔ لوگ جس قدر خوفزدہ ہوں گے ان کے سامان کی اتنی ہی کھپت ہو گی۔
انھوں نے خوبصورت زندگی کا ایک تصور میڈیا پر پیش کیا ہے‘ مخلوط ماحول‘ ساحل سمندر پر نیم برہنہ زندگی‘ نائٹ کلب‘ بڑی بڑی عمارتیں‘ تیز رفتار ٹریفک‘ محبت کی کہانیاں‘ فیشن شوز‘ فلم کی دنیا اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں۔ وہ اس خوبصورت زندگی کو جسے وہ لائف اسٹائل کہتے ہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تا کہ ان کا مال بکتا رہے میک اپ سے لے کر برگر تک اور اس کے برعکس ایسا لائف اسٹائل جس میںکچا کمرہ‘ سوکھی روٹی‘ پیوند لگے کپڑے اور قناعت کا سامان ہو، وہ انھیں زہر لگتا ہے۔
اس لیے خواہ سارے کے سارے دہشت گرد اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہوں‘ گالی مدرسے کو پڑے گی‘ دہشت گرد داڑھی اور پگڑی والا ہی ہو گا اور پابندی تبلیغ کرنیوالوں پر ہی لگے گی ،خواہ ان جیسا مرنجا ن مرنج اور ضبط نفس والا کوئی اور ذی نفس دنیا میں نہ ہو۔ جس بازار میں جھوٹ اور منافقت کی چکا چوند ہو وہاں پنجاب حکومت کی آنکھیں چندھیا جائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اکبر اللہ آبادی یاد آتے ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
بدنما لاہور کے سہولت کار
اوریا مقبول جان پير 1 فروری 2016
انگریز جب برصغیر پاک و ہند پر قابض ہوئے تو انھیں ہر اس چیز سے شدید نفرت تھی جس سے مسلمانوں کے اقتدار کی شان و شوکت اور جاہ و جلال ٹپکتا ہو۔ انھوں نے ہر ایسی عمارت کو اس طرح استعمال کرنا شروع کیا جس سے اس کی خوبصورتی اور چمک گہنا جائے۔ صرف لاہور کے شاہی قلعے میں انگریزوں کے اس نفرت بھرے عمل کے نتیجے میں تباہی کے آثار دیکھ لیں تو مسلمانوں سے ان کی شدید نفرت کا پتہ چلتا ہے۔
اسی نفرت کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤں اور بدھوں کی اجنتا اور الورا کی غاروں سے لے کر کھجرا ہو کے مندر تک کسی مقام کو بھی انگریز نے نہیں چھیڑا البتہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی علامتوں کو تباہ و برباد کرنے میں پورا کردار ادا کیا۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں دیوان عام کو اسپتال بنا دیا گیا اور شیش محل کو فوجیوں کی رہائش گاہ، قلعہ کی بیرونی دیوار جو دنیا کی سب سے بڑی ٹائل موزیک تصویر ہے، ایک کلو میٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کے گودام بنا دیے تا کہ یہ مصور دیوار تباہ و برباد ہو جائے۔ لیکن انگریز نے ترقی کے نام پر بھی مسلمانوں کی عمارتوں کے ظاہری حسن کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔
جہانگیر کا مقبرہ ایک بہت وسیع و عریض باغ میں واقعہ ہے جسے انگوری باغ کہتے تھے۔ اس میں ایک طرف آصف جاہ اور ملکہ نور جہاں کے مقابر بھی موجود ہیں۔ یہ اپنے دور کا ایک خوبصورت تفریحی مقام تھا، ہر کوئی اس باغ میں داخل ہو کر ایک جنت نظیر جگہ سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ ریلوے لائن بچھائے جانے لگی تو انگریز نے خاص طور سے اس کے بیچوں بیچ ریلوے لائن کو گزارا تا کہ اس کی خوبصورتی اور حسن تباہ ہوجائے ۔ایسی ہی حرکت تاج محل کے ساتھ بھی کی گئی اور اس کی دیوار کے بالکل ساتھ ریلوے لائن کو گزارا گیا تا کہ ٹرین کی تیز رفتار آمد و رفت سے ایک دن تاج محل زمین بوس ہو جائے گا۔
وہ تو انھیں بعد میں حیرت ہوئی کہ تاج محل کی بنیادوں کے نیچے تیس فٹ ریت بچھائی گئی تھی تا کہ زلزلے کی صورت میں اسے مکمل تحفظ حاصل ہو۔ لاہور کے شاہی قلعے میں سنگ مر مر کی دیواروں میں انگریز فوجیوں کے بدنما طریقے سے کھودے گئے اپنے نام اور پتے آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شیش محل کے قیمتی پتھر انھوں نے چرائے اور مشہور کر دیا کہ سکھ ایسا کر گئے، حالانکہ سکھ تو وہاں رہائش پذیر تھے، وہ اسے محل کی طرح رکھتے تھے۔ انگریز کی ابتدائی حکومت ایک ایسی حکومت نظر آتی ہے جسے قدیم ورثہ یا تاریخ و تہذیب سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ جب وہ مسلمانوں کے ورثے کو تباہی کے کنارے پر پہنچا چکے تو پھر 1920 کے لگ بھگ محکمہ آثار قدیمہ قائم کیا گیا اور گورے اس کے رکھوالے بن گئے۔
اس محکمہ آثار قدیمہ نے بھارت اور پاکستان دونوں جگہ قدیم ورثے کو بچانے اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ ولی اللہ خان ایک ایسا نام ہے جس نے بادشاہی مسجد لاہور کی تباہ حال کھنڈر بن چکی عمارت کو موجودہ شکل میں بحال کیا۔ ایک وزیر اعظم چاہتا تھا کہ شالامار باغ کے ایک طرف علیحدہ دروازہ بنایا جائے تا کہ وہ شاہی ضیافت میں شریک ہو، ولی اللہ خان ڈٹ گئے اور کہا یہ دروازہ میری لاش پر بنے گا۔ ولی اللہ خان اس محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ مجھے ان کی اس وراثت پر خدمت انجام دینے کا شرف 2004میں حاصل ہوا۔
لاہور پر وہ وقت آ چکا تھا جب ترقی کے دیوانے اور جدیدیت کے عاشق لاہور کی ہر اس خوبصورتی کو مٹانا چاہتے تھے۔ پہلا معرکہ ہائی کورٹ کے ساتھ برپا ہوا۔ ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس افتخار حسین اس کی عمارت کو گرا کر نئی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ چیمبر میں بلا کر سیکریٹری تعمیرات کو حکم دے دیا گیا ہے کہ گراؤ اور تعمیر کرو۔ ایسے میں میرا خط دیکھ کر ناراض ہو گئے جس میں تحریر تھا کہ آپ قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتے، اس خط سے ہنگامہ کھڑا ہو گیا، لاہور کے باشعور عوام مل بیٹھے، ایک تحریک شروع ہوئی، ادھر گرانے کا کام شروع ہوا اور دوسری جانب سپریم کورٹ میں جا کر فتح ہوئی۔ دوسرا معرکہ ایک جرنیل جاوید حسن کے ساتھ ہوا جو اسٹاف کالج لاہور کی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا۔
ہائی کورٹ کے واقعے کے بعد اہل لاہور کواب حوصلہ مل چکا تھا۔ لمبی جنگ رہی اور وہ ایسا نہ کر سکا۔ شاہ دین بلڈنگ سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارتوں کو بچایا۔ ایسے میں چوہدری پرویز الٰہی کی داد نہ دینا خیانت ہو گی۔ میری آخری لڑائی لکشمی بلڈنگ پر تھی۔ ان پر بہت زیادہ دباؤ تھا کیونکہ بلڈنگ پرویز مشرف کے ایک چہیتے وزیر کی تھی۔ بار بار اجلاس ہوتا۔ پرویز الٰہی مجھے قائل کرنے کی کوشش کر کے دباؤ کا بتاتے لیکن آخر کار میری بات مان لی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد اور میرے ایران ٹرانسفر کے بعد بلڈنگ کا اندرونی حصہ گرا دیا گیا۔ شکر ہے سامنے کا حصہ بچ گیا۔
لاہور کے آثار قدیمہ پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب انتظامیہ پر سڑکیں کشادہ کرنے کا جنون سوار ہوا۔ شالا مار باغ کے فواروں تک پانی پہنچانے کے لیے مغلوں نے ایک ہائیڈرولک سسٹم بنایا تھا جو پوری دنیا کے لیے ایک حیرت کدے سے کم نہ تھا۔ شالا مار باغ پر پہلا حملہ انگریز کر گئے تھے جب انھوں نے اس کے اردگرد آباد باغات کے بیچوں بیچ سڑک نکالی تھی۔ انگریزوں کے بعد ایسی سڑکیں بنانے کا جنون پنجاب کے حکمرانوں کا خاصہ تھا۔ شالا مار باغ کی جی ٹی روڈ کی توسیع کا حکم دیا گیا اور بلڈوزروں نے ایک دن اس تاریخی ہائیڈرولک سسٹم کو مسمار کر دیا۔ شالامار باغ عالمی ورثے کی اس فہرست میں شامل تھا جسے یونیسکو مرتب کرتی ہے۔ اسے فوراً لسٹ سے خارج کر کے ایک دوسری لسٹ میں شامل کیا جسے ’’Endangered‘‘ یعنی خطرات میں گھری عمارات کی فہرست کہتے ہیں۔ جب کبھی اس کی دوبارہ شمولیت کا کیس ہم یونیسکو لے کر جاتے وہ لوگ ہمارے حکمرانوں کی حس لطیف کا مذاق اڑاتے۔
لاہور کی خوبصورتی پر دوسرا حملہ میٹروبس سے شروع ہوا اور اب اورنج ٹرین اس بدنمائی میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے اس طرح کا منصوبہ پرویز الٰہی کے دور میں اپنی منصوبہ بندی کے آخری مراحل میں تھا۔ لیکن یہ ایک زیر زمین ٹرین تھی جیسا دنیا کے تمام مہذب ممالک میں ہوتی ہیں۔ اس کے کچھ حصوں میں بحیثیت ڈائریکٹر جنرل محکمۂ آثار قدیمہ اعتراض کیا تھا کہ یہ تاریخی ورثے کے لیے خطرہ ہیں۔ جنھیں بسر و چشم قبول کر لیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ منصوبہ پرویز الٰہی نے شروع کیا تھا تو یقینا بعد میں آنے والوں نے اسے جاری نہیں رکھنا تھا، اس لیے اسے ترک کر دیا گیا۔ اب اس کے مقابلے میں کچھ تو کرنا تھا ‘خواہ اس منصوبے کے بھونڈے پن سے پورے لاہور کو بدنما کر کے رکھ دیا جائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا بھونڈا پن اور بدنمائی ان علاقوں میں نہیں ہوتی جہاں ان ارباب اختیار کی رہائش گاہیں ہوتی ہیں۔ واپڈا کے لوگ شالا مار باغ کے سامنے سے بڑے بڑے کھمبے گزارنا چاہتے تھے، میں ڈٹ گیا، بات اوپر تک پہنچی، گورنر خالد مقبول اپنے آخری دور میں تھے۔ اجلاس میں واپڈا والوں نے ایک ایکٹ نکالا اور کہا ہم تو گورنر ہاؤس کے اندر بھی گھمبے لگا سکتے ہیں۔ میں نے کہا جس دن گورنر ہاؤس میں کھمبا لگا دو گے میں شالامار کے سامنے اجازت دے دوں گا۔ بات سنی گئی تھی۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی جب واضح قوانین کے ہوتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ نے کیسے ان تاریخی عمارات کے سامنے سے اورنج ٹرین کا این او سی دے دیا۔ شاید وہ اس جھاڑ اور بے عزتی سے ڈر گئے جو نہ دینے پر ان کا مقدر ہوتی۔
یہ اورنج ٹرین گورنر ہاؤس کے اندر سے ہوتی ہوئی جی او آر ون اور پھر نہر سے نکلتی گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے اوپر سفر کرتی، رائے ونڈ کے جاتی امرا کیوں نہیں جاتی۔ اسے وہی گلی محلے کیوں یاد آتے ہیں جہاں غرباء اور مساکین یا مڈل کلاس کے لوگ صدیوں سے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہ رہے ہیں یا چھوٹا موٹا کاروبار کر رہے ہیں۔ ترقی کی اس علامت ٹرین میں کون سفر کرے گا۔ وہ مریض جس کو اسپتال میں دوا نہیں ملتی اور پرچی تھامے لوٹ رہا ہو گا، وہ مزدور جسے مزدوری نہ ملے، وہ بے روزگار جسے نوکری نہ ملے، وہ بیمار جسے صاف پانی نہیں ملتا تھا اور وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو گیا۔
وہ غریب طالب علم جس کے پاس پیسے نہ تھے جس سے اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکے۔ وہ مظلوم جسے روز تھانے اور کچہری میں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ایسے دکھوں سے لتھڑے ہوئے انسانوں کو لے کر ایک خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ ٹرین جب ان علاقوں سے گزرے گی جہاں کبھی ویسے ہی غریب بستے تھے جن کا مکان اور کاروبار اس کی نذر ہو گئے تو کیسا سماں ہو گا۔ دلی شہر صرف اور صرف مسلمانوں کے عظیم ثقافتی ورثے سے بھرا پڑا ہے۔
بھارت کی متعصب ہندو بی جے پی حکومت نے جب دلی میں ماس ٹرانسٹ منصوبہ شروع کیا تو وہاں کے ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کو کہا گیا کہ بتاؤ کہیں اس ورثے کو نقصان تو نہیں پہنچے گا، یہ بدنما تو نہیں ہو جائے گا۔ اس قدر احتیاط برتی گئی کہ کہیں تاریخی عمارت کے قریب بڑا اسٹیشن نہ بنایا جائے جو اس کی شان و شوکت میں کمی کر دے۔ تاریخ لکھنے والا جب تاریخ لکھے گا تو وہ کبھی یہ فراموش نہیں کر سکے گا کہ ہم مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بی جے پی کی حکومت سے بھی گرے ہوئے تھے۔ ہمارے تعصبات نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور ہم لاہور شہر کو ایک ایسا شہر بنانے کے قابل ہو گئے جہاں کے رہنے والے حس لطیف سے عاری اور اسقدر گنوار تھے کہ اپنی ساری خوبصورتی اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر گئے۔ہم سے تودلی کے حکمران ہی بہتر تھے۔
پاکستان کی نظریاتی اساس، ریاست کا بیانیہ، دہشت گردی (آخری قسط)
اوریا مقبول جان جمعرات 28 جنوری 2016
کس قدر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ بیس کروڑ لوگوں کا ایمان‘ ان کے دلوں میں دھڑکتی وہ خواہش کہ مسلمانوں کا آئیڈیل دور خلفائے راشدین کا تھا اور ویسی ہی حکومت ان کے مسائل کا حل ہے‘ مشعلوں کی طرح چمکتی اسلام کے میدان کار زار کی شمشیربکف شخصیات‘ یہ سب صرف بیانیہ بدل جانے سے خود بخود بدل جائے گا ۔
لوگ خوشحالی کے سراب کے پیچھے اسلام سے اپنی والہانہ محبت ترک کر کے ان دانشوروں‘ کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں کی طرح سیکولر اخلاقیات‘ لبرل طرز گفتگو اور جدید سائنسی ترقی کے دلدادہ ہو جائیں گے۔ اسلام اور اس کے تصورات کے بارے میں ایسی غلط فہمیاں گزشتہ چار صدیوں سے ایسی تمام طاقتوں کے ذہنوں میں پلتی رہی ہیں جو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد یہ تصور کر لیتے تھے کہ ریاست کا بیانیہ بدلنے اور ایسے تمام بیانیے پر پابندی لگانے جس سے اسلام یا مسلمان کا بحیثیت امت تشخص ابھرتا ہو‘ وہ اس بات میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک دن ضرور آ جائے گا جب لوگ بحیثیت مسلمان دنیا میں ابھرنے کا خواب دیکھنا بھی ترک کر دیں گے۔
اس امت پر افریقہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر بحرالکاہل کے مشرقی کناروں تک چار بڑی طاقتوں نے حملے کیے‘ قبضے کیے‘ سلطنتیں قائم کیں۔ انگریز‘ ولندیزی‘ فرانسیسی اور پرتگیزی‘ یہ سب کے سب علاقے فتح کرتے اور حکومتیں قائم کرتے۔ اس دور میں اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم نہیں بلکہ عیسائیت کا بیانیہ تھا۔ حکومت کسی کی بھی ہو‘ بے شک فرانس اور برطانیہ آپس میں لڑتے رہیں لیکن مشنری سرگرمیوں میں تمام کی تمام نو آبادیاتی طاقتیں متفق ہوتیں۔ چرچ کا کوئی ملک‘ علاقہ‘ زبان یا نسل نہ تھی۔ وہ کسی بھی ملک کو دیکھ کر حالات کا مطالعہ کر کے ایسے پادریوں کو بھیجا کرتے جو وہاں کے عوام کو عیسائیت کی طرف مائل کرسکیں۔
اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور متعلقہ بیانیہ کا سہارا لیا جاتا۔ برصغیر میں پرتگیزیوں نے بنگال کے ہگلی کے علاقے میں پہلا چرچ قائم کیا یہ 1599ء کی بات تھی۔ اس کے بعد انگریز آئے۔ انھوں نے پرتگیزیوں کو نکال باہر کیا لیکن چرچ‘ اس کے تعلیمی اور مشنری اداروں کو قائم رکھا۔ برصغیر میں جس پادری کو بھیجا گیا تھا وہ ایگریکلچر یعنی زراعت کا ماہر تھا تا کہ وہ یہاں کے مفلوک الحال کسانوں کو ساتھ ملائے‘ اور زراعتی خوشحالی کے ذریعے عیسائیت کو آگے بڑھائے‘ 1818ء میں پہلا Theological College قائم کیا گیا‘ یعنی عیسائیت کا مدرسہ۔ پوری مسلم دنیا کے چھ زون بنائے گئے اور ہر زون میں علیحدہ طریق کار سے عیسائی مشنریوں کو بھیجا جاتا۔
تقریباً دو سو سال بعد جب جائزہ لیا گیا کہ کتنے مسلمان عیسائی ہوئے ہیں تو ان کی تعداد چند سو بھی نہ تھی۔ پورا مغرب سٹپٹا کر رہ گیا کہ مسلمان تو لوہے کے چنے ہیں‘ ان کے سامنے ریاست کا جو بھی بیانیہ ہو‘ جتنی ترغیبات ہوں‘ یہ لوگ اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔ کل کسی وقت ان کے اندر پیدا ہونے والا کوئی باشعور رہنما انھیں ہمارے خلاف منظم کر سکتا ہے۔ اب حملے کا طریقہ کار بدلا گیا۔ اب بیانیہ ایسا ترتیب دیا گیا کہ جس سے اسلام کی اصل روح کو غائب کیا جائے۔ یہ بیانیہ جدید مغربی تہذیب اور سکیولر نظریات کے پیرائیے میں تیار کیا گیا۔ اس کے نزدیک ہر مسلمان کا رنگ نسل‘ زبان اور علاقے کی وجہ سے ایک ملک ہوتا ہے‘ وہی اس کی سب سے عظیم شناخت ہے۔ یہ مسلم امہ نام کا تصور ایک فریب نظر ہے‘ دھوکا ہے۔
اس فریب نظر اور دھوکے کو مستحکم بنانے کے لیے جنگ عظیم اول کے بعد مسلمانوں کو ستاون کے قریب ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ 1920ء میں پاسپورٹ آیا‘ 1924ء میں ویزا ریگولیشنز۔ اور اب وطن کا بت ہر ملک میں تعظیم کے لیے کھڑا کر دیا گیا جس کی ایک عبادت اس ملک کا قومی ترانہ بنا دی گئی۔ ہر کسی نے اس بت کو دلوں میں بسایا اور اسے مسلم امت کے تصور پر فوقیت دی۔ اس تصور کے بعد دوسرا بیانیہ جہاد کا تھا‘ جو جدید مغربی تہذیب کے پروانے اپنے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ ایک مرنجا مرنج مسلمان‘ ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے باوجود صلح جو اور غلبے کے بجائے ہر فاتح‘ نو آبادیاتی قوت کے ساتھ مل کر اس کی سربلندی کے لیے کام کرے اور اسی طرح اپنی زندگی بھی بہتر بنائے اور دنیاوی مفادات بھی حاصل کرے۔
یہی وجہ تھی اور اسی بیانیے کا نتیجہ تھا کہ مسلم امہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے بجائے قومی بالادستی کے لیے جنگوں کا رواج اور مرنے مارنے کا تصور عام ہو گیا۔ کسی کو انگریز کے ساتھ مل کر دلی کے لال قلعہ کو فتح کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں اپنے ہی مسلمانوں کو قتل کر کے‘ خانہ کعبہ پر گولیاں برسا کر اور انگریز کے یونین جیک کو لہرا کر وکٹوریہ کراس سینے پر سجانے اور جنگ میں موت سے ہمکنار ہونے پر فخر کی روایت پڑ گئی۔
ایسے میں اس بیانیہ کو مضبوط کرنے کے لیے دین کی تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ اس میدان کا سب سے پہلا شہوار مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے اعلان کیا کہ اس کے مسیح موعود اور مہدی موعود ہو جانے کے بعد جہاد بالسیف یعنی تلوار کے ساتھ لڑنے کا تصور ختم ہو گیا۔ جہاد کے بے شمار معانی پہنائے گئے۔
صوفیاء کی ایک نسل کو تیار کیا گیا جنہوں نے اپنے اسلاف اور بزرگان کے برعکس تاج برطانیہ سے وفاداری کو وقتی مصلحت اور دین کی دوسرے ادیان کے ساتھ ہم آہنگی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتنے ایسے مرشدین تھے جو اپنے مریدوں کو انگریز کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے بھیجتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ حق کی ایک جماعت کو دلیل اور اتمام محبت کے لیے ضرور قائم رکھتا ہے‘ اسی لیے صوفیائے کرام میں پیر صاحب پگاڑا کا انگریز کے خلاف جہاد اور ان کی پھانسی پر شہادت نے اس بیانیے کو زندہ رکھا جو مسلم امہ کا خاصہ تھا۔
یہی وہ بیانیہ تھا جس کی بنیاد پر پاکستان تخلیق ہوا۔ یہی بیانیہ مسلمانوں نے میدان بدر میں تحریر کیا تھا۔ بھائی بھائی کے مقابلے میں آن کھڑا ہوا تھا اور بیٹا باپ کے مقابلے میں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی یہی ہوا۔ ایک دادا کی اولاد محمد حسین چیمہ اور ارجن داس چیمہ دونوں علیحدہ ہو گئے۔ ایک طرح کا بھنگڑا ڈالنے والے‘ ہیر گانے والے اور ساگ اور مکئی کی روٹی کو پسند کرنے والوں نے اعلان کر دیا کہ یہ ہمارے بھائی نہیں کیونکہ یہ کلمہ طیبہ نہیں پڑھتے۔
یہ ملک پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ اور پشتون نے مل کر نہیں بنایا بلکہ پنجابیوں نے پنجابی ہونے‘ سندھیوں نے سندھی‘ بلوچوں نے بلوچ اور پشتونوں نے پشتون ہونے سے انکار کیا تھا تو یہ ملک بنایا تھا۔ ورنہ دس لاکھ جانوں کی قربانی کے بجائے سکھوں کے ساتھ مل کر برصغیر کا سب سے خوشحال ملک پنجاب بنایا جا سکتا تھا۔
14 اگست 1947ء سے اس بیانیے کو رد کرنے اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے مسلمانوں میں یہ جہادی روح اور شدت پسندی نصاب تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ پرویز مشرف نے پورے کا پورا نصاب تعلیم بدل کر رکھ دیا۔گزشتہ تیس سالوں سے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں انگلش میڈیم اسکولوں نے سنڈریلا سے لے کر سنووائٹ تک اور الیگزینڈر سے لے کر شراب کشید کرنے کے تہواروں تک سب کچھ پڑھا ڈالا۔ اس کے باوجود بھی یہ سب کے سب حیران و ششدر ہیں کہ اس ملک سے شدت پسندی ختم کیوں نہیں ہوتی۔ کوئی مدرسوں پر الزام لگاتا ہے‘ کسی کو فوج کا دوغلا پن یاد آ جاتا ہے‘ کوئی جہاد افغانستان کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔
کاش یہ جانتے کہ ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے اور اگر اس بیانیے کے خلاف طاقتور ترین حکومتیں بھی اپنا بیانیہ نافذ کرنے کی کوشش کریں تاریخ شاہد ہے کہ شدت پسندی جنم لیتی ہے بلکہ لٹھ مار گروہ پیدا ہوتے ہیں اور آخر میں ریاست کو ہی اپنا بیانیہ بدلنا پڑتا ہے۔ ول ڈیورانٹ نے پوری انسانی تہذیب کا جائزہ اپنی مشہور کتاب ’’ہیروز آف ہسٹری‘‘ میں لیا ہے وہ کہتا ہے ’’کرائے کی فوجوں اور اطالوی نشاۃ ثانیہ کے تحت کھلی شہوانیت کا نتیجہ کلیسیا کو خبردار کر گیا اور عیسائی اخلاقیات کا غلبہ ہو گیا۔ ایلزبتھ کے انگلینڈ کی بے خطر تلذذ پسندی نے کرام ویل اور پیوریطان نے کٹر مذہبی غلبے کی راہ ہموار کر دی۔
بائرن‘ شیلے کے رومانی بیانیے اور جارج چہارم کے نشاط پرست جنسی رویے کے ردعمل کے طور پر انگلینڈ کی وکٹوریائی عوامی سماجی شائستگی‘ غالب آ گئی۔ اگر یہ مثالیں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے بچوں کے پوتے شدت پسند مذہبی ہوں گے‘‘۔ میں نے کسی مذہبی شدت پسند کی تحریر پیش نہیں کی‘ تاریخ کے ایک بے لاگ تجزیہ نگار کا پوری تاریخ کے مطالعہ سے ابھرنے والا نقطہ نظر پیش کیا۔
جب بھی عوام کی اکثریت کے خلاف کوئی بیانیہ ریاست نافذ کرتی ہے یقیناً اس کا نتیجہ شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس اور عوام کے مقبول بیانیے کے خلاف حکومت کا آزاد اور سیکولر بیانیہ پرویز مشرف نے نافذ کیا اور ہم آج تک شدت پسندی اور لٹھ مار گروہوں کے عذاب میں ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک عوام کا بیانیہ حکومت کا بیانیہ نہیں بنتا۔ دنیا میں امن نہیں آ سکتا۔ عوام کا بیانیہ حکومتیں نافذ کر دیں تو کسی جامعہ حفصہ‘ سوات آپریشن یا ضرب عضب کی ضرورت نہیں پڑتی۔
پاکستان کی نظریاتی اساس، ریاست کا بیانیہ، دہشت گردی (1)
اوریا مقبول جان پير 25 جنوری 2016
جس دن یعنی 14 اگست 1947ء سے یہ مملکت خداداد پاکستان اس دنیا کے نقشے پر ابھری ہے، ٹھیک اسی دن سے ایک طبقہ اس ملک کی اساس اور بنیاد سے بغض و عناد رکھتے ہوئے اسے تمام مسائل کی جڑ سمجھتا ہے اور وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس ملک میں جب کبھی حالات خراب ہوں، بددیانتی عام ہو جائے، صوبائی حقوق غصب ہوں، آمریت کے سائے مسلط ہو جائیں، لٹھ مار گروہ پیدا ہوں، فرقہ وارانہ قتل و غارت شروع ہو جائے تو ایسے تمام مسائل کی وجہ صرف اور صرف پاکستان کی اساس، اس کی بنیاد اور اس کے نظریے کو قرار دیتا ہے۔
اس گروہ یا طبقے کے نزدیک برائیوں کی جڑ قرار داد مقاصد ہے جس کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد جمہوری ریاست کے بجائے ایک مذہبی شناخت والی ریاست بن گیا ہے، جس سے لبرل سیکولر جمہوری کلچر کو فروغ نہیں ملا، اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور طالع آزما جرنیلوں نے اس کا سہارا لے کر جہادی کلچر کو فروغ دیا ہے، جس کی وجہ سے ہم آج دہشت گردی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ہم سے ناراض ہیں، نہ ہم خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ ان کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔
یہ ساری رام کہانی گزشتہ ساٹھ سالوں سے اس ملک کا لبرل، سیکولر اور ’’پروٹسٹنٹ ملا‘‘ ہمیں سنا رہا ہے۔ ان دنوں اس کا ایک نیا طریقہ اظہار ڈھونڈا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہماری ریاست کا بیانیہ غلط ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے بیانیے ہیں جن پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ ان سے شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ اس کی کوکھ سے جہادی روح پیدا ہوتی ہے اور نتیجے میں ملک کو صرف دہشت گردی ملتی ہے۔
ان لبرل سیکولر دانشوروں اور پروٹسٹنٹ مذہبی اسکالروں نے گزشتہ دو سالوں میں اس بیانیے کے نکات بھی بار بار بیان کر دیے جن پر پابندی لگانی چاہیے کیونکہ اس بیانیے کی وجہ سے دہشت گردوں کو نظریاتی اساس ملتی ہے۔ ان کے نزدیک سب سے پہلے ریاست کا بیانیہ تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے بعد ان تمام بیانیوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے جو اس نئے بیانیے کے مخالف ہوں۔
ریاستی بیانیہ کی تبدیلی کی ضرورت سب سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں محسوس کی گئی اور وہ بھی اس وقت جب پاکستان نے امریکا کی گیارہ ستمبر کے بعد چھیڑے جانے والی جنگ میں ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں 54 سال بعد آنے والا پہلا بہت بڑا موڑ تھا جس میں اس ملک کی نظریاتی ٹرین کو بالکل دوسری سمت موڑ دینے کی کوشش کی گئی۔
آج پندرہ سال بعد ہم اس مقام پر کھڑے ہو چکے ہیں جہاں ہمارا معاشرہ، ملک اور ریاست ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہیں جہاں اقتدار میں موجود مخصوص لوگ، مخصوص دانشور اور سیاسی تجزیہ کار پاکستان کی نظریاتی ٹرین کا رخ بدلنا چاہتے ہیں، ان کے پاس ریاست اور حکومت کی طاقت ہے جب کہ دوسری جانب اکثریت اس سے بے پرواہ ہے، لیکن ان پندرہ سالوں میں ایک ایسی اقلیت نے جنم لیا ہے جو ہر صورت نظریاتی اساس کو تبدیل نہیں ہونے دینا چاہتی۔ یہ وہ اقلیت ہے جو اپنے جنون میں ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ اقلیت ہے جو ان گروہوں کے ہتھے چڑھتی ہے جن کا مقصد اس ملک میں دہشت اور تخریب کاری ہوتا ہے اور جنھیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور بھاری بیرونی امداد کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔
بیانیہ کے نفاذ کے اس شدت پسند طریقہ کار کی حامی یہ اقلیت ہے‘ لیکن وہ جو بیانیہ سے نفرت کرتے ہیں وہ یہ رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ سرے سے بیانیہ ہی بدل دو۔ انھیں اندازہ نہیں کہ بیانیہ سے روگردانی نے تو یہاں لٹھ مار گروہ پیدا کر دیے۔ اگر بیانیہ بدلنے چلے تو پھر کیا ہو گا۔ ایک صاحب نے بڑی محنت سے اس بیانیہ کے ان نکات پر پابندی لگانے کے لیے فہرست مرتب کی تو دوسرے صاحب نے ایک اور فہرست تیار کر دی جن کے مشترکہ نکات ایسے ہیں جن کے بارے میں ان کا تصور یہ ہے کہ ان پر گفتگو کرنے، لکھنے اور ترویج کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو نہ داعش باقی رہے گی اور نہ طالبان اور نہ ہی دہشت گردی ہو گی اور نہ تخریب کاری۔
ان میں سب سے اہم ترکیب، لفظ یا تصور جس سے نفرت ابھرتی ہے وہ ’’خلافت‘‘ ہے۔ اس لفظ سے نفرت ان کے منہ اور ذہن میں جارج بش اور ٹونی بلیئر کے اس فقرے کے بعد آئی جب انھوں نے اپنے مخالفین کے بارے میں مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ”The want Khelafa Back” (یہ تو دوبارہ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں)۔ بیانیہ تبدیل کرنے والوں کو کون سمجھائے کہ اس برصغیر پاک و ہند میں انگریز اقتدار کے خلاف سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی شعور کا آغاز جس تحریک سے ہوا تھا اسے تحریک خلافت کہتے ہیں۔
گاندھی نے کہا تھا کہ اگر مجھے اپنی پوری زندگی میں کسی ایک تحریک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں تحریک خلافت کا کروں کیونکہ اس سے ہندوستان کے سیاسی شعور کا آغاز ہوا تھا۔ کیسے کیسے ہیرو اس قوم کو میسر آئے جن میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نمایاں تھے۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ کو امہ کی مرکزیت جان کر جو ایثار ہندوستان کے لوگوں نے کیا، اس پر آج بھی ترکی میں پاکستانیوں سے محبت پائی جاتی ہے۔ گزشتہ نوّے سالوں میں بھی کسی نے کہا کہ تصور خلافت کا ذکر کرنا ختم کرو کہ یہ مسلمانوں میں شدت پسندی پیدا کرتا ہے۔
آج بھی پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں عوام سے سوال کیا جائے کہ تمہارے نزدیک حکمرانی کے آئیڈیل کون ہیں تو وہ خلفائے راشدین کا نام لے گا۔ چند سال پہلے جو PEW نے سروے کروایا تھا اس میں مصر، ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا میں 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ خلفائے راشدین کی حکومت کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے۔ ایسے میں خلافت کا ذکر ختم کرنے سے اس بیانیے کو روکنے سے کیا 20 کروڑ لوگوں ے دلوں سے خلافت کے تصور کی عزت و تکریم ختم ہو جائے گی۔ بیانیے کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت اسلام سے متصادم ہے۔ یہ ایک ایسا نکتۂ نظر ہے جس پر اس امت میں ہمیشہ دو آراء رہی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی مسلم امت میں سب سے توانا آواز علامہ اقبال جمہوریت کو ابلیس کی ایجاد تصور کرتے تھے اور اس سے گریز کرنے کو کہتے رہے۔
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
’’طرز جمہوری سے گریز کر اور کسی پختہ کار کا غلام ہو جا کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر برآمد نہیں ہو سکتی‘‘۔ اقبال کے لاتعداد اشعار جمہوریت کو ظالمانہ، شاطرانہ اور ابلیسی نظام ثابت کرتے تھے۔ وہ یہ سب انگریز حکمرانوں کے دور میں کہتے رہے جو جمہوریت کو اپنا لگایا پودا تصور کرتے تھے۔ کسی نے ان کے بیانیہ پر یہ کہہ کر پابندی نہ لگائی کہ اس سے ریاست کی چولیں ہل جائیں گی۔ بیانیے کا اگلا تصور جس پر پابندی کی خواہش کی جاتی ہے وہ قومی ریاستوں کی نفی ہے۔ اگرچہ کہ اقبال اس پر بھی واضح ہیں۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اس کے باوجود بھی قومی ریاستوں کا آغاز 1920ء کے آس پاس ہوا اور صرف ساٹھ سال کے بعد ہی پورے یورپ نے ایک کرنسی، ایک پارلیمنٹ اور ایک خطے کی بنیاد پر قومی ریاستوں کی سرحدوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ لیکن چونکہ وہ علاقے کی بنیاد پر واپس اکٹھا ہوئے ہیں، اس لیے کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ کہیں کہ مذہب کے رشتے سے مسلمان ایک ہو جائیں تو کہیں گے کہ یہ لوگ تو خلافت واپس مانگتے ہیں۔ یہ تصور تو ایک خواب ہے ایک ایسا خواب جس میں پہلے مسلم ایک امت بنتے ہیں اور پھر پوری انسانیت ایک امت، کیا قرآن نے پوری انسانیت کو ایک امت نہیں کہا۔
اقبال نے کہا تھا جمعیت اقوام نہیں جمعیت آدم۔ اس طرح کے تصور کے امین تو پوری دنیا میں موجود ہیں۔ کمیونسٹ دو سو سال جمہوریت کو گالی دیتے رہے۔ پچھتر سال انھوں نے جمہوریت کے بغیر آدھی دنیا پر حکمرانی کی، دنیا کے تمام محنت کشوں کو بلا رنگ و نسل ایک قوم کہتے رہے۔ لیکن کارپوریٹ کلچر کے گماشتے انھیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ بتاتے، انھیں دہشت گرد، تخریب کار اور ملک دشمن قرار دیتے، دنیا کے پچاس ملکوں میں ان کے خلاف خونریز جنگیں لڑی گئیں، ان میں ویت نام سے لے کر چلی تک سب شامل ہیں۔ ان کے بیانیے پر پابندی لگائی گئی۔ لیکن وہ آج بھی ثابت قدم ہیں۔ اس کارپوریٹ کلچر کی بنیاد اور روح سودی بینکاری ہے، کہا جاتا ہے کہ اس بیانیے کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے کہ پاکستان حکومت سود کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ یہ لوگ صرف دو کروڑ لوگوں کی وکالت کرتے ہیں جن میں اکثریت مجبوراً بینک کا رخ کرتے ہیں جب کہ 20 کروڑ تو ایسے ہیں جو بھول کر بھی بینک کی شکل نہیں دیکھتے۔ سود کے خلاف گفتگو ختم ہو جائے گی تو کیا گھروں سے قرآن پاک بھی اٹھا دیے جائیں گے۔ جن میں سورہ بقرہ کی یہ آیت موجود ہے کہ اگر تم سود نہ چھوڑو گے تو تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ ہے۔ کیا لوگ بیانیہ بدلنے سے ایمان بھی ترک کر دیں گے۔ (جاری ہے)
وطن کی فکر کر ناداں
اوریا مقبول جان جمعـء 22 جنوری 2016
ضرب عضب کامیابیوں کی نوید دے رہا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر پوری سیاسی قیادت متفق ہے، سوا دو ہزار دہشت گرد مارے گئے ہیں، دو ہزار گرفتار کر لیے گئے، قبائلی علاقہ جات میں کامیاب آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، بلوچستان میں اکثر علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا، دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی، یہ ہے وہ تصویر جو گزشتہ ایک سال کے آپریشن اور ضرب عضب کے بعد پیش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن گزشتہ تیس روز میں ایک سو چالیس افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے۔ یعنی اوسطاً روزانہ پانچ افراد جان سے گئے۔
ایک سال بعد یہ سب اچانک کیسے شروع ہو گیا۔ یہ ایک بحث ہے جو گزشتہ ایک سال سے ہمارے میڈیا پر جاری ہے۔ ایک طبقہ جنھیں قلم کی طاقت اور میڈیا کا کیمرہ میسر ہے وہ آغاز ہی سے ایک بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بیانیہ دہشت گردی کو جنم دے رہا ہے۔ ان ہی میں سے ایک گروہ سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ انھوں نے نیشنل ایکشن پلان کے اکثر نکات پر عملدرآمد ہی نہیں کیا۔
ان نکات میں سے سب سے محبوب نکتہ مدارس پر کنٹرول ہے۔ دوسرا گروہ جنھیں گزشتہ تیس برسوں سے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی سے ایک خاص قسم کا بغض ہے وہ دبی دبی زبان میں بھی اور کھل کر بھی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں، کچھ کو درست سمجھتے ہیں اور کچھ کو دشمن، اس لیے دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو رہی۔ ان تمام گروہوں کا نصب العین اور مقصد مشترک ہے۔
ان کے تبصروں اور تجزیوں میں پاکستان کی سلامتی پر اثر انداز کسی قسم کے بیرونی عوامل پڑوسی ممالک کی مالی امداد، اسلحہ کی ترسیل اور وقت ضرورت چھپنے کے لیے پناہ گاہیں مہیا کرنے کا ذکر شامل نہیں ہوتا۔ یہ گزشتہ پندرہ برسوں سے ہم پر مسلط کی گئی امریکی سلامتی کی جنگ کو بھی اس صورت حال کا ذمے دار نہیں ٹھہراتے۔ ان کے نزدیک امریکا سے نجات ممکن نہیں، اس لیے خواہ وہ ڈرون حملے کرے، افغانستان میں پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو پناہ دے، ممکن ہو تو ان کو حملہ کرنے کے لیے راستہ فراہم کرے، اپنی سرپرستی میں بھارت کے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کی مکمل اجازت دے۔
ہمہ وقت پس پردہ رہ کر پاکستان پر جنگ مسلط رکھے، لیکن ہم صرف اور صرف یہی کہیں گے کہ یہ تو ہماری اپنی جنگ ہے۔ ایسا تو بدترین غلامی میں بھی نہیں ہوتا کہ پاکستان پر پہلا ڈرون حملہ ڈمہ ڈولہ میں ہوا جہاں 80 کے قریب معصوم طلبہ جاں بحق ہوئے اور ہماری حکومت نے کس ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ ہم نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا تھا۔ کسی دوسرے کا قتل اپنے سر لینے کی روایت وڈیروں، سرداروں اور نوابوں میں صدیوں سے موجود ہے، جب وہ کسی قتل کے بدلے اپنے ملازم، نوکر یا غلام کو پیش کر دیا کرتے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جب اسلام نے قصاص کی آیت نازل کی تو صاف کہا کہ آزاد کے بدلے میں آزاد سے ہی قصاص لیا جائے گا، یہ نہیں کہ غلام کی گردن پیش کر دی جائے۔ لیکن ہم وہ بدترین غلام تھے جنھوں نے امریکا کے کہنے کے بغیر ہی اپنی گردن پیش کر دی اور آج تک ہماری گردنیں کٹ رہی ہیں۔
لیکن کوئی تبصرہ نگار اس سارے معاملے کا ذمے دار براہ راست امریکا بھارت یا افغانستان کو نہیں ٹھہرائے گا۔ ہر کوئی اپنا گھر درست کرنے کو کہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ چاروں جانب سے گندے پانی کے جوہڑ میں گھر چکے ہوں اور وہاں مچھروں کی افزائش دن بدن ہو رہی ہو اور آپ گھر میں اسپرے کرتے پھریں، نہ کھڑکیاں بند کریں اور نہ دروازے بلکہ اس گندے پانی کے جوہڑ کو بھی اس ساری آفت کا ذمے دار نہ ٹھہرائیں۔ جنرل شاہد عزیز ان لوگوں میں سے ہیں جو اس سارے قضیے میں مرکزی کرداروں میں سے ایک رہے ہیں۔ آج سے دو سال قبل 15 دسمبر 2013ء کو انھوں نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے اپنا مضمون پڑھا۔ اس کی چند لائنیں اس پورے قضیے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
’’امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر اور ان کے حکم پر ہم نے یہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا، اس کے انجام میں جو معصوم جانوں کا قتل عام ہوا، اور حکومت کے خلاف جو نفرتیں ابھریں، انھیں ملک دشمن عناصر نے منظم کر کے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ انھیں بھی طالبان کہا، تا کہ افغان مجاہدین ہماری نظروں سے گر جائیں اور ہمیں ان کے دشمن امریکا کا ساتھ دینے پر دل میں کسک نہ ہو‘‘ یہ حقیقت نہیں کہ جب قبائلی علاقہ جات میں افغانستان کے شمالی اتحاد کے مدرسوں کے ذریعے بھارت کچھ گروہوں کو منظم کر رہا تھا تو پہلے انھوں نے بہت سے نام رکھنے کی کوشش کی، لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو ان کی قیادت کا حصہ تھا کہ کیسے امریکا اور شمالی اتحاد نے انھیں تحریک طالبان پاکستان کا نام رکھنے کو کہا۔ انھیں علم تھا کہ ہم نے ان سے پاکستان میں دہشت گردی کا کام لینا ہے۔
اس لیے جب لوگ ان سے نفرت کریں گے تو افغانستان کے مجاہدین جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور طالبان کہلاتے ہیں ان سے بھی نفرت خودبخود کرنے لگیں گے۔ جنرل شاہد عزیز نے پھر کہا ’’فاٹا کی مسلح تنظیموں کو کون مالی امداد دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں، حکومت کئی بار اعلان کر چکی ہے لیکن کوئی نام نہیں لیتا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں جتنے کھلاڑی ہیں سب کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے۔ میرا مقصد بیرونی طاقتوں پر الزام نہیں۔ وہ یقینا اپنے مفاد میں ہی کام کریں گے۔ ہم امریکا کے نرغے میں ہیں اور یہ گھیرا آہستہ آہستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اندرونی طور پر بھی ان کی گرفت میں ہیں۔
ان کے خفیہ داروں نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ آگے چل کر جنرل صاحب نے کہا ’’اس وقت امریکا پوری اسلامی دنیا میں اپنا کھیل کھیل رہا ہے، صرف پاکستان اور افغانستان میں نہیں، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تبدیل آ رہی ہے۔ جب کھلاڑی شطرنج کے مہرے چلاتا ہے تو ایک چال سوچ کر نہیں چلاتا، منجھا ہوا کھلاڑی ہر چال سے پہلے اپنے ذہن میں ساری چالیں چل لیتا ہے، مات تک کا خاکہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے، اگر ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تو دکھائی تو دیتا ہے کہ باقی مسلم ممالک میں کیا ہو رہا ہے۔ کچھ وہیں سے سیکھ لیں، امریکا سے اچھی توقع کیوں؟‘‘۔ ’’جب امریکا یہاں سے اپنے ٹھکانے نکالنے پر مجبور ہو گا، تو اس خطے میں آگ لگا دے گا، امریکا ہمارے ملک میں انتشار پھیلائے گا اور ہماری حکومت کی امداد میں بھی کر رہا ہو گا۔
انڈیا کی فوجیں بھی ہمارے بارڈر پر آ موجود ہوں گی تا کہ حکومت کے ہاتھ کمزور کیے جائیں اور آگ کو اور بھڑکایا جائے‘‘ کس قدر واضح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا جنرل شاہد عزیز کا جو مشرف دور میں اس ساری دہشت گردی کی جنگ میں کلیدی عہدے پر فائز رہے۔ میں جنرل صاحب کے ساتھ اس سیمینار میں موجود تھا اور مجھے ان کے ایک ایک لفظ کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ موجودہ ایک ماہ میں ایک سو چالیس معصوم جانوں کے زیاں کے پس منظر میں کوئی صدر اوباما کا یہ دعویٰ نظر میں رکھے کہ پاکستان میں ابھی کئی دہائیاں بدامنی اور خلفشار رہے گا اور ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان کہ اگلے ایک سال میں پاکستان کو پتہ چل جائے گا کہ پٹھان کوٹ حملے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ہماری قیادت نہ امریکا کے مقابلے میں زبان کھولے گی اور نہ ہی بھارت کے معاملے میں اپنی فدویانہ روش ترک کرے گی۔
ادھر وہ لوگ جو اس ملک کی اساس کی تباہی چاہتے ہیں، بیانیئے کی بحث چھیڑے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک تو دہشت گردی کا آغاز قرارداد مقاصد کے بیانیے سے ہی ہو گیا تھا۔ لیکن کیا کچھ ہونے والا ہے، ایک صاحب نظر گزشتہ دنوں سے بہت پریشان، انتہائی مضطرب، کہنے لگے یوں لگتا ہے بھارت جلد پاکستان پر حملہ کر دے گا اور یہ بہت شدید ہو گا کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکے، حکمرانوں کو خبردار کرو، بھارت ہیڈ مرالہ اور سیالکوٹ کے درمیان سے جنگ کا آغاز کرے گا۔
میں نے کہا کہ یہ بات تو ایک درویش نے نسیم انور بیگ مرحوم کے گھر میں آٹھ سال قبل بتائی تھی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ کہنے لگے۔ اب بہت جلد معلوم ہوتا ہے، اس قوم کو ایک بیانیئے پر متحد کرنے کے لیے قضا و قدر کی قوتوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ اللہ سے رحم مانگو، اس سے پہلے یہ جنگ ہم پر مسلط ہو جائے، ہمیں علم تو ہو کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون۔
نوٹ: ایک ضرورت مند جو خانیوال سے تعلق رکھتی ہیں، انھیں اپنے قرض سے نجات کے لیے قرضِ حسنہ کی ضرورت ہے۔ کوئی صاحب تصدیق فرما کر مدد فرما دیں۔ ٹیلی فون نمبر: 0348-7910025
کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا
اوریا مقبول جان پير 18 جنوری 2016
آج سے ٹھیک اکتیس سال اور تین ماہ قبل اٹھارہ اکتوبر 1984ء کو سول سروس کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کے فرد کی حیثیت سے میں سول سروسز اکیڈمی میں داخل ہوا اور آج ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے پر میں بیورو کریسی کے خوشنما اور دلفریب شکنجے سے آزاد ہوا ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر جس نے غرور و نخوت، لالچ و حرص، نشۂ حکمرانی، خوشامد و چاپلوسی، فریب، منافقت اور اس جیسے کئی خوفناک مگر مچھوں کے درمیان اس پرآشوب دریا کو عبور کرنے کی ہمت، طاقت اور استطاعت عطا کی۔
اگر اس اللہ کی نصرت میرے شامل حال نہ ہوتی تو میں شاید واپس مڑ کر اس دریا کو حسرت و یاس سے دیکھ رہا ہوتا، چند سال اس میں اور رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا، عمر گزرنے کا تأسف چہرے پر چھایا ہوتا، دل ملول ہوتا، لیکن کس قدر کرم ہے اس مالک ارض و سما کا کہ آج میرے دل کے کسی چھوٹے سے کونے میں بھی اس سروس میں مزید وقت گزارنے کی خواہش موجود نہیں اور نہ ہی اس سے وابستگی کو اپنے لیے افتخار کی تمنا موجود ہے۔ سب میرے اللہ کی عطا اور توفیق ہے۔ بے شک وہ بہت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
سول سروسز اکیڈمی کا پہلا دن بہت عجیب ہوتا ہے۔ ہر کوئی آنے والے عرصۂ اقتدار کے نشے میں مست ہوتا ہے۔ وہ جس علاقے، بستی، خاندان یا قبیلے سے بھی آیا ہو، امتحان کی کامیابی سے لے کر اکیڈمی میں داخلے تک لوگوں کے رویے نے اس میں فرعونیت کے آثار تھوڑے بہت ضرور پیدا کردیئے ہوتے ہیں۔ ادھر اکیڈمی اور اکیڈمی میں آنے والے ’’قدیم‘‘ اور ’’عظیم‘‘ بیورو کریٹ جو سول سروس کی گزشتہ دو سو سالہ اقتدار اختیار کی دنیا کے قصہ گو ہوتے ہیں، وہ زوال کا نوحہ بھی گاتے ہیں اور ماضی کی طرف لوٹ جانے کے خواب بھی دکھاتے ہیں۔
وہ سارا زمانہ یوں لگتا ہے جیسے اکیڈمی میں آنے والے یہ افراد یونان کی شہری ریاستوں کے وہ شہزادے ہیں جنھیں اصول جہانبانی سکھانے کے لیے دیگر ریاستی درباروں میں بھیجا جاتا تھا۔ ڈی ایم جی والوں کے لیے گھڑ سواری لازمی تھی۔ اس کی کیا ضرورت، لیکن کمال ہے ان کا جنہوں نے 1773ء سے سیکھا ہوا سبق آج بھی یاد رکھا ہوا ہے، بتایا گیا کہ یہ گھڑ سواری ایک تربیت ہے، یہ بتانے کے لیے کہ ایک منہ زور طاقت ور چیز پر کیسے قابو پایا جاتا ہے اور پھر وہ کس طرح ایڑی کے ہلکے سے اشارے سے سرپٹ بھاگنے لگتا ہے اور لگام کو ہلکا سا کھینچنے سے فوراً رک جاتا ہے۔
یہ سب آپ کو سمجھانے کے لیے ہے۔ آپ میں یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے ہے کہ عوام کے منہ زور گھوڑے کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ کون تھا جو وہاں لیکچر دینے آتا اور اس کی یادوں میں یہ فقرہ نہ گونجتا ’’میں جب ڈپٹی کمشنر تھا‘‘ انگریز کے بتائے ہوئے اس ’’منی وائسرائے‘‘ کی طاقت کا نشہ ان بیچاروں کو ساری زندگی چڑھا رہتا ہے۔ بیورو کریسی ایک ایسا طبقہ جس سے لوگ نفرت بھی کرتے ہیں لیکن اسی گروہ میں خود بھی شامل ہونے کی آرزو کرتے ہیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہ مستقبل دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی طاقت سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں اور اس کی شان و شوکت سے مرعوب بھی۔
لیکن کس قدر مقام شکر و سجدہ ریزی ہے کہ اس کا کرم میرے ساتھ ایسے شامل حال رہا کہ ایک دن کے لیے بھی نہ اس کی شان و شوکت مجھے بھلی لگی اور نہ ہی اس طاقت پر فخر کرنا نصیب ہوا۔ اکیڈمی ختم ہوئی تو میری تعیناتی صوبہ سندھ میں کر دی گئی۔ کہا جاتا تھا کہ حکمرانی کے مزے لوٹنے ہوں تو سندھ اور پنجاب کہ جہاں وڈیرے اور چوہدری بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے صدیوں سے عوام پر حکمران ہیں۔ جنرل ضیاالحق اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ میں تشریف لائے۔ میں سندھ نہیں جانا چاہتا تھا کہ وہاں جانے سے مزاج میں فرعونیت کا تڑکا لگنے کا خدشہ تھا۔
بلوچستان کا قبائلی معاشرہ مجھے اچھا لگتا تھا کہ جہاں انگریز بھی بلوچوں کو عزت و تکریم دے کر حکمرانی کر سکا۔ میں نے جنرل موصوف کو اپنا ارادہ بتایا، اردگرد کھڑے مملکت خداداد پاکستان کی بیورو کریسی کے اعلیٰ ترین دماغوں کے لیے یہ حیران کن تھا، یہ تو پاگل پن ہے، ایک نے میرے کان میں کہا، بلوچستان کون جاتا ہے، دوسرے نے سرگوشی کی، ضیاالحق نے دوبارہ سوال کیا، میں نے ہاں کی، مجھے فقرہ آج بھی یاد ہے، اس بندۂ صحرائی کا نوٹیفکیشن آج ہی ہو جانا چاہیے۔
آفتاب احمد خان سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تھے۔ انھوں نے سر ہلایا اور پھر میری تعیناتی بلوچستان ہو گئی جہاں میں نے سول سروس کے بیس سال گزارے۔ بلوچستان خود اپنی مرضی سے جانے کا یہ میرا دوسرا موقع تھا۔ 6 مارچ 1980ء کو میری جیب میں ملازمت کے دو پروانے تھے، ایک اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ہیڈکوارٹر جنیوا میں اور دوسری بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر شپ، لیکن میرے جنون کو یونیورسٹی کی ملازمت پسند تھی۔
اس لیے میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانے کو ترجیح دی اور انھی پانچ سالوں نے مجھے بلوچستان کے معاشرے کے خدوخال سے محبت سکھائی اور مجھے فیصلے پر مجبور کیا کہ میں سندھ کے بجائے نوکری کے بیشتر سال وہاں گزاروں۔ اسسٹنٹ کمشنر چمن، پشین اور کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر مستونگ، سبی اور چاغی، یہ وہ ذمے داریاں تھیں کہ جن کی وجہ سے مجھے اس ملک کی غریب و پسماندہ لیکن باغیرت و عزت نفس کی امین آبادی کے قریب آنے کا موقع ملا۔ میں نے مفلوک الحال بلوچ کو بھی غیرت میں مست دیکھا، دست سوال دراز کرتے ہوئے نہیں۔
بلوچ عوام کی محبتیں سمیٹنے کا جتنا موقع مجھے ملا وہ مجھ پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ مجھے اپنی زندگی کا وہ دن نہیں بھولتا، میں ڈپٹی کمشنر چاغی تھا، میرا ٹرانسفر ہو گیا، نیا ڈپٹی کمشنر تعینات ہو گیا۔ عمومی دستور یہ ہے کہ لوگ نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر کی استقبال کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں لیکن چاغی کے لوگ میرا تبادلہ رکوانے کے لیے ہڑتال پر چلے گئے، آر سی ڈی بائی بلاک کر دی گئی۔ اختر مینگل وزیر اعلیٰ تھے۔ حیران تھے کہ نہ میں ان کے قبیلے سے ہوں، نہ ہم زبان، پھر یہ بلوچ میرے لیے سراپا احتجاج کیوں ہیں۔ میرا تبادلہ منسوخ کر دیا گیا۔ ایسا کبھی بیوروکریسی میں ہوتا ہے۔
یہاں اللہ کے حضور سجدۂ شکر واجب نہیں۔ اظہار اور حرف اظہار تو بچپن سے اپنا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ شاعری ایک مدت سے اپنی رفیق رہی ہے۔ بات کہنے کو اظہار کا راستہ نہ ملنے تو ایک عالم حبس ذہن پر طاری ہو جاتا ہے۔ بیوروکریسی میں تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہر روز ایک نئے وبال کا سامنا ہوتا ہے، ایک نئی آفت سے آشنائی ملتی ہے، ایسے میں بولو نہ تو مر جاؤ۔ شاعری ساتھ دیتی رہی، 1988ء میں پہلا مجموعہ ’’قامت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
سوچا یہ تو ادھورا سچ ہے، اشارے میں بات کی گئی ہے، افسانہ پہلے بھی لکھتا تھا، ٹیلی ویژن پر ڈرامہ لکھنا شروع کر دیا، کردار تو روز آنکھوں کے سامنے گھومتے تھے۔ ان کو زبان دینا تھی، بس پھر کیا تھا، روزن، گرد باد، شہرزاد، قفس اور قافلہ نام سے پانچ سیریل لکھ دیں۔ لیکن شاید اب بھی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ یہ تو ایسا سچ ہے کرداروں کی زبان بولتا ہے، پکڑے جانے پر آپ مکر بھی سکتے ہو، دل مجبور کرتا تھا کہ واضح بات کرو، جو سوچتے ہو ہوبہو لکھو، نوکری اب اس مقام پر آ چکی تھی جب آپ صوبائی محکموں کے سربراہ لگتے ہیں۔ وہ زمانہ جب بیوروکریسی کی طاقت سے لطف اٹھانے کا دور ہوتا ہے۔
کتنے لوگ تھے جو سمجھاتے کہ جب ریٹائر ہو تو سچ بول لینا، ابھی کالم لکھنے کی کیا ضرورت ہے، ابھی نوکری کے پندرہ سال پڑے ہیں۔ مشرف کی نئی نئی آمریت تھی، بیوروکریسی پر عذاب نازل ہو چکا تھا۔ جنرل تنویر نقوی کو بیوروکریسی کی کمر توڑنے پر لگایا گیا۔ ایسے میں یہ فیصلہ کہ میں کالم لکھوں، سب کچھ کھول کھول کر بتاؤں، بہت مشکل تھا۔ لیکن ایک بار پھر میرے مالک نے حوصلہ عطا کیا۔ اس سے صرف ایک وعدہ کیا تھا جب تک لکھوں گا ہزار خوف و لالچ کے باوجود اللہ اور اس کے دھڑے کی طرف داری میں لکھوں گا۔ ان پندرہ سالوں میں مجھ پر کیا بیتی، یہ الگ کہانی ہے۔
لیکن جس کسی کو بھی اللہ کے قادر مطلق ہونے پر یقین نہیں وہ صرف میری نوکری کے یہ پندرہ سال دیکھ لے، کون کون تھا جو اقتدار کے اعلیٰ ترین مقام پر متمکن ہوئے اور میرے کالموں پر شدید خفا ہونے کے باوجود مجھے نوکری سے نہ نکال سکا۔ نوٹس، انکوائریاں چلتی رہیں، مردہ محکموں کی سربراہی ملتی رہی کہ تنگ آ جاؤں گا، لیکن میرا اللہ ان محکموں میں بھی جان ڈال دیتا تھا۔ یہ کہانی بہت طویل ہے لیکن اس کے ہر لمحے پر سجدہ شکر لازم ہے، ہر لمحہ یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تو کٹھ پتلیاں ہیں، اصل حاکم تو میرا اللہ ہے اور وہ میری کس شاندار طریقے سے حفاظت کرتا ہے۔ کوئی اعلان تو کرے کہ وہ اس کے دھڑے کا ہے، پھر اپنے دھڑے والوں کی نصرت وہ خود کرتا ہے۔
آج اکتیس سال اور تین ماہ بعد ایک حساب جاں سب کے سامنے رکھا ہے۔ میں نے آج تک سرکار کا کوئی پلاٹ حاصل نہیں کیا۔ میں نے یا میری کسی اولاد نے سرکار کے خزانے سے وظیفہ پر کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں میرے پاس کوئی ذاتی گھر نہیں، بس ایک پلاٹ ہے جس پر ملنے والی پنشن سے گھر بنایا ہے، جی پی فنڈ پر سود نہیں لیا کہ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہوں۔ آج مجھے تیس لاکھ کے قریب جی پی فنڈ کم ملے گا لیکن اللہ نے مجھے یہ خسارہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ کوئی ذاتی گاڑی نہیں ہے۔
البتہ اب پنشن کی رقم سے خرید لوں گا۔ لیکن دل بہت مطمئن ہے۔ پرسکون ہے، یہ سکون اور طمانیت اللہ کی دین ہے، عطا ہے، فضل ہے، آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے صرف ایک دعا کریں، وہ ایک ہی دعا ہے، حسن خاتمہ کی دعا، موت کے وقت نفس مطمئنہ کی دعا، درگزر، معافی اور مغفرت کی دعا کہ صرف میں خود ہی جانتا ہوں کہ میں کتنا گناہگار ہوں اور مجھے کتنی زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔
جھوٹ کی کالک
اوریا مقبول جان جمعـء 15 جنوری 2016
ٹھیک چھ سال بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے دیا جس میں ایک لڑکی کو سوات میں کوڑے لگائے جا رہے تھے اور جس نے پاکستان بھر کے میڈیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ ان چھ سالوں میں اس ویڈیو پر بے شمار ٹاک شو ہوئے، لاتعداد کالم لکھے گئے، پورے ملک میں ایک فضا بنائی گئی، سوات کے مذاکرات کالعدم، آپریشن شروع۔ ہو سکتا ہے آپریشن کی اور بھی وجوہات ہوں لیکن اس آپریشن کا عوام میں جواز پیدا کرنے کے لیے اسی ویڈیو کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور آج چھ سال بعد سپریم کورٹ اسے جعلی، جھوٹی اور فراڈ قرار دیتی ہے۔
2009ء میں اس ویڈیو کے منظر عام کے آنے کے کچھ دن بعد ہی میں نے ایک کالم “جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے” کے عنوان سے اسی ایکسپریس اخبار میں تحریر کیا اور میں نے بغیر کسی تعصب کے اس ویڈیو کا تکنیکی اعتبار سے جائزہ لیا۔ کاش یہ تکنیکی جائزہ انھی دنوں میں سپریم کورٹ کی نظروں کے سامنے آ جاتا، کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ہی زیرِ بحث آ جاتا، لیکن اس وقت تو سب پر ایک خمار چڑھا ہوا تھا۔
میں نے تحریر کیا تھا۔ “ایسا تو کوئی بددیانت، بدکردار، ظالم اور جابر تھانیدار بھی نہیں کرتا کہ اس کے سامنے ایک تصویر، فلم یا موبائل میں موجود کوئی مبہم سی ویڈیو رکھی جائے اور کہا جائے کہ اس میں کیا جانے والا جرم فلاں قصبے، گاؤں، علاقے یا فلاں فرد نے کیا ہے اور وہ قلم کاغذ اٹھائے، رپورٹ بنائے، ایف آئی آر کاٹے اور پھر نفری لے کر اس طرف چڑھ دوڑے۔ ساری تفصیلات کسی کرائم رپورٹر کو بتائے اور پھر پورے علاقے میں اس کا چرچا کر دے۔
پاکستان کے گئے گزرے پولیس کے نظام میں بھی یہ جرأت کسی پولیس والے میں موجود نہیں۔ وہ جھوٹے کیس بنائے گا، جھوٹی ایف آئی آر کاٹے گا، بے گناہوں کو ملوث کرے گا لیکن جہاں کسی قسم کا لالچ نہ ہو، دشمنی نہ ہو، حکومت کی جانب سے غلط ہدایات نہ ہوں وہاں وہ معاملے کی تہہ تک ضرور پہنچے گا۔ میں نے گزشتہ 25 سال کی نوکری میں 10 سال ایسے گزارے ہیں جب میں جرم و سزا کی دنیا سے نبرد آزما تھا۔ زندگی کے 19 سال ٹیلی ویژن کا ڈرامہ لکھتے اسے ریکارڈ کرواتے، ایڈیٹنگ ٹیبل پر بیٹھے گزرے ہیں اور کسی بھی ویڈیو یا فلم کے ایک ایک فریم کو تجزیہ کرنے کا ہنر جانتا ہوں۔
9 سال کالم لکھتے اور صحافی برادری کی ہمرکابی میں گزرے لیکن اس سارے عرصے میں گزشتہ تین دن میں جس اخلاقی کرب اور اذیت سے گزرا ہوں ایسا میری پوری زندگی میں نہیں ہوا۔ میں نے اس بچی کو کوڑے مارنے والی فلم بار بار دیکھی اور ایک ایک فریم کر کے دیکھی جیسے ایڈیٹنگ ٹیبل پر دیکھی جاتی ہے۔
یہ فلم جس شخص نے بنائی ہے اس نے اپنی خباثت کو کمال مہارت سے استعمال کیا ہے۔ پوری فلم میں کیمرہ ایسی جگہ رکھا گیا ہے کہ کہیں سے کوئی عمارت، کوئی درخت، کوئی اشتہار، پس منظر میں کوئی پہاڑ یا عمارت نہ نظر آ سکے۔ یہاں تک کہ کیمرے والے نے کمال ہوشیاری سے تماشہ دیکھنے والوں کے صرف پاؤں دکھائے ہیں یا تھوڑی بہت شلواریں، کیمرہ خواہ موبائل کا ہو اس کو زوم (Zoom) کر کے یا پھر زاویہ بدل کر ہجوم کو لایا جا سکتا تھا لیکن مقصد یہ تھا کہ کل کو کوئی اگر ان لوگوں کو گواہی کے طور پر بلائے یا تفتیش کرے تو اصل حقیقت سامنے نہ آ جائے۔
اب آئیں اس سارے ڈرامے کے مرکزی کرداروں کی جانب، ان کا لباس، وضع قطع، چہرے پر لگائی گئی یا پھر اصلی بڑی بڑی داڑھی اور پھر چادریں یہ سب ان کے چہرے چھپانے کے لیے کافی تھے، لیکن پھر بھی کیمرے کو کلوزاپ میں لے جا کر ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا بلکہ کیمرہ تھوڑا آؤٹ آف فوکس (OutofFocus) رکھا گیا تا کہ شناخت نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود بھی وہ تینوں اس قدر گھبرائے ہوئے تھے کہ کیمرے کے سامنے منہ نہیں کرتے تھے جیسے انھیں معلوم ہو کہ یہ فلم بن رہی ہے اور وہ کہیں پہچانے جائینگے۔ اب آتے ہیں آواز کی طرف جو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں ڈب (Dub) کی گئی ہے۔
ہجوم کا کوئی شور نہیں۔ کئی دفعہ کوڑا ہوا میں ہوتا ہے اور چیخ پہلے بلند ہو جاتی ہے۔ لیکن سب سے بڑا مضحکہ خیز کمال یہ ہے کہ غلطی سے فلم مکمل طور پر ایڈیٹ (Edit) ہونے سے رہ گئی ہے۔ کوڑے پڑنے کے بعد یوں لگتا ہے ڈائریکٹر نے کہا “کٹ” اور زمین پر لیٹی ایکٹریس فوراً اٹھ کھڑی ہو گئی۔ اس کے نزدیک تو یہ سین فلم میں سے ایڈٹ ہو جانا تھا، ورنہ وہ اتنے سارے کوڑے کھا کر وہیں پڑی کراہتی رہتی۔ لیکن جیسے فلموں کے سین میں روتی ہوئی ہیروئن کٹ کی آواز آنے پر فوراً ہنسنے لگتی ہے ویسے ہی اس لڑکی نے کیا۔
مجھے اس میڈیا پر شرمندگی ہو رہی ہے جس کا میں حصہ ہوں۔ ان سارے چینلوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو رپورٹر کی تنخواہ لیتے ہوں گے۔ جن کا کام حقائق تک پہنچنا اور چھان پھٹک کر لوگوں کو دکھانا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھاجو اس ویڈیو کو چلانے سے پہلے تحقیق کر لیتا۔ نام پتہ اور مقام معلوم کر لیتا۔ ویڈیو چلتی رہی لیکن اس کے ساتھ میرے ملک کے اس میڈیا پر اس ڈرامے کی بنیاد پر اسلامی نظام کا تمسخر اڑایا جاتا رہا۔ گز گز کی زبانیں اسے فرسودہ، جاہلانہ، ظالمانہ اور دقیانوسی نظام قرار دیتی رہیں۔ اس سارے ڈرامے میں اگر کوئی مظلوم تھا تو وہ اسلامی نظام تھا جس نے حدود نافذ کیں۔
رسول ﷺ کے زمانے میں لوگ اخلاق اور آخرت کی جوابدہی کے خوف سے اتنا ڈرتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے آ کر اقرار کرتے کہ ہم سے یہ جرم سرزد ہو گیا ہے ہم پر حد نافذ کیجیے، ہم آخرت کا عذاب سہنے اور برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، ایک عورت تو حاملہ تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے کہا جاؤ پہلے بچہ پیدا کرو، اسے دودھ پلاؤ اور پھر دودھ چھڑوانے کے بعد آنا۔ اسے آخرت کے عذاب کا اتنا خوف تھا کہ پھر آئی اور اس پر حد نافذ ہوئی۔
کوڑے نہیں بلکہ سنگساری۔ اس پورے معاشرے میں کسی نے اسے فرسودہ، ظالمانہ، جاہلانہ اور دقیانوسی نہیں کہا۔ لیکن قربان جاؤں ہمارے بعض دانشوروں پر، کہ ایک ڈرامائی تشکیل کردہ ویڈیو چلائی گئی اور پھر چوبیس گھنٹے تک اس کا مضحکہ اڑایا گیا۔ جس قوم کے اخلاق کے دیوالیہ پن کا یہ عالم ہو کہ موبائل پر موجود ایک ویڈیو نشر کر کے شرعی قوانین کا تمسخر اڑانے لگے وہ اللہ سے کسی رحمت کی طلبگار کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن اللہ، رسولﷺ، دین مذہب تو ایک طرف میرا دکھ عجیب ہے اور کربناک ہے۔
میں سوچتا ہوں جس ملک میں اخلاقی ذمے داریوں کا جنازہ اس طرح نکل جائے تو وہاں کہیں ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ لوگوں کے موبائلوں میں موجود معصوم بے گناہ بچیوں کی تصویرں اور غلط قسم کی فلمیں انسانی حقوق کے نام پر چلائی جانے لگیں۔ کراچی کے رینبو سینٹر اور لاہور کے ہال روڈ پر چلنے والی سکینڈل والی فلموں کو تحقیقی مواد سمجھ کر چلایا جائے اور پھر اس پر پروگرام ہو رہے ہوں۔ تبصرے اور جائزے نشر کیے جا رہے ہوں، کوئی ان کے خلاف یوم سیاہ منا رہا ہو اور کوئی اسے انسانیت کی تذلیل کہہ رہا ہو لیکن اس سب میں مظلوم وہ لڑکی یا لڑکا ہو گا جس کی ویڈیو نشر ہو گی۔ جو منہ چھپاتے پھریں گے، دعا کریں گے کہ انھیں زمین نگل لے یا آسمان اٹھا لے۔”
آج بھی کچھ نہیں بدلا، ریٹنگ کی دوڑ میں دیوانے اور بریکنگ نیوز کی تلاش میں سرکرداں یہ میڈیا ہر روز یہ کھیل کھیلتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کھیل کا نہیں ہے، یہاں مسئلہ اس ارادے کا ہے جو ایسی کہانیاں گھڑنے کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جو دو دھاری تلوار ہے۔ یہ وقتی طور پر تو کسی نظریے سے یا کسی شخصیت کے خلاف ایک فضا بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ تاریخ کی کسوٹی پر جھوٹ پرکھا نہ گیا ہو۔ جب ایسے جھوٹ کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹتا ہے تو وہ جو اس نظریے کے بارے میں ذرا بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ اس کے ساتھ سختی سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوات آپریشن میں میڈیا کے دو تحفے دیے۔
ایک یہ جعلی ویڈیو اور دوسری ملالہ یوسف زئی۔ ویڈیو کا جھوٹ تو ایک ایسی حقیقت تھا جسے سب جانتے تھے لیکن بولتا کوئی نہیں تھا۔کیا آج سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ اینکر پرسن، وہ کالم نگار اور تجزیہ کار ایک لمحے کو اپنے گریبان میں جھانک کر شرمندگی اور ملامت سے خود کو دیکھیں گے؟ شاید نہیں، کہ ایسا ظرف سازشی کہانیاں کہنے والوں میں کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی ملالہ یوسف زئی، تو یہ ایک ایسا نوبل انعام ہے جس پر کراچی سے لے کر گلگت تک شکوک شبہات ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں کوئی اسے ہیرو کے درجے پر نہیں رکھتا، سوائے موم بتیاں روشن کرنے والی ڈونرز کے پیسوں پر چلنے والی این جی اوز، مغرب کی بے سروپا نقالی کرنے والی سول سوسائٹی اور میڈیا۔ یہ تھے سوات آپریشن کے انعامات اور جو بیتا اورآج بھی بیت رہا ہے اس کے بارے میں کل کا مؤرخ جب لکھنے لگے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے تاریخ سے کھرچ سکے گا، ایسے میں جھوٹ کی کالک کس کس کے چہرے پر ملی جاتی ہے ، یہ تو وقت بتائے گا۔
مطیع الرحمن نظامی، میرے بچپن کی حسین یاد
اوریا مقبول جان پير 11 جنوری 2016
یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن نے ہماری مجلسی زندگی پر ڈاکہ نہیں ڈالا تھا۔ محلوں کی چوپالیں اور تھڑے رات گئے تک آباد رہتے تھے۔ سیاست سے لے کر ادب اور معیشت سے لے کر سیاحت تک کونسا ایسا موضوع ہے جو ان محفلوں میں زیر بحث نہ آتا تھا۔ یہ محفلیں گلی محلوں کے درمیان موجود چوپالوں‘ نکڑوں یا ویہڑوں میں منعقد ہوتیں۔ ہر شہر میں بعض مخصوص دکانیں ہوتیں جن کے مالکان علم کی پیاس میں عموماً عصر کے بعد اپنی دکان کے حصے میں کرسیاں سجا رکھتے جہاں شہر کے مخصوص معززین آتے‘ دن کے معاملات‘ شہر کے حالات اور ملکی سیاست پر گفتگو کرتے اور شام ڈھلے رخصت ہو جاتے۔
ہر کسی کو یاد کرنے پر اپنے شہر کے یہ مخصوص ٹھکانے ضرور یاد آ جائیں گے جو اب اجڑ چکے ہیں۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ چونکہ دو شہروں گجرات اور کوئٹہ میں گزرا ہے اس لیے مجھے آج بھی ان دونوں شہروں کی محفلیں ایک سہانے منظر نامے کی طرح یاد آتی ہیں اور آنکھیں بھگو جاتی ہیں۔ اگر آپ اس زمانے میں کوئٹہ کی جناح روڈ پر عصر کے بعد گزرتے تو آپ کو کسی دکان میں نواب اکبر بگٹی اپنی محفل سجائے ہوئے نظر آتے تو کسی میں محمود خان اچکزئی‘ چائے خانوں میں لوگ دیر تک بیٹھتے اور دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ زمرد حسین صاحب کی قلات پبلشرز والی دکان تو سیاست دانوں‘ ادیبوں‘ شاعروں کا مرکز تھی جس طرح شہر میں کوئی نئی کتاب آئے تو وہ بک اسٹالوں پر ملتی ہے اسی طرح کوئٹہ میں کوئی ادیب‘ شاعر‘ صحافی یا سیاست دان باہر سے تشریف لاتا تو زمرد حسین صاحب کے قلات پبلشر والے تکیے میں ضرور نظر آتا۔
گجرات جسے سرسید نے خطۂ یونان کہا تھا اس کے ہاں بھی ڈیرے بہت تھے۔ حکیم جمیل صاحب اپنے مطب کے سامنے گلی میں پانی کا چھڑکاؤ کرواتے‘ کرسیاں رکھ دی جاتیں اور پھر وہاں کون کون نہیں آتا تھا۔ سیاست دانوں سے لے کر ادیبوں‘ شاعروں اور کالج کے پروفیسروں تک ہر کوئی۔ صبح کے وقت ضلع کچہری میں وکیلوں کے چھپڑ سیاست دانوں اور صحافیوں کے ٹھکانے ہوتے اور شام کو ادب پرور لوگوں کی دکانیں ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہیں۔ لیکن اس زمانے میں رات گئے یا پھر عشاء کے بعد کے معمولات میں سب سے اہم عوامی جلسے‘ مذہبی تقریبات اور میلوں کے سرکس تھے۔ سینما گھروں کی رونق اپنی جگہ لیکن عوامی جلسے تو ہر خاص و عام کو میسر تھے‘ اس لیے لوگ ہر سیاسی و مذہبی جلسہ اپنے اپنے شوق کے اعتبار سے رات ڈھلے تک دیکھتے اور تقریریں سنتے رہتے۔
تقریر کا فن اپنے عروج پر تھا اور شعلہ بیان مقررین گھنٹوں لوگوں کو اپنے سحر میں لیے رکھتے۔ میرا گھر گجرات کے ایک مشہور علاقے کالری دروازے کی گلی محلہ ڈپٹی یار محمد خان میں تھا۔ کالری دروازہ آج فیصل گیٹ کہلاتا ہے جس کا نام گجرات کے شہریوں نے شاہ فیصل کے انتقال کے بعد ان کے نام سے معنون کر دیا تھا۔ یہ گیٹ فصیل شہر کے گیٹوں میں سے ایک تھا۔ قدیم دروازہ تو منہدم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک میدان سا بن گیا تھا جہاں سیاسی جلسے منعقد ہوتے۔ مقررین کی آوازیں چھتوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تھیں لیکن پھر بھی لوگ جلسے میں جا کر روبرو مقرر کو سننا پسند کرتے۔ میرے بچپن کی یادوں کی ایک خوبصورت یاد ایک سیاسی جلسہ اور اس میں ایک مقرر کی تقریر ہے۔ ایوب خان کا دور اقتدار ختم ہوا تھا اور یحییٰ خان نے سیاسی سرگرمیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت نے انگڑائی لی تھی اور مقبولیت کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہی تھی۔ ہمارے سامنے وحدت مغربی پاکستان یعنی ون یونٹ ٹوٹا تھا ا ور اس کی کوکھ سے چار صوبے بلوچستان‘ سندھ‘ پنجاب اور سرحد برآمد ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں سرخ انقلاب کی آمد آمد کے تذکرے عام تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا روٹی‘ کپڑے اور مکان کا نعرہ اور منشور میں درج ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ پاکستان میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کے لیے خوش کن پیغام تھے۔ یہی وہ دن تھے جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولانا بھاشانی نے کسان کانفرنس منعقد کی۔ ان کی ڈھاکہ سے مغربی پاکستان آمد یہاں کے رہنے والوں کے لیے ایک اچنبھا تھا۔ یہ کانفرنس کسانوں کو درانتی اور ہل کے ذریعے انقلاب لانے کے ذرائع بتاتی رہی۔ فیض احمد فیض نے اسی کانفرنس میں اپنی انقلابی شاعری سے لوگوں کو گرمایا تھا۔
مولانا بھاشانی جس خطے سے آئے تھے یعنی مشرقی پاکستان اس کا ذکر یوں تو مغربی پاکستان کی محفلوں میں بہت ہی کم ہوتا اور اگر ہوتا تو دو طرح کے رویے ہماری گفتگو میں پائے جاتے۔ ایک رویہ عام لوگوں کا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام پسماندہ ہیں‘ مفلوک الحال ہیں اور ہم مغربی پاکستان کے عوام ان کی آفتوں اور سیلابوں میں مد د کرتے ہیں نہ کسی کو بنگالی موسیقی سے دلچسپی تھی اور نہ بنگالی ثقافت سے۔ ڈھاکہ میں بنائی گئی چند فلمیں سینماؤں میں لگتیں تو لوگ کو سنار بنگلہ کی اس سرزمین کے مناظر بھلے لگتے۔ شبنم اور رحمان تھے تو بنگالی لیکن ان کی پہچان لاہور کی فلم انڈسٹری بن چکی تھی۔
دوسری جانب ایک ایسا طبقہ تھا جو پاکستان کے میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔ یہ طبقہ بائیں بازو کی اس سوچ سے تعلق رکھتا تھا جن کے نزدیک پاکستان کی وحدت کو اسی طرح نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اگر یہا ں پر بسنے والی قومیتوں میں نفرتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں علاقوں کے پریس مختلف تھے اس لیے کسی کو علم تک نہ تھا کہ دوسری جانب کیا لکھا جا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں یہ مستقل پراپیگنڈہ تھا کہ مغربی پاکستان تمہارے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور وہاں کی ترقی دراصل تمہارے استحصال کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب یہاں کے پریس پر چھائے ہوئے لوگ بنگالیوں کا ذکر تو نہ کرتے لیکن مغربی پاکستان کے رہنے والوں کو ظالم‘ استحصالی‘ خون چوسنے والے اور بنگالیوں کے حقوق کا غاصب بنا کر پیش کرتے۔
یہ پراپیگنڈہ ایسا تھا کہ دونوں جانب محبت کے گیت گانے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کا ایک فرد بھی مشرقی پاکستان میں موجود نہ تھا۔ گویا پاکستان ٹوٹنے سے کئی سال پہلے ہی بھٹو نے اس خطے سے جان چھڑا لی تھی۔ شیخ مجیب اور بھاشانی کی پارٹی کے جھنڈے ان کے لاہور کے دفتروں پر لہراتے نظر آ جاتے تھے۔ یہ دفاتر بھی پورے مغربی پاکستان میں تین یا چار ہوں گے۔ لیکن ایک تنظیم ایسی تھی جس کے دفتر مغربی پاکستان کے کونے کونے میں موجود تھے اور ان دفاتر پر آویزاں بورڈ پر اس تنظیم کا نام بنگالی میں بھی لکھا ہوتا تھا۔ یہ واحد جگہ‘ دفتر یا بورڈ ایسا تھا جس کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان بھی ہمارا حصہ ہے۔ یہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ جس نے بورڈ پر بنگالی میں اس کا نام ’’اسلامی چھاترو شنگھو‘‘ لکھا ہوتا تھا۔
گجرات کے کالری گیٹ اور موجودہ فیصل گیٹ میں یوم پاکستان کا ایک جلسہ اسی اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے منعقد ہوا۔ اس جلسے کے دو مقررین تھے ایک پروفیسر خالد علوی مرحوم جو جامعہ پنجاب میں پڑھاتے تھے اور دوسرے ڈھاکہ سے آئے ہوئے مطیع الرحمن نظامی۔ یہ میرا دہریت کا دور تھا۔ کارل مارکس اور اینگز کو پڑھنے کے بعد ذہن میں خسرے کی طرح لادینیت کی بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مشرقی پاکستان چونکہ ہم سب کے لیے ایک دور دراز اور انوکھا خطہ تھا اس لیے وہاں سے آنے والوں کو سننا اور دیکھنا معلومات میں اضافے کے لیے ضروری تھا۔ میں اس جلسے میں چلا گیا۔ پہلے تو خالد علوی کی تقریر نے مجھے مبہوت کر دیا۔ جامعہ پنجاب کا ایک استاد اور سرکاری ملازم اسقدر جرات سے گفتگو کر رہا تھا کہ میں حیران رہ گیا۔
سچی بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران جب کبھی سوچتا ہوں کہ اسقدر بے خوفی مجھ میں کیسے آئی تو شاید اس کا ایک جواز یہ ہے کہ مجھے خالد علوی کی جرات نے متاثر کیا تھا لیکن جس شخص کی تقریر‘ حسن بیان‘ ملاحت اور پاکستان سے محبت میں ڈوبے ہوئے الفاظ نے مجھے گرویدہ بنایا وہ مطیع الرحمن نظامی تھے۔ پہلی حیرت میرے لیے یہ تھی کہ ایک بنگالی پورے پاکستان پر چھائی اسلامی جمعیت طلبہ کا سربراہ کیسے بن گیا۔ مغربی پاکستان میں موجود کسی اور سیاسی پارٹی یا تنظیم میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بنگالی نوجوان کو مغربی پاکستان میں ایک ہیرو اور ایک لیڈر کے طور پر لیے لیے پھر رہی ہے۔ یہ کیسے مغربی پاکستان کے رہنے والے ہیں جنھیں اپنے بنگالی بھائیوں سے نفرت ہی نہیں۔ وہ انھیں کمتر نہیں جانتے۔
یہ سوال میرے ذہن سے ٹکراتے رہے اور میری دلچسپی مطیع الرحمن نظامی کی تقریر میں بڑھتی گئی۔ چودہ سال کے بچے کے لیے یہ بہت حیرت کے لمحات تھے۔ وہ جسے یک طرفہ مطالعہ نے دہریہ بنایا تھا اور یک طرفہ پراپیگنڈ نے بنگالیوں کا صحیح تصور ہی واضح نہیں ہونے دیا تھا۔ اگر مطیع الرحمن نظامی کی وہ تقریر میری زندگی میں نہ آتی تو کبھی بھی وسیع نظری سے بنگالی عوام کو نہ دیکھ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان ٹوٹا تو یہ ایک ایسا المیہ تھا جس نے مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے قریب کیا اور میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا حصہ بنا‘ اس تحریک نے پاکستان سے محبت جگائی اور پاکستان سے محبت نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا‘ ایسے میں اگر مولانا مودودی کا مدلل علم میری رہنمائی نہ کرتا تو میں دہریت کے تاریک سمندر میں غرق رہتا۔
آج وہ مطیع الرحمن نظامی جس کی تقریر نے مجھے پاکستانیت کے قریب کیا۔ جس کی بنگالی لہجے کی اردو نے مجھے اس خطے سے محبت سکھائی‘ اسے اس پاکستان سے محبت نے جرم میں بنگلہ دیش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ اس منزل کا راہی ہے جس پر ایسے کئی پروانے جھول چکے ہیں۔ میں اس خطہ جسے مغربی پاکستان کہتے تھے اور اس وقت پاکستان‘ وہاں پر موجود آنکھوں میں آنسو لیے صرف یہ سوچ رہا ہوں دنیا کی تاریخ میں کمزور ترین ملکوں نے بھی اپنے سے محبت کرنے والوں کو ایسے فراموش نہیں کیا ہو گا جیسے ہم نے کیا ہے۔ شاید ہی کوئی آنکھ اشکبار ہو‘ شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ جو قومیں اپنے عشاق سے یہ سلوک کرتی ہیں ان کے گھروں میں بھی ان سے محبت کرنے والے پیدا ہونے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ محبت کے معاملے میں بانجھ ہو جاتی ہیں۔
اگلا عفریت کون ہو گا
اوریا مقبول جان جمعـء 8 جنوری 2016
یہ منظر ایسا تھا کہ آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ پوری دنیا کو آگ اور خون میں مبتلا کر کے لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس طرح کی رسم اور وہ بھی ان لوگوں کی زیر نگرانی جو اس وقت پوری مسلم دنیا میں مسلکی بنیادوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ لبنان کا ٹیلی ویژن دو دسمبر 2015ء کو اس واقعہ کو براہ راست نشر کر رہا تھا۔
القاعدہ کے سیاہ پرچم، جن پر کلمہ طیبہ درج ہے، لہراتے ہوئے القاعدہ کے جنگجو گاڑیوں میں سوار لبنان کے علاقے بکّہ وادی میں داخل ہوئے جن کا استقبال لبنانی حکومت کے نمایندوں نے کیا۔ لبنان کی حکومت اس وقت ایک نئے اتحاد سے وجود پکڑ رہی ہے جو حزب اللہ اور مستقبل تحریک کے حسن نصراللہ اور سعد حریری کے درمیان ہوا ہے۔ القاعدہ کا یہ گروہ شام میں جبۃ النصرہ کہلاتا ہے۔ یہ گروہ 23 جنوری 2012ء کو شام میں قائم ہوا اور نومبر میں اس پر امریکا نے دہشت گرد گروہ کا الزام لگا کر پابندی لگا دی۔
اسے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل، فرانس، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس، ترکی اور ایران نے بھی دہشت گرد گروہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ وہی القاعدہ ہے جس کے خلاف جنگ کا اعلان پوری دنیا نے کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کے بعد شروع کر دیا تھا۔ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا نام خوف اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔
اسامہ بن لادن سوڈان گیا تو اس کا وہاں پیچھا کیا گیا، حملے کیے گئے، سب سے بڑی دوائیوں کی فیکٹری اس بات پر تباہ کر دی گئی کہ اسے القاعدہ نے قائم کیا تھا جس سے عوام بنیادی دوائیوں سے بھی محروم ہو گئے۔ اسامہ افغانستان آیا تو اس کے پیچھے گیارہ ستمبر سے پہلے ہی حملے شروع کر دیے گئے۔ بل کلنٹن کے زمانے کا وہ ناکام حملہ کس کو یاد نہیں جس میں میزائل پاکستان کے علاقے خاران میں آ کر گرے۔ بڑے بڑے عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں نے القاعدہ کے خطرے پر کتابیں لکھیں۔ اخبارات کے صفحات سیاہ کیے۔ اس کے بعد گیارہ ستمبر کا واقعہ آ گیا۔
اسی القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ افغانستان کا امن غارت ہو گیا اور لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ القاعدہ کے پیچھے پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز ہوا جس میں پہلے حملے میں ڈامہ ڈولہ کے مدرسے کے نوے کے قریب بچے مارے گئے۔ کیا زمانہ تھا کہ پرویز مشرف امریکا کا اس قدر وفادار تھا کہ اس نے اعلان کیا کہ یہ حملہ تو پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کیا۔ قبائلی علاقوں میں کارروائیاں بھی چلتی رہیں اور امریکی دباؤ بھی۔ عراق پر بھی حملہ اس الزام پر کیا گیا کہ وہاں القاعدہ منظم ہو رہی ہے۔
پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کی جس نے اپنے کسی بھی مخالف کو مارنا تھا بس ایک نام کافی تھا۔ یہ القاعدہ کے لوگ ہیں، یہ القاعدہ کو پناہ دیتے ہیں، سہولت کار ہیں اور اس شہر کی پوری آبادی کو جہنم بنا دیا گیا۔ فلوجہ اس کی بدترین مثال ہے۔ گوانتانامو بے القاعدہ کے دہشت گردوں سے بھر دیا گیا۔ عافیہ صدیقی آج بھی امریکی جیلوں میں سزا بھگت رہی ہے۔ القاعدہ کی سب سے فعال اور مضبوط تنظیم جبۃ النصرہ ہے جو شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہی ہے۔
اس گروہ کو سب سے پہلے یعنی 30 جنوری 2012ء کو ایران نے دہشت گرد گروہ قرار دیا جب کہ اس کے قیام کو ابھی سات دن ہی ہوئے تھے۔ حزب اللہ نے اس کے ساتھ لبنان کی بکّہ وادی اور شام میں مقابلے کا آغاز کیا۔ یہ آج سے چار سال قبل کی بات ہے جب شام میں عرب بہار کے اثرات کا آغاز ہوا تھا اور ایران نے بشار حکومت کو بچانے کے لیے پاسداران روانہ کیے تھے اور حزب اللہ کے اپنے دستے بشار مخالف لوگوں سے لڑنے کے لیے شام میں اتارے۔
ٹھیک چار سال بعد لبنان کی بکّہ وادی کا یہ منظر سب کے لیے حیران کن تھا۔ القاعدہ کے پرچم گاڑیوں پر لہرا رہے تھے اور نعروں کی گونج میں لبنان کی فوج نے ان کے 29 ساتھیوں کو القاعدہ کے حوالے کیا اور اپنے 16 فوجیوں اور ایک پولیس والے کو ان سے واپس لے لیا جو ان کی قید میں تھے۔ ان 29 القاعدہ کے ساتھیوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
ان میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیٹی اور سابقہ بیوی بھی تھیں جو سرمئی رنگ کا حجاب پہنے ایک گاڑی میں لائی گئیں اور لبنان ٹی وی ان سے گفتگو براہ راست نشر کرتا رہا۔ جیسے ہی قیدی فوجیوں کو جبۃ النصرہ نے رہا کیا تو وہاں موجود رشتے دار خوشی کے آنسوؤں اور نعروں میں ڈوب گئے۔ یہ وادیٔ حمائد کا ارسل شہر تھا۔ ان فوجیوں کو لینے کے لیے لبنان حکومت میں حزب اللہ کا اہم نمایندہ سیکیورٹی ہیڈ جنرل عباس ابراہیم خود آیا ہوا تھا۔
اس کا یہاں آنا وزیراعظم تمام سلام نے اپنے ساتھ اس لیے لازم قرار دیا کہ کل اس رہائی کا الزام حزب اللہ دوسرے گروہوں پر نہ لگا دے۔ جب یہ قافلہ النبوہ شہر پہنچا تو آزاد ہونے والے فوجیوں کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا جہاں عباس ابراہیم نے اسے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ کی فتح قرار دیا۔ اس لیے کہ حسن نصراللہ نے قیدیوں کے اس تبادلے کے لیے بشارالاسد کو مجبور کیا تھا کہ وہ القاعدہ کی قید میں تین خواتین اور نو بچوں کو رہا کر دے تا کہ لبنانی فوجیوں کو واپس لایا جا سکے۔ قیدیوں کی یہ تبدیلی سولہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد وقوع پذیر ہوئی۔
کیا کوئی یہ یقین کر سکتا تھا کہ آج 25 سال کی طویل جنگ اور دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے، لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد القاعدہ کے خلاف مغربی طاقتوں کا رویہ بھی نرم ہے اور وہ جو مشرق وسطیٰ کو جنگ میں جھونک رہے ہیں، انھیں بھی القاعدہ نرم نظر آ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں القاعدہ نرم مزاج بتائی جاتی ہے اور افغانستان میں طالبان کو امن کا ضامن تصور کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ اب دنیا کو ڈرانے اور جنگ میں جھونکنے کے لیے داعش کا ہوّا دکھایا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے اس سے تمام عرب ممالک کو خوفزدہ کیا گیا۔ اس کے نظریات موجودہ قومی ریاستوں کے لیے خطرہ قرار دے کر انھیں امریکی چھتری تلے جمع کیا گیا۔ دوسری جانب بشارالاسد کے خلاف جنگ کا بہانہ لے کر ایران، عراق اور شام کو روس کی چھتری کے نیچے کھڑا کر دیا گیا۔کس قدر بددیانت ہوتے ہیں لوگوں کو مسلکی جنگ میں جھونکنے والے کہ دمشق میں تمام حملے جبۃ النصرہ کرتی رہی اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرتی رہی۔ انھی حملوں کو بنیاد بنا کر ایران کے لوگ ، حزب اللہ، افغانستان سے اور پاکستان سے گروہ منظم کر کے وہاں بھیجے گئے۔
قبائلی علاقہ جات اور افغانستان میں موجود القاعدہ کے ارکان سب کے سب تو نہیں لیکن اکثر شام چلے گئے۔ یہ لڑائی چار سال سے چل رہی ہے۔ کم از کم پندرہ مختلف گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے داعش وجود میں آئی، اس نے ریاستی حدود کو توڑ کر رکھ دیا۔ ہر ایک کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ اس کے بعد آپ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہونے والی یلغار ملاحظہ کریں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکا نے بنائی، کسی نے کہا ابوبکر البغدادی اسرائیلی ہے، کسی نے اس کوشامی وعراقی حکومت سے انتقام کی سیڑھی قرار دیا۔ یورپ کے 24 ملکوں سے باقاعدہ لوگ داعش کے لیے لڑنے جاتے رہے۔
ان کے سوشل میڈیا پر ان کے چہرے، نام سب موجود تھے، وہ پاسپورٹ پر مہریں لگوا کر ایئرپورٹوں سے رخصت ہوئے۔ آج بھی یورپ کے ملکوں میں داعش کے لیے لڑنے کی اپیلیں انٹرنیٹ پر جاری ہوتی ہیں اور لوگ وہاں جاتے ہیں، لیکن وہاں حکمران صرف والدین سے اپیلیں کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اس آگ سے کھیلنے سے روکیں۔ پیرس حملے کے بعد بھی ایک محدود کارروائی کی گئی اور میڈیا کا رخ اسلامی ممالک کی طرف موڑ دیا گیا تا کہ جنگ کے میدان کو گرم کیا جائے۔ گزشتہ چار سال کے سارے حملے، سارے خون، سب دھماکے داعش کے کھاتے میں ڈال کر اسے ہوا بنایا گیا۔
ادھر علاقائی بالادستی کی جنگ شروع ہوئی۔ ایران اور سعودی عرب میدان میں بھی کودے تو روس اپنی بالادستی کے لیے بشارالاسد کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ سب سے اہم کردار اسرائیل کا بنتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے روس کا دورہ کیا اور اپنے گزشتہ موقف کو تبدیل کر دیا اور کہا کہ داعش کے خطرے سے نبٹنے کے لیے بشارالاسد کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔ اس موقع پر روس نے اسرائیل سے دس آئی اے ای سرچر اور تین ڈرون طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔
اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھنا ہے تو بشارالاسد ضروری، روس کو تیل کی رسد کے لیے بندرگاہ چاہیے تو بشارالاسد ضروری، ایران، عراق اور حزب اللہ کو اپنی بالا دستی کے لیے بشارالاسد ضروری ہے۔ ادھر سعودی عرب کو 34 دیگر ممالک کو داعش سے بھی لڑایا جا رہا ہے اور بشارالاسد سے بھی۔ ایک خون کی ہولی کھیلی جانے والی ہے۔
لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر، ان دانشوروں پر، ان حکمرانوں پر، جن کے سامنے 25سال تک القاعدہ ایک بدترین عفریت بنائی گئی اور لاکھوں لوگ مروائے گئے۔ اب وہی القاعدہ صلح جو اور نسبتاً معتدل پسند سمجھی جا رہی ہے اور داعش خوفناک عفریت ہے۔ داعش سے لڑنے کے بعد اگلا عفریت، اگلی خوفناک تنظیم، اگلا دہشت گرد کون ہو گا اور وہ مزید کتنا خوفناک ہو گا۔ سوچتا ہوں تو اس امت کے ہر حکمران کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اس آگ سے مت کھیلو
اوریا مقبول جان پير 4 جنوری 2016
پاکستان کے آزاد کہلانے والے اور کارپوریٹ سرمایہ سے جنم لینے والے میڈیا کی عمر دس سال کے لگ بھگ ہے۔ گیارہ ستمبر کے طوفان، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کے بعد اس میڈیا کا ظہور ہوا۔ چونکہ اس وقت مغرب کے میڈیا، دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کی نفرت کا صرف اور صرف ایک ہی موضوع تھا۔ طالبان۔ دنیا کا ہر ظلم، جہالت، جبر اور بربریت ان کے ساتھ وابستہ کردی گئی۔ عالمی برادری کے ساتھ کا نعرہ سب سے مقبول نعرہ تھا۔ اس عالمی برادری میں عزت حاصل کرنے کو کامیابی قرار دیا جاتا تھا۔
پاکستان میں میڈیا نے جس کسی کو مطعون کرنا ہوتا اسے طالبان کا خیر خواہ اور ایجنٹ کہہ کر پکارا جاتا۔ یہاں تک کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو بھی نفرت کا نشانہ بنانا مقصود ہوتا تو یہ کہہ کر بات بڑھائی جاتی کہ ان میں طالبان کے حمایتی موجود ہیں جو انھیں اپنا اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ دوسرا اہم تصور جو پاکستانی میڈیا نے لوگوں کو سکھایا کہ اگر ہم امریکا یا عالمی برادری کا ساتھ نہیں دیں گے تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
شیخ رشید جیسے وزیراطلاعات اور اسی طرح پرویز مشرف کے ہمنواؤں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی آوازیں آج بھی میڈیا کے سرد خانوں میں محفوظ ہوں گی کہ اگر ہم امریکا کا ساتھ نہ دیتے تو ہمارا تورا بورا بن جاتا۔ امریکی پالیسی کا ساتھ دینے کے بعد جو ہم پر بیتی وہ ایک نہیں کئی سو تورا بورا بناچکی ہے اور ہم آج بھی آگ و خون کے اس کھیل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی میڈیا نے دنیا کا ایک بہت بڑا ولن تراشا تھا جس کا نام طالبان تھا۔ گزشتہ دس سال افغانستان کی ہر تباہی، بربادی، جہالت، گمراہی، کم علمی، حکمت کی کمی اور ہٹ دھرمی سے پوری قوم کو جنگ میں جھونکنے جیسے تمام الزامات ملا محمد عمر اور طالبان پر لگائے گئے۔
امریکا، عالمی برادری اور ٹیکنالوجی کے قصیدے گائے گئے۔ اس دوران اگر معدودے چند لوگ افغانستان کی تاریخ بیان کرتے، دو عالمی طاقتوں کی شکست کا منظر دہراتے تو انھیں طالبان کا ایجنٹ اور سرپرست ہونے کے الزامات کا سامنا ہوتا۔ میڈیا کا یہ حملہ اسقدر شدید تھا کہ بڑے بڑے علمائے کرام اور مفتیان عظام بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہمیں طالبان والا اسلام نہیں چاہیے۔ کسی کو یہ عالمی اصول تک یاد نہ رہا کہ غیر ملکی فوج کے خلاف لڑنا کسی بھی قوم کا بنیادی اخلاق حق ہے جسے افغان طالبان ادا کررہے ہیں۔
وقت کروٹ بدلتا ہے، ٹیکنالوجی اور عالمی برادری کی زبان پر صرف ایک فقرہ باقی رہ جاتا ہے کہ ’’پورے خطے کے امن کی کنجی طالبان کے پاس ہے‘‘ وہ جو طالبان کی پاکستان میں موجودگی پر سیخ پا ہوتے تھے، گز گز لمبی زبانوں سے انھیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی بتاتے تھے، انھیں کے روبرو طالبان قیادت اور حقانی نیٹ ورک سمیت سب کے سب مری کے قریب مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں۔
کسی ’’عظیم‘‘ تجزیہ نگار کی آنکھیں حیرت سے نہیں پھٹتیں۔ قطر کے دفتر سے لے کر قندوز اور ہلمند کی فتح تک اور روس کے صدر پیوٹن کی ملا اختر منصور سے ملاقات تک، سب کچھ بیت جاتا ہے، لیکن ایسے لگتا ہے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس نے دس سال جس ایجنڈے اور پس منظر کے ساتھ ایک زہر آلود بیانیہ اختیار کیے رکھا آج کس طرح امن کی تمام امیدیں طالبان سے لگائے بیٹھا ہے۔ یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ عالمی میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔
اس لیے کہ گزشتہ دس سالوں میں عالمی اور مقامی میڈیا نے جس طرح اپنے آقاؤں کی پالیسی کا ڈھول بجایا، اب اسی طرح انھیں واپس بھی لوٹنا پڑا۔ یہ واپسی کیسے ہوئی؟ طالبان محبوب کیسے ہوگئے؟ اس لیے کہ اب دنیا کے سامنے پیش کرنے اور دنیا کو خوفزدہ کرنے کے لیے بڑا خطرہ داعش وجود میں آگیا ہے۔ طالبان تو ان کی بنائی ہوئی قومی ریاستوں کی حدود کو مانتے تھے۔ دفتر خارجہ بھی رکھتے تھے اور سفارت خانے بھی، عالمی طاقتوں سے کاروبار بھی کرتے تھے اور کسی عالمی ایجنڈے کے طور پر اپنی سلطنت کی حدود بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ داعش نے ان سب تصورات کے خلاف کام کیا تو سب کو طالبان یاد آگئے۔ اب دہشت گرد صرف ایک ہے اور وہ ہے داعش، اسے نیست و نابود کرنا ہے۔
امریکا، روس، سعودی عرب اور ایران، چاروں بظاہر ایک دوسرے کے دشمن لیکن دولت اسلامیہ کو تباہ کرنے کے لیے متفق۔ کسی بھی قسم کی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد ہے۔ لیکن اس اتحاد کے اندر دو چھوٹے اتحاد بھی ہیں۔ ایک سعودی عرب اور اس کے 34 حواری اور دوسری جانب ایران اور روس کے زیر اثر ممالک۔ یہ دونوں اتحاد دراصل مردہ جانور کے گوشت پر قبضہ کرنے کے لیے بنے ہیں۔
یعنی لڑائی تو بنیادی طور پر داعش کے خلاف ہے جس کے پاس اس وقت عراق اور شام کے تیس فیصد علاقے ہیں لیکن ہدف یہ ہے کہ شام کی حکومت کس کے پاس رہے گی۔ اس قدر شدید لڑائی جس میں کروڑوں بے گھر اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہو، وہاں فتح کے بعد کا سماں مردہ جانور کے گوشت جیسا ہی ہوگا جس پر قابو پانے کے لیے دونوں گروہ لڑیں گے۔
لیکن اس لڑائی میں جس خوفناک روش کو میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ اس قدر خطرناک ہے کہ اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو گھر گھر لڑائی پھیل جانے کا شدید خطرہ ہوگا۔ میڈیا کے وہ سب ’’عظیم‘‘ لکھاری جو افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک بیانیہ اپنائے ہوئے تھے کہ یہ امن کے دشمن ہیں، اسلام کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جہالت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، ظالمانہ سزائیں ان کا طریق کار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود بھی لوگ ان کے ہاں جاکر لڑتے رہے اور دنیا بھر سے ان کا ساتھ دیتے رہے۔
اس معاملے میں امت میں مسلکی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں تھی کیونکہ طالبان میں شیعہ اور سنی موجود تھے اور برسراقتدار افغان حکومت میں بھی۔ لیکن جو لوگ اس حقیقت سے آنکھیں چرا کر اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ داعش دراصل عراق کی ایک شیعہ حکومت کے مظالم کی ردعمل تھی اور اس ردعمل کے نتیجے میں وہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کرگئی ہے، وہ لوگ اس امت کو اس بری طرح تقسیم کریں گے کہ پھر شاید امن کو ترس جائیں۔
سعودی عرب اور اس کے حواری ایک جانب ہیں اور وہ ہر اس گروہ کی مدد کررہے ہیں جو شام میں بشارالاسد کی حکومت گرادے، جبۃ النصرہ سے لے کر جیش الاسلام تک سب سنی ہیں جب کہ دوسری جانب ایران، عراق اور لبنان سے حزب اللہ ایک شیعہ اتحاد ہے۔ دونوں اتحاد مسلمان ملکوں سے لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں جو شام میں جاکر لڑرہے ہیں۔ ایک کو مقامات مقدسہ کے تحفظ کا نعرہ دیا گیا ہے اور دوسرے کو خلافت اسلامیہ کی سنی تعبیر کے نعرے پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں جہاں پر لڑرہے ہیں وہاں داعش وجود ہی نہیں رکھتی۔ داعش کو عراق اور شام کے لوگ صحرا کی حکومت کہتے ہیں۔ اس کے پاس کوئی بڑا شہر نہیں ہے۔ مزارات مقدسہ دمشق اور بغداد میں ہیں وہاں دوسرے گروہ آپس میں لڑرہے ہیں اور مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ بشارالاسد حکومت قائم رکھی جائے یا گرادی جائے۔ ایک جانب ایران اور اس کے اتحادی جب کہ دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ہیں۔ دونوں نے لوگوں کو اس خوفناک لڑائی میں دھکیلا ہے۔ لیکن دونوں کی منافقت یہ ہے کہ وہ اسے داعش اور دہشت گردی کا نام دے رہے ہیں۔ اس خوفناک اور خطرناک جنگ میں سچ قتل ہورہا ہے اور سچ کا قتل اس امت کو خطرناک سمت لے جائے گا۔
پاکستانی میڈیا پر چھائے ہوئے بعض لوگ اپنے مخصوص مفادات اور مخصوص تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس ملک میں ایک عجیب و غریب خوف کی فضا پیدا کررہے ہیں۔ چند افراد شام جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا اس قدر واویلا کیا گیا کہ یوں لگا کہ جیسے بہت بڑی آفت کھڑی ہوگئی۔
اس سے پہلے گزشتہ ایک سال سے مقامات مقدسہ کے تحفظ کے نام پر دوسرے گروہ کے لوگ جاتے رہے لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ خاموشی اختیار کی۔ توجہ نہ دینا اور خاموشی اختیار کرنا بہت بہتر تھا۔ یہ جو چند لوگ ہوتے ہیں انھیں بہر طور اپنے پاگل پن میں جانا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب ان کا جانا ایک بہت بڑی خبر بنتا ہے تو ایسے میں آپ ان کے لیے بھرتی کو تیز کررہے ہوتے ہیں۔ داعش کو بھرتی کے لیے کسی پراپیگنڈے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے پاکستان کا میڈیا کافی ہے۔
وہ میڈیا جو کسی اور کے مفادات کی کہانی سناتا ہے جو دس سال افغان طالبان کو شکست دلواتا رہا اور اب انھیں امن کا راستہ بتاتا ہے۔ لیکن خبردار! یہ جنگ ویسی نہیں، اسے مغربی طاقتیں اور ایران اور سعودی عرب کی حماقتیں مل کر مسلکی جنگ میں تبدیل کرچکی ہیں۔ کسی کو علم نہ ہو تو شام کے محاذ پر جاکر دیکھ لے۔ اس آگ میں اترنے کا مقصد گھر گھر لڑائی ہوگی۔ یہ طالبان نہیں کہ کل میز پر لابٹھاؤ گے۔ یہاں بدترین تعصب اور علاقائی بالادستی کی خوفناک نحوست موجود ہے۔ میڈیا کو علم ہی نہیں کہ وہ کس جنگ میں کود رہا ہے یا پھر میڈیا میں ایسے عناصر کی بہتات ہے کہ جو دانستہ یا نادانستہ امت کو اس خوفناک لڑائی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
تصورِ آخرت سے عاری معاشرے
اوریا مقبول جان جمعـء 1 جنوری 2016
جرم و سزا کی دنیا وقت کے ساتھ پیچیدہ اور گھنجلک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں انسان نے جرم کا سراغ لگانے کے لیے نت نئی ایجادات کیں، بیشمار طریقے اختیار کیے ، وہیں مجرموں نے جرائم کرنے اور انھیں چھپانے کے سو طریقے ڈھونڈ نکالے۔ شہر بڑے ہوئے تو جرم بھی تکنیکی اعتبار سے مضبوط ہوتا چلا گیا اور انسانی معاشرہ سے جرائم کے خاتمے کے لیے بھی اداروں کا جال بچھتا چلا گیا۔لیکن جرم و سزا کی اس داستان کا مرکزی خیال وہی ہے کہ قانون جس کام کوجرم قرار دے دے ،وہی جرم ہے، وہی قابلِ تعزیر ہے، قابلِ دست اندازئی پولیس ہے اور اسی کا مجرم سزا کا مستحق ہے۔
خاوند یا بیوی کو دھوکا دینا چونکہ اسقدر بڑا جرم نہیں کہ اس کے مجرم کو سزا دی جائے تو ایسا کرنے والے کے خلاف دوسرا فریق صرف طلاق کا مقدمہ درج کر کے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اس علیحدگی کے نتیجے میں جو اولاد پر بیتتی ہے، جو ان کی نفسیاتی نشونما اور اخلاقی تربیت متاثر ہوتی ہے۔
وہ عمر بھر کے لیے نفسیاتی الجھنوں کو ساتھ لیے پھرتے ہیںلیکن اس جرم کا مقدمہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک بھی دائر نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں کے حساب سے جنس کا کاروبار کرنے والی خواتین جنھیں آج کے انسانی حقوق کی دنیا میں سیکس ورکر کے ’’باعزت لقب ‘‘سے یاد کیا جاتا ہے ، اگر وہ اپنے اس پیشہ یا پروفیشن کے مخصوص حالات کی وجہ سے بد ترین بیماریوں کا شکار ہو کر بسترِمرگ سے لگ جاتی ہیں تو کیا آج کے دور کاکوئی مہذب معاشرہ دنیا میں وجود رکھتا ہے کہ ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے جن کی ہوس نے ان عورتوں کو موت کے دروازے پر جا پہنچایا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسی خواتین کی مدد کے لیے عالمی سطح پر این جی اوز متحرک ہو جاتی ہیں لیکن چونکہ قانون ایسا کرنے والوں کو مجرم نہیں گردانتا ، حکومت انھیں صرف بد احتیاط کہہ کر چپ ہو جاتی ہے ، اس لیے چاہے ہزاروں عورتیں جان سے چلی جائیں ان مجرموں پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ایسے ہزاروں معاملات ہیں جہاں انسانوں نے اپنے مفادات کے تابع قانون سازی کی اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔آپ ہر ایسے قانون کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں جہاں انسان کے وضع کردہ ضابطئہ اخلاق کے تحت بہت سے جرائم کو قانون کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تو وہاں آپ کو اس کے پسِ پردہ اربوں ڈالر کا مفاد نظر ضرورآئے گا ۔
شراب پینا جرم نہیں ہے ، لیکن شراب پی کر گاڑی چلانا، جہاز اُڑانا جرم ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کا شراب کا کاروبار ہے۔ میڈیسن کے علم کے مطابق شراب کے استعمال سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں انھیںAlcholism سے جڑی بیماریوں اور پاگل پن کا کہا جاتاہے۔اسی طرح عورتوں کے کاروبار کو دنیا کے کسی ’’مہذب‘‘ ملک میں بذات خود منع نہیں کیا گیا ہے۔یعنی اگر ایک عورت خود اپنا جسم بیچتی ہے تو وہ جرم نہیں ہے، البتہ اس عورت کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے یا پھر اس کے ایسا کرنے کی دلالی یا موجودہ دورمیں مارکیٹنگ جرم ہے ۔ فحش فلموں کا کاروبار بذاتِ خود جرم نہیں ہے، البتہ ان فلموں میں کام کرنے والوں کے لیے بالغ یعنی 18سال کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ عورت کو کاروبار کے لیے استعمال کرنا جرم ہے لیکن کاروبار کی مارکیٹنگ کے لیے اسے نیم برہنہ تک کر کے اور پھر ہر چوک و چوراہے پر اس کی تصاویر لگانا کوئی جرم نہیں ہے۔ انسان نے جب بھی قانون سازی کی اسے اپنے ذاتی سیاسی اور کاروباری مفاد کے تا بع رکھ کر کیا۔ بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے شادی کی ایک حد مقرر کر دی گئی اور اس کے لیے سو طرح کی دلیلیں گھڑی گئیں ، پوری دنیا میں ممالک سے قانون مرتب کروائے گئے ۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی لگا دی گئی ، نتیجہ یہ نکلا کہ صرف امریکا میں ہر سال دس لاکھ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی ہیں۔ یعنی قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی جرم ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے۔لیکن اٹھارہ سال سے کم عمر ماں بننا جرم نہیں بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اوراس کے لیے این جی اوز کو آگے آنا چاہیے اور ان لڑکیوں کی مدد کرنا چاہیے۔
انسانوں نے اپنے لیے قانون بنائے ،معاشرے تخلیق کیے ،لیکن یہ تمام قوانین موجودہ سیکولر نظام ِ زندگی کا تحفہ ہیں ۔سیکولر نظامِ زندگی کی کوکھ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جنم لیا جس نے انسانوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ مذہبی اخلاقیات اور قوانین کا تعلق نہ حکومت سے ہے اور نہ ہی اجتماعی زندگی سے ۔انسانوں کی اکثریت جیسا قانون چاہے بنا سکتی ہے اور اسے نافذ کر سکتی ہے اور یہی بہترین طرزِ زندگی اور انصاف کا موجودہ خوبصورت تصور ہے ۔یعنی سب جرم ،سزا،عدل و انصاف اسی دنیا میں ہی ہو گا چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے جو قانون عطا کرنے کا اختیار رکھتا ہو،اس لیے کہ آخرت بھی وجود نہیں رکھتی ۔ہمیں اسمبلیوں کے ذریعے ہی انصاف کو قوانین کے ذریعے نافذ کرنا ہے۔آپ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے قوانین کامطالعہ کر لیں، آپ سوچتے سوچتے بے بس ہو جائیں گے، لیکن آپ حتمی اور آخری انصاف کی ایک جھلک بھی وہاںنظر نہیں آئے گی۔ یہ سب کے سب قوانین انسانوں کو مکمل انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔وہ قانون جس سے بچ نکلنے کے ہزار راستے موجود ہوں ،وہاں مکمل انصاف کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔جہاں شہادت تلف کر کے گواہ خاموش کروا کر انصاف کو روکا جا سکے وہاں کیسے مکمل انصاف کیا جا سکتا ہے ۔
اﷲ اورآخرت کے تصور کے بغیر نہ معاشرے تخلیق پا سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل انصاف کا تصور وجود میں آتا ہے۔تصور کیجیے دنیا کے مہذب ترین ممالک کا اور پھر سوچیئے کہ ایک شخص اپنے وسیع و عریض گھر میں رات کو انواع و اقسام کے کھانے کھا رہا ہے اور اس کا پڑوسی بھوک کی شدت سے مر جاتا ہے۔کیا دنیا کا کوئی قانون اس امیر شخص پر فردِ جرم عائد کر سکتا ہے۔کسی تیز رفتار گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔سنسان سڑک پر ایک شخص زخمی کو چھوڑ کر گزر جاتا ہے، زخمی مر جاتا ہے، کیا کوئی قانون اس شخص کو حراست میں لے سکتا ہے۔آپ دولت جمع کریں، ڈھیر لگا دیں ،ذاتی عیاشیوں پر خرچ کریں ۔اس دنیا میں کوئی قانون آپ کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔یہی نا مکمل نظام انصاف ہے کہ اس وقت دنیا میں 430کے قریب ایسے افراد ہیں جن کی دولت اگر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو کوئی بھوکا ،ننگا،بے روز گار نہ رہے۔50لوگوں کے پاس دنیا کی 65%دولت ہے۔لیکن کوئی قانون انھیں اس دولت کو غریبوں پر تقسیم کرنے کے لیے جزا اور تقسیم نہ کرنے پر سزا نہیں دیتا۔
دنیا کا کوئی قانون اس دنیا میں ہونے والے جرائم پر مکمل انصاف فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ہزاروں لوگوں کے قتل کے بدلے صرف ایک انسان کی موت اور وہ بھی اب کئی ممالک میں ختم ہو چکی۔یہ نا مکمل نظامِ انصاف کیوں ہے۔اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا کو انصاف و عدل کے لیے نہیں امتحان کے لیے تخلیق کیا۔البتہ اس دنیا کو امن و آشتی اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنانے کے لیے اس نے کچھ قوانین بتا دیے تاکہ انسانی زندگی اچھی طرح رواں دواں ہو سکے۔جیسے کہا گیا کہ قصاص میں تمھارے لیے زندگی رکھ دی گئی ۔چوری اور زنا کو سخت ترین سزاؤں سے روکا گیاتاکہ معاشرہ صالح ہو مکمل انصاف کے لیے اﷲ نے یوم آخرت مقرر کر رکھا ہے۔ اسی لیے اﷲ نے ایمان والوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ اﷲ ،اُس کے رسول،فرشتوں اور کتابوں پر ایمان لائیں لیکن آخرت کے دن پر یقین پیدا کریں ۔آخرت کا دن دنیا میں دو طرح کے تصور کو جنم دیتا ہے، ایک مکمل انصاف اور دوسرا مکمل جزا اوراجر،روز حشر ۔انصاف کے مکمل ہونے کے لیے اﷲ نے تمام لوازمات بنائے ہیں گواہی کے لیے ہاتھ اور پاؤں کو خود بولنے کی اجازت دی جائے گی۔آخرت کا یہی خوف کسی بھی معاشرے کو پُر امن رکھتا ہے ۔دوسرا اجر کا تصورہے۔یہ لوگوں میں نیکی اور انسانوں سے ہمدردی کو جنم دیتا ہے۔
آج دنیا کے مخیر حضرات کی فہرست اُٹھا لیں اور ان کی زندگیوں کے حالات پڑھیں ۔مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی ،یہیودی سب کے سب آپ کو انسانوں کی مدد کرتے اس لیے نظر آئیں گے کہ انھیں آخرت میں مکمل اجر کی اُمید اور توقع ہوتی ہے۔گذشتہ صدی میں آدھی دنیا پر ایک نظام رائج رہا جسے کیمونزم کہتے ہیں ۔اس نظام میں اﷲ کے تصور کو انسانی زندگی سے خارج کر دیا گیا۔پورے کے پورے معاشرے دہریے ہو گئے اور آج جب کہ وہاں سرمایہ داری کا نظام لوٹ آیا ہے ،معاشرے میں سرمایہ دار بھی آ گئے ہیں لیکن روس ،چین اور شمالی کوریا وغیرہ میں آپ کو انسانوں پر خرچ کرنے والے مخیر حضرات کا نشان نہیں ملے گا۔اس لیے کہ خیرات اور انسانی بھلائی کے پیچھے سب سے بڑا جذبہ آخرت میں اﷲ کی خوشنودی ہے۔کیا یہ دنیا ،حکومتیں ،انسان اور معاشرے مذہب کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیںہر گز نہیں ۔
یہ تمام معاشرے جو آج زندہ ہیں انھوں نے تمام قوانین مذہب سے ادھار لیے ہیں ،سچ بولنا،غیبت نہ کرنا،جھوٹی گواہی نہ دینا،دھوکا اور فریب سے اجتناب وغیرہ یہ سب اصول مذہب نے متعین کیے اور دنیا میں کسی جمہوریت میںیہ دم نہیںکہ انھیں تبدیل کر سکے۔
کیا کوئی پارلمینٹ 100%ووٹ سے جھوٹ بولنا، دھوکا دینایا چوری کرنا جائز قرار دے سکتی ہے۔مذہب تمام عالمی اخلاقیات کا باپ ہے۔ سیکولر طرزِ زندگی کا کمال یہ ہے کہ، اپنی زندگی میں باپ کے تمام اصولوں کو نافذ کر تاہے لیکن باپ کی اولاد ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔سیکولر ازم الحاد اور دہریت کی پہلی سیڑھی ہے ۔اﷲ اور آخرت کا تصور انسانی معاشرے سے خارج کر کے دیکھو ،دنیا کی ہر حکومت ایسے ہو گی جیسے وہ ایک منہ زور گھوڑے کو قابو کر رہی ہے اور گھوڑا اُسے گرا کر دور نکل جاتا ہے
اور یہ گھوڑاحرص ،ہوس،خود غرضی ،لالچ ،جنس اور خواہشات کا گھوڑا ہے جسے صرف قوانین ِ الٰہی قابو کر سکتے ہیں۔ورنہ سب خسارہ ،جنگیں ،کروڑوں کی موت،بے سکون،بے مہر اور بے اطمینان معاشرے۔
جاتی امرا، امرتسر سے جاتی امرا رائے ونڈ تک
اوریا مقبول جان پير 28 دسمبر 2015
’’کالعدم تنظیم‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اب عالمی سطح پر قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر ملک‘ خطے یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی کالعدم تنظیموںکی اپنی اپنی فہرستیں ہیں۔ امریکا کی جاری کردہ فہرست خاصی طویل ہے اور اس فہرست کو بنانے کے لیے اس نے صرف اور صرف اپنے مفادات کا دھیان رکھا ہے۔ اسے اس بات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں کہ یہ تنظیم ہتھیار اٹھانے پر یقین رکھتی ہے یا نہیں‘ لیکن اگر صرف اس کے نظریات ہی اسقدر خطرناک ہیں کہ اس موجودہ کارپوریٹ سسٹم سے پیدا شدہ سیکولر جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسی تنظیموں پر اپنے ملک میں پابندی نہیں لگائی جاتی تا کہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ثابت کیا جا سکے‘ لیکن اپنے زیر اثر اور کاسہ لیس ممالک سے کہا جاتا ہے کہ ان پر پابندی عائد کر دی جائے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایسی تنظیم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے جو ہتھیار اٹھانے پر یقین نہیں رکھتی‘ امریکا‘ برطانیہ اور یورپی ممالک اپنے ہاں پابندی نہیں لگاتے‘ لیکن وہ تمام مسلم ممالک اس پر پابندی لگاتے ہیں جو خلافت اسلامیہ کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ یہ مثال اس لیے دی کہ کوئی ایسی تنظیم جو خواہ کسی دوسرے ملک میں کام کر رہی ہو لیکن اس کا نظریہ امریکی اور مغربی مفادات کے لیے خطرہ سمجھا جائے تو اس پر پابندی لگوا دی جاتی ہے۔ ہر کسی کو اپنی مفادات کے مطابق اپنے دشمنوں کو واضح کرنا اور ان سے علیحدہ ہو کر قطع تعلق کرنا اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا حق حاصل ہے اور ہر ملک ایسا کرتا ہے۔
ایک تنظیم ایسی ہے جو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر 27 ستمبر1925ء بھارت کے شہر ناگ پور میں قائم کی گئی۔ اس تنظیم پر سب سے پہلی پابندی 24 جنوری 1947ء کو متحدہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملک خضر حیات ٹوانہ نے لگائی۔ یہ پابندی صرف چار دن کے لیے رہی کیونکہ انگریز سرکار نے خضر حیات ٹوانہ کو ان کی ’’جمہوری اوقات‘‘ یاد دلا دی کہ وہ خود کو ہرگز منتخب وزیر اعلیٰ نہ سمجھیں‘ آپ اس گدی پر انگریز کی مہربانی سے تشریف فرما ہیں۔ دوسری دفعہ اس تنظیم کو 4فروری 1948ء کو بھارتی حکومت نے کالعدم قرار دیا کیونکہ اس کے ایک رکن تنھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کالعدم تنظیم کو گاندھی کے قتل سے بری الذمہ قرار دے دیا لیکن آج تک یہ تنظیم گوڈسے کو ہیرو مانتی ہے اور اس کا یوم مناتی ہے۔
بھارت کی حکومت نے گیارہ جولائی 1949ء کو اس پر سے پابندی اٹھا دی۔ تیسری دفعہ جب اندرا گاندھی نے1975ء میں ملک میں ایمرجنسی لگائی تو اس کے خلاف ہنگامے کھڑے کرنے پر اس تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث گروہ بن گئی لیکن 1977ء میں جیسے ہی ایمر جنسی ختم ہوئی تنظیم بھی کالعدم نہ رہی۔ یہ ہے راشٹریہ سیوک سنگھ جسے تین بار کالعدم ہونے کا اعزاز حاصل رہا اور جسے برصغیر کی سب سے بڑی شدت پسند مذہبی متعصب تنظیم کہا جاتا ہے اور مغرب کے ماہرین اسے دنیا کی سب سے بڑی این جی او گردانتے ہیں۔ اس تنظیم کے افکار و نظریات سے متفق تقریباً 21 تنظیموں کو اس کا دست و بازو جنھیں انگریزی میں Affiliated کہتے ہیں کا اعزاز حاصل ہے ان میں سب سے بڑی تنظیم ایک سیاسی پارٹی‘ بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔
یہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے افکار و نظریات کا سیاسی چہرہ ہے۔ اسی لیے اس سیاسی پارٹی سے آج تک کسی ایسے شخص کو لیڈر‘ رہنما‘ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نامزد ہی نہیں کیاگیا جس کی جوانی یا ایک طویل عمر راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کار کے طور پر نہ گزری ہو۔ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی دونوں راشٹریہ سیوک سنگھ کے کئی دہائیوں تک رضاکار رہے ہیں اور ان کا اوڑھنا بچھونا اس کے نظریات ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریات کیا ہیں۔ یہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ آپ ان کی ویب سائٹ پر جا کر انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تنظیم پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کو ایک ہندو بھارت کا حصہ سمجھتی ہے جسے وہ اکھنڈ بھارت کہتے ہیںاور ان تمام کو دوبارہ ایک کرنے کی کوشش کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔
یہ تنظیم بھارت کے ترنگے پرچم کو نہیں مانتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس میں صرف ایک زرد رنگ ہونا چاہیے جو ہندو مذہب کی علامت ہے۔ یوں تو اس تنظیم کو کیشو بلی رام ہیگڑے نے قائم کیا لیکن اس کے خدوخال اور ہندو تعصب سے بھرپور ملٹری ونگ کی نشوونما مد سریش گول والکر نے کی جو اس وقت سربراہ تھا جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا۔ اس نے 1937ء سے 1939ء تک ہندو نوجوانوں کے ٹرینگ کیمپ قائم کیے اور انھیں ملٹری ٹرینگ دی۔ 1938ء میں اس کی مشہور کتاب راشٹرا ممنسا کا ہندی اور انگریزی میں ترجمہ شایع ہوا جس میں اس نے ’’ہم اور ہماری قومیت‘‘ کی تعریف کی تھی۔
یہ نظریات ہندو توا یعنی ہندو بھارت کے نظریات تھے۔ اس وقت اس تنظیم کے ایک لاکھ رضا کار تھے لیکن اس وقت اس نظریے پر جان دینے اور اس کے لیے بندوق اٹھانے والوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ گول والکر کے نظریات ہی اس وقت راشٹریہ سیوک سنگھ کے مینی فیسٹو کا حصہ ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی اساس ہیں اس کے نظریات کی بنیاد یہ نعرے ہیں جو راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادی اساس ہیں اس کے نظریات کی بنیاد یہ نعرے ہیں جو راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی کے لیے اساس رکھتے ہیں اور دونوں تنظیمیں انھیں اپنا نصب العین سمجھتی ہیں۔ میں گول والکر کے انگریزی ترجمہ کو یہاں درج کر رہا ہوں کیونکہ اصل کتاب مراٹھی اور مینی فیسٹو مراٹھی میں ہے۔ یہ ترجمہ بھی آر ایس ایس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
The Non- Hindu People of Hindustan must either adopt Hindu Culture and Language,must respect and hold in reverence the Hindu religion, must entertain no idea but those of glorification of Hindu race and culture. They may stay in this contry, wholly subordinated to Hindu Nation,claiming nothing, deserving no privileges,not even Citizen Rights.
ہندوستان کے غیر ہندو افراد ہندو ثقافت اور زبان کو اختیار کریں۔ ہندو مذہب کی عزت و تکریم کرنا سیکھیں‘ اپنے ذہن میں ہندو ثقافت اور ہندو نسل کی ستائش کے علاوہ کوئی خیال نہ لائیں۔ وہ یہاں رہ سکتے ہیں لیکن مکمل طور پر ماتحت اور کم درجہ میں‘ ہندو قوم کے محکوم‘ کوئی حقوق نہیں مانگ سکتے‘ یہاں تک کہ شہری ’’حقوق بھی‘‘ نہیں۔ یہاں گزشتہ پچاس سالوں میں راشٹریہ سیوک سنگھ‘ سنگھ پریوار اور بجرنگ دل کے مظالم بیان نہیں کرنا چاہتا۔ بابری مسجد کے واقعے سے لے کر گجرات میں قتل عام تک کچھ بیان نہیں کرنا چاہتا۔ صرف دو چھوٹی سی عرضداشتیں رکھنا چاہتا ہوں۔
مسلمانوں کو دنیا میں تعصب کے حوالے سے بدنام کیا جاتا ہے لیکن کیا کسی بھی مسلمان ملک میں ایسی متعصب‘ ظالم‘ دہشت گرد تنظیم جس پر بار بار پابندی بھی لگی ہو‘ صرف اپنے متعصب نظریات کی بنیاد پر الیکشن جیت کر حکومت بنا سکتی ہے لیکن بھارت کی سیکولر جمہوریت میں ہندو متعصب جتتا بھی ہے اور قتل عام بھی کرتا ہے۔ دوسرا سوال نریندر مودی کے پاکستان آمد پر خوبصورت تبصرے کرنے والوں سے ہے۔ ایک جاتی امرا امرتسر میں بھی ہے جس کی نقل پر جاتی امرا یہاں بنایا گیا ہے۔ جاتی امرا رائے ونڈ کے مکین اگر آج امرتسر والے جاتی امرا میں ہوتے شاید نریندر مودی ان کے ساتھ سالگرہ کا کیک نہ کاٹتا‘ اس سرزمین پر جس نے آپ کو اللہ کے مقدس نام پر امن عطا کیا‘ عزت دی‘ سکون دیا۔ اسی سرزمین پر آپ ایک ایسے شخص کی آمد پر خوش ہیں جس کی ساری زندگی آپ کو برباد کرنے کی جدوجہد میں صرف ہوئی۔ اللہ کے نام پر حاصل کیے اس ملک کا اس طرح تمسخر اڑائیں گے تو اللہ کے غضب کو ہی آواز دیں گے پھر سوال نہ کریں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔
شافع روز جزا کی لگائی گئی فرد جرم
اوریا مقبول جان جمعـء 25 دسمبر 2015
مدحت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، درود و سلام کی صدائیں، محافل جشن عید میلاد النبیؐ کی پرنور فضاؤں میں بستیاں بقۂ نور بنی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی سید الانبیاء سے محبت اور عشق کا والہانہ اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ عمارتیں چراغوں سے روشن ہوتی ہیں اور محفلیں نعت و سلام کی دھڑکنیں بن جاتی ہیں۔ ایسی کیفیت اور میلاد کا یہ سماں صرف اور صرف برصغیر پاک و ہند کا خاصہ ہے۔ عشق رسولؐ کا اس قدر والہانہ اظہار اسی سرزمین کے مقدر میں آیا ہے۔
اپنے والد مرحوم کی انگلی پکڑے میں نے اوائل بچپن میں ان محافل میں جانا شروع کیا۔ سماع کی کوئی محفل ہو، درود و سلام کا کوئی سماں ہو، بارہ ربیع الاول کا جلوس، ان سب جگہ میں ذوق و شوق سے جاتا ہوں ۔ پورے محلے میں ہمارا گھر وہ واحد گھر ہوتا جس کی منڈیر پر میں اور میرے بھائی بہن رات کو دیے اور موم بتیاں روشن کرتے۔ ہوا تیز ہوتی تو انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بجھنے سے بچاتے۔ میری والدہ انتہائی عسرت اور تنگدستی کے عالم میں بھی اس دن زردہ یا کھیر ضرور بناتیں جسے میں اور میرا بھائی پلیٹوں میں ڈالتے ان پر انھی کے ہاتھ کے کروشیا کے کاڑھے ہوئے رومال رکھتے اور پورے محلے میں بانٹ کر آتے۔
اس روز میرے والد کی حالت دیدنی ہوتی۔ مستقل درود پڑھتے رہتے اور مسلسل ان کی آنکھوں سے آنسو رواں رہتے۔ دن کے اختتام تک یہ آنسو سسکیوں اور ہچکیوں میں بدل جاتے اور درود کی آواز بلند ہو جاتی۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت، احترام اور عشق کا تھوڑا بہت قرینہ میں نے اپنے والد مرحوم کی صحبت سے سیکھا۔ لیکن اس عشق و محبت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کے مسلسل ماحول میں دو لمحات ایسے تھے جب میں کانپ جاتا اور بچپن ہی میں مجھ پر خوف سا طاری ہو جاتا۔ یہ خوف اس لیے بھی زیادہ گہرا ہو جاتا کہ میں اپنے والد کو شدید ترین رقت اور خوف کے عالم میں دیکھتا۔
ہم جس مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے وہ گھر سے تھوڑی دور تھی۔ والد کا معمول تھا کہ جمعہ کی نماز کا اہتمام دن کے آغاز سے ہی ہوتا اور ابھی مولوی صاحب منبر پر خطبے کے لیے نہیں بیٹھے ہوتے تھے کہ ہم لوگ مسجد پہنچ جاتے۔ گجرات کے مولوی محمود شاہ صاحب بڑے پُر اثر مقرر تھے۔ قصے، کہانیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور دیگر معاملات سے بیان کو رنگین بناتے۔ ان کے والد ولایت شاہ صاحب پہلی صف کے آخر میں بنے اپنے کمرے میں بیٹھے ان کا وعظ سنتے۔ سنتوں کا وقفہ ہوتا تو وہ اٹھ کر وضو کے لیے جاتے اور واپسی پر منبر کے ساتھ کھڑے کھڑے چند فقرے کہتے اور پھر صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
وہ محمود شاہ صاحب کی قصہ گوئیوں اور رنگین بیانی پر تبصرہ کرتے، بیٹا ہونے کی حیثیت سے ڈانٹتے اور پھر اچانک ان کا لہجہ بدل جاتا، کہتے دیکھو، اگر آج کسی باپ کا جوان بیٹا جس پر اس نے خون پسینہ خرچ کر کے پڑھایا ہو، اگر وہ بی اے میں فیل ہو جائے تو باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ او! ظالموں تمہیں ذرا بھی خیال نہیں آتا اس سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا جن کی یہ امت فیل ہونے جا رہی ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد ان کی حالت غیر ہو جاتی اور صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
بی اے کرنا اس زمانے میں بہت مشکل کام سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے اردگرد ایسے کتنے تھے جو بار بار فیل ہوتے تھے اور والدین پریشان۔ مجھے اس فقرے کی سنگینی کا اندازہ تھا۔ میں والد کی جانب دیکھتا تو وہ دونوں گھٹنوں میں سر چھپائے اردگرد کے لوگوں سے چھپ کر رو رہے ہوتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور رحمت سے بھر پور ساری تقریریں سننے کے باوجود میں خوف کی کیفیت سے نہ نکل پاتا۔ دوسرا لمحہ تو بار بار آتا اور مجھے بار بار کم مائیگی، شرمندگی اور خوف کا شکار کرتا۔ میرے والد علامہ اقبال کی یہ رباعی اکثر پڑھتے اور پھر دیر تک روتے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے اللہ تو تمام عالمین کا غنی ہے اور میں ایک حقیر پر تقسیر فقیر ہوں، مجھ سے روز قیامت حساب مت لینا اور میری یہ درخواست قبول کر لینا لیکن اگر) میرا حساب ناگزیر ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو مجھے رسول اکرم ﷺ کی نگاہوں سے دور لے جا کر حساب لینا۔ مجھے آپؐ کے سامنے حساب دیتے ہوئے بہت شرمندگی ہو گی۔
یوں تو یہ رباعی سید الانبیاءﷺ کی ذات کے ساتھ عشق‘ محبت کا اعلیٰ ترین اظہار ہے اور اس رباعی کا ایک خاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کی آنکھوں میں دعا کے دوران آنسو نہ آئے ہوں‘ رقت طاری نہ ہوئی ہو تو آپ اس رباعی کو اس کے پورے فہم ادراک کو اپنے اوپر نازل کرتے ہوئے پڑھیں تو فوراً رقت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن اس رباعی اور سید ولائت شاہ صاحب کی اس گفتگو سے پیدا ہونے والی کیفیت کا راز مجھ پر اس وقت کھلا جب قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے میں سورۃ الفرقان کی 30 ویں آیت پر پہنچا۔ اس میں ایک لرزا دینے والی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت روز محشر کی ہے جو اس سورۃ کی 25 ویں آیت سے شروع ہوتی ہے۔
اللہ فرماتے ہیں ’’جس دن آسمان پھٹ کر ایک بادل کو راہ دے گا اور فرشتے اس طرح اتارے جائیں گے کہ ان کا تار بندھ جائے گا اور اس دن صحیح معنوں میں بادشاہی خدائے رحمن کی ہو گی اور وہ دن کافروں پر بہت سخت ہو گا اور جس دن ظالم انسان حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا اور کہے گا، ’’کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی۔
ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی‘ مگر اس دوست نے مجھے اس سے بھٹکا دیا اور شیطان تو ہے ہی ایسا کہ وقت پڑنے پر انسان کو بے کس چھوڑ جاتا ہے‘‘ (الفرقان 25تا29)۔ روز محشر کے اس منظر نامے اور ماحول کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہﷺ اپنی امت کی شکایت پیش کریں گے، ’’اور رسولؐ کہیں گے یا رب میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی (الفرقان 30)، جس قوم کے سامنے رسول اکرمﷺ خود مدعی بن کر قیامت کے روز پیش ہوں گے۔ اسے اس دن سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔کیسا دعویٰ جو آپؐ کی جانب سے پیش کیا جائے گا۔ ہم پر حرف بحرف صادق نہیں آتا۔کیا ہم ایسی قوم نہیں کہ جس نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہو‘ مکمل طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اقبال نے کہا تھا
گر قومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
ترجمہ:(اگر تو چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی گزارے تو یہ قرآن پر عمل کیے بغیر نا ممکن ہے)۔ قرآن پاک صرف اور صرف ہماری تقریبات کے آغاز میں پڑھا جاتا ہے‘ دلہن کے سر پر رخصتی کے وقت رکھا جاتا ہے۔ کبھی قسم کھانے کی نوبت آ جائے تو نکالا جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس اللہ کی عطا کردہ ہدایت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری امت نے تو قرآن پاک کو پس پشت ڈالا ہی تھا لیکن شاید ہم پر اسے پس پشت ڈالنے کا عذاب دہرا ہے۔
ستاون اسلامی ممالک نے جب اپنے ممالک کی سرحدیں تخلیق کیں تو ہر کسی نے اسے رہنے کے لیے ایک علاقے کے طور پر دنیا کے نقشے پر ترتیب دیا۔ ایک قومی کے لیے‘ مصریوں‘ ایرانیوں‘ عراقیوں اور شامیوں کے لیے۔ لیکن ہم نے تو یہ زمین اس لیے مانگی‘ یہ گھر اس لیے طلب کیا‘ یہ جائے امان اس لیے طلب کی کہ ہم یہاں وہ لوگ مل کر رہیں گے جو کلمہ طیبہ کی وجہ سے بھائی ہیں۔ محمد حسین چیمہ اور گورو داس چیمہ‘ دونوں کا دادا ایک تھا لیکن انھوں نے بھائی ہونے سے انکار کر دیا۔
ہمیں اللہ نے یہ زمین عطا کی تا کہ ہم اس زمین کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر بہتر بنائیں۔ ہم نعمت ملنے پر اسقدر خوش تھے کہ ہم بھول گئے کہ نعمت کی ناشکری عذاب کا مستحق قرار دیتی ہے۔ ہم پر تو مقدمہ دہرا ہے۔
ایک اس دنیا میں وعدہ کر کے مکر گئے اور آخرت میں ہم رسول اکرم ﷺ کے مقدمے کا سامنا کریں گے۔ ایسے میں کسی کو ہوش ہے‘ کوئی سوچ سکتا ہے‘ کوئی ایک لمحے کے لیے خوف کی فضا سے نکل سکتا ہے۔ ہم جو شفاعت کے طلبگار ہیں‘ ہم جو ان کے دامن شفاعت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں‘ کیا ہم رسول اللہ ﷺ کی اس فرد جرم کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ ایک لمحے کو سوچیے پھر دیکھئے خوف سے آپ کیسے کانپ اٹھتے ہیں‘ آنسو ہیں کہ تھمیں گے نہیں رقت ہے کہ ختم نہیں ہو گی۔
کیا ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا ملنے والی ہے؟
اوریا مقبول جان پير 21 دسمبر 2015
کسی امت کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ آگ کا ایک طوفان اس کی جانب بڑھ رہا ہو اور وہ اس میں کودنے کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہو۔ یوں تو آگ اور خون کے اس کھیل کو موجودہ دور میں تازہ دم ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔ اس امت میں شیعہ سنی اختلاف گزشتہ تیرہ سو سال سے چلا آ رہا ہے لیکن اس کے فساد کی شکل ہمیشہ اس وقت اختیار کی جب اسے اقتدار کی سیڑھی یا غلبے کا ذریعہ بنا کر دوسرے مسلک کے افراد کو قتل کیا گیا۔ تاریخ میں ایسا اس وقت ہوا جب خلاف عثمانیہ کی اجتماعی حکومت کے مقابل میں ایران میں صفوی برسراقتدار آئے۔
صوفیاء کا دیس ایران جہاں سے مولانا روم، سعدی، حافظ اور کیسے نابغۂ روز افراد نے جنم لیا، وہاں مسلکی اختلاف سے دور اس روحانی احساس کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کا قتل عام کیا گیا۔ عراق سے ملاؤں کو بلا کر ایک خاص فقہہ ترتیب دی گئی اور اسے نافذ کیا گیا۔ صفوی حکمرانوں نے یہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خلافت عثمانیہ جو کہ سنی مسلک کی اجتماعی خلافت تھی اس کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت اور خود مختاری قائم کرنا چاہتے تھے۔ قتل عام کی یہ داستان بہت طویل اور دلگداز ہے کہ کس طرح وہاں اپنے اقتدار کو مسلک کا تڑکا لگا کر قائم کیا گیا اور کیسے ایران کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا جہاں تصوف اور صوفیاء کا نام بھی اجنبی ہو گیا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ لوگ مسلک کے بجائے اتحاد امت کی بات کرتے تھے۔ دوسری دفعہ یہ قتل عام اس وقت نظر آتا ہے جب 1888ء میں افغانستان پر امیر عبدالرحمن کی حکومت تھی تو اس کے چچازاد بھائی محمد اسحاق نے اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔
یہ ایک خالصتاً قبائلی جنگ تھی اور ہزارہ قبیلے کے افراد نے محمد اسحاق کا ساتھ دیا۔ ہزارہ قبیلہ چونکہ چنگیزی ہونے کی وجہ سے خاصا جنگجو تھا۔ اس لیے امیر عبدالرحمن کو شکست کا خوف دامن گیر ہوا۔ چالیس ہزار کے قریب ہزارہ قبائل اس جنگ میں شریک تھے۔ ایسے میں انھیں شکست دینے کا ایک ہی راستہ تھا کہ ان کے خلاف لوگوں کو مسلک کے نام پر متحد کیا جائے۔ پورے افغانستان میں جہاد کا اعلان کیا گیا کہ ہم نے ہزاروں کے خلاف لڑنا ہے کیونکہ وہ شیعہ ہیں۔ ان کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی زمینیں ان سے چھین کر پشتونوں کو دے دی گئیں اور انھیں دیگر چھوٹے چھوٹے پیشوں سے رزق کمانے پر مجبور کر دیا گیا۔
جب بھی کبھی اقتدار کی ہوس اور بالادستی کی خواہش کو مسلک کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی گئی ہے یہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں صرف چند ایک مثالوں کے علاوہ کوئی ایسا بڑا واقعہ نظر نہیں آتا جب دونوں مسالک کے افراد تلواریں سونت کر میدان میں نکل آئے ہوں۔ دونوں مسالک کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور اپنے روزمرہ کاروبار زندگی میں اس کو داخل نہ ہونے دیتے۔ حکومتی کاروبار میں بھی دونوں مسالک کے لوگ سلطنت کے امور نبٹاتے۔ اورنگزیب عالمگیر جیسے شخص جسے سیکولر افراد بہت بدنام کرتے ہیں، اس کی حکومت میں دو شیعہ وزیر تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے اس اختلاف کو ہوا لکھنو کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے دی۔ لکھنو میں عزاء داری کے جلوس کا ایک راستہ متعین تھا۔ اسی دوران شہر کی دوسری سمت شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔
1930ء میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے عزاء داری کے جلوس کا راستہ بدل کر اسے عین اس جگہ سے گزرنے کا حکم دیا جہاں شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ یہ شیعہ سنی فسادات کا برصغیر میں آغاز تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی پورے عالم اسلام میں اکا دکا فسادات کے علاوہ کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ محلوں میں رہنے والے یہ گروہ آپس میں ایسے لڑے ہوں کہ قتل و غارت رکنے کا نام نہ لے۔ موجودہ دور میں صدام حسین نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے شیعہ اکثریت پر مظالم کیے لیکن وہ ظلم میں شیعوں کے خاص نہ تھا۔ اس نے سب سے زیادہ ظلم سنی کردوں پر کیا جن کی اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اس کے ظلم کو مسلکی بالادستی کے زمرے میں نہیں گنا جا سکتا۔ لیکن انقلاب ایران ایک ایسا واقعہ ہے جس نے اس امت میں اس اختلاف کو اس قدر واضح کر دیا کہ یہ دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
یوں تو ایرانی اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ ان کا انقلاب وسیع تر اسلامی انقلاب ہے جو تمام مسالک کی نمایندگی کرتا ہے لیکن حقیقتاً انھوں نے پوری ملت اسلامیہ میں ایسے گروہوں کو منظم کرنا شروع کیا جو ان کے مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر کے ایرانی اسلامی انقلاب کو سوویت یونین کے انقلاب کی طرز پر برآمد کرنے کی پالیسی کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ میں جولائی 1985ء کا واقعہ اس کی ایسی مثال ہے جو بہت کچھ کہے دیتی ہے۔ جب ایک جلوس کی پولیس کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس واقعہ میں تیرہ پولیس والوں کے سر کاٹ کر کھمبوں پر لٹکا دیے گئے۔ انقلاب کا اس قدر جنوں تھا کہ ایک حاضر سروس کپتان لودھی چھٹی لے کر آیا اور اس جلوس کی قیادت کی۔ بالآخر فوج بلائی گئی، کرفیو لگا لیکن اس کے بعد سے کوئٹہ کا ہزارہ علاقہ امن کو ترس گیا۔ امن ہو جاتا لیکن بالادستی کی خواہش نے اختلاف کو ہوا دی۔ ہزارہ آبادی کوئٹہ کے مشرقی پہاڑ کے دامن میں آباد تھی۔
گورنر موسیٰ کے زمانے میں مغربی پہاڑ کا دامن بلوچوں سے خریدا گیا اور وہاں افغانستان سے ہزارہ قبائل کے افراد کو لا کر آباد کیا گیا۔ ذہنوں میں شاید یہ تصور تھا کہ دونوں جانب کے پہاڑ ہمارے قبضے میں ہوں گے تو پورا کوئٹہ شہر ہمارا۔ لیکن دوسری جانب مخالف مسلک کے افراد بھی منظم ہوتے چلے گئے۔ جھنگ شہر میں خالصتاً شیعہ زمینداروں سے الیکشن جیتنے کے لیے کاروباری طبقے کے افراد نے چند علماء کو ساتھ ملا کر سپاہ صحابہ بنائی اور پھر بالادستی اور غلبے کو مسلک کا ایسا تڑکا لگا کہ شیعوں کا قتل شروع ہو گیا۔ دوسری جانب سپاہ صحابہ کا بھی کوئی سربراہ ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا گیا ہو۔ اس کے باوجود بھی یہ جنگ شیعہ سنی جنگ کی شکل اختیار نہ کر سکتی۔
پورے پاکستان میں سنی آبادیوں میں چھت پر علم لگائے شیعہ افراد کے گھر کسی قدر امن سے رہ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں ابھی اس اختلاف نے وہ شکل اختیار نہیں کی جیسی لبنان میں اختیار کی۔ ایران کے پاسداران کی سربراہی میں شام کی سرپرستی میں حزب اللہ کو منظم کیا گیا تا کہ پورے خطے میں مسلک کی بنیاد پر بالادستی حاصل کی جائے۔ مقصد بہت اعلیٰ و ارفع تھا کہ ہم نے اسرائیل سے لڑنا ہے۔ پورے لبنان نے ان کو خوش آمدید کہا۔ لیکن اس نے لبنان، شام، اردن اور فلسطین کے معاشرے کو اس طرح تقسیم کیا کہ آج وہاں قتل و غارت اور ظلم و دہشت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے لبنان میں صدر منتخب نہیں ہو سکا کیونکہ حزب اللہ نہیں چاہتی۔ شام میں جس بالادستی کی جنگ کا آغاز ہوا بڑی خاموشی سے ہوا تھا۔ اب وہ اس قدر پھیل گئی ہے کہ اس نے پوری مسلم امت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 34 ممالک کا اتحاد ایک طرف اور تین ملک دوسری جانب۔ اس خوفناک صورتحال کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب ایک دم جاگ اٹھتے، ایک احساس پیدا ہوتا کہ ہم ایسی خوفناک جنگ میں داخل ہونے والے ہیں جو گلی گلی اور محلہ محلہ شروع ہو جائے گی۔ وہ جنھوں نے منبر و محراب پر بیٹھ کر اس آگ کو ہوا دی انھیں بھی احساس نہیں۔ اب بھی اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ اس معرکے میں کودو، آخری فتح تمہاری ہو گی۔ اب بھی اپنی مرضی اور اپنے تعصب پر مبنی تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ مسلکی بنیاد پر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو ابھارا جا رہا ہے۔ کسی امت کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی۔ لگتا ہے قضا و قدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا دے دی جائے۔
علاقائی بالادستی کے لیے مسالک کا تڑکا
اوریا مقبول جان جمعرات 17 دسمبر 2015
کیا یہ معرکہء حق و باطل ہونے والا ہے جس کی جانب پوری مسلم امت دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک جانب چونتیس ملکوں کا اتحاد ہے جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے اور جسے پاکستان خوش آمدید کہہ چکا ہے اور دوسری جانب ایران، عراق اور شام۔ یہ دونوں گروہ واضح تو اب ہوئے ہیں لیکن ایک دوسرے کو قتل کرنے، شہروں کو برباد کرنے اور ظلم و تشدد روا رکھنے کا سلسلہ تو گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ اس معرکے کو دونوں گروہ حق و باطل کا معرکہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
علاقائی بالادستی کی اس جنگ کے شعلوں کو مسلکی نعروں سے جس طرح ہوا دی جا رہی ہے اس سے یہ معرکہ پوری دنیا میں پھیلتا نظر آ رہا ہے۔ یوں تو اس آگ کی تپش مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ہی سہہ رہے ہیں لیکن فرقہ واریت کے اس طوفان کی افغانستان اور پاکستان میں بھی آنچ اب پہنچنے لگ گئی ہے۔ بلند و بالا مقدس نعروں کی گونج ہے، جس میں لوگوں کو جہاد کا راستہ دکھا کر ایک ایسے میدانِ جنگ میں اتارا جا رہا ہے جہاں صرف اور صرف مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان میں طویل عرصے سے القاعدہ اپنے محاذوں کے لیے نوجوانوں کو ترغیب دیتی تھی اور کتنے افراد اس کے ہمراہ افغانستان میں لڑنے بھی نکل گئے تھے۔ لیکن القاعدہ کی لڑائی تو روس یا امریکا کے خلاف تھی جہاں اس میں حصہ لینے والوں کو کم از کم یہ تسلی رہتی کہ وہ کافروں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
اسی طرح افغانستان اور عراق میں لڑنے والے مجاہدین بھی کم از کم اخلاقی طور پر یہ جواز ضرور رکھتے تھے کہ کہ ان کے ملک پر غیر ملکی افواج نے حملہ کیا ہے اور لبرل سیکولر اخلاقیات کے نزدیک بھی ان غیرملکی افواج سے لڑنا جائز بنتا ہے جب کہ اسلام کے حوالے سے تو ہزار ہا دلیلیں روس اور امریکا سے لڑائی کے حق میں دی جا سکتی تھیں جو لوگوں کو لڑنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دلیلوں نے وہاں مستقل جنگیں لڑیں۔ لیکن موجودہ عراق و شام میں جاری لڑائی میں کونسی ایسی دلیل ہے جو باقی تمام ممالک خصوصاً افغانستان اور پاکستان سے لوگوں کو وہاں جانے پر مجبور کر رہی ہے۔
یہ دلیل بہت خوفناک ہے اور اس دلیل کو پیش کرنے والے یہی دو گروہ ہیں۔ امت کو اس بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام گزشتہ ربع صدی میں بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ اس لیے کہ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو شیعہ سنی دونوں اس کے خلاف لڑنے کے لیے متحد تھے۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے وفد کے تمام ممبران کی جگہ افغان مجاہدین کو بٹھایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
یہاں تک کہ طالبان کے زمانے میں بھی انکی شیعوں پر مشتمل ایک ڈویژن تھی جو سنی طالبان کے ساتھ شانہ بشانہ مخالفین سے لڑتی تھی۔ بلکہ طالبان کی انفنٹری ڈویژن کا سربراہ ایک بدخشانی فارسی خوان تھا جو پشتون اکثریتی صوبے کا گورنر بھی تھا اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا۔ عالمی استعماری مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ایسا اتحاد کس کو گوارا تھا۔ اسی لیے گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد جب افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے ان ممالک پر قبضہ کیا گیا تو سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ کیسے مسلمانوں میں شیعہ اور سنّی کی اس خلیج کو گہرا کیا جائے۔
چودہ سو سال کا تجربہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ خلیج اس وقت تک گہری نہیں ہو سکتی جب تک اسے علاقائی بالا دستی اور علاقائی تہذیب و ثقافت کے نعروں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔
اسی لیے ہمیشہ عرب و عجم کے قدیم جھگڑے کو مسالک کا تڑکا دے کر ابھارا گیا۔ اس لیے کہ اگر صرف عرب اور ایران کا جھگڑا ہی رہتا تو یہ دونوں ممالک یا فارسی اور عربی زبان بولنے والے گروہ ہی آپس میں لڑتے۔ لیکن اگر ایک مسلک یعنی شیعہ کا نمایندہ ایران کو بنا دیا جائے اور دوسرے مسلک کی سرپرستی عرب ممالک کرنے لگیں تو پھر عربی، اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والا شیعہ ایران کے ساتھ اور فارسی بولنے والا ایرانی، تاجک، ازبک سنّی عرب ممالک کے ساتھ خودبخود کھڑا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقائی بالادستی کی اس جنگ کو دونوں گروہ ارفع اور اعلیٰ جہاد بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
اس لڑائی میں امریکی اور مغربی طاقتوں کی ایک منصوبہ بندی شامل تھی۔ القاعدہ اور دیگر گروہوں کے حوالے سے دنیا بھر سے مسلمان اس خطے میں لڑائی لڑنے کے لیے پہلے ہی سے پہنچے ہوئے تھے۔ عراق پر جب امریکا نے قبضہ کر لیا، اپنی مرضی کا آئین تحریر کر کے، اپنی مرضی کے الیکشن کروائے تو ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے کے بجائے اس نے حکومت قائم کی جو شیعہ سنّی اختلاف کو ابھارے۔ 2006ء سے لے کر 2008ء تک سنی اکثریتی علاقوں میں ایک جنگ شروع ہوئی جسے القاعدہ کا نام دے کر عام آبادی کا شدت کے ساتھ ایسا قتلِ عام کیا گیا کہ شہر کے شہر ویران ہو گئے۔
اس قتل و غارت نے شیعہ سنی خلیج کو عراق میں بہت واضح کر دیا۔ آپ صرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ 2003ء سے 2005ء تک عراق جنگ میں مرنے والوں کی تعداد پہلے سال 8 ہزار، دوسرے سال 16 ہزار اور تیسرے سال 20 ہزار کے قریب تھی۔ لیکن جیسے ہی عراقی منتخب حکومت نے سنّی علاقوں میں القاعدہ کے نام پر ایکشن شروع کیا تو 2006ء میں 35 ہزار، 2007ء میں 36 ہزار اور پھر 2008ء میں یہ مزاحمت دم توڑ گئی اور صرف 8 ہزار افراد قتل کیے گئے۔
لیکن اس مزاحمت کی کوکھ سے داعش نے جنم لیا اور اس کے چند ہزار سپاہی صرف انھی علاقوں میں کامیاب ہوئے جہاں گزشتہ سات سال سے عراقی حکومت یہ ظلم روا رکھے ہوئے تھی اور نفرت کی خلیج واضح ہو چکی تھی۔ عراق کی اس منتخب حکومت کے ساتھی شام اور ایران تھے۔ لیکن داعش سے بہت پہلے عرب ممالک نے مختلف سنّی تحریکوں کو شام میں جیش الاسلام، حرکت و احرار الشام اور جبتہ النصرہ کے نام پر منظم کیا اور بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا آغاز کرایا۔
دوسری جانب عراق کے سنّی گروہوں کو مالی اور دیگر امداد بھی عرب ممالک سے ملتی رہی۔ ایران جو امریکی حملے سے لے کر امریکیوں اور اس کی کاسہ لیس حکومت کا مددگار تھا، بلکہ بعد کی حکومت کا سرپرست بھی تھا، اس نے تصور کیا کہ اب وہ اگر میدان میں نہ کودا تو اس کی علاقائی بالا دستی ختم ہو جائے گی۔ یوں وہ جنگ جو چھپ کر لڑی جا رہی تھی اب واضح ہو گئی۔
داعش کے بعد دونوں گروہ کھل کر میدانِ عمل میں نکل آئے۔ دونوں علاقے میں اپنے پالتو گروہوں کا قبضہ چاہتے ہیں۔ دونوں داعش کے خلاف متحد ہیں لیکن داعش کو ختم کر کے عراق اور شام کے کھنڈرات پر اپنا اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے میدانِ عمل میں کود چکے ہیں۔ ایک نے اس علاقائی بالا دستی کا پرچم امریکا کو تھما دیا ہے اور دوسرے نے علاقائی کنٹرول کا خواب روس کو دکھایا ہوا ہے۔
اگر ان دونوں گروہوں کی افواج آپس میں لڑ رہی ہوتیں تو شاید یہ خوفناک بات نہ ہوتی لیکن دونوں جانب سے مسلم امہ کے تمام ممالک میں مسلک کے نام پر گروہوں کو منّظم کیا جا رہا ہے اور بھرتیاں شروع ہیں۔ ان بھرتیوں کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان اور افغانستان کے شیعہ اور سنّی نوجوان ہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں ایران میں دو پاکستانیوں کے جنازے کی تصاویر ایران میں بہت عام ہوئیں جو شام میں مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں پارا چنار سے تعلق رکھتے تھے۔
وہ پاکستانی جو ایرانی پاسداران کے تحت ٹریننگ حاصل کرتے ہیں ان کے گروہ کا نام زینبیون ہے۔ جب کہ افغانستان سے بھرتی کیے جانے والوں کا نام لیواء فاطمیون ہے۔ افغانستان سے بھرتی کیے گئے افراد کی تعداد 15 ہزار کے قریب ہے جو بشار الاسد کے لیے لڑ رہے ہیں جن میں سے سات سو کے لگ بھگ حلب اور دیرہ میں مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان سے زینبیوں کے نام پر بھرتی کیے جانے والوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں سے 20 کے قریب جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بسنے والے شیعہ مسلک کے افراد بھی اس پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں جب کہ بھارت سے تیس ہزار لوگوں نے نجف اور کربلا میں لڑنے کے لیے اس وقت درخواستیں جمع کروائیں تھیں جب داعش کا آغاز ہوا تھا۔ دوسری جانب مغربی ممالک سے سنّی مسلمانوں کا داعش کے لیے آنے کا سلسلہ دھڑا دھڑ جاری ہے۔۔ تقریباً پانچ ہزار لوگ وہاں سے داعش کے لیے لڑنے پہنچے ہوئے ہیں۔
یعنی شام اور عراق میں ان دونوں گروہوں نے امتِ مسلمہ کا مسلک کی بنیاد پر خون بہانے کا سب سامان فراہم کر دیا ہے۔ سنّی گروہوں کو یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کر کے وہاں سنّی اکثریت کی حکومت اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق قائم کرنا ہے۔ جب کہ شیعہ نوجوانوں کا المیہ عجیب ہے انھیں مزاراتِ مقدسہ کے تحفظ کے نام پر یہاں سے بھرتی کیا جاتا ہے اور وہ ایسے شہروں میں جا کر لڑ رہے ہیں جہاں کوئی مقدس مزار ہی نہیں ہے۔
زینبیوں کی بھرتی کی جانے والی ویب سائٹ اور فیس بک پر لکھا ہے “پاکستانی مجاہدین کی فوج جو صرف اور صرف دفاعِ حرم کے لیے لڑ رہے ہیں اور نہ بشار سے کوئی تعلق ہے اور نہ ایران سے”۔ یہ ہے وہ مسلک کا تڑکا جو علاقائی بالا دستی کی جنگ کو لگا کر امت میں فساد کا بیج بویا جا رہا ہے۔
صرف ایک سوال دونوں کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں۔ کیا بشار الاسد کی حکومت بچ گئی تو سیکولر بشارالاسد فقہ جعفریہ کے مطابق اسلامی نظام نافذ کر دے گا، یا اگر سنّی گروہوں کی اکثریت جیت گئی تو وہ اسلام کے درخشاں اصولوں پر حکومت قائم کریں گے ہر گز نہیں، وہ جو صرف مسلک کے اختلاف پر گردنیں کاٹتے ہوں وہ اس امت کو کبھی امن نہیں دے سکتے۔ ایران ہو یا عرب ممالک۔
خوف بیچنے والے
اوریا مقبول جان پير 14 دسمبر 2015
دنیا میں خوف ایسی چیز ہے جسے سب سے آسانی کے ساتھ بیچا جا سکتا ہے اور پھر موت کا خوف۔ موت تو ایک ایسی اٹل سچائی ہے کہ جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ انسان کی ساری جدوجہد اور تگ و دو اس موت کے عفریت پر قابو پانے پر لگی ہوئی۔ فلاں ملک اس لیے ترقی یافتہ ہے‘ کیونکہ وہاں افراد کی اوسط عمر بہت زیادہ ہے۔ وہاں سیلابوں اور زلزلوں سے بچنے کے انتظامات بہت خوب ہیں۔ بڑھاپے پر قابو پانے، جوان رہنے، بیماریوں اور متعدی امراض سے بچنے کے لیے تحقیقات کا آخری نقطہ اور منزل یہ ہے کہ آدمی موت پر کیسے قابو پاتا ہے، لیکن انسان کی لاکھوں سال کی اس جدوجہد پر ہر دوسرے لمحے موت ایک طمانچہ رسید کرتی ہے۔ فاتحانہ طور پر اپنی مرضی کے شخص کو ساتھ لے جاتی ہے اور پوری انسانی جدوجہد کو ماتم کرتا چھوڑ جاتی ہے۔ یہ ہے موت اور اسی موت کا خوف جب کسی شخص کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو پھر آپ اسے موت سے بچنے کے لیے مٹی بھی بیچیں تو وہ سونے کے مول خریدے گا اور اگر موت کا یہ خوف کسی قوم یا قبیلے میں رس بچ جائے تو ان کی حالت اس بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہو جاتی ہے جنھیں گلے میں رسی ڈال کر جس طرف چاہے ہانک دو۔
لیکن موجودہ دور کا کمال یہ ہے کہ اس نے موت کے خوف کو کاروبار بنا لیا ہے۔ پہلے لوگوں کے سروں پر ایک انجانے خوف کی تلوار لٹکائی جاتی ہے اور پھر اس تلوار کے وار سے بچنے کے لیے بنائے گئے بندوبست کو مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ موت کا بے دلیل قسم کا خوف ایسی بلا ہے کہ آدمی گھر بار بیچ کر زندگی کے چند لمحے خریدنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب موت اس کے پاس نہیں آئے گی۔ موجودہ دور کی سب سے بڑی انڈسٹری خوف ہے۔ دنیا بھر کا کارپوریٹ مافیا خوف پھیلاتا ہے۔ اور پھر اسی خوف کے سائے میں اپنی مصنوعات اور سہولیات بیچتا ہے۔ آپ کسی ملک کے بڑے شہر بلکہ اپنے ملک پاکستان کے صدر مقام اسلام آباد اور دیگر صوبائی صدر مقام پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے فائیوسٹار ہوٹلوں کی زندگی کا موازانہ آج سے بیس سال پہلے کی زندگی سے کریں تو آپ کو یہ ہوٹل رہائش یا کھانا پینا نہیں خوف بیچتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اسلام آباد کے دو بڑے ہوٹلوں میں دنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے دفاتر منتقل کرنے کی خواہشمند ہیں اور جن کے وہاں منتقل ہو چکے ہیں‘ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتی ہیں۔ ہوٹلوں کے چاروں طرف مضبوط، مستحکم اور بم پروف دیواریں بنا دی گئی ہیں، ایسے تمام آلات جو دھماکا خیز مواد اور اسلحہ کو سو پردوں میں بھی تلاش کر سکتے ہیں‘ نصب ہیں۔
مخصوص تربیت یافتہ کتے بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ ٹیلیفون کالوں کو روکنے کے لیے جام کرنے والے آلات بھی موجود ہیں اور کالوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے مشینیں بھی مہیا ہیں۔ آپ ایک دفعہ کسی طرح کے ہوٹل میں گھسں جائیں تو یوں سمجھو کہ موت کا فرشتہ بھی آپکا سراغ نہیں لگا سکتا۔ دنیا بھر سے آنے والے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمایندے، عالمی اداروں کے افسران، بیرونی سفارت کار، غرض ایسے سب لوگ جن کی سیکیورٹی خالصتاً پرائیویٹ ہے، وہ ایئرپورٹ سے بلٹ پروف اور دہشت گردی پروف گاڑیوں اور محافظوں کے ساتھ ان ہوٹلوں میں آتے ہیں، اپنی میٹنگ یا ضروری کام کرتے ہیں اور ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر یہ خوف نہ ہوتا تو کیا اس ہوٹل یا ایسے ہوٹلوں کا کاروبار اس طرح چمکتا، سیکیورٹی آلات بنانے والی کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا، کتے پالنے اور انھیں خاص طرح تربیت دینے والوں کی چاندی ہوتی، وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جو چند لاکھ روپے ماہانہ کے دفاتر میں کام کرتی تھیں‘ اب ان ہوٹلوں کو پچاس گنا زیادہ کرایہ دینے کو بھی تیار ہوتی ہیں اور وہ یہ اخراجات اپنی مصنوعات کی قیمت بڑھا کر عوام سے وصول کرتی ہیں۔
خوف کے اس کاروبار نے صرف ان چند ہوٹلوں کے کاروبار کو نہیں چمکایا بلکہ اس نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا ہے۔ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کا کاروبار اسقدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ ہر دوسرا دفتر اپنے دروازے پر ان سے ایک پرائیویٹ گارڈ حاصل کرتا ہے اور خود کو ہر قسم کے خوف سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس خوف نے نہ صرف اسلحہ ساز فیکٹریوں کو نئے نئے اسلحہ بنانے کی ترغیب دی ہے بلکہ وقت سے پہلے خطرے کی نشاندہی اور لوگوں کی طرف بڑھتے ہوئے مہیب اور خوفناک گروہوں کا پتہ دینے کے آلات بھی بے شمار تعداد میں بنائے گئے اور اربوں ڈالر میں فروخت کیے گئے۔ خوف‘ کارپوریٹ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور موت کا خوف اس ہتھیار کی اصل۔ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہاں کی میونسپل سروسز کی طرف سے فراہم کیے جانے والے پانی پر لوگ زندگی گزارا کرتے تھے۔
یہ ادارے اپنے پانی کو کلورین یا پوٹاشیم پرمیگنیٹ سے صاف کر کے اس قابل بنا دیتے تھے کہ لوگوں کو بیماری نہ لگے۔ سب سے پہلے کیلفورنیا میں پانی کے نمونے پر بحث کا آغاز کیا گیا اور انھیں حفظان صحت کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔ لوگوں کو پہلے یہ خوف ڈالا گیا کہ اس پانی میں فلاں فلاں معدنیات تھیں جن سے آپ کی ہڈیاں کمزور ہو سکتی ہیں‘ یاداشت میں کمی یا پھر نظام انہضام میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ لوگوں کو یقین سا ہونے لگا۔ اس کے بعد مختلف شہروں کے پانیوں کے نمونوں میں بکٹیریا اور دیگر بیماریوں کے جرثوموں کو دریافت کیا گیا۔ ہیپاٹائٹس کا خوف سر پر سوار کیا گیا اور پھر پانی کی بوتل ہر شخص کے ہاتھ میں آ گئی۔ ہر کسی کا اپنا پانی ہے جو وہ لے کر گھومتا پھرتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے پاکستان میں آج سے صرف 25 سال پہلے سوچا تھا کہ ہم پانی بھی خرید کر پئیں گے۔ وہ قوم جو دیہات میں دودھ کو فروخت کرنا بھی برا سمجھتی تھی کہ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے اوراس سے مال کمانا حرام ہے‘ اب زمین میں موجود اللہ کی اجتماعی نعمت پانی کو بھی پیسے لے کر فروخت کرتی ہے۔
دنیا کی صحت اور میڈیسن کی انڈسٹری جسے ملٹی نیشنل کمپنیاں چلاتی ہیں‘ اسی خوف کے ہتھیار کو لے کر پروان چڑھتی ہے۔ ہر کسی کو ناگہانی موت سے ڈرایا جاتا ہے‘ معذور ہونے کا خوف دلایا جاتا ہے‘ بیمار اور لاچار ہو جانے کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور پھر کبھی وٹامن بیچی جاتی ہیں اور کبھی خالص غذا جسے Organic غذا کہتے ہیں۔ تقریباً پچاس سال سائنس دانوں نے اس کوشش میں لگائے کہ اشیا کے بیج ایسے بنائے جائیں کہ ایک ایکڑ پر بے شمار گندم‘ چاول یا دالیں حاصل کی جا سکیں۔ جب ایسا ہو گیا تو ساری دنیا کو خوفزدہ کیا گیا کہ اگر تم نے یہ خوراک کھائی تو تمہارے ہارمونز میں خرابی آ جائے گی‘ تم بدصورت اور معذور ہو جاؤ گے۔ تم خالص گندم‘ خالص چاول‘ دالیں اور خالص گھی استعمال کرو اور پھر اس خالص پن کو بیچ کر سرمایہ کمایا گیا۔ پہلے خود خوف پیدا کیا گیا‘ پھر اس خوف سے سرمایہ داروں کو ڈرایا گیا‘ پھر ان کو اس خوف کے زیر اثر جی بھر کے لوٹا گیا۔
خوف کے سوداگر اپنے لیے خود بھی خوف کی فضا کا چرچا کرتے ہیں۔ ہر سیاست دان‘ بیوروکریٹ‘ جرنیل‘ صحافی‘ جج‘ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آ جاتا ہے۔ لمبی لمبی کانوائے‘ ایلیٹ فورس‘ اونچی اونچی دیواریں‘ مسلح گارڈ۔ آپ کسی جی او آر‘ کسی سیکریٹریٹ یا کنٹونمنٹ کے علاقے میں گھسنے لگیں تو ایسا لگتا ہے آپ غزہ سے اسرائیل جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو سارا دن منبر رسولﷺ پر بیٹھے قرآن پاک کی یہ آیات تلاوت کرتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ نہ جلدی کرتی ہے اور نہ دیر‘ جو اللہ کو قادر مطلق فاعل حقیقی اور مختار کل سمجھتے ہیں۔ وہ سنی‘ شیعہ‘ دیو بندی‘ بریلوی‘ کوئی بھی ہو‘ اسی خوف کے سائے میں اپنے ارد گرد مریدوں کا حصار لیے گھومتے ہیں۔ انھیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے۔
سید الانبیاءﷺ نے اسی خوف کو امت مسلمہ کا سب سے بڑا مرض قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’قریب ہے کہ تم پر دنیا کی اقوام چڑھ آئیں گی‘ جیسے کھانے والوں کو کھانے کے دسترخوان پر دعوت دی جاتی ہے۔ کسی نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ‘ کیا ہم اس زمانہ میں بہت کم ہونگے‘ فرمایا نہیں! بلکہ تم اس زمانہ میں بہت کثرت سے ہو گے‘ لیکن تم سیلاب کے اوپر چھائے ہوئے کوڑے کباڑ کی طرح ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت اور رعب نکال دے گا اور تم ’’وہن‘‘ کا شکار ہو جاؤ گے۔ پوچھا گیا‘ یا رسول اللہ ’’وہن‘‘ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت کا خوف ( ابو داؤد)۔ کیا اس امت کو یہ مرض لاحق نہیں ہے۔
یہ دوستی کی پینگیں نہیں چڑھنے والیں
اوریا مقبول جان جمعـء 11 دسمبر 2015
بساط بچھ چکی ہے۔ تمام مہرے آہستہ آہستہ اپنی جگہ پر آرہے ہیں۔ ان مہروں میں کئی مدت سے اپنے مقام پر موجود بار بار پیشقدمی بھی کر چکے ہیں۔ کہیں جیت، کہیں ہار اور کہیں مسلسل لڑائی جاری ہے۔
میدان جنگ وہی ہیں جن کی نشاندہی مخبرِ صادق سیدالانبیاء ﷺ فرما چکے۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں سے یہ آخری معرکہ لڑنا ہے، ان کی تمام تر منصوبہ بندی معروضی اور علاقائی حالات کے مطابق نہیں ہے بلکہ ان کی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کے مطابق ہے۔ مگر وہ پوری دنیا کو معروضی حالات، عالمی امن، اقتصادی صورتِ حال اور علاقائی معاملات کے مطابق منصوبہ بندی کا درس دیتے ہیں۔
ان کے بتائے ہوئے ان اصولوں کو مدِنظر رکھا جائے تو دنیا کی سب سے احمقانہ اور بے وقوف حرکت ایک بے سروسامان اور بے آب و گیاہ علاقے میں اسرائیل کا قیام ہے۔ یہ قیام وہاں پر آباد لوگوں کے لیے نہیں تھا بلکہ دو ہزار سال پہلے وہاں سے نکالے گئے یہودیوں کے لیے تھا۔ ان لوگوں کی ساٹھ سے زیادہ نسلیں یورپ اور دیگر ممالک میں زندگیاں گزار کر دفن ہو چکی تھیں۔ لیکن انھوں نے اپنی آنے والی ہر نسل کو ایک سبق ذہن نشین کروایا تھا کہ خواہ تم لندن، پیرس، نیویارک، برلن اور اسٹاک ہوم کے امیر ترین شخص بھی ہو جاؤ، تمہیں ان ملکوں میں سیاسی اقتدار بھی مل جائے، لیکن جب کبھی تمہیں ارضِ شام و فلسطین میں ایک ٹکڑا زمین مل جائے جہاں تمہاری حکومت قائم ہو تو تم نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں آباد ہو جانا ہے۔
ہے نا کس قدر احمقانہ، غیر سیاسی اور غیر اقتصادی حرکت۔ ایسا کرتے ہوئے کسی نے نہیں سوچا کہ معروضی حالات کیسے ہیں۔ چاروں جانب ایک ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں، ہم ان کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں، وہ ہمارے خون کے پیاسے بن جائیں گے۔ پھر وہاں ہے کیا۔ ایک ریگستان، جس میں نہ کوئی پھل ہے نہ پھول، معدنیات بھی نہیں کہ ہم ملک کا اقتصادی پہیہ رواں دواں کر سکیں۔ کاروبار کے مواقع ہیں اور نہ ہی کوئی انڈسٹری۔ لیکن ان سب کو صرف ایک بات کا یقین دلایا گیا تھا اور نسل در نسل اس خواب کی آبیاری کی گئی تھی کہ ایک دن تمہارا مسیحا آئے گا اور وہ ارضِ فلسطین پر ایک ایسی حکومت قائم کرے گا جو پوری دنیا پر حکمران ہو گی اور تم نے اس مسیحا کی حکومت کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ایک عالمگیر جنگ لڑنا ہے۔
آج کوئی سیکولر، لبرل، دفاعی اور سیاسی امور کا ماہر ایسی کسی پیش گوئی کا یقین کرتا ہے؟ سب مذاق اڑائیں گے کہ دنیا بھر میں اس قوم کی آبادی آدھا فیصد سے بھی کم ہے اور یہ ساڑھے ننانوے فیصد پر حکومت کے خواب دیکھ رہی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ دنیا کا ہر سیکولر، لبرل، جمہوریت پسند اور عالمی امن کا علمبردار یہودیوں کے اس خواب کی تکمیل کے لیے دانستہ اور نادانستہ طور پر کام کر رہا ہے۔
انھیں اس “ارضِ مقدس” میں آباد کرنے، وہاں ان کا قبضہ مستحکم کرنے سے لے کر ان کی سیاسی، اقتصادی اور فوجی امداد تک انھی قوتوں نے کی ہے۔ اسرائیل کی مسلمانوں کے ساتھ ہر لڑائی میں یہ قوتیں سیاسی، اخلاقی اور فوجی سطح پر اسرائیل کے ساتھ رہیں اور آج وہ اسرائیل کے ممکنہ دشمن ملکوں کو بھی نیست و نابود کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کی مغربی جمہوری طاقتیں صرف اور صرف اس ایک پیشگوئی پر ایمان رکھتی ہیں کہ ایک یہودیوں کا مسیحا فلسطین سے پوری دنیا پر حکومت کرے گا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی مصر، عراق، شام اور افغانستان پر جنگ مسلط نہ کرتا۔ کوئی اسرائیل کی بے جا حمایت کر کے، اس کے مظالم پر خاموش رہ کر اپنے ملکوں تک میں بسنے والے پرامن مسلمانوں کو تشدد پر مجبور نہ کرتا۔ پوری دنیا کے تجزیہ نگار اور سیاست دان اسرائیل اور اس کے مظالم کی حمایت کی ایک بھی عقلی دلیل نہیں پیش کر سکتے۔ کیا وہاں تیل کی دولت ہے جو مغرب استعمال کرتا ہے، معدنیات کے خزانے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیوں نے وہاں کام شروع کر رکھا ہے، دنیا کی مصنوعات کے بہت بڑی منڈی ہے جس سے ہر ملک کا مفاد وابستہ ہے۔ عالمی تجارت کا راستہ ہے کہ اسے کھلا رکھنا چاہیے۔
ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اس کے باوجود تمام عالمی طاقتیں اسرائیل سے کسی قسم کا مفاد حاصل کیے بغیر اس کی اس طرح حمایت کرتی ہیں کہ چاہے وہ ایٹم بم بنا لے، ہزاروں عورتیں اور بچے مار دے، دوسرے ملکوں کے علاقے پر قبضہ کر لے، لیکن پھر بھی اس کی پشت پناہی جاری رہتی ہے۔ اپنے ملک میں گیارہ ستمبر کروا لینا ہے، لندن، پیرس اور دیگر شہروں میں حملے کروا لینے ہیں، اپنے شہروں کی سیکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کر لینے ہیں، لیکن اسرائیل کی حمایت نہیں ترک کرنی۔
اس کا مطلب ہے کہ دانستہ، یا نادانستہ طور پر پورا مغرب یہ سب کچھ سیاسی، معروضی اور اقتصادی وجوہات کی بنیاد پر نہیں کر رہا بلکہ ان کو بھی شاید یہودیوں کی طرح یقین ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے ایک بڑی جنگ لڑ کے ایک عالمی ریاست کو قائم کرنا ہے۔ اسی لیے تمام یہودی جنگ کے لیے ہمہ وقت مستعد ہیں، اور مغربی طاقتیں انھیں تمام سامان مہیا کر رہی ہیں اور ان کے خلاف منظم ہونے والے ہر دشمن کا قلع قمع کر رہی ہیں۔
لیکن ان تمام سیکولر، لبرل، جمہوریت پسندی اور عالمی امن کے داعی سیاست دانوں، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی منافقت اور دوغلا پن کا عالم یہ ہے کہ کوئی ریاست اگر اسرائیل کے مقابل کھڑی ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسے دہشت گرد یا دہشت گردوں کی پناہ گاہ کہا جاتا ہے اور اگر کوئی گروہ ان کے مقابلے میں منظم ہونے لگتا ہے تو اسے عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاست دان، دانشور اور تجزیہ نگار مسلمان ممالک کو ہر روز یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تم اقتصادی، معروضی اور سیاسی حالات کے مطابق فیصلے کرو۔ اپنی حالت دیکھو، اپنی معاشیات کو بہتر بناؤ، اپنے ملکوں کو امن کا گہوارہ بناؤ، اپنے اندر سے ایسے افراد کا خاتمہ کرو جو اس آخری عالمی معرکے کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آخری فتح ہماری ہے۔
ہمیں اس کا ادراک ہو نہ ہو، اسرائیل کو اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اس کا اصل دشمن کون ہے۔ اسرائیل نے جب 1967ء میں مصر، شام اور اردن کے سیکولر حکمرانوں ناصر، اسد اور شاہ حسین کی افواج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تو اس کے پہلے وزیر ِاعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پیرس کی ساربون یونیورسٹی میں دنیا بھر کے یہودیوں کی کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا “بین الاقوامی صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈولوجیکل جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعثِ مصیبت بن سکتی ہے۔ بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید ہے” (یروشلم پوسٹ 9 اگست1967ء)۔ ممبئی حملے کیا ہیں۔ ان کو کس لیے ہر مذاکرات میں اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکر ہر مشترکہ اعلامیہ میں ان کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔
اس لیے کہ ممبئی حملہ بھارت اور اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ پر حملہ تھا۔ دنیا بھارت میں مرنے والے ایک لاکھ انسانوں کو تو پسِ پشت ڈال سکتی ہے لیکن ممبئی میں مرنے والے اسرائیلی ایجنٹوں کی موت کو بھلانے کے لیے تیار نہیں۔ سشما سوراج کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی ممبئی حملے کی یا د تازہ کی گئی جب کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو فراموش کر دیا گیا جس میں پاکستانیوں کو ٹرین کے دروازے مقفل کر کے آگ لگا دی گئی تھی۔ وقت، تاریخ اور حالات کی مخالف سمت سفر کرنے والے آج بھی سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت دوستی کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔
دنیا چاہے جتنے اقتصادی، سیاسی اور علاقائی تجزیے پیش کرے، ڈیوڈ بن گوریان اور اس کی قوم کی حکمتِ عملی اس سفر کے برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے “ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہندو، پاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تاریخی دشمنی ہمارے لیے زبردست سرمایہ ہے۔ لیکن ہماری حکمتِ عملی ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں” (یروشلم پوسٹ۔ 9 اگست1967ء )۔ جس طرح یہودیوں کو ایمان کی حد تک یقین ہے کہ یہ عالمی جنگ برپا ہونی ہے۔ ویسے ہی ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ سید الانبیاءﷺ کی وہ حدیث ہے ۔
جس میں آپؐ نے صحابہ سے جہادِ ہند کے لیے وعدہ لیا، بشارت دی کہ اس لشکر پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وقت بتاتے ہوئے کہا کہ جب آپ لوگ ہند کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لاؤ گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو اپنے درمیان پاؤ گے اور عیسیٰ ابنِ مریم کی آمد اسرائیل اور دجال کی شکست ہے۔ ( سنن نسائی، مسند احمد، بیہقی، مستدرک، الفتن)۔ جس طرح یہودیوں کا ایمان ہے کہ ہم نے جنگ لڑنا ہے اور وہ گھر بار اور عیش و آرام چھوڑ کر اسرائیل میں آباد ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہمارا بھی ایمان یہ ہونا چاہیے کہ جو کوئی ہند سے دوستی کرتا ہے وہ رسولِ اکرم ﷺ کے ساتھ کیے گئے عہد سے منہ موڑتا ہے۔ اور شاید اسی منہ موڑنے کی سزا ہمیں نہیں بلکہ پوری امت کو مل رہی ہے۔
اجتماعی ہپناٹزم
اوریا مقبول جان پير 7 دسمبر 2015
ذہنوں کو مسخر کر کے انھیں اپنی مرضی کے احکامات کے مطابق عمل کرنے پر بلاچون و چرا راضی کرنے کو موجودہ دور کی نفسیاتی تعلیم کی دنیا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو ذہنوں کو قابو کرنے کا فن اتنا ہی قدیم ہے جس قدر انسان کی تہذیب و ترقی کا سفر لیکن جیسے جیسے علم کی دنیا نے ترقی کی تو تمام علوم کتب کی صورت محفوظ ہوتے چلے گئے ویسے ہی ہپناٹزم نے بھی اپنے دائرے، ضابطے اور اصول وضع کر لیے۔ نفسیات دان یا نفسیاتی معالج اسے صرف علاج کے لیے استعمال کرنے کو جائز خیال کرتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ کسی شخص کو ہپناٹزم کے زیر اثر لاتے ہو تو پھر آپ اس کے لاشعور تک جا پہنچتے ہو، جہاں اس نے بہت سے ایسے تجربات چھپا کر رکھے ہوتے ہیں جو تلخ اور تکلیف دہ ہوتے ہیں، لوگوں کے خلاف اپنے جذبات کو دبایا ہوتا ہے۔ ایسے جذبات جن کے بیان کرنے سے اسے خود نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آدمی جب اپنے ایسے تجربات، خیالات اور جذبات کو دباتا ہے تو ایک مسلسل کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے جو اس میں اضطراب، بے چینی، پژمردگی، بلا وجہ غصہ اور بعض دفعہ جسمانی بیماریاں تک پیدا کر دیتی ہے۔ ان میں جلدی امراض اور پیٹ کے السر بہت عام ہیں۔ نفسیات دان جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اسے مریض کے لاشعور تک رسائی کے لیے ہپناٹزم کا سہارا لینا پڑتا ہے جسے موجودہ دور میں ”Hypnotherapy” کہتے ہیں۔ آجکل اس کے لیے آپریشن سے پہلے لگائے جانے والے انستھیزیا انجکشن کی ہلکی سی مقدار مریض کو ایک ایسی کیفیت میں لے جاتی ہے جہاں آپ احکامات کے ذریعے اس سے ماضی سے متعلق بہت کچھ اگلوا سکتے ہیں۔ یہ سب انفرادی ہپٹناٹزم کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک گروپ ہپناٹزم ہے جو ایک ایسے گروہ پر استعمال کیا جاتا ہے جو بحیثیت مجموعی اس کے لیے راضی ہو۔ ایم اے کے دوران ہمارے ایک جاپانی استاد تھے وہ اکثر اس کا مظاہرہ کرتے۔
اگر کبھی ہم تھکاوٹ محسوس کر رہے ہوتے تو وہ ہمیں آنکھیں بند کرنے کو کہتے اور پھر ہاتھوں کو آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ ہلانے کے احکامات جاری کرتے۔ یہاں تک کہ ہم ننید میں چلے جاتے۔ اجتماعی ہپناٹزم ایسے تمام افراد استعمال کرتے ہیں جنہوں نے اپنا کوئی گروہ منظم کیا ہو اور اسے ایک خاص مقصد کے لیے استعمال کرنا ہو۔ اس سے مثبت مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں اور منفی بھی، ارتکاز، مراقبہ یا انگریزی زبان میں اجتماعی Meditation اسی کا نام ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جس میں کسی شخصیت کے دیدار یا اس کے حکم کو بجا لانے کے لیے لوگ کئی کئی گھنٹے سخت گرمی یا سخت سردی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اجتماعی ہپناٹزم کے لیے کسی شخص کو مجبور کر کے بٹھانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی اسے قائل کیا جاتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔
بس اس کے سامنے ایک ایسی کیفیت پیدا کی جاتی ہے جس کو دیکھنے کے لیے وہ ایک لمحے کو رک جاتا ہے۔ اسے یہ شخص یا کیفیت حیران کن اور مزا دینے والی لگتی ہے۔ جیسے ہی وہ اس کیفیت کے سحر میں ایک لمحے کو رکتا ہے اس کا ذہن اس شخص کے کنٹرول میں آ جاتا ہے جو اجتماعی ہپناٹزم کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے گروہ (Cult) اسی ذہنی تسخیر کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حسن بن صباح نے الموط کے پہاڑ پر جو جنت تخلیق کی تھی اور جس سے وہ اپنے زیر اثر لوگوں کو فدائی حملوں کے لیے راضی کر لیتا تھا وہ اسی اجتماعی ہپناٹزم کے طریقوں کی اعلیٰ ترین کیفیت تھی۔
امریکا میں اسی کے زیر اثر کئی کئی سو افراد کو اجتماعی خودکشی پر مجبور کیا جاتا رہا اور ستر کی دہائی میں پنجاب سے ایک شخص نے کئی سو لوگوں کو زیارتوں پر جانے کے لیے صندوقوں میں بند کیا اور سمندر میں بہا دیا اور کہا تم ایک دن کربلائے معلیٰ پہنچ جاؤ گے۔ موجودہ خودکش حملوں کی ترغیب بھی اسی اجتماعی ہپناٹزم کے اصولوں کے استعمال کی ایک شکل ہے۔ لیکن اس کی شاندار اور اعلیٰ ترین مثال موجودہ دور کا میڈیا ہے۔ یوں تو میڈیا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ اس وقت سے موجود ہے جب انسان صرف گفتگو کا فن جانتا تھا لیکن تحریر سے اسے آشنائی نہ تھی۔ تقریر، شاعری اور حسن کلام اسی دور سے لوگوں کے ہجوم کو مسخر کرنے کیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر کتاب، قلم، کاغذ اور اخبار آیا۔ اسٹیج ڈراموں اور پتلیوں کے تماشوں کے ذریعے انسانوں نے انسانوں کے ذہنوں کو مسخر کرنا صدیوں پہلے سیکھ لیا تھا۔
کئی ہزار سال تک اس میڈیا کا مثبت استعمال رہا کہ یہ اجتماعی سطح پر اور عالمی طور پر کسی ایک گروہ کا غلام نہیں تھا۔ جدید میڈیا، جدید مغربی تہذیب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ ایٹم بم، نیپام بم، ہائیڈروجن بم اور کیمیائی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک اثر اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ انسانوں کے ذہنوں کو اس طرح اجتماعی ہپناٹزم کے ذریعے مسخر کرتا ہے کہ انھیں حقیقت اور سراب میں فرق تک محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اس کے سحر میں ایسے کھوئے ہوتے ہیں کہ انھیں نہ اپنے نقصان کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ دوسروں کے دکھ اور درد کا۔
جدید مغربی تہذیب جو گزشتہ تین سو سال کی ایجاد ہے اس نے پوری دنیا میں نوآبادیات کی دولت کو لوٹ کر ترقی یافتہ ہونے کا سفر جب طے کر لیا تو اسے اپنی نو آبادیوں کو آزادی کے بعد مستقل غلام بنانے کا خیال آیا۔ جب ایشیاء، افریقہ اور جنوبی امریکا لوٹ لیا گیا تو اسے چھوڑنے کا ارادہ کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ اب یہ سب کے سب ہماری تہذیب کے بہترین نقال بن جائیں۔ اس کے لیے انھوں نے ملک میں ایسے ادارے تخلیق کیے جو ان غلام معاشروں میں جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپیاں تیار کریں۔ ان میں سب سے اہم ادارہ تعلیم اور دوسرا ادارہ میڈیا تھا۔ تعلیم میں سائنسی علوم شامل نہیں کہ ان کا معاشرے کی تبدیلی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ایئرکنڈیشنڈ، کار، بلب یا ہوائی جہاز لوگوں کو اخلاقیات یا سماجی طرز زندگی نہیں سکھاتا۔ لیکن پرائمری تعلیم اور سوشل سائنسز آپ کے ذہن میں کرداروں کو تخلیق کرتی ہیں۔
کارٹون، نرسری کی نظمیں، کومکس اور اسی طرح مذہب سے بیگانہ اخلاقیات آپ کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ اس کے بعد جب آپ میڈیا کھولتے ہیں تو آپ کو وہ کسی قسم کا اچنبھا نہیں لگتا۔ آپ ویسا ہی ماحول دیکھنے کے لیے تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب آپ تیار ہو گئے تو پھر آپ کا ذہن اجتماعی ہپناٹزم کرنے والے کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ آپ کسی شہر پر امریکی طیاروں کی بمباری کے براہ راست مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اس سب کو اس طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے ہالی ووڈ کی کوئی فلم دیکھی جاتی ہے۔
منظر کو اس طرح طاقت کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ جس بلڈنگ پر یہ بم گرا رہے اس میں تین چار سو خاندان رہائش پذیر ہوں گے۔ بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں وہاں مقیم ہوں گی۔ یہ میڈیا جن کو مظلوم ثابت کرنا چاہیے ان کے صرف روتی صورتیں دکھا دے اور ہم ان سے ہمدردی کرنے لگیں اور جن کی موت پر سے بے گانہ رکھنا چاہے تو گلیوں میں بکھرے ہوئے لاشوں کے ٹکڑے بھی نہ دکھائے اور ساتھ یہ دلیل بھی دے کہ ہم تو اخلاقاً ایسا نہیں کرتے کہ ان سے لوگ خوفزدہ اور نفسیانی مریض بن جاتے ہیں۔
یہ اجتماعی ہپناٹزم دنیا کو جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی بنانے کا عمل ہے۔ اگر یورپ کی عورتوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بے پردگی اختیار کریں گی تو میڈیا اپنے سحر سے سب کو قائل کر لیتا ہے کہ یہ ایک مہذب عمل ہے۔ یورپ کے مرد اگر شیو کرنا شروع کر د یں تو پوری دنیا میں ہیرو کا تصور اسی کی کاربن کاپی ہونا چاہیے۔ عورتوں کے دلوں میں جذبات ایسے ہی ہیرو سے ابھرنے چاہئیں۔ آخر اس جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی پوری دنیا کو بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ آخر اس میڈیا کو کون سرمایہ فراہم کرتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کرے۔ میڈیا کو ہر ماہ اربوں ڈالر دیے جاتے ہیں جو کارپوریٹ سرمائے سے ادا ہوتے ہیں۔ اور یہ کارپوریٹ سرمایہ بینکوں کی جعلی کاغذی کرنسی سے جنم لیتا ہے۔ اس کارپوریٹ سرمایہ کی امین پنتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں جن کو پانچ سو بنیادی کارپوریشن کنٹرول کرتی ہیں اور ان کو بیس بینک کنٹرول کرتے ہیں اور انھیں سرمایہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان سب کو پوری دنیا جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی کی صورت میں چاہیے۔ اس لیے کہ جب تک سب لوگ ایک جیسا پیزا‘ برگر‘ چکن یا کھانا نہیں کھائیں گے‘ ایک جیسی جینز‘ جاگر اور لباس نہیں پہنیں گے ‘ ایک جیسا میک اپ اور خوشبو نہیں استعمال کریں گے‘ ایک جیسا لائف اسٹائل اختیار نہیں کریں گے تو ان کا مال نہیں بکے گا۔ ایک جیسے لائف اسٹائل کا مطلب ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی کاربن کاپی‘ خاندانی زندگی کی اخلاقیات بھی ویسی‘ بڑوں کا عدم احترام بھی ویسا ‘ معاشرتی‘ برائیوں زنا‘ شراب‘ جواء اور ہم جنس پرستی پر غرور بھی ویسا۔ ایسے انسان صرف اسی وقت بنائے جا سکتے ہیں جب آپ کا ذہن کسی اجتماعی ہیپناٹزم کرنے والے کے قابو میں آ جائے اور میڈیا یہ کام کس قدر آسانی اور غیر محسوس طریقے سے کرتا ہے۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا اور ہم وہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں جن پر ہمیں حیرت تک نہیں ہوتی۔
سیلانی ٹرسٹ… ایک انوکھا طرز امداد
اوریا مقبول جان ہفتہ 5 دسمبر 2015
لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ یہ جو روزانہ 65 ہزار افراد کو دو وقت کا کھانا کھلاتے ہو، اس طرح آپ انھیں نکما اور ہڈ حرام بنا رہے ہو۔ میں انھیں جواب دیتا ہوں کہ کبھی آپ ہمارے دسترخوانوں پر آ کر تو دیکھیں آپ کو اسی فیصد لوگ ایسے ملیں گے جو روزانہ مزدوری کرتے ہیں اور اس مزدوری سے بمشکل ان کے گھر کا خرچ نکل سکتا ہے۔ یہ لوگ عموماً دوپہر کو بھوکا رہتے تھے یا پانی میں نمک مرچ گھول کر گھر سے لائی ہوئی خشک روٹی کھا کر دوبارہ کام میں لگ جاتے تھے۔
اب یہ ہمارے دسترخوان پر بہترین کھانا کھاتے ہیں اور ایک نئی توانائی سے کام پر لگ جاتے ہیں۔ باقی 20 فیصد واقعی وہ ہیں جو بالکل کام نہیں کرتے لیکن ہمارے دسترخوان پر آ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اگر انھیں یہ سہولت میسر نہ ہو تو وہ یقیناً اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چوری کرتے، بھیک مانگتے یا پھر کسی اور دھندے کا شکار ہو جاتے۔
یہ الفاظ تھے محمد بشیر فاروق قادری کے جو سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اللہ نے عجز و انکسار اور خلق خدا کا درد انھیں اس قدر وافر دیا ہے کہ رشک آتا ہے۔ میں ٹھیک دو سال بعد انھیں ملنے بہادر آباد کراچی چورنگی کے ساتھ والی گلی میں کئی منزلہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی بلڈنگ میں گیا۔ دو سال قبل جب میں یہاں آیا تھا تو اس سے پہلے میں اس ٹرسٹ کے تمام منصوبوں کو دیکھ کر آیا تھا۔ ایسا حسن انتظام تو ایک خواب ہے۔
ایسے کارکن کہاں سے میسر آتے ہیں کہ حرص و ہوس کی اس دنیا کے باسی ہی معلوم نہیں ہوتے۔ جامعہ کلاتھ مارکیٹ سے گزرتے ہوئے سول اسپتال پہنچا تو دروازے پر کارپارکنگ کی جانب سے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے مستعد کارکنان اسٹریچر اور ویل چیئر ہاتھوں میں پکڑے کھڑے تھے۔ ٹرسٹ کے لوگوں کو علم ہوا کہ اسپتالوں میں اسٹریچر اور وہیل چیئر پر قبضے کا ایک مافیا بن چکا ہے اور لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے اسٹریچر یا وہیل چیئر لینے کے لیے خطیر رقم ان اہلکاروں کو دینی پڑتی ہے جنہوں نے ان پر قبضہ کیا ہوتا ہے۔
سیلانی کے کارکنان ایسے مریضوں کو وہیل چیئر یا اسٹریچر پر بٹھاتے اور جب تک ان کا اسپتال کا تمام کام مکمل نہ ہو جاتا اس کے ساتھ رہتے اور پھر مین گیٹ پر کسی سواری تک چھوڑ کر آتے۔ پارکنگ کے ساتھ لگے اسٹینڈ میں وردیوں میں ملبوس یہ کارکنان ان کی استعداد اور لگن دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے کی عکاس تھی۔
سیلانی کا دسترخوان بھی ایک خوش کن تجربہ تھا۔ بکرے کا گوشت اور وہ بھی اس قدر صاف کیا ہوا۔ باورچیوں نے مکمل حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق لباس پہنا ہوا۔ کھانے کی خوشبو اشتہا انگیز تھی اور گرم گرم روٹیوں کا تصور ہی آدمی کو بہترین کھانے کی لذت سے آشنا کر دیتا ہے۔ ان کے اسٹور میں لوگ بکرے خرید کر بھی دے جاتے ہیں اور ان سے بھی خریدتے ہیں۔ جہاں ان کا اپنا مذبحہ خانہ ہے، میں نے اس قدر خوبصورت انتظام کسی مذبحہ خانے میں نہیں دیکھا۔
ان دسترخوانوں پر روزانہ 65 ہزار افراد کھانا کھاتے ہیں اور اس کھانے پر زکوٰۃ کی رقوم سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ دو سال قبل یہ دسترخوان کراچی میں تھے اور آج یہ حیدر آباد، اسلام آباد، فیصل آباد اور لاہور میں بھی ہیں۔ انھی دسترخوانوں پر رمضان کے مہینوں میں افطاری اور سحری کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ یہ تو ان افراد کی بات ہے جو ان دسترخوانوں پر آ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جن کے ہاں گوشت کھانا ایک خواب ہے، سیلانی ٹرسٹ روزانہ کئی سو بکرے جو صدقے کے ہوتے ہیں انھیں ذبح کرتا ہے اور ان کا گوشت ان گھرانوں تک پہنچاتا ہے جو کراچی کی دور افتادہ بستیوں میں رہتے ہیں۔ یہ امداد صرف گوشت پہنچانے تک محدود نہیں بلکہ سیلانی ٹرسٹ سات ہزار پانچ سو خاندانوں کو ماہانہ راشن فراہم کرتا ہے۔
سیلانی کا ایک شعبہ ایسا ہے جو میں نے صرف یورپ اور امریکا میں دیکھا ہے۔ امریکا میں اسے گڈول سروسز کہا جاتا ہے۔ اس میں لوگ اپنے پرانے کپڑے اور بعض اوقات نئے کپڑے عطیہ کرتے ہیں تا کہ ایسے لوگوں کے کام آئیں جو کپڑے نہیں خرید سکتے۔ سیلانی کلاتھ بینک بھی ایسی ہی ایک سروس ہے۔ قرض حسنہ کا یہ طریق کار تو حیران کن تھا۔ سیلانی والوں کو علم ہوا کہ ایک رکشہ ڈرائیور کرائے پر رکشا لیتا ہے جس کا اسے روزانہ تقریباً دو ہزار روپے کرایہ دینا ہوتا ہے۔
انھوں نے اس رکشہ ڈرائیور کو رکشہ لے کر دے دیا اور روزانہ ایک ہزار روپے اس سے قسط کر لی اور یوں وہ چند مہینوں بعد رکشے کا مالک بن گیا۔ ہنر سکھانے کا سیلانی کا پروگرام بھی کمال کا ہے۔ جب تک کوئی شخص کوئی ہنر سیکھ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے تمام اخراجات ٹرسٹ اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اس کے گھر سے ادارے تک جانے کا سفر خرچ بھی۔
یوں جب وہ ایک کارآمد فرد بن جاتا ہے تو اپنا روزگار خود کما لیتا ہے۔ دو سال قبل امریکا سے ایک صاحب ضیاء الدین خان صاحب تشریف لائے تھے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بے شمار ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ وہ وہاں icloud ٹیکنالوجی کی تربیت دے رہے تھے جو اس وقت پاکستان میں ناپید تھی۔ آج دو سال بعد ان کی کمپیوٹر لیب کی وسعت دیکھ کر کسی بڑے ادارے کا گمان ہوتا ہے۔ سیلانی والوں نے مجھے وہ موٹر سائیکل بھی دکھائے جو ایک مکمل فائر بریگیڈ کا کام کرسکتے تھے۔ فائر بریگیڈ تنگ گلیوں میں نہیں جا سکتا اس لیے خاص طور پر انھوں نے یہ موٹر سائیکل ڈیزائن کیے۔
عدالتوں میں روزانہ کئی سو گھرانے خلع اور طلاق کے مقدمات میں حاضر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ عدالت کے احاطے میں سیلانی نے جھولوں اور بچوں کی تفریح کا بندوبست کیا تا کہ والدین ایک ساتھ انھیں ہنستا کھیلتا دیکھ کر شاید اپنا ارادہ بدل دیں۔ بڑے شہروں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں انسان کے مر جانے کے بعد کسی کو تجہیز و تکفین کا پتہ نہیں ہوتا۔ سیلانی کی چوبیس گھنٹہ میت سروس ایسے لوگوں کے مسئلے حل کرتی ہے۔
سیلانی کا بلڈ بینک اور تھیلیسیمیا سینٹر اپنی جگہ کام کر رہا ہے۔ دو سال قبل انھی دنوں میں جس نئے پراجیکٹ کے افتتاح میں مجھے شرکت کا موقع ملا وہ قائداعظم کے مزار کے سامنے ایک ڈسکونٹ اسٹور تھا۔ یہ ایک بہت بڑا ڈیپارٹمنٹ اسٹور ہے جس پر آپ بہت کم قیمت پر اشیا خرید سکتے ہیں اس کے لیے کسی فرد کی آمدنی دیکھ کر ایک کارڈ بنایا جاتا ہے اور پھر وہ انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ وہاں سے سودا سلف لیتا ہے۔ یہ اسٹور کسی بھی بڑے اسٹور کے ہم پلہ ہے اور یہاں ضرورت کی ہر چیز میسر ہے۔
بشیر فاروق قادری صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے‘ ان سے مل کر سکون حاصل ہوتا ہے‘ دل کو طمانیت ملتی ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ایک ایسا فرد جسے دیکھ کر اللہ یاد آ جائے۔ گزشتہ ملاقات پر انھوں نے دو کتابیں تحفے میں دیں۔ ایک ان کے آئیڈیل حضرت عمر بن عبدالعزیز کی شخصیت پر کتاب تھی اور دوسری غیبت کی برائی پر۔ یقین جانئے دونوں کسی فرد کو بدلنے کے لیے کامل کتب ہیں۔
اس دفعہ ملے تو کہنے لگے میں نے اپنے تمام ملازمین کے بارے میں وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے رکھا ہے جو حضرت عمر فاروق دیا کرتے تھے۔ ہر ملازم کے بچے کا پیدا ہوتے ہی وظیفہ مقرر کر دیا جاتا ہے جو اس کی تعلیم مکمل ہونے تک قائم رہتا ہے۔ کہنے لگے گزشتہ دنوں مجھے پتہ چلا ہماری ایک ملازمہ اپنا چند ماہ کا بچہ گھر چھوڑ کر آتی ہے کیونکہ اس کے خاوند نے بیرون ملک شادی کر لی ہے۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ مجھے اپنے ملازموں کے حالات کا بھی علم نہیں۔ اس خاتون کو کہا گیا کہ جب تک تمہارے بچے بڑے نہیں ہو جاتے تو تنخواہ لو گی لیکن کام یہ ہے کہ صرف بچے پالو گی۔
میں نے کہا مجھے آپ کی اس بات سے سیدنا عمر فاروقؓ کا واقعہ یاد آ گیا۔ آپ کے ایک جاننے والے نے ایک دن ان سے مدد کا سوال کیا تو حضرت عمرؓ دھاڑیں مار کر رونے لگے کہ اے عمر ہر شخص ضرورت مند تھا‘ تیرے قریب تھا اور تجھے اس کا احساس تک نہ ہو سکا اور اسے دست سوال دراز کرنا پڑ گیا۔ سیلانی کے دروازے سے باہر نکل رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بحیثیت امت مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی امت ہے۔
یہاں کوئی بل گیٹس طرح خیرات نہیں کرتا کہ اس کے اپنے حصص قائم رہیں اور منافع خیرات کر دے۔ کارپوریٹ ویلفیئر سسٹم نہیں ہے یہ۔ لیکن شاید ہمیں عادت ہو چکی ہے مرعوب ہونے کی‘ ہمیں اپنی خوبیوں پر فخر کرنا ہی نہیں آیا۔ میں دنیا کے کسی بڑے ڈونر کو بشیر فاروق قادری کی طرح چوبیس گھنٹے محتاجوں‘ غریبوں اور ناداروں کے درمیان نہیں دیکھا۔ ہمارا طرز زندگی بھی مختلف ہے اور طرز امداد بھی۔ ہم طلب دنیا اور ناموری کے لیے نہیں اللہ کی رضا کے لیے خیرات کرتے ہیں۔ ہماری فیس بک نہیں جو ہماری امداد ہماری شخصیت کا قد بلند کرتی پھرے۔
اسلامی بینک-حیلہ بینک
اوریا مقبول جان پير 30 نومبر 2015
بنی اسرائیل ایک ایسی قوم ہے جس پر اللہ نے بار بار ذلت و مسکنت مسلط کی اور بار بار اپنے عذاب کا مزا چکھایا۔ قرآن پاک کے ایک چوتھائی حصے سے بھی زیادہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کی حیلہ سازیوں‘ مکرو فریب‘ دجل و مکاری اور احکامات الٰہی کے انکار کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں علماء یہود کے قصور اس قدر گھناؤنے تھے کہ اللہ کو ان پر لعنت بھیجنا پڑی۔ فرمایا: جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں۔ حالانکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو اللہ بھی ان پر لعنت بھیجتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھتیجے ہیں۔ (البقرہ160)
یہ لوگ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے تھے اور دوسرے حصے سے دنیاوی مفادات کی بنیاد پر انکار کرتے تھے‘ فرمایا: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے‘ ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ (البقرہ 85) یہودیوں پر ایک عذاب ایسا بھی آیا کہ وہ بندر بنا دیے گئے۔ یہ عذاب اس وجہ سے آیا کہ انھیں ہفتے کے دن شرعی حیلہ کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن وہ حیلے تراشتے اور طرح طرح کے طریقے ڈھونڈتے تا کہ اللہ کے اس حکم کا نکار بھی ہو جائے اور شرعی طور پر ان پر کوئی حرف نہ آئے۔ ہفتے کو دریا میں مچھلی پکڑنے پر ممانعت تھی۔
یہود نے بڑے بڑے تالاب بنائے تھے جن کی طرف پانی کا رخ موڑ دیتے۔ وہاں مچھلی آ کر پھنس جاتی اور یوں وہ اسے اگلے دن پکڑے لیتے اور باقی اضافی مچھلی کا شکار بھی ہوتا رہتا۔ ’’پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے ہفتے کے دن کاروبار نہ کرنے کا قانون توڑا ہم نے انھیں کہہ دیا کہ ہو جاؤ بندر اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر پھٹکار پڑے‘‘۔ (البقر 66) حیلہ سازی و بہانہ بازی اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالنا علمائے یہود کا خاصا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنی امت کے بارے میں ایسے ہی ایک خطرے سے آگاہ فرمایا ’’تم پہلی امتوں کی اسی طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتاہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سورا خ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔ ہم لوگوں نے عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ کیا یہود و انصاریٰ کی پیروی کریں گے‘ آپؐ نے فرمایا کہ اور کون ہو سکتا ہے۔ (متفق علیہ)۔ یہی ہماری روش ہے کہ ہمارے بعض علماء بھی ویسے ہی حیلہ سازی کے ذریعے اللہ کے احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے آئین میں سود کو ختم کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے اس کے صدر ممنون حسین کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کہتے ہیں کہ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے راستہ نکالیں۔ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے حکومت کے زیر انتظام دیے جاتے ہیں اور صدر محترم اپنے ماتحت محکمے کو سود سے منع نہیں کر سکتے لیکن علماء سے کہتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالیں۔ یعنی حکومت تو یہ حرام کھاتی رہے گی، آپ دینے والوں کی تسلی کے لیے کوئی راستہ نکالو۔ یہ توقع علماء سے کیوں لگائی گئی۔ اس لیے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے کچھ علماء نے ایک ایسے بینکاری نظام کو حیلوں کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جس کی ساری کی ساری اساس ہی سودی نظام پر ہے۔ جب سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے مورخہ 23 دسمبر 1999ء میں بینکاری سود کو حرام قرار دیا تو اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ فوری طور پر جو پالیسی ترتیب دی گئی اس کے اہم ستون یہ تھے۔ 1- عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازعہ رکھا جائے تا کہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔2 – حکومت عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرے کہ اسلام نے تو اصل میں رباء کو حرام قراردیا جب کہ بینکاری سود تو رباء ہے ہی نہیں۔ -3 موجودہ جدید بینکاری کی طرز پر ایک اسلامی بینکاری نظام قائم کیا جائے جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائز مقرر کیے جائیں۔
یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکاؤنٹ کھولیں یا عام بینکاری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دستیاب ہو۔ اس وقت 22 اسلامی بینک بیک وقت یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان بینکوں میں بیٹھے شریعہ ایڈوائزر اور مفتیان کرام خاموش ہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا شریعہ ایڈوائزی بورڈ بھی خاموش ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر کا گوشت بھی بک رہا ہو اور آپ کہیں کہ میں تو اس بات کی تنخواہ لیتا ہوں کہ یہاں بکری کا گوشت خالص ہے یا نہیں۔ اگر اسلامی بینکاری واقعی حلال ہے تو مروجہ بینکاری کو بند کیوں نہیں کرتے۔ سب کچھ تو ویسا ہی ہے‘ عمارت‘ چیک بک‘ اے ٹی ایم کارڈ‘ قرضہ اسکیمیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے ہی تو حیلہ سازی سے انھیں قائم رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک شرعی حیلہ بیان کر دوں۔ اجارہ سکوک‘ یہ ایک طرح کے بانڈ کی قسم ہے۔ مثلاً واپڈا اگر ایک ڈیم بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈائریکٹروں کی ایک کمپنی بنائے گا جسے SPV یعنی Siecial Purpose Vehicle کہتے ہیں۔
یہ کمپنی اس ڈیم کی عالمی کنسلٹیسٹ سے قیمت لگوائے گی جسے Valuation کہتے ہیں۔ یہ قیمت اسلامی بینک اجارہ سکوک کی انوسٹمنٹ کے ذریعے ادا کر دیں گے جس سے وہ ڈیم بنے گا۔ اب یہ کمپنی جو اسی ادارہ کے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہو گی‘ ڈیم کو واپڈا کو استعمال کرنے کے لیے دے گی۔ اب واپڈا سے جو رقم کمپنی حاصل کرے گی اسے سود نہیں کرایہ کہا جائے گا۔ اس پر سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر صبح اس ڈیم کا کرایہ سودی بینکوں کے سود کی شرح ناپنے کے نظام KIBOR یا LIBOR کے ذریعے ادا ہو گا۔ یعنی جس دن شرح کم اس دن کرایہ کم اور جس دن شرح زیادہ اس دن کا کرایہ زیادہ۔ کیا خوبصورت نفع اور نقصان کی حصہ داری نکالی ہے۔ کیا کسی عالم دین نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہے اور ہر روز اس کا کرایہ KIBOR یا LIBOR کے ریٹ دیکھ کر وصول کرتا ہو۔ پوری کی پوری اسلامی بینکاری حیلہ سازی پر مبنی ہے جسے اسلامی بینکاری تو نہیں حیلہ بینکاری کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس حیلے کے بعد جو سب سے بڑا فریب اب ہونے جا رہا ہے وہ ایسا ہے جو پورے کے پورے اسلامی بینکاری کے نظام کو سودی مال سے تر کر دے گا اور اس کی منظوری اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ نے دے دی ہے۔ شاہد حسن صدیقی صاحب نے اس خطرناک فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ دن پہلے تحریر کیا تھا ’’اسٹیٹ بینک اسلامی بینکوں سے سکوک کی مدت ختم ہونے کے قریب انھیں خرید کر مارکیٹ سے اربوں روپے وصول کرتا ہے پھر یہ رقم اوپن مارکیٹ میں سودی بینکوں کو فراہم کر دی جاتی ہے:‘‘ اسٹیٹ بینک اسے بیع مؤجل کہتا ہے۔ اس طرح کھاتے دار جو رقوم اسلامی بینکوں میں پہنچاتے ہیں وہ خود بخود سودی بینکوں میں پہنچ جاتی ہے اور اس کی سود کی آمدنی سے جو منافع اسلامی بینک حاصل کرتے ہیں اسے خالصتاً اسلامی کہہ کر کھاتے داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اب تو خنزیر اور بکری کا گوشت بھی ایک کر دیا گیا ہے۔ حرام و حلال ایک جگہ ایسے گڈ مڈ کر دیے کہ پہچاننا مشکل ہے لیکن میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ جس میں ہر مسلک کے علماء شامل ہیں اس نے اس کی منظوری دے دی اور پوری امت کے علماء اس پر چپ ہیں‘ خاموش ہیں‘ مہر بہ لب ہیں۔
شاید انھیں اس بات کی سنگینی کا احساس نہیں یا پھر انھوں نے سورہ بقرہ کی ان آیات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ مکمل انکار کرنے والوں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے منکروں کا معاملہ تو اللہ روز قیامت پر چھوڑتا ہے لیکن جو اسے مانتے ہیں اور پھر حیلہ سازی‘ مکرو فریب‘ دجل و ریا کاری اور منافقت کے ذریعے اس کے احکامات میں دنیا داری کی گنجائش نکالتے ہیں تو ان پر آنے والے درد ناک عذابوں سے قرآن کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ شاید ہم کسی بڑے عذاب کو آواز دے رہے ہیں۔ جو اللہ ایک شدت والے زلزلے سے ہمیں خوفزدہ کر سکتا ہے، وہ زمین کو مزید جنبش بھی دے سکتا ہے تا کہ ہم عبرت کے نشان بنا دیے جائیں۔
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
اوریا مقبول جان جمعـء 27 نومبر 2015
وہ جو گزشتہ ایک صدی سے اس بات پر دلائل کے انبار اکٹھا کیے کرتے تھے، جن کے قلم ہر وقت دو قومی نظریے کو باطل ثابت کرنے میں مصروف رہے، جو گفتگو کرتے ہوئے طعن و طنز کے تیر مسلمانوں بلکہ مسلم تشخص کے علمبرداروں کی جانب برساتے اور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اصل میں نفرت کا بیج تو تم بوتے ہو، ورنہ دو قومی نظریے کی تو کوئی اساس ہی نہیں۔ یہ ایک غیر فطری تقسیم ہے جو انگریز نے اپنے مفادات کے لیے کی، لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول کو نافذ کیا۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے قوموں کی تخلیق پر یقین رکھنے والے آج صرف نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد کس طرح گنگ ہیں، ایسے خاموش ہیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، یوں لگتا ہے ذہن ہی نہیں جسم بھی سن ہو چکے ہیں۔
جرأت ِ اظہار اور آزادیٔ افکار کے علمبردار کس قبرستان میں جا کر دفن ہو گئے ہیں۔ اب کوئی بولتا کیوں نہیں کہ یہ ہندو مسلم کی تقسیم جو علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد سے پیدا ہوئی اور قائدِاعظم نے جسے ایک ملک کی تخلیق کے ذریعے تاریخ بنا دیا یہ سب مصنوعی، جعلی اور باطل ہے۔ دو قومی نظریہ نام کی کوئی چڑیا وجود نہیں رکھتی۔ سب پنجابی، بنگالی، سندھی، گجراتی، مراٹھی اور دیگر قومیں ہیں جو صدیوں سے ایک ہندوستان میں رہ رہی ہیں۔ ان کی ثقافت ایک، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، گیت غزلیں، شادی بیاہ، سب ایک ہیں۔ ناک نقشے ایک ہیں، زبان ایک جیسی ہے، یہ بھلا دو قومیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی تخلیق جیسی حقیقت کے باوجود اور دس لاکھ شہداء کے خون کی لکیر کے باوصف یہ لوگ گزشتہ 67 سال سے یہی کہتے چلے آئے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر یہ تقسیم غلط ہے۔ انھیں خوب اندازہ تھا کہ مسلمانوں کا جینا متحدہ ہندوستان میں کس قدر دو بھر ہو گیا تھا کہ انھوں نے علیحدہ وطن کے مطالبے پر لبیک کہہ دیا۔
ان لوگوں نے برِصغیر کی تاریخ کا بھی خوب مطالعہ کیا تھا اور وہ ہندو مذہب کے اساتیر سے بھی واقف تھے۔ انھیں خوب اندازہ تھا کہ جس مذہب میں شودر اور برہمن ایک ساتھ نہیں رہ سکتے وہاں مسلمان اور ہندو کیسے ایک قوم کہلا سکتے تھے۔ انھیں اس تعصب کا بھی بخوبی اندازہ تھا جس کا شکار اس وقت پورے ہندوستان میں مسلمان ہو رہے تھے۔ کیا انھوں نے ریلوے اسٹیشن پر “ہندو پانی” اور “مسلم پانی” کی الگ الگ صدائیں نہیں سنی تھیں۔ دفتروں، کھیتوں، کھلیانوں، گھروں اور آبادیوں میں انگریز کی سرپرستی میں جو سلوک ہندو مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے، ان کو یا ان کے اکابرین کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن پاکستان کے حقیقت بن جانے کے باوجود ان کی انا اسے تسلیم کرنے سے روکتی رہی۔ ان کے دلوں کا بغض و کدورت اس بات کی امید لگائے بیٹھا رہا کہ کب یہ نوزائیدہ ملک اپنی حیات کے دن پورے کرتا ہے اور ہم کلکتہ سے پشاور تک دوبارہ ایک ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں خرابیاں ہوتی ہیں، آمریتیں برسرِاقتدار آتی ہیں، لوگ مفلوک الحال ہوتے ہیں، ایک خطے کے لوگ زیادہ خوشحال اور دوسرے خطے کے لوگ بدحال ہوتے ہیں لیکن اس بنیاد پر کبھی ملک کی سالمیت اور بقا پر سوال نہیں اٹھایا گیا۔
افغانستان میں اس کی تخلیق یعنی احمد شاہ ابدالی کے زمانے سے لے کر اب تک بدترین آمریتیں چھائی رہیں، عدالتوں کا کوئی نظام رائج نہ تھا۔ انصاف اور امن کا تھوڑا بہت تصور صرف طالبان کے پانچ سالہ دور میں نظر آتا ہے ورنہ خانہ جنگی، غربت و افلاس اور بدترین شہنشاہیت۔ کابل کا شہر پورے افغانستان کے بدحال اور غربت زدہ معاشرے سے بالکل مختلف تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی کسی شخص نے وہاں یہ نعرہ بلند نہیں کیا کہ افغانستان ٹوٹ جائے گا۔ اس کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔ یہ پشتونوں، ازبکوں، تاجکوں، ترکوں اور دیگر قومیتوں کا ملک ہے اور ہر قومیت کے اپنے اپنے زخم ہیں۔ یہ سب علیحدگی مانگتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا اور آج تک 25 سالہ جنگ کے باوجود بھی کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔ روس حملہ آور ہوا ہو یا امریکا تمام لوگوں نے بلکہ تمام قومیتوں نے مل کر ان دونوں طاقتوں کو مشترکہ دشمن سمجھا اور لڑائی کی۔ کسی نے اپنی نفرتوں کو بیرونی حملہ آوروں کی آڑ نہ بننے دیا۔
لیکن پاکستان کی تاریخ وہ بدقسمت تاریخ ہے کہ جس کی تخلیق کے ساتھ ہی اس ملک کے عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص زاویۂِ نظر والے سیاستدانوں نے اس خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ یہ ملک جلد ٹوٹ جائے گا۔ پہلے چوبیس سال انھوں نے اس پراپیگنڈہ میں لگائے کہ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کا استحصال کر رہا ہے۔ اس وقت کسی کو پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی یا د نہ آئے، کیونکہ ایک نعرہ بلند کر کے لوگوں کو اس پاکستان سے متنفر کرنا تھا۔ اس کے لیے بنگالی قوم کو تختۂ مشق بنایا گیا۔ پراپیگنڈے کا طوفان، الیکشنوں کا شور، آمریت کے ڈونگرے یہ سب تھے، ہر کوئی اپنی مطلب براری کے لیے اس ملک اور اس کے عوام کو تختہء مشق بنا رہا تھا۔ اس سب کے باوجود اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ نہ کرتا تو میرے ان عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص زاویۂ نظر رکھنے والے سیاستدانوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔ بنگلہ دیش بن گیا لیکن اس کی قیمت معصوم بنگالیوں نے کس طرح ادا کی وہ انتہائی دردناک ہے۔ انھیں کہا گیا کہ تمہارا استحصال ہو رہا ہے۔ وہ آزاد ہو گئے لیکن آزادی کے بعد ان پر کیا بیتی یہ ایک تکلیف دہ باب ہے۔
1971ء سے پہلے کوئی ایک بنگالی بھارت میں چھوٹی موٹی ملازمت کرنے گھر سے بے گھر نہیں ہوا تھا۔ آج تقریباً ایک کروڑ بنگلہ دیشی بھارت میں مزدوری کر کے رزق کما رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر باڑ لگی ہوئی ہے۔ اسے عبور کرنے کی کوشش پر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بنگلہ دیشی بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے۔ 1971ء سے پہلے ایک بنگالی عورت دنیا کے بازاروں میں ایسے نہیں بکی تھی کہ ان کی منڈیاں لگی ہوں۔ اس وقت دنیا بھر میں دس لاکھ بنگلہ دیشی عورتیں دنیا کے بازاروں میں بیچی جا چکی ہیں۔ کلکتہ کے بازارِ حسن میں ستر فیصد عورتیں بنگلہ دیشی ہیں۔ نوے کی دہائی تک دنیا کی مارکیٹ میں بنگلہ دیشی عورت کی قیمت 25 ہزار روپے سے زیادہ نہ تھی۔ 1971ء سے پہلے مغربی پاکستان میں خانساماؤں کی اتنی بڑی تعداد مشرقی پاکستان سے یہاں نہیں آتی تھی، حالانکہ یہ ملک بھی ایک تھا۔ اس وقت تقریباً بیس لاکھ کے قریب بنگلہ دیشی بلوچستان کے بے آب و گیاہ علاقوں سے لے کر گلگت بلتستان کی پہاڑیوں تک سب جگہ رزق کی تلاش میں دربدر ہیں۔ کراچی میں موجود بنگالی تو اپنے محبوب وطن واپس نہیں جانا چاہتے، سو طرح کے حیلوں بہانوں سے پاکستان کے شناختی کارڈ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بنگالیوں نے ایک بنگلہ قوم اور زبان کے نعرے پر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی لیکن دو قومی نظریہ پھر زندہ ہوا۔ کہا تم مسلمان ہو، ملیچھ مسلمان، اپنا الگ ملک بناؤ، کلکتہ کے بنگالیوں کے ہم پلہ ہونے کے خواب کبھی نہ دیکھنا۔ لیکن میرے ملک کے ان عظیم دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور مخصوص سیاست دانوں کا تعصب، بغض اور نفرت ختم نہیں ہوتی۔ یہ آج بھی بنگلہ دیش کے فاریکس ریزرو کی بات کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا کھاتے ہیں، یہاں کے عوام سے عزت و توقیر حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بچے یہاں عزت سے زندگی گزارتے ہیں لیکن ایک ایسی جنگ میں تمغے اور ایوارڈ حاصل کرتے ہیں جو بھارت نے 1971ء میں جیتی تھی۔ کیا کبھی کسی جرمن نے برطانیہ سے ایوارڈ حاصل کیا جس نے ان کی فوج کو شکست دی تھی۔ جرمن قوم پر بھی ہٹلر جیسا ڈکٹیٹر صفت جمہوری طور پر منتخب حکمران مسلط تھا لیکن پوری جرمن قوم میں سے کوئی ایک ایسا غدار صفت شخص پیدا نہ ہو سکا جو برطانیہ سے اس بنیاد پر ایوارڈ وصول کرتا کہ اس نے جرمنوں کو ہٹلر سے نجات دلوائی تھی۔
یہ وہ طبقہ ہے جو گزشتہ 67 سال سے پاکستان اور بھارت کی اس سرحد پر دیے روشن کرتا ہے جس پر دس لاکھ مسلمانوں کے لہو کی لکیر کھینچی گئی تھی۔ یہ پھولوں کے ہار لے کر وہاں جاتا رہا ہے۔ وہاں سے آنے والوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالتا رہا ہے اور کہتا رہا ہے یہ لکیر تو ہم نے غلط کھینچی تھی۔ 67 سال ان کی نفرت کا نشانہ وہ لوگ بنے جو اسلام کی بنیاد پر قومیت کی بات کرتے تھے۔ جو آج بھی مسلمانوں کی شناخت کی بات کرتے ہیں۔ یہ انھیں فرسودہ، بے کار، دقیانوسی اور متعصب گردانتے ہیں۔ یہ کہتے تھے کہ بھارت تو امن چاہتا ہے وہ تو سیکولر اخلاقیات کی بنیاد پر سب سے برابری کا سلوک کرتا ہے لیکن پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگ نفرت پھیلاتے ہیں۔ لیکن تاریخ شاید ایک بار خود کو دہرا رہی ہے۔
نریندر مودی نے وہ کام کر دکھایا ہے جو برِصغیر کے مسلمان گزشتہ 67 سال سے نہ کر سکے۔ اس نے دو قومی نظریے کوایک بار پھر زندہ کر دیا، اس میں نئی روح پھونک دی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ مسلمان بنگالی، مراٹھی، گجراتی، اردو یا ہندی بولے وہ صرف اور صرف مسلمان ہے، قابلِ نفرت ہے، واجب القتل ہے۔ وہ شاہ رخ کی طرح گھر میں پوجا کا استھان بنائے یا عامر خان کی طرح سیکولر ازم کے پرچار کے لیے “پی کے” جیسی فلم بنائے۔ مسلمان ہے تو پھر ہم میں سے نہیں۔ وہی تصور جو 1947ء میں ہم نے دیا تھا اور تجربے کی بنیاد پر قائدِ اعظم نے کہا تھا کہ ہندو ناقابلِ اصلاح قوم ہے۔ آج اسے نریندر مودی نے سچ ثابت کر دیا۔ آج بھارت کی یاترا کرنے والے ادیب ہوں یا بنگلہ دیش سے بھارتی فتح کی یاد میں ایوارڈ لینے والے دانشور، سب مسلمان ہیں سب قابلِ نفرت، لیکن لگتا ہے ان سب کو سانپ سونگھ چکا ہے، ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہ بولتے نہیں۔ ان کی 67 سال کی محنت پر صرف چند دنوں میں نریندر مودی نے پانی پھیر دیا۔ بولو، لکھو، کچھ منہ سے پھوٹو
جون ایلیا نے کہا تھا
تم مرا ساتھ کیوں نہیں دیتے
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
اگر ریحام خان صرف اینکر رہتی
اوریا مقبول جان پير 23 نومبر 2015
مونیکا لیونسکی کی یہ تقریر دنیا بھر کے میڈیا کی اخلاقیات پر اتنا بڑا سوال ہے جس کا جواب میڈیا سے وابستہ کسی فرد کے پاس نہیں ہے۔ مونیکا ہماری موجودہ تاریخ کا وہ ’’مہذب‘‘ چہرہ ہے جس پر بدنامی کی کالک عالمی سطح پر ملی گئی اور اس کالک کو ملنے کے جملہ حقوق صرف اور صرف امریکی میڈیا کے پاس تھے۔ یہ خاتون گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔ اس نے اپنی دس سالہ خاموشی چند ماہ قبل توڑی اور ایک پر ہجوم ہال میں گفتگو کی جس کا عنوان تھا ’’شرمندگی کی قیمت (The Price of Shame)۔ تقریر کا ایک ایک لفظ نپا تلا اور معنی خیز تھا جب کہ حسن بیان اس کا سترہ سالہ کرب اور اذیت کا آئینہ دار اور درد سے نکھرا ہوا۔ اس نے آغاز اس فقرے سے کیا کہ آپ ایک ایسی عورت کو دیکھ رہے ہو جو گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔کچھ عرصہ پہلے جب میں نے اپنی خاموشی توڑی تو ایک شخص مجھ سے متاثر ہو کر میرے قریب ہوا۔ مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ اس نے مجھے ایک دفعہ یہ محسوس کرانے کی کوشش کی میں ایک بائیس سالہ نوجوان لڑکی ہوں۔ اس رات مجھے یہ احساس ہوا کہ میں شاید دنیا کی وہ واحد عورت ہوں جو چالیس سال سے زیادہ عمر کی ہونے کے باوجود بھی بائیس سالہ زندگی کی طرف لوٹنا نہیں چاہتی۔
اس کے بعد مونیکا نے پورے ہال سے کہا کہ وہ شخص ہاتھ کھڑا کرے جس نے بائیس سال کی عمر میں کوئی غلطی نہ کی ہو۔ پورا ہال ساکت و جامد بیٹھا رہا۔ اس نے کہا میں نے بھی بائیس سال کی عمر میں ایک غلطی کی تھی کہ میں اپنے باس کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ لیکن میری طرح کسی کا باس امریکا کا صدر نہیں تھا۔ زندگی ہمیشہ آپ کو حیران کرتی ہے لیکن دو سال بعد 1998ء میں میرے اس معاشقے کی بنیاد پر مجھے ایک عام سی لڑکی کے بجائے دنیا بھر کی رسوا ترین عورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اطلاعات ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ملتی تھیں لیکن میری اس رسوائی کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور لوگ آج بھی سوشل میڈیا، ای میلز اور تقاریر میں میرا ذکر کرتے ہیں۔ تقریباً بیالیس ریپ گانے ایسے ہیں جن میں میرا نام ذلت و رسوائی کے لیے لیا گیا ہے۔ مجھے بہت کم لوگ جانتے اور بہت زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ دیکھنے والے جو میرے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں وہ ایک بری عورت کا ہے جسے وہ طرح طرح کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 1998ء میں میں نے اپنی عزت و وقار بلکہ سب کچھ کھو دیا۔ آئیں میں آپ کے سامنے ایک منظر پیش کرتی ہوں۔
ایک بغیر کھڑکیوں کے کمرہ جس میں خاص طور پر روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں مجھے میری ٹیلیفون پر کی جانے والی گفتگو کو سنوانے کے لیے بلایا گیا تھا جو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ میری اور صدر بل کلنٹن کی گفتگو۔ یہ بیس گھنٹوں پر مشتمل تھی جس میں جذبات بھی تھے اور محبت بھی تھی۔ میرے سر پر سارا لمحہ ایک تلوار لٹکتی رہی۔ کچھ عرصے بعد یہ گفتگو کانگریس کے ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی۔ لیکن ذلت و رسوائی کا آغاز اس وقت ہوا جب چند ہفتوں بعد یہ گفتگو ٹیلیویژن پر چلا دی گئی اور اس کے مخصوص حصے آن لائن بھی میسر ہو گئے۔ یہ رسوائی ناقابل برداشت تھی۔ رسوائی اور ذلت کا یہ سفر اب دنیا بھر میں بہت سے غلطی کرنے والوں کے لیے اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بارہ سال بعد میری ماں نے مجھے فون پر بتایا کہ کس طرح ٹیلر کلیمنٹ نامی اٹھارہ سالہ لڑکے نے جارج واشنگٹن پل سے کود کر خودکشی کر لی تھی کیونکہ اس کی ایک خفیہ ویڈیو کسی نے بنائی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ ٹیلر تو مر گیا۔ میں، میری ماں اور آپ اس کے ساتھ بھی ہوں گے لیکن اس کے گھر والوں پر ذلت و رسوائی کا جو پہاڑ ٹوٹا ہو گا وہ ناقابل برداشت ہے۔
آج اس دنیا میں بہت سارے ایسے والدین ہیں جو اپنی اولادوں کو میڈیا کی اس ذلت و رسوائی سے نہیں بچا پاتے۔ وہ ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا اور انھیں چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن میڈیا انھیں ذلت کا لباس پہناتا رہتا ہے۔ آج دن بدن نیٹ کے ذریعے لوگوں کو خوفزدہ اور شرمندہ کرنے کا دور ہے۔ صرف ایک سال یعنی 2012ء سے 2013ء کے درمیان لوگوں کی فون کی گفتگو وغیرہ سے ہراساں کرنے میں 87 فیصد اضافہ ہوا۔ بلکہ ہالینڈ کی تحقیقات کے مطابق عام وجوہات کے بجائے نیٹ یا سوشل میڈیا سے ذلت اور سراسمیگی کے بعد خودکشیاں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ آپ صرف ایک Chat سروس سے اندازہ لگائیں جو نوجوان استعمال کرتے ہیں۔ یہ گفتگو اور تصاویر تھوڑی دیر کے لیے محفوظ رکھتی جاتی ہیں‘ لیکن اچانک چوری ہو جاتی ہیں اور ایک لاکھ لوگوں کی ذاتی گفتگو مستقل طور پر سوشل میڈیا کے ذخیرے میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سب کی ایک قیمت ہے جو صرف وہ ادا کرتا ہے جو رسوا ہو رہا ہوتا ہے۔ رسوائی کے دوران آپ سے کوئی ہمدردی نہیں کرتا۔ ایسے میں آپ کو کسی اجنبی کی تسلی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن وہ میسر نہیں آتی۔ میں نے زندگی کے نازک ترین ایام ایسے گزارے ہیں جب ان الفاظ کو ترستی تھی جو میری غلطی پر مجھے معاف کر دینے والے ہوں۔ ہم آزادیٔ اظہار کے قائل ہیں لیکن کیا اس کی کوئی ذمے داری نہیں۔ کیا ہم ایسے شخص کے ساتھ ہمدردی اور تسلی کے لفظ میڈیا یا سوشل میڈیا پر نہیں بول سکتے جب وہ رسوا کیا جا رہا ہو۔
مونیکا لیونسکی کا معاشرہ‘ مغرب کا معاشرہ، ذمے دار میڈیا، جہاں ہتک عزت کا قانون اس قدر موثر مگر وہ کس قدر بے بس اور مجبور۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے کی ریحام خان ہو یا ایسی کوئی اور آپ اس کے ذاتی کرب اور دکھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا اس قدر ظالم، بے رحم اور جانبدار ہے کہ کسی دوسرے معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ریحام خان صرف اور صرف ایک اینکر پرسن رہتی اور عمران خان سے شادی نہ کرتی تو کس قدر عزت دار زندگی گزار رہی ہوتی۔کیا کبھی کوئی ٹی وی چینل اس کے پہلے خاوند کے گھر پہنچتا اور اس سے انٹرویو کرتا۔کرید کرید کر سوالات پوچھتا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ صرف ا ینکر ہوتی تو کیا کوئی ٹی وی چینل اس کی ڈانس والی ویڈیو اور مختصر لباس والی تصویریں دکھا کر تبصرے کرتا۔ اگر وہ ایک اینکر ہوتی، اس کی طلاق ہو جاتی تو کیا یہ خبر نہ ہوتی۔ لیکن شاید اس خبر کو کوئی بھی نشر نہ کرتا۔ اسے چھپایا جاتا، اسے ذاتی معاملہ سمجھا جاتا، کوئی یہ دعویٰ نہ کرتا کہ میں کسی قیمت پر خبر نہیں چھپا سکتا کیونکہ خبر بہت اہم ہوتی۔ کہا جاتا ہے سیاست دان عوامی شخصیات ہیں اس لیے ان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں۔کیا ہمارے اینکر اور کالم نگار عوامی شخصیات نہیں۔ ان کو سننے اور دیکھنے کے لیے لوگ ہزاروں سیاست دانوں سے زیادہ جمع ہوتے ہیں۔
یہ روزانہ لاکھوں لوگوں کے ذہن بدلتے ہیں، ان کی رائے بناتے ہیں۔ یہ عوامی شخصیات کیوں نہیں، ان کی ذاتی زندگی اور کردار کیوں لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ یہی سوال جو مونیکا لیونسکی نے کیا تھا۔کیا کسی اینکر، کالم کالم نگار یا صحافی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔ کیا ان سب کی ذاتی زندگی میں کہیں کوئی طوفان نہیں آیا، کیا ان کے معاشقے لوگوں کو دکھا کر انھیں ان کی اولادوں اور گھر والوں کے سامنے شرمندہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم سب میڈیا والوں کو رسوا کرنے کے لیے کسی اور گھر اور جھانکنے کے لیے کسی اور کا گریبان چاہیے۔ روزانہ ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر غلط انگریزی اور بے سروپا اردو بولنے والے بڑے بڑے نیوز اینکر، اینکرز اور رپورٹر نظر نہیں آتے۔ لیکن ہم تمسخر اڑانے کے لیے اداکارہ میرا کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر ہمارا دھندا چلنے لگتا ہے۔ صحافت میں یہ روش ٹیلی ویژن چینلز کے آنے کی وجہ سے عام نہیں ہوئی۔ یہ مدتوں سے چلی آ رہی ہے۔ آپ چھوٹے شہروں کے محدود اخبارات اور ہفت روزوں اور بڑے اخبارات کے نمایندوں کے بارے میں سوال کر کے دیکھیں، ہر کوئی ان سے خوفزدہ اور پریشان نظر آئے گا۔ اکثر چھوٹے جرائد جو بہت محدود تعداد میں چھپتے ہیں ان کا مقصد ہی رنگینی، سکینڈلزکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا ان سب کے بارے میں اخبارات کے ایڈیٹر، میڈیا کے کرتا دھرتا اور ٹیلی ویژن چینل پر چمکتے دمکتے اینکر نہیں جانتے۔ یہ سب جانتے ہیں۔
1980ء میں جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا تو ایک دن طلبہ کو لے کر مچھ جیل دکھانے گیا۔ وہاں پھانسی کی کوٹھریوں میں ایک بہت موٹا سا شخص پھانسی کی سزا کا منتظر تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک صحافی کو قتل کیا ہے۔ میرے ساتھ طلبہ اس سے طرح طرح کے سوال کر رہے تھے۔ ہر کسی کو پڑھا لکھا ہونے کے ناطے صحافی سے ہمدردی تھی۔ وہ جواب میں یہی کہتا رہا بس غلطی ہو گئی۔ پھر ایک دم پھٹ پڑا اور تیز تیز بولنے لگا۔ آپ کی بہن کے بارے میں کوئی ایک خبر بار بار لگائے، آپ اس کی صوبے سے باہر شادی کر دیں تاکہ وہ چین سے زندگی گزار سکے۔ کوئی وہ اخبار بھی اس کے سسرال پہنچا دے، وہ طلاق لے کر گھر آ بیٹھے اور خبر لگانے والا چائے خانے میں بیٹھ کر اسے اپنی فتح قرار دے تو آپ اس چھوٹے سے شہر کوئٹہ جس کی آبادی ایک لاکھ ہے جہاں آپ کی رسوائی کو سب جانتے ہیں تو ایسے میں آپ کیا کریں گے۔ طلبہ چپ رہے۔ وہ بولا آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ خودکشی کرتے ہیں اور میرے جیسے جاہل قتل کر کے پھانسی پر جھول جاتے ہیں۔ انجام دونوں صورت میں موت ہے اور وجہ صرف ایک ہے کہ صحافت میں کچھ لوگ خبر کو انسانوں کی عزت، توقیر اور احترام سے زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔
یورپ‘ عالمی جرائم اور دہشت گردوں کی جنت
اوریا مقبول جان جمعـء 20 نومبر 2015
پندرہ سال کے کشت و خون اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر کس قدر ڈھیلے منہ سے ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق میں فوج داخل کرنے پر میں معافی مانگتا ہوں۔ ہمیں غلط اطلاعات دی گئی تھیں۔
یہی کیفیت امریکی انتظامیہ کی ہے جس کا ہر بڑا کہتا پھرتا ہے کہ دنیا صدام حسین کے زمانے میں کس قدر پرامن تھی۔ اسامہ بن لادن کا کس قدر ہاتھ گیارہ ستمبر کے واقعات میں تھا‘ اس کے شواہد آج تک دنیا کے سامنے تو ایک طرف خود امریکی انتظامیہ اور امریکی نظام انصاف کے سامنے بھی پیش نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود افغانستان جیسے بے یار و مدد گار اور بے سروسامان ملک پر آگ اور خون کا عذاب مسلط کر دیا گیا۔ جس وقت گیارہ ستمبر ہوا تھا تو پوری دنیا کے میڈیا پر گفتگو کرنے والے عالی دماغ تجزیہ نگار اور دانشور اور اخباروں میں حالات و واقعات کا جائزہ لینے والے صحافی صرف ایک جانب انگلیاں اٹھاتے تھے اور وہ افغانستان تھا۔
کہتے تھے کہ یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں۔ اس ملک کو تہس نہس کر دو۔ حالانکہ گیارہ ستمبر میں شریک لوگوں میں سے کسی ایک کا تعلق بھی افغانستان سے نہیں تھا۔ آج پندرہ سال بعد بھی نہ تجزیہ نگاروں کے تجربے میں فرق آیا ہے اور نہ ہی تبصرہ نگاروں کے تبصرے میں۔ مغرب کے حکمرانوں کی منطق بھی وہی ہے کہ یہ سب تو شام اور عراق میں جنم لینے والی دولت اسلامیہ کی وجہ سے ہے اور اگر اسے تباہ و برباد کر دیا جائے تو یورپ اور امریکا امن و سکون کی دوبارہ زندگی بسر کرنا شروع کر دیں گے اور ان کے سروں سے خوف کے سائے ہٹ جائیں گے۔ کیا حیران کن منطق ہے۔
ایک جانب ٹونی بلیئر‘ امریکی اعلیٰ حکام یہ اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ رہے ہیں کہ اگر ہم عراق پر حملہ نہ کرتے تو آج داعش وجود میں نہ آتی۔ دنیا جہاں کے مبصرین عرصہ عرب بہار سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لیبیا‘ مراکش‘ تیونس‘ یمن اور شام میں سکون تھا۔ باقی ممالک تو پھر سنبھل گئے لیکن جہاں عالمی طاقتیں حملہ آور ہوئیں وہ ملک ایک زرخیز زمین بن گئے جہاں یہ افراد بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے میدان جنگ میں کود گئے۔ اس کی مثال عراق‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان ہیں۔
لیکن اس ساری ’’دہشت گردی‘‘ کا تارپود تو پورے یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ جب یورپ کے 23 ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ داعش کے ساتھ لڑنے جا رہے تھے تو وہ اس تصور سے بخوبی آشنا تھے کہ انھوں نے وہاں امریکا اور یورپ کی اتحادی بلکہ ٹوڈی عراق اور شام کی حکومتوں سے لڑنا ہے۔ یہ سب کے سب یورپی یونین ممالک اور برطانیہ کے شہری تھے۔ یورپ میں کونسا مدرسہ تھا جو انھیں جہاد کا درس دیتا تھا۔ کیا وہاں بھی کوئی شمالی وزیرستان تھا جہاں ان کے ٹریننگ کیمپ کھلے ہوئے تھے۔ کیا یورپ کے ممالک میں کالعدم تنظیمیں تھیں جو ان لوگوں کو منظم کرتی تھیں۔
یہ سب تو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے نوجوان تھے جنھیں سیکولر نظام تعلیم نے مذہب سے نفرت کی لوریاں سنائیں تھیں۔ یہ سب ایسے یورپ کے ممالک میں نکل کر عراق اور شام کی جانب گئے جیسے وہ دولت اسلامیہ کے قیام کا مدتوں سے انتظار کر رہے تھے۔ آج یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ یہ وہاں سے جہادی جذبے کے ساتھ دہشت گردی کی تربیت لے کر آئے ہیں لیکن فرانس میں پیرس کے حملے سے پہلے کہا جاتا تھا کہ یورپ سے گئے ہوئے مجاہدین داعش کو ساری ٹیکنالوجی سکھا رہے ہیں اور داعش کا طرز حکومت اور لڑائی کا اندازہ ان یورپی مجاہدین کی وجہ سے انتہائی بہتر طور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس پر فتح حاصل کرنا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔
پیرس حملے نے ایک ایسی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ جس کے تصور سے ہی یورپ کے تمام ممالک کانپ رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یورپ کے جہادی گروہوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک وجود میں آ چکا ہے اور اسے کسی بھی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ موجودہ پیرس حملہ بیلجیئم کے اندر موجود وہاں کے شہریوں کے ایک نیٹ ورک نے کیا اور اس کی تمام منصوبہ بندی فرانس کے شہریوں کی مدد سے ہوئی۔ بیلجیئم کی حکومت کے مطابق اس وقت 494 بیلجیئم کے شہریوں کا ایک گروہ ہے جو دہشت گردی کے لیے منظم ہے۔ ان میں سے 272 داعش کے ساتھ لڑنے گئے ہیں۔
134 واپس آ چکے ہیں۔ 75 کے بارے میں خبر ہے کہ وہ وہاں لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے جب کہ 13 نوجوان ایسے ہیں جو بیلجیئم سے شام کے لیے روانہ ہوئے لیکن وہاں پہنچے نہیں۔ پیرس کی پولیس موقع واردات پر موجود ایک گاڑی میں پائی جانے والی ٹریفک چالان کی رسید سے صرف پتہ کرنے کے لیے بیلجیئم پہنچی کیونکہ یہ چالان وہاں سے کٹا ہوا تھا‘ تو حیران رہ گئی۔ ان کے لیے یہ کس قدر حیران کن تھا کہ وہاں میڈ ان یورپ خود کش جیکٹوں سے لے کر بلقان کی ریاستوں سے صرف تین سو یورو میں کلاشنکوف مل جاتی ہے اور یہ تمام کے تمام یورپی جہادی اسلحہ چلانے اور فن سپہ گری اور گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔ انھیں یہ سب کسی مدرسہ نے نہیں سکھایا بلکہ انھوں نے انٹرنیٹ اور دیگر کتب سے خود یہ معلومات حاصل کیں۔
یہ سب کے سب ایک شخص خلیفہ ابراہیم کی ٹیم ہیں جس کے بارے میں ابھی تک صرف اتنی اطلاعات میسر ہیں کہ وہ یورپ کے کسی ملک کا پیدائشی شہری ہے۔ فرانس کا ادارہ Brigade of Resarch & investigation (BRI) ان تمام یورپی جہادیوں کے سوشل نیٹ ورک تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عبدالماجد الصبور اور ابو عمر المالکی جیسے چہرے ان کو نظر آتے ہیں جو ان کے یورپی کلچر میں پلے بڑھے ہیں۔ انھی کی زبان اور انھی کا محاورہ بولتے ہیں اور مسکراتے ہوئے مختلف سوشل میڈیا پر انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں، یہ کون ہیں، کہاں ہیں کیا کر رہے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں، ان سوالوں کا جواب ابھی تک یورپ کے کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔
لیکن وہ سب ان لوگوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ اس معاشرے میں اجنبی نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ وہ واقف ہیں کہ کہاں کیسے اور کس طرح حملہ کیا جاتا ہے، پولیس سے چھپا جاتا ہے اور کیسے ایک عام شہری کی طرح ہجوم میں گم ہوا جا سکتا ہے۔ تفتیش والے حیران ہیں کہ تمام گواہان کہتے ہیں کہ حملہ آور ایک مرسیڈیز کار میں سوار آئے اور مرسیڈیز کار کسی کیمرے میں نظر نہیں آ رہی۔ یعنی ان لوگوں کو کیمروں کے مقام کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا۔ فرانس کے حکام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس نیٹ ورک میں پانچ کے قریب نوجوان ہیں جو کسی بھی جگہ اور کبھی بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن تمام یورپی ممالک کو ملایا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ نہ یہ طالبان کی طرح پگڑیاں پہنے ہوئے ہیں اور نہ ہی داش کی طرح راکٹ لانچر کندھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ سب تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
یورپی لباس پہنتے ہیں، ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں، وہی زبان اور محاورہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مسلمان ملکوں سے ہجرت کر کے آنے والے بھی ہیں اور یورپ کے نو مسلم بھی۔ یہ سب سوچ سمجھ کر اس جانب آئے ہیں۔ وہ انتقام ہو یا کوئی اور جذبہ لیکن یہ سب یورپ کے ممالک کے حکمرانوں اور عوام سے ان کے مظالم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں۔ صرف پیرس واقعہ کو لے لیں، جہاں یہ بیلجیئم میں بنائے جانے والے منصوبے سے پردہ اٹھاتا ہے وہاں یہ بھی راز کھلتا ہے کہ وہ تین بھائی جو اس سارے حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے وہ الجزائر سے خاندانی تعلق رکھتے تھے۔ میں الجزائر کی کئی سو سال پرانی تاریخ میں نہیں جاتا، جب فرانس نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ صرف چند دہائیاں پہلے 1991ء میں جب الجزائر کے الیکشن کے دو مرحلوں پر اسلامک فرنٹ کو اکثریت حاصل ہو گئی تھی تو یقین تھا کہ تیسرے مرحلے میں جمہوری طور پر ایک اسلامی حکومت بن جائے گی۔
فرانسیسی افواج الجزائر میں داخل ہوئیں۔ جنگی جہازوں نے بمباری شروع کی اور لاکھوں انسانوں کا مقتل اس ملک کو بنا دیا گیا۔ دنیا کو نہ جمہوری طور پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت چاہیے اور نہ ہی اسلحے کے زور پر قائم ہونے والی دولت اسلامیہ تو پھر کیا چاہیے جو چاہیے وہ تو شاید نہ ملے لیکن اب یورپ کا مقدر اپنے ہی گھر میں لڑنا ہے۔ اب ملک تباہ کر کے معافی مانگنے کے زمانے گزر گئے۔ اب اپنے گھروں میں لگی آگ کو بجھاؤ، یورپ میں موجود نیٹ ورک سے نبرد آزما ہو جاؤ پھر دنیا کو طعنہ دینا کہ کہاں دہشت گردوں کی جنت ہے۔ پہلے اپنے ہاں کی دہشت گردوں کی جنت کا مزہ تو چکھ لو۔
پیرس نشانہ کیوں؟
اوریا مقبول جان پير 16 نومبر 2015
یہ وہ شہر ہے جس میں آج سے تقریباً ڈھائی سو سال قبل لاکھوں لوگ سڑکوں پر امڈ آئے تھے، یہ بھوکے ننگے اور غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ تھے۔ عوام کی طاقت سے بادشاہت کو گرانے کا مظاہرہ دنیا نے پہلی دفعہ اسی شہر میں وقوع پذیر ہوتے دیکھا تھا۔ یہ لوگ اپنی نفرت اور انتقام کی انتہا پر تھے۔ کارلائل ان لوگوں کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھتا ہے ’’محنت و مشقت کرنے والے عوام کی حالت مسلسل ابتر تھی، بدقسمت لوگ جن کی تعداد دو سے ڈھائی کروڑ کے درمیان تھی۔ ہم ان سب کو ایک دھندلی اکائی یا انسانوں کا ایک ڈھیر سمجھتے ہیں۔ اتنا بڑا ہجوم مگر کمزور لوگوں کا ہجوم، کم ذات اور کمینے، اچھے لفظوں میں انھیں عوام کہہ لو، بظاہر عوام نام کی ایک اکائی، سارے فرانس میں اپنے مٹی کے گھروندوں اور چھپروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہر گھر کے اپنے دکھ تھے، اپنے مسائل تھے، ان گھروں میں پائی جانے والی مخلوق اپنی ہڈیوں پر محض کھال اوڑھے ہوئے تھی… کھال بھی خستہ حال کہ چٹکی بھرو تو اس میں سے خون رسنے لگے‘‘۔
یہ 1789ء کا فرانس تھا جس کی تصویر کارلائل بیان کر رہا تھا۔ کئی سالوں سے فرانس کے یہ حالات تھے اور دن بدن ابتر ہو رہے تھے۔ وہ 1777ء سے ہنگامے اور بغاوتیں کر رہے تھے۔ اسی سال سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ فرانس میں گیارہ لاکھ بھکاری ہیں۔ لیکن دس بارہ سالوں میں یہ لوگ اسقدر بڑھے کہ لوگوں کا بازاروں میں چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ پھر ایک دن چودہ جولائی 1786ء میں عوام کا بپھرا ہوا ہجوم پیرس کی سڑکوں پر نکل آیا۔ انھوں نے سب سے بڑے جیل خانے بیسٹائل پر قبضہ کر لیا۔ وہ تمام قیدی جو بادشاہ کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں قید کیے گئے تھے رہا ہو گئے۔ 14 جولائی آج بھی فرانس کا قومی دن ہے۔ یہ آغاز تھا، انجام تو بہت ہی خون آشام تھا۔ جگہ جگہ عدالتیں لگی ہوئی تھیں۔ بپھرے ہوئے لوگ انسانوں کو روکتے، ان کے ہاتھ دیکھتے، اگر وہ نرم ہوتے اور ان پر محنت کے نشان نہ ہوتے تو انھیں قتل کر دیتے، ان کی قمیض کا کالر اور آستین دیکھتے، اگر ان پر میل نہ ہوتا تو گردن اڑا دیتے۔ بادشاہ کو جس طرح کھینچ کر اس بلند مقام پر لایا گیا جہاں ایک بہت بڑا چھرا اس کی گردن کاٹنے کا منتظر تھا، وہ عجیب منظر تھا۔ جب یہ سروں کی فصل کٹ رہی تھی تو کوئی آنکھ اشکبار نہ تھی۔ پورے فرانس میں جشن کا ایک سماں تھا۔ رقص گاہوں میں رقص جاری تھے اور شراب خانوں میں جام لنڈھائے جا رہے تھے۔
انقلاب فرانس کی تاریخ لکھنے والے ان تمام واقعات کو اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ وہ سب اسے عوام کا غصہ، غضب اور انتقام تصور کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ول ڈیورانٹ جیسا شخص انقلاب فرانس کے دوران اس طرح لوگوں کی گردنیں اڑانے کا ایک جواز تحریر کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب Heros of History میں لکھتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس سے زیادہ غربت و افلاس تھی بلکہ انگلینڈ کے لوگ تو پرانے چمڑوں کو ابال کر سوپ تیار کر کے زندگی گزارتے تھے لیکن وہ سب لوگ فرانس کے عوام کی طرح سڑکوں پر نہیں نکلے، انھوں نے امراء اور رؤساء کا قتل نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ انگلینڈ میں فرانس کے بادشاہوں کی طرح عوام کی غربت کا مذاق اڑانے والا کوئی نہ تھا۔ کسی ملکہ نے یہ الفاظ نہیں بولے تھے کہ ’’لوگوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘ یا پھر انگلینڈ میں فوج کے کسی سپہ سالار نے فرانس کے روہان کی طرح یہ فقرہ نہیں کہا تھا کہ لوگ بھوکے ہیں تو پورے فرانس میں اسقدر گھاس اگی ہوئی ہے، وہ کیوں نہیں کھاتے۔‘‘ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے پکڑا، اس کے منہ میں گھاس بھری اور پھر گردن کاٹ دی۔ حیرت کی بات ہے کہ لوگ بھوک اور افلاس برداشت کرتے رہتے ہیں لیکن اپنا تمسخر برداشت نہیں کرتے اور آتش فشاں کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قتل و غارت کی ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس میں کوئی پوچھتا تک نہیں کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں۔ بس جو شکل و صورت یا لباس سے سرمایہ دار امیر نظر آتا ہے اس کی گردن اڑا دی جاتی ہے۔
یہ انقلاب فرانس تھا جس کی کوکھ سے دو چیزوں نے جنم لیا۔ ایک سیکولرازم اور دوسرا نپولین۔ ان کے اپنے اپنے اہداف تھے، ایک سلطنت کو وسعت دینا چاہتا تھا اور وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان علاقوں پر چڑھ دوڑا اور سیکولرازم نے مذہب سے ایسی آزادی کو جنم دیا جس میں ہر اس تصور کا تمسخر اڑایا گیا جو مذہب سے وابستہ تھا۔ فرانسیسی ادب میں پادری اور نن کے حوالے سے جس قدر کہانیاں اور افسانے تراشے گئے وہ صرف اور صرف ان کی کردار کشی کے لیے تھے۔ لطیفوں کی ایک قطار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ فلموں میں چرچ کی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ‘یہاں تک فحش فلموں کے کرداروں میں بھی نن کو شامل کر کے رسوائی کا سامان مہیا کیا گیا۔ عیسائیت نے چونکہ صلیبی جنگوں کے بعد فرانس پر بذریعہ چرچ اپنا غلبہ قائم کیا تھا اور پادری وہاں کی سب سے بڑی طاقت تھے جو انسانوں کو مخالف نظریات کی بنیاد پر پکڑتے، فیصلہ صادر کرتے کہ ان میں شیاطین کی ارواح داخل ہو گئی ہیں۔ پھر ان کو اکٹھا کر کے آگ کے الاؤ میں جھونک دیا جاتا۔ فرانس کے سب سے بڑے سرمایہ دار اور جاگیردار پادری تھے کیونکہ انھوں نے صلیبی جنگوں کے نام پر عوام سے جو سرمایہ اکٹھا کیا تھا اسے اپنی جائیدادیں بنانے پر خرچ کیا۔ اسی لیے جب ان کے خلاف دو صدیاں نفرت اور تمسخر سے بھرا پراپیگنڈا کیا گیا تو کوئی ان کی ہمدردی میں نہ اٹھا۔ کسی نے ان کا ساتھ نہ دیا بلکہ وہ خود بھی خاموش ہو کر بیٹھے رہے۔
چرچ کی اس خاموشی کو سیکولرازم کے کرتا دھرتا لوگوں نے آزادیٔ اظہار کی فتح قرار دیا اور یہ گمان کر لیا کہ کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں کی محترم شخصیت کا اگر کبھی مذاق اڑایا گیا تو کم از کم فرانس یا پیرس میں ہمارا سامنا کوئی نہیں کرے گا۔ ہم آزادیٔ اظہار کے نام پر سب کچھ اور سب کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔ ادھر فرانس کے مفتوح افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے افراد یہاں آباد ہونا شروع ہوئے جن کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مراکش، الجزائر، مصر، شام، لبنان اور دیگر ملک۔ ان سب نے پیرس کے اس رنگارنگ ماحول کو اوڑھ لیا جس نے سیکولرازم کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ اس ماحول کو ارباب اقتدار فرانسیسی تہذیب اور ثقافت کہتے ہیں اور اس کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسے ہرحال میں قائم رکھا جائے گا بلکہ ان سیکولر اخلاقیات کو بزور نافذ کیا جائے گا۔ اس کا پہلا شکار وہ 92 عورتیں ہوئیں جو پیرس شہر میں نقاب اوڑھتی تھیں۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ فرانسیسی تہذیب و ثقافت پر حملہ ہے۔ ان 92 عورتوں کے مقابلے میں فرانس کی اسمبلی کے کئی سو ارکان اکٹھا ہوئے اور نقاب پر پابندی لگا دی۔ یہ کسی شخص کے ذاتی انتخاب لباس پر قدغن ہی نہیں بلکہ اس کا تمسخر اڑانا بھی تھا۔ اس کے بعد چارلی ہیبڈو نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے کارٹون شایع کیے۔
اس اخبار کو بخوبی علم تھا کہ فرانس میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ فرانس یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں اسلام اختیار کرنے والوں کی تعداد روزانہ تین سے چار افراد ہے جو اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کو یاد نہ تھا کہ لوگ غربت و افلاس اور بھوک اور بیماری برداشت کر لیتے ہیں لیکن تمسخر نہیں۔ 2015ء میں چارلی ہیبڈو کے کارکن قتل ہوئے۔ اسی پیرس شہر میں جہاں ڈھائی سو سال قبل انتقام سے بھر پور لوگوں نے اپنے تمسخر کا انتقام ہر قصور وار اور بے قصور سے بلا امتیاز لیا تھا۔ پورا یورپ وہاں اکٹھا ہو گیا۔ ان کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پیرس کی سڑکوں پر ایک ہجوم دوبارہ نکل آیا۔ لیکن اس دفعہ وہ تمسخر اڑانے والوں کی گردنیں کاٹنے کے حق میں نہیں تھا۔ بلکہ ان کے تحفظ اور ان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ اس ہجوم نے دنیا بھر کے دکھی اور رنجیدہ مسلمانوں کو ایک پیغام دیا کہ پیرس ہر اس شخص کا ساتھ دے گا جو تمہاری محبوب ترین شخصیت کا تمسخر اڑائے اور اگر وہ قتل کر دیا جائے تو وہ ہمارا ہیرو ہے۔ انتقام کی اپنی سرشت ہوتی ہے۔ الجزائر میں فرانسیسی افواج اتریں کہ وہاں اسلام پسند حکمران نہ بن جائیں، بلا امتیاز بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا۔ لیبیا کے پر امن ملک کو فضائی حملوں سے تباہ و برباد کر دیا گیا۔
عراق، بیروت، مصر اور شام میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہ سب کچھ روا رکھاگیا جو عام شہریوں کے قتل عام کا سبب تھا۔ جہاز کئی ہزار فٹ سے بم برساتے اور ان کے شور میں کسی کو معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی چیخیں تک سنائی نہ دیتیں۔ لوگ گھروں سے نکلے، ہجرت کرتے ہوئے سمندروں میں غرق ہوئے، دربدر خاک بسران لوگوں کی آنکھوں میں صرف ایک ہی آگ تھی جسے انتقام کی آگ کہا جاتا ہے جس شخص نے اپنے ہاتھوں اپنے پیاروں کو دفنایا ہو اسے اردگرد خوشیاں مناتے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ وہ ذاتی اور نسلی انتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔ وہ شام سے تعلق رکھتا ہے اور شام کا انتقام لیتا ہے۔ شام جس پر پورا مغرب اور روس سب ٹوٹ پڑے ہیں۔ لیکن فرانس کا شہر پیرس کیوں۔ اس لیے کہ یہی شہر تھا جہاں دنیا بھر کے حکمران تمسخر اڑانے والوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے جمع ہوئے تھے اور ول ڈیوڑنٹ کے نزدیک لوگ بھوک برداشت کر لیتے ہیں، تمسخر نہیں۔
خون خاکِ نشیناں
اوریا مقبول جان جمعـء 13 نومبر 2015
یہ وہ معصوم ہیں جن کی موت پر صرف ان کے ماں باپ یا بہن بھائی اور رشتے دار آنسو بہاتے ہیں۔ ان میں اکثر انھیں تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ چاپ ننھی سی قبریں کھود کر ان میں اپنے پیاروں کو دفن کر کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کوئی زیادہ تلخ ہو تو ڈاکٹروں کا گریبان تھام لیتا ہے۔ لیکن کسے خبر ہے کہ یہ آفت کے مارے کون ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے۔
ہر سال کتنے لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اگر اس ملک کے میڈیا میں تھوڑی سی حمیت اور شرم ہوتی اور اسے اس ملک کے مفلس و نادار لوگوں پر بیتنے والی قیامتوں کا ادراک ہوتا تو آج اس ملک کا ہر چینل اور ہر اخبار چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہوتا کہ ہمارے بچے مر رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔ ہمیں ان اموات کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ اے پی سی بلائی جائے، نیشنل پلان آف ایکشن ترتیب دیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اور فوج ایک صفحے پر آ جائیں۔ یہ قومی المیہ ہے۔
لیکن رکئیے! سوچیے! یہ ہمارا قومی المیہ نہیں ہے کہ صرف گزشتہ سال یعنی سال 2014ء میں ایک لاکھ چوالیس ہزار بچے صرف نمونیا اور اسہال کے مرض سے ہلاک ہوئے جن میں 91 ہزار بچے نمونیا سے اور 53 ہزار بچے اسہال کے مرض سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ یعنی روزانہ 395، ہر گھنٹے میں 33 اور ہر دو منٹ میں ایک بچہ صرف ان دو بیماریوں کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ نمونیا سے مرنے والے بچوں کی تعداد کے حساب سے ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں، بھارت پہلے نمبر پر ہے جہاں گزشتہ سال 1,74,000 بچے نمونیا سے ہلاک ہوئے۔
بھارت کی آبادی ہم سے چھ گنا زیادہ ہے، لیکن اموات صرف دوگنا زیادہ ہیں۔ اس لیے دراصل یہ تاج ہمارے ہی سروں پر سجنا چاہیے کہ ہم سب سے زیادہ اپنے بچوں کو موت کا ذائقہ چکھانے والے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت معاشرہ ہیں جو دنیا بھر کے پسماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ اپنے بچوں سے لاپروا اور ان پر ظلم کرنے والے ہیں۔ وہ ممالک جو قحط زدہ ہیں، غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ ہمارے مقابلے میں ایتھوپیا میں ہر سال 35ہزار، انگولا 26 ہزار، کینیا 18 ہزار، سوڈان 17 ہزار، یوگینڈا 16 ہزار، نائیجریا 15 ہزار، تنزانیہ 14 ہزاراور ہمارے پڑوسی ملک افغانستان جو گزشتہ تین دہائیوں سے حالتِ جنگ میں ہے، اس میں 20 ہزار بچے 2014ء میں نمونیا سے ہلاک ہوئے۔
دنیا کے تمام طبّی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کے نمونیا سے مرنے کی بنیادی وجہ قصبوں اور گاؤں کی سطح پر طبّی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دنیا کے جس ملک میں طبّی سہولیات فراہم کرنے میں ترجیح بڑے اسپتالوں کے بجائے قصبوں اور دیہاتوں تک اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو پہنچانے پر دی جائے گی، وہاں بچوں کی اموات کی شرح کو کم کیا جا سکے گا۔
بلکہ دیگر تمام بیماریوں کی بھی آسانی سے روک تھام ہو گی۔ پاکستان میں بچوں کی یہ اموات کسی بھی آفت، بیماری، دہشت گردی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لیکن چونکہ نہ ان اموات کے بارے میں گفتگو کرنے سے عالمی ایجنڈا پورا ہوتا ہے اور نہ ہی ان بچوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں ہمیں ووٹ ملتے ہیں اس لیے ان پر گفتگو کرنا نہ ہمارے میڈیا کا موضوع ہے اور نہ ہی ہمارے سیاستدانوں کا مشغلہ۔ ہم اپنی دھن میں مست ہیں۔
ہماری دھن کیا ہے۔ ہماری دھن وہی ہے جس سے ہماری مقبولیت میں اضافہ ہو اور ہم اس کے ذریعے سرمایہ کما سکیں۔ میڈیا اور سیاست دونوں ان مقاصد میں اکھٹے ہیں۔ میڈیا ایسے موضوعات چھیڑتا ہے جن سے ریٹنگ میں اضافہ ہو اور پھر اسے اشتہارات ملیں اور وہ مالامال ہو۔ سیاست دان ان ہتھکنڈوں کو اختیار کرتے ہیں جن سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو، وہ دوبارہ، سہ بارہ منتخب ہوں اور جس کے نتیجے میں ان کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں، وہ لکھ پتی سے کروڑ پتی اور پھر ارب پتی بنتے چلے جائیں۔
پاکستان کے میڈیا پر گزشتہ پندرہ سالوں میں جس بات پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی، جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا وہ دہشت گردی ہے۔ ان پندرہ سالوں میں دہشت گردی سے اندازاً پچاس ہزار لوگ لقمہء اجل بنے۔ جس کا مطلب ہے ہر سال تقریباً تین ہزار تین سو تینتیس افراد موت کی آغوش میں گئے۔ یہ نمونیا اور اسہال سے مرنے والے بچوں کا صرف 2 فیصد ہیں۔ یعنی اگر سال میں 2 لوگ دہشت گردی سے ہلاک ہوئے تو صرف نمونیا اور اسہال سے 98 بچے مارے گئے۔
میں یہاں دیگر بیماریوں سے مرنے والے بچوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ لیکن آپ گزشتہ پندرہ سالوں کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ان لاوارث اور بے یارومددگار بچوں کے مرنے اور اتنی تعداد میں مرنے کے بارے میں شاید ہی کوئی پروگرام مل سکے یا کسی عظیم کالم نگار کا کالم نظر آئے۔ جب کہ دہثت گردی کے بارے میں آپ کو ہر طرف خوف کے سائے پھیلاتے اور پوری دنیا کو متحد کرتے میڈیا کے عظیم جگادری نظر آئیں گے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک تقریبا ًپچاس لاکھ لوگ پوری دنیا خصوصاً مسلم دنیا میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ سب دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں مارے گئے۔
یعنی ان پندرہ سالوں میں دنیا بھر میں ہر سال تین لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا تا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس جنگ میں تقریباً دو ہزار ارب ڈالر جھونکے گئے تا کہ لوگوں کو دہشت گردی کی موت سے بچایا جا سکے۔ لیکن جب ہم اس گولہ و بارود کا کھیل کھیل رہے تھے تو دینا میں صرف نمونیا سے 94 لاکھ بچے ہر سال مر رہے تھے۔
یعنی ان پندرہ سالوں میں چودہ کروڑ بچے صرف نمونیا سے ہلاک ہو گئے اور ان اموات کو روکنے کے لیے نہ کوئی نیٹو آگے بڑھا اور نہ ہی کسی عالمی طاقت کے ضمیر کو دھچکا لگا۔ ہم بھی عالمی برادری کا حصہ ہیں، ان کے کاسہ لیس اور ذہنی غلام ہیں۔ ہم بھی اسی طرح بے حس، بے شرم اور لاپرواہ ہیں۔ ہم بھی اس عالمی برادری کا سودا بیچتے ہیں اور اپنے بچوں کو موت کی آغوش میں چپ چاپ جاتا دیکھتے چلے جاتے ہیں۔
ہماری بے حسی، لاپرواہی اور بے شرمی علاقائی بھی ہے۔ کیا کبھی کسی نے ٹھنڈے دل سے غور کیا ہے کہ جب اس ملک کے بڑے شہروں لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بچھائی جا رہی تھی تو اس کی تعمیر میں لگنے والی ایک ایک اینٹ، ایک ایک انسانی جان کی قیمت پر لگائی جا رہی تھی۔ ان دونوں عظیم منصوبوں میں لگائی جانے والی ایک اینٹ سے راجن پور، لیّہ، دیپال پور، قصور، تلہ گنگ جیسے علاقوں کے دور دراز کے دیہات میں نمونیہ سے تڑپتے ہوئے بچے تک دوا پہنچائی جا سکتی تھی۔
ان کی زندگی بچا کر ان کے والدین کو خوشیاں لوٹائی جا سکتی تھیں۔ ان اٹھارہ کروڑ عوام کو زندگی چاہیے اور پھر اس بلا سے بچ نکلیں جسے موت کہتے ہیں تو پھر انھیں تعلیم بھی چاہیے اور باقی ضروریاتِ زندگی بھی۔ موت کے بھیانک پنجے سے نکلیں گے تو میٹرو پر سفر کر سکیں گے۔ لیکن ہمیں تو عالمی معیار کی سواری چاہیے جسے رواں رکھنے کی کوشش پر ہر سال 94 ہزار بچے نمونیا اور اسہال سے اسے کے تیز رفتار پہیوں تلے چیختے چلاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
کیا ان حکمرانوں کو اس خوبصورت سرخ رنگ کی ایر کنڈیشنڈ میٹرو کے پہیے تلے دم توڑتے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ کیا ان بڑے بڑے میٹرو اسٹیشن کی راہداریوں میں ان معصوم بچوں کی ارواح کا بین نظر نہیں آتا جو پکار رہی ہیں کہ تمہاری اس خوبصورت میٹرو کی قیمت ہم نے اپنی زندگیاں دے کر چکائی ہے۔ تم اس سرمائے سے ہمارے گاؤں کے آس پاس ایک ڈسپنسری بنا سکتے تھے۔
جہاں میرے ماں باپ مجھے اٹھا کر لے جاتے، مجھے دوا مل جاتی اور میں بھی آپ کے بچوں کی طرح زندگی گزار رہا ہوتا۔ لیکن شاید ہمارے کسی حکمران کا بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، یا نواسی، نواسا کبھی صرف دوائی نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر نہیں مرا، کسی ممبر پارلیمنٹ، کسی بیوروکریٹ یا کسی جرنیل کی اولاد نمونیا کا شکار نہیں ہوئی ہے اور دوا نہ ملنے کی صورت میں موت کی آغوش میں نہیں چلی گئی۔ اگر ان سیاست دانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور میڈیا کے عظیم دانشوروں کے ساتھ یہ بیت جاتی تو انھیں یہ ساری ترقی زہر لگتی، انھیں میٹرو کے پہیوں تلے اپنے بچے کی لاش پڑی نظر آتی۔
اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو
اوریا مقبول جان پير 9 نومبر 2015
فیصلہ تو آپ نے اس دن کر لیا تھا کہ آپ اس رزمِ خیر و شر اور معرکۂ حق و باطل میں کس جانب ہیں جب 14نومبر 1991 کو وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس تنزیل الرحمن نے طویل سماعت کے بعد فیصلہ دیتے ہوئے بینکوں کے سود کو حرام قرار دیا تھا۔ آپ اس وقت اس مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ ہو سکتا ہے آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں یہ تصور موجود ہو کہ یہ وزارت عظمیٰ آپ کو پاکستان کے عوام اور عالمی طاقتوں کی آشیر باد سے ملی ہے لیکن میرے جیسے ’’دقیانوس‘‘ اور آپ کے موجودہ لبرل خیالات کے حامل لوگ جنھیں ’’فرسودہ‘‘ اور ازکار رفتہ تصورات کا حامل گردانتے ہیں، ان کے نزدیک یہ فیصلہ کہ کس کو زمین پر اختیار دیا جائے اور کس سے چھین لیا جائے خالصتاً اللہ سبحان و تعالیٰ فرماتے ہیں۔
اللہ فرماتے ہیں ’’کہہ دو کہ اے اللہ اے بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (آل عمران۔ 26)۔ اللہ کسی کو بادشاہی‘ حکومت یا اختیار اس لیے عطا کرتا ہے کہ زمین میں اللہ کے احکامات کو نافذ کرے۔ اللہ فرماتا ہے ’’اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے (الحج 41)۔ لیکن آپ نے 14 نومبر 1991 کو ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ نے عملی طور پر ایک ایسے گروہ کا حصہ بننا ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے اعلان جنگ کرتا ہے۔ آپ نے وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے کو بحیثیت وزیراعظم سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ نے وقت کے حاکم کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر بحث کا آغاز کیا۔ کچھ عرصے بعد اللہ نے آپ سے وزارت عظمیٰ اس طرح چھینی کہ آپ کے حق میں آیا ہوا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آپ کو وزارت عظمیٰ پر برقرار نہ رکھ سکا۔ شاید آپ سمجھتے ہوں کہ آپ سے استعفیٰ لینے کی سازش کا تانا بانا تو یہاں کی مقتدر قوتوں نے بنایا تھا اس کا اللہ تبارک و تعالیٰ سے کیا تعلق۔ لیکن میرے جیسے ’’دقیانوس‘‘ اور ’’فرسودہ‘ خیال لوگ تو یہی تصور کر کے اللہ پر اپنا ایمان مضبوط کرتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اس غلطی کی سزا دی۔ آپ کے بعد محترمہ بینظیر حکمران ہوئیں۔ انھوں نے ایک طریقہ ڈھونڈا کہ اس لڑائی میں براہ راست شریک نہ ہوا جائے بس دائیں بائیں ہو کر نکل جایا جائے۔ انھوں نے شریعت بنچ ہی مکمل نہ ہونے دیا۔ ظاہر بات ہے جب بنچ ہی مکمل نہ ہو گا تو شنوائی کہاں اور فیصلہ کہاں۔ آپ کو محترمہ بینظیر کی یہ روش اور ادا اس قدر پسند آئی کہ جب اللہ نے آپ کو دوبارہ اقتدار عطا کیا تو آپ نے بھی اپنے پورے عرصہ اقتدار میں سپریم کورٹ کا شریعت بنچ مکمل نہ ہونے دیا۔
آپ کو یہ حیلہ کرنے کا گر یقیناً آپ کے ’’مرشد اول‘‘ حضرت ضیاء الحق سے ملا تھا۔ شریعت اور شرعی قوانین کے نفاذ کے علمبردار ضیاء الحق نے جب 1981 میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی تو اس پر ایک پابندی لگا دی کہ وہ دس سال تک مالی و معاشی معاملات کے متعلق کوئی درخواست وصول نہیں کرے گی۔ اللہ نے ضیاء الحق کو دس سال تک جانے کی مہلت ہی نہ دی۔ اللہ دلوں کے حال اور نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ اسے ہی علم ہو گا کہ ضیاء الحق دس سال بعد اس مدت میں توسیع چاہتے تھے یا سود کے خلاف فیصلہ کرنے کی اجازت دینا چاہتے تھے۔ بہر حال وہ 1988 میں اس کے دربار میں جا پہنچے ہیں جہاں کوئی بہانہ کارگر نہیں اور کوئی مکرو فریب نہیں چلتا۔ وہ اعمال پر نیتوں کے حساب سے سزا دیتا ہے کہ صرف وہی ہے جو نیتوں اور دلوں کا حال جانتا ہے۔ میرے جیسے اللہ سے ڈرنے اور خوف رکھنے والے لوگ بھی آپ کو نیک نیتی کا فائدہ دیتے رہے۔ ہم لوگ سمجھتے رہے کہ آپ گزشتہ پنتیس سالوں سے سیاست کے میدان میں اللہ کے قوانین کے علمبردار بنے رہے‘ آپ نظریہ پاکستان کی چھتری تلے پناہ لیتے رہے۔
آپ کی تقریریں اور آپ کے چھوٹے بھائی کا علامہ اقبال کے شعروں کو دہرانا یہ ثابت کرتا رہا کہ ہو سکتا ہے آپ اس ملک میں اس خواب کی تکمیل چاہتے ہوں جو علامہ اقبال کی شاعری اور راتوں کی اشکباری میں جھلکتا تھا۔ جو آئین پیغمبر کا اس مملکت خداداد میں نفاذ چاہتے تھے۔ میں یہاں علامہ اقبال کے کئی سو اشعار تحریر کر سکتا ہوں لیکن شاید اب آپ انھیں سننا پسند نہ کریں۔ یہ سادہ دل لوگ یہ بھی سمجھتے رہے کہ آپ قائداعظم کے اصولوں کے مطابق ایک اسلامی پاکستان اور اسلامی معاشی نظام چاہتے ہیں کیونکہ آپ نے پنتیس سالہ سیاست میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے سوا اور کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ وہی قائداعظم جنہوں نے گیارہ اگست کی تقریر کو جب لوگوں نے غلط معنی پہنانے کی کوشش کی کہ قائداعظم ایک لبرل اور سیکولر پاکستان چاہتے تو انھوں نے 25 جنوری 1948 کو کراچی بار میں ان سیکولر اور لبرل دانشوروں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا تھا‘‘
“I could not understand That a section of the people who deliberately wanted to create mischief and propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on Sharia law. Islamic Principles to day are as applicable to life as thy were 1300 years ago”
’’میری سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کا ایک طبقہ جان بوجھ کر یہ شرارت اور پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کے قوانین پر مبنی نہیں ہو گا۔ اسلامی اصول آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ قائداعظم نے ان سیکولر لبرل شرارت پسندوں کا جواب فروری 1948 میں امریکی ریڈیو سے اپنے ایک خطاب میں دیا ۔ انھوں نے امریکی عوام کو بھی واضح کیا کہ ہم شرعی قوانین چاہتے ہیں۔
“The constitution of Pakistan is yet to be framed by Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate Shape of the constitution is going to be, but i am sure, it will be of democratic type,embodying the essential Principals of Islam,Today these are as applicable in actual life as these were 1300 years ago”
’’پاکستان کا آئین ابھی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے بنانا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ اس کی کیا حتمی شکل و صورت ہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری آئین ہو گا جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو گا۔ اسلامی اصول آج بھی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جیسے تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘۔ یہ تھا اقبال اور قائداعظم کا پاکستان جس کے آپ پنتیس سالہ سیاست میں وکیل بنے رہے اور اس ملک کے سادہ لوح عوام اور راسخ العقیدہ دانشور آپ کو سنتے رہے۔ جو صاحبان نظر تھے انھیں علم تھا کہ آپ عملی طور پر اسی دن سے اس صف میں آ کر کھڑے ہو گئے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان کرنے والوں کی صف ہے جس دن آپ نے فیڈرل شریعت کورٹ کے بینکوں کے سود کو حرام کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی لیکن میرا اللہ تو مہلت دیتا ہے۔ فرد جرم اسی وقت عائد ہوتی ہے جب کوئی واضح دو ٹوک اعلان کرے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ یہ اعلان کریں کہ پاکستان کا مستقبل لبرل اور جمہوری پاکستان سے وابستہ ہے۔
یہ اعلان آپ نے بحیثیت نواز شریف نہیں بلکہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان کیا ہے۔ وہ وزارت عظمیٰ جو ہمارے نزدیک اللہ کی عطا ہے۔ میرے سامنے ان صاحبان نظر کے چہرے بھی گھوم رہے ہیں جن سے آپ نے دعا کی استدعا کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگر تیسری دفعہ وزیراعظم بن کر میں نے تاریخ رقم کر دی تو اللہ کے قانون کو اس ملک میں نافذ کر دوں گا۔ مجھے مدینہ منورہ میں بیٹھے رسول اکرمﷺ کے جاروب کش اس صوفی صاحب کی وہ بات یاد آ رہی ہے جن سے آپ نے جلا وطنی کے دوران ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ آپ ایک دروازے سے آؤ تو میں دوسرے دروازے سے نکل جاؤں۔ آپ سے صاحبان نظر اسقدر ناراض تھے اس لیے کہ انھیں اللہ کی ناراضگی کا بخوبی علم تھا۔ آپ کو اقتدار ملا‘ آپ کو مہلت دی گئی۔ یہ مہلت آپ نے گنوا دی۔ اس ملک کی روحانی اساس عاشق رسول اور دربار رسالت کے عندلیب باغ حجاز‘‘ علامہ اقبال سے وابستہ تھی۔
آپ نے لبرل اور سیکولر بننے کے شوق میں یوم اقبال کی تعطیل بھی منسوخ کر دی۔ اچھا ہوا آج آپ کا اقبال سے یہ تعلق بھی ختم ہوا۔ حیرت ہے کہ اب یہ اعزاز اس صوبے کے مردان افغان کو حاصل ہوا جن سے علامہ اقبال کی امیدیں وابستہ تھیں۔ اللہ نے اپنی تفریق واضح کر دی ہے۔ اس کے دھڑے کے لوگ ایک جانب اور مخالف دھڑے کے لوگ دوسری جانب۔ آپ کو اپنا دھڑا مبارک لیکن میری نظر میں ان صاحبان نظر کے آنسو گھوم رہے ہیں جو بار بار ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی جانب صرف انصاف طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اپنے فیصلے نافذ کر دے تو پھر اس زمین پر پناہ نہیں ملا کرتی۔ نشان عبرت بنا دیے جاتے ہیں وہ لوگ جو اس سے عہد کر کے مکر جاتے ہیں۔
سیکولرازم کا اصل چہرہ یہی ہے
اوریا مقبول جان جمعـء 6 نومبر 2015
جب کبھی بھارت میں مسلم کش فسادات بھڑکتے ہیں یا وہاں کوئی دوسری اقلیت تشدد کا شکار ہوتی ہے تو میرے ملک کے لکھنے والے اور میڈیا ایک فقرہ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’وہ دیکھو بھارت کا سیکولر چہرہ بے نقاب ہو گیا‘‘ ۔ اس طرح کے فقرے بولنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیکولرازم ایک ایسی اعلیٰ و ارفع انسانی صفت اور حکومتی اقدار ہے کہ اس کا حامل انسانی معاشرہ یا حکومتیں دنیا کی مہذب ترین حکومتیں اور معاشرے ہوتے ہیں اور وہاں ظلم و ستم نام کی کوئی چیزہی نہیں ہوتی۔
یوں تو سیکولرازم کا لفظ پہلی دفعہ1876 میں برطانوی صحافی جارج ہولی اوکGeorge Holyoake نے استعمال کرنا شروع کیااور پھر یہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ لیکن اگر ہم سیکولرازم کے متوالوں کی ذاتی گھڑی ہوئی تاریخ کو بھی مان لیں کہ انقلابِ فرانس کے اردگرد پیدا ہونے والے ادیب جنہوں نے لوگوں کو یہ تصور دیا کہ معاشروں کو جمہوری اقدار پر منظم کر کے اقتدار عوام کے نمایندوں کو منتقل کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر بھی اس تصور کے پیش کیئے جانے اور نفاذ کی عمردو سو سال سے زیادہ نہیں بنتی۔ سیکولر ازم کاسب سے بڑا داعی ایچ جی ویلز تھا جو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں تقریریں کرتا پھرتا کہ حکومتوں پر قابض ہو کر سیکولر ازم کو بزور نافذ کر دینا چاہیے ورنہ مذہبی لوگ عوام کے ذریعے کبھی بھی برسرِ اقتدار آ سکتے ہیں۔
سیکولرازم جن معاشروں میں نافذ ہوا اور جہاں جہاں ایسے حکمران منتخب ہوئے یا مسلط کیئے گئے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں انھوں نے اس سیکولرازم کے نام پر انسانی خون اسقدر بہایا، ظلم و تشدداتنا کیااور رعایا کو بھوک اور افلاس کا شکاراس قدر رکھا اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف مسلمان ملکوں کے سیکولر حکمرانوں کی فہرست اٹھا لیں۔ ان کے کارنامے پڑھ کر آپ حیران و ششدر رہ جائیں گے۔
مصر سے شروع کرتے ہیں، جمال عبدالناصر جس کے دامن پر اخوان المسلمین کے ڈھائی لاکھ لوگوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، جس کے جیل خانوں کے تشدد کی کہانیاں لرزا دینے والی ہیں۔ بڑے بڑے رہنماؤں کی پھانسیوں کی ایک قطار ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی۔ سیکولرازم اس کے خون میں رچا ہوا تھا۔ اسرائیل سے جنگ شروع ہوئی تو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگا’’ اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا مقابلہ موسیٰ کی نسل سے ہے‘‘۔ مذہب کو ریاست سے دور رکھنے کا دعویٰ کرنے والا یہ سیکولر حکمران دنیا کے ظالم ترین حکمرانوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس کے بعد اس کے فلسفہ پر عمل کرنے والے انورالسادات اور حسنی مبارک بھی اسی روش پر قائم رہے اور انسانوں کا خون بہاتے رہے۔ عراق میں احمد حسن البکر اور پھر صدام حسین بھی سیکولر حکمران تھے جو ریاست کے کاروبار میں مذہب کے داخلے کو حرام سمجھتے تھے۔صرف کردوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انھیں تاریخ کے بدترین اور ظالم حکمران ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔جنگ عظیم دوم کے بعد سیکولر صدام حسین نے پہلی دفعہ آبادیوں پر کیمیائی ہتھیار تک استعمال کیئے ۔ سیکولر ازم کے پر زور نفاذ کے یہ حامی حکمران ہر اس آواز کو خاموش کر دیتے ہیں جس کے منہ سے یہ لفظ بھی نکلتا کہ مذہب بھی انسانی زندگی میں ایک نافذ العمل چیز ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے قاتل۔ ایران میں شاہ رضا پہلوی کی سیکولر آمریت ساوک کے ظلم و ستم سے عبارت ہے۔موجودہ ایران میں شاہ کی خفیہ ایجنسی کے ان مراکز کوعجائب گھر بنا دیا ہے۔
جہاں ایسے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جو مذہب کو ریاست کا حصہ سمجھتے تھے، ان کے ناخن اکھاڑے جاتے، بجلی کے مسلسل جھٹکے دیے جاتے، زخم ڈال کر ان پر نمک چھڑکا جاتا۔سیکولر رضا شاہ پہلوی کے سیکولر اقتدار کے دوران لاکھوں لوگ قتل اور لا پتہ ہوئے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ایک سنیما گھر کو آگ لگا دی، چار سو سے زیادہ لوگ زندہ جل گئے اور الزام ان لوگوں پر لگا دیا جو مذہب کو ریاست کے کاروبار کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ انڈونیشیا میں سہارتو کی سیکولر آمریت قائم ہوئی تویہ دنیا کی سب سے پر تشدد آمریت تھی جس میں چار لاکھ سے زیادہ انسان قتل کر دیے گئے۔
لاطینی یا جنوبی امریکا کے کسی بھی حکمران کے عہدِ حکومت کو اٹھا لیں آپ کو ظلم و ستم کی داستانیں ملیں گی۔ صرف چلّی کے پنوشے کے مظالم اسقدر ہولناک ہیں کہ قلم لکھتے ہوئے خون آلود ہونے لگتا ہے۔ وہ تو ان سیکولر اقدار کو جمہوریت کا تڑکا لگا کر الیکشن بھی جیتا تھا۔لیکن کیا جمہوریت لوگوں کا خون بہانے، ظلم کرنے یا قتل و غارت سے روک سکتی ہے۔
دنیا کا سب سے ظالم، قتل و غارت کا رسیا اور تشدد کا علمبردار شخص ایک جمہوری طور پر منتخب لیڈر بھی تھا اور اقدار کے حساب سے سیکولر بھی۔ وہ شخص جرمنی کے عوام کے دلوں پر راج کرنے والا نازی حکمران ہٹلر تھاجو ہر اعتبار سے سیکولر تھا۔ کوئی اس دور کی دنیا کے لوگوں سے پوچھے کہ انھوں نے اس جمہوری طور پر منتخب سیکولر ہٹلر کے ظلم کی کیا قیمت ادا کی ہے۔
اس سیکولر صفت جمہوری طور پر منتخب شخص نے نسلی تعصب کی ایسی بنیاد ڈالی کہ کروڑوں لوگ لقمہء اجل بن گئے۔ کوئی یہودیوں سے جا کر پوچھے کہ انھوں نے سیکولر اور جمہوری ہٹلر کی جمہوریت اور سیکولرازم کی کیا قیمت ادا کی ہے۔ واشنگٹن میں ایک ہولو کاسٹ میوزیم ہے جس میں ہٹلر کے اس جمہوری اور سیکولر اقتدار کے دوران ہونے والے مظالم کے شواہد رکھے ہوئے ہیں۔
جمہوریت اور سیکولرازم ایک اور جگہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گزشتہ سڑسٹھ سالوں سے چل رہے ہیں اور یہ ملک بھارت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی جمہوری طور پر منتخب حکمران نہیں تھے اور وہ سیکولر نہیں تھے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس ملک کاآئین بھی سیکولر ہے جو مذہب کو ریاست سے کوسوں دور رکھتاہے۔ دنیا کا یہ سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی ہے جہاں غربت کی انتہا علاقائی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر ہے۔ اس عظیم سیکولر اور جمہوری ملک میں غربت کے خط سے سب سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں میں سے ہے اور اس کے بعد دوسرا نمبر دلتوں یعنی شودروں کا آتا ہے۔
یہ شودر کسی علاقے کی وجہ سے غریب نہیں کہ وہاں وسائل موجود نہیں ہیں بلکہ یہ اس لیے غربت کا شکار ہیں کہ ہندو مذہب انھیں بدترین حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا کشمیر میں مظالم کسی ڈکٹیٹر یا مذہبی رہنما نے روا رکھے اور ایک لاکھ لوگوں کو شہید کیا۔ یہ سب کے سب سیکولر اور جمہوری حکمران تھے۔ کوئی سکھوں سے جا کے پوچھے کہ انھوں نے اس جمہوریت اور سیکولرازم کا 1984 میں کیسا مزہ چکھا تھا جب ان کو دلی کے بازاروں میں گھسیٹا گیا، گلے میں ٹائر ڈال کر ان ٹائروں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوا۔ وہ حکومت جو فخر کرتی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا تسلسل بھی ہے اور سیکولرازم کا آئینی تصور بھی۔
اس سارے ظلم و ستم اور تشدد کے باوجود ہمارا میڈیا اور دانشور یہ تصورپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے سیکولرازم اور جمہوریت ہی نجات کے دو راستے ہیں۔ اسلام پر گفتگو کرنی ہو تو یہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کا ذکر نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ تمھاری تاریخ جنگوں اور لڑائیوں سے بھری ہے، تمہارے حکمران ظالم تھے۔ لیکن وہ یہ منطق سیکولرازم پر لاگو نہیں کرتے۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ظلم و بربریت سیکولر ڈکٹیٹروںاور سیکولر جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں اس دنیا نے دیکھی، تاریخ میں اس سے زیادہ ظلم و ستم اور قتل و غارت کسی اور دور میں نہیں ہوا۔
جنگِ عظیم اول اور دوم کے دوران ایسے حکمران دنیا پر حکومت کرتے تھے جو جمہوری طور پر منتخب بھی تھے اور سیکولر بھی۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکا، بیلجیئم، اٹلی،دیگر تمام ممالک سے مذہب کو ریاست سے الگ بھی کردیا گیا تھا اور حکمران بھی جمہوری طور پر منتخب تھے۔ ان سیکولر جمہوری حکمرانوں نے جنگوں میں اتنے لوگ قتل کیئے جن کی تعداد پوری انسانی تاریخ میں قتل ہونے والے افراد سے زیادہ ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیکولر ازم کا اصل چہرہ ہی یہ ہے۔
یہ انسان کی مروجہ اقدار اور روایت کے برعکس ایک ایسا تصور ہے جسے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جوافراد اپنی روایت اور اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتے ہیں انھیں قتل کردیا جاتا ہے یا ان پر تشدد سے سیکولرازم نافذ کیا جاتا ہے۔ وہ مصر، عراق یا انڈونیشیا کے مذہب سے لگاؤ رکھنے والے مسلمان ہوں، جرمنی کے یہودی یا بھارت کے مسلمان، سکھ اور عیسائی اور شودر سب سیکولرازم کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔
سیکولرازم نے ہمیشہ لوگوں کا خون بہایا اور اس کو ایک خوبصورت تصور دیا کہ ہم ان لوگوں کواس لیے قتل کر رہے ہیں کہ یہ جمہوریت اور سیکولر ازم کے دشمن ہیں، تخریب کار ہیں، دہشت گر ہیں، گوریلے ہیں، ملک دشمن ہیں، غدار ہیں۔ یہی سیکولر ازم ہے اوریہی اس کابھیانک چہرہ ہے اور یہ دو سو سال سے دنیا پر حکمران ہے۔
عدالتی نظام کی بے بسی اور عدالت الٰہی
اوریا مقبول جان پير 2 نومبر 2015
یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں سب سے بے بس، کمزور، لاچار اور بے اختیار عدالتی نظام ہے۔ اس نظام کے سامنے روز ایسے ملزم پیش ہوتے ہیں جن کے بارے میں ججوں کو سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ ان سے جرم سرزد ہوا ہے لیکن وہ انھیں سزا نہیں دے سکتے۔کہتے ہیں اس کے خلاف صفحۂ مثل پر کچھ نہیں، ہم سزا کیسے دیں۔ یہ صرف چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ مشہور ممبر قومی اسمبلی اس بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا کہ اس کی ڈگری جعلی ہے۔ موصوف ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش تھے۔ اینکر نے سوال پوچھا، آپ نے کس مضمون میں ایم ا ے کیا ہے۔ کہنے لگے یار تیرہ چودہ سال پرانی بات ہے، اب یاد تھوڑا رہتا ہے۔ اینکر کے بار بار اصرار کرنے پر بتایا کہ اتنا یاد ہے کہ میں نے ایم اے آرٹس کے مضمون میں کیا ہے۔ یہ اینکر اگر مزید دو تین سوال اور کرتا تو پاکستان بھر میں مناسب سی تعلیم رکھنے والا شخص بھی یہ فیصلہ کر سکتا تھا کہ اس ممبر اسمبلی کی ایم اے کی ڈگری جعلی ہے۔ لیکن کس قدر بے بس ہے ہمارا عدالتی نظام کہ موصوف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے اس کے مضمون کے مطابق چند سوال پوچھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس کی ڈگری جعلی ہے۔
اس کا یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو پھر ایک لائن لگ جائے گی۔ یعنی آپ اس خوف سے درست فیصلہ نہیں کرتے کہ آپ کو ایسے ہزاروں درست فیصلے کرنا پڑ جائیں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ڈگری تصدیق کرنے والے محکمے کے پاس بھیجو، تصدیق کر دے تو مان لو بے شک سامنے کھڑا شخص جاہل مطلق ہی کیوں نہ نظر آ رہا ہو۔ ایسا بہت کچھ روز عدالت کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے۔ قانون میں ایک لفظ ’’alibi‘‘ ایلی بائی ہے جس کا مطلب ہے کہ فلاں شخص جس پر قتل یا کسی اور جرم کے ارتکاب کا الزام ہے وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔ روزانہ عدالتوں میں جعلی سرٹیفکیٹ پیش ہوتے ہیں، جعلی جہاز کی ٹکٹیں اور بورڈنگ پاس دکھائے جاتے ہیں، کئی دفعہ تو یوں ہوتا ہے کہ کسی کرائے کے پیشہ ور قاتل کی گرفتاری ڈالی جاتی ہے، پھر اسے خاموشی سے چند گھنٹوں کے لیے حوالات سے نکالا جاتا ہے۔ وہ قتل کر کے واپس حوالات آ جاتا ہے۔ موقع پر دس لوگ موجود ہوں، وہ سب کے سب گواہی دیں، لیکن کس قدر بے بسی ہے عدالت کی کہ وہ صفحۂ مثل پر آئی ہوئی اس alibi پر خود تحقیق کا آغاز نہیں کر سکتی۔
روزانہ عدالت کے روبرو پیش ہونے والے گواہوں کو کہیں پیسے دیکر اور کہیں ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسے بیرون از عدالت تصفیہ بھی کہتے ہیں۔ اکثر بااثر قاتل گھرانے کے لوگ مقتول کے گھرانے کو دھونس، جبر یا پھر ان کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمائے کا استعمال کر کے گواہوں کو بٹھاتے ہیں اور عدالت کس قدر بے بس ہو جاتی ہے کہ اس کو علم بھی ہو کہ اس شخص نے قتل کیا ہے، وہ اسے باعزت بری کر دیتی ہے۔ پاکستان کی جیلوں میں روزانہ ایسے ہزاروں افراد قید کر دیے جاتے ہیں جن کا نام دشمنی کی بنیاد پر ایف آئی آر میں لکھا جاتا ہے۔ چالان پیش ہونے تک یہ عدالت کی دسترس میں نہیں آ پاتے، البتہ عدالتیں ہی انھیں ریمانڈ بھی دے رہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی طرح ان بے گناہوں کے خلاف چالان بھی مکمل ہو جائے تو مقدمے کی آخری عدالت کی فیصلے کی بنیاد پر پھانسی پر بھی جھول جاتے ہیں۔ ایک دندناتے ہوئے مجرم کا عدالت کے ہاتھوں سے نکل جانا اور ایک بے گناہ کا سزا پا جانا ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوال ہے جس کا جواب کوئی تلاش نہیں کرتا۔ البتہ اس عدالتی نظام کو مضبوط کرنے کے خواہش مند آپ کو ہر طبقۂ خیال میں ملیں گے۔
عدلیہ کی آزادی پر گھنٹوں دلائل دینے والوں میں وکیلوں کی فوج ظفر موج سے لے کر دانشور، سیاست دان اور صحافی سب شامل ہیں۔ ان سب کے سامنے گزشتہ دنوں سرمایہ اور طاقت کے نشے میں دھت بااثر لوگوں کی اولادوں نے قتل کیے۔ میڈیا کی چکا چوند روشنی میں مائیں اپنے لخت جگر کا ماتم کرتی نظر آئیں۔ لوگ باقاعدہ قاتلوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ کراچی میں شاہ زیب اور لاہور میں زین کا قتل ایسے روز روشن کی طرح واضح حقیقتوں میں سے تھے کہ ان میں مجرم کا بچ نکلنا کسی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ حیرت کی بات ہے زین کے قتل کے وقت وہ تمام گواہان جو انگلیاں اٹھا اٹھا کر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو کی فائرنگ کو زین کے قتل کی وجہ بتاتے تھے عدالت میں پلٹ گئے جیسے یہ سب ہوا ہی نہیں تھا۔ اب فیصلہ یوں ہے کہ وہاں گولیاں بھی چلیں، آپس میں لڑائی بھی ہوئی، سنسناتی گولی زین کے سینے میں اتری لیکن ان تمام لوگوں کی موجودگی کے باوجود عدالت کے سامنے یہ ثابت نہ ہو سکا کہ کس کی گولی زین کو موت کے گھاٹ اتار گئی۔ سب باعزت بری۔ یہ ہے ہمارے عدالتی نظام کی بے بسی۔
لیکن میرا المیہ یہ نہیں ہے کہ اس عدالتی نظام کا ماتم کروں جسے اینگلوسیکسن قانون کہتے ہیں اور جسے ہمارا آئین تحفظ دیتا ہے۔ میرا ماتم یہ ہے کہ یہی آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس اینگلوسیکسن قانون کے تحت اگر روز گواہ بیٹھ جائیں اور مجرم عدالت سے باعزت بری ہو جائے تو کوئی اس نظام پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ لیکن اس ملک میں اللہ کے بتائے ہوئے اس اصول قصاص و دیت کے تحت اگر کوئی وارث اپنے مقتول کے قاتل کو معاف کر دے تو اخبارات کے صفحے اس قانون کے خلاف کالے ہونے لگتے ہیں۔ رات کو ٹاک شوز میں دانشور اسلام کے اس قانون کے خلاف آستین چڑھا لیتے ہیں، صدیوں سے پاکستان کے قبائلی معاشرے میں یہ اصول رائج ہے کہ جب جرگہ کسی قتل کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو وہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم قتل کے بدلے قتل کروا کر دشمنی کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتے۔ اس لیے خوں بہا لے کر صلح اور امن کی رسم کا آغاز کیا جائے۔ اسلام کے اس بنیادی اصول کو اپناتے ہوئے انھوں نے صدیوں پرانی دشمنیوں کو ختم کیا۔ لیکن ہم وہ بدقسمت ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ ہیں جو ایسے عدالتی نظام کا دفاع کرتے ہیں جہاں دھونس، دباؤ اور لالچ سے عدالت کے سامنے جھوٹ بول کر قاتل کو چھڑا لیا جائے لیکن اسلام کے اصولوں کے تحت کسی کو معاف کر کے دنیا میں امن اور آخرت میں اجر عظیم کا سودا نہیں کرنے دیتے۔
ہماری منافقت اور اسلام سے دشمنی کا یہ عالم ہے کہ روزانہ ہزاروں بے گناہ غلط ایف آئی آر درج ہونے کی وجہ سے جیل میں پھینک دیے جاتے ہیں لیکن کسی وکیل، انسانی حقوق کے چیمپئن یا این جی او کے کرتا دھرتا نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ پاکستان کے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جائے اور اس وقت تک کسی کو گرفتار نہ کیا جائے جب تک تفتیش مکمل نہ ہو جائے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو آج تک ایسے ہزاروں لوگ نظر نہیں آئے جو صرف ایف آئی آر میں نام درج ہونے کی وجہ سے سالوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے اسی ضابطۂ فوجداری کی وجہ سے توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوتا ہے تو سب کی آنکھیں غصے سے ابلنے لگتی ہیں۔ ہر کوئی الفاظ کے تیر لے کر سامنے آ جاتا ہے۔کسی میں اتنی جرأت تو ہے نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کو جرم قرار نہ دے، اسے کبھی آمر کا بنایا ہوا قانون کہہ کر بات کی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کا قانون بدل دیا جائے۔ ہزاروں بے گناہ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس نظام کی بھینٹ چڑھ رہے ہوتے لیکن سب کو توہین رسالت کے مجرم ہی مظلوم نظر آتے ہیں لیکن جیلوں میں موجود ہزاروں بے گناہ یاد نہیں آتے۔ صرف وہی لوگ یاد آتے ہیں جن پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی توہین کا الزام تھا۔ کیا ایسا کرنا بذات خود توہین رسالت کی سزا کا تمسخر اڑانا نہیں ہے۔
کس نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور کون بے گناہ مارا گیا، کس پر الزام جھوٹا اور کون عالمی ایجنڈے پر اس قانون کے خلاف بول رہا تھا، یہ سب کچھ سپریم کورٹ اور پاکستان کے بے بس عدالتی نظام میں زیربحث آتا ہے۔ فیصلے ہوتے ہیں لیکن ایک عدالت اس سے بالاتر ہے۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و آلہ و سلم بازار سے گزر رہے تھے کہ مکہ کے لوگوں نے اشارہ بازی شروع کی اور کہا یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل آتا ہے (نعوذ باللہ) جبرائیل علیہ السلام خود شریف لائے اور ان کی جانب انگلی کا اشارہ کیا تو ان کے جسم سے خون بہنے لگا اور ایسی بدبو آئی کہ ان کے قریب کوئی نہ جاتا تھا (طبرانی الاوسط)۔ قبیلہ بنونجار کا ایک شخص مسلمان ہوا، کاتب وحی مقرر ہوا، پھر نصرانی ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذاق اڑاتا کہ میں نے وحی میں بہت سی ایسی باتیں لکھ دیں جن کا انھیں پتہ نہ چلا۔ کچھ دن بعد اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ لوگوں نے دفن کیا، لاش کو زمین نے قبول نہ کیا۔ صبح باہر پڑی تھی، اگلی صبح اور نیچے دفن کیا، پھر ایسا ہوا، پھر کیا، آخر لاش ویرانے میں پھینک دی گئی (مسلم) آپ فیصلے کرتے جاؤ، اینگلوسیکسن قانون کا تحفظ اور اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کا تمسخر اڑاتے جاؤ لیکن جان رکھو کہ اس کائنات کی آخری عدالت وہ قادر مطلق کی ہے جو جب، جہاں، جس وقت چاہے اپنے فیصلے کا اعلان کر دے اور ہماری چیخ و پکار سننے والا بھی کوئی نہ ہو۔
آفتیں اور بلائیں کیوں نازل ہوتی ہیں
اوریا مقبول جان جمعـء 30 اکتوبر 2015
گھر بناتے وقت ان لوگوں نے وہ تمام تدابیر کی تھیں جو سیلاب، آندھی اور طوفان میں گھروں کو محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ سب صاحبِ حیثیت لوگ ہیں جو گھروں، دفتروں، دکانوں، پلازوں اور دیگر عمارتوں کو بنانے کے لیے ایسے ماہرین کا انتخاب کرتے ہیں جنہوں نے جدید علم کی روشنی میں عمارتوں کو اس طرح ڈیزائن کرنا سیکھا ہوتا ہے جو زلزلے، طوفان اور سیلاب وغیرہ میں قائم رہیں۔ یہ تو اکیسویں صدی کے سائنس پروردہ انسان ہیں۔ زلزلے سے محفوظ عمارات بنانے کا فن تو انسان صدیوں سے جانتا ہے۔
کوئی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے آثار مدائنِ صالح میں جا کر دیکھے کہ کیسے انھوں نے پہاڑ تراش تراش کر گھر بنائے تھے جو آج بھی صحیح سالم ہیں، ان پر ہزاروں سال سے آنے والے زلزلوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ فرماتا ہے “ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کر ڈالا، اب یہ گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں”۔ (النمل 51-52) دنیا میں عبرت کے طور پر موجود جتنے بھی مقام ہیں ان کی ساخت ایسی ہے کہ زلزلوں اور سیلابوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تاج محل کی پوری عمارت کی بنیادیں نوے فٹ گہری ہیں اور ان کے نیچے 40 فٹ ریت ہے تا کہ اگر کبھی زلزلہ آئے تو پوری کی پوری عمارت ریت کے اندر گھوم جائے اور زلزلہ اس پر اثر انداز نہ ہو۔
انسان جب سے پیدا ہوا ہے قدرتی آفات کے مقابلے میں احتیاطی تدابیر کرتا چلا آیا اور اس میں کامیاب بھی ہے۔ لیکن جس وقت یہ آفت اسے گھیر لیتی ہے، اسوقت اسے سوائے اللہ کی ذات کے اور کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ سارے لوگ جو آج سائنس کی منطقیں بگھار رہے ہیں، ان سب کو اپنی عمارتوں کے مضبوط ہونے کا مکمل یقین تھا، لیکن گزشتہ زلزلے کے وقت یہ سب کے سب کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں، دکانوں، پلازوں اور دفتروں سے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے سیلاب میں چوہے بلوں سے نکل کر بھاگتے ہیں۔
اس وقت نہ کسی کو سائنس کی دنیا یاد آئی، نہ اس بات پر بھروسہ اور ایمان قائم رہا کہ یہ عمارت تو زلزلہ پروف ہے۔ اللہ کی بدترین نافرمانی اور گناہ میں مشغول افراد بھی اسی کا ورد کرتے گھروں اور علاقوں میں موت کے خوف سے بھاگتے پھر رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی یہ آفت تھمی ہے فوراً ارضیات اور فزکس کی کتابیں کھول کر ہر کسی سے بحث کر نے لگے کہ یہ سب تو ایک معمول کی کاروائی ہے جو وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس کا تعلق اللہ کے غصے اور ناراضی سے کیسے ہو گیا۔
موجودہ سیکولر علم کی بنیاد دو اصولوں پر ہے۔ پہلا ہر وہ چیز جسے تجربے اور مشاہدے کے بعد درست ثابت کر دیا جائے اسے سچ مان لیا جاتا ہے۔ جسے وہ سائنسی سچائی (Scientific Truth) کہتے ہیں اور دوسرا اصول یہ ہے کہ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اس تصور کو علت و معلول (Cause and Effect) کہتے ہیں۔ سائنسی تحقیق زلزلے کے بارے جو منطق پیش کرتی ہے، وہ سائنسدانوں کے مشاہدے پر مبنی ہے کیونکہ زمین کی بالائی سطح جسے Crestکہتے ہیں ابھی تک انسان اس کے رازوں سے بھی آشنا نہیں ہو سکا جب کہ اس کے نیچے آگ کا کھولتا ہوا سمندر ہے جس تک رسائی یا اس کے اندر آنے والی تبدیلیوں تک پہنچنا تو ایک خواب لگتا ہے۔
مشاہدات اور سائنسی منطق کی بنیاد پر زمین کی بالائی سطح جو چند کلو میٹر موٹی ہے اس کے بارے میں ایک سائنسی کہانی (Theory) مرتب کی گئی ہے کہ اس بالائی سطح کی مختلف بڑی بڑی پلیٹیں ہیں جو آہستہ آہستہ سرک رہی ہیں اور صدیوں سے سرکتی چلی آ رہی ہیں۔ ایک دن ہندوستان کی پلیٹ چین اور یورپ کی بڑی پلیٹ سے ٹکرائی تھی تو اس کے نتیجے میں ہمالیہ اور دیگر پہاڑ وجود میں آ گئے تھے۔ ظاہر ہے ان پلیٹوں کو مناسب طریقے سے کاٹا تو نہیں گیا تھا اس لیے اوپر سے تو سب مل گئے، لیکن نیچے خلا باقی رہ گئے۔ ان خلاؤں کو جیالوجکل فالٹ کہا جاتا ہے۔
چونکہ پلیٹیں مستقل حرکت کر رہی ہیں اس لیے جب کبھی یہ حرکت تیز ہو تی ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ اس تھیوری کو سچ ثابت کرنے اور اس حرکت کو ناپنے پر ابھی کام جاری ہے۔ سب مفروضے ہیں۔ سیکولر علم کا ایسے موقع پر ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ نیچر کی بھول بھلیاں (Mystry) ہے اور ہماری جستجو جاری ہے۔ سیکولر علم کی بنیاد پر سوچنے والا ایک تصور بنا لیتا ہے کہ اللہ بھی اپنے کسی ارادے کو تکمیل دینے کے لیے اسباب کا محتاج ہے۔
جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ خالق اسباب ہے۔ وہ “باری” ہے یعنی ایسا مصور اور تخلیق کار جس کے پاس اسباب نہ ہوں، تو بھی وہ خلق کرتا ہے۔ اسی لیے نہ تو ہمیں اللہ کے تصورِ عذاب کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہم سے اس کی اس دینا پر آفتیں اور مصیبتں نازل کرنے کی گتھی سلجھائی جاتی ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ دنیا جزا و سزا کی دنیا نہیں ہے۔ یہ تو ایک امتحان کا عرصہ ہے۔ جزا و سزا کے لیے تو ایک دن مقرر ہے جسے روزِ محشر کہتے ہیں۔
اسی لیے اللہ زمین پر نازل کی جانے والی آفت یا عذاب کا مقصد خود بیان کرتا ہے۔ “اور ہم انھیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل، شاید کہ یہ رجوع کر لیں” ۔ (السجدہ21: )۔ یہاں وہ کسی فرد پر عذاب نازل نہیں کرتا بلکہ پورے گروہ یا قوم میں سے کسی کو استثنیٰنہیں دیا جاتا۔ وہ فرماتا ہے: “اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی لاحق نہیں ہو گا”۔ (الانفال:25 ) یہ بھی اسی کا اختیار ہے کہ وہ کبھی کبھی نیک لوگوں کو اپنے عذاب سے خاص طور پر محفوظ رکھتا ہے اور اس میں بھی صرف ایسے لوگوں کو اللہ بچاتا ہے جو لوگوں کو برائی سے روکتے رہے تھے۔” ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو برائی سے روکتے تھے”۔
(الاعراف:165 ) اس آیت کے آغاز میں اللہ ان لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے جو لوگوں کو کہتے تھے: “تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے” ۔ (آلِ عمران:164) اللہ نے برائی پر خاموش رہنے والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر دیا۔ برائی سے روکنے والوں کا استثنیٰ بھی اللہ کا اپنا فیصلہ ہے، وہ چاہے تو بچائے اور چاہے تو ہلاک کر دے، اس لیے کہ موت صرف ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقلی کا نام ہے اور روزِ قیامت عذاب کے دوران ہلاک ہونے والے فرداً فرداً پیش ہوں گے۔
جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت میں جائے گا اور جس کے اعمال برے ہوں گے وہ جہنم کا مزہ چکھے گا۔ یہ ہے وہ فلسفہ جس کے تحت اللہ لوگوں کو جھنجھوڑنے اور اپنی جانب لوٹ آنے کے لیے عذاب نازل کرتا ہے۔ وہ تو کسی ظالم بادشاہ کو بھی اپنا عذاب ہی کہتا ہے اور پھر قوموں کو یاد دلاتا ہے کہ میں نے اس ظالم سے تمہیں نجات دلائی” جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر بڑی بلا (امتحان) تھی” ۔ (البقرہ:49 ) لیکن علت و معلول اور سائنسی سچائی کو حرف آخر سمجھنے والے اس سب کو دنیا کے عوامل سمجھتے ہیں۔
اسی لیے جب کہا جاتا ہے کہ عذاب میں اللہ کی طرف رجوع کرو، اس سے اجتماعی استغفار کرو تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن میرا اللہ تو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر شدید خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ قومیں اس سے اجتماعی توبہ کریں۔ یونس ؑ کی قوم اجتماعی طور پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی تھی اور اللہ نے عذاب ٹال دیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے: “بھلا کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایسے وقت ایمان لے آتی کہ اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچا سکتا۔
البتہ صرف یونسؑ کی قوم کے لوگ ایسے تھے۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دینوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے اٹھا لیا اور ان کو ایک مدت زندگی کا لطف اٹھانے دیا”۔ ( یونس:98) یہ ہے قوموں اور نبیوں سے اللہ کی شدید خواہش۔ لگتا ہے ہم اللہ کی خواہش پر، اس کے سامنے جھکنے پر ابھی تک راضی نہیں۔ زلزلے کے بعد ایک صاحبِ نظر سے درخواست کی کہ اس قوم کے لیے رحم کی دعا فرمائیں، فرمانے لگے یہ اللہ کے سامنے جھکنے کو تیار ہیں۔ شاید نہیں، ہر کوئی خوفزدہ ہے، صاحبانِ نظر کانپ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ زلزلہ تو ایسے تھا جیسے چوٹ لگانے کے لیے ہتھوڑے کی نشانی لی جاتی ہے اصل چوٹ سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ کاش ہم حضرت یونس کی قوم جیسے ہو جائیں اور اللہ ہمیں زندگی سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کر دے۔
بارہواں کامن، جاوید نثار سید، میڈی بینک
اوریا مقبول جان پير 26 اکتوبر 2015
آج سے ٹھیک اکتیس سال قبل 18 اکتوبر 1984ء کو سول سروسز اکیڈمی کی راہداریوں میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوانوں نے قدم رکھا۔ ہر کوئی مستقبل میں بیورو کریسی کی اعلیٰ منازل طے کرنے کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا۔ ملک کا اعلیٰ ترین امتحان نہ صرف پاس کرنا بلکہ اس میں ایک ایسی پوزیشن حاصل کرنا کہ بیورو کریسی کی منزلِ اول کی نوکری آپ کو میسر آ جائے، اس کا نشہ ہر کسی کے دماغ کو ساتویں آسمان پر جا بٹھاتا ہے۔ رشتے دار، دوست، اہل محلہ یہاں تک کہ عام لوگ بھی ان نوواردانِ سول سروس کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے تکبر اور نخوت کا زہر بڑے بڑوں میں سرایت کر ہی جاتا ہے۔ لیکن اکیڈمی میں یہ ایک برادری، ایک کنبہ اور ایک خاندان نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نوکری کی بھول بھلیوں، اقتدار کی کشمکش، آگے بڑھنے کی ہوس اور دیگر عوامل ان کو ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کر آگے بڑھنے کی لت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اس سب کا احساس انھیں اکیڈمی کے دنوں میں نہیں ہوتا۔ ملک بھر کے اعلیٰ ترین دماغ انھیں حکمرانی کے گر سکھانے آتے ہیں۔
عام آدمی سے الگ ان کی دنیا جیسی انگریز نے آباد کی تھی تھوڑے فرق کے ساتھ آج بھی ویسی ہی ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی کی تمام نوکریوں، دفتر خارجہ، کسٹم، پولیس، انکم ٹیکس، انفارمیشن، اکاؤنٹس سے لے کر مشہور زمانہ سی ایس پی، پھر ڈی ایم جی اور آج کل پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروس تک تمام گروپوں کے یہ افسران جب اکیڈمی میں اکٹھے آتے ہیںتو اسے ’’کامن ٹریننگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1973ء میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے تمام گروپ علیحدہ علیحدہ ٹریننگ کرتے تھے۔ 1984ء کا یہ گروپ ’بارہواں کامن‘‘ کہلایا۔ ڈیڑھ سو کے اس ہجوم میں ایک میں بھی تھا۔ طبعاً افسری ماتحتی کے بکھیڑوں سے دور، ڈسپلن نام کی بلا سے بھاگا ہوا، قہقہوں میں عمر بھر کی پریشانیوں کو چھپاتا اس ماحول میں آ نکلا تھا۔ کہتے ہیں ہر شخص کا ایک مقناطیسی دائرہ ہوتا ہے جو اپنے جیسے مقناطیسی مزاج رکھنے والے کے دائرے میں اڑ کر پہنچ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ اکیڈمی میں جس شخص کے طلسم نے مجھے اپنا اسیر کیا وہ جاوید نثار سید تھا۔ ایک حیران کن شخص، ایک صنعت کار کا بیٹا جس کے پاس اس وقت نئے ماڈل کی گاڑی تھی، جب اکیڈمی میں صرف چند لوگ گاڑیاں رکھ پاتے تھے۔
میری طرح ڈسپلن کے بکھیڑوں اور افسری ماتحتی کے دائروں سے دور، مزاح جس کا اوڑھنا بچھونا کہ کہتے ہیں فیصل آباد کی مٹی ہی ایسی ہے، ہر طرح سے ایک کھلنڈرا اور متلون مزاج نوجوان، لیکن اس کی ایک صفت ایسی تھی جس نے اس کی شخصیت میں جاذبیت، کشش اور مقناطیسیت پیدا کی تھی۔ وہ تھی اس کی مہمان نوازی۔ میں نے زندگی میں اس سے وسیع دسترخوان کسی شخص نہیں دیکھا۔ ایک ایسا شخص کہ جس کا دل چاہتا ہو کہ اس کا دسترخوان ہر وقت بچھا رہے اور وہ لوگوں کو خوش خوش کھلاتا پلاتا رہے۔ یہ تو صوفیاء کا دستور تھا اور آج بھی ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا آپس میں رنجش ہو جائے تو ایک دوسرے کی دعوت کرو (مفہوم)۔ ایسے شخص کا حلقۂ اثر تو وسیع ہونا ہی تھا۔ اس کی گاڑی اس کے ’’متاثرین‘‘ سے بھری رہتی اور اس کی محفل اس کے قہقہوں، لطیفوں اور بذلہ سنجیوں سے آباد رہتی۔ اکیڈمی کے دن پر لگا کر اڑتے چلے گئے۔ میری خوش نصیبی کہ میں بھی اسی کے ساتھ ڈی ایم جی میں تھا۔ اس لیے ہم لوگ مال روڈ پر سول سروسز اکیڈمی میں رہ گئے اور باقی تمام گروپ بکھر گئے۔
یوں مجھے مزید اس شخص کی معیت میسر آ گئی۔ لیکن تقریباً نو ماہ بعد میں نے بلوچستان میں نوکری کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا اور وہاں چلا گیا اور وہ پنجاب کے خالص افسرانہ ماحول کا حصہ بننے نکل کھڑا ہوا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایسا شخص بیورو کریسی کے کاٹ دار اور ایک دوسرے کی لاش پر کھڑے ہو کر قد بلند کرنے والے ماحول کا حصہ نہیں بن سکتا۔ وہی ہوا، چند پوسٹنگ اور پھر اس شخص کو سول سروسز اکیڈمی کے علمی ماحول میں پناہ ملی جہاں اس نے آٹھ سال ٹریننگ کرواتے گزار دیے۔ لیکن اس شخص سے میرا رابطہ ایسے ہی قائم رہا جیسے پردیس میں آباد لوگوں کا اپنے علاقے کی ہواؤں سے رہتا ہے۔ وہ ایک خوشبو اپنے دامن میں لیے پھرتا ہے اور جو کوئی اس شہر لاہور میںآتا ہے اسے زبردستی اس خوشبو کی لپیٹ میں لیتا ہے۔ آج بھی اس کا دسترخوان وسیع بلکہ دن بدن وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
لیکن مجھے اس بات کا ادراک تک نہ تھا کہ میرا دوست جس سے میں ہر طرح کی بے تکلقی سے کلام کر لیتا ہوں، جس سے میرا دوستی کا ایسا رشتہ ہے کہ کسی حجاب اور مرتبے کا اس میں گزر نہیں، وہ شخص ایک دن کچھ ایسا کرگزرے گا کہ مجھے اس کی جانب ایسے دیکھنا پڑے گا کہ جیسے کسی بلند و بالا عمارت کو دیکھتے ہیں اور میں اس کے سامنے ایک بونا اور بالکل بے حیثیت سا ہو کر رہ جاؤں گا۔ میں اس کا دوست تھا لیکن اب میں اس کا مداح ہوں، اس سے مرعوب، اس کا ارادت مند اس کے حلقہ اثر کا خوشہ چیں، حیران ہوں یہ وہی کھلنڈرا، متلون مزاج جاوید نثار سید ہے۔ لیکن یہ تو میرے اللہ کی عطا ہے، وہ جسے عطا کر دے، ہم تو بس فخر کر سکتے ہیں کہ ہم نے اس بہت بڑے شخص کے ساتھ چند دن گزارے ہیں اور وہ ہمیں اپنا دوست کہتا ہے۔
جاوید نثار سید کو ورثے میں اپنے والد کی طرف سے دوائیاں بنانے والی ایک بہت بڑی فیکٹری Helicon Pharma ملی۔ وہ خوشحال لوگوں میں سے ہے جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سول سروس میں ڈی ایم جی گروپ کا تڑکہ، کسی بھی شخص کو تکبر کی وادیوں میں بھٹکانے کے لیے یہ بہت سامان تھا۔ گزشتہ سال وہ حسب عادت ’’بارہویں کامن‘‘ کی ایک ملن پارٹی میں شریک تھا جو پنجاب کے گورنر ہاؤس کے سبزہ زار میں ہو رہی تھی۔ پارٹی کے دوران اسے سٹروک ہوا، وہ خود اسپتال گیا، ڈاکٹروں نے کہا، معجزاتی طور پر بچ نکلا ہے، کچھ عرصے بعد اسے دل کا شدید دورہ پڑا، اللہ نے اسے صحت یابی عطا کی، لیکن اس سب کے بعد وہ بالکل بدل چکا تھا۔ ایک ایسا انسان جس نے اپنی باقی زندگی کو غنیمت جانا اور سوچا کہ یہ تو ایک وارننگ تھی اور باقی زندگی کو خلق خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔ اس کی دوائیاں بنانے والی کمپنی 80 دوائیاں بناتی ہے۔ اس نے ان میں سے 40 اہم ادویات کو وقف کر کے 24 جولائی 2014ء کو ’’میڈی بینک‘‘ کے نام پر ایک ٹرسٹ قائم کر دیا۔ ان ادویات کی سالانہ آمدنی ایک ارب بیس کروڑ روپے ہے۔
یہ ٹرسٹ کسی بھی قسم کی امداد اور چندہ وصول نہیں کرتا۔ بڑے لوگ بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ اس نے اس ٹرسٹ کو اپنے ’’بارہویں کامن‘‘ کے نام مسنون کر دیا۔ یوں میرے جیسے گناہگار اور ناکارہ شخص کے ہاتھ میں بھی ایک پرچی آ گئی جو یقیناً اللہ کے حضور کام آئے گی لیکن وہ جاوید نثار جو یہ پرچی تقسیم کرتا ہے، میں سوچتا ہوں تو اس کے بلند مقام کا تعین ہی نہیں کر پاتا۔ بس اپنی کم مائیگی اور کوتاہیوں پر شرمندہ سا ہو جاتا ہوں۔ یکم رمضان کو قائم ہونے والا یہ میڈی بینک ٹرسٹ، اسپتالوں میں میڈی بینک کھولتا ہے جہاں ڈاکٹروں کی تشخیص پر مستحق اور نادار لوگوں کو مفت دوائیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس وقت بارہ اسپتالوں اور چالیس سیٹلائٹ کلینک میں یہ بینک قائم کر دیے ہیں۔ جن میں اسلام آباد کا پمز، کراچی کے عباسی شہید، جناح پوسٹ گریجویٹ، ریلوے حسن اسپتال، سروسز اسپتال پشاور کا، ریلوے اسپتال، ایبٹ آباد کا ایوب اسپتال اور لاہور کا ریلوے اسپتال شامل ہیں۔ سیٹلائٹ کلینک وہ ہیں جہاں ڈاکٹر یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی نسخہ لکھنے کی فیس نادار مریضوں کو معاف کر دیں گے تو ان کے کلینک پر میڈی بینک مفت ادویات فراہم کرے گا۔
میڈی بینک ان چالیس کلینکوں کو بڑھا کر پانچ سو ایسے کلینوں تک رسائی چاہتا ہے اور ملک کے ہر اسپتال میں اپنا فری میڈی بینک قائم کرنا چاہتا ہے تا کہ کوئی نادار اور غریب اس لیے علاج سے محروم نہ رہ جائے کہ وہ دوائی نہیں خرید سکتا۔ ان کے پاس موجود موجودہ رقم سے اندازہ ہے کہ پانچ سو سٹلائٹ کلینک اور 50 اسپتالوں میں فری میڈیسن سینٹر قائم کیے جا سکتے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں پانچ ہزار کلینک اور 500 میڈیسن بینک قائم ہو جائیں گے۔ Helicon کمپنی پاکستان کی پانچ معیاری کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کی فراہم کردہ ادویات معیار کی ضمانت ہیں۔ میں میڈی بینک کے نمبر یہاں تحریر کررہا ہوں کہ کوئی ڈاکٹر اگر اپنی نسخے کی فیس معاف کر کے یا کوئی اسپتال اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہے، یا پھر کوئی اور ایسا شخص جو اس طرح کی ادویات کا بینک قائم کرنا چاہے وہ اس شمع سے روشنی لے سکے۔Ph:042-35726183, Call:0300-4135120,0333-4172797,Medi Bank Trust@facebook.com, medibank trust@gmail.com
یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میرے اس دوست نے مجھے راستہ دکھایا ہے، نجات کا، اپنے گناہوں کے کفارے کا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’سخی اللہ کا دوست ہے کہ چاہے فاسق اور فاجر کیوں نہ ہو۔‘‘ میرا دوست تو اللہ کا دوست ہے اور کیسا عظیم دوست ہے جس نے پورے ’’بارہویں کامن‘‘ کو بھی اس دوستی میں شریک کر لیا ہے۔ اس کی سخاوت کی عادت نے اللہ سے دوستی میں بھی سخاوت کو ترک نہیں ہونے دیا۔ ایسے شخص کو میں دوست نہیں محبوب کہہ سکتا ہوں۔ ایک ایسا محبوب جس کے کردار کی روشنی نے سول سروس کے چہرے پر بھی روشنی بکھیری ہے۔
شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (آخری قسط)
اوریا مقبول جان جمعـء 23 اکتوبر 2015
شام کی سرزمین پر جو جنگ و جدل اور خونریزی ہے اور جس طرح مغربی طاقتیں امریکا اور روس اس پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسی طرح مسلم امّہ کی دو طاقتیں سعودی عرب اور ایران بھی وہاں اپنے غلبے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکا اور روس کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ ہمارے اس خطے میں مفادات کی جنگ ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران اسے مسلک کا لبادہ اوڑھا کر منافقت کرتے ہیں اور اپنے علاقائی ایجنڈے کو حق و باطل کی جنگ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ نہ شیعہ کی لڑائی ہے اور نہ سنی کی، یہ وہ قتل و غارت اور خانہ جنگی ہے جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مارچ 2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بھی ویسی ہی عوامی تحریک اٹھی تھی جیسی مصر، تیونس، مراکش، لیبیا اور یمن میں تحریکیں اٹھیں۔ پہلی جماعت جس نے بشارالاسد کے خلاف تحریک سے جنم لیا اسے حساّن عبود ابو عبداللہ نے منظم کیا، جسے حرکتِ احرار الشام الاسلامیہ کہتے ہیں۔ گیارہ نومبر 2011ء کو اس نے اپنے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی عالمی جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دوران بشارالاسد کے مظالم اسقدر شدید ہو گئے کہ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور بھوک کا عالم یہ تھا کہ لوگ مردہ جانوروں کا گوشت تک کھا کر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔
اس ظلم کے ردعمل میں بشار حکومت کے خلاف ہر علاقے میں جہادی گروہوں نے جنم لینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے ایک عالمِ دین امیر زہران علوش کو مکمل امداد کے ساتھ وہاں بھیجا جس نے جیش الاسلام کے نام سے تنظیم بنائی۔ یہ غوطہ شہر پر قابض ہیں اور انھوں نے دمشق پر حملہ کرنے کے لیے درجنوں سرنگیں کھود رکھی ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے شام کے وزیرِ انصاف کو دمشق کے ریڈ زون سے اغوا کیا اور بدلے میں پانچ سو قیدیوں کو چھڑایا۔ 22 نومبر 2013ء کو حسان عبود نے ان تمام تنظیموں کو اکٹھا کیا اور گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے بعد “الجبہۃالاسلامیہ” کا اعلان کر دیا۔
اس اتحاد میں کردوں کی بہت بڑی تنظیم الجبہۃ الاسلامیہ کردیہ بھی شامل تھی۔ یہ وہ موڑ تھا جس سے عالمی طاقتوں کو اس کھیل میں کودنے کا موقع ملا۔ سعودی عرب کی جیش الاسلام کی حمایت کے بعد ایران ویسے تو بشارالاسد کی پہلے سے ہی مدد کر رہا تھا، لیکن اب وہ کھل کر سامنے آ گیا۔ اپنے پاسداران اور بسیج کے نوجوانوں کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا اور دنیا بھر میں اسے حق و باطل کا معرکہ قرار دے کر لوگوں کو وہاں لڑنے کے لیے اکسایا۔ اس وقت وہاں ایران کی مدد سے تین ملیشیا لڑ رہے ہیں جو کہتے ہیں ہم اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب دولتِ الاسلامیہ یعنی داعش کو اٹھایا گیا تا کہ کسی طور پر بھی شام کی سنی اکثریت جو دس فیصد علوی بشارالاسد کے پرتشدد عہد میں رہ رہی ہے وہ متحد نہ ہو نے پائے۔ داعش کے قیام میں عراق اور شام کی حکومتوں نے جس طرح تعاون کیا اس کی مثال عراق میں موصل اور شام میں تدمر کے شہروں کی داعش کے ہاتھوں فتح ہے۔ موصل کو چھوڑتے ہوئے عراقی فوجی اپنا اسلحہ، ٹینک، دیگر ساز و سامان داعش کے لیے چھوڑ گئی۔
اسی طرح شام کے شہر تدمر کو جب بشارالاسد کی فوجوں نے خالی کیا تو جدید اسلحہ، گولہ بارود اور ٹینک داعش کے لیے چھوڑ گئے۔ گزشتہ تین سالوں سے شام کی فوج حمص شہر پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دو ماہ پہلے وہ وہاں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ اب ان سے بشارالاسد کی یہ لڑائی لڑنے کے لیے داعش جا رہی ہے جو حمص سے چند کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ شام کے شہر لاتاکیہ میں ایرانی فوج کا جرنیل قاسم سلیمانی پہنچ چکا ہے جس کی تصاویر رائٹرز نے جاری کیں، جب وہ ایرانی پاسداران اور حزب اللہ کے دستوں سے مشترکہ خطاب کر رہا تھا۔
اب یہ میدان بہت گرم ہونے جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 3 دسمبر 2014ء کو جب گیارہ جماعتوں کے اتحاد کا اجلاس ادلب میں ہو رہا تھا جس میں حسان عبود سمیت تمام قائدین جمع تھے تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوا جس میں سب کے سب جاں بحق ہو گئے۔ یہ سب اس وقت “وحدت الصف” یعنی ایک ساتھ لڑنے کا طریقہ کار طے کر رہے تھے۔ اس کے بعد سے ہر کوئی اپنے طور پر لڑ رہا ہے۔ اس دوران داعش نے اپنی جگہ بنا لی ہے، کیونکہ اس کا ایک خفیہ اتحاد بشارالاسد کی افواج سے ہے اسی لیے شام میں داعش نے اب تک صرف دیگر جہادی تنظیموں سے ہی جنگ کی ہے۔
روس، عراق اور ایران کے اتحاد اور امریکی حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ جنگ بہت طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سب طاقتیں مل کر بشارالاسد کو مستحکم اور مضبوط بنا دیں گی۔ یہ جنگ جسے ایران اور سعودی عرب نے حق و باطل کی جنگ بنا کر مسلم امّہ کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے، دراصل وہ فساد ہے جس کی نشاندہی میرے آقا سید الانبیاء ﷺ نے کی تھی۔ آپ ذرا احادیث کو ترتیب سے دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے چودہ سو سال پہلے آپﷺ نے کیسے خبردار کیا تھا۔
فرمایا “جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے (الفتن)، عنقریب تم افواج کو پاؤ گے شام، عراق اور یمن میں ( البیہقی)، خبردار کرتے ہوئے فرمایا “جب شام میں فساد ہو تو تمھاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل)۔ حضرت اسحٰق بن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیںکہ “جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہوں تو اہلِ شام کو زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں (السنن الواردۃ الفتن)۔ ان احادیث کو موجودہ زمانی ترتیب سے دیکھ لیں۔ عرب بہار کا آغاز سب سے پہلے مصر سے ہوا اور جیسے وہیں تحریر اسکوائر پر چار انگلیوں والے پیلے رنگ کے جھنڈے بلند ہوئے اور ادھر بشار الاسد کی فضائیہ نے نہتے عوام پر حملے شروع کر دیے اور اب تو پوری دنیا شام کے عوام پر حملہ آور ہے جنھیں آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق زمین دوز سرنگیں کھود لینا چاہیں۔
یہ فساد جو اس وقت برپا ہے اس کا انجام کیا ہو گا۔ ایک تو وہ تجزیہ ہے جو سیاسی، عسکری اور عالمی تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ یہی تجزیے آپ کو نیویارک، لندن، تہران اور ریاض کے اخباروں میں ملیں گے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے تجزیہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک تجزیہ وہ ہے جو رسولِ اکرم ﷺ کی احادیث کی اور پیش گوئیوں کی روشنی میں ہے، اور وہی حق ہے کہ صادق و امین پیغمبر کی زبان سے جاری ہوا ہے۔
اس سارے فساد اور لڑائی سے کسی خیر کی کوئی توقع نظر نہیں آ رہی بلکہ اس کے بطن سے شام پر ایک شخص کی حکومت قائم ہو گی “جس کا نام عبداللہ ہو گا اور وہ سفیانی کے نام سے مشہور ہو گا، اس کا خروج مغربی شام میں اندر نامی جگہ سے ہو گا” (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔ دوسری روایت “ام المومنین امِ سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ سفیانی کا خروج شام میں ہو گا، پھر وہ کوفہ کی جانب روانہ ہو گا تو مدینہ منورہ کے جانب بھی لشکر روانہ کرے گا، چنانچہ وہ لوگ وہاں لڑائی کریں گے جب تک اللہ چاہے، اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ایک پناہ لینے والا حرم شریف میں پناہ لے گا، لہٰذا وہ لشکر اس کی طرف نکلیں گے تو جب یہ لوگ مقامِ بیداء میں پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا سوائے ایک شخص کے جو لوگوں کو ڈرائے گا (علل ابن ابی حاتم)۔ اس دھنسانے کے واقعہ کے بعد اس بڑی عالم گیر جنگ کا صحیح آغاز ہو گا۔ اس لیے وہ پناہ لینے والے شخص امام مہدی ہونگے جن کے بارے میں تمام مسالک متفق ہیں۔
امت اس وقت جس انتشار اور فساد میں مبتلا ہے اس کو متحد صرف انھی کی ذاتِ گرامی کرے گی۔ ان کا ہیڈ کوارٹر شام کا شہر غوطہ ہو گا۔ سفیانی کے دھنسائے جانے کے بعد جو جنگ شروع ہو گی اس بارے میں فرمایا “جب رومی جنگِ عظیم میں اہلِ شام سے جنگ کریں گے تو اللہ دو لشکروں کے ذریعے اہلِ شام کی مدد کرے گا، ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ80 ہزار اہلِ یمن سے جو اپنی بند تلواریں لٹکائے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں (الفتن)۔ مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر ہو گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا “اہلِ روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچیں گے۔
ان کی جانب ایک لشکر مدینہ کی طرف سے پیشقدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگ قید کر کے لائے ہیں، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے۔ مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہر گز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ اس پر تم ان سے جنگ کرو گے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کر دیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کریں گے (مسلم، ابنِ حباّن)۔ یہ ہے وہ میدانِ جنگ جو سیدنا امام مہدی کی سربراہی میں برپا ہو گا۔ اس وقت امتِ مسلمہ جس افتراق، انتشار، خانہ جنگی اور مسلکی بنیاد پر قتل و غارت کا شکار ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو حق سمجھتا ہے۔ مفادات نے مسالک میں پناہ لے لی ہے۔ ذاتی تعصب کو لوگ حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہیں۔
مغرب سے مغلوبیت اور ان کی کاسہ لیسی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ ارب مسلمان کیا کسی ایک جگہ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔ ہاں صرف اسی وقت اکٹھا ہوں گے جب اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق سیدنا امام مہدی جیسی قیادت ان کے درمیان موجود ہو گی۔ حالات و واقعات اسی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس فساد نے ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر ختم کرنا ہے اور اس کی کوکھ سے اتحاد نے جنم لینا ہے۔ (ختم شد)
شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (دوسری قسط)
اوریا مقبول جان پير 19 اکتوبر 2015
وہ طاقتیں جنہوں نے یہ آخری عظیم جنگ مسلم امہ کے خلاف لڑنی ہے‘ ان کا ہیڈ کوارٹر اور مرکز تو یروشلم میں ہو گا اور دنیا بھر کا یہودی اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے ایک جذبہ ایمانی کے ساتھ گزشتہ ایک سو سال سے وہاں جا کرآباد ہو رہا ہے۔ اس ملک کو ایک بڑی فوجی اور ایٹمی قوت کے طور پر مستحکم کیا جا رہا ہے۔ چودہ سو سال قبل جب سید الانبیاء ﷺ اس دجالی ہیڈ کوارٹر کے بارے میں خبردار کر رہے تھے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ایسا کب اور کس طرح ہوگا۔
اگر یروشلم دجال یا پھر یہودی مسیحا کا ہیڈ کوارٹر اور مرکز ہو گا تو پھر اس سے لڑنے والی مسلمان افواج کا مرکز کونسا مقام ہوگا۔ سیدالانبیاءﷺ نے اس کی بھی وضاحت فرما دی۔ ’’حضرت ابو لدردا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (ہیڈ کوارٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ’’الغوطہ‘‘ کے مقام پر ہو گا‘‘ (سنن ابو داؤد‘ مستدرک‘ الغنی لا بن قدامہ)۔ الغوطہ شام کے دارالحکومت دمشق سے ساڑھے آٹھ کلو میٹر پر ہے۔ موجودہ شام اس بڑے شام کا حصہ ہے جو رسول اکرمﷺ کے زمانے میں اردن‘ فلسطین اور لبنان پر مشتمل تھا۔
آج کا شام جنگ و جدل اور قتل و غارت کا شام ہے۔ عرب دنیا میں 2011 میں اٹھنے والی آزادی اور انقلاب کی تحریکوں میں شام کی تحریک جس طرح خانہ جنگی اور قتل و غارت میں تبدیل ہوئی ہے اس کی مثال عرب دنیا کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایسے لگتا ہے پوری مسلم امہ کا انتشار شام میں آ کر جمع ہو گیا ہے اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا مرکز بھی شام ہی ہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے دنیا کے بارے میں یہ تصور عام ہو چکا تھا کہ اب یہ صرف ایک ہی عالمی طاقت امریکا کے زیراثر ہے اور روس ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن شام کی خانہ جنگی نے بیس سال پہلے کے میدان جنگ کو پھر تازہ کر دیا۔ یہ دونوں عالمی طاقتیں روس اور امریکا میدان میں بعد میں کودے ہیں جب کہ مسلم دنیا کے دو ممالک ایران اور سعودی عرب‘ خالصتاً علاقائی بالادستی کے لیے پہلے دن سے میدان میں اتر چکے تھے۔
بشار الاسد کی حکومت کو بچانے یا اسے گرانے کی کوشش ایسے لگتا ہے شیعہ سنی جنگ میں تبدیل کر دی گئی ہے حالانکہ اس کے پس پردہ محرکات میں ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب اور قطر کی شام کے علاقے میں بالادستی کی جنگ ہے۔ ورنہ بشار الاسد علوی عقیدہ رکھنے والے افراد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ سنی گزشتہ ایک ہزار سال سے متفق ہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ کس قدر چالاکی اور ہوشیاری سے ایران اور دیگر مسلم ممالک نے اسے ایک شیعہ سنی لڑائی میں تبدیل کر کے پوری ملت اسلامیہ کو فتنہ و فساد میں مبتلا کر دیا ہے۔ آئیے دیکھیں وہاں کون کون سے گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ان کو کس طاقت کی حمایت حاصل ہے۔
پہلا گروہ جس نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کا رخ ہتھیار اٹھانے کی طرف موڑا، وہ جبۃ النصرہ تھا۔ 2012 میں عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے بشار الاسد نے طاقت کا استعمال شروع کیا‘ چار لاکھ کے قریب لوگ ہجرت کر کے لبنان اور اردن میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ ہجوم پر براہ راست فائرنگ کر کے انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں عراق میں القاعدہ نے 12 لڑکوں کو ابو ماریہ القحطانی کی سربراہی میں شام بھیجا تاکہ وہاں بشار الاسد کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرے۔ یہ تمام لڑکے شام سے عراق لڑنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے ساتھ شام کے افراد کو ملایا اور کچھ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینا شروع کیا۔ ان کے ساتھ اردن کے بہت بڑے عالم ڈاکٹر سامی العریبی بھی آکر مل گئے۔
یہ وہی ڈاکٹر سامی ہیں جنہوں نے موجودہ دور میں حدیث کے سب سے بڑے شارح علامہ ناصر البانی سے 23 سال کی عمر میں مناظرہ کیا تھا کہ مسلمان دنیا کے تمام حکمران کافر ہیں۔ اس وقت جبۃ النصرہ کی قیادت ابو محمد الجولانی کے پاس ہے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور جبۃ النصرہ کے پاس شمال میں ادلب اور جنوب میں دران اور کونیترہ کا علاقہ ہے۔ الدولۃ الاسلامیہ یعنی داعش نے جب عراق اور شام میں اپنی حکومت کا اعلان کیا تو ان کی لڑائی ان کے ساتھ بھی شروع ہوئی۔ 3 جنوری 2013ء کی لڑائی بہت خونریز تھی۔ اس وقت النصرہ کے کافی افراد داعش کے ساتھ جا ملے ہیں۔ جس طرح القاعدہ کے اپنے مالی امداد کے ذرایع تھے جو خفیہ طور پر ان کی مدد کرتے تھے اسی طرح یہاں پر ان گروہوں کے پس پردہ لوگ بھی واضح نہیں ہیں۔
دوسرا گروہ جیش الاسلام ہے۔ اس کی سربراہی شیخ زاہران اللوش کے پاس ہے۔ ان کے والد سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے‘ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ اصل وطن دوحہ ہے لیکن یہاں اس لڑائی میں اپنے گروہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ جیش الاسلام کے پاس ’’الغوطہ‘‘ کا مشرقی علاقہ ہے۔ اس گروہ کی مدد اور اعانت سعودی حکومت سے کی جاتی ہے۔ شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والوں کی سب سے بڑی قوت حرکت و احرار الشام الاسلامیہ ہے۔ جسے حسان عبود نے قائم کیا۔ یہ انگریزی کے استاد تھے اس کی سربراہی حمہ کے سبیل القاب کے پاس ہے۔ حرکت احرار کے پاس دو مکمل صوبے طرطوس اور سویدا کا کنٹرول ہے۔ اس تنظیم کو ترکی کی مکمل مدد حاصل ہے۔ ترکی اس وقت شام کے معاملات میں دلچسپی لینے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 18 لاکھ شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں جن پر ترکی کا تقریباً 6 ارب ڈالر خرچہ اٹھ رہا ہے۔ حرکت و احرار کو بھی شام میں معتدل قوت سمجھا جاتا ہے۔ مصر کے اخوان المسلمون کی ایک تنظیم لواء التوحید عبدالقادر الصالح کی سربراہی میں شام میں قائم ہوئی لیکن 2013 میں ان کے ایک معرکے میں جاں بحق ہونے کے بعد تقریباً دم توڑ چکی ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی دو تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایک الجیش السوری الحر ہے جسے عرف عام میں فری سیرین آرمی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بشار الاسد کی فوج سے باغی ہوئے اور انھوں نے اپنا ایک گروہ بنا لیا۔ اس گروہ کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حمایت اور فوجی معاونت حاصل ہے۔ دوسرا گروہ کردستان ورکرز پارٹی ہے۔ یہ لوگ کرد علاقوں میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقصد وہاں کا کنٹرول حاصل کرکے ترکی میں کرد آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ مغرب اور امریکا کی مدد ان کو بھی حاصل ہے۔ دوسری جانب بشار الاسد کی حمایت میں پہلے ایران کے پاسداران آ کر لڑتے رہے اور اب ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی سربراہی میں اپنی افواج بھی اتار دی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ پوری دنیا سے اپنے ہم مسلک افراد کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ان کے دو گروہ وہاں دیگر سنی گروہ سے لڑ رہے ہیں۔ ایک لواء الفضل العباس ہے جس میں عراقی شیعہ شامل ہیں جب کہ دوسرا گروہ زینبیہ ہے جس میں پاکستان اور بھارت سے گئے ہوئے اہل تشیع کے افراد ہیں۔
حسن نصر اللہ نے اسرائیل سے اپنی جنگ گزشتہ کئی سالوں سے ترک کی ہوئی ہے اور اب حزب اللہ صرف شام میں لڑ رہی ہے۔ شام میں اکثریت سنی العقیدہ عوام کی ہے جس پر دس فیصد سے بھی کم علویوں کی حکومت بشار الاسد کی آمریت کے ذریعے قائم ہے۔ شام میں اثنا عشریہ شیعوں کی آبادی صرف فواء کے شہر میں ہے۔ حرکت الاحرار کی ایک ہزار توپیں اس شہر کے ارد گرد نصب ہیں جس کی وجہ سے حزب اللہ حرکت کے ساتھ لڑائی نہیں کرتی۔ پوری دنیا میں الدولۃ اسلامیہ یعنی داعش کا تذکرہ ہے حالانکہ وہ صرف صحرائی علاقوں پر قابض ہے جس میں رقہ‘ دیرالزور اور حمص شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بشار الاسد کی افواج اور داعش میں شمال اور مشرق کے محاذ پر ایک سمجھوتہ ہے۔
اس پورے محاذ کا 45 کلو میٹر بشار کی افواج کے پاس ہے اور باقی پوری سرحد پر داعش تمام دیگر سنی تنظیموں کے حملوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی عالمی طاقت نے حملہ کرنا ہو تو نام داعش کا استعمال کیا جاتا ہے اور حملہ باقی تنظیموں پر کیا جاتا ہے۔ پہلے امریکا اور اس کے اتحادی حرکت الاحرار اور جبۃ النصرہ پر فضائی حملے کرتے تھے جس سے داعش مضبوط ہوتی تھی اور بشار الاسد کی حکومت ڈگمگاتی تھی‘ ان حملوں میں الجیش السوری الحر کو مدد فراہم کی جاتی تاکہ وہ مضبوط ہو۔ اب روس‘ ایران اور عراق مل کر الجیش السوری پر حملہ کرتی ہے تاکہ امریکا وہاں مضبوط نہ ہو۔
(باقی آیندہ)
شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (پہلی قسط)
اوریا مقبول جان جمعـء 16 اکتوبر 2015
گزشتہ چودہ صدیوں سے مسلمان اس زمین پر آباد ہیں۔ ان کی داستان عروج سے زوال کی دردناک کہانی ہے۔ حالی نے جب مدّ و جزرِ اسلام پر مسدس لکھی تو اس کا آغاز اس مصرعے سے کیا “پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے” تھا۔ پستی کی انتہا جس کو حالی نے اس وقت محسوس کیا تھا۔ اس کے بارے میں درد مندانِ ملت یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علاج موجود ہے۔
اسی زمانے میں پورے عالمِ اسلام میں خوابیدہ ملت کو جگانے کی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک سے لے کر تحریکِ خلافت تک ایک بیداری کی لہر تھی جو نہ صرف برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں دوڑی بلکہ افریقہ میں مہدی سوڈانی، مصر میں اخوان، انڈونیشیا میں ماشومی جیسی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔
ملت کو اقبال جیسا ہدی خوان میسر آیا جس نے عجم میں آباد مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کیں۔ ان تمام تحاریک اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے علمبرداروں کی کاوشیں اور محنتیں اس وقت بکھر کر رہ گئیں جب مسلم دنیا جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہر کوئی سرحدوں میں قید اپنے ملکوں پر مسلط کیے گئے حکمرانوں سے لڑنے میں مصروف ہو گیا۔ ان ستاون کے قریب اسلامی ملکوں میں جتنے بھی حکمران تھے ان میں اکثریت سیکولر ڈکٹیٹروں کی تھی۔
ہر ملک میں ان سیکولر ڈکٹیٹروں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر، انورالسادات، حسنی مبارک، عراق میں احمد حسن البکر، صدام حسین، شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد، لیبیا میں معمر قذافی، پاکستان میں ایوب خان، یحییٰ خان، پرویز مشرف۔ سعودی عرب اور ایران کو چھوڑ کر پوری عرب دنیا اور مسلم خِطوں میں تمام کے تمام حکمران خواہ ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری سیکولر قومی ریاستی اقدار کے پاسبان ہیں۔ کوئی سیکولر جمہوری ہے تو کوئی سیکولر ڈکٹیٹر۔ یہ سب کے سب مسلمانوں کی چودہ سو سال کی تاریخ، روایت، اقدار اور طرزِ زندگی کا الٹ ہیں۔ چودہ سو سال میں مسلمانوں میں حکمران خلافت اور ملوکیت دونوں طرز کے رہے لیکن 1924ء تک مسلم دنیا میں اسلامی اصولوں پر مبنی تمام ادارے قائم رہے۔
اسلام کا تعزیراتی نظام نافذ رہا اور عدالتی نظام بھی اسی طرح قائم رہا۔ مسلمانوں کا معاشی نظام 1924ء تک ترکوں کے “سوک” تک چلتا تھا جس میں سود نام کی چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مجلہ عدلیہ الاسلامیہ بھی اسی دور تک نافذ رہا جس سے تمام اسلامی معاشی اصول نافذ کیے جاتے تھے۔ تمام تعلیمی ادارے اسلامی اصولوں کے تحت تعلیمی نظام چلاتے تھے۔
جدید سیکولر قومی ریاستوں کے وجود کے بعد مسلم امت پر مسلط سیکولر ڈکٹیٹروں نے اپنے ملکوں میں سیکولر اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کی۔ امت کے وہ لوگ جو چودہ سو سال سے ایک مختلف طرزِ زندگی کے عادی تھے ان میں اوّل اوّل تو شدید نفرت کے جذبات ابھرے۔ یہی وجہ ہے اس دور کا لکھا گیا اسلامی ادب مزاحمتی ادب کا پیکر تھا۔
مولانا ابوالاعلٰی مودودی اور سید قطب اس دور کے درخشندہ ستارے تھے جن کی تحریروں نے امت کے پژمردہ اور مایوس جسم میں انقلاب کی روح پھونکنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد ہرمسلم کہلانے والے ملک میں ایک گروہ ایسا ضرور پیدا ہو گیاجو اپنے ماضی کی طرف لوٹنا چاہتا تھا جس میں ان کے دین کو معاشرتی زندگی پر غلبہ حاصل تھا۔ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا المیہ یہ تھا کہ ان میں ہر کوئی عالمی سیاسی نظام کا محتاج اور عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھا۔
ان عالمی طاقتوں نے جو عالمی سیاسی نظام وضع کیا تھا اس میں جمہوریت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ایسی جمہوریت جو سیکولر اقدار پر استوار ہو۔ اسی لیے الجزائر اور مصر میں جب ایسے لوگ جمہوری طور پر برسرِ اقتدار آئے جو اسلامی نظامِ حکومت کے داعی تھے تو انھیں بزور طاقت کچل دیا گیا۔ افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے، خود ایک آئین تحریر کیا گیا، اپنی نگرانی میں الیکشن کرائے گئے اور طاقت کے زور پر جمہوریت نافذ کر دی گئی۔
یہ گزشتہ سو سال کی مایوسی، ناکامی، نامرادی، عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی، تشدّد، شدید قتلِ عام، اور ہر سطح پر عدم شنوائی تھی جس کی وجہ سے چیچنیا سے شام، یمن سے عراق، لیبیا سے صومالیہ اور فلسطین سے کشمیر تک ہر جگہ مسلح جدوجہد کے سوا اب کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کیا یہ سب فساد کسی دن امن کے خوبصورت مستقبل میں بدل جائے گا یا پھر ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ اس امت کے ہر مرد و زن کے چہرے پر لکھا ہوا سوال ہے۔
جو لوگ سیدالانبیاء ﷺ کے علمِ حدیث کے دریا میں غوطہ زن ہیں، ان کے نزدیک اب امن نہیں بلکہ ایک طویل خونریزی اور بہت بڑی جنگ ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ دورِ فتن ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا “تم پر چار فتنے آئیں گے، پہلے فتنے میں خونریزی کو حلال سمجھا جائے گا، دوسرے فتنے میں خون اور مالوں کو حلال سمجھا جائے گا، تیسرے فتنے میں خون، مال اور شرمگاہوں کو حلال سمجھا جائے گا، اور چوتھا فتنہ بہرا، اندھا اور سب پر چھا جانے والا ہو گا، وہ سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا حتٰی کہ لوگوں میں کسی ایک کے لیے بھی اس فتنے سے بچنے کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔
یہ فتنہ ملک شام میں پھرے گا اور عراق کو ڈھانپ لے گا اور جزیرہ عرب کو اپنے ہاتھ اور پاؤں سے روند ڈالے گا”۔ (کتاب الفتن، نعیم بن حماد؛ 89) یہ ہے وہ ترتیب جو میرے آقا نے دورِ فتن کے دوران آنے والے فتنوں کے بارے میں بتائی۔ اس دورِ فتن کے آخر میں ایک بہت بڑی جنگ ہے جس میں حق کی فتح اور اسلام کا غلبہ ہے۔
حضرت ابراہیم کی نسل سے تین مذاہب نے جنم لیا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ ان تینوں مذاہب کے لوگ اس جنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم اس پر پختہ ایمان صرف اور صرف یہودیوں کا ہے، اور انھوں نے اجتماعی طور پر پختہ یقین کے ساتھ اس کے لیے ہجرت بھی کی ہے۔ ذرا چند لمحوں کے لیے یہ تصور کیجیے کہ آپ یورپ یا امریکا کے کسی بڑے شہر میں آباد ہیں۔ آپ کا وہاں وسیع کاروبار ہے۔ آپ کا وہاں بہت بڑا گھر ہے، جس میں آپ کئی دہائیوں سے امن، سکون اور عیش و عشرت سے رہ رہے ہیں۔
آپ یا آپ کی کم از کم گزشتہ چھ سات نسلوں کا یروشلم سے گزر تک نہیں ہوا کہ آپ کی کوئی جذباتی وابستگی اس شہر یا اس کے گرد و نواح کے ساتھ ہو۔ آپ کی قوم پر گزشتہ دو ہزار سال سے افتاد ضرور ٹوٹی ہے، آپ کو دنیا بھر میں شدید نفرت کا سامنا رہا ہے۔ مگر اب تو حالات بدل چکے۔ اب تو معاشی، سیاسی، بینکاری اور میڈیا تک کی قوتیں آپ کے ہاتھ ہیں۔
آپ کا دنیا کے فیصلہ کرنے والے مراکز پر قبضہ ہے۔ ایسے حالات میں آپ سے یہ کہا جائے کہ جزیرہ نمائے عرب کے ایک کونے اور صحرائے سینا کے دامن میں جا کر آباد ہو جاؤ۔ ایسا علاقہ جہاں نہ پانی میسر ہے نہ بجلی، نہ کوئی شہری آبادی ہے اور نہ ہی شہری سہولیات کا تصور۔ تو یقینا آپ اسے پاگل پن کہیں گے۔ لیکن یہودی 1920ء سے آہستہ آہستہ اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی علاقوں میں جہاں چاروں جانب ریت اور اردگرد آباد دشمن۔ جنگِ عظیم دوم آئی یہودیوں پر شدید ظلم و ستم ہوا لیکن وہ ڈٹے رہے اور اتحادی افواج کی فتح کے بعد وہ ان ملکوں میں مستحکم ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اب انھی ملکوں میں رہتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے۔ لیکن وہ یروشلم کے آس پاس آ گئے، انھوں نے ایک خود مختار قومی ریاست بنائی، اسے سیکولر نہیں مذہبی ریاست رکھا اور تورات کو اس کا آئین قرار دیا۔ ریاست بنتے ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی لیکن کسی یہودی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہ ہوا، کوئی اسرائیل چھوڑ کر نہ بھاگا۔ بلکہ آج دن تک امریکا اور یورپ کے خوشحال یہودیوں کا وہاں آ کر آباد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ سب یہاں کاروبار کرنے، شہر آباد کرنے یا کسی پر فضا مقام پر زندگی گزارنے کے لیے جمع نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی عالمگیر جنگ کے لیے جمع ہو رہے ہیں، جس کے بعد انھیں یقین ہے کہ ان کی ایک ایسی حکومت قائم ہو گی جو پوری دنیا پر حکمران ہو گی اور جس کا ہیڈکوارٹر یروشلم ہو گا۔ جہاں ان کا مسیحا آئے گا، ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر ہو گا اور وہ اپنا عروج دیکھیں گے۔
کیا تمام مسلم امہ میں دس فیصد لوگوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ وہ سب کے سب ہم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے منبر و محراب پر سید الانبیاء کی بیان کردہ وہ حدیث جو متفق علیہ ہے بیان ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا “قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم یہودیوں سے جنگ کرو گے، یہاں تک کہ وہ پتھر جس کے پیچھے یہودی ہو گا، کہے گا کہ اے مسلم! یہ دیکھو یہ ایک یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
” (بخاری)۔ ایسی ہی حدیث مسلم شریف میں بھی درج ہے جس میں ایک اضافہ ہے “یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا، اے مسلمان! اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے ہے، سوائے غرقد کے درخت کے کیوں کہ وہ یہود کا درختوں میں سے ہے” (مسلم)۔ یہ وہ عالمی جنگ جس کی تمام تیاری دوسری جانب سے مکمل ہے۔ لیکن اس جنگ سے قبل مسلم امّہ ایک بہت بڑے دورِ فتن سے گزرے گی، یہ وہی فتنے ہیں جو اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ یہ فتنے چار سو ہیں، اور اس وقت ہر ملک میں پھیلے ہیں۔ (باقی آیندہ)
عدلیہ کا ضابطۂ اخلاق اور توہینِ عدالت
اوریا مقبول جان پير 12 اکتوبر 2015
عدل کی کرسی ایسی ہے کہ جس پر بیٹھنے والے شخص سے جہاں عزت و احترام وابستہ ہے، اس پر اعتماد اور اس کے انصاف سے معاشرے کو دوام اور امن میسر آتا ہے، وہیں دنیا کے ہر معاشرے نے عدل کرنے والوں کے لیے کڑے معیار مقرر کیے ہیں۔ ان کے کردار‘ اخلاق‘ حسن سلوک‘ انصاف پسندی اور دوست دشمن کی پرواہ کیے بغیر عدل کرنے کو ہی جج کی صفات گردانا ہے۔ یوں تو دنیا کا ہر شعبہ عدل کی بنیاد پر قائم ہے، گھر کے نظام سے لے کر کاروبار تک اور معاشرتی میل جول سے لے کر حکومتی انتظام تک اگر عدل نہ ہو تو ایسے معاشرے تباہ برباد ہو جایا کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں جن قوموں پر زوال آیا ان میں ایک عیب ضرور تھا کہ انھوں نے عدل کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم صرف اس بات پر بدترین عذاب کا شکار ہوئی کہ وہ ناپ تول میں عدل نہیں کرتے تھے۔
عدالتوں کا نظام دنیا میں اس لیے وجود میں لایا گیا کہ اگر زندگی کے کسی بھی شعبے میں عدل نہ ہو رہا ہو‘ ناانصافی کی شکایت ہو تو لوگ عدالت کے پاس جائیں اور عدالت اس ناانصافی کرنے والے کو سزا دے اور حق دار کو انصاف فراہم کرے۔ عدل دراصل عدالت میں نہیں ہوتا‘ وہاں تو ناانصافی یا عدل کی عدم فراہمی کو اپنے فیصلوں سے درست کیا جاتا ہے اور سزاوار کو سزا سنائی جاتی ہے۔ عدل تو تھانے‘ پٹوار خانے‘ ٹیکس کے دفتر‘ کاروباری مرکز یا خاندان میں ہوتا ہے۔ اگر تھانیدار مجرم کو پکڑے‘ صحیح تفتیش شروع کرے تو عین ممکن ہے کہ مدعی عدالت میں نہ جائیں‘ اگر لین دین میں انصاف کا اصول ہو تو لوگ عدالتوں کے دروازے نہ کھٹکھٹائیں۔ اگر خاندان میں وراثت‘ جائداد اور دیگر معاملات میں گھر کے لوگ انصاف سے کام لیں تو عدالت کو عدل کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ عدالت بنیادی طور پر حق دار کو حق دلانے‘ ناانصافی کو روکنے‘ مجرم کو سزا دینے اور ایسے قوانین کے خاتمے کے لیے وجود میں آتی ہے جو لوگوں کو انصاف فراہم کرنے سے روکتے ہیں۔
اسی لیے دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا احترام لازم قرار دیا گیا ہے۔ توہین عدالت ایک ایسا قانون ہے جو صدیوں سے انسانی معاشرے میں نافذ ہے۔ یہ قانون کبھی بھی یک طرفہ نہیں رہا ہے۔ جہاں عوام کو عدالت کی کردار کشی کی اجازت نہیں‘ انھیں عدلیہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے اور بے بنیاد الزامات سے روکا جاتا ہے وہیں عدلیہ کے اعلیٰ مقام اور مرتبہ کے ججوں سے بھی یہ توقع ہی نہیں بلکہ لازم قرار دیا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ کا احترام کریں۔ یہ احترام نہ صرف ان کے رویے‘ ان کے کردار اور ان کی گفتگو سے نظر آنا چاہیے بلکہ عدلیہ کے اعلیٰ ترین ججوں پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بہترین لباس زیب تن کر کے آئیں۔
ایسا لباس جو عدالت کی عزت و توقیر کے مطابق ہو۔ بلوچستان کے ایک جج صاحب عموماً عدالت میں آنے کے بعد جوتے اتار کر چپل پہن لیتے تھے کہ پاؤں ذرا آرام سے رہیں۔ ان کے سامنے ایک وکیل پیش ہوا تو بحث ذرا گرما گرم ہو گئی جس سے لہجے میں تلخی آ گئی۔ جج نے کہا کہ میں تم پر توہین عدالت لگا دوں گا۔ اس پر وکیل فوراً بول اٹھے، آپ توہین عدالت کیسے لگا سکتے ہیں جب کہ آپ خود عدالت کی توہین کر رہے۔ آپ نے سوٹ کے نیچے چپل پہن رکھی۔ ایسا لباس اور چپل پہن کر آپ کسی عزت دار محفل میں نہیں جا سکتے لیکن آپ عدالت میں موجود ہیں۔ بھلے زمانے تھے جج صاحب کو غلطی کا احساس ہوا اور پھر بلوچستان کے لوگ گواہ ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ مناسب اور مکمل لباس پہنا کہ کہیں ان کے اس رویہ سے عدالت کی توہین نہ ہو جائے۔
ہندوستان کے صوبے کیرالہ کی ہائی کورٹ کا 2005ء کا ایک کیس توہین عدالت کے ایک ایسے مقدمے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں توہین عدالت کا مرتکب ایک معزز جج قرار دیا گیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے اس معزز جج کے بارے میں ایک صحافی نے کچھ خبریں لگانا شروع کیں جو ان کے فیصلوں کے بارے میں تھیں۔ فیصلوں پر تبصرہ کرنا چونکہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا، اس لیے جج صاحب اس کو کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اچانک ایک شخص نے اس صحافی کے خلاف ہتک عزت اور بلیک میلنگ کا دعویٰ کر دیا۔ صحافی ایک دو پیشیوں میں حاضر نہ ہوا۔ جج صاحب نے تھانیدار کو عدالت میں طلب کیا اور کہا وہ جہاں کہیں بھی ہے اس کو پکڑ کر ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔ تھانیدار واپس آیا اور اس نے بتایا کہ صحافی تو اسپتال میں بستر پر ہے کیونکہ دس دن پہلے اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔
جج صاحب نے حکم دیا کہ اس کو اسٹریچر پر ڈال کر حاضر کرو۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک اسٹریچر فاضل عدالت کے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فاضل جج پر توہین عدالت کی سماعت کا اعلان کر دیا۔ اور کہا کہ اس طرح ایک ملزم کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر عدالت کی توہین کی گئی ہے۔ پاکستان میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی سید اور شریعت کورٹ کے جسٹس شفیع محمدی کے کیسوں کی مثالیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ججوں کو عدالت کے احترام کا پابند کرنے اور انھیں توہین عدالت سے روکنے کے لیے دنیا کے ہر ملک میں ایک ضابطہ اخلاق مقرر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کا بھی ایک ضابطہ اخلاق ہے۔ اس کے ان چند نکات پر غور کریں تو آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ جج بننا تو زندگی بھر پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔
-1 ایک جج خدا سے ڈرتا ہو‘ قانون پر عملدرآمد کرتا ہو‘ زبان کا سچا‘ رائے میں عقل مند‘ محتاط اور صبر سے کام لینے والا ہو۔ وہ ہر الزام سے مبرا اور اسے لالچ چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔
-2 انصاف کرتے ہوئے اس کو مضبوط ہونا چاہیے، لیکن کھردرا نہیں‘ نرم خو ہونا چاہیے لیکن کمزور نہیں‘ اپنے الفاظ میں سچا اور پر اعتماد اور ہمیشہ اپنے سکون کو قائم رکھنے والا ہونا چاہیے۔
-3 جج تک پہنچنا نا ممکن ہو اور اس کا کردار اس چیز کا اظہار کرے۔ اسے اس بات کو ممکن بنانا چاہیے کہ انصاف ہو رہا ہے بلکہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ اسے ایسی تمام آراء سے دور رہنا چاہیے جس پر اس کے ذاتی فوائد کا شائبہ ہو۔
-4 اس کے تمام افعال لوگوں کی نظر میں ہوتے ہیں اور اسے وہ تمام شہرت مل جاتی ہے جس کا وہ مستحق ہے لیکن اسے زیادہ کا طلبگار نہیں ہونا چاہیے۔
-5 تحائف صرف رشتہ داروں اور قریبی دوستوں سے وصول کرنے چاہئیں اور وہ بھی رواج کے طور پر۔ اگر کوئی چیز جس کا تصور بھی آ جائے کہ یہ دفتری امور میں حائل ہو گی اس کا انکار کر دیا جائے۔
-6 جج کو مختصر ترین مدت میں فیصلے کرنا چاہئیں۔ جتنی جلد ممکن ہو سکے لوگوں کی مشکلات میں جلد انصاف فراہمی میں اپنے فیصلوں کے ذریعے کمی لانا چاہیے۔ یہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ضابطہ اخلاق کے چند نکات ہیں۔ کوئی جج جو ان نکات پر عمل درآمد نہیں کرتا وہ دراصل توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے اس عمل سے عوام میں عدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے اور عدالت زیر بحث آ جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے یاد آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے معزز جج سرمد جلال عثمانی صاحب جو اب سپریم کورٹ سے رخصت ہو گئے ہیں، سود کے بارے میں اپیل نا منظور کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ہم عدالت میں مدرسہ نہیں لگا سکتے‘ جو سود نہیں لیتا نہ لے‘ جو لے گا اسے اللہ پوچھے گا۔ اللہ نے آئین پاکستان کے توسط سے آپ کو عدل کی کرسی پر سرفراز فرمایا تھا۔ آپ کے پاس آئین کی دفعہ 190 کے تحت یہ اختیار بھی موجود تھا کہ ملک کی تمام انتظامی اور عدالتی مشینری آپ کا حکم ماننے کی پابند تھی۔ آپ سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم کو گھر بھیجنے تک جیسا اختیار رکھتے تھے۔ آپ نے اٹھارہ کروڑ عوام کو سود کے معاملے میں عدالتی بے بسی کا اظہار کر کے کہیں توہین عدالت تو نہیں کی۔ کیا واقعی سپریم کورٹ اسقدر بے بس ہے کہ لوگوں کو اب صرف اللہ سے انصاف کی توقع اور امید رکھنا چاہیے۔ یہ سوال پاکستان کے چیف جسٹس کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ کیا عدالت کے بارے میں عوام کو ایسا تاثر دینے سے توہین عدالت نہیں ہوئی۔ کوئی سوؤ موٹو اس ضمن میں بھی مائی لارڈ۔
نوٹ: ایک مستحق شخص جگر کے ٹرانسپلانٹ کے مرحلے میں ہے، ڈونر موجود لیکن آپریشن کی استطاعت نہیں۔ کوئی صاحب آپریشن کی صورت مدد فرمانا چاہیں تو 0344403219 پر رابطہ کر کے خود تسلی کر لیں۔ بہتر ہے امداد اس اسپتال یا ڈاکٹر کو دی جائے جو یہ آپریشن کرے۔
“اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے”
اوریا مقبول جان جمعـء 9 اکتوبر 2015
یہ ایک دردناک کہانی ہے جس کے خوفناک انجام کی طرف یہ قوم انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا خوفناک کہ جس کے تصور سے ہی اہلِ نظر کانپ رہے ہیں۔ آئینِ پاکستان، جس کے تحفظ کی قسم صدرِ پاکستان، وزیر ِاعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، اراکینِ اسمبلی، مسلح افواج کے اراکین، اعلیٰ عدلیہ کے جج اور ہر آئینی عہدہ رکھنے والا شخص اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اٹھاتا ہے، اسی آئینِ پاکستان کی شق نمبر 38 (ایف) کہتی ہے۔ ” حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے ربا (سود) ختم کرے گی” ۔
گزشتہ روز ربا (سود) کے بارے میں آئینی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اللہ سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے” اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا وہ حصہ جو باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اسے کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو” (البقرہ 278-79 )۔ یہ اعلانِ جنگ امریکا، حکومتِ پاکستان یا مسلح افواج نہیں کر رہیں، وہ قادرِ مطلق کر رہا ہے جو اعلان کرتا ہے کہ اس کی پکڑ بہت شدید ہے۔ یہ اللہ کا دستور ہے کہ وہ ہر فرد کو اس کے اختیار کے مطابق پکڑتا ہے اور اس کی استطاعت کے مطابق سزا دیتا ہے۔
سود کے معاملے میں ہماری کہانی دردناک ہے اور ہم خوفناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بانیء پاکستان قائدِ اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا اور تقریر کی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری تقریر تھی۔ انھوں نے فرمایا۔
” I shall watch with keeness the work of your research organization in evolving banking policies compatable with Islamic ideas of social and economic life. The economic system of the west has created almost insoluable problems for huminity”
( میں بینک کے تحقیقی شعبے کے کام کو ذاتی طور پر باریک بینی سے دیکھوں گا کہ وہ ایک ایسا بینکنگ نظام وضع کریں جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظامِ زندگی کے ہم آہنگ ہو۔ مغرب کے معاشی نظام زندگی نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کیے ہیں)
میں نے انگریزی متن بھی درج کر دیا ہے کہ کسی کو قائدِ اعظم کی سود کے خلاف اس تقریر اور ان کے جذبے پر کوئی شک نہ رہے۔ اس تقریر کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد قائدِ اعظم انتقال کر گئے۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سترہ سال طویل خاموشی کا زمانہ ہے۔ یوں تو ہر آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل موجود رہی لیکن کسی کو سود کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہ آیا۔ ایوب آمریت کے دوران 1964ء سے 1966ء تک اسلامی نظریاتی کونسل نے بینکنگ نظام کا جائزہ لیا اور اسے خلافِ اسلام قرار دیا۔ 3 دسمبر، 1969ء میں کونسل نے اپنی رپورٹوں کا اعادہ کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت میں آئین میں 38 (ایف) تحریر ہوئی جس میں حکومت کو یہ ذمے داری دی گئی کہ سود کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔” حضرت ضیاء الحق ” کا زمانہ آیا تو 1977ء میں سود کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل سے دوبارہ رجوع کیا گیا۔ کونسل نے 25 جون1980ء کو سود کے خاتمے کے لیے ایک متبادل نظام تجویز کر دیا۔ اب ٹال مٹول شروع ہو گئی۔ ایک عالمی سیمینار بلایا گیا جس میں کونسل کی تجاویز زیرِ بحث آئیں۔
سپریم کورٹ نے ضیاء الحق کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ اس نے وفاقی شرعی عدالت قائم کی اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیل بنچ بنایا۔ لیکن سود سے محبت کا یہ عالم تھا کہ 1980ء میں بننے والی وفاقی شرعی عدالت پر یہ پابندی لگا دی کہ دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے کوئی کیس نہیں سنے گی۔ اس وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار کایہ عالم تھا کہ اس کے فیصلے کے خلاف اگر ایک عام آدمی بھی سپریم کورٹ میں اپیل لے کر جائے گا تو بغیر پیشی یہ اپیل منظور ہو جائے گی اور حکمِ امتناعی بھی جاری ہو جائے گا۔
جیسے ہی دس سال کی پابندی ختم ہوئی تو سود کے مخالف ایک دم 1990ء میں درخواستیں لے کر جا پہنچے۔ روزانہ سماعت ہوئی اور اکتوبر1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے157 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے تحت 30 جون 1992ء سے بینک کے سودی کاروبار کو حرام قرار دے دیا۔ اس وقت سودی نظام کے ایک اور پروانے نواز شریف وزیر ِاعظم تھے۔ وہ اس فیصلے کے خلاف فوراً سپریم کورٹ جا پہنچے۔ حکمِ امتناعی جاری ہوا اور ٹال مٹول شروع۔ نواز شریف اور بے نظیر کے زمانے میں کبھی بھی شریعت بنچ پورا نہیں ہونے دیا گیا۔ مشرف نواز شریف کا تختہ الٹ کر دیگر کاموں میں مصروف تھا اور اسے اندازہ تک نہ ہو سکا کہ شریعت بنچ مکمل ہے۔
یہ بنچ وجیہہ الدین احمد، خلیل الرحمٰن، منیر اے شیخ، مولانا تقی عثمانی اور محمود احمد غازی پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ خاموشی سے اپنی کاروائی میں مصروف رہے اور دنیا بھر سے ماہرین کو بلوا کر فیصلے کے قریب پہنچ گئے۔ فیصلے پر دستخط کا وقت آیا تو سازشیں شروع ہو گئیں۔ بنچ نامکمل کرنے کے لیے محمود احمد غازی کو سیکیورٹی کونسل کا حلف اٹھوا دیا گیا۔ وہ معصومانہ طور پر اس چال کا شکار ہو گئے لیکن ایسا کرنے سے وہ جج نہ رہے۔ لیکن آئین کے مطابق تو ایک عالمِ دین سے بھی کام چل سکتا تھا اور بنچ مکمل رہا اور اگلے ہی دن انھوں نے فیصلہ دے دیا۔
23 دسمبر 1999ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا اور یہ اعزاز حاصل کیا کہ تمام اسلامی ممالک میں واحد پاکستان ہے جس کی سپریم کورٹ نے سود حرام قرار دیا۔ یہ بہت طویل فیصلہ ہے جو ایک ہزار صفحات سے زیادہ ہے۔ پھر چال چلی گئی مشرف نے ایک پرائیوٹ بینک سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست داخل کروائی۔ اس دوران پی سی او آ گیا۔ وجیہہ الدین اور خلیل الرحمٰن نے حلف نہ اٹھایا۔ قانون کے مطابق نظر ثانی صرف وہی جج کر سکتے ہیں، لیکن یہاں یہ اصول بھی توڑ دیا گیا۔ چیف جسٹس شیخ ریاض کی سربراہی میں بنچ بنایا گیا جس نے چند صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ تحریر کیا کہ سپریم کورٹ کا سود حرام قرار دینے کا فیصلہ کالعدم ہے۔ یہاں ایک چال چلی گئی۔
اگر فیصلہ کالعدم ہے تو اس کے مقابل میں سپریم کورٹ کو نیا فیصلہ تحریر کرنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ ہے جسے ماتحت عدالت کو واپس بھجوایا گیا۔ مقصد صرف یہ تھا لوگوں کو واپس وہاں لے جایا جائے جہاں سے جدوجہد کا آغاز ہوا تھا ۔ وفاقی شرعی عدالت میں یہ کیس 15 سال سے سرد خانے میں ہے اور اگر کوئی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو اپیل مستردکر دی جاتی ہے۔
ہمارا کام یہی ہے کہ ہم دیواروں سے سر ٹکراتے رہیں۔ ہمیں ایسا کرنے میں کوئی عار نہیں۔ ہم تو اس صف میں کھڑے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے سود کے خلاف اعلانِ جنگ کے بعد ترتیب دی جا چکی ہے۔ یہ تو ہر کسی کی مرضی اور منشا ہے کہ وہ جس طرف چاہے کھڑا ہو جائے۔ مدرسہ کھلے نہ کھلے، فیصلہ آئے یا نہ آئے، لیکن جس کو اللہ کے قادر ہونے پر یقین ہے، اسے اس بات پر بھی مکمل یقین ہے کہ یہ جنگ اللہ نے جیتنی ہے اور کوئی اس روئے زمین پر اتنا طاقتور نہیں جو یہ جنگ جیت سکے۔ البتہ روز ہم اس کے غضب اور غیظ کو دعوت دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے کبھی اہلِ نظر سے ملتا تو وہ اپنے خواب سناتے، کہتے زلزلے ہیں، سونامی کی لہریں ہیں۔ اسلام آباد میں تو کچھ علاقے نظر ہی نہیں آ رہے۔
پھر استغفار کرنے لگتے، سوچتا تھا ایسا کیوں ہو گا۔ کالم تحریر کر رہا ہوں تو دس سال پہلے کا آٹھ اکتوبر کا زلزلہ یاد آ رہا ہے۔ خوف کا ایک عالم ہے۔ بس یہی دعا دل سے نکل رہی ہے۔ الٰہی ہم پر رحم فرما، ان لوگوں کی سزا ہم سب کو نہ دے جو تجھے للکارتے ہیں۔ جو تیرے مقابل آ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جو تیرے اعلانِ جنگ کے باوجود بھی خوف سے نہیں کانپتے۔ ہم پر رحم فرما، اگر تو نے ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم بہت بڑے خسارے میں جانے والے ہیں۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
اوریا مقبول جان پير 5 اکتوبر 2015
کس قدر دکھ اور کرب تھا ان کے لہجے میں، وہ اس مملکت خداداد پاکستان کے عوام اور اس جمہوری نظام کا المیہ بیان کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا ’’میں نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ’’اس ملک میں عام الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح، میں اور میرا بیٹا ولید اقبال کیوں کامیاب نہیں ہوتا‘ اس لیے اس ملک پر طاقتور اور بالادست اشرافیہ کا قبضہ ہے جو ہمیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ یہ الفاظ تھے علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کے جو انھوں نے اپنے انتقال سے چند دن قبل میرے پروگرام ’’متبادل‘‘ میں ادا کیے۔ وہ بہت بیمار تھے، ان کے گھر میں اس وقت کسی وجہ سے پروگرام ریکارڈ نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ کمال مہربانی کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال صلاح الدین کے قائم کردہ اس ادارے میں تشریف لائے جو اس نے فکر اقبال کے فروغ کے لیے قائم کیا ہے۔
علامہ اقبال کی دعاؤں، آراوؤں اور تمناؤں کا محور جاوید اقبال۔ یوں تو جاوید اقبال نے اپنے والد کی آغوشِ تربیت میں تقریباً تیرہ سال گزارے ہوں گے لیکن علامہ کی ان سے محبت ان کے کلام میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ ابن عربی کی فتوحات مکیہ، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی دونوں عالم بالا کے روحانی سفر کی داستانیں ہیں۔ اقبال تیسرے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے روحانی مرشد مولانا روم کی صحبت میں روحانی سفر کو منظوم کیا اور اس کا نام اپنے بیٹے کے نام پر جاوید نامہ رکھا۔ اقبال انگلستان گئے تو جاوید اقبال نے انھیں اپنی زندگی کا پہلا خط تحریر کیا۔ اس خط میں انھوں نے علامہ سے گراموفون لانے کی فرمائش کی۔ علامہ اقبال نے جواب میں ایک نظم تحریر کر کے بھیجی جس کا عنوان ’’جاوید کے نام‘‘ ہے اور اس کے ساتھ تحریر ہے ’’لندن میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط آنے پر‘‘۔ نظم کا خطاب تو جاوید اقبال سے ہے لیکن یوں لگتا ہے اس کا مخاطب پوری امت مسلمہ کے نوجوان ہیں۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اقبال کا یہ فرزند اس قوم نہیں بلکہ اس امت کے درمیان اکیانوے برس رہنے کے بعد اسی لاہور کی مٹی کے سپرد کر دیا گیا جہاں اس کے عظیم والد بھی آسودۂ خاک ہیں اور جن کے مزار کی مٹی لے جا کر ترکی کے شہر قونیہ میں مولانا روم کے مزار کے پہلو میں ایک اور مزار بنایا گیا ہے جو اقبا ل کے نام سے معنون ہے۔ شرافت، نجابت اور علم جس شخص کو اپنے عظیم باپ سے ورثے میں ملا۔ یہ 1970ء کے الیکشن کا زمانہ تھا۔ میری عمر چودہ سال کی ہو گی جب گجرات شہر میں جگہ جگہ پوسٹر لگے ہوئے تھے کہ فرزند اقبال کونسل مسلم لیگ کے جلسے سے ہارس شو گراؤنڈ میں خطاب کریں گے۔ میرے گھر میں علامہ اقبال کی حیثیت ایک ولیٔ کامل کی سی تھی جس کا خمیر عشق رسول سے گندھا ہوا ہو۔ میرے والد ان کے اشعار گنگناتے اور اکثر اوقات بے اختیار آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑتے۔ میری زندگی میں ادب سے پہلی آشنائی بھی اقبال ہی کی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا پہلا شعر دس سال کی عمر میں اسکول میں یوم اقبال کی ایک تقریب میں اپنی تقریر کے لیے تحریر کیا تھا۔ اقبال میرا عشق تھا اور ہے۔ لیکن 1970ء کا عرصہ ایسا تھا جب مجھ پر الحاد غالب تھا اور کمیونزم کے جراثیم ذہن میں سرایت کر چکے تھے، لیکن اقبال کا عشق مسلسل اور پیہم رہا، یہی وجہ ہے کہ میں جاوید اقبال کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ ان دنوں جلسوں کی منادی تانگے کے اوپر لاؤڈ اسپیکر لگا کر کی جاتی۔
اس فن کے ماہرین مائیک ہاتھ میں پکڑے شعر پڑھتے جلسے کی منادی کرتے تھے۔ میں ایسے ہی ایک تانگے پر سوار ہو گیا۔ اقبال کے اشعار کا جادو تھا، جاوید اقبال کو دیکھنے کی لگن تھی کہ میری اس منادی یا اناؤنسمنٹ کو اس قدر پذیرائی ملی کہ اگلے تین دن صبح تانگے کو میرے گھر بھیج دیا جاتا تا کہ مجھے لے آئے۔ ان تین دنوں کا کمال یہ تھا کہ ایک بہت بڑے پر ہجوم جلسے میں مجھے اسٹیج پر جاوید اقبال کے ساتھ کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔ میں نے وفور شوق سے اس سرخ و سفید چہرے والے شخص سے ہاتھ ملایا جس کی نرماہٹ آج تک مجھے یاد ہے۔ اقبال کے عشق میں گندھے ہوئے چودہ سالہ بچے کو کیا علم تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہی فرزند اقبال ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں میرے ساتھ مدعو تھے جو علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری پر تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کس قدر محبت اور فراخ دلی سے کہنے لگے، ’’اقبال کی شاعری پر بات کرنے کے لیے تو اوریا کافی تھا، مجھے ویسے ہی زحمت دی آپ لوگوں نے‘‘ یوں تو یہ فقرہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک بڑے دانشور اور صاحب علم اور ایک عظیم آدمی کے منہ سے ادا ہوا اس لیے مجھے اپنا اندازہ ہے کہ ان کے سامنے میرا علم ایک مبتدی اور سیکھنے والے سے زیادہ نہ تھا۔
میں گجرات میں تھا تو اکیس اپریل کو ہر سال لاہور میں ہونے والے مجلس اقبال کے سالانہ جلسے کی روداد اخباروں میں پڑھتا اور ایک شوق و تجسس مجھے گھیرے رہتا کہ کب میں اس جلسے کو دیکھ سکوں گا اور اس محفل کا حصہ بن سکوں گا جس کی بنیاد خود علامہ اقبال نے رکھی۔ میری خوش بختی کہ مجھے پہلی دفعہ جس جلسے میں شرکت کا موقع ملا اس کی صدارت جاوید اقبال کر رہے تھے اور میری پہلی شرکت اقبال کے ایک ہدی خوان کی حیثیت سے تھی۔ میری تقریر کے بعد جاوید اقبال کا وہ فقرہ بھی آج تک یاد ہے۔ ’’اس قدر جوش‘‘ آپ نے تو گرما دیا۔ میں نے زندگی میں کسی شخص کو اتنا وسیع القلب نہیں دیکھا جو کھل کر تعریف کرے اور سرعام اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ انھوں نے عدلیہ پر ایک کتاب لکھی اور اس میں عدالتی نظام کی خامیوں اور ججوں کی مجبوریوں کا ذکر کیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ انھوں نے اس میں اپنے کیے گئے فیصلوں پر بھی تنقید کی اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کا اپنے فیصلوں کے حوالے سے بتایا۔ ان کی سوانح حیات ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں انھوں نے اپنی زندگی کے جن گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے ہمارے معاشرے میں ایسی جرأت کی مثال نہیں ملتی۔ جب انھوں نے اپنے والد کی سوانح عمری ’’زندہ رود‘‘ لکھی تو بہت سے محبان اقبال کا یہ گلہ تھا کہ انھیں اپنے والد کے بارے میں اس قدر سچ نہیں لکھنا چاہیے تھا کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح ایک والد، ایک خاوند اور ایک دوست نظر آئیں۔
لیکن شاید جاوید اقبال کی تربیت کا خاصہ تھا کہ انھیں تو ان کے والد نے یہی بتایا تھا کہ معصوم اور غلطی سے مبرا صرف اور صرف ایک ذات ہے جو سید الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے۔ ٹیلی ویژن میں ہم نے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس میں علامہ اقبال کی حکمت کے موضوعات پر گفتگو کرنا تھا۔ اس پروگرام کی میزبانی میرے ذمے تھی اور اس کو رونق بخشنے والی دو عظیم شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد، پہلا پروگرام ’’جدا ہو دیں سیاست سے‘‘ کے عنوان سے نشر ہوا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر اسرار احمد انتقال کر گئے اور یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس پروگرام کے آغاز میں تعارف کرواتے ہوئے میں نے کہا آج میں علامہ اقبال کے جسمانی بیٹے جاوید اقبال اور روحانی بیٹے ڈاکٹر اسرار احمد کے ہمراہ حاضر ہوں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس فقرے سے اس قدر خوش ہوئے کہ کہنے لگے ایسا جو آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ وہ زمانہ جب بڑے لوگوں کی میراث کے وارث ان کی قبروں تک کو بیچ کھاتے ہوں، جاوید اقبال جیسے حوصلے والے اور وسیع القلب انسان کو آپ کسی اور ہی دنیا کا فرد سمجھیں گے۔ وہ یقیناً کسی اور ہی دنیا کے فرد تھے۔ اس قدر عجز، انکساری اور فقر یقینا انھیںصحبت اقبال نے دیا اور یہ ان کے خون میں گردش کر رہا تھا۔ نہ چہرے پر ملال، نہ زبان پر غصہ، نہ گفتگو میں تلخی، ایسا چہرہ جو سوچ میں ڈوبا ہوا لگتا، مسکراتے تو آنکھیں بند ہو جاتیں اور ہنسی پورے چہرے پر پھیل جاتی۔
اقبال کی میراث کے تو وارث تھے ہی، ان کا ذاتی علم اور اس میں ان کا مقام بھی بلا کا تھا۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ انھیں فرزند اقبال کی حیثیت سے ہی کیوں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن انھوں نے اس حیثیت سے کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ اقبال کے خطبات پر جس قدر علمی کام ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’خطبات اقبال‘‘ تسہیل و تفہیم میں کیا ہے اقبال پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ وہ چیف جسٹس بھی رہے اور ایوان بالا کے سینیٹر بھی‘ جو براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے۔ براہ راست وہ 1970ء کے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ لاہور کی نشست تھی۔ ان کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ الیکشن اس ملک کی تاریخ کا حیران کن الیکشن تھا۔ اہل نظر کہتے ہیں اس الیکشن نے اس قوم کے لیے سزا و جزا کے پیمانے مقرر کر دیے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی گرو جنھیں وہ ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، ایوب خان، انھوں نے قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی اور ان کے کنونشن مسلم لیگ کے سابقہ جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو نے فرزند اقبال کو شکست دے دی۔ جمہوریت، الیکشن اور اس قوم کی ’’مداح سرائی‘‘ میں اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس قوم نے قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں کا قرض خوب اتار دیا۔ عالم ارواح میں اقبال نے یقینا جاوید اقبال کا استقبال کیا ہو گا اور سرزمین لاہور کے باسیوں کا شکوہ بھی۔ وہ قوم جس کی تڑپ میں اقبال کی راتیں آنسوؤں کے چراغ جلاتی رہیں۔ اس نے ان کے فرزند کو اعتماد کے ایک ووٹ کے بھی قابل نہ سمجھا۔
’’بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘
اوریا مقبول جان جمعـء 2 اکتوبر 2015
سیاسی پارٹی تو بہت بڑی بات ہے کہ اسے عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہونا پڑتا ہے، اگر کوئی چھوٹا سا عزت دار خاندان بھی ہوتا تو اس انٹرویو کے بعد شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ لیکن جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ ایسا سب کچھ ہونے کے باوجود کمال ڈھٹائی سے لوگ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لودھراں سے کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر صدیق بلوچ کے کالعدم قرار دیے جانے والے فیصلے پر عمل درآمد روکا جاتا ہے اور معزز رکن کی رکنیت اس وقت تک بحال کی جاتی ہے جب تک مکمل فیصلہ نہیں آ جاتا۔ “معزز” رکنِ اسمبلی کو الیکشن ٹربیونل نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر تمام عمر کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی میڈیا میں بریکنگ نیوز کا طوفان مچ گیا۔ رات کے ٹاک شوز میں یہی سب کچھ موضوعِ گفتگو تھا۔
سیاسی پارٹیوں کی نوک جھوک جاری تھی۔ ایسے میں کوئی اس جانب نہیں آ رہا تھا کہ معزز رکنِ اسمبلی جو اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت یعنی “ایم اے” کے جعلی ہونے پر نااہل ہوئے ہیں ان سے سوال کر لیا جائے کہ آپ پر یہ الزام غلط تھا یا نہیں۔ ایسے میں ایک ٹیلی ویژن کے شو میں وسیم بادامی نے ان سے ایک معصومانہ سوال کر دیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے کس مضمون میں “ایم اے” کیا ہے۔ موصوف جو نوے فیصد جواب آنکھیں بند کر کے دے رہے تھے۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی انھوں نے آنکھیں بند رکھیں اور فرمایا “یار تیرہ سال پہلے میں نے ایم اے کیا ہے؟ اب یاد تھوڑا ہے کہ کس مضمون میں کیا تھا” ایک ہلکی مسکراہٹ اینکر پرسن کے چہرے پر آئی اور اس نے پھر سوال کیا آپ کو وہ ادارہ تو یاد ہو گا جس سے آپ نے ایم اے کیا، فرمانے لگے “میڑک میں نے ملیر کینٹ سے کیا، ایف اے بھی ملیر کینٹ سے کیا، بی اے بلوچستان سے اور ایم اے پنجاب سے۔ حصولِ تعلیم کے لیے شہروں شہروں دربدر ہونے والے معزز رکنِ اسمبلی سے ـ “اینکر پرسن” نے پھر پوچھا آپ یہ بتا ہی دیں کہ آپ نے ایم اے کس مضمون میں کیا ہے۔
کہنے لگے “یاد تو نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے ایم اے آرٹس میں کیا ہے”۔ اس کے بعد پروگرام ایک شرارتی سی مسکراہٹ پر اختتام پذیر ہو گیا۔ یہ شرارتی مسکراہٹ یقینا توہینِ جمہوریت تھی۔ یہ طنز دراصل سسٹم کو ناکام بنانے کے لیے تھا اور ایسے سوال معزز اراکینِ اسمبلی سے پوچھنا دراصل میڈیا کی بہت بڑی سازش ہے جو مقتدر قوتوں کے اشارے پر ایسا کرتا ہے۔
صدیق بلوچ کے اس “عالمانہ” اور “مفکرانہ” جواب پر اس عوامی نمائندگی کے شاندار نظام کے کئی واقعات ذہن میں گونجنے لگے۔ تقریباً تیس سال قبل بلوچستان کی ایک وزیرِ تعلیم تھیں۔ ابھی میڈیا نے اس طرح الیکٹرونک پالنے میں جنم نہیں لیا تھا۔ اخباری انٹرویو ہوتے تھے جو بڑے انہماک سے پڑھے جاتے تھے۔ ایک صحافی نے محترمہ کا انٹرویو کیا۔ سوال و جواب کی نوعیت ملاحظہ کریں اور ذہانت و علمی استعداد پر سر دھنیں۔ میڈیم آپ کی تعلیم کیا ہے۔
“میں نے بی اے کیا ہے” ، اچھا آپ نے گریجویشن کی ہے، “نہیں میں نے بی اے کیا ہے” ۔ آپ نے کہاں سے بی اے کیا ہے۔” میں نے کانوینٹ اسکول سے بی اے کیا ہے” مشرف دور میں جب بی اے کی ڈگری کو الیکشن لڑنے کے لیے لازمی قرار دیا گیا تو جہاں عام یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگری میدان میں آئیں وہیں مدارس کے درسِ نظامی کی جعلی اسناد بھی پیش کی گیئں۔ ان اسناد کا پورے کا پورا متن عربی زبان میں تحریر ہوتا ہے۔ کوئٹہ شہر کے ایک حلقے سے ایک امیدوار ایسی ہی ایک سند لے کر ریٹرننگ آفیسر کے پاس گیا، جس نے اسے قبول کر لیا۔ مخالف امیدوار اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل میں چلا گیا۔
امان اللہ یٰسین زئی جو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ان کی عدالت میں مقدمہ تھا۔ جج صاحب نے مدرسے کی درسِ نظامی کی عربی میں تحریر کردہ سند ہاتھ میں پکڑ ی اور فاضل امیدوار صوبائی اسمبلی سے کہا آپ اسے پڑھ کر سناؤ۔ اس سوال پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے چالاک ذہن نے فوراً جواب دیا” سر اسوقت وضو میں نہیں ہوں” ۔ جج صاحب نے کہا یہ ساتھ باتھ روم ہے، آپ جا کر وضو کر آئیں، وہ ایک دم بولا” وہ دراصل مجھے جلدی عدالت آنا تھا، اس لیے میرے کپڑے بھی ناپاک ہیں اور غسل بھی واجب ہے” عدالت کا پورا ہال مسکرا رہا تھا۔ لیکن آپ اس جمہوری نظام کا کمال دیکھیں کہ اس شخص نے الیکشن لڑا بھی اور وہ جیتا بھی۔
جھنگ کے ایک امیدوار کی ڈگری بھی اسی طرح عدالت میں چیلنج ہوئی۔ جج نے اس کے سامنے کاغذ رکھا اور کہا اس پر اپنا نام انگریزی میں لکھ دیں۔ اس نے کہا گزشتہ رات سے میرے ہاتھ میں کوئی رعشہ سا ہے میں قلم نہیں پکڑ سکتا۔ جج مسکرایا اور بولا اچھا، آج آپ انگریزی کی ABC سنا دیں۔ “عظیم” قومی رہنما نے اپنی زبان میں کہا “جج صاحب نکی سناواں یا وڈی” (یعنی بڑی اے بی سی سناؤں یا چھوٹی)۔ لطیفوں کی یہ ایک طویل داستان ہے جو برصغیر پاک و ہند کی پارلیمانی تاریخ سے شروع ہوتی اور پاکستان کے موجودہ نظام تک تواتر کے ساتھ چلی آ رہی ہے۔
یہ لطیفے صرف ڈگریوں کے جھوٹ تک محدود نہیں بلکہ اسمبلی کی کاروائی میں بھی ان تمام قانون ساز افراد کی عقل و دانش تک جا پہنچتے ہیں۔ ممتاز دولتانہ پاکستان کی تحریک اور مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یار محمد دولتانہ یونینسٹ پارٹی کے تحت پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ یہ وہ اسمبلی ہے جس کے ارکان جب منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے تو ان کی تواضع چائے اور پیسٹری سے کی گئی۔ یہ پیسٹریاں گول چھوٹی ٹرے نما کاغذی پیالیوں میں رکھی تھیں۔
ان میں سے کئی تھے جو پیسٹریاں کاغذ سمیت کھا گئے تھے۔ یار محمد دولتانہ کے ذمے انگریز سرکار نے یہ کام لگایا کہ ہم زمینداروں کے بارے میں ایک بل اسمبلی میں لا رہے ہیں اس پر بحث نہیں ہونا چاہیے۔ ایک رکنِ اسمبلی مصر تھا کہ میں یہ کروں گا۔ اسے لاکھ منانے کی کوشش کی گئی، مگروہ نہ مانا۔ انگریز سرکار کا حکم بھی ٹالا نہ جا سکتا تھا۔
یار محمد دولتانہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اس کو روکو اور خصوصی طور پر ان کی نشست اس ممبر اسمبلی کے پہلو میں لگوا دی گئی۔ جیسے ہی بل اسمبلی میں پیش ہوا، تو وہ ممبر اسمبلی بحث کے لیئے کھڑا ہو گیا اور دولتانہ صاحب نے فوراً اس کی شلوار کا آزار بند کھینچ دیا جس سے شلوار نیچے گر گئی اور وہ اسے سنبھالنے میں لگ گیا۔ اتنی دیر میں بل پر ووٹنگ مکمل کر لی گئی اور بل منظور ہو گیا۔
پارلیمانی تاریخ کے شعبدے آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔ ایسے لوگوں کا دفاع کرنے والوں کی بھی ایک فوجِ ظفر موج ہے جو کہتے ہیں یہ سسٹم کی پیداوار ہیں اور جیسے عوام ہیں ویسے ہی نمائندے ہوں گے۔ ان سب سے کوئی یہ سوال کرے کہ اگر آپ نے اپنا گھر بنانا ہو، کاروبار شروع کرنا ہو، بیٹی کی شادی کرنی ہو، کسی جگہ سرمایہ لگانا ہو تو آپ جانچ پرکھ کر بندہ دیکھتے ہیں ایسے شخص سے مشورہ کرتے ہیں جسے ان چیزوں کا علم اور تجربہ ہو۔ لیکن جمہوریت ایسا نظام ہے کہ اگر اکثریت جاہل کے ساتھ ہو تو جہالت ، ناخواندگی اور کم علمی کا وزن علم، تجربے، کردار اور اخلاق سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اسی نہ تولنے کے نتیجے کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارِ شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آئی
(جمہوری طرز سے گریز کرو اور کسی پختہ کار کے غلام ہو جاو، اس لیے کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہو سکتی)۔
’’روبیضہ‘‘
اوریا مقبول جان پير 28 ستمبر 2015
یوں تو تاریخ تعصبات، ذاتی مفادات اور مطلق العنان حکمرانوں کے زیر اثر تحریر کیا جانے والا وہ قصوں، کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں سچ تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں سیاہ پتھر پر کالی چیونٹی کو ڈھونڈنا۔ ہر کسی کو تاریخ کے افسانوں میں اپنی مرضی کا سچ مل جائے گا اور وہ اس افسانے کو حق اور سچ مان کر اپنی محبت اور نفرت میں اضافہ کرتا پھرے گا۔ اس سب کے باوجود اگر کسی نے سچ ڈھونڈنا ہو، حقیقت سے آگاہ ہونا ہو تو تعصبات کو ذہن سے جھٹک کر خالصتاً سچ جاننے کی نیت سے مطالعہ کرے تو ایک بات طے ہے کہ سچ ملے یا نہ ملے اسے جھوٹ کا مکمل ادراک ضرور ہوجاتا ہے۔ وہ صرف تاریخ مرتب کرنے والے کے مقام، مرتبے، حیثیت، خاندان اور عقیدے کو جان لے اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے تحریر کردہ واقعات کو جانچے تو جھوٹ، ملاوٹ اور من گھڑت افسانہ طرازی کھل کر سامنے آجائے گی۔
یہ تو گزشتہ ادوار کی تحریر کردہ تاریخ کی بات ہے‘ جسے صدیاں بیت گئیں اور اس کا جھوٹ آج تک عام آدمی کی زبان پر جاری ہے۔ نہ عام آدمی کو یہ مہلت میسر ہے کہ تحقیق کے کام پر نکلے اور نہ ہی اس تک یہ سہولت موجود ہے کہ تمام تاریخیں اس کے سامنے ہوں۔ اسے جو مسجد کا مولوی، امام بارگاہ کا ذاکر، اسکول کا استاد، محلے کا نیم خواندہ دانشور، سیاست دان یا کالم نگار بتا دیتا ہے وہ اس پر یقین کرلیتا ہے۔ موجودہ دور کا عام آدمی تو سخت مشکل میں ہے۔ وہ اس دور میں زندہ ہے جس میں صرف اور صرف جھوٹ کی بادشاہی ہے اور کذب کا غلبہ ہے۔ یہ دور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق اور آپ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔ آپ نے فرمایا ’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کا جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا روبیضہ کون؟ فرمایا گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن)
ہم اس دور میں زندہ ہیں جس پر جھوٹ کا غلبہ اور کذب کی حکمرانی ہے۔ یہ دور میڈیا کادور ہے۔ کیا کسی سچے کو جھوٹا، جھوٹے کو سچا، امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار ثابت کرنا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں۔ کیا دنیا بھر میں لوگوں کے اہم معاملات پر روبیضہ فاسق و فاجر لوگ روز گفتگو نہیںکرتے، تجزیہ نہیں پیش کرتے، کیا کوئی سنجیدہ، صاحب کردار، صاحب علم شخص آج کے میڈیا میں باوقار ہے۔ دنیا کا تمام میڈیا جس چکاچوند میں لوگوں کی آنکھیں چندھیائے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی مرضی کا سچ، مرضی کا کلچر اور مرضی کی اطلاع لوگوںتک پہنچے جس سے ایک خاص مقصد کے مطابق نفرت اور محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔
میڈیا ایک تاریخ مرتب کررہا ہے جو گزشتہ تاریخوں سے زیادہ متعصب، جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے۔ لیکن کس خوبصورتی سے وہ اپنے جھوٹ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگوں کو وہی اصل حقیقت اور سچ محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ موجودہ میڈیا نے اپنے اس جھوٹ کو سچ بناکر پوری دنیا پر جنگ، قتل و غارت، بے سکونی اور موت مسلط کی ہے، اس لیے وہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدرمطعون اور قابل نفرت بنادیتا ہے کہ لوگ اصل سچ پر یقین ہی نہیں کرتے۔ جھوٹا کا یہ کاروبار پہلی جنگ عظیم میں تیز رفتاری سے آگے بڑھا، دوسری جنگ عظیم میں اسے اس قدر عروج حاصل ہوا کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد دو امریکی صحافی وہاں کا دورہ کرتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ شایع ہوتی ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی میں کوئی تابکاری اثرات نہیں پائے گئے۔ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کا قول مشہور ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ محسوس ہو۔ لیکن جوں جوں اس میڈیا کو عروج اور ترقی ملتی گئی ‘دھوکے اور فراڈ کا ماحول مزید مستحکم ہوتا گیا۔
میڈیا کی اس متعصب اور جھوٹی تاریخ نویسی کا سب سے بڑا شکار موجودہ دور کا افغانستان، طالبان اور ملا محمد عمر ہے۔ جوں جوں انسان ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے دنیا بھر میں پھیلایا گیا جھوٹ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ایاز وزیر نے میرے پروگرام ’’متبادل‘‘ میں ایک واقعہ سنایا کہ میں وزارت خارجہ میں تعینات تھا تو طالبان کے وزیر خارجہ عبدالوکیل متوکل مجھ سے ملنے آئے۔ اتنے میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے سے فون آیا کہ پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان کو اس وجہ سے چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے کہ ان کی داڑھی نہیں۔ ایاز وزیر نے عبدالوکیل متوکل سے کہا‘ تو انھوں نے فوراً کابل کے طالبان کے انچارج سے گفتگو کی کہ ایسا کوئی حکم نہ ملا محمد عمر نے دیا ہے اور نہ کسی اور قیادت کی جانب سے ایسا ہے‘ تو پھر یہ سب کیا ہے۔ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے گرفتار کرو اور سفارت خانے کے حملے کو عزت و احترام سے چھوڑ کر آؤ اور معافی بھی مانگو۔
اس سچ کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس جھوٹ کا اثر ختم ہوسکتا ہے جو گزشتہ بیس سال سے پھیلایا جارہا ہے۔ میڈیا کی اسی چکا چوند میں ایک صحافی عابد اللہ جان 2001ء سے سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اسے کتابوں کی شکل میں تحریر کررہا ہے۔ اس نے نائن الیون سے چند ماہ قبل افغانستان میں گزارے جہاں اس نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے انٹرویو کیے لیکن کسی اخبار میں انھیں شایع کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے اور نشوونما پانے والے اس صحافی نے اب تک چھ کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس وقت اس کی آخری کتاب کا ترجمہ ’’افغانستان آخری صلیبی جنگ کا نقطۂ آغاز‘‘ میرے سامنے ہے جسے مکتبہ خدام القرآن لاہور نے شایع کیا ہے۔ یہ حیران کن انکشافات سے بھری ہوئی ایک کتاب ہے جس میں اس نے تمام حوالے مغربی میڈیا میں شایع ہونے والی اطلاعات کے دیے ہیں جنھیں جان بوجھ کر دبا دیا گیا تاکہ طالبان کا ایک مسخ شدہ چہرہ دنیا کو دکھا کر ان پر جنگ مسلط ہو۔
ہم سب کے لیے یہ سچ حیران کن ہوگا کیونکہ ہم جھوٹے پراپیگنڈے کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ لکھتا ہے ’’ جس کو بھی طالبان کا صحیح علم ہے وہ جانتا ہے کہ طالبان دور میں سماجی بہبود کی وزارتیں بدخشانی فارسی خواں اقلیت کے ہاتھ میں تھیں، پکتیا ایک پختون اکثریتی صوبہ ہے اس کا گورنر بدخشانی فارسی خوان تھا۔ اسی نسلی اقلیت کو فوج کی انفنٹری ڈویژن کی ذمے داری تھی جس میں شیعوں پر مشتمل ڈویژن بھی تھی جو سنیوں کے شانہ بشانہ طالبان مخالفوں سے لڑتی تھی۔ اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے حوالے دیے اور بتایا کہ کابل یونیورسٹی میں خواتین کی کلاسیں 1999ء میں شروع کی گئیںتھیں۔ قندھار،ہرات اور جلال آباد میں خواتین نرسز کے اسکول کھولے گئے۔ ان کے دور میں خواتین تمام اسپتالوں میں کام کرتی تھیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور اقوام متحدہ نے ان کی تمام امداد بند کردی تھی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ مخلوط تعلیم نافذ کرو۔ پہلی دفعہ 8 مارچ 2000ء کو کابل میں خواتین کا عالمی دنیا منایا گیا جس میں سات سو خواتین جمع ہوئیں وہاں وائس چانسلر نے تقریر میں کہا کہ ہمارے پاس خواتین کی تعلیم کے مسئلے کا حل تو ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ دنیا ہم سے مخلوط تعلیم کا نفاذ چاہتی ہے۔
وہ لکھتا ہے اور تمام مغربی حوالوں سے لکھتا ہے کہ ’’باہم متصادم گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ طالبان نے عصمت دری، لوٹ مار، ڈکیتی اور قتل و غارت جیسے جرائم کا کامیابی سے خاتمہ کیا۔ سب سے بڑی بات افغانستان میں قانون کی حکمرانی تھی۔ اس کے نزدیک طالبان کے جرائم میں سرفہرست موجودہ عالمی نظام سے آزادی، دوسرا ایک کامیاب اسلامی ریاست کا قیام،تیسرا تیل کی صنعت سے وابستہ افراد کے اثرو رسوخ سے انکار، چوتھا کارپوریٹ میڈیا کے مقابل میں میڈیا کا فقدان‘ اہم ترین جرائم تھے۔ کتاب انکشافات کا مجموعہ ہے اور یہ انکشافات عابد اللہ جان نے مغربی میڈیا کی رپورٹوں سے اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انکشاف جنھیں میڈیا کی چکا چوند نے چھپا دیا تھا۔ وہ سچ جو بکھرا ہوا تھا اسے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ورنہ میڈیا تو دنیا بھر میں ان لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو سروںکی فصلیں کاٹ کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس پتلیوں کی طرح رقص کرتے دانشوروں، تجزیہ نگاروں، ادیبوں، شاعروں اور مؤرخوں کی کمی نہیںہے۔ ایسے لوگ تاریخ کے ہر دور میں میسر رہے ہیں۔ ’’روبیضہ‘‘ جن کے ہاتھ میں اہم معاملات پر گفتگو کرنے کا لائسنس میڈیا نے عطا کیا ہے۔
حج، قربانی اور دانشوروں کی منطقیں
اوریا مقبول جان جمعـء 25 ستمبر 2015
کسی قوم کے چہرے پر جب منافقت‘ جھوٹ اور ریاکاری اس قدر نمایاں ہو جائے کہ اس کے صاحبان علم و دانش اور قوم کو راستہ دکھانے والے ادیب‘ دانشور اور قلم کار اپنے زندگی کے روز مرہ معمول میں ایک طرز عمل اختیار کریں اور ان کی گفتگو میں پائے جانے والی اخلاقیات بالکل اس سے مختلف ہو تو اسے کم سے کم جس اصطلاح سے یاد کیا جا سکتا ہے وہ منافقت ہے۔
ہمارے ہاں یہ چلن مدتوں سے چلا آ رہا ہے‘ روس میں کیمونزم کے انقلاب سے پہلے ہی برصغیر پاک و ہند میں کیمونسٹ پارٹی وجود میں آ چکی تھی اور انھی خیالات کو پروان چڑھانے کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین بھی بن چکی تھی۔ 1920 میں جب نئے نئے کیمونسٹ روس نے آذربیجان میں قومیتوں کی کانفرنس بلائی تو برصغیر پاک و ہند سے بھی قومی کیمونزم کی بنیاد پر جدوجہد کرنے والے گروہ اس میں شریک ہوئے۔
ان میں بلوچ قومی جدوجہد کرنے والوں کا بھی ایک وفد شامل تھا۔ وہ کیمونزم جس کا ایک ہی نعرہ تھا کہ دنیا بھر کے مزدورو! ایک جاؤ یہ رنگ‘ نسل‘ زبان اور مذہب کے نعرے تم کو تقسیم کرنے کے لیے ہیں۔ تمہارا اصل دشمن سرمایہ دار ہے جو تمہارے خلاف متحد ہے۔ اسی کیمونزم نے اپنے نفاذ کے بعد پہلا نعرہ یہ بلند کیا کہ سوویت روس قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں ان کا ساتھ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم بلوچ کا لیڈر وہ سردار بن گیا جو صدیوں سے اسی پر ظلم روا رکھے ہوئے تھا۔
دوسری جانب ان تمام عظیم کمیونسٹ رہنماؤں‘ بڑے شاعروں‘ ادیبوں اور لکھاریوں کا طرز زندگی ایسا تھا کہ انھیں مزدور کے پسینے سے بو آئی تھی‘ وہ اس کے میلے کچیلے کپڑوں سے نفرت کرتے تھے‘ انھیں گھن آئی تھی۔
ان کی طبع نازک پر گراں گزرتا تھا۔ آپ سجاد ظہیر‘جاں نثار اختر‘ فیض احمد فیض‘ ساحر لدھیانوی یا ان جیسے مزدوروں کے خیرخواہ کسی بھی شاعر‘ افسانہ نگار یا ادیب کی مرنجا مرنج‘ نفیس اور بورژوا زندگی کو دیکھ لیں‘ ان میں نہ مزدور کی زندگی کی تلخی آپ کو ملے گی اور نہ ہی ویسا دکھ اور کرب۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے نے ان لوگوں پر ایک بہت بڑا احسان کیا۔ انھیں اس منافقت کے بحر بیکراں سے نکال دیا۔
اب یہ قومی سیکولر‘ سرمایہ دارانہ معیشت اور جمہوریت کے علمبردار اور دعوے دار بن گئے ہیں۔ چلو ایک بات تو طے ہوئی کہ ستر سال میں جمہوریت کے خلاف جو عظیم دانشور‘ شاعروں‘ ادیب سے بڑے بڑے لیکچر سناتے تھے‘ وہ اس کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کہہ کر گالیاں دیتے تھے‘ آج وہ جمہوریت کو پوری دنیا کے لیے نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایک منافقت سے جان چھوٹی۔ جس امریکا کو ساری زندگی گالیاں دے کر زبانیں بدمزہ کیں‘ اسی کی تعریف میں رطب اللسان ہو کر جی خوش کر لیا۔
لیکن ان کے دونوں ادوار میں ایک چیز مشترک تھی‘ وہ کیمونسٹ تھے تب بھی اور آج کل لبرل سیکولر ہیں تب بھی اسلام اور شعائر اسلامی سے نفرت‘ ان کی تضحیک‘ ان کو سائنسی اعتبار سے غلط ثابت کرنے کی کوشش اور انھیں معاشرے کے لیے ناسور قراردینا ان کی خاص پہچان بن چکی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ٹی وی چینلوں‘ اخباری کالموں اور مضامین میں حج اور قربانی کے بارے میں شروع کی جانے والی بحث ہے۔ یوں تو سنت ابراہیمی اور حج کے بارے میں یہ بحث گزشتہ ایک سو سال سے سائنس اور ترقی کے نام پر چھیڑی گئی تھی لیکن آج کا سوشل میڈیا اور اس پر جلوہ گر دانشور طرح طرح کی درفنتنیاں چھوڑ رہے ہیں۔
یہ میڈیا پر بھی جلوہ گر ہیں اور کالم بھی تحریر کرتے ہیں۔ حج کے بارے میں ان کا پہلا جواز یہ ہوتا ہے کہ جو رقم حج پر خرچ کی جاتی ہے اس سے کسی غریب کی مدد کی جانی چاہیے۔
اس کے لیے وہ دلائل کا انبار لاتے ہیں‘ غریبوں کی حالت زار پر آنسو بہاتے ہیں‘ لیکن ان کی منافقت کا عالم یہ ہے کہ ان میں اکثر یورپ کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور وہاں کی سیر و تفریح اور ان کے نظام کی تعریف پر کالم بھی لکھتے ہیں۔ کیا ان کے ہر سال کے اس عیاشانہ ’’ ٹوڑ‘‘ کے خرچے سے کئی گھرانے اپنی بھوک نہیں مٹا سکتے تھے‘ کتنوں کے جسموں پر ملبوس آ سکتے ہیں‘ کوئی قریب المرگ دوائی سے زندگی پا سکتا تھا۔ پوچھو تو کہتے ہیں وہ تو ہمارے مداحین اور ’’فین‘‘ ہمیں بلاتے ہیں۔ اگر تم اتنے ہی غریبوں کے خیرخواہ ہو تو اپنے مداحین سے کہو کہ جو رقم میری ’’عیاشی‘‘ پر خرچ کرتے ہو وہ کسی غریب کو دے دو۔ وہ یہ سب عیاشی ہر سال کرتے ہیں مگر ٹیلی ویژن ٹاک شو اور کالم میں حج کے بارے میں ان کی دوغلی منطقیں عروج پر ہوتی ہیں۔
دوسری منطق قربانی کے بارے میں دی جاتی ہے۔ ان میں کچھ جانوروں کے حقوق کے علمبردار بھی شامل ہو گئے ہیں۔ انھیں دنیا میں صرف ایک دن مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے جانور نظر آتے ہیں۔ دنیا کی آبادی سات ارب ہے جن میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں۔ ان میں قربانی کرنے والوں کی تعداد دس فیصد سے زیادہ نہ ہو گی لیکن ان کو روزانہ لاکھوں ٹن گوشت نظر نہیں آتا جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ برازیل‘ چین بلکہ دنیا کے ہر ملک میں روز جانوروں کو ذبح کرکے سپلائی کیا جاتا ہے۔ امریکا میں اس سال صرف آسٹریلیا سے تین لاکھ ستانوے ہزار آٹھ سو نواسی (3,97889) ٹن بیف درآمد ہوا ہے۔
یہ صرف ایک ملک سے دوسرے ملک تک بیف کی تجارت کا حال ہے‘ جب کہ انگلینڈ سے لے کر فرانس اور یورپ کے ہر ملک اور افریقہ سے لے کر لاطینی امریکا تک ہر جگہ روزانہ کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں جن کی کل تعداد عیدالاضحی کے ایک روز میں قربان کیے جانے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا کسی دانشور‘ تجزیہ نگار اور جانوروں کے حقوق کے علمبردار کو اس بات کا دکھ ہوا۔ چین میں بیش بہا کتوں کے فارم ہیں جہاں سے روزانہ لاکھوں کتے ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کا گوشت سپلائی کیا جاتا۔ کوئی دانشور چیخا۔ ان سب کا علم و فضل اور دانشوری 365 دنوں میں سے صرف ایک عیدالاضحی پر نظر آتی ہے۔
کہتے ہیں جانور کو ذبح کرنا ایک جاندار کو تکلیف دینا ہے اور یہ ظلم عظیم ہے۔ کاش یہ لوگ تھوڑی سائنس سے آشنائی رکھ لیتے۔ اگر انسان گوشت نہیں کھائے گا تو پھل‘ سبزیاں اور اناج کھائے گا۔ کیا یہ زندہ اشیا نہیں ہیں۔ کیا یہ درد محسوس نہیں کرتیں۔کیا ان میں سوچنے سمجھنے اور ردعمل دکھانے کی اہلیت نہیں۔کل تک ہمارے یہ صاحبان علم انھیں بے حس اشیا سمجھتے ہوں گے۔ لیکن آج یہ مکمل طور پر زندہ‘ جاندار چیزیں ہیں جو درد بھی محسوس کرتی ہیں اور اپنے بچاؤ کے لیے ردعمل بھی دکھاتی ہیں۔
1970 کے آس پاس دو سائنس دانوں Burdon-sanderson نے جب تحقیق شروع کی تو حیران رہ گئے کہ بجلی کے جھٹکے لگانے سے پودا کیسے درد کا ردعمل دکھاتا ہے۔
مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق ہر پودے کا ایک اعصابی نظام ہوتا ہے اور یہ پودے نہ صرف درد کی شدت کو محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر سوئزر لینڈ میں پودوں کے حقوق کا بل پاس ہوا۔ برڈن سینڈن نے تحقیق کو آگے بڑھایا اور کہا کہ پودے بھی اسی طرح درد سے تڑپتے ہیں جس طرح جانور درد میں بلبلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ درد اس وقت اور شدید ہو جاتی ہے جب ان سے جسم کا کوئی حصہ جدا کیا جائے، جیسے درختوں سے کیلے‘ آم‘ کینو اور سیب توڑے جائیں اور درخت دیکھتا رہ جائے۔ فصلوں پر دارانتی چلا کر کاٹا جائے۔
یہ سبزیاں‘ پھل اور دیگر چیزیں کٹ کر بھی زندہ ہوتی ہیں۔ ہم انھیںچیرتے ہیں‘ کاٹتے ہیں‘ ابالتے ہیں‘ بھونتے ہیں اور پھر کھاتے ہیں۔ لیکن کسی دانشورکو ان کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ اس لیے ان کی زبان اور فریاد سے ہم آشنا نہیں ہیں‘ ہم سن نہیں پاتے۔ اس کے باوجود ہم منطقیں دیتے پھرتے ہیں کہ گوشت کھانا ظلم اور سبزی کھانا انسانیت ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی کے دو بیٹے ہوں ایک نارمل اور دوسرا گونگا بہرا۔ گونگا بہرا اپنا دکھ نہ بتا سکے اور ہم یہ سمجھتے رہیں کہ اسے تکلیف ہی نہیں ہوتی۔ لیکن میں کیا کروں میرے یہ دانشور اکثر تکے کباب‘ چانپ کڑاہی کی دکانوں پر بھی نظر آتے ہیں‘ کھا کھا کر پیٹ میں درد کروا لیتے ہیں‘ توندیں بڑھالیتے ہیں اور پھر سبزیوں اور سلاد پر آ جاتے ہیں۔دونوں صورتوں میں نہ انھیں جانوروں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ پودوں کے نوحے۔
تعلیم کا کاروبار
اوریا مقبول جان پير 21 ستمبر 2015
گزشتہ پچیس تیس سالوں سے ہماری شہری اور قصباتی زندگی میں کاروباری ہوس نے ایسے تعلیمی اداروں کو راستہ دکھایا ہے جنھیں عرف عام میں ’’انگلش میڈیم اسکول‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی بے شمار اقسام ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ملک کے نظام تعلیم کے ساتھ اتنا بھونڈا مذاق نہیں کیا گیا جسقدر بے رحمانہ طریقے سے چند سو روپے ماہانہ پر انگلش میڈیم تعلیم دینے والوں سے لے کر کئی ہزار روپے ماہانہ پر تعلیمی ادارے قائم کر کے کیا گیا۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں لوگوں کے بچوں کو جدید انگریزی تعلیم کا لالچ دینے کے لیے کیا کیا ڈھنگ اختیار کیے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک عمارت‘ خواہ گھر ہو‘ کوئی گودام ہو یا تین چار دکانوں کا مجموعہ‘ اسے خریدا یا کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اس میں رنگی برنگی کرسیوں‘ دیواروں پر چیختے چلاتے رنگ کے پلستر‘ ان پر مغرب سے متاثر کارٹون کے کرداروں کی تصویریں اور اگر ممکن ہو تو چند عالمی حقائق اور مناظر کی پینٹنگز لگا کر اس قابل کیا جاتا ہے کہ اس کے تنگ و تاریک کمروں‘ یہاں تک کہ راہداریوں اور برآمدوں میں کلاسوں کا اہتمام کیا جا سکے۔ انتہائی مشکل سا انگریزی نام منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسا نام کہ جو ان دیہات نما قصبے کے رہنے والوں کو اچنبھا سا لگے۔
آپ ان لوگوں کی کاروباری صلاحیت کی داد ان ناموں کو دیکھ کر ہی دے دیں گے۔ ’’لٹل اسکالرز‘‘ لٹل اینجلز‘‘، ’’رائزنگ اسٹار‘‘ ’’بیسٹ ریڈرز‘‘، ان تمام کے آگے انگلش میڈیم اسکول لکھ کر اس ’’عظیم‘‘ ادارے کا افتتاح ہوتا ہے۔ پورے قصبے میں یا قریبی شہر سے ایسی بچیاں ڈھونڈی جاتی ہیں جنہوں نے اسی طرح کے اداروں سے واجبی تعلیم جیسے میٹرک یا ایف اے وغیرہ کیا ہوتا ہے۔ انھیں معمولی تنخواہ پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ ان میں اکثر کی تنخواہ پاکستان میں ایک عام مزدور کی تنخواہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ خواتین یا لڑکیوں کے انتخاب کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے اسکول ان فرسودہ اور دقیانوسی اردو میڈیم تعلیمی اداروں سے مختلف نظر آتا ہے جہاں استاد، جنھیں عرف عام میں ماسٹر کہا جاتا ہے، پڑھاتے ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھانے کے لیے سیلبس نام کی کسی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔ ادھر ادھر کے اسکولوں میں‘ اور جہاں کہیں جو نرسری‘ پرائمری اور پھر میٹرک کی انگلش میڈیم کتابیں میسر آتی ہیں انھیں اسکول کا نصاب بنا دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسی کتابوں کو مالکان خود خریدتے ہیں اور انھیں بچوں کے والدین کو مہنگی قیمت پر فروخت کر کے منافع کمایا جاتا ہے۔
اسکولوں کے نظام تعلیم کو اس دیہی قصباتی ماحول سے الگ تھلگ دکھانے کے لیے عجیب و غریب بھونڈے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ آپ ان کی کلاسوں میں جائیں‘ ایک بیچاری معمولی تعلیم یافتہ استاد فوراً بچوں سے کہے گی‘ بچو! گڈ مارننگ بولو! اور پوری کلاس لہک لہک کر گڈ مارننگ کہے گی۔ بعض اوقات ایسی مضحکہ خیز صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ دن کے ایک بجے بھی یہ بچے اسی رٹے رٹائے گڈ مارننگ کو ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچوں کو وہ نرسری نظمیں یاد کروائی جاتی ہیں جنھیں بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں میں سکھایا جاتا ہے۔ ان نظموں کو نہ وہاں کے بچے سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے والدین۔ آپ لوگوں نے ایک نظم ’’ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل اسٹار‘‘ عموماً بچوں کی زبانی سنی ہوگی۔
ان کو چند مخصوص اشارے سکھائے جاتے ہیں کہ ٹوئینکل کہتے ہوئے کیسے انگلیوں کو کھولنا اور بند کرنا ہے‘ اسٹار یا ’’اسکائی‘‘ کہتے اوپر ہاتھ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ آپ ان بچوں کو کھڑے کر کے پوچھیں کہ ٹوئینکل کا کیا مطلب‘ اسکائی کے کیا معنے یا اسٹار اور ڈائمنڈ کیا چیز ہیں تو انھیں بالکل اس کا ادراک تک نہ ہو گا۔ لیکن ان بچوں کو یہ سب رٹایا جا رہا ہوتا ہے تا کہ معلوم ہو کہ یہ اسکول گجومتہ‘ جھڈو‘ کھڈ کوچہ یا میر علی کے قصبوں میں نہیں بلکہ برمنگھم اور گلاسگو کے نواح میں کھلا ہوا ہے۔ اس بدترین اور بھونڈے طریقے سے یہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے اسکول بچوں کو نام نہاد ’’انگلش میڈیم‘‘ تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان قصبوں کے والدین غریب ہوتے ہیں‘ اپنا پیٹ کاٹ کر ان بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی ویسی ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے جیسی لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ دے کر اشرافیہ کے بچے حاصل کرتے ہیں۔
یہ اشرافیہ کے بچے کیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کا حال بھی قابل رحم ہے۔ دنیا میں او لیول‘ اے لیول یا کیمبرج کا تعلیمی نظام دیگر نظام ہائے تعلیم کے مقابلے میں ایک کمتر نظام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ترجیح یعنی رینکنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے نظاموں سے بہت کم ہے لیکن ’’ہم‘‘ نے اس کو اختیار کیا ہے، اس ’’ہم‘‘ سے مراد یہ ملک یا اسی کی حکومت نہیں بلکہ ان کاروباری تعلیمی اداروں کے مالکان ہیں جنہوں نے اس سے وابستہ ہو کر اپنے کاروبار کو چار چاند لگائے۔ پورے ملک کے طول و عرض میں لوگوں کی جیبیں کاٹ کر تعلیمی ادارے بنائے اور ان میں سہانے خواب دکھا کر بچوں کو داخل کروایا گیا۔ ہزاروں روپے ماہانہ فیس دے کر یہ بچے او لیول اور اے لیول کر کے جب پیشہ وارانہ تعلیم کے میدان کے لیے میڈیکل کالجوں یا انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے نکلے تو جب ان کے سرٹیفکیٹوں کو میٹرک اور ایف ایس سی کے برابر تولا گیا تو وزن کرنے والی مشین یعنی بورڈ کمیٹی نے کم قرار دے دیا۔ او لیول میں 80 فیصد نمبر لینے والا یہاں 60 فیصد پر آگیا۔ اب ایک اور کاروباری طبقہ وجود میں آ گیا۔
یہ تھا پرائیویٹ میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیاں۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں ان طلبہ کے لیے یہ تعلیمی ادارے کھولے جانے لگے۔ یہ صرف اور صرف وہ مضامین پڑھاتے تھے جن کی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کھپت ہو۔ نوے کی دہائی میں کمپیوٹر کا جنوں چڑھا تو ہر گلی محلے میں ایک کمپیوٹر کالج کھل گیا۔ کاروباری اداروں نے اپنی ضرورت کے لیے ملک میں ایک دو بزنس ایجوکیشن کے اسکول کھلوا دیے۔ ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کی اجازت ملی تو پھر یار لوگوں کو بھی کمائی کا لالچ آیا۔ اسپتال ہو نہ ہو‘ مریض میسر ہو نہ ہو‘ لیبارٹری یا لائبریری کی سہولت کے بغیر میڈیکل کالج کھلے اور بے تحاشہ کھلے۔ دوسری جانب کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جن کے والدین سرمایہ خرچ کر سکتے تھے‘ قرض لے سکتے تھے‘ گھر یا گاڑی بیچ سکتے تھے‘ انھیں جب معلوم ہوا کہ او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد ان کے بچے کا اس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کوئی مستقبل نہیں یا ان کا بچہ یہاں کے ماحول‘ اور یہاں کے اداروں پر عدم اعتماد کر چکا ہے تو انھوں نے اپنے بچوں کو انگلستان‘ یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں بصد مشکل اور بہت سا بوجھ اٹھا کر بھیجنا شروع کر دیا۔
یہاں ایسے بچے جو قابل تھے ان کو انھی ملکوں نے اپنے ہاں ملازمتیں دے کر رکھ لیا اور ان بچوں کو وہ ماحول ذرا بھی اجنبی اس لیے محسوس نہ ہوا کہ انھوں نے بچپن ہی سے نرسری نظموں کے ذریعے اپنے ذہنوں میں اس ماحول کے خواب بسائے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جو انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک بات کا بہت واویلا کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم انگریزی کے علاوہ دی ہی نہیں جا سکتی۔ ان کی حیرت کے لیے کیا یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ یہ انگلش میڈیم بچے جب جرمنی‘ ناروے‘ سویڈن‘ چین اور جاپان کی یونیورسٹیوں میں گئے تو انھوں نے پہلے ان کی زبان سیکھی اور پھر وہاں انھی کی زبان میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ لیکن تعلیم کو کاروبار بلکہ بدترین اور مکروہ کاروبار بنانے والے کبھی بھی اس بات پر راضی نہ ہوں گے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کی جگہ اردو میں تعلیم دی جائے۔ اس لیے کہ اسی انگریزی نام پر تو وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے لوٹتے ہیں ورنہ نہ ان کے اسکولوں کی عمارتیں اردو میڈیم اچھے اسکولوں سے بہتر ہیں‘ نہ ان کے استاد اور نہ ہی لیبارٹری و لائبریری اور کھیل کے میدان۔ لیکن چونکہ ان تمام کاروباری تعلیمی اداروں کے سرپرست سیاستدان ہیں‘ ان کے خیرخواہ بیوروکریٹ ہیں اس لیے دانستہ عدم توجہی کی وجہ سے بڑے بڑے سرکاری تعلیمی ادارے زوال کا شکار ہیں‘ بے توجہی کی تصویر ہیں اور والدین ان کاروباری دکانوں پر بچے بھیجنے کے لیے مجبور۔
عذاب الادنیٰ، عذاب الاکبر
اوریا مقبول جان جمعـء 18 ستمبر 2015
وہ جس کے قبضہء قدرت میں زمین و آسمان، وسعتِ افلاک میں پھیلی کائناتیں، ہوائیں، بحر و بر حتیٰ کہ زمین کی تہوں میں رینگنے والوں سے لے کر افلاک کی بلندیوں پر آباد فرشتوں تک سب ہیں۔ جو سب پر محیط ہے۔ جو اس کائنات کا مالک اور مختارِ کل ہے۔ جو واحد ہے اور اس کی عظمتوں، طاقتوں، قوتوں اور فیصلوں میں کوئی شریک نہیں۔ جو کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فقط اتنا فرماتا ہے” کُن ” یعنی ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ جو فاعلِ حقیقی ہے۔ اسے اپنے فیصلے نافذ کرنے، اپنے ارادے کی تکمیل اور اپنی تخلیق کو جنم دینے کے لیے کسی سہارے، کسی وسیلے، کسی واسطے کی حاجت نہیں۔ وہ مصور اور خالق ہے لیکن اپنی تخلیق کے لیے رنگوں، بُرش، کینوس کا محتاج نہیں۔ وہ صبح آسمان پر لمحہ بہ لمحہ بدلتی تصویریں دکھاتا ہے تو شام شفق کی رونمائی کرتا ہے۔ وہ جو اس دنیا ہی نہیں تمام دنیاؤں کے اقتدارِ اعلیٰ پر متمکن ہے اور اسے اس اقتدارِ اعلیٰ کے لیے کسی چند سو لوگوں کی اسمبلی کے آئین کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔ وہ اس کائنات میں اپنی طاقت کے اظہار، اپنی قوت کی ہیبت اور اپنے فیصلوں کے نفاذ کے لیے بھی کسی انتظامی مشینری کا محتاج نہیں۔
البتہ وہ اپنے فیصلوں کے کچھ اصول ضرور بتاتا ہے۔ وہ اپنے خوش ہونے کے لیے اعمال بھی بتاتا ہے اور اپنی ناراضی کی وجوہات بھی کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس کے حکم سے لوگوں کو عزت میسر آتی ہے یا ذلت، بادشاہت عطا ہوتی ہے یا چھین لی جاتی ہے۔ لیکن مصیبت، بلا، آفت یا عذاب کے بارے میں تو اس نے دو ٹوک انداز میں وضاحت کرتے ہوئے، کھول کھول کر بیان کر دیا ” کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی جب تک اللہ کا اذن نہ ہو جائے” (التغابن11-)۔ کس قدر وضاحت سے اللہ نے دنیا میں انسانوں پر نازل ہونے والی مصیبتوں، آفتوں، پریشانیوں اور عذابوں کے بارے میں حتمی طور پر کہا، کہ یہ سب اسی کے اذن اور اسی کے حکم سے ہوتی ہیں۔ انسانوں پر مصیبتیں، آفتیں، پریشانیاں اور عذاب نازل کرنے کی بھی اللہ نے بار بار مصلحت بتائی ہے اور ساتھ یہ کلیہ اور قاعدہ بھی بتا دیا کہ ہم کبھی بڑی پریشانی، بڑی آفت، مصیبت یا بڑا عذاب اچانک نہیں بھیجتے، بلکہ اس سے پہلے چھوٹی پریشانی، آفت یا مصیبت سے خبردار کرتے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں۔ “اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تا کہ وہ ہماری طرف لوٹ آئیں” (السجدہ21- )۔ مصیبتوں، پریشانیوں، بلاؤں اور آفتوں کی بھی دو اقسام بیان فرمائی گئیں۔
ایک وہ جو کسی انسان کو ذاتی طور پر ملتی ہیں۔ یہ اصلاح، تربیت اور وارننگ کا ایک ایسا قانون ہے جو مہربان اور کریم اللہ سبحان و تعالیٰ نے اپنایا ہے۔ یہ وہ کڑوی دوا ہے جس کے نتیجے میں اللہ انسانوں کی اصلاح چاہتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بلاؤں، پریشانیوں، بیماریوں اور مصیبتوں کی اس دوا کے پینے اور صبر کرنے کے بیش بہا انعامات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” مومن کو اگر کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ اس تکلیف کے بدلے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے۔” ایک اور جگہ فرمایا۔ “قیامت کے دن جب بیماریوں اور مصیبتوں کے وجہ سے لوگوں کے گناہ کم ہونا شروع ہوں گے تو وہ خواہش کریں گے کہ کاش ہم زندگی میں کبھی صحت مند نہ ہوتے” ۔
یہ الگ بات ہے کہ جب بار بار کی تنبیہہ اور مصیبت سے وہ باز نہیں آتے تو پھر اللہ ایسے بدبخت لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے “اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے اور انھیں مہلت دیے جاتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی اور شرارت میں بہکتے رہیں۔” (البقرہ15-) یہ انسانوں کے ساتھ اللہ کا بحثیت فرد معاملہ ہے۔ اس لیے کہ روزِ قیامت کسی گروہ، کسی امت، کسی خاندان، کسی برادری یا کسی قبیلے نے اللہ کے حضور بحثیت مجموعی یا اکٹھے پیش نہیں ہونا۔ اللہ نے کس قدر کھول کر بیان کیا ہے “اور سب قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے” (مریم 15-)۔ ہر ایک کو دنیا میں علیحدہ حالات، ماحول اور حیثیت دی گئی، ہر کسی کا امتحان اور پرچہ علیحدہ ہے۔ ایک صالح باپ اور ماں کے گھر پیدا ہونے والے اور ایک طوائف کے ہاں جنم لینے والے کا نہ امتحان ایک جیسا اور نہ ہی ممتحن کی پوچھ گچھ ایک جیسی۔ اسی لیے مہربان رب اس کمرۂ امتحان میں آنے سے پہلے ہر شخص کو تنبیہ اور وارننگ کرتا ہے تا کہ انھیں اس سے ہدایت حاصل ہو اور وہ اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔
لیکن قوموں، گروہوں، قبیلوں اور امتوں کو سرکشی سے باز رکھنے کے لیے اللہ کا طریق کار تو وہی ہے کہ پہلے ایک چھوٹی آفت، چھوٹی بلا اور مصیبت سے تنبیہ کی جاتی ہے اور پھر اگر یہ قوم، گروہ، قبیلہ یا امت نہ سنبھلے تو اللہ کا غیظ وغضب ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ لیکن قوموں کے معاملے میں وارننگ دیتے ہوئے اللہ ہر خاص و عام کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اور عذاب بھی ہر خاص و عام پر نازل کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے “اس فتنے اور وبال سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انھی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گنہگار ہیں اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (الانفال 25)۔ عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہیں مگر اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اللہ دونوں جہانوں کا مالک ہے۔ یوں سمجھیں آپ کے گھر کے دو کمرے ہیں۔ آپ اپنی ایک قیمتی چیز اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیتے ہیں تو آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اس وارننگ کے دوران جو لوگ اللہ کے دوسرے جہان میں منتقل ہو جاتے ہیں، وہ اللہ کی دسترس میں ہی رہتے ہیں۔ البتہ وہاں ان کا معاملہ اس طرح ہو گا یعنی اکیلے اکیلے اور اپنے اعمال کے مطابق۔ لیکن دنیا میں اس کے غیظ و غضب کا شکار بستی کا ہر خاص و عام ہو جاتا ہے۔
اللہ کے اس دستورِ عذاب و آزمائش کو سامنے رکھیے اور پھر سوچیے کہ وہ حرم جہاں ایک مچھر کا مارنا بھی حرام ہے، وہاں تند و تیز ہوائیں چلتی ہیں، طوفان آتا ہے۔ وہ کرین جو انتہائی مضبوط تصور کیا جاتا ہے اور جس کے حادثے کا تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ صرف چند حادثات ہیں جو موجودہ تاریخ میں نمایاں ہیں جن میں 2008ء کا نیویارک اور 2015ء کا ہالینڈ کا واقعہ۔ ایسا کرین آسمان کی بلندیوں سے حرم میں عبادت میں مصروف لوگوں پر گر پڑتا ہے۔ کیا یہ صرف حادثہ ہے جس کی تحقیقات ہونا چاہیے تھیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ خانہ کعبہ کے مطعاف اور اردگرد، دنیا کی ہر زبان میں علمائے کرام لوگوں کو قرآن کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ کسی ایک عالم نے بھی اس طرح اشارہ تک نہ کیا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک وارننگ، ایک تنبیہہ ہو سکتی ہے۔ آؤ ہم سب ملکر اس پوری امت کے لیے اجتماعی استغفار کر لیں۔ کس قدر بہتر وقت ہے کہ پوری امت سے لوگ یہاں جمع ہیں، یہ اگر اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے استغفار کریں تو شاید اللہ رحم فرما دے۔ لیکن یہ توفیق بھی تو صرف میرا اللہ ہی دیتا ہے۔ ہم بحثیت امت جو کچھ کر رہے ہیں، کیا ہم اللہ کی ناراضگی کو دعوت نہیں دے رہے۔
ستاون اسلامی ممالک میں سود کے نظام کو روا رکھتے ہوئے اللہ سے جنگ جاری ہے۔ مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا خون جتنا آج بہہ رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ بشارالاسد کے قتل عام کی حمایت کرنے والے بھی اس امت میں سے ہیں اور داعش کے حمایتی بھی۔ نورالمالکی نے جو لاکھوں لوگ قتل کیے ان کا دفاع کرنے والے بھی ہیں اور جبتہ النصرہ کی حمایت والے بھی۔ قاتل، چور، ڈاکو، سودخور اور رزقِ حرام سے پیٹوں کا جہنم بھرنے والے حرم میں پہنچ جائیں تو کیا وہ رحمتیں سمیٹتے ہیں؟۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ایک شخص خانہ کعبہ سے لپٹ لپٹ کو رو رو کر دعائیں کر رہا تھا، لیکن اس کی دعائیں قبول نہیں ہونگی۔ اس لیے کہ اس نے جو لباس پہنا ہے وہ رزقِ حرام کا، جو کھانا اس نے کھایا وہ رزقِ حرام کا۔ اس کے جسم کی پرورش حرام سے ہوئی، ایسے شخص کی دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں۔” کاش کوئی حکمران، حرم میں موجود کوئی عالمِ دین اس کرین حادثے کے بعد لوگوں کو اجتماعی استغفار کے لیے پکارتا۔ کاش ہم پر رحم کیا جاتا، ہم اللہ کو منا لیتے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایک خوف نے آن گھیرا ہے۔ قیامت کے نزدیک جب بڑی جنگ یعنی ملحمتہ الکبریٰ شروع ہونا ہے تو میرے آقا ﷺ کو بتائی گئی نشانیوں کے مطابق اس کا آغاز حج کے دوران قتلِ عام سے ہو گا۔ خوف ہے کہ چھوٹا عذاب تو ہم نے دیکھ لیا، کہیں ہم بڑے عذاب کا شکار تو نہیں ہونے والے۔
سپریم کورٹ، نفاذ اردو اور افواج پاکستان
اوریا مقبول جان پير 14 ستمبر 2015
1857ء کی جنگ آزادی کو انگریز غدر یا بغاوت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انگریز اور اس کے حواری مؤرخین نے اسے ایک ہندوستانی قوم کی مشترکہ جنگ قرار دیا اور وہی تاریخ ہم نے کئی سال اپنی نصابی کتب میں پڑھی۔ لیکن موجودہ دور کا عظیم مؤرخ ولیم ڈارلپل نے جب لاہور میں موجود آرکائیوز میں وہ خط و کتابت اور انگریز فوجی افسران کی رپورٹیں دیکھیں تو حیران رہ گیا۔ اس کی حیرت اس بات پر تھی کہ یہ جنگ آزادی تو صرف اور صرف مسلمانوں نے لڑی تھی۔ سب سے پہلے جامع مسجد دلی کے خطیب نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ اور اعلان جاری کیا تھا اور پھر اس اعلان کے بعد پورے برصغیر سے مسلمان جہاد اور شوق شہادت کی آرزو میں دلی پہنچنا شروع ہوگئے۔
ادھر پورے برصغیر میں موجود انگریز کی چھاؤنیوں سے بھی سپاہی ان جذبہ جہاد سے سرشار متوالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وہاں پہنچنا شروع ہوئے۔ لاہور کے آرکائیوز میں موجود ریکارڈ ان تمام بڑے بڑے چوہدریوں، خانوں، نوابوں، وڈیروں یہاں تک کہ مشائخ عظام اور گدی نشین پیروں کے نام اپنے کاغذات میں چھپائے بیٹھا ہے جنہوں نے چند روپے فی سپاہی کے عوض یہاں سے انگریز کو افراد فراہم کیے جو دلی میں جا کر انگریز کی فتح و نصرت کے لیے لڑے۔ دلی فتح ہوگیا، بہادر شاہ ظفر قلعے سے بھاگ کر ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپا۔ مجاہدین قلعے میں محصور ہونے لگے تو ایک سپاہی نے بند ہوتے ہوئے دروازے میں اپنا وجود ڈال کر کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی گردن بیچ میں آ گئی جو دو مضبوط دروازوں میں آ کر نیلی ہوگئی‘ لیکن انگریز فوج کو مہلت مل گئی اور وہ زور لگا کر دروازہ پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر لال قلعہ دلّی پر انگریزی پرچم یونین جیک لہرا دیا گیا۔ آپ ان تمام افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں جنھیں انگریز فوجی افسروں نے پھانسی پر لٹکایا۔
توپوں کے سامنے باندھ کر اڑا دیا گیا، آپ کو اکثریت ہی نہیں مکمل کی مکمل فہرست مسلمانوں کی ملے گی۔ ہزاروں میں سے ایک کسی دوسرے مذہب کا فرد نظر آتا ہے۔ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آ گیا تو دو کام کیے گئے۔ پہلا یہ کہ وفاداری نبھانے والوں کو انعامات اور القابات دیے گئے۔ یہ فہرست بھی ان تمام افراد کے نام بتاتی ہے جنہوں نے KB.E، O.B.E اور سر کے خطاب حاصل کیے۔ یہ سب کے سب اسی زمین کے بیٹے تھے اور ان میں سے اکثریت کی اولاد آج پاکستان کی سیاست کے تخت پر جلوہ گر ہے۔ جس سپاہی نے قلعے کے دروازے میں گردن دی تھی وہ فرنٹیئر فورس رجمنٹ کا تھا، اس کے اعزاز میں اس کی یونٹ کو کہا گیا کہ وہ اپنے کالروں میں نیلی پٹی لگایا کریں۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ایک انکوائری کمیشن بٹھایا گیا جو اس بات کی تحقیق کرے کہ برصغیر میں تقریباً ایک سو سال سے انگریزی فتوحات جاری ہیں۔ جہاں جہاں انگریز نے اپنی حکومت قائم کی وہاں بغاوت کا تصور تک نہ تھا۔ رعایا پر امن تھی۔ پھر یہ اچانک آگ کیسے بھڑک اٹھی۔
کمیشن کی رپورٹ تین بڑی بڑی جلدوں میں مرتب کی گئی ہے جسے ’’انڈیا میوٹنی رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں بغاوت کے بہت سے اسباب بتائے گئے‘ لیکن چند بڑے اسباب میں ایک یہ تھا کہ انگریز افسران اور عام ہندوستانی سپاہیوں کے درمیان زبان کے فرق نے ایک ایسی خلیج قائم کر دی تھی جس سے انھیں ہمیشہ یہ احساس ہوتا رہا کہ ہم کسی غیر ملکی کے تسلط میں ہیں۔ اس کو مزید ہوا ایک غیر مذہب کے عیسائی انگریز حکمران کے تصور نے دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سپاہیوں اور انگریز حاکموں کے بیچ میں کوئی مقامی آفیسر ایسا نہ تھا جو ان کا ہم قوم ہوتا، ان کی زبان بولتا، لیکن ہمارا وفادار ہوتا اور ہمارے لیے فوج میں ڈسپلن قائم کرتا۔ اس کے بعد دو بہت بڑے اقدام کیے گئے۔ ایک یہ کہ سول سروس اور فوج میں مقامی افسران کو بھرتی کیا جانے لگا۔
فوج میں کمیشن اور سول سروس میں امتحانات۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ انگریز نے جو بھی قوانین بنائے فوراً ان کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا۔ اس اہم ترین ذمے داری کو ڈپٹی نذیر احمد نے نبھایا۔ یوں ضابطۂ فوجداری، ضابطۂ دیوانی، تعزیرات ہند، قانون معاملات زمین وغیرہ تمام دفاتر میں مہیا کر دیے گئے۔ چھوٹی سے چھوٹی عدالت میں بھی عرضی نویس کے لائسنس جاری کیے گئے جو عدالتوں کے باہر درخواستیں لکھ کر دیتے تھے جو اردو زبان میں ہوتیں۔ یہ عرضی نویس عموماً وکیلوں کے برابر قانون جانتے تھے اور وہ درخواستوں کو قانونی حوالوں سے اس طرح بہترین بناتے کہ عدالت میں بیٹھے مجسٹریٹ یا جج کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ تمام سول افسران کو علاقائی زبان سیکھنے پر علیحدہ وظیفہ دیا جانے لگا اور ان کی کارکردگی میں شمار کی جانے والی صلاحیت بن گئی۔
دوسری جانب فوج چونکہ انگریز کی حکمران فوج تھی۔ اس لیے اس کے مقامی افسران کو معاشرتی، تہذیبی اور رہن سہن کے اعتبار سے مکمل طور پر انگریز افسران کے ہم پلہ بنایا گیا۔ ان کی گھریلو زندگی سے لے کر آفیسرز میس اور کلبوں تک سب کا سب ایسا علاقائی زبان کا علم بنا دیا گیا جیسے ایڈنبیرا کی چھاؤنی ہو یا سینڈھرسٹ کا آرمی کالج۔ یونیفارم سے لاؤنج سوٹ، گھڑ سواری کا لباس، گالف کا کھیل اور میس کے آداب‘ یہ سب کا سب انگریز تہذیب کی علامتیں تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انگریزی کو فوجی زبان کے طور پر مستعمل کر دیا گیا۔ غلط بولو، صحیح بولو لیکن انگریزی بولو تا کہ تم عام سویلین سے الگ نظر آؤ۔ اسی انگریزی تہذیب و ثقافت کا اثر تھا کہ پورے ہندوستان کی افواج میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی کا فرق مٹ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو مسلمان فوجی افسران کے نمایندہ وفد نے جنرل کری اپا کے ہمراہ قائد اعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ ملک تقسیم کر لو لیکن فوج تقسیم نہ کرو ورنہ تم بدامنی اور بدانتظامی کے اندھیروں میں ڈوب جاؤ گے۔ لیکن قائداعظم نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا۔ اگر فوج تقسیم نہ کی گئی تو وہ حلف نہیں اٹھائیں گے۔ اس لیے کہ ان کو علم تھا کہ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی فوج بھی ایک نظریاتی فوج ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے اس مملکت خداداد پاکستان کی یک جہتی کی دو علامتیں بتائیں ایک کلمہ طیبہ اور دوسری اردو بحیثیت قومی زبان۔
اردو سول عدالتوں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں تو انگریز کے زمانے سے نافذ رہی اور ہر دفتر میں باقاعدہ ورنیکلر کے نام پر ایک علیحدہ شعبہ تھا۔ واحد ریاستی ذریعہ آمدن مالیہ و آبیانہ تھا۔ اس کا تمام ریکارڈ اردو میں تھا۔ مقامی سطح پر تمام کاروبار اردو میں ہوتا تھا۔ لیکن فوج میں انگریزی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا گیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملٹری اکیڈمی کے پہلے انگریز کمانڈنٹ فرانسس ایچ بی اینگل نے یہ احساس کیا کہ یہ فوج اس وقت تک ایک قومی فوج نہیں بن سکتی جب تک اسے اسلامی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے۔ ورنہ اس میں اور بھارت کی فوج میں کوئی فرق نہ ہو گا‘ اس نے کہا کہ جب تک اس فوج میں ایک ’’روحانی جذبہ‘‘ نہ ہو گا۔ یہ قربانی کے لیے تیار نہ ہو گی۔ اس نے ’’قائد اعظم اون‘‘ کے نام سے کیڈٹ بٹالین بنائی۔ علمائے کرام کے فتوے سے ایک موٹو ترتیب دیا جو ’’نصر من اللہ و فتح قریب‘‘ تھا۔ اسی نے اکیڈیمی میگزین کا نام مسلم امہ کے حوالے سے ”Rising Crescent” ابھرتا ہوا ہلال رکھا۔ اس نے پہلی دفعہ رمضان میں آفیسرز میس بند رکھنے کا اعلان کیا۔ وہ خود سگریٹ پیتا تھا لیکن رمضان کے دوران تمام عملے کو سگریٹ سے منع کیا گیا۔
ایک فرض شناس ماتحت کے طور پر اس نے پاکستان کی فوج کو انھی اصولوں پر منظم کرنے کی کوشش کی جس کے لیے یہ ملک بنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جس کے رہنماؤں نے محکومیت کے احساس کمتری کو اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ سول محکموں سے اردو کی چھٹی کروا دی۔ دوسری جانب فوج میں تو انگریزی تہذیب اور زبان پلتی بڑھتی اور جواں ہوتی رہی۔ یحییٰ خان کے زمانے میں پریڈ کی آوازوں کو چپ راس وغیرہ میں تبدیل کیا گیا۔ ضیاء الحق نے کھانے کے شروع میں جینٹل مین بسم اللہ اور آخر میں جینٹل مین الحمد للہ کاآغاز کیا۔ مگر آج بھی سب جگہ انگریزی کا راج ہے۔ فوج کو اس زمین کے لیے لڑنا اور اسی کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بشارتوں کی امین سرزمین کی فوج ہے ۔ ایک فوجی تو کسی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں علاقائی زبان کے علم کی ڈگریاں وصول نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کا حکم آئین کے مطابق سب پر نافذ العمل ہے۔ آرمی چیف کا صرف ایک فرمان کہ ہم آئین کے احترام اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کل سے افواج پاکستان کے جی ایچ کیو سے عام بٹالین تک اور ہر ادارے میں اردو زبان کو رائج کرتے ہیں‘ اس فیصلے پر صرف چند منٹ میں علمدرآمد کرا سکتا ہے۔ کیا راحیل شریف صاحب اس معاملے میں بھی عوام کا دل جیتنے کے لیے تیار ہیں۔
اردو کے مخالفین کا المیہ
اوریا مقبول جان جمعـء 11 ستمبر 2015
سپریم کورٹ کے اردو کے نفاذ کے فیصلے کے بعد اس مملکتِ خداداد پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پر صرف اور صرف انگریزی زبان کی وجہ سے حکمرانی کرنے والے چند ہزار افراد کی منطقیں اور لن ترانیاں دیکھنے والی ہیں۔ ان میں سب سے سرخیل وہ گروہ ہے جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے اور جس گروہ کے درمیان میں نے تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزارا ہے۔
دوسرا گروہ ان چند ادیبوں، شاعروں، کالم نگاروں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جنھیں اردو سے اس لیے بغض ہے کہ یہ واحد کڑی ہے جو پاکستان کے عوام کو گوادر سے لے کر گلگت تک ایک لڑی میں پروتی ہے۔ میری زندگی کے گزشتہ چالیس سال ان کے درمیان بھی گزرے ہیں۔ تیسرا گروہ ہے جسے ہمارے شہروں میں کاروباری تعلیمی اداروں نے جنم دیا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے انگلش میڈیم کا ایک خمار اس ملک کے کاروباری طبقہ کے دماغ میں پیدا ہوا اور انھوں نے گلی گلی اسکول کھول کر سرمایہ کمانے کی مشینیں لگا دیں۔
ان سے ایک ایسی نسل نے جنم لیا جسے نہ تو ڈھنگ کی انگریزی آئی اور نہ ہی وہ اردو سے شناسا ہو سکے۔ سارا دن گھروں، بازاروں، محلوں اور علاقوں میں اردو بولتے اور چند گھنٹے سب مضامین انگریزی میں پڑھتے۔ میں نے پڑھنے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ پاکستان میں تمام ایسے ادارے جن کا انگریزی ذریعہ تعلیم بتایا جاتا ہے، وہاں بات سمجھانے، کسی مضمون کی اصل کو تفصیل سے بتانے کے لیے اردو بلکہ بعض دفعہ علاقائی زبان استعمال کی جاتی ہے۔
یہ تمام طلبہ اساتذہ سے مضمون اردو میں پڑھتے ہیں لیکن امتحان انگریزی میں دینے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ فریب خوردہ شاہین ہیں جنھیں زبردستی اس راستے پر ڈالا گیا اور آج وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر کہیں اردو اس ملک میں رائج ہو گئی تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔
لارڈ کارنیوالس کی 1773ء میں جنم لینے والی بیوروکریسی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے “اسلاف” نے اس زبان کو اس لیے اختیار کیا تھا کہ یہ ان کے حاکموں کی زبان تھی اور اس کے ذریعے وہ حکمرانوں کے منظورِ نظر بھی بنتے تھے اور ساتھ ساتھ عوام سے الگ تھلگ بھی نظر آتے تھے۔ ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان پر کون مسلط ہے۔ جو مسلط ہے وہی ان کا آقا ہے، اسی کی زبان یہ بولتے ہیں، اسی کا ملبوس زیب تن کرتے ہیں اور اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔
انگریز سے پہلے فارسی دربار کی زبان تھی تو یہ طبقہ فارسی بولتا، اسی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنانا اپنا فخر سمجھتا تھا۔ کون تھا جس نے اپنی زبان میں فرامین جاری کیے ہوں ۔ ان شاہ پرست اور غلام صفت لوگوں کو راہِ راست پر لانا کوئی مسئلہ نہیں۔ ضیاء الحق کے لیے نماز کی پابندی کرنے، اور مشرف کے لیے عیش و عشرت کی محفلیں سجانے والے یہ بیوروکریٹ صرف ایک حکم نامے کے محتاج ہیں۔ آپ نے حکم جاری کیا تو ان میزوں پر آج کل جو انگریزی ڈکشنریاں اور تھیزیرس رکھے ہوتے ہیں، حکم نامے کے ساتھ ہی ان کی جگہ اردو لغت آ جائے گی۔
اپنے کمال تجربے کے باوجود یہ انگریزی بھی بدترین حد تک بری لکھتے ہیں جس کا ہر انگریزی جاننے والا مذاق اڑاتا ہے اور اردو بھی کوئی اتنی اچھی نہیں لکھیں گے لیکن کم از کم اردو میں لکھنے سے ان کے حکم نامے اس زبان میں ضرور آ جائیں گے جسے عام آدمی پڑھ کر سمجھ سکے۔ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ انھوں نے ایک منافقانہ طرز کا دفتری نظام چلایا ہے۔ وزیر ِاعظم سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر تک تمام گفتگو، میٹنگ، بریفنگ وغیرہ اردو میں ہوتی ہے۔ سائل سے اردو یا اس کی علاقائی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن منافقت دیکھیں کہ میٹنگ کے “منٹس” یعنی کارروائی انگریزی ہی میں لکھتے ہیں۔ اور سائل کو فیصلہ انگریزی میں تھماتے ہیں۔ اسی بیوروکریسی کے ہم پلہ ہمارا عدالتی نظام ہے۔
تمام کارروائی سپریم کورٹ سے لے کر سول جج تک اردو یا علاقائی زبان میں ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن مسل پر بیان تک انگریزی میں ترجمہ کر کے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں، PLD انگریزی میں مرتب ہوتا ہے۔ وکیل بحث اردو ہی میں کرتا ہے اور حوالہ انگریزی میں پیش کرتا ہے کیونکہ منافقانہ طرزِعمل یہ ہے کہ ہم اس زبان میں فیصلے تحریر نہیں کرتے جو عدالت میں بولی جا رہی ہوتی ہے۔
شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی لن ترانیاں عجیب ہیں۔ یہ اردو کہاں سے آ گئی، یہ تو صرف چند لوگوں یعنی 9 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ علاقائی زبانوں اور مادری زبانوں میں تعلیم ہونی چاہیے۔ لیکن آپ ان لوگوں کا اپنا طرزِ عمل دیکھیں۔ پیدا ملتان میں ہوتے ہیں، مادری زبان سرائیکی، کالم اردو میں لکھتے ہیں، بلکہ پروگرام بھی اردو میں کرتے ہیں۔ پیدا پشاور میں ہوئے ہیں مادری زبان پشتو، لیکن اردو کے لازوال شاعر، پیدا تربت میں ہوئے، مادری زبان بلوچی، اردو کے قابلِ فخر شاعر۔ پنجاب کے تو ہر قصبے اور قریے میں یہ ہی معمول ہے کہ کوئی مادری زبان میں لکھنا پسند ہی نہیں کرتا۔
فیض احمد فیضؔ سے مجید امجد اور سعادت حسن منٹو سے راجندر سنگھ بیدی تک، سندھ سے تلوک چند محروم، بلوچستان سے گوپی چند نارنگ، عطا شاد، سرحد سے احمد فراز۔ ان سے کہو پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی میں کیوں نہیں لکھتے، تو بڑے وثوق سے کہیں گے کہ علاقائی زبان کے سننے اور پڑھنے والے کم ہیں۔ بڑے بڑے شعرا اور ادیبوں کی اکثریت سے میں ملا ہوں، جن میں فیض احمد فیض سے احمد فراز تک اور منیر نیازی سے عطا شاد تک شامل ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو طبیعت اردو میں ہی رواں ہوتی ہے۔ دانشوروں کا حال یہ ہے کہ وہ انگریزی کی وکالت میں قلم توڑ دیتے ہیں لیکن اس انگریزی کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ دو انگریزی چینل چلانے کی جسارت کی گئی مگر عدم مقبولیت کی وجہ سے بند کرنا پڑے۔
ان سارے علاقائی زبانوں کے حامیوں اور اس کا نعرہ بلند کرنے والوں سے کہو کہ تم نے آج تک اپنی زبان میں کیا لکھا، کتنے پروگرام کیے، کتنی کتابیں لکھیں تو ان کا منہ لٹک جاتا ہے۔ لیکن ہر کسی نے اردو میں کتاب، کالم، مضمون لکھا بھی ہوتا ہے اور بار بار تقریر بھی کی ہوتی ہے اور ٹاک شو میں علم کے جوہر بھی دکھائے ہوتے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ کسی ایسی زبان کو پاکستان میں رائج ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے جس سے اس ملک میں یک جہتی کی فضا نظر آئے، جو پاکستان کو بحثیت قوم زندہ کر سکے۔
رہا نظامِ تعلیم کا مسئلہ تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور تاریخ نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ دنیا میں ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیا ہو اور ترقی کی ہو۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ جیسے ملک جن کی آبادیاں چند لاکھ لوگوں پر مشتمل ہیں وہ بھی انگریزی نہیں بلکہ قومی زبان میں تعلیم دلواتے ہیں بلکہ پی ایچ ڈی تک اسی زبان میں کرواتے ہیں۔ چین، جرمنی، جاپان کی تو مثال ہی اور ہے کہ ان کی آبادی بہت بڑی ہے۔
یہ انگریزی میڈیم ہمارے ہاں چند دہائیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اس مقصد کے لیے نافذ کیا گیا کہ ایک ایسی نسل پیدا کی جائے جو بچپن ہی سے ایسے خواب دیکھے جیسے یورپ کا بچہ دیکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہیر، سسی اور سوہنی کی جگہ سنڈریلا آباد ہو، تا کہ وہ اگر ایک دن یہاں سے پڑھ لکھ جائے تو خدمت کرنے کے لیے یورپ کا انتخاب کرے اور وہ مغرب کے کسی بھی ملک میں جائے تو وہ اسے اجنبی محسوس نہ ہو۔ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے۔
ایسے طلبہ کی تعداد چند لاکھ سے بھی کم ہے۔ سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے کے ساتھ ایک تازہ فیصلہ الہٰ آباد ہائی کورٹ بھارت کا بھی پڑھ لینا چاہیے۔ الہٰ باد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام سرکاری ملازم اور سیاسی رہنما اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں۔ جس دن وزیر اعظم، وزیرِ اعلیٰ، چیف سیکریٹری، آئی جی، کور کمانڈر اور سیکریٹری تعلیم کے بچے، پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں، سرکاری اسکولوں میں داخل ہو گئے ان اسکولوںکا معیار پاکستان کے کسی بھی انگلش میڈیم سے بلند ہو جائے گا۔
رہا بیوروکریسی کا معاملہ تو آج سول سروس کا امتحان اردو میں لینے کا فیصلہ ہو جائے، دس دن کے اندر اس کی تمام کتابیں اردو زبان میں مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ ہر بڑے خاندان کا بچہ کسی ایسے اسکول میں داخل ہونے کے لیے تڑپے گا جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہو کیونکہ اس نے اردو میں امتحان دے کر آفیسر بننا ہو گا۔ رہا شاعروں، دانشوروں، ادیبوں اور تجزیہ نگاروں کا مسئلہ تو وہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو کے حق میں اردو میں گفتگو کرتے رہیں گے، اردو میں کالم بھی لکھیں گے، شاعری، افسانہ نگاری بھی کریں گے، ٹی وی میں اینکری بھی اردو میں کریں گے اور اپنی مادری زبان کے لیے آنسو بھی بہاتے رہیں گے۔
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
اوریا مقبول جان پير 7 ستمبر 2015
کیا اس طرح بے بسی کی موت مرنے والے بچے کی یہ پہلی تصویر ہے جو پوری انسانیت کے منہ پر طمانچے کی طرح ثبت ہوئی ہے۔ نہیں اس جدید تہذیب کے منہ پر ہزاروں بلکہ لاکھوں طمانچے ایسے ہیں جو اپنی انگلیوں کے نشان تک چھوڑ کر گئے ہیں۔ جدید تہذیب جس کی سب سے بڑی پہچان جدید سیکولر قومی ریاستیں اور ان کی سرحدیں ہیں۔ وہ سرحدیں جن میں کسی دوسرے انسان کا گھسنا حرام ہے۔ سرحد کے بان کے پہریدار بندوقوں سے مسلح وہاں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کو کسی دوسرے ملک میں یا تو پناہ کی بھیک مل سکتی ہے یا پھر اگر انھیں آپ کے کام کی ضرورت ہو تو مزدوری۔ آپ کے پاس سرمایہ ہے تو آپ کا استقبال بھی کیا جاتا اور آپ کو عزت و توقیر بھی ملتی ہے۔ آپ کے لیے یہ تمام سرحدیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا تک آپ اپنا کاروبار چمکا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آپ سمندروں میں غرق ہو جائیں‘ صحراؤں میں جان دے دیں‘ رستے میں ڈاکو آپ کو لوٹ لیں‘ آپ کی عورتیں اغوا کر کے دنیا کے بازاروں میں بیچی جائیں‘ بچے پیاس سے تڑپ کر جان دے دیں۔ کوئی آپ کے لیے اپنی سرحدوں کے دروازے نہیں کھولے گا۔ یہ جدید سیکولر قومی ریاستوں کا ’’خوبصورت‘‘ چہرہ ہے جو 1920ء میں لیگ آف نیشنز میں پاسپورٹ کے ڈیزائن منظور ہونے کے بعد تحریر کیا گیا۔ جس کے بعد میں 1924ء میں ویزا ریگولیشنز آئے‘ بارڈر سیکیورٹی فورسز قائم ہوئیں اور پوری دنیا کو ایک بہت بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ خار دار تاروں کے پنجروں کے پیچھے کوئی ترک تھا تو کوئی عرب‘ کوئی ہسپانوی تھا تو کوئی ایرانی۔ بانکے پہریدار کسی کو اپنے پنجرے میں گھسنے کی اجازت نہیں دیتے‘ خواہ ایک جانب غلے کے گوداموں میں غلہ کائی لگنے سے ضایع ہو جائے اور دوسری جانب روزانہ قحط سے لوگ مر رہے ہوں۔ جدید قومی سیکولر ریاستوں کی سرحدوں کا تحفظ مفلوک الحال انسانوں کی جانوں سے زیادہ مقدس اور محترم ہے۔
یہ ساحل تھا اور یہی ترکی کا شہر قسطنطنیہ جب یہ مسلم امہ سرحدوں اور جدید سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ کوئی عربی، ایرانی، مصری، شامی اور لبنانی نہیں تھا۔ خلافت عثمانیہ کے تخت پر بایزید دوم متمکن تھا۔ اس دوران 1492ء میں اسپین پر ازبیلا اور فرڈینینڈ نے قبضہ کر لیا اور کیتھولک چرچ نے ایک ٹرائبیونل قائم کیا جس کا مقصد غیر عیسائیوں‘ ملحدوں اور چرچ کے مخالفین سے زمین کو پاک کرنا تھا۔ اس کا نام تھا “Tribunal del officio de la inguicion” اس کا مقصد غیر عیسائیوں کو زبردستی عیسائی کرنا‘ ان کو ملک بدر کرنا‘ قتل کرنا‘ غلط نظریات رکھنے والوں کو آگ میں جلانا اور عمر بھر جیل میں قید رکھنا تھا۔ 31 مارچ 1492ء کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا‘ جسے حکم نامہ الحمراء کہا جاتا ہے جس کے تحت حکم دیا گیا کہ تمام یہودی 31 جولائی تک اسپین چھوڑ دیں۔
یہودیوں پر اسپین میں نہ رہنے کی پابندی 16 ستمبر 1968ء تک قائم رہی جب دوسری ویٹیکن کونسل نے 1492ء کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا اور 2014ء یعنی گزشتہ سال اسپین کی حکومت نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ وہ یہودی جو یہاں سے چلے گئے تھے، ان کی نسل میں کوئی شخص اگر ثابت کرے تو وہ دہری شہریت کے طور پر اسپین کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ اس ٹرایبونل کے مظالم سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ شاعروں، مصوروں، سائنس دانوں اور فلسفیوں کو جمع کیا جاتا‘ ٹرائبیونل فیصلہ کرتا کہ ان میں شیاطین کی روح گھس گئی ہے۔ پھر ایک دن شہر کے بیچوں بیچ بہت بڑا الاؤ روشن کیا جاتا اور ان سب کو اس میں پھینک دیا جاتا۔ یہودیوں کو جب یہ حکم ملا کہ وہ ناپاک ہیں اور اسپین چھوڑ دیں تو ان میں نصف کے قریب عیسائی ہو گئے۔ چرچ کے پروہتوں نے یہ حکم جاری کیا کہ وہ روزانہ ان کے سامنے سور کا گوشت کھائیں گے اور ہفتہ یعنی یہودیوں کی چھٹی کے دن اپنی دکانیں کھولیں گے۔ ایک مہینے کی مہلت تھی۔ لاکھوں یہودی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار اسی سمندر میں پناہ اور امان کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔
کچھ کو قریب کے افریقی ساحلوں پر رہنا نصیب ہو گیا لیکن تاریخ کا روشن باب یہ ہے کہ سلطان بایزید دوم کو جب ان کی حالت زار کا علم ہوا تو اس سمندر میں بکھرے یہودیوں کو بچانے کے لیے اپنا سب سے بڑا بحری جہاز ’’کمال رئیسں‘‘ روانہ کیا جو تقریباً ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کو سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے سے بچا کر لایا۔ یہودیوں کو خلافت عثمانیہ کے کسی بھی شہر میں آباد ہونے، کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس وقت تک جدید قومی سیکولر ریاستوں کے قیام کے بعد پناہ گزین‘ مہاجرین‘ یا عارضی شہری کا تصور نہیں تھا جو آج کی مہذب دنیا کا تحفہ ہے۔ کسی سے شہریت دینے کے لیے پانچ‘ دس یا پندرہ سال تک مملکت سے وفاداری کا تجربہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ پہلے کام کا ویزہ، پھر عارضی رہائش اور پھر شہریت کے جدید مہذب قوانین نہیں تھے۔ انسان دنیا بھر کے انسانوں کو اپنی طرح ہی کے انسان تصور کرتے تھے۔ یہ یہودی ترکی میں آباد ہو گئے۔ 1923ء میں جب خلافت عثمانیہ ٹوٹی اور ترکی بھی ایک جدید سیکولر قومی ریاست بن گیا تو یہودیوں نے یروشلم کی جانب آہستہ آہستہ جا کر آباد ہونا شروع کیا۔ 1949ء میں کمال اتاترک کے سیکولر ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو یہودیوں کی اکثریت وہاں جا کر آباد ہوئی۔ اسے دنیا میں اسرائیل کی طرف جانے والی دوسری بڑی ہجرت کہا جاتا ہے۔
یہودی اسرائیل میں آباد ہو گئے بلکہ آباد کر دیے گئے۔ وہ لوگ جو اس وقت عالمی ضمیر کے جاگنے اور برطانوی وزیر اعظم کے ضمیر کے زندہ ہونے پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں انھیں 1982ء کا صابرہ و شتیلہ کا وہ قتل عام اور اس کی تصویریں یاد نہیں آ رہی ہیں۔ انھیں گلیوں میں کھیلتے ان سیکڑوں معصوم بچوں کے گولیوں سے چھدے جسموں کی تصویریں بھول گئی ہیں۔ انھیں غزہ کے معصوم بچے یاد نہیں آئے جو اسرائیل کی بمباری سے اسپتالوں میں مارے گئے‘ گھروں میں ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ انھیں عراق کے فلوجہ میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے بچوں کی تصویریں بھول گئیں۔ افغانستان میں غزنی کے قریب امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے پوری کی پوری بارات کی لاشیں کیا ذہن سے محو ہو گئیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کی لاشیں تو آج بھی کبھی ملائیشیا اور کبھی تھائی لینڈ کے ساحلوں پر دفنائی جاتی ہیں۔
یہ عالمی ضمیر کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ انسانی حقوق کس خطے میں پائے جاتے ہیں۔ ایلان کُردی وہ تین سالہ بچہ جسے کوبانی کے شہر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس کے آباؤ اجداد کو تقسیم کس نے کیا اور کیوں کیا۔ وہ جو صلاح الدین ایوبی کے وارث تھے آج یورپ میں پناہ حاصل کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ انھیں جدید قومی ریاستوں کی تخلیق کے وقت شام، عراق، ترکی، اردن اور ایران میں تقسیم کر دیا گیا۔ ان کے گرد عالمی سرحدیں کھینچ دی گئیں۔ ان کے ہاتھ میں بندوق دے کر کہا گیا لڑو‘ ترکی سے لڑو‘ ایران سے لڑو‘ شام سے لڑو‘ عراق سے لڑو‘ پھر انھیں در بدر کیا گیا۔ وہ کبھی روس کے ہاتھ میں کھیلے اور کبھی امریکا کا کھلونا بنے۔ صلاح الدین ایوبی کی قوم جس سے شکست آج بھی مغرب نہیں بھولا۔ کس قدر انا کو تسکین ملی ہو گی۔ برطانوی وزیراعظم اور یورپ کے دیگر حکمرانوں کو جب انھوں نے اعلان کیا ہو گا کہ ہم ان کرد مہاجرین کے لیے سرحدوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے مسلم امہ کہاں ہے۔ مسلم امہ کہاں ہے۔ ستاون اسلامی جدید قومی ریاستوں پر سیکولر حکمران مسلط ہیں۔ وہ اتنے ہی قوم پرست ہیں جتنا کوئی فرانسیسی یا برطانوی ہو سکتا ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سُن لے
اوریا مقبول جان جمعـء 4 ستمبر 2015
مدتوں سے میرا یہ دستور رہا ہے کہ میں آج کے پُر آشوب دور میں ان لوگوں کے دفاع کو اپنا فرضِ عین سمجھتا ہوں جو نامساعد حالات، زمانے کی بے رخی، معاشی حالات کی سِتم ظریفی اور اہلِ اقتدار کے ظلم و ستم کے باوجود منبر و محراب پر اللہ کے دین کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ مسجد کا ایک خطیب دانستہ یا نادانستہ طور پر اسلام کی علامت ہے اور ان لوگوں نے کمال جانفشانی سے اس علامت کو قائم رکھا ہے۔
ان کے اسلاف جن کے یہ وارث ہیں انھوں نے عمر بھر ایک دوسرے کے خیالات، نظریے، عقیدے اور تشریح و توضیح کا احترام کیا۔ فقہ کے چاروں امام اپنی تشریح کو ایک رائے تصور کرتے تھے اور دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ یہ سب تمہید مجھے اس لیے باندھنا پڑ رہی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل میں نے ” ہمارے افسانہ ساز مؤرخین” کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہم اپنی ایمانیات، عقائد اور ان محترم شخصیات، جن کے کردار کی گواہی اللہ نے قرآن اور رسول اللہ نے اپنی احادیث میں دی ہے، انھیں تاریخ کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھیں گے تو یہ ظُلمِ عظیم ہو گا۔
اس لیے کہ تاریخ بے سر و پا داستانوں اور جھوٹ سچ کا ملغوبہ ہے۔ دنیا کی کوئی تاریخ اپنے سچے اور کھرے ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جنھیں اللہ صدیقین، شہدا اور صالحین کے لقب سے پکارتا ہے اور سید الانبیأﷺ جن کے مرتبے کی تصدیق کرتے ہیں ان کو تین سو سال بعد لکھے جانے والے جھوٹ اور سچ کے پلندے، یعنی تاریخ کی گواہی پر رکھ کر پرکھنا زیادتی ہے۔ مسلمان دنیا میں فخر کے ساتھ سینہ تان کر ایک بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے حدیث نویسی جو مغرب کے ہاں بھی تاریخ ہی کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے۔
اس میں جرح و تعدیل اور اسمأالرجال کا ایک ایسا علم ایجاد کیا، جس نے یہ طریقہ وضع کیا کہ ہر سنی سنائی بات یا روایت اس قابل نہیں ہوتی کہ اسے تحریر کیا جائے جب تک اس کو بیان کرنے والے اپنے کردار میں سچے، ایماندار اور صاحبِ امانت نہ ہوں۔ لیکن دنیا کی ہر تاریخ جھوٹے اور کذاّب راویوں کی روایتوں سے بھری پڑی ہے۔
کسی بھی مسلمان مؤرخ نے کبھی بھی اس معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ میں نے اس سلسلہ میں تاریخِ طبری کا حوالہ خاص طور پر دیا تھا، کیونکہ یہ مغرب کے ان مصنفین کی محبوب کتاب ہے جو رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں پر دشنام طرازی کرنا چاہیں تو انھیں حوالے اسی قسم کی کتابوں سے ملتے ہیں۔ اس پر یار لوگوں نے طبری کے دفاع میں بہت کچھ لکھا اور میں نے جواب میں صرف یہ نوٹ تحریر کیا کہ ” طبری پر لکھنا میں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنا فرض سمجھتا تھا۔ کیونکہ دو واقعات ایک حضرت زینب اور حضرت زید کی طلاق اور دوسرا واقعہ غرانیق طبری نے جس انداز میں بیان کیا ہے کوئی انھیں کالم میں لکھنے کی ہمت تو ایک طرف پڑھنے کی برداشت نہیں رکھتا” ۔
میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میرے سیکولر دوست تو میری اس وضاحت پر خاموش ہو گئے، لیکن چند علمائے اُمت اپنی تلواریں سونت کر مجھ پر پل پڑے۔ وہ لوگ جن کا دفاع میں صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتا رہا ہوں۔ ان علماء نے طبری کا دفاع صرف اس لیے کیا کہ گزشتہ چند سو سالوں سے ان کے مدارس میں تفسیرِ جلالین پڑھائی جاتی ہے اور اس میں اس واقعہ غرانیق کا ذکر ہے، جس کا ماخذ طبری کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔
سب سے پہلے ولیم میؤر نے اس واقعہ کے حوالے سے اپنے غلاظت بھرے مضامین لکھے۔ دفاعِ طبری اور میری مذمت کا سلسلہ ملکوں ملکوں پھیل گیا اور تازہ ترین مضمون بھارت کے مولانا عبد المتین منیری صاحب نے تحریر کیا ہے۔ پہلے تو انھوں نے مجھے طنزاً سول سروس سے وابستہ کہہ کر بات کا آغاز کیا اور پھر شک ظاہر کیا کہ شاید میں عربی زبان سے ناواقف ہوں اور یہ بھی فرض کر لیا کہ میں نے ہو سکتا ہے انگریزی ترجمے سے تاریخِ طبری پڑھی ہو۔ انھوں نے مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور معافی مانگنے اور غلطی کا علی الاعلان اظہار کرنے کے لیے کہا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی تومیں دن رات مانگتا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس روئے زمین پر میں بہت ہی گناہ گار اور عاصی شخص ہوں جس کی بچت صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہﷺ کی شفاعت کے بغیر ممکن نہیں۔ میرا عربی کا علم بھی کمزور ہے اور میں علومِ دین کے سمندر کا اس طرح غواص نہیں جیسے علماء دین ہوتے ہیں۔ میں خود کو ان کے سامنے طفلِ مکتب سمجھتا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں کہ جب قرآن پاک ایک واقعہ کی تفصیل بیان کرتا ہے، اور معتبر احادیث میں بھی اس کی تفصیل بالکل ویسی ہی ہوتی ہے۔ لیکن تین سو سال بعد پیدا ہونے والا مؤرخ بالکل اس کے الٹ تحریر کر رہا ہوتا ہے۔ تاریخ کا تو عالم یہ ہے کہ خود ابن جریر طبری کے ایک ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔
ایک ابن جریر بن رستم اور دوسرا ابن جریر بن یزید ہے اور دونوں ہی مصنفین ہیں۔ ایک کو شیعہ علماء طبا طبائی، ابن الندیم، علی بن داؤد حلی، ابو جعفر طوسی اور سید خوئی اہلِ تشیع میں سے مانتے ہیں اور دوسرے کو سنی علماء امام کا درجہ دیتے ہیں۔ اور کہیں بھی معلوم نہیں پڑتا کہ تصدیق کی جائے کہ کونسی کتاب کس طبری کی لکھی ہوئی ہے۔
لیکن اگر تاریخ طبری کو ہی دیکھا جائے، جو زیرِ بحث ہے تو ڈاکٹر خالد طلال کبیر نے طبری کے اہم راویوں کا جائزہ لیا ہے جو ان کے نزدیک بارہ ہیں۔ یہ طبری کی تاریخ کا بنیادی ماخذ ہیں۔ ان بارہ میں سات وہ ہیں جن پر ائمہ جرح و تعدیل جھوٹے یا متہم بالکذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور پانچ ثقہ راوی ہیں۔
اب یہ دروغ گو راویوں یعنی وہ جن پر جھوٹے ہونے کا الزام ہے ان کی روایتوں کی تعداد ملاحظہ کریں۔ محمد بن سائب کلبی (12 ) ، ہشام بن محمد کلبی (55 ) محمد بن عمر (440) سیف بن عمر تمیمی(700) ، ابو مخنف لوط بن یحییٰ(612) ہیشم بن عدی (16) محمد بن اسحاق بن یسارکی (164) روایات ہیں ان تمام کو ملا کر 1999 روایات بنتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں طبری نے سچے اور ثقہ راویوں کی صرف 209 روایات کو تاریخ کا حصہ بنایا۔ زبیر بن بکاء (8)، محمد بن سعد (164)، موسیٰ بن عقبہ (7) خلیفہ بن خیاط (1) وہب بن منّبہ(46)۔ تاریخ طبری میں یہ ہے جھوٹے اور ثقہ راویوں کی روایتوں کا تناسب۔ حالت یہ ہے کہ عباسی حاکم معتصد بااللہ کا رسالہ بغیر کسی چھان پھٹک کے تاریخ کا حصہ بنایا گیا جو خالصتاً بنوامیہ سے بغض و عناد اور قبائلی دشمنی کی بنیاد پر تحریر کیا گیا تھا۔
مہتم بالکذب اور جھوٹے راویوں کی روایتیں طبری نے بلا کم و کاست تحریر کر دیں اور کئی تو ایسی ہیں جن میں معمولی سی عقل بھی استعمال کی جاتی تو قصہ جھوٹا محسوس ہوتا۔ جیسے سیدہ زینب والے واقعہ میں ایسے لگتا ہے جیسے رسولِ اکرم نے انھیں پہلی دفعہ دیکھا ہے جب کہ وہ رسولِ اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں ۔ یہیں سے مؤرخ کی نیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تاریخ میں اپنی مرضی کے افسانے جمع کرنا چاہتا تھا۔ میرے پاس تاریخ طبری کا جو نسخہ ہے وہ خوش قسمتی سے عربی میں ہے اور قاہرہ سے چھپا ہے اور جسے میں اپنی کمزور عربی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور ترجمہ بھی دیکھتا ہوں۔ آپ حیران ہوں گے کہ طبری کی تفسیر کے رجال کا کام تو مصر کے محمود شاکر نے کیا ہے لیکن کسی نے آج تک تاریخ طبری کے رجال اور راویوں پر مفصل کام نہیں کیا۔ اس لیے کہ اگر مسلمانوں کی تاریخ کے راویوں کی تحقیق کی جائے کہ ان میں کردار کے اعتبار سے جھوٹا کون تھا تو پھر آدھی سے زیادہ تاریخ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو گی۔
میرا معاملہ نہ طبری سے پرخاش کا ہے اور نہ ہی بلازری اور ابن سعد سے۔ میرا دکھ یہ ہے کہ جس کسی نے میرے اسلاف پر انگلی اٹھانی ہو، میرے دین کے نقص بیان کرنا ہوں وہ ان مؤرخین کے جمع کیے ہوئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ الحاد کا دروازہ انھی کے جمع کیے گئے جھوٹ سے کھلتا ہے۔ آپ اسلام کے خلاف لکھی جانے والی تمام کتابوں کو اٹھا لیں، توہینِ رسالت پر مبنی کتب کا مطالعہ کریں اور ان میں کہیں نہ کہیں طبری اور اس کے قبیل کے مؤرخین جھانکتے نظر آئیں گے۔
وہ لوگ انھی کی روایات کو بنیاد بناتے ہیں۔ حیرت ہے وہ تمام شاتمین رسول اللہﷺ تو ایسی باتیں تحریر کرنے پر واجب القتل قرار دیے جاتے ہیں اور جس مؤرخ نے یہ جھوٹ اکٹھا کر کے تاریخ کا حصہ بنایا وہ محترم۔ پتہ نہیں کیوں میرے ان صاحبانِ علم علماء کرام کو رسول اللہﷺ کی یہ حدیث یاد نہیں آتی کہ “کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے آگے سناتا پھرے” ۔
کیا ہمارے مؤرخین نے ایسا نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تاریخ مرتب کی جائے جو حدیث اور تاریخ کے راویوں کی بھی چھان پھٹک کے بعد لکھی جائے۔ اللہ مسعود احمد بی ایس سی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے “تاریخ الاسلام و المسلین” لکھی جو قرآن اور حدیث کی روایتوں پر مبنی ہے۔ یہ انتہائی اہم کام تھا جو مرحوم نے کیا اور یہ ان کی جماعت المسلمین کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کے ساتھ تاریخ کے راویوں کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ اور ایسی سچی تاریخ ہماری ضرورت ہے۔
براہمداغ بگٹی۔ لازم ہے احتیاط
اوریا مقبول جان پير 31 اگست 2015
نواب اکبر بگٹی کے بڑے بھائی عبدالرحمن بگٹی باپ سے ناراض ہو گئے۔ اپنے والد نواب محراب خان بگٹی کے خلاف ایک کتاب ’’محراب گردی‘‘ تحریر کی جس میں انھیں انگریزوں کا وفادار اور بلوچ عوام کا مخالف ثابت کیا۔ وڈیرہ خان محمد کلپر اس وقت جوان تھا۔ اس نے عبدالرحمن بگٹی کا ساتھ دیا۔ ایک قبائلی جنگ شروع ہوئی۔ عبدالرحمن بگٹی کو حالات اپنے لیے مناسب معلوم نہ ہوئے تو وہ افغانستان بھاگ گئے۔ اب محراب خان بگٹی کو فکر لاحق ہوئی، اس لیے کہ اپنے علاقے اور اپنے قبیلے کے درمیان انسان کا پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ کس قدر مضبوط ہے، کہاں سے وار کر سکتا ہے لیکن ایک دوسرے ملک میں بیٹھ کر تو وہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
محراب خان بگٹی نے فوراً ڈپٹی کمشنر سبی کو درخواست کی کہ ان کے بیٹے کو افغانستان سے کسی نہ کسی طور پر واپس بلایا جائے چونکہ قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ قبائل کے ذریعے ہی قائم کی جاتی تھی اس لیے ان کا یکجا، پرامن اور ایک نظام کے تحت متحد ہونا ضروری تھا۔ اس لیے فوراً ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو تحریر کیا گیا کہ ناراض عبدالرحمن بگٹی کو واپس لایا جائے کیونکہ وہ ایک دن صرف بگٹی قبیلہ ہی نہیں بلکہ انگریز سرکار کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اپنی تحصیل گلستان میں افغان سرحد کے قریب آباد محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی سے رابطہ کیا اور وہ عبدالرحمن بگٹی کو منا کر افغانستان سے واپس لائے۔ اب یہاں اس قبائلی جھگڑے کی کوکھ سے ایک انقلابی بننے والے عبدالرحمن کو مستقل طور پر پر امن بنانے کا مرحلہ تھا۔ انگریز سرکار نے انھیں فوری طور پر تحصیلدار کی نوکری کا پروانہ تھمایا اور نوشکی میں تعیناتی بھی کر دی۔ چونکہ نواب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس لیے گھریلو سامان وغیرہ خریدنے کے لیے پانچ سو روپے بھی دیے جو اس زمانے میں لاکھوں کے برابر تھے۔
اس وقت سے لے کر آج تک عبدالرحمن بگٹی اور ان کا خاندان ایک پر امن اور قانون پسند شہری کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ خان محمد کلپر ایک طویل صلح کے وقفے کے بعد دوبارہ نواب اکبر بگٹی سے لڑائی پر آمادہ ہو گیا۔ اس لڑائی کو کسی نے سلجھانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا اس آگ کو ہوا دینے میں ریاستی اداروں اور پس پردہ طاقتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک جانب نواب اکبر بگٹی تھا جس نے ریاستی طاقتوں کا اس وقت ساتھ دیا جب پورا بلوچستان ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ عطا اللہ مینگل کی حکومت اس وقت ختم کی گئی جب وہ میزان چوک کوئٹہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے اور کسی کو یقین تک نہ تھا کہ نواب اکبر بگٹی کو گورنر لگا دیا جائے گا۔ آج تبصرہ نگار ہزاروں افسانے تراشتے ہیں کہ اس وقت ایران کا دباؤ تھا، امریکی نہیں چاہتے تھے کہ روس کی جانب اچھے رویے رکھنے والے بلوچ برسراقتدار رہیں۔ یہ افسانے صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی آمرانہ سوچ کو چھپانے کے لیے تراشے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نواب بگٹی نے اپنی قبائلی عصبیت کی بنیاد پر بھٹو کی آمرانہ سوچ کا ساتھ دیا۔ اس دوران ریاستی رٹ قائم کرنے والے نواب اکبر بگٹی اور خان محمد کلپر میں جب جھگڑا شروع ہوا تو حکومتی اہلکاروں اور پس پردہ کام کرنے والوں کو سو طرح کے خیال سوجھنے لگے۔
نواب اکبر بگٹی اگر کمزور ہوتا ہے تو وہ ہماری بات آسانی سے مانے گا۔ خان محمد کلپر کو اگر ہم سپورٹ کرتے ہیں تو کل کو وہ ہمارے لیے ایک سرمایہ ثابت ہو گا۔ اس دوغلی پالیسی نے بگٹی قبیلے کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ کسی نے عبدالرحمن بگٹی والے معاملے کی طرح اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی۔ شاید امن اس وقت کی انتظامیہ کی خواہش نہ تھی۔ قتل و غارت کا سلسلہ جو خان محمد کلپر کے بیٹے کے قتل سے شروع ہوا، نواب اکبر بگٹی کے بیٹے سلال بگٹی کے قتل پر اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ حکومتی افراد نواب اکبر بگٹی سے مسلسل رابطے میں رہتے، ان سے اپنے تعلقات مستحکم رکھتے اور ساتھ ساتھ خان محمد کلپر اور اس کے قبیلے کی مدد بھی مستقل جاری رکھتے۔ سلال بگٹی کے بعد یوں لگتا تھا، نواب اکبر بگٹی کی کمر ٹوٹ گئی ہو۔ وہ سلال بگٹی کو قبیلے کا مستقبل سمجھتے تھے اور وہ ان کی ذاتی تربیت میں تھا۔ سلال کی موت کے بعد براہمداغ کو نواب بگٹی نے اپنی تربیت میں لے لیا۔
میری نواب اکبر بگٹی سے آخری گفتگو اس وقت ہوئی جب وہ اپنے بگٹی قبیلے کی سرزمین چھوڑ کر مری قبیلے کے علاقے میں موجود ایک غار میں پناہ لینے جا رہے تھے۔ یہ غار اور گوریلا جنگ پر لکھی ہوئی فرانسیسی ادیب کی کتاب ”WAR OF THE FLFA” ’’مکھی کی جنگ‘‘ جنگ نواب بگٹی کے دلچسپ موضوعات تھے۔ میرے سوالات بہت تھے لیکن ان کا جواب ایک ہی تھا کہ میرے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔ نواب اکبر بگٹی اپنے تمام معاملات پر گفتگو اور ان کے حل کے لیے پرویز مشرف سے ملاقات پر راضی ہو گئے تھے۔ وہ اپنے قبیلے سے مشورے کے بعد ڈیرہ بگٹی سے سوئی روانہ ہوئے جہاں ایک بہت بڑا قافلہ انھیں چھوڑنے آیا۔ سوئی ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے انتظار کے بعد بھی طیارہ نہ آیا اور کئی بہانے تراشے گئے۔ یہ راز اب بلوچستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ وہ لوگ کون تھے جو یہ صلح اور امن نہیں چاہتے تھے۔ ایک مایوس، ناکام نواب اکبر بگٹی کے لیے قبیلے میں اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ ایک دوسرے قبیلے کی جانب کوچ کرے اور ان کے علاقے میں موجود غار میں پناہ لے لے۔ اس کے بعد کی کہانی انتہائی خونچکاں ہے۔
پرویز مشرف کے پر غرور فقرے کہ ’’اب وہ زمانہ نہیں رہا، اب انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہم نے کدھر سے ان کو ’’ہِٹ‘‘ کیا‘‘ نے جس طرح جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر نواب بگٹی کی موت کے سانحے نے جس طرح بلوچستان کو ایک الاؤ کی شکل دے دی۔ اسے اس قوم نے دس سال بھگتا۔ جو الاؤ ہم نے خود روشن کیا تھا اور جس کی آگ کی تپش سے بھی ہم جلتے تھے۔ اس پر تیل تو پھر Raw نے بھی ڈالنا تھا۔ خاد نے بھی اور سی آئی اے نے بھی۔ وہ جنھیں اپنے خطے میں امن کی فکر ہوتی تھی ایک عبدالرحمن بگٹی کے افغانستان جانے پر ایک دم پریشان ہو جاتے تھے۔ ہم عجیب تھے 1948ء میں پرنس عبدالکریم اپنے بھائی خان آف قلات سے ناراض ہو کر افغانستان چلا گیا اور ایک انقلابی کی صورت جلوہ گر ہوا، ہمیں کوئی فکر لاحق نہ ہوئی۔ 1974ء میں کتنے پشتون اور بلوچ قبائل افغانستان گئے، وہاں روس اور افغانستان سے مدد لیتے رہے، ہم نے آرمی ایکشن سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، مسئلہ الجھتا گیا، کیا کوئی تاریخ کا یہ سبق نکال کر بغیر کسی تعصب سے پڑھ سکتا ہے کہ بلوچستان میں 1977ء سے 2005ء تک 28 سال کس وجہ سے امن قائم ہوا اور قائم رہا۔
یہ وہ دور تھا جب ہم افغان جنگ لڑرہے تھے لیکن بلوچستان پر امن تھا۔ اس لیے کہ ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتقمانہ روش چھوڑ کر سب سے پہلے حیدر آباد غداری کیس ختم کیا اور پھر پورے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر دیا۔ افغانستان میں بیٹھے کسی بلوچ یا پشتون کو واپس آنے کے لیے کوئی ’’را‘‘، کوئی ’’خاد‘‘ یا کوئی ’’ کے جی بی‘‘ نہ روک سکی۔ سب واپس اپنے گھروں میں لوٹ آئے۔ میں اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا، وہاں اکثریت ایسے طلبہ کی تھی جو افغانستان سے لوٹے تھے اور وہ آج بلوچستان کی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ اپنے لوگوں کو سینے سے لگائیں تو کوئی ان کو آپ سے دور نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کا بلوچ اور اس کی لیڈر شپ اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کے سوا ان کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ ایران میں اتنے ہی بلوچ ہیں جتنے پاکستان میں لیکن وہ تو وہاں انتہائی غربت و افلاس میں ہیں، سیاست میں ان کا حصہ صفر ہے اور انتظامیہ میں نہ ہونے کے برابر یہاں تک کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق نماز بھی ادا نہیں کر سکتے۔ افغانستان کے پشتون ان پر چڑھ دوڑیں گے، عرب ریاستیں انھیں اپنا باجگزار بنا لیں گی۔ انھیں علم ہے کہ پاکستان ہی ان کی پناہ گاہ اور ان کا مستقبل ہے۔ لیکن اگر پناہ گاہ کے لوگ ہی ان پر بندوق تان لیں تو وہ کہاں جائیں۔
مدتوں کے بعد موجودہ عسکری و سیاسی قیادت نے ضیاء الحق ہی کی اس پالیسی کو دوبارہ زندہ کیا۔ عام معافی کا اعلان کیا گیا اور آج اس کے ثمرات پورے بلوچستان میں نظر آ رہے ہیں۔ میں چند ہفتے قبل کوئٹہ گیا تو مجھے کوئٹہ ویسا تو نہیں لیکن بہت بہتر نظر آیا۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ براہمداغ بگٹی واپس آنا چاہتا ہے۔ یہاں احتیاط لازم ہے۔ جو لوگ بلوچ نفسیات سے واقف ہیں وہ اسے کبھی بھی اپنی فتح نہیں کہیں گے بلکہ ناراض بھائی کی واپسی کہیں گے اور دوسری احتیاط یہ ہے کہ اب اسے واپس لے آئیں کہ یہی امن کا راستہ ہو گا۔ بہت سے مشورہ دینے والے موجود ہیں، ایسے دانشور جن کا بلوچستان سے رابطہ ہے پریس کلب کے صحافیوں اور اعلیٰ پولیس افسروں سے زیادہ نہیں رہا۔ وہ طرح طرح کے مشورے دے رہے ہیں، قبائلی مخالف اپنی فتح چاہتے ہیں لیکن براہمداغ کی واپسی امن کی ضمانت ہو گی۔ قبائلی زندگی میں قبیلہ ایک اکائی ہوتا ہے کوئی ٹکری وڈیرے کی، وڈیرہ سردار کی اور سردار نواب کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ خاندان بدلے جا سکتے ہیں۔ انگریز نے مری اور مینگل قبیلے میں ایسا کرنا چاہا، منہ کی کھائی۔ احتیاط لازم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ براہمداغ بھی نواب اکبر بگٹی کی طرح ایئرپورٹ پر طیارے کا انتظار کرتا رہے اور پھر بلوچستان ایک بار پھر امن کو ترس جائے۔
ایک ایماندار جج کے چھ سوالات
اوریا مقبول جان جمعـء 28 اگست 2015
آج ایک ایسے شخص کی وکالت میں مجھے قلم اٹھانا ہے‘ ایسے فرد کے کردار کی گواہی دینا ہے کہ جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو روز حشر مجھ سے ضرور سوال کیا جائے گا۔
مجھے سید الانبیاء ﷺ کی حدیث میں درج اس انجام کا بھی خوف ہے جو ہادی برحقؐ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’اگر کسی نے اپنے مومن بھائی کی اس وقت مدد نہ کی جب اس کو بے آبرو کیا جا رہا تھا تو اللہ اس کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دے گا جب اسے بے آبرو کیا جا رہا ہو اور وہ مدد کے لیے لوگوں کی جانب دیکھ رہا ہو‘‘۔
مجھے پاکستان کی عدلیہ کے ایک ایسے باکردار‘ منصف مزاج‘ ایماندار اور صالح شخص کے حق میں ایسے وقت میں گواہی دینے کا شرف حاصل ہو رہا ہے جب جمہوری اقدار کے پروانے اور آزادی اظہار کے دیوان اس کی کردار کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ مجھے اس ذمے داری کا حق ادا کرنے کی توفیق دے کہ مجھ سے دہرا سوال ہو گا۔ مجھے اللہ نے قلم کی طاقت عطا فرمائی اور پھر اسی اللہ نے اس طاقت کو پذیرائی بخشی۔ اللہ میری خطاؤں کو معاف فرمائے اور اس دوران میں جو لکھوں اس پر فیصلہ کرتے ہوئے میرے حسن ظن اور نیک نیتی کو سامنے رکھے۔
آج سے تقریباً دو دہائیاں قبل گوجرانوالہ میں ایک سیشن جج کے خلاف وہاں کے وکلاء نے ہڑتال کر دی اور اس کے تبادلے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ پنجاب ہائی کورٹ کی سربراہی اس وقت جسٹس فلک شیر کے پاس تھی۔ وکلا تنظیموں کا بڑا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور انصاف تو بنچ اور بار کا یرغمال ہے۔ کس کو کب‘ کیسا‘ کتنا مہنگا اور کتنی دیر میں انصاف ملے گا اس کا فیصلہ بنچ اور بار مل کر کریں گے۔
اس جج نے اس روایت کو توڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ بحیثیت سیشن جج میری ذمے داری سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔ پنجاب کے موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس اس وقت گوجرانوالہ میں ڈی آئی جی تھے۔ تمام تھانوں کے سربراہوں کو بلایا گیا اور جج صاحب نے ان سے کہا کہ آپ بلاوجہ تعمیل میں دیر نہیں کریں گے اور گواہوں کو غیر ضروری طور پر پیشی سے نہیں بھگائیں گے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی وکیل کو بلاوجہ تاریخ نہیں دوں گا۔
اس کے بعد کیسوں کے فیصلے ہونا شروع ہوئے۔ گوجرانوالہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایک قتل کے کیس کا فیصلہ کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار دن میں کیا جانے لگا۔ صرف چند مہینوں کے اندر تمام وکلا اپنے چیمبرز میں ہاتھ پہ ہاتھ ڈالے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہڑتال شروع ہوئی۔ جسٹس فلک شیر تک اس ہڑتال کی گونج پہنچی۔ پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ وکیلوں کی زبان میں کہا‘ یہ سیشن جج ہمیں ’’ریلیف‘‘ نہیں دیتا۔ ’’ریلیف‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو پاکستان کے عدالتی نظام میں سکہ رائج الوقت ہے۔
وکیل عدالت سے پیشیاں اور تاریخیں لینے جب تک اپنے موکل کو ہلکا نہ کر لیں‘ ان کو مقروض نہ بنا لیں‘ ان کی جائیداد بکوا لیں نہ ان کی وکالت کا رعب پڑتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگی خوشحال ہوتی ہے۔ فلک شیر بھی خوش قسمتی سے ایسے چیف جسٹسوں میں سے تھا جن پر بار کا ناجائز رعب نہیں چلتا تھا۔ کاظم علی ملک نے کہا میں نے گزشتہ پندرہ سال سے التواء کا شکار مقدمے ختم کر دیے۔ لوگوں ایک جانب ہو گئے۔
جو مطمئن تھے وہ چین سے سو گئے اور جو غیر مطمئن تھے وہ اپیل میں چلے گئے۔ فلک شیر کا اگلا سوال وکلا سے تھا‘ اب صاف صاف بتاؤ‘ کچھ صاف گو وکلا نے کہا ہم چیمبر بند کر کے چابیاں آپ کو دے دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کاظم علی ملک نے کہا کہ جتنے لیڈر میرے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں وہ مجھے پہچانتے تک نہیں۔ وہ آج تک میری عدالت میں پیش تک نہیں ہوئے۔ یہ میرا اس انسان سے ایک غائبانہ تعارف تھا۔ ان دنوں میں خود ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت پر فائز تھا۔ یوں لگا جیسے کسی نے میرے راستے کے آگے آگے مشعل رکھ دی ہو اور اس مشعل کو کاظم علی ملک نے تھاما ہوا تھا۔ میں اس شخص کی ٹوہ میں لگ گیا۔ اسے جاننے کی کوشش کرنے لگا۔
ضلع خوشاب کے قصبے نور پور تھل میں یکم اکتوبر 1949ء کو پیدا ہونے والے کاظم علی ملک نے جوہر آباد ڈگری کالج سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ یہ زمانہ طلبہ یونینوں کا زمانہ تھا۔ وہ 1968ء میں کالج یونین کا صدر بھی منتخب ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے جوہر آباد اور سرگودھا میں وکالت شروع کر دی۔
1987ء میں اسے ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیا گیا۔ یہاں سے ماتحت عدلیہ میں ایک قابل فخر سپوت کی آمد ہوئی۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس کا مقدمات کو فیصلے کرنے کا انداز وہی تھا جو گوجرانوالہ میں تھا۔ پنجاب میں بھلوال ان تحصیلوں میں سے ہے جہاں جرائم کی کثرت ہے۔ تین ماہ بعد بھلوال کے تمام زیر التوا مقدمات کے فیصلے ہو چکے تھے۔ انھیں کہا گیا آپ سرگودھا کا بھی چارج ساتھ ہی رکھ لیں۔ یہ اور ایسی کہانیاں میانوالی اور لیہ میں بھی عوام آپ کو سنائیں گے۔
2008ء میں وہ منزلیں طے کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ عدلیہ کی آزادی کا غلغلہ تھا۔ مشرف اور پھر زرداری کے بنائے ہوئے ڈوگر عدالت کے جج ایک ہی فیصلے سے ختم کر دیے گئے۔ کاظم علی ملک کا یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ اس کے بس میں تھا کہ وہ اس سال اپنی پرموشن کی سطح پر پہنچتا کہ جب ڈوگر چیف جسٹس تھا۔ واپس سیشن جج بنے‘ ریٹائر ہوئے اور پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لگا دیے گئے۔ یہاں بیوروکریسی سے ان کی ٹھن گئی۔
کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا عہدہ جسے بیوروکریسی نے اس لیے تخلیق کیا ہو کہ ان کی مرضی کی کارروائیاں ہوں‘ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے کہ ہم کرپشن کے خلاف بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ایک ایسا چیف سیکریٹری ان کے خلاف ہوا جو ہمیشہ سیاست دانوں کی آنکھ کا تارا رہا ہے اور جس کے ہاں اطاعت گزاری ہر اصول پر فوقیت رکھتی تھی۔
صرف ایک فقرہ کافی تھا کہ اگر کاظم علی ملک اینٹی کرپشن کے محکمے میں رہا تو جس طرح بیورو کریسی پر وہ ہاتھ ڈال رہا ہے‘ آیندہ الیکشنوں میں آپ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ فقرہ کسی بھی وزیراعلیٰ کے پاؤں تلے سے زمین نکالنے کے لیے کافی تھا۔ ہٹا دیے گئے کہ اس تباہ حال سسٹم میں ایماندار اور با اصول شخص کا یہی انجام ہوتا ہے۔
میں ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام متبادل کے نام سے کرتا ہوں۔ جس میں موجودہ نظام کی ناکامی پر بحث کے بعد ایک متبادل دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے کاظم علی ملک میرے مہمان تھے۔ ان کا ایک ایک فقرہ عدلیہ کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ کہا اگر واقعی ہمارے جج ایمانداری سے کام کریں اور وکیلوں کے رزق میں اضافہ کرنے کے لیے تاریخیں نہ دیں تو عدالتوں پر اتنا کم بوجھ ہے کہ آدھے جج فارغ کرنا پڑیں گے۔
آدھے سے زیادہ سول کیس صرف ایک پیشی پر ختم کیے جا سکتے ہیں اور قتل جیسا مقدمہ بھی تین دن لگاتار شنوائی کے بعد فیصلے تک جا پہنچتا ہے۔ کہا‘ دیکھو لوگوں کو عدالتوں میں بلاؤ فیصلوں کے لیے‘ اپنے برآمدوں کی رونق بڑھانے کے لیے نہیں۔ اللہ جس کو عدل کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کی توفیق دے‘ اس کا اپنے کردار پر اعتماد دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
میں نے آج سے چھ ماہ قبل اسی پروگرام میں این اے 122 کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے اتنا کہا کہ میرے ماں باپ کی تربیت‘ اور میرے اللہ کا کرم یہ ہے کہ اللہ نے مجھ سے غلط کام کرنے کی توفیق ہی چھین لی ہے۔ فیصلے پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ لیکن فیصلہ آنے کے بعد مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ فیصلہ کیا آیا۔ مجھے اس فیصلے کے آغاز میں جسٹس کاظم علی ملک نے جو چھ سوال خود سے کہے ہیں وہ اس قوم کے سامنے رکھنا ہیں۔
ان سوالات میں ایک درد بھی چھپا ہے اور آپ اس دباؤ کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں جو اس صاحب ایمان جج پر تھا۔ کاظم علی ملک لکھتے ہیں۔ فیصلے سے پہلے میں نے اپنے ضمیر سے چھ سوال کیے۔ -1 کیا میں صرف خور و نوش کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ -2 کیا میں کھونٹے پر بندھے اس جانور کی طرح ہوں جسے اپنے چارے کی فکر ہوتی ہے۔-3 کیا میں ایک بے لگام درندہ ہوں جسے کھانے کے سوا اور کسی چیز سے سروکار نہیں ہوتا۔-4 کیا مجھ میں دین‘ ضمیر یا اللہ کا خوف نہیں ہے۔-5 کیا مجھے اس کائنات میں بلا روک ٹوک ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔
-6 کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں۔ یہ چھ سوال پاکستان کے ہر اس فرد کو اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہئیں جو اس مکروہ اور گلے سڑے نظام میں اس بات پر جھک جاتا ہے‘ حق کی راہ میں ہٹ جاتا ہے کہ اقتدار پر قابض افراد اس کی اور اس کے خاندان کی جانوں کے دشمن ہو جائیں‘ انھیں کی زندگیاں مشکل کر دیں گے‘ انھیں بے موت مار دیں گے۔
اگر ان کا ضمیر ان کا جواب نفی میں دے تو سمجھو وہ اس دنیا میں بھی سرخرو اور آخرت میں بھی۔ جسٹس کاظم علی ملک نے لکھا میرے ضمیر نے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیا تو میں نے نظریہ ضرورت کو پس پشت ڈال کر تلخ سچ بول دیا۔ سچ کی تلخی وہ کڑوی دوا ہے جو اس قوم کی تمام امراض کا علاج ہے۔