o…شاگرد: استادِ محترم!اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان ،نماز اور زکوٰۃ کے بعد کس چیز کا درجہ ہے؟
٭…استاد:اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان اور نماز وزکوٰۃ کے بعد عملی عبادت روزہ کا درجہ ہے۔ قرآن شریف میں فرما یا گیا ہے:…
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o
’’اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔‘‘(البقرہ۔آسان ترجمہ قرآن)
روزے کی اس تاثیر اور خصوصیت کا ذکر خود قرآن مجید میں صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے… سورۃ بقرہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمانے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا گیا ہے: ’’لعلکم تتقون‘‘ یعنی اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانیت اور حیوانیت کا یا دوسرے الفاظ میں کہئے کہ ملکوتیت اور بہیمیت کا نسخہ جامعہ بنایا ہے، اس کی طبعیت اور جبلت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیںجو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں، اور اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں روحانیت اور ملکوتیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو ملأ اعلیٰ کی لطیف مخلوق فرشتوں کی خاص دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دار و مدار اس پر ہے کہ اس کا یہ روحانی اور ملکوتی عنصر بہیمی اور حیوانی عنصر پر غالب اور حاوی رہے اور اس کو حدود کا پابند رکھے، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ بہیمی پہلو روحانی اور ملکوتی پہلو کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا عادی ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سر کشی نہ کر سکے… روزہ کی ریاضت کا خاص مقصد و موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت کو اللہ کے احکام کی پابندی اور ایمانی و روحانی تقاضوں کی تابعداری و فرمانبرداری کا خوگر بنایا جائے اور چونکہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لئے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے۔ قرآن مجید میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
اور اس کے لئے وہ مہینہ مقرر کیا گیا ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات )لیلۃ القدر( ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی مہینہ اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو سکتا تھا… پھر اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیا گیا ہے جو تراویح کی شکل میں امت میں رائج ہے… دن کے روزوں کے ساتھ رات کی تراویح کی برکات مل جانے سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں وہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کو اپنے اپنے ادراک و احساس کے مطابق ہر وہ بندہ محسوس کرتا ہے جو ان باتوں سے کچھ بھی تعلق اور مناسبت رکھتا ہے۔
رمضان المبارک کی آمد پر رسول اللہﷺکا ایک خطبہ:
o…شاگرد: استادِ محترم!رمضان شریف کے بارے میں نبی ﷺ کیا فرماتے ہیں؟
٭…استاد:حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہﷺنے ہم کو ایک خطبہ دیا…اس میں آپﷺنے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہورہا ہے، اس مبارک مہینہ کی ایک رات )شب قدر( ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خدا وندی میں کھڑا ہونے )یعنی نماز تراویح پڑھنے( کو نقل عبادت مقرر کیا ہے )جس کا بہت ثواب رکھا ہے( جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت )یعنی سنت یا نفل( ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو )اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے( افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔
آپﷺسے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہﷺ ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا )تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے(؟ آپﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے)رسول اللہﷺسلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ( اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوضِ )یعنی کوثر( سے ایسا سیراب کرے گاجس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد آپﷺنے فرمایا، اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور وہ درمیانی حصہ مغفرت ہے اورآخرت حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے )اس کے بعد آپﷺنے فرمایا( اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔ )شعب الایمان للبیہقی(
o…شاگرد: استادِ محترم!خطبۂ نبوی ﷺ کی وضاحت فرمادیں؟
٭…استاد:اس خطبہ نبویﷺکا مطلب و مدعا واضح ہے تاہم اس کے چند اجزاء کی وضاحت کے لیے کچھ عرض کیا جاتا ہے:
)۱( اس خطبہ میں ماہِ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت وفضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے قرآن مجید سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے بلکہ اس پوری سورۃ میں اس مبارک رات کی عظمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے اور اس رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی بات کافی ہے۔
ایک ہزار مہینوں میں قریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قربِ الہٰی کی اتنی مسافت طے کرسکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہوسکتی۔ ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوائی جہاز یا راکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جاسکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سینکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قربِ الہٰی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کردی جاتی ہے کہ جو بات صادق طالبوں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہوسکتی، وہ اس مبارک رات میں حاصل ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اور اسی کی روشنی میں حضورﷺکے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔ گویا ’’لیلۃ القدر‘‘ کی خصوصیت تو رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے لیکن نیکی کا ثواب ستر گنا ملنا یہ رمضان المبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور ان سے مستفید اورمتمتع ہونے کی توفیق دے۔
)۲( اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ طاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔
)۳( یہ بھی فرمایا گیا کہ اس بابرکت مہینہ میں اہلِ ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت میں کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔
)۴( خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانہ حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے۔
اس کی راحج اور دل کو زیادہ لگنے والی توجیہہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں، ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ واستغفار اس کی صفائی و تلافی کرلیتے ہیں تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسر ے اعمال خیر اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنالیتے ہیں درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے۔ اور تیسرا طبقہ ان لوگون کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کرچکے ہیں اور ان کا حال بڑ ابتر رہا ہے اور اپنی بدعملیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہوچکے ہیں، وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کرکے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کرلیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں )جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے( اللہ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمدیتا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت ، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورۂ بالا تین طبقوں سے ہوگا۔
اسلام میں پورے مہینہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور جوشخص بلاکسی عذر اور مجبوری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو وہ بہت ہی سخت گناہ گار ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا:…
جو شخص بلا کسی معذوری اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے ،وہ اگر اس کے بدلہ ساری عمر بھی روزہ رکھے تو اس کا پورا حق ادا نہ ہو سکے گا۔
رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے کا نقصان نا قابل تلافی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری )جیسے کسی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑے گا( وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر بھی روزے رکھے تو جو چیز فوت ہوگئی وہ پوری ادا نہیں ہوسکتی۔ )مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابی دائود، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی(
حدیث کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ شرعی عذر اور رخصت کے بغیر رمضان کا ایک روزہ دانستہ چھوڑنے سے رمضان مبارک کی خاص برکتوں اور اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں سے جو محرومی ہوتی ہے عمر بھر نفل روزے رکھنے سے بھی اس محرومی اور خسران کی تلافی نہیں ہوسکتی، اگرچہ ایک روزے کی قانونی قضا ایک ہی دن کا روزہ ہے لیکن اس سے وہ ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا جو روزہ چھوڑنے سے کھوگیا۔ پس جو لوگ بے پروائی کے ساتھ رمضان کے روزے چھوڑتے ہیں وہ سوچیں کہ خود کو وہ کتنا نقصان پہنچاتے ہیں۔
o…شاگرد: استادِ محترم!روزہ کسے کہتے ہیں؟
٭…استاد:صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ کھانے پینے اور نفسانی خواہش چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!رمضان شریف کے روزے کن لوگوں پر فرض ہیں؟
٭…استاد:ہر مسلمان عاقل ،بالغ مردو عورت پر فرض ہیں اُن کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر اور بلا عذر چھوڑنے والا سخت گناہ گار اور فاسق ہے۔اگرچہ نابا لغ پر نماز روزہ فرض نہیںلیکن عادت ڈالنے کے لیے بلوغ سے پہلے ہی روزہ رکھوانے اور نماز پڑھوانے کا حکم ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہو جا ئے تو نماز کا اسے حکم کرو اور جب دس برس کا ہو جا ئے تو اُسے نماز کے لیے(اگر ضرورت ہو تو)مارنا بھی چاہیے اسی طر ح جب روزہ رکھنے کی طاقت ہو جا ئے تو جتنے روزے رکھ سکتا ہو اُتنے روزے اُس سے رکھوانے چاہئیں۔
سحر اور افطار کے بارے میں ہدایات:…
o…شاگرد: استادِ محترم!سحر اور افطار کے بارے میں اسلام کی کیا ہدایات ہیں؟
٭…استاد:حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحر میںبرکت ہے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
سحری میں برکت کا ایک ظاہری اور عمودی پہلو تو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے روزہ دار کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور روزہ رکھنا زیادہ ضعف کا باعث اور زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور دوسرا ایمانی اور دینی پہلو یہ ہے کہ اگر سحری کھانے کا رواج نہ رہے یا امت کے اکابر اور خواص سحری نہ کھائیں تو اس کا خطرہ ہے کہ عوام اسی کو شریعت کا حکم یا کم ازکم اولیٰ یا افضل سمجھنے لگیں اور اس طرح شریعت کے مقررہ حدود میں فرق پڑجائے۔ اگلی امتوں میں اسی طرح تحریفات ہوئی ہیں تو سحری کی ایک برکت اور اس کا ایک بڑا دینی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ اس قسم کی تحریفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور اس لیے وہ اللہ کے محبوب اور اس کی رضاو رحمت کا باعث ہے… مسند احمد میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہﷺکا یہ ارشاد مروی ہے:
سحری میں برکت ہے اسے ہرگز نہ چھوڑو، اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، کیونکہ سحر میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔
حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے۔ )صحیح مسلم(
مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کے ہاں روزوں کے لیے سحری نہیں ہے اور ہمارے ہاں سحری کھانے کا حکم ہے، اس لیے اس فرق اور امتیاز کو عملاً بھی قائم رکھنا چاہیے اور اللہ کی اس نعمت کا کہ اس نے ہم کو یہ سہولت بخشی شکر ادا کرنا چاہیے۔
افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطار میں جلدی کرے۔ )یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے( )جامع ترمذی(
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھے حال میں رہیں گے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
اسی مضمون کی حدیث مسند احمد میں حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس میں ’’ما عجلو الفطر‘‘ کے آگے ’’واخرو والسجور‘‘ بھی ہے )یعنی اس امت کے حالات اس وقت تک اچھے رہیں گے جب تک کہ افطار میں تاخیر نہ کرنا بلکہ جلدی کرنا اور سحری میں جلدی نہ کرنا بلکہ تاخیر کرنا اس کا طریقہ اور طرز عمل رہے گا۔ اس کا راز یہ ہے کہ افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا شریعت کا حکم اور اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اور اس میںعام بند گان خدا کے لیے سہولت اور آسانی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نگاہِ کرم کا ایک مستقل وسیلہ ہے اس لیے امت جب تک اس پر عامل رہے گی وہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم کی مستحق رہے گی اور اس کے حالات اچھے رہیں گے اور اس کے برعکس افطار میں تاخیر اور سحری میں جلدی کرنے میں چونکہ اللہ کے تمام بندوں کے لیے مشقت ہے اور یہ ایک طرح کی بدعت اور یہودو نصاریٰ کا طریقہ ہے اس لیے وہ اس امت کے لیے بجائے رضا اور رحمت کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے، اس واسطے جب امت اس طریقے کو اپنائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے محروم ہوگی اور اس کے حالات بگڑیں گے۔ افطار میں جلدی کا مطلب یہ ہے کہ جب آفتاب غروب ہونے کا یقین ہوجائے تو پھر تاخیر نہ کی جائے اور اسی طرح سحری میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے بہت پہلے سحری نہ کھالی جائے بلکہ جب صبح صادق کا وقت قریب ہوتو اس وقت کھایا پیا جائے۔ یہی رسول اللہﷺکا معمول اور دستور تھا۔
افطار کے لیے کیا چیز بہتر ہے؟
o…شاگرد: استادِ محترم!روزہ کس چیز سے افطار کرنا بہتر ہے؟
استاد:حضرت سلمان بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو وہ کھجور سے افطار کرے، اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے، اس لیے کہ پانی کو اللہ تعالیٰ نے طہور بنایا ہے۔ )مسند احمد، سنن ابی دائود، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی(
اہل عرب خاص طور سے اہل مدینہ کے لیے کھجور بہترین غذا تھی اور سہل الحصول اور ارزاں بھی تھی کہ غربا اور فقراء بھی اس کو کھاتے تھے اس لیے رسول اللہﷺنے اس سے افطار کی ترغیب دی اور جس کو بروقت کھجور بھی نہ ملے اس کو پانی سے افطار کی ترغیب دی اور اس کی یہ مبارک خصوصیت بتائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو طہور قرار دیا ہے۔ اس سے افطار کرنے میں ظاہر وباطن کی طہارت کی نیک فالی بھی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺمغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے، اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔ )جامع ترمذی، سنن ابی دائود(
افطار کی دعا:…
o…شاگرد: استادِ محترم!افطاری کے وقت کیا دعا کرنی چاہیے؟
٭…استاد:معاذ بن زہرہؒ تابعی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہﷺجب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ‘‘ )اے اللہ!میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا( )سنن ابی دائود(
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺجب روزہ افطار فرماتے تھے تو کہتے تھے، پیاس چلی گئی اور رگیں )جو سوکھ گئی تھیں وہ( تر ہوگئیں اور خدا نے چاہا تو اجر وثواب قائم ہوگیا۔ )سنن ابی دائود(
یعنی پیاس اور خشکی کی جو تکلیف ہم نے کچھ دیر اٹھائی وہ تو افطار کرتے ہی ختم ہوگئی، اب نہ پیاس باقی ہے اور نہ رگوں میں خشکی اور انشاء اللہ آخرت کا نہ ختم ہونے والا ثواب ثابت وقائم ہوگیا…یہ اللہ کے حضور میں آپﷺکا شکر بھی ہے اور دوسروں کو تعلیم و تلقین بھی ……مندرجہ بالا دونوں دعائوں کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺافطار کے بعد یہ کلمات کہتے تھے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہﷺافطار کے وقت دعا کرتے تھے: ’’وایاسع الفضل اغفرلی‘‘ )اے وسیع فضل وکرم والے مالک! میری مغفرت فرما(
حضور ﷺ کی روزہ رکھنے کی کیفیت:…
o…شاگرد:استادِ محترم!حضور انور صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم روزے رکھنے کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟
٭…استاد:سال میں دو مہینے شعبان اور رمضان توپورے روزوں میں گزرتے تھے سال کے مہینوں میں یہ کیفیت رہتی تھی کہ روزہ رکھنے پر آتے تھے تو معلوم ہوتا تھا اب اب آپ کبھی روزہ نہ توڑیں گے پھر روزہ توڑ دیتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہ رکھیں گے مہینہ کے نصف اول میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر روزوں سے رہتے تھے۔ مہینہ میں تین تین دن دو دو شنبہ اور ایک جمعرات کو معمولاً روزہ رکھا کرتے تھے بعض روایات میں ہے کہ جمعہ کا روزہ بھی معمولات میں سے تھا‘ ان کے علاوہ محرم کے دس دن‘ یکم سے عاشورہ تک اور شوال کے آغاز میں چھ دن‘ دو شوال سے سات شوال تک۔
اتفاقی روزے ان کے علاوہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی گھر میں تشریف لاکر پوچھتے تھے کہ کچھ کھانے کو ہے جواب ملتا کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تو میں آج روزے سے ہوں‘ کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم وصال بھی رکھتے تھے یعنی متواتر کئی کئی دن تک ایک روزہ رکھتے تھے بیچ میں مطلق افطار نہیں کرتے تھے یا برائے نام کچھ کھا لیتے تھے لیکن جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقلید کرنی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بعض لوگوں نے اس ممانعت کو صرف اس معنی پر محمول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکماً نہیں بلکہ شفقت سے منع فرماتے ہیں اس لئے اس ممانعت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قسم کے روزے رکھنے شروع کئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو دو دن متصل روزہ رکھا‘ تیسرے دن اتفاق سے چاند ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر مہینہ بڑھ سکتا تو میں اتنے دن تک انتظار نہ کرتا کہ ان مذہب میں غلو کرنے والوںکا سارا غلو جاتا رہتا صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! پھر حضور کیوں کئی کئی دن تک افطار نہیں کرتے؟ ارشاد ہوا تم میں مجھ سا کون ہے؟ مجھ کو تو کھلانے والا ہے جو کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا ہے جو پلاتا ہے بعض روایتوں میں یہ الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں تم میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں شب بسر کرتا ہوں تو میرا خدا مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!کیا روزے کے لیے نیت ضروری ہے؟
٭…استاد:ہاں روزے کے لیے نیت کرنا شرط ہے۔اگر اتفاقی طور پر صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے یا صحبت سے بچا رہا لیکن روزہ کی نیت نہیں تھی تو روزہ نہ ہو گا۔
o…شاگرد: استادِ محترم!نیت کس وقت کرنی ضروری ہے؟
٭…استاد:رمضان شریف اور نذرِ معیَّن اور سنت اور نفل روزوں کی نیت رات سے کرے یا صبح کو آدھے دن سے پہلے پہلے تک جائز ہے۔دن سے مُراد شرعی دن ہے جو صبح صادق سے غروب آفتاب تک کا نا م ہے مثلاً اگر چار بجے صبح صادق ہو اور چھ بجے غروب آفتاب ہو تو شرعی دن چودہ گھنٹے کا ہوا اور آدھا دن گیارہ بجے ہوا تو گیارہ بجے سے پہلے پہلے نیت کر لینی ضروری ہے۔اور قضائے رمضان اور کفارے اور نذرِ معیَّن روزوں کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینی ضروری ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!رمضان کے قضا روزوں کی نیت کیا ہے؟
٭…استاد:نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیںجب آپ نے صبح صادق سے پہلے قضا روزے کی نیت کرکے روزہ رکھ لیا تو روزہ صحیح ہے،اگر زبان سے بھی:وبصوم غد نویت من قضاء رمضان۔(قضائے رمضان کا روزہ رکھنے کی نیت کرتا ہوں) کہہ لے تو اچھا ہے مگر روزے کی نیت ان الفاظ کو زبان سے کہے بغیر بھی ہو جائے گی۔(آپ کے مسائل ج۴)
o…شاگرد: استادِ محترم:نفل روزے کی نیت کیا ہے؟اگر بطور نذر نفلی روزے مانے ہوں کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو اتنے روزے رکھوں گا ان کی نیت کیا ہے؟
٭…استاد:مطلق روزے کی نیت بھی صحیح ہے اور نفل کی نیت سے بھی صحیح ہے یعنی دل میں ارادہ کرلے کہ میں روزہ رکھ رہاہوں۔مگر نذر کے روزے کے لیے نذر کی نیت کرنا ضروری ہے یعنی دل میں یہ ارادہ کرلے کہ میں نذر کا روزہ رکھ رہاہوں۔(آپ کے مسائل ج ۴)
o…شاگرد: استادِ محترم!سال میں کتنے دن روزہ رکھنا حرام ہے؟
٭…استاد: سال بھر میں پانچ روزے حرام ہیں عید الفطر اور عید الا ضحٰی کے دو روزے اور ایَّامِ تشریق کے تین روزے۔ایّام تشریق ذی الحجہ کی گیارھویں ،بارھویں اور تیرھویں تاریخوں کا نا م ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد چہارم)
ماہ رمضان کے فضائل اور برکات:…
o…شاگرد: استادِ محترم!رمضان شریف کے روزوں کی کیا فضیلت ہے؟
٭…استاد:رمضان شریف کے روزوں کا بہت بڑا ثواب ہے اور بہت سی فضیلتیں حدیث شریف میں آئی ہیں مثلاً:رسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یا ہے کہ جو شخص خاص اﷲ تبارک وتعالیٰ کی رضامندی کے لیے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جا ئیں گے۔ایک اور حدیث میںرسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یا : کہ روزہ دار کے منہ کی بد بو(جو بعض اوقات معدہ خالی ہو نے کی وجہ سے پیدا ہو جا تی ہے) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ایک حدیث میں رسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یا :روزہ دوزخ کی آگ سے بچا نے والی ڈھال ہے اور ایک مضبوط قلعہ ہے۔(جو دوزخ کے عذاب سے روزہ دار کو محفو ظ رکھے گا)۔ایک حدیث میں رسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یا : کہ اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اُس کی جزا دوں گا اسی طرح اور بھی بہت سی فضیلتیں حدیثوں میں آئی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دئے جاتے ہیں‘‘۔)صحیح بخاری و صحیح مسلم(
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو تحریر فرمایا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ… اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعت و حسنات میں مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں، وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعاء و استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے متأثر ہو کر عوام مؤمنین کے قلوب بھی رمضان مبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں، تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقوے کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے، اللہ کی مرضی کی جانب مائل اور شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں، اور پھر اس مبارک ماہ میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہے، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کر دئے جاتے ہیں، اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں۔
اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں )یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے، دوزخ کے دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئے جانے( کا تعلق صرف اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیر و سعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہو نے کے لئے عبادات و طاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں… باقی رہے وہ کفار اور خدا نا شناس لوگ جو رمضان اور اس کے احکام و برکات سے کوئی سرو کار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے۔ )اللہ تعالیٰ ایسی محرومیوں سے بچائے اور جو مسلمان محروم ہیں، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہو( اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لئے محرومی کے سوا کچھ نہیں۔
روزے میں معصیتوں سے پرہیز:…
o…شاگرد: استادِ محترم!روزہ رکھ کر کن کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے؟
٭…استاد:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ )صحیح بخاری(
معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں۔
اعتکاف:…
o…شاگرد: استادِ محترم!کیا عشرۂ اخیرہ میں کوئی خاص عمل بھی ہے؟
٭…استاد:رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اعتکاف بھی ہے…اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف یکسو اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ سے لولگا کے اس درپہ( یعنی کسی مسجد کے کونہ میں( پڑجانے اور سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اسی کی ذکرو فکر میں مشغول رہے، یہ خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے۔ اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان المبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہوسکتا تھا۔ اس لیے اسی کو اس کے لییمنتخب کیا گیا۔
نزول قرآن سے پہلے رسول اللہﷺکی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو اور الگ ہوکر تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر کا جو بے تا بانہ جذبہ پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی مہینے غار حرا میں خلوت گزینی کرتے رہے، یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ کی روحانیت اس مقام تک پہنچ گئی تھی کہ آپﷺپر قرآن مجید کا نزول شروع ہوجائے۔ چنانچہ حرا کے اس اعتکاف کے آخری ایام ہی میں اللہ کے حامل وحی فرشتے جبرائیلؑ سورۂ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے… تحقیق یہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ اور اس کا آخری عشرہ تھا اور وہ رات شبِ قدر تھی، اس لیے بھی اعتکاف کے لیے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔
روح کی تربیت وترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لیے پورے مہینے رمضان کے روزے تو تمام افراد امت پر فرض کئے گئے، گویا کہ اپنے باطن میں ملکوتیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لیے اتنا مجاہدہ اور نفسانی خواہشات کی اتنی قربانی تو ہر مسلمان کے لیے لازم کردی گئی کہ وہ اس پورے محترم اور مقدس مہینے میں اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت سے دن کو نہ کھائے نہ پئے،نہ بیوی سے متمع ہو اور اسی کے ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ فضول باتوں سے بھی پرہیز کرے اور یہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے…پس یہ تو رمضان المبارک میں روحانی تربیت توتزکیہ کا عوامی اور کمپلسری کورس مقرر کیا گیا، اور اس سے آگے تعلق باللہ میں ترقی اور ملاء اعلیٰ سے خصوصی مناسبت پیدا کرنے کے لیے اعتکاف رکھا گیا۔ اس اعتکاف میں اللہ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و مولیٰ کے آستانے پر اور گویا اسی کے قدموں میں پڑجاتا ہے، اس کو یاد کرتا ہے، اسی کے دھیان میں رہتا ہے، اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے، اس کے حضور میں توبہ واستغفار کرتا ہے، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم وکریم، مالک سے رحمت ومغفرت مانگتا ہے، اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے۔ اسی حال میں اس کے دس دن گزرتے ہیں اور اسی حال میں اس کی راتیں…ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے…رسول اللہﷺاہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے بلکہ ایک سال کسی وجہ سے رہ گیا تو اگلے سال آپﷺنے دو عشروں اعتکاف فرمایا…
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺرمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، وفات تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں اور خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کی مقرر کرکھی ہو، اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہوتو اعتکاف کرنے والی خواتین کو ایسی جگہ مقرر کرلینی چاہیے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺرمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے…ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے، تو اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا۔ )جامع ترمذی(
حضرت انسؓ کی اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ ہوسکنے کی کیا وجہ پیش آئی تھی۔ سنن نسائی اور سنن ابی دائود وغیرہ میں حضرت ابی بن کعبؓ کی ایک حدیث مروی ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرۂ اخیر میں آپﷺکو کوئی سفر کرنا پڑگیا تھا اس کی وجہ سے اعتکاف نہیں ہوسکا تھا اس لیے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔اور صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے مروی ہے کہ جس سال آپﷺکا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں بھی آپﷺنے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ یہ بیس دن کا اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ عنقریب آپﷺکو اس دنیا سے اٹھالیا جائے گا اس لیے اعتکاف جیسے اعمال کا شغف بڑھ جانا بلکل قدرتی بات تھی۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ فرمایا کہ معتکف کے لیے شرعی دستور اورضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے باہر نکلے، نہ عورت سے صحبت کرے، نہ بوس وکنار کرے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے ان حوائج کے جو بالکل ناگریز ہیں )جیسے پیشاب پاخانہ وغیرہ( اور اعتکاف )روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے( بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں اور مسجد جامع میں ہونا چاہیے، اس کے سوا نہیں۔ )سنن ابی دائود(
صحابہ کرامؓ میں سے جب کوئی یہ کہے کہ ’’سنت‘‘ یہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شرعی مسئلہ یہ ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ انہوں نے رسول اللہﷺکے ارشاد یا طرز عمل سے جانا ہے۔ اس لیے یہ حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہوتا ہے، اس بناء پر حضرت عائشہؓ کی اس حدیث میں اعتکاف کے جو مسائل بیان کیے گئے ہیں، وہ نبوی ہدایات ہی کے حکم میں ہیں، اس کے بالکل آخر میں ’’مسجد جامع‘‘ کا لفظ ہے اس سے مراد جماعت والی مسجد ہے۔ یعنی ایسی مسجد جس میں پانچوں وقت جماعت پابندی سے ہوتی ہو…حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، اور جماعت والی مسجد کا ہونا بھی۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ )اعتکاف کی وجہ سے مسجد میںمقید ہوجانے کی وجہ سے( گناہوں سے بچا رہتا ہے، اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرف جاری رہتا ہے اور نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔ )سنن ابن ماجہ(
جب بندہ اعتکاف کی نیت سے اپنے کو مسجد میں مقید کردیتا ہے تو اگرچہ وہ عبادت اور ذکرو تلاوت وغیرہ کے راستے سے اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ کرتا ہے لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہوجاتا ہے۔ مثلاً وہ بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کرسکتا، جو بہت بڑے ثواب کا کام ہے، کسی لاچار، مسکین، یتیم اور بیوہ کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتا، کسی میت کو غسل نہیں دے سکتا، جو اگر ثواب کے لیے اور اخلاص کے ساتھ ہوتو بہت بڑے اجر کا کام ہے، اسی طرح نماز جنازہ کی شرکت کے لیے نہیں نکل سکتا میت کے ساتھ قبرستان نہیں جاسکتا۔ جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اعتکاف والے کو بشارت دی گئی ہے کہ اس کے حساب اور اس کے صحیفہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے اور وہ ان کا عادی تھا۔
لیلۃ القدر:…
o…شاگرد: استادِ محترم!لیلۃ القدر کے بارے میں کچھ بتائیے؟
٭…استاد:جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور لیلۃ القدر اکثر وبیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺعبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺرمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے جو دوسروں دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ )صحیح بخاری(
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا عشرۂ اخیر شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے )یعنی پوری رات عبادت اور ذکر ودعا میں مشغول رہتے( اور اپنے گھر کے لوگوں )یعنی ازواج مطہرات اور دوسرے متعلقین( کو بھی جگادیتے )تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں( )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں طاق راتوں میں۔ )صحیح بخاری(
مطلب یہ ہے کہ شب قدر زیادہ تر عشرۂ اخیر کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں شب۔
شب قدر کی اگر اس طرح تعیین کردی جاتی کہ وہ خاص فلاں رات ہے تو بہت سے لوگ بس اسی رات میں عبادت وغیرہ کا خاص اہتمام کیا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح مبہم رکھا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ قرآن شب قدر میں نازل ہوا اور دوسری جگہ فرمایا گیا کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا۔ اس سے اشارہ ملاکہ وہ شب قدر رمضان کی راتوں میں سے کوئی رات تھی۔ پھر رسول اللہﷺنے مزید نشاندہی کی طور پر فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے اس کا زیادہ امکان ہے، لہٰذا ان راتوں کا خاص اہتمام کیا جائے۔ اس مضمون کی حدیثیں حضرت عائشہؓ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرامؓ سے بھی مروی ہیں اور بعض صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ شب قدر عموماً رمضان کی ستائیسویں ہی ہوتی ہے۔
زرابن حبیشؒ جو اکابر تابعین میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے دینی بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو کوئی پورے سال کی راتوں میں کھڑا ہوگا )یعنی ہر رات عبادت کیا کرے گا( اس کو شب قدر نصیب ہو ہی جائے گی )یعنی لیلۃ القدر سال کی کوئی نہ کوئی رات ہے، پس جو اس کی برکات کا طالب ہو اسے چاہیے کہ سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پاسکے گا۔ زرا بن حبیشؒ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ بات نقل کرکے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو، ان کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ )کسی ایک ہی رات کی عبادت پر( قناعت نہ کرلیں ورنہ ان کو یہ بات یقیناً معلوم تھی کہ شب قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے )یعنی اکیسویں سے انتیسویں یا تیسویں تک( اور وہ معین ستائیسویں شب ہے۔ پھر انہوں نے پوری قطیعت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ وہ بلاشبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے )اور اپنے یقین واطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ( انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا )زرا بن حبیش کہتے ہیں کہ( میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر! )یہ حضرت ابی کی کنیت ہے( یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہﷺنے ہم کو خبردی تھی اور وہ یہ کہ شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ )صحیح مسلم(
حضرت ابی بن کعبؓ کے جواب سے معلوم ہوا کہ انہوں نے جو قطیعت کے ساتھ یہ بات کہی کہ شب قدر معین طور پر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے۔ یہ بات انہوں نے رسول اللہﷺسے نہیں سنی تھی، بلکہ رسول اللہﷺنے اس کی جو ایک خاص نشانی بتائی تھی، انہوں نے چونکہ وہ نشانی عموماً ستائیسویں شب کی صبح ہی کو دیکھی تھی، اس لیے یقین کے ساتھ انہوں نے رائے قائم کرلی تھی۔
رسول اللہﷺنے کبھی تو یہ فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو اور کبھی فرمایا کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، کبھی عشرۂ اخیر کی پانچ طاق راتوں میں سے چار یا تین راتوں کے لیے فرمایا کسی خاص رات کی تعیین آپ نے نہیں فرمائی۔ ہاں بہت سے اصحاب ادراک کا تجربہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے۔
اس عدم تعیین کی بڑی حکمت یہی ہے کہ طالب بندے مختلف راتوں میں عبادت و ذکر و دعا کا اہتمام کریں، ایسا کرنے والوں کی کامیابی یقینی ہے۔
شب قدر کی خاص دعا:…
o…شاگرد: استادِ محترم!شب قدر کی رات کونسی دعا مانگنی چاہیے؟
٭…استاد:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺسے عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کونسی رات شب قدر ہے تو میں اس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں؟ آپ نے فرمایا، یہ عرض کرو:
’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘
اے میرے اللہ! تو بہت معاف فرمانے والا اور بڑا کرم فرما ہے اور معاف کردینا تجھے پسند ہے۔ پس تو میری خطائیں معاف فرمادے۔ )مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ(
اس حدیث کی بناء پر اللہ کے بہت سے بندوں کا یہ معمول ہے کہ وہ ہر رات میں یہ دعا خصوصیت سے کرتے ہیں اور رمضان المبارک کی راتوں میں اور ان میں بھی خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس دعا کا اور بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔
رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!کیا ماہِ شوال میں بھی روزے رکھنے چاہئیں؟
٭…استاد:حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہوگا۔ )صحیح مسلم(
رمضان کا مہینہ اگر ۲۹ ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ۳۰ روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے ۶ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد ۶۳ ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون ’’الحسنۃ بعشر امثالھا‘‘ )ایک نیکی کا ثواب دس گنا( کے مطابق ۳۶ کا دس گنا ۳۶۰ ہوجاتا ہے اور پورے سال کے دن ۳۶۰ سے کم ہی ہوتے ہیں۔ پس جس نے پورے رمضان مبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں ۶ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ۳۶۰ روزوں کے ثواب کا مستحق ہوگا پس اجرو ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوا جیسے کوئی بندہ سال کے ۳۶۰ دن برابر روزے رکھے۔
ہر مہینہ میں تین نفلی روزے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!نفلی روزوں کے بارے کچھ بتا ئیے؟
٭…استاد: حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کبھی نہیں چھوڑتے تھے:…)۱( عاشورہ کا روزہ )۲(عشرہ ذی الحجہ( یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک( کے کے روزے)۳( ہر مہینے کے تین روزے)۴( قبل فجر کی دو رکعتیں۔)سنن نسائی(
مطلب یہ ہے کہ یہ چار چیزیں اگر چہ فرض یا واجب نہیں ہیں لیکن رسول اللہﷺ ان کا اتنا اہتمام اور ایسی پابندی فرماتے تھے کہ کبھی یہ چیزیں ترک نہیں ہوتی تھیں۔
معاذہ عدویہؒ سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ : کیا رسول اللہﷺ ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: …ہاں! آپ )ﷺ( ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے۔ معاذہؒ نے پوچھا کہ مہینے کے کس حصے میں )اور کن تاریخوں ) میں رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ: اس کی فکر نہیں فرماتے تھے کہ مہینہ کے کس حصے میں رکھیں۔)صحیح مسلم(
بعض روایات میں ہر مہینے کے شروع میں روزے رکھنے کا حضورﷺ کا معمول ذکر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں مہینہ کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں کا، اور بعض روایات میں ہفتہ کے خاص خاص تین دنوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے جیسا کہ معلوم ہوا ان میں سے کوئی بھی آپﷺ کا مستقل معمول نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپﷺ کو جہاد کے لئے سفر اور اس کے علاوہ بھی دوسری چیزیں بکثرت پیش آتی رہتی تھیںجس کی وجہ سے آپﷺ کے لئے خاص تاریخوں یا دنوں کی پابندی ممکن نہیں تھی۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ آپﷺ کا خاص تاریخوں اور خاص دنوں میں ہمیشہ روزے رکھنا امت کے مختلف الحال لوگوں کے لئے باعث مشکل ہوتا اور اس سے یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی تھی کہ یہ روزے واجبات میں سے ہیں۔ الغرض اسی طرح کی مصلحتوں کے باعث آپﷺ خود خاص تاریخوں اور دنوں کی پابندی نہیں فرماتے تھے، اور آپﷺ کے حق میں یہی افضل اور اولیٰ تھا، لیکن صحابہ کرامؓ کو آپﷺ مہینے کے تین دن کے روزوں کے سلسلے میں اکثر ایام بیض )۱۳، ۱۴،۱۵ تاریخ( کی ترغیب دیتے تھے۔
ایام بیض کے روزے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!ایام بیض کے روزے کون سے ہیں؟
٭…استاد:حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی مہینہ کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کو روزہ رکھا کریں۔ اور فرماتے تھے کہ مہینے کے ان تین دنوں کے روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔)سنن ابی داؤد ، سنن نسائی(
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ: اے ابو ذر! جب تم مہینے کے تین روزے رکھو تو تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں کے روزے رکھا کرو۔)جامع ترمذی، سنن نسائی(
قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، اس میں ہے کہ آپﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی یہی ہدایت فرمائی تھی۔(
ان دو حدیثوں سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ ہر مہینے تین نفلی روزے رکھنے والا صاحب ایمان بندہ الحسنۃ بعشرامثالہا کے کریمانہ قانون کے حساب سے مہینے کے تیس دن یعنی ہمیشہ روزے رکھنے کے ثواب کا مستحق ہو گا۔ )یعنی ہر روزے پر دس روزوں کا ثواب ملے گا، اس لحاظ سے مہینے میں تین روزے رکھنے والے کو تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔ اور اگر ہر مہینے تین روزے رکھے جائیں تو اس حساب سے پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا( اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ روزے تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو رکھے جائیں۔ تیسری یہ بات معلوم ہوئی کہ خود رسول اللہﷺ ان اہم دینی مصالح کی وجہ سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ ان تاریخوںکی پابندی نہیں فرماتے تھے، اور آپ کے حق میں یہی افضل اور اولیٰ تھا۔
یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کی تاریخی اہمیت:…
o…شاگرد: استادِ محترم!عاشورہ کے روزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
٭…استاد:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ کا )۱۰ محرم( کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپﷺ نے ان سے دریافت فرمایا )تمہاری مذہبی روایات میں( یہ کیا خاص دن ہے )اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے( کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو؟ انہوںنے کہا کہ: ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ )علیہ السلام( اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھاتو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی )ان کی پیروی میں( اس دن روزہ رکھتے ہیں… رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : اللہ کے پیغمبر موسیٰ )علیہ السلام ) سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا۔)صحیح بخاری و صحیح مسلم(
اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر ہی عاشورہ کا روزہ رکھنا شروع فرمایا۔ حالانکہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صریح روایت موجود ہے کہ قریش مکہ میں قبل از اسلام بھی یوم عاشورہ کے روزے کا رواج تھا اور خود رسول اللہﷺ بھی ہجرت سے پہلے یہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو یہاں آکر آپﷺ نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور مسلمانوںکو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں، سوائے اس دن یوم عاشورہ کے اور سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے طرز عمل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہی سمجھا کہ نفلی روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزے کا کرتے تھے اتنا کسی دوسرے نفلی روزے کا نہیں کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنالیا اورمسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں )اور یہ گویا ان کا قومی ومذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے… حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی وفات واقع ہوگئی۔ )صحیح مسلم(
ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے اشکال عرض کرنے پر یہ بات رسول اللہ ﷺ نے وفات شریف سے کچھ ہی پہلے فرمائی، اتنی پہلے کہ اس کے بعد محرم کا مہینہ آیا ہی نہیں اور اس لیے اس نئے فیصلے پر عمل در آمد حضورﷺکی حیات طیبہ میں نہیں ہوسکا لیکن امت کو رہنمائی مل گئی کہ اس طرح کے اشتراک اور تشابہ سے بچنا چاہیے…چنانچہ اسی مقصد سے آپ ﷺ نے یہ طے فرمایا کہ انشاء اللہ آئندہ سال سے ہم نویں کا روزہ رکھیں گے۔
نویں کا روزہ رکھنے کا آپ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں محرم کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے اور اس طرح سے ہمارے اور یہود ونصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہوجائے گا…اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اوریہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے۔
عشرہ ذوالحجہ کے نفلی روزے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!عشرۂ ذوالحجہ کے روزوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
٭…استاد:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا کہ عشرۂ ذی الحجہ میں محبوب ہے )یعنی ان دنوں کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کو دوسرے تمام دنوں سے زیادہ محبوب ہے( اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں۔ )جامع ترمذی(
اس سے پہلے بھی ایک حدیث میں ضمنی طور پر عشرۂ ذی الحجہ کے نفلی روزوں کا ذکر آچکا ہے اور وہاں یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ اس سے مراد یکم ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک کے ۹ دن ہیں، کیونکہ عید کے دن تو روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس کے بعد والے سال اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ )جامع ترمذی(
حضرت ابو قتادہؓ کی ایک طویل حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے زیر عنوان ہر مہینہ کے تین نفلی روزے پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں یہ مضمون بھی قریب قریب انہی الفاظ میں آچکا ہے اور وہاں دوسری احادیث کی روشنی میں یہ وضاحت بھی کی جاچکی ہے کہ یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت اور ترغیب ان حجاج کے لیے نہیں ہے جو اداء حج کے لیے عرفہ کے دن میدان عرفات میںحاضر ہوں، ان کے لیے وہاں روزہ نہ رکھنا افضل ہے…اور وہیں اس کی حکمت بھی بیان کی جاچکی ہے۔
بعض لوگ ایسی حدیثوں میں شک کرنے لگتے ہیں جن میں کسی عمل کا ثواب اور ثمرہ ان کے خیال کے لحاظ سے بہت زیادہ اور غیر معمولی بیان کیا گیا ہو، جس طرح کہ اس حدیث میں عرفہ کے روزے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی برکت سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کے معاف ہوجانے کی امید ہے۔ اس میں شک کی بنیاد ارحم الراحمین کی رحمت وکرم کی وسعت سے نا آشنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ انتہائی کریم اور مختار مطلق ہے جس دن کے جس عمل کی اپنے کرم سے جتنی بڑی چاہے قیمت مقرر فرمائے۔ سال کی ایک رات ’’لیلۃ القدر‘‘ کو اس نے ’’خیر من الف شھر‘‘ ہزار مہینوں یعنی قریبا تیس ہزار دنوں اور راتوں سے بہتر قرار دیا ہے، یہ اس کی کریمی ہے…الغرض جب حدیث صحیح ہوتو اس طرح کے وساوس مومن کو نہ ہونے چاہئیں۔
پند رھو یں شعبان کا روزہ:…
o…شاگرد: استادِ محترم!پندرہویں شعبان کے روزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
٭…استاد:حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس رات میں اللہ کے حضور میں نوافل پڑھو اور اس دن کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات میں آفتاب غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اور رحمت پہلے آسمان پر اتر آتی ہے اور وہ ارشاد فرماتا ہے کہ کوئی بندہ ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کا فیصلہ کروں، کوئی بندہ ہے جو روزی مانگے اور میں اس کو روزی دینے کا فیصلہ کروں، کوئی مبتلائے مصیبت بندہ ہے جو مجھ سے صحت و عافیت کا سوال کرے اور میں اس کو عافیت عطا کروں، اسی طرح مختلف قسم کے حاجت مندوں کو اللہ تعالیٰ پکارتے ہے کہ وہ اس وقت مجھ سے اپنی حاجتیں مانگیں اور میں عطاکروں۔ غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ تعالیٰ کی رحمت اسی طرح اپنے بندوں کو اس رات میں پکارتی رہتی ہے۔ )سنن ابن ماجہ(
اس حدیث کی بناء پر اکثر بلاد اسلامیہ کے دیندار حلقوں میں پندرھویں شعبان کے نفلی روزے کا رواج ہے لیکن محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف قسم کی ہے۔ اس کے ایک راوی ابوبکر بن عبداللہ کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا۔
پندرہویں شعبان کے روزہ کے متعلق تو صرف یہی ایک حدیث روایت کی گئی ہے، البتہ شعبان کی پندرہویں شب میں عبادت اور دعا و استغفار کے متعلق بعض کتب حدیث میں اور بھی متعدد حدیثیں مروی ہیں لیکن ان میں کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کی سند محدثین کے اصول و معیار کے مطابق قابل اعتماد ہو، مگر چونکہ یہ متعدد حدیثیں ہیں اور مختلف صحابہ کرامؓ سے مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہے اس لیے ابن الصلاح وغیرہ بعض اکابر محدثین نے لکھا ہے کہ غالباً اس کی کوئی بنیاد ہے۔ واللہ اعلم
خاص دنوں میں نفلی روزے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!خاص دنوں میں نفلی روزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
٭…استاد:جس طرح اب تک کی درج ہونے والی حدیثوں میں سال کے بعض متعین مہنیوں اور مہینوں کی بعض مخصوص تاریخوں میں نفلی روزے رکھنے کی خاص ترغیب دی گئی ہے اسی طرح ہفتہ کے بعض مخصوص دنوں کے لیے بھی یہ ترغیب دی گئی ہے اور خود رسول اللہﷺکے عمل سے بھی اس بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: پیر کو اور جمعرات کو اعمال کی ایک پیشی ہوتی ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے عمل کی پیشی ہوتو میں اس دن روزہ سے ہوں۔ )جامع ترمذی(
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺپیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ )جامع ترمذی، سنن نسائی(
حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺسے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپﷺنے فرمایا کہ میں پیر ہی کے دن پیدا ہوا اور پیر ہی کے دن سے مجھ پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔ )صحیح مسلم(
مطلب یہ ہے کہ پیر کا دن بڑی برکت اور رحمت والا دن ہے، اسی دن میں تمہارے نبیﷺکی پیدائش ہوئی اور اسی دن کتاب اللہ کا نزول شروع ہوا، پھر اس دن کے روزے کا کیا پوچھنا…اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ جو پیر کے دن )کبھی کبھی یا اکثر( روزہ رکھتے تھے تو اس کا ایک محرک تو وہ تھا جس کا اوپر کی حدیث میں ذکر آیا، یعنی یہ کہ اس دن اعمال کی ایک پیشی ہوتی ہے اور آپ چاہتے تھے کہ اس پیشی کے دن آپ روزہ کی حالت میں ہوں اور دوسرا محرم اللہ تعالیٰ کی ان دو عظیم نعمتوں )ولادت اور وحی ونبوت( کے شکر کا جذبہ بھی تھا جو آپﷺکو پیر ہی کے دن عطا ہوئیں اور جو ساری دنیا کے لیے نعمت اور رحمت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ کم ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہﷺجمعہ کے دن روزہ نہ رکھتے تھے۔ )جامع ترمذی، سنن نسائی(
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن اکثر وبیشتر آپﷺکا روزہ ہوتا تھا لیکن دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺاس سے منع فرماتے تھے کہ جمعہ کی فضیلت اور خصوصیت کی وجہ سے لوگ ایسا کرنے لگیں کہ نفلی روزے جمعہ ہی کو رکھیں اور شب بیداری اور عبادت کے لیے شب جمعہ ہی کو مخصوص کریں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ راتوں میں سے جمعہ کی رات کو نماز اور عبادت کے لیے مخصوص نہ کرو اور اسی طرح دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے مخصوص نہ کرو، الایہ کہ جمعہ کسی ایسی تاریخ کو پڑ جائے جس کو تم میں سے کوئی روزہ رکھتا ہو)اس صورت میں اس جمعہ کے نفلی روزے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ )صحیح مسلم(
جمعہ کے دن اور اس کی رات کی خاص فضیلت کی وجہ سے چونکہ اس کا امکان زیادہ تھا کہ فضیلت پسند لوگ اس دن نفلی روزہ رکھنے کا اور اس کی رات میں شب بیداری اور عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرنے لگیں اور جس چیز کو اللہ و رسول نے فرض و واجب نہیں بتایا اس کے ساتھ فرض و واجب کا سا معاملہ ہونے لگے، اس لیے رسول اکرمﷺنے یہ ممانعت فرمائی…اس کے علاوہ اس ممانعت کے علمائے کرام نے اور بھی بعض مصالح لکھے ہیں۔ بہرحال یہ ممانعت انتظامی ہے اور منشاء یہ ہے کہ جمعہ کا روزہ اور شب جمعہ کی شب بیداری ایک زائد رسم نہ بن جائے۔واللہ اعلم
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ)ایسا بھی کرتے تھے کہ( ایک مہینہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے اور دوسرے مہینہ میں منگل، بدھ اور جمعرات کا۔ )جامع ترمذی(
حضرت عائشہؓ کی روایت سے پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ مہینہ کے تین روزوں کے بارے میں حضور اکرمﷺکا کوئی لگا بندھا معمول نہیں تھا اس لیے آپﷺکی اس روایت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ ایسا بھی کرتے تھے کہ ایک مہینہ میں آپﷺنے کبھی ہفتہ کے پہلے تین دنوں ہفتہ، اتوار، پیر کا روزہ رکھ لیا اور دوسرے مہینہ میں بعد والے تین دنوں منگل، بدھ اور جمعرات کا…
گویا علاوہ ان مخصوص تاریخوں اور دنوں کے جن کے روزہ کی خاص فضیلت ہے۔ آپ اس کا بھی اہتمام فرماتے تھے کہ آپ کا نفلی روزہ ہفتہ کے ہر دن میں پڑجائے تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کے بتائے ہوئے ساتوں دن مبارک اور عبادت کے دن ہیں۔
وہ دن جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!وہ دن کون سے ہیں جن میں نفلی روزہ رکھنا منع ہے؟
٭…استاد:سال میں مخصوص دن وہ بھی ہیں جن میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے اور اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے، اس نے نماز کو عظیم عبادت بھی قرار دیا اور بعض اوقات میں )مثلاً طلوع وغروب اور استواء کے وقت( نماز کی ممانعت بھی فرمادی۔ اسی طرح اس نے روزہ کو محبوب ترین عبادت اور روحانی ترقی کا خاص وسیلہ بھی قرار دیا اور بعض خاص دنوں میں روزہ رکھنا حرام بھی کردیا، یہ بات حاکم مطلق کی شان حاکمیت کے عین مطابق ہے اور ہم بندوں کا کام بس حکم کی تعمیل اور فرمانبرداری ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے منع فرمایا، یوم الفطر کے روزے اور قربانی کے دن روزہ رکھنے سے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے منع فرمایا یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر میں روزہ رکھنے سے۔ )صحیح مسلم(
ابو عبید مولیٰ ابن ازہر تابعی سے روایت ہے کہ میں نے عید کی نماز حضرت عمرؓ کی اقتداء میں پڑھی۔ انہوں نے نماز پڑھائی نماز سے فارغ ہوکر خطبہ دیا، اس میں فرمایا کہ عید کے یہ دونوں دن وہ ہیں کہ رسول اللہﷺنے ان میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک دن تو )پورے مہینے رمضان کے روزوں کے بعد( تمہارے فطر کا دن ہے اور دوسرا اپنی قربانیوں کے گوشت کھانے کا دن ہے۔ )صحیح مسلم(
حضرت نبیشۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ایام تشریق )۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ( کھانے پینے کے اور اللہ کی یاد کے دن ہیں۔ )صحیح مسلم(
حضرت ابو سعید خدریؓ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عمر بن الخطابؓ کی مندرجہ بالا حدیثوں میں یوم الفطر اور یوم النحر کے دنوں میں روزہ رکھنے کی صریح ممانعت فرمائی گئی ہے اور حضرت عمرؓ کے ارشاد میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یوم الفطر کا روزہ تو اس لے منع ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد فطر کا دن یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے پینے کا دن قرار دیا ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنے میں منشاء الہٰی کی مخالفت ہے اور یوم النحر کا روزہ اس لیے منع ہے کہ وہ قربانی کا گوشت کھانے کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس دن جو قربانیاں اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائیں اس کے بندے ان قربانیوں کا گوشت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کی ضیافت سمجھ کر اور اس کے درکے فقیر بن کر شکر کرکے ساتھ کھائیں اور وہ بندہ بلاشبہ بڑا متکبر اور کافر نعمت ہے جو اللہ کی عام ضیافت کے دن دانستہ روزہ رکھ لے اور چونکہ ذی الحجہ کی گیارھویں اور بارہویں بھی قربانی کے دن ہیں، اس لیے ان کا حکم بھی یہی ہے…اور نبیشۃ ہذلیؓ کی آخری حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺنے پورے ایام تشریق کو کھانے پینے کے یعنی اللہ تعالیٰ کی ضیافت کے دن فرمایا ہے جس میں ۱۳ ذی الحجہ بھی شامل ہے، ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۳ ذی الحجہ تک پانچویں دن روزہ رکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اب ان دنوں میں روزہ رکھنا عبادت نہیں بلکہ معصیت ہوگا۔
نفلی روزہ توڑا بھی جاسکتا ہے:…
o…شاگرد: استادِ محترم!کیا نفلی روزہ توڑا بھی جاسکتا ہے؟
رمضان کا روزہ اگر بغیر عذر شرعی توڑ دیا جائے تو اس کا بہت بھاری کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے، جس کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر گزر چکا ہے۔ لیکن نفلی روزہ رکھنے والے کو اگر کوئی عذر لاحق ہو جائے تو توڑ بھی سکتا ہے، اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا اور وہ گناہگار بھی نہیں ہوگا…رسول اللہﷺنے کبھی کبھی خود بھی ایسا کیا ہے اور دوسروں کو بھی یہ مسئلہ بتلایا ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺمیرے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیا تمہارے ہاں کھانے کے لیے اس وقت کچھ ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہے، آپﷺنے فرمایا، تو اب ہم روزہ رکھتے ہیں…پھر ایک اور دن آپﷺتشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ آج ہمارے ہاں حیس )خرما اور مکھن کا ملیدہ( ہدیہ آیا ہے، اس کو نوش فرمالیں۔ آپﷺنے فرمایا، دکھائو، ہم نے آج روزے کی نیت کی تھی…پھر آپﷺنے اس میں سے نوش فرمایا اور روزہ نہیں رکھا۔ )صحیح مسلم(
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جاسکتی ہے اور دوسری یہ کہ نفلی روزے کی نیت کرلینے کے بعد اگر رائے بدل جائے تو اس کو توڑا بھی جاسکتا ہے…اگلی حدیثوں سے یہ بات اور زیادہ صراحت کے ساتھ معلوم ہوگی۔
حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے بعد )جب کہ رسول اللہﷺمکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے( حضرت فاطمہؓ آئیں اور رسول اللہﷺکے بائیں جانب بیٹھ گئیں اور ام ہانیؓ آپﷺکے داہنی جانب تھیں کہ ایک بچی آپﷺکے پینے کے لیے کوئی مشروب لے آئی اور آپﷺکی خدمت میں پیش کیا۔ آپﷺنے اس میں سے کچھ پی لیا اور پھر ام ہانیؓ کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے بھی اس میں سے پی لیا اور پھر حضور اکرمﷺسے عرض کیا، یارسول اللہﷺ! میں روزے سے تھی اور میں نے یہ پی کر روزہ توڑ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کیا تم اس روزے کے ذریعے کسی فرض یا واجب کو ادا کرنا چاہتی تھیں؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں )بلکہ صرف نفلی روزہ تھا(۔ تو آپﷺنے فرمایا اگر نفلی تھا تو پھر کچھ مضائقہ نہیں۔ )سنن ابی دائود، جامع ترمذی، سنن دارمی(
اس حدیٖث میں تصریح ہے نفلی روزہ توڑ دینے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: الصائم المتطوع امیر نفسہ ان شاء صام وان شاء افطر )یعنی نفل روزہ رکھنے کو اختیار ہے کہ چاہے تو روزہ پورا کرے اور کسی وجہ سے توڑنا چاہے تو توڑ دے۔
مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نفلی روزہ توڑ دینے کی صورت میں اس کی جگہ دوسرا روزہ رکھنا پڑے گا یا نہیں…آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی قضا رکھنے کا حکم بھی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں اور حفصہ )رضی اللہ عنہا( دونوں نفلی روزے سے تھے، ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا جس کو کھانے کا ہمارا جی چاہا اور ہم نے اس کو کھالیا۔ پھر حفصہؓ نے رسول اللہﷺسے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ہم دونوں روزے سے تھے ، ہمارے سامنے کھانا آیا جس کو کھانے کے لیے ہمارا جی چاہا تو ہم نے اس میں سے کچھ کھالیا )اور روزہ توڑ دیا(۔
آپﷺنے فرمایا، اس کی جگہ کسی دن قضا روزہ رکھو۔ )جامع ترمذی(
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفلی روزہ توڑ دینے کی صورت میں اس کی قضا کے طور پر روزہ رکھنا چاہیے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ قضا واجب ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک واجب نہیں صرف مستحب ہے۔
روزہ کی قدر وقیمت اور اس کا صلہ:…
o…شاگرد: استادِ محترم!روزے کا صلہ اور اس کی قدرو قیمت کیا ہے؟
٭…استاد:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے)روزہ کی فضیلت اور قدرو قیمت بیان کرتے ہوئے( ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے )یعنی اس امت مرحومہ کے اعمال خیر کے متعلق عام قانون الہٰی یہی ہے کہ ایک نیکی کا اجر اگلی امتوں کے لحاظ سے کم از کم دس گنا ضرور ہوگا اور بعض اوقات عمل کرنے کے خاص حالات اور اخلاص و خشیت وغیرہ کیفیات کی وجہ سے اس سے بھی بہت زیادہ عطا ہوگا، یہاں تک کہ بعض مقبول بندوں کو ان کے اعمال حسنہ کا اجر سات سو گنا عطا فرمایا جائے گا تو رسول اللہﷺنے اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون رحمت کا ذکر فرمایا( مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے، وہ بندوں کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی )جس طرح چاہوں گا( اس کا اجر وثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے )پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا( روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرف باریابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے )یعنی انسانوں کے لیے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے( اور روزہ )دنیا میں شیطان ونفس کے حملوں سے بچائو کے لیے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کے لیے ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو چاہیے کہ وہ بے ہودہ فحش باتیں نہ بکے اور شور وشغب نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا ٹنٹا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
حدیث کے اکثر وضاحت طلب اجزاء کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں کردی گئی ہے۔ آخر میں رسول اللہﷺنے جو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی کا روزہ ہوتو وہ فحش اور گندی باتیں اور شور وشغب بالکل نہ کرے اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں بکے جب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ بھائی میرا روزہ ہے۔ اس آخر ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضلیتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرے گا۔ ایک دوسری حدیث میں )جو عنقریب درج ہوگی( فرمایا گیا ہے کہ جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلط باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی احتیاج نہیں ہے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جس کو ’’باب الریان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوسکے گا۔ اس دن پکارا جائے کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے۔ اس کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
روزہ میں جس تکلیف کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے اور جو روزہ دار کی سب سے بڑی قربانی ہے وہ اس کا پیاسا رہنا ہے، اس لیے اس کو جو صلہ اور انعام دیا جائے گا اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی کا ہونا چاہیے۔ اسی مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کے لیے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کی خاطر صفت سیرابی وشادابی ہے۔ ریان کے لغوی معنی ہیں ’’پورا پورا اسیراب‘‘ یہ بھرپور سیرابی تو اس دروازہ کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہوگا، آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اللہ تعالیٰ کو ہی ہے جس کا ارشاد ہے کہ: ’’الصوم لی وانا اجزی بہ‘‘ بندہ کا روزہ بس میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا صلہ دوں گا۔
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺسے عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیے، جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ )سنن نسائی(
نماز، روزہ، صدقہ، حج اور خلق اللہ کی خدمت وغیرہ اعمال صالحہ میں یہ بات مشترک ہونے کے باوجود کہ یہ سب تقرب الی اللہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں ان کی الگ الگ کچھ خاص تاثیرات اور خصوصیات بھی ہیں جن میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز اور منفرد ہیں۔
ان انفرادی اور امتیازی خصوصیات کے لحاظ سے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے۔ مثلاً نفس کو مغلوب اور مقہور کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اس صفت میں کوئی دوسرا عمل روزہ کے مثل نہیں ہے۔ پس حضرت ابو امامہ کی اس حدیث میں روزہ کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ اس کے مثل کوئی عمل نہیں ہے، اس کی حقیقت یہی سمجھنی چاہیے۔ نیز ملحوظ رہنا چاہیے کہ ابوامامہ کے خاص حالات میں ان کے لیے زیادہ نفع مند روزہ ہی تھا، اس لیے رسول اللہﷺنے ان کو اسی کی ہدایت فرمائی اور اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے کہ ابو امامہ نے یہ جواب پانے کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بھی عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکیم فرمائیے جس کو میں کیا کروں تو دونوں دفعہ آپﷺنے روزہ ہی کی ہدایات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ بس روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔ یعنی تمہارے خاص حالات میں تم کو اسی سے زیادہ نفع ہوگا۔
شریعت کے احکام کی اصل بنیاد تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو پورا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے اور یہی فلسفہ ہے اور حکمت روزہ میں بھی ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے میں جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے وہاں ساتھ ساتھ بے شمار دوسرے دنیاوی اوراخروی فوائد اور حکمتیں بھی حاصل ہوتی ہیں جن کا صحیح طرح سے ہم لوگ احاطہ بھی نہیں کرسکتے مگر کچھ حکمتیں شریعت کی بے پناہ مہربانیوں کی وجہ سے بندوں کو اعمال کی طرف راغب کرنے کے لیے بتلادی جاتی ہیں اور کچھ حکمتیں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دلوں میں بھی ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر روزہ کی کچھ حکمتیں یہ بیان کی گئی ہیں۔
٭ روزہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی بڑی پہچان اور نشانی ہے جیسے کوئی شخص کسی کی محبت میں مست اور سرشار ہوکر کھانا‘ پینا اور میاں بیوی والے خصوصی تعلقات چھوڑ دیتا ہے اسی طرح روزہ دار اللہ جل شانہ کی محبت میں گم ہوکر اسی حالت کا اظہار اور ترجمانی کرتا ہے اور اسی وجہ سے غیراللہ کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں۔
٭ روزہ دار کی نفسانی خواہشات کمزور اور سست ہو جاتی ہیں (جس کے نتیجہ میں گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے)۔
٭ روزے سے انسان میں اللہ کا خوف و خشیت اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے (جس کے نتیجہ میں گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے)
٭ روزے کی وجہ سے روحانی قوت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے (جس کے نتیجے میں مادی تقاضے کمزور اور روحانیت میں ترقی ہوتی ہے)
٭ روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا تقاضا پیدا ہوتا ہے اور نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔
٭ روزہ رکھنے سے اپنی عاجزی‘ مسکنت اور اپنے محتاج ہونے کا خیال ترقی پکڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور قدرت و بے نیازی پر نظر جاتی ہے۔
٭ انسانی ہمدردی اور مسکینوں پر رحم اور ان کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔
٭ جانوروں اور حیوانوں کی خصلتوں سے نجات ہوتی ہے اور اشرف المخلوقات کی صفات حاصل ہوتی ہیں۔
٭ روزہ رکھ کر فرشتوں کی مشابہت اور ان کے قرب کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
٭ جسمانی بیماریوں خاص کر معدے کے امراض اور بلغمی بیماریوں کے لیے روزہ بے حد مفید ہے۔
٭ روزہ رکھنے سے انسان کی بصیرت کھلتی ہے اور دوراندیشی و باریک بینی کا خیال ترقی پذیر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بہت سی مخلوق کے حقائق اور ان کے راز بھی کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔
٭ روزہ کے ذریعہ سے بری اور غلط عادات (مثلاً سگریٹ نوشی‘ منشیات وغیرہ) سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
٭ خاص طور پر رمضان کا روزہ اسلامی برادری میں مساوات کاسبب بنتا ہے کیونکہ امیر اور غریب باوجود ایک دوسرے سے مال و دولت میں کم زیادہ ہونے کے روزہ میں ایک ساتھ مل کر ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کے مساوی ہو جاتے ہیں اور مال و دولت کا عارضی امتیاز درمیان میں حائل نہیں رہتا۔
٭ روزہ دار کو ایک ایسا ایمانی جوہر اور ایسی توانائی حاصل ہوتی ہے جو انفرادی اور اجتماعی معاشرے کی اصلاح کا سبب بنتی ہے کیونکہ روزہ دار کے دل میں کسی کی حق تلفی‘ عداوت‘ بغض‘ دشمنی‘ بے حیائی‘ غیبت‘ چغل خوری وغیرہ کے خیالات کم پیدا ہوتے ہیں۔
٭ روزہ کی وجہ سے بنی نوع انسان میں صبر و تحمل کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور بے صبری سے بچنا آسان ہو جاتا ہے ‘ اس کے علاوہ بھی اور بہت سے روزے کے دنیوی و اخروی فائدے ہیں۔
لیکن یہ سب باتیں تب حاصل ہو سکتی ہیں کہ روزہ رکھنے والاخود بھی ان کے حاصل کرنے کا ارادہ رکھے اور روزے میں اُن تمام بوتوں کا لحاظ رہے جن کی ہدایت رسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما ئی یعنی کھانے پینے کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کرے نہ جھوٹ بولے ،نہ غیبت کرے ،نہ کسی سے لڑے جھگڑے۔ ایک حدیث میںرسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یا ::…
’’جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو چاہیے کہ کوئی گندی اور بُری بات اُس کی زبان سے نہ نکلے اور وہ شور وشغب بھی نہ کرے اور کوئی آدمی اُس سے جھگڑا کرے اور اُس کو گالیاں دے تو اُس سے بس یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں( اس لئے تمہاری گالیوں کے جواب میں بھی گالی نہیں دے سکتا)۔‘‘ایک اور حدیث میں رسولِ کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ارشادفرما یا :…’’جو شخص روزے میں بھی غلط گوئی اور غلط کاری نہ چھوڑے ،تو اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ کو اُس کے کھا نا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت اور کوئی پرواہ نہیں۔‘‘
الغرض! روزے کے اثر سے روح میں پاکیزگی اور تقویٰ پر ہیز گاری کی صفت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت تب ہی پیدا ہو گی جبکہ جؤکھانے پینے کی طرح دوسرے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پر ہیز کیا جا ئے اور خاص کر جھوٹ،غیبت اور گالی گلوچ وغیرہ سے زبان کی حفاظت کی جا ئے…اگر اس طرح کے مکمل روزے رکھے جا ئیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا اور ایسے روزے آدمی کو فرشتہ صفت بنا سکتے ہیں۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ روزے کی حقیقت اور اس کی قدر وقیمت کو سمجھیں اوراس کے ذریعہ اپنے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفات پیدا کریں۔