زکوٰۃ کی ادائیگی کی فکر کیجئے از: قاری محمد اکرام

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مَا مَنَعَ قَوْمُ الزَّکوٰۃَ اِلَّا ابْتَلَاھُمُ اللّٰہ بِالسِّنِیْنَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِلَّاحَبَسَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الْمَطْرَ ۔ (طبرانی و حاکم و بیہقی )
زکوٰۃ بھی مثل نماز کے اسلام کا ایک رکن ہے ۔ یعنی بڑی شان کا ایک لازمی حکم ہے ۔ بہت سی آیتوں میں زکوٰہ دینے کا حکم اور اس کے دینے کا ثواب اور اس کے نہ دینے کا عذاب مذکور ہے ۔ اسی طرح احادیث میں بھی وعیدیں آئی ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ جس مال میں زکوٰۃ ملی ہوئی رہی وہ اس کو برباد کر دیتی ہے ۔ زکوٰۃ کا ملنا یہ ہے کہ جس مال پر زکوٰۃ فرض ہوجائے اور نکالی نہ جائے ۔ اور برباد ہونا یہ ہے کہ وہ مال جاتا رہے یا اس کی برکت جاتی رہے ۔ اموال زکوٰۃ چار ہیں : سونا ، چاندی ، مال تجارت اور نقد رقم ۔
سونے کا نصاب یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونا ، یہ نصاب اس شخص کیلئے ہے جس کے پاس صرف سونا ہو ۔ چاندی مال تجارت اور نقدی میں سے کچھ بھی نہ ہو ۔ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے ۔ یہ اس صورت میں ہے جب بقیہ تینوں اموال زکوٰۃ میں سے کچھ بھی نہ ہو ۔ اگر سونے چاندی کے ساتھ کوئی دوسرا مالِ زکوٰۃ بھی ہو تو ہر ایک کا الگ الگ حساب کرنے کی بجائے سب کی مجموعی مالیت لگائی جائے گی ۔ اگر مجموعی قیمت ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو زکوٰۃ فرض ہے ۔
نصاب زکوٰۃ کا خلاصہ یہ ہے کہ سونا ۲/۱ ۔ ۷ تولہ ، چاندی ۲/۱ ۔ ۵۲ تولہ یا مال تجارت یا نقدی یا دو چیزوں یا تین یا چاروں کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو زکوٰۃ فرض ہوجائے گی ۔ اصل جنس کا چالیسواں حصہ ادا کرے ۔
زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی ادائیگی کیلئے تملیک شرط ہے ۔ یعنی جس شخص کو زکوٰۃ دینا درست ہو اس کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنا دیا جائے ۔ لہٰذا زکوٰۃ کی رقم سے مسجد بنانا ، قبرستان کیلئے جگہ خریدنا ، مدرسہ ، ہسپتال وغیرہ کی تعمیر اور لاوارث مردہ کے کفن دفن میں لگانا جائز نہیں ۔ (عالمگیری )
ہر اس مسلمان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جو صاحب نصاب نہ ہو ۔ اس کے علاوہ بہترین مصرف زکوٰۃ مدارس دینیہ ہیں جہاں مستحق و مسافر طلباء کی بنیادی ضروریات زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی رقوم سے پوری کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح کسی کے حالات میں غوروفکر کرنے کے بعد اس کو مستحق زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ دے دی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مستحق نہیں ۔ مثلاً مالدار ہے یا ہاشمی ہے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی ۔ اگر غورو فکر کئے بغیر زکوٰۃ دے دی اور بعد میں غیر مستحق نکلا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔ زکوٰۃ لینے والے کے ذمہ بہر حال مال واپس کرنا واجب ہے ۔ (کنز مع البحر الرائق ص ۲۴۷ ج ۲ )