بُلبُل گانا گائے گی

بُلبُل گانا گائے گی

صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم

جمع و ترتیب: فرخ منظور

دیکھو اس میں کیا کہاں ہے

مرکا خدا 4
تو زمنا، آسماں کا مالِک 6
نبیﷺ ہمارے 8
آؤ آؤ سرخ کو جائں 11
کای چزہ لو گے؟ 13
بادل 15
اپنا راج 17
ہمارا دیس 19
اقبال کا خواب پاکستان 21
قائدِاعظم 24
قائد اعظم (2) 26
آیا بسنت ملاو 29
چُوہا 31
گُڑیا 33
تارے 37
ثریّا کی گڑیا 40
شممے کی بلّی 44
راجا رانی کی کہانی 48
چُوہوں کی مٹنگ 53
رات دن 59
پہاہوںں 61
گیٹو گرے 67
ایک تھا لڑکا 73
گُڑیا 75

میرا خدا

جس نے بنائی دنیا
جس نے بسائی دنیا
ہاں وہ مرا خدا ہے

مجھ کو بھی زندگی دی
تجھ کو بھی زندگی دی
ہاں وہ مرا خدا ہے

اُس نے بنائے سارے
یہ چاند اور تارے
سورج کو روشنی دی
پھولوں کو تازگی دی
ہاں وہ مرا خدا ہے

لیتا ہوں نام اُس کا
کرتا ہوں اُس کی پوجا
وہ میرا رہنما ہے
وہ میرا آسرا ہے
ہاں وہ مرا خدا ہے
٭٭٭

تو زمین، آسماں کا مالِک

تو زمین، آسماں کا مالِک
ساری دنیا جہان کا مالِک
میرے تن، میری جان کا مالک

آسماں پر جو چاند تارے ہیں
تو نے یہ نقش سب سنوارے ہیں
تیری قدرت کے سب نظارے ہیں

بھولے بھٹکوں کا رہنما تُو ہے
نا امیدوں کا آسرا تُو ہے
سب کے دکھ درد کی دوا تُو ہے

اپنے دُکھ سب تجھے سناتے ہیں
تیرے آگے ہی سر جھکاتے ہیں
تجھ سے دل کی مراد پاتے ہیں
٭٭٭

نبیﷺ ہمارے

وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
وہ راہبر رہنما ہمارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر

بلند نبیوں میں نام اُن کا
فلک سے اونچا مقام اُن کا
ہمارے ہادی خدا کے پیارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر

انہی کی خاطر دمک رہے ہیں
انہی کے دم سے چمک رہے ہیں
زمیں کے ذرّے، فلک کے تارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر

انہی کی سرکار کے گدا ہیں
انہی کے دربار کے گدا ہیں
جہاں کے یہ تاجدار سارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر

وہ پیشواؤں کے پیشوا ہیں
وہ رہنماؤں کے رہنما ہیں
وہ سب سہاروں کے ہیں سہارے
نبی ہمارے، نبی ہمارے
درود ان پر، سلام ان پر
٭٭٭

آؤ آؤ سیر کو جائیں

آؤ آؤ سیر کو جائیں
باغ میں جا کر شور مچائیں
اچھلیں کودیں ناچیں گائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں

کالے کالے بادل آئے
جھوم جھوم کر سر پر چھائے
مینہ برسے گا خوب نہائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں

باغ میں تازہ پھول کھلے ہیں
رنگ برنگے پھول کھلے ہیں
ہم بھی اپنا رنگ جمائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں

کشتیاں لے کر کچھ پانی کی
کوئی بڑی اور کوئی چھوٹی
پانی میں رکھ دیں، بہائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں

پتّی لے کر اِک پیپل کی
بنسی ایک بنائیں ہلکی
ناچیں گائیں ناچیں گائیں
آؤ آؤ سیر کو جائیں
٭٭٭ 

کیا چیز لو گے؟

کیا چیز لو گے؟
چمچہ کہ تھالی؟
تھالی بھری ہے چمچہ ہے خالی!
میں لوں گا تھالی

کیا چیز لو گے؟
روٹی کہ کیلا؟
روٹی ہے سب کی، میں ہوں اکیلا!
میں لُوں گا کیلا

کیا چیز لو گے؟
کیلا کہ بستہ؟
بستہ ہے میرا پھولوں کا دستہ!
میں لُوں گا بستہ

تب تُم کو مانوں، مل جائے سب کچھ
کہتے تھے تب کچھ، دیتے ہو اب کچھ
میں لوں گا سب کچھ
٭٭٭

بادل

کالے بادل آئیں گے
آ کر مینہ برسائیں گے
مینہ میں لوگ نہائیں گے
کالے بادل آئیں گے

مینہ برسے گا ٹپ ٹپ ٹپ
ساز بجے گا ٹپ ٹپ ٹپ
ہم ناچیں گے گائیں گے
کالے بادل آئیں گے

بُلبُل گانا گائے گی
کویل راگ سنائے گی
مینڈک بھی ٹرّائیں گے
کالے بادل آئیں گے
٭٭٭

اپنا راج

لاکھ مصیبت اِک سلجھاؤ
لاکھ بگاڑ اور ایک بناؤ
لاکھ دکھوں کا ایک علاج
اپنے دیس میں اپنا راج

خود ہی بگڑنا، خود ہی سنورنا
اپنے بل پر آپ ابھرنا
اپنے ہاتھ میں اپنی لاج
اپنے دیس میں اپنا راج

اپنی عدالت، اپنی گواہی
اپنی حکومت، اپیی شاہی
اپنا تخت اور اپنا تاج
اپنے دیس میں اپنا راج
٭٭٭

ہمارا دیس

دیس ہمارا پاکستان
دیس ہمارا ہم کو پیارا
ہم سب کی آنکھوں کا تارا
اپنے دیس پہ ہم قربان
دیس ہمارا پاکستان

اس کی خوشی آرام ہمارا
اِس کے نام سے نام ہمارا
اِس کی شان ہماری شان
دیس ہمارا پاکستان

آزادی ہے شان ہماری
آزادی ہے آن ہماری
آزادی اپنا ایمان
دیس ہمارا پاکستان

پاکستان بنایا جس نے
اجڑا دیس بسایا جس نے
اُس کے نام پہ ہم قربان
دیس ہمارا پاکستان

آؤ خوشی سے مِل کر گائیں
دنیا میں یہ دھُوم مچائیں
دیس ہمارا پاکستان
دیس ہمارا پاکستان
٭٭٭

اقبال کا خواب پاکستان

کتنا اچھا ہے کتنا پیارا ہے
اِک چمکتا ہوا ، ستارا ہے
ہم ہیں اِس کے تو یہ ہمارا ہے
جان میں اس کی جان ہے اپنی
اِس کی ہر شان ، شان ہے اپنی

یہ بڑا مُلک ہے کہ چھوٹا ہے
اُس طرح کا کہ اِس طرح کا ہے
یہ بڑی بات ہے کہ اپنا ہے
دیس میں اپنے اپنا راج تو ہے
اپنے ہاتھوں میں اپنی لاج تو ہے

کِس نے پہلے پہل یہ بات بتائی
کِس نے پہلے پہل یہ راہ دکھائی
کِس نے خوشخبری ہم کو آ کے سنائی
جانتے ہو یہ کام کِس کا تھا
ڈاکٹر اقبال نام جس کا تھا

چاہتے ہو کہ تُم بھی ہو آباد
چاہتے ہو کہ تُم بھی ہو آزاد
چاہتے ہو کہ تُم بھی ہو دِلشاد
ایک دنیا نئی بسا لو تُم
ایک جنّت یہیں بنا لو تُم

یہ چمن یہ بہار اُسی کی ہے
یہ وطن یادگار اُسی کی ہے
سب کہو بار بار، اُسی کی ہے
سب کہو زندہ باد پاکستان
زندہ ، پایندہ باد پاکستان
٭٭٭

قائدِاعظم

تیرے خیال سے ہے دل شادماں ہمارا
تازہ ہے جاں ہماری دِل ہے جواں ہمارا

تیری ہی ہمّتوں سے آزاد ہم ہوئے ہیں
خوشیاں ملی ہیں ہم کو دِل شاد ہم ہوئے ہیں
تجھ سے ہی لہلہایا یہ گُلستاں ہمارا

ہم سو رہے تھے تُو نے آ کر ہمیں جگایا
پھرتے تھے ہم بھٹکتے رستہ ہمیں بتایا
تُو رہنما ہمارا ، تُو سارباں ہمارا

تیرے ہی حوصلے سے طاقت ملی ہے ہم کو
تیری ہی آبرُو سے عزّت ملی ہے ہم کو
چمکا ہے تیرے دم سے قومی نشاں ہمارا

اِس دیس میں ابھی تک چرچا ہے عام تیرا
جِس شخص کو بھی دیکھا ، لیتا ہے نام تیرا
دِل تیری یاد سے ہے اب تک جواں ہمارا

ہم جو قدم اٹھائیں آتی ہے یاد تیری
ہم جس طرف بیھ جائیں آتی ہے یاد تیری
تجھ سے رواں دواں ہے یہ کارواں ہمارا
٭٭٭

قائد اعظم (2)

دیس کی آن ، قائد اعظم
دیس کی شان ، قائد اعظم
ہم کبھی بھی بھُلا نہیں سکتے
دیس کی جان، قائد اعظم

تُو نے محنت کا ہم کو درس دیا
تیری محنت تری سعادت تھی
کام سارے کیے دیانت سے
یہ دیانت خدا کی رحمت تھی
یہی محنت یہی دیانت تھی
تیرا ایمان ، قائد اعظم

تُو نے دکھ درد سارے دُور کیے
تُو نے ہم سب کو سر خوشی بخشی
اپنے اس دیس کو کیا آباد
قوم کو تازہ زندگی بخشی
ہم کبھی بھی بھُلا نہیں سکتے
تیرا احسان، قائد اعظم

جس کو حق بات تُو سمجھتا تھا
زندگی میں وہ کام کرتا تھا
کبھی اوروں سے تُو نہ دبتا تھا
کبھی غیروں سے تُو نہ ڈرتا تھا
تیرے ہی دم سے آج روشن ہے
دیس کی شان ، قائد اعظم

تیری سب نیکیاں ہیں یاد ہمیں
تیرا ہر ایک کام زندہ ہے
یاد کرتے ہیں ہم تجھے ہر وقت
مر کے بھی تیرا نام زندہ ہے
حق نے دنیا میں تجھ کو بخشی ہے
کیا عجب شان ، قائد اعظم
٭٭٭

آیا بسنت میلا

آیا بسنت میلا
منّا پھرے اکیلا

کچھ لوگ آرہے ہیں
کچھ لوگ جا رہے ہیں
کچھ دیکھتے ہیں میلا
منّا پھرے اکیلا

لوگوں کے پاس موٹر
کرتی پھرے ہے ٹرٹر
منّے کے پاس ٹھیلا
منّا پھرے اکیلا

ابّا نے دی اِکنّی
امّی نے دی اَدھّنی
پیسا ملے نہ دھیلا
منّا پھرے اکیلا

کوئی مٹھائی کھائے
کوئی چنے چبائے
کھاتا ہے کوئی کیلا
منّا پھرے اکیلا

آتا نہیں ہے کوئی
جاتا نہیں ہے کوئی
خالی پڑا ہے میلا
منّا پھرے اکیلا
٭٭٭

چُوہا

ہے مرے پاس اِک مرا چوہا
خوب صورت سا دل رُبا چوہا
دُم بھی چوہے کی سر بھی چوہے کا
ہے مرا چوہا بس نرا چوہا
بلّی کو بھی سبق پڑھاتا ہے
ہے بہت ہی پڑھا لکھا چوہا
میرے چوہے کو کوئی کچھ نہ کہے
مِرا چوہا ہے لاڈلا چوہا
سو گیا دیکھ کر وہ بلّی کو
لوگ سمجھے کہ مر گیا چوہا
حرکتیں اُس کی سب دلیروں کی
کام کا شیر ، نام کا چوہا
دو ہی چوہے ہیں ساری دنیا میں
اِک مرا چوہا، اِک تِرا چوہا
چوہا دیکھا تو رو پڑی بلّی
بلّی دیکھی تو ہنس دیا چوہا
بات اِک بھی سُنی نہ بلّی نے
عمر بھر چیختا رہا چُوہا
جتنے چوہے ہیں میرے چوہے ہیں
یہ مرا چوہا وہ مرا چوہا
تیرے چوہے کو کھا گئی بلّی
میری بلّی کو کھا گیا چوہا
کل لڑائی ہوئی تھی دونوں میں
مر گئی بلّی ، بچ گیا چوہا
٭٭٭ 

گُڑیا

کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا
ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا

نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا
ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا

وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو
میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا

جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً
دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا

وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا ہے میری
مجھے میٹھے گانے سناتی ہے گُڑیا

مجھے رات کو نیند آتی ہے جس دم
مری چارپائی بچھاتی ہے گُڑیا

کسی اور کے ساتھ جاتی نہیں ہے
مِرے ساتھ بازار جاتی ہے گُڑیا

کبھی میں جو اس کو بلاتی نہیں ہوں
تو خود آ کے مجھ کو بلاتی ہے گُڑیا

اکیلا مجھے چھوڑتی ہی نہیں ہے
مجھے ساتھ اپنے سلاتی ہے گُڑیا

کوئی اور دیکھے تو لگتی ہے رونے
مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے گڑیا

کسی کے بھی وہ ساتھ رہتی نہیں ہے
عجب شان اپنی دکھاتی ہے گُڑیا

کوئی بیٹھ جائے تو اٹھ بیٹھتی ہے
جو آتا ہے کوئی تو جاتی ہے گُڑیا

سبق میرا مجھ سے وہ سنتی ہے آ کر
سبق اپنا مجھ کو سناتی ہے گُڑیا

جو اٹھ بیٹھتی ہے کبھی منہ اندھیرے
تو رو رو کے سب کو جگاتی ہے گُڑیا

بس اب اور تُم اُس کی باتیں نہ پوچھو
بس اب چُپ رہو تُم کہ آتی ہے گُڑیا
٭٭٭

تارے

رات آئی اور جاگے تارے
ننھے منّے چھوٹے چھوٹے
آ بیٹھے ہیں مل کر سارے
رات آئی اور جاگے تارے

دیکھو کیسے چمک رہے ہیں
گویا موتی دمک رہے ہیں
کتنے اچھے ، کتنے پیارے
رات آئی اور جاگے تارے

تھک جاتے ہیں چلتے چلتے
آخر آنکھیں ملتے ملتے
سو جاتے ہیں نیند کے مارے
رات آئی اور جاگے تارے

چُپکے چُپکے ہنستے رہنا
سب کچھ آنکھوں ہی میں کہنا
سارے ان کے کام ہیں نیارے
رات آئی اور جاگے تارے

چار نہیں ہیں ، آٹھ نہیں ہیں
بیس نہیں ہیں ، ساٹھ نہیں ہیں
لاکھوں ہیں یہ دوست ہمارے
رات آئی اور جاگے تارے

اِن سے کھیلے ، جی بہلائے
یا کوئی چپکے سے سو جائے
کیسے کوئی رات گزارے
رات آئی اور جاگے تارے

کوئی اِن کے بھید نہ پائے
بات کریں ، آواز نہ آئے
چُپکے چُپکے کریں اشارے
رات آئی اور جاگے تارے

لاکھ پکارو، لاکھ بلاؤ
لاکھ کہو تم آؤ! آؤ!
کبھی نہ آئیں پاس تمہارے
رات آئی اور جاگے تارے
٭٭٭

ثریّا کی گڑیا

سُنو اِک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو

ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت

جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ

جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ

نہ امّی کے ساتھ اور نہ بھیّا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریّا کے ساتھ

ثریّا نے اِک دن یہ اُس سے کہا
مِری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا!

بلایا ہے امّی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں

وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلّائی اور سو گئی

اچانک وہاں اِک پری آ گئی
کھُلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی

تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی

“اِدھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو”

وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے “ہائے میں مر گئی

مِری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھُپا لو مجھے”

ثریّا نے آ کر اٹھایا اُسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اُسے

گلے سے لگاتے ہی چُپ ہو گئی
وہ چُپ ہو گئی اور پھر سو گئی

ثریا کو دیکھا ، پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی اُدھر مڑ گئی
٭٭٭

شمیم کی بلّی

ایک لڑکی تھی ننّھی منّی سی
موٹی سی اور تھُن مُتھنّی سی

نام تو اُس کا تھا شمیم افشاں
پر اسے لوگ کہتے تھے چھیماں

اُس نے پالی تھی اِک بڑی بلّی
جتنی وہ خود تھی اتنی ہی بلّی

جس طرف وہ قدم اٹھاتی تھی
بلّی بھی اس کے ساتھ جاتی تھی

یہ جو سوتی تو وہ بھی سوتی تھی
یہ جو روتی تو وہ بھی روتی تھی

ایک دِن جب وہ مدرسے آئی
ساتھ بلّی کو اپنے لے آئی

چھیماں کمرے میں آ کے بیٹھ گئی
بلّی بھی دم دبا کے بیٹھ گئی

ماسٹر جی نے آ کے کمرے میں
دیکھا عینک لگا کے کمرے میں

نظر آئی انہیں وہاں بلّی
کہاں وہ مدرسہ ، کہاں بلّی

بولے “بی خالہ آپ آئی ہیں
کیسے تشریف آج لائی ہںل؟”

پہلے تو بلّی نے سلام کیا
اور پھر جھک کے یوں کلام کیا

“میں بھی پڑھنے جناب آئی ہوں
ساتھ اپنے کتاب لائی ہوں”

بولے سب “خالہ جان کیا کہنے
اللہ اللہ یہ شان کیا کہنے”

ہو رہی تھی ابھی یہ بات وہاں
آ گئے واں پہ ایک چوہے میاں

اب نہ وہ مدرسہ رہا نہ کتاب
اب تو بلّی تھی اور چوہوں کے خواب

تھے وہ شاگرد یا کہ تھے چوہے
نظر آئے سبھی اُسے چوہے

اِس کے ہاتھ اُس کے سر کو کاٹ لیا
اور تو اور ماسٹر کو کاٹ لیا

مدرسہ کیا تھا اِک طویلا تھا
بلّی چوہوں کا ایک میلا تھا
٭٭٭ 

راجا رانی کی کہانی

آؤ بچّو ، سنو کہانی
ایک تھا راجا ایک تھی رانی

دونوں اِک دن شہر میں آئے
شہر سے اِک اِک گڑیا لائے

راجے کی گڑیا تھی دبلی
رانی کی گڑیا تھی موٹی

راجے کی گڑیا تھی لمبی
رانی کی گڑیا تھی چھوٹی

راجا بولا “میری گڑیا
میری گڑیا بڑی ہی سیانی

گڑیاؤں میں جیسے رانی”
رانی بولی “میری گڑیا

میری گڑیا کے کیا کہنے
اچھّے اچھّے گہنے پہنے”

راجا بولا “میری گڑیا
میری گڑیا بین بجائے

میٹھے میٹھے گانے گائے”
رانی بولی “میری گڑیا

میری گڑیا ناچ دکھائے
اُچھلے کُودے شور مچائے”

دونوں میں بس ہوئی لڑائی
دونوں نے کی ہاتھا پائی

رانی بولی “سن مِری بات
میری گڑیا کے دو ہات

ایک سے کھائے دال چپاتی
ایک سے کھائے ساگ اور پات”

راجا بولا “بس چُپ کر
میری گڑیا کے دو سر

جیسے چڑیا کے دو پر
ایک اِدھر اور ایک اُدھر”

رانی بولی “ہُوں ہُوں ہُوں
میری گڑیا کے دو مُوں

ایک سے کھائے گرم پکوڑے
ایک سے بولے سُوں سُوں سُوں”

اتنے میں اِک بڑھیا مائی
دوڑی دوڑی اندر آئی

آتے ہی اِک ڈانٹ بتائی
“کیا ہے جھگڑا کیا ہے لڑائی؟

یہ بھی گڑیا
وہ بھی گڑیا
یہ بھی سیانی
وہ بھی سیانی
تُو ہے راجا
تُو ہے رانی
ختم کرو یہ رام کہانی”
٭٭٭

چُوہوں کی میٹنگ

آؤ سُن جاؤ ایک بات مری
رات چوہوں نے ایک میٹنگ کی

جمع تھے چھوٹے اور بڑے چوہے
جہاں دیکھا نظر پڑے چوہے

چوہوں اور چوہیوں کا ریلا تھا
جلسہ یہ کیا تھا ، ایک میلا تھا

کیا کہوں میں کہاں سے آئے تھے
کچھ یہاں ، کچھ وہاں سے آئے تھے

تھے وہاں کُل جہان کے چوہے
ہر بڑے خاندان کے چوہے

چوہوں میں ایک چوہا کانا تھا
سارے چوہوں سے بڑھ کے سیانا تھا

اِک نیا زرد سوٹ تھا پہنے
آ کے اِسٹیج پر لگا کہنے

“اے مِرے بھائیو! مِری بہنو
غور سے ایک بات میری سنو

بلّی ہے اپنی جان کی دشمن
چوہوں کے خاندان کی دشمن

ہم کسی کو بھی کچھ نہیں کہتے
ہم تو ہیں امن چین سے رہتے

اپنا کھاتے ہیں اپنا پیتے ہیں
اپنی روزی پہ آپ جیتے ہیں

یہ ہمیں کِس لیے ستاتی ہے؟
جہاں مل جائیں ہم کو کھاتی ہے

کیا یونہی مُفت ہم کو مرنا ہے؟
کچھ تو اِس کا علاج کرنا ہے

اِک بتاتا ہوں بات آج تمہیں
اور بتاتا ہوں اِک علاج تمہیں

بات کہتا ہوں تم سے چھوٹی سی
اِس کی گردن میں ڈال دو گھنٹی

یہ اِدھر آئے تو کرے ٹَن ٹَن
یہ اُدھر جائے تو کرے ٹَن ٹَن

جب بھی ٹَن ٹَن ہو بھاگ جائیں ہم
مفت میں جان کیوں گنوائیں ہم

بولے سب “واہ واہ زندہ باد
او میاں کانے شاہ زندہ باد”

ختم جب سارے اُن کے جوش ہوئے
تالیاں بج چکیں ، خموش ہوئے

اِک طرف ایک چوہا بیٹھا تھا
تجربہ کار اور بوڑھا تھا

ہولے ہولے سٹیج پر آیا
آ کے اِسٹیج پر یہ فرمایا
“اے مرے دوستو! مرے یارو!
میرے داناؤ! تجربہ کارو!

بات اچھّی یہ کانے شہ کی ہے
تم نے بھی سُن کے واہ واہ کی ہے

کون یہ حوصلہ نکالے گا
گھنٹی اُس کے گلے میں ڈالے گا؟

گھنٹی جب تک بجائے گی بلّی
پہلے اُس کو نہ کھائے گی بلّی؟

سُن کے خاموش ہو گئے چوہے
گِر کے بے ہوش ہو گئے چوہے

اتنے میں ایک آ گئی بلّی
جتنے چوہے تھے کھا گئی بلّی
٭٭٭ 

رات دن

کیسے اللہ نے بنائے رات دن
کیسی حِکمت سے سجائے رات دن

صبح آئی تو اجالا آ گیا
شام آئی تو اندھیر چھا گیا

دن ہوا تو لوگ سارے جاگ اٹھے
رات آئی چاند تارے جاگ اٹھے

دن بنا ہے کام کرنے کے لئے
رات ہے آرام کرنے کے لئے

کوئی ہو، انسان یا حیوان ہو
جانور ہو یا کوئی بے جان ہو

رات اُن کے ڈھنگ ہی کچھ اور ہیں
رات اُن کے اور ہی کچھ طور ہیں

دن ہوا ، سب کام کرنے لگ گئے
شب ہوئی آرام کرنے لگ گئے
٭٭٭ 
پہیلیاں

(1)

دُبلی پتلی سی اِک رانی
اوپر آگ اور نیچے پانی
منھ چُومو تو شور مچائے
بات کرو تو چُپ ہو جائے

جواب: حقّہ

(2)
میری پہیلی بوجھو گے تُم
ایک انچ چڑیا ، دو گز کی دم

جواب: سوئی دھاگا

(3)
بات انوکھی کیا کوئی جانے
اِک ڈبیا میں سینکڑوں دانے
میٹھے میٹھے، رنگ رنگیلے
رس بھرے، رس دار ، رسیلے
کوئی چُوسے ، کوئی چبائے
بچّہ بوڑھا ہر اِک کھائے

جواب: انار

(4)
نازک نازک سی اِک گڑیا
لوگ کہیں گے سب اس کو اُڑیا
کاغذ کے سب کپڑے پہنے
دھاگے کے سب زیور گہنے
سیدھی جائے ، مڑتی جائے
پری نہںے ، پر اڑتی جائے

جواب: پتنگ

(5)
دنیا میں ہیں ہم دو بھائی
بھاری بوجھ اٹھانے والے
پاؤں تلے دب جانے والے
لیکن یہ ہے بات نرالی
دن بھر تو ہم بھرے ہوئے ہیں
رات آئے تو بالکل خالی

جواب: جوتے

(6)
بہت بڑا سا ایک پیالہ
جیسے کوئی کمرا گول
ختم نہ ہوگا اِس کا پانی
پیتے جاؤ ڈول کے ڈول

جواب: کنواں

(7)
بن چھت کے اِک کوٹھی ہوں میں
یہ مت پوچھو کیسی ہوں میں
بڑی نہیں ہوں چھوٹی ہوں میں
سارے میرے ڈھنگ نرالے
بیٹھے رہتے ہیں گھر والے
چلنا ہو تو چلتی ہوں میں
بِن چھت کے اِک کوٹھی ہوں میں

(8)
جانے کس شے کا ہے سایا
بادل سا بن کر لہرایا
اڑتا جائے ، اڑتا جائے
طرح طرح کی شکل بنائے
پکڑو تو وہ ہاتھ نہ آئے

جواب: دود (دھواں)

(9)
دنیا میں اِک چیز نرالی
سر سے پاؤں تک سب کالی
جو کوئی اُس کو ہاتھ لگائے
ویسا ہی کالا ہو جائے
٭٭٭ 

گیٹو گرے

اِک تھا گیٹو گرے
اُس کے دو مور تھے

اِک کا کالا تھا سر
اِک کے پیلے تھے پر

دانہ کھاتے تھے وہ
دُم ہلاتے تھے وہ

شام کو، دِن ڈھلے
اپنے گھر سے چلے

تھے بڑی لہر میں
آ گئے شہر میں

کچھ وہاں سیر کی
کچھ یہاں سیر کی

ٹرٹراتے ہوئے
گانا گاتے ہوئے

جب اندھیرا ہوا
گیٹو گھبرا گیا

دل میں کہنے لگا
یہ ہے کی ماجرا

اب تک آئے نہیں
جانے کیا وہ کہیں

راستہ کھو گئے
یا کہیں سو گئے

آپ جاتا ہوں میں
اُن کو لاتا ہوں میں

بولی گیٹو کی ماں
’’تم چلے ہو کہاں

چھوڑ دو، چھوڑ دو
خود ہی آئیں گے وہ

سر کھجاتے ہوئے
دُم ہلاتے ہوئے‘‘

بولا گیٹو گرے
’’مور دونوں مِرے

سخت نادان ہیں
سخت انجان ہیں

وہ تو ڈر جائیں گے
گھٹ کے مر جائیں گے‘‘

بولی گیٹو کی ماں
’’بات سن میری جاں

تُو ہے گیٹو گرے
تُو انہیں چھوڑ دے

دیکھتے دیکھتے
مور گھر آ گئے

سر کھجاتے ہوئے
دُم ہلاتے ہوئے

بولے گیٹو میاں
’’بولو تم تھے کہاں؟

اتنے چالاک ہو
اتنے بے باک ہو

پھر جو جاؤ گے تم
مار کھاؤ گے تم‘‘

اُس کی اِس بات سے
مور خوش ہو گئے

پر لگے کھولنے
پھر لگے بولنے

دُم ہلانے لگے
گانا گانے لگے
٭٭٭

ایک تھا لڑکا

ایک تھا لڑکا نُور نذیر

اک دن اُس کا جی للچایا
گاؤں سے چل کر شہر کو آیا

شہر میں آ کر اُس نے دیکھا

وہاں کا پیسہ گاؤں جیسا
وہاں کا کَھمبا ویسا ہی لمبا
وہاں کی روٹی ویسی ہی چھوٹی
وہاں کا ڈھول ویسا ہی گول
وہاں کی بلّی ویسی ہی کالی
موٹی موٹی آنکھوں والی
ویسے پودے ویسے پیڑ
ویسی بکری ویسی بھیڑ
دل میں سوچا اور پچھتایا
دوڑا دوڑا گھر کو آیا
٭٭٭ 
گُڑیا

کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا
ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا

نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا
ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا

وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو
میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا

جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً
دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا

وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا ہے میری
مجھے میٹھے گانے سناتی ہے گُڑیا

مجھے رات کو نیند آتی ہے جس دم
مری چارپائی بچھاتی ہے گُڑیا

کسی اور کے ساتھ جاتی نہیں ہے
مِرے ساتھ بازار جاتی ہے گُڑیا

کبھی میں جو اس کو بلاتی نہیں ہوں
تو خود آ کے مجھ کو بلاتی ہے گُڑیا

اکیلا مجھے چھوڑتی ہی نہیں ہے
مجھے ساتھ اپنے سلاتی ہے گُڑیا

کوئی اور دیکھے تو لگتی ہے رونے
مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے گڑیا

کسی کے بھی وہ ساتھ رہتی نہیں ہے
عجب شان اپنی دکھاتی ہے گُڑیا

کوئی بیٹھ جائے تو اٹھ بیٹھتی ہے
جو آتا ہے کوئی تو جاتی ہے گُڑیا

سبق میرا مجھ سے وہ سنتی ہے آ کر
سبق اپنا مجھ کو سناتی ہے گُڑیا

جو اٹھ بیٹھتی ہے کبھی منہ اندھیرے
تو رو رو کے سب کو جگاتی ہے گُڑیا

بس اب اور تُم اُس کی باتیں نہ پوچھو
بس اب چُپ رہو تُم کہ آتی ہے گُڑیا
٭٭٭

ٹائپنگ: فرخ منظور
ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?24775
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید