o…شاگرد:استادِمحترم!کلمہ طیبہ اور کلمۂ شہادت کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں؟
٭…استاد!کلمہ طیبہ یہ ہے:… لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں اور حضرت محمد صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم خدا تعالیٰ کے بھیجے ہو ئے رسول ہیں۔
اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہ‘وَرَسُوْلُہ‘ ْ
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں ‘‘
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
کلمۂ طیبہ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ۔اسلام کا دروازہ اور ہمارے دین وایمان کی جڑ اور بنیا دہے،یہی کلمہ اسلام کا جوہر ہے،یہی کلمہ ایمان کی روح ہے،یہی کلمہ راستی کا نشان ہے، یہی کلمہ ہدایت کی زندہ تصویر ہے،اسی کلمہ سے دائمی راحت نصیب ہو تی ہے،اسی کلمہ کی بدولت مسلمان خیرا لامم کے لقب سے سرفراز کیے گئے ہیں اور اسی کے چھوڑنے سے آج ان کوذلت ورسوائی اور پستی میں گرا دیا گیا ہے ،دنیا کے وجود کا مدار اسی کلمہ پر ہے،حدیث میں آتا ہے کہ جب تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کہنے والا کوئی ایک بھی زمین پر ہو گا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی،یہی کلمہ جنت کی کنجی ہے،یہی وہ کلمہ ہے جس کے باعث زمین وآسمان قائم ودائم ہیں۔اس کو پکے یقین کے ساتھ پڑھ کے عمر بھر کا کافر اور مشرک بھی مومن اور مسلمان ہو جا تا ہے اور نجات کا مستحق بن جا تا ہے۔مگر اس کی شرط یہ ہے کہ اس کلمہ میں اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کی تو حید اور حضرت محمد صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی رسالت کا جو اقرار ہے اس کو اس نے سمجھ کر مانا اور قبول کیا ہو۔اگر کو ئی شخص تو حید ورسالت کو بالکل بھی نہ سمجھا ہو اور بغیر معنی مطلب سمجھے اس نے یہ کلمہ پڑھ لیا ہو تو وہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے نزدیک مومن اور مسلمان نہ ہوگا۔لہٰذا بہت ضروری ہے کہ ہم اس کلمہ کے معنی اور مطلب کو سمجھیں۔
کیونکہ یہ وہ کلمۂ پاک ہے جس کو صدقِ دل سے ایمانداری کے ساتھ جب کو ئی شخص پڑھتا ہے تو کیا سے کیا ہو جا تا ہے اس کلمۂ پاک کے پڑھنے سے جو پہلے مشرک تھا اب مسلمان ہو جا تا ہے،پہلے جہالت میں تھا اب شریعت میں آجا تا ہے، پہلے گمراہ تھا اب ہدایت یافتہ سمجھا جا تا ہے۔
نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…
سب سے زیادہ بہرہ مند(یعنی کامیاب) میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنے خالص دل سے یا خالص جی سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کہہ دے۔(صحیح بخاری ج۱ص۳۷حدیث۹۷ کتاب العلم)
o…شاگرد:استادِ محترم!کیا اس کلمہ کے دو جز ہیں؟
٭…استاد!جی ہاں!پہلا جز ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔اس میں اﷲ تعالی جل شانہ‘ کی تو حید کا اقرار ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو عبادت اور بندگی کے لا ئق ہو بس ا ﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ ہی کی ایک اکیلی ایسی ذات ہے جو عبادت اور بند گی کے قابل ہے۔
یہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔دین کی بنیاد اور اس کی جڑ ہے اور تمام نبیوں کاسب سے اہم اور پہلا سبق یہی تھا۔اس لئے دین کی ساری باتوں میں اس کا مرتبہ سب سے اونچا ہے۔
حضور نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…
ایمان کے ستر (70)سے بھی زیادہ شعبے ہیں ان میں سب سے افضل اور اونچا لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ کا قائل ہو نا ہے۔(بخاری ومسلم)
اسی لئے ذکروں میں بھی سب سے افضللَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ کا ذکر ہے۔
حضور نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…
’’افضل الذ کرِلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ تما م ذکروں میں افضل واعلیٰ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ ہے ‘‘(ابن ماجہ ونسائی)
حضور نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایاکہ:…
’’لوگوں اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہا کرو‘‘…بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیاکہ:…’’یارسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم ہم کس طرح اپنے ایمانوں کو تازہ کریں؟‘‘آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ کثرت سے پڑھا کرو۔(مسند احمد ،جمع الفوائد)
o…شاگرد:استادِ محترم! لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ کے زیادہ پڑھنے سے ایمان میں تازگی کی وجہ کیا ہے؟
٭…استاد:اس کی وجہ یہ ہے کہلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ میں اﷲ تعالیٰ کی تو حید یعنی صرف اسی کی عبادت وبندگی اور سب سے زیادہ اسی کی محبت اور اُسی کی اطاعت وتابعداری کا عہد واقرار ہے۔کیو نکہ یہی تو ایمان کی روح ہے اس لئے ہم جتنا بھی سمجھ کے اور دھیان کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھیں گے یقینا اُتنا ہی ہمارا ایمان تازہ اور ہما را عہد پختہ ہو گا اور انشا ء اﷲلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ پھرہمارا عمل ہمارا حال ہو جا ئے گا۔
ہمیں چاہئے کہ حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے ارشاد کے مطابق ہم اس کلمہ کو دھیان کے ساتھ اور سچے دل سے کثرت کے ساتھ پڑھا کریں گے تا کہ ہما را ایمان تازہ ہو تا رہے اور پوری زندگی لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ کے سانچے میں ڈھل جا ئے۔
اس لئے بھی اے میرے عزیز!ایمان کے ساتھ ساتھ شریعت پر عمل کی بھی ضرورت ہو تی ہے اور جو لوگ عمل سے غافل ہو تے ہیں تو ایسے لوگوں میں گمراہی اور بے دینی پھیل جا تی ہے اور شیطان کے پھندے میں غافل لوگ ہی پھنستے ہیں۔
جو لوگ صرف کلمہ پڑھتے ہیں ان سے حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔
تو دنیا میں رہنے اور یہاں کے مزے اڑانے کے لئے پیدا نہیں ہوا حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی ناراضگی میں جس قدر تو مبتلا ہے اس کے بدلے تو نے اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کی اطاعت میں صرفلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کہہ لینے پر قناعت کرلی،حالانکہ جب تک اس کے ساتھ دوسری چیز(یعنی عمل کو)نہ ملائے گا یہ تجھ کو نافع نہ ہو گا۔ایمان مجموعہ ہے قول اور عمل کا،ایمان نہ مقبول ہو اور نہ مفید جب تک تو گناہوں اور لغزشوں اور حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی مخالفت کا مرتب ہو گا اور اس پر اڑا رہے گا۔اگر نماز روزہ اور صدقہ اور نیک کام چھوڑ دے گا تو واحدانیت ورسالت کی محض گواہی کیا نفع دے گی۔(فیوض یزدانی ص ۳۱ مجلس نمبر۲)
o…شاگرد:استادِ محترم! کلمہ طیبہ کا دوسرا جز کیا ہے؟
٭…استاد:کلمہ طیبہ کا دوسرا جز ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲہے اس میں حضرت محمد مصطفٰے صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے رسولِ خدا ہو نے کا اقرار اور اعلان ہے۔حضور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے رسول ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا اور آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے جو کچھ بتلا یا اور سمجھا یا اور جو خبریں دیں وہ سب صحیح اور بالکل حق اور سچ ہیں ۔مثلاً قرآن مجید کا خدا تعالیٰ کا کلام ہو نا،فرشتوں کا ہونا،قیامت کا آنا،قیامت کے بعد مردوں کا پھر سے زندہ کیا جانا اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جانا وغیرہ وغیرہ۔
کلمہ طیبہ کے تقاضے:…
o…شاگرد:استادِ محترم!رسول پر ایمان لانے کا مقصد ومطلب کیا ہے؟
٭…استاد:رسول پر ایمان لا نے اور اس کو رسول ماننے کا مقصد ومطلب یہ ہو تا ہے کہ اس کی ہر بات کو بالکل حق اور سچ مانا جائے، اس کی ہر ہدایت اور حکم کو مانا جائے،اس کی تعلیم وہدایت کو خدا تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت سمجھا جا ئے اور اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کر لیا جا ئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کسی کو اپنا رسول اسی لئے بنا تا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو وہ احکام بھیجے جن پر وہ بندوں کا چلانا چا ہتا ہے۔
قرآن شریف میں فرما یا گیا ہے:…
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط
’’اور ہم نے ہر رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ ہمارے فرمان سے اس کی اطاعت کی جا ئے یعنی اس کے حکموں کو مانا جا ئے۔‘‘
اس فرمان سے ثابت ہو اکہ اگر کوئی شخص کلمہ تو پڑھتا ہو مگر اپنے متعلق اس نے یہ طے نہ کیا ہو کہ میں حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی بتلائی ہو ئی ہر بات کو بالکل حق اور اس کے خلاف تمام باتوں کو غلط جانوں گا اور ان کی شریعت اور ان کے حکموں پر چلوں گا تو وہ در اصل مومن اور مسلمان ہی نہیں ہے اور شاید اس نے مسلمان ہو نے کا مطلب ہی نہیں سمجھا ہے ۔
بالکل واضح سی بات ہے کہ جب ہم نے کلمہ پڑھ کے حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو خدا کا برحق رسول مان لیاتو ہمارے لئے ضروری ہو گیا کہ ان کے حکموں پر چلیں اور ان کی سب باتیں مانیںاور ان کی لا ئی ہو ئی شریعت پر پورا پورا عمل کریں۔کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ۔یہ محض کوئی زبانی جمع خرچ نہیں کہہ زبان سے کہہ لیا اور بات ختم ہو گئی بلکہ آپ نے جس دن یہ کلمہ پڑھا،اس دن آپ نے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے حوالے کردیا اوراس بات کا وعدہ کرلیا کہ اب میری کچھ نہیں چلے گی،اب تو اﷲ تبارک وتعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گذاروں گا۔لہٰذا اس کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے کچھ تقاضے ہیں کہ زندگی گذارو تو کس طرح؟عبادت کس طرح کرو؟لوگوں کے ساتھ معاملات کس طرح کرو،اخلاق تمہارے کیسے ہوں،معاشرت تمہاری کیسی ہو،زندگی کے ایک ایک شعبے میں ہدایات ہیں جو اس کلمے کے دائرہ کے اندر آتی ہیں اور وہ ہدایات رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم اپنی مبارک زبان سے بھی دے کر گئے ہیں،اپنے افعال مبارکہ سے بھی،اپنی زندگی کی ایک ایک نقل وحرکت سے اورایک ایک ادا سے آپ صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم دین کا طریقہ سکھا کر اور سمجھا کر اس دنیا سے تشریف لے گئے اب یہ کلمہ پڑھنے والے کا کام ہے کہ وہ اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ اوراس کے رسول!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے احکام کا علم حاصل کرکے اسی کے مطابق زندگی گذارے۔
یہ کلمہ دراصل ایک اقرار نامہ ہے اور عہد نامہ ہے اس بات کا کہ میں صرف اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کو خدائے برحق اور معبود مالک مانتا ہوں اور دنیا آخرت کی ہر چیز کو صرف اسی کے قبضۂ اختیار میں سمجھتا ہوں لہٰذا میں اس کی اور صرف اسی کی عبادت اور بندگی کروں گا اور بندہ کو جس طرح اپنے مولیٰ وآقا کے حکموں پر چلنا چاہئے اُسی طرح میں اس کے حکموں پر چلوں گا اور ہر چیز سے زیادہ میں اس سے محبت اور تعلق رکھوں گا اور حضرت محمد صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو میں خدا تعالیٰ کا برحق رسول تسلیم کرتا ہوں اب میں ایک امتی کی طرح ان کی اطاعت وپیروی کروں گا اور ان کی لا ئی ہو ئی شریعت پر عمل کرتا رہوں گا…دراصل اسی عہدو اقرار کا نام ایمان ہے اور توحید ورسالت کی شہادت دینے کا بھی یہی مقصداور مطلب ہے۔
عمل ایمان کا شاھد:…
لہٰذا کلمہ پڑھنے والے ہر مسلمان کو چاہئیے کہ وہ اپنے کو اس عہد وشہادت کا پابند سمجھے اورا س کی زندگی اسی اصول کے مطابق گزرے تاکہ وہ اﷲ سبحانہ‘ کے نزدیک ایک سچا مومن ومسلم ہو اور نجات جنت کا حقدار ہو۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ رسولِ خدا صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…جو شخص مرتے وقت میری رسالت کی گواہی اور خدا تعالیٰ کی واحدانیت کا صدقِ دل سے اقرار کرلے تو اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ اس کو بخش دے گا۔(ابن ماجہ ص۵۶۶حدیث نمبر۳۷۹۴باب الذکر)
اس لئے اے میرے عزیز! لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ۔کی حقیقت کو خوب سمجھ کے دل وزبان سے اس کی شہادت دو اور آج سے فیصلہ کر لو کہ اپنی زندگی اس شہادت کے مطابق گزاریں گے تاکہ ہماری شہادت جھوٹی نہ ٹھہرے،کیونکہ اس شہادت کی بنیادی چیز محبت ہے اور محبت کا ظرف دل ہے ،جب دل میں اﷲتعالیٰ اوررسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی محبت آجائے گی تو ہاتھ اور پاؤں پر اس کے اثرات ظاہر ہوں گے اور اعمال صالحہ بھی صادر ہوں گے اور اگر دل میں محبت نہیں ہے تو نہ ایمان بنے گا اور نہ اعمال بنیں گے،مسلم نام کے تو ہوں گے مگر کام اسلام کے نہیں ہوں گے،اگر دل میں محبت رچی ہو ئی ہو اور ہاتھ پیر پر عمل ہو یہی عمل شہادت دے گا اور اسی شہادت پر ہمارے ایمان واسلا م کا اور نجات کا دار ومدار ہے۔
اس لیے دل کی جیب میں ایمان کا سونا ہو نا چاہیے،ایمان کا جذبہ ہو نا چاہیے،پھر دنیا کے بازاروں میں سب کچھ ملے گا اور اگر دل خالی کرکے جا رہے ہو جس میں ایمان باﷲ نہیں،عملِ صالح اور پیروی سنت نہیں تو پھر دنیا چاہے کروڑوں کی ہو مگر آپ کے لیے کچھ نہیں خالی ہاتھ واپس آنا پڑے گا۔