مدرسہ کا لفظ اپنوں کیلئے جتنا محبوب ‘ خوبصورت اور میٹھا ہے ‘ غیروں کیلئے یہ اتنا ہی کڑوا اور نا قابلِ برداشت ہے ۔
اہل ایمان مدرسہ کو اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ علوم نبوت کی درسگاہ ہے اور علومِ وحی کا امین ہے ۔ اس کی فضائیں قال اللہ تعالیٰ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گونجتی ہیں اور اسلام کے درو دیوار لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدائوں سے معمور ہیں ۔
آج دنیا پر مغرب کی مادی تہذیب کا بھر پور حملہ ہے ۔ یہ تہذیب صرف خواہشات ِ نفسانی کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور اس نے اسلام کے سوا دنیا کے تمام مذاہب کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے ۔
یہودیت ، عیسائیت ، ہندو مذہب ، سکھ مذہب ، بدھ مت ، آتش پرست اور دنیا کے چھوٹے بڑے درجنوں مذاہب نے یورپ کی مادی یلغار کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں ۔ ان تمام مذاہب کی اصل تعلیمات ، جوان کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں ، خود ان کے پیرو کاروں نے انہیں نا قابل عمل قرار دے کر چھوڑ دیا ہے اور ان مذاہب کے راہنما خود ہی ان میں ہر طرح کی تحریف و ترمیم کیلئے آمادہ ہیں ۔
دنیا بھر میں صرف ایک مذہب اسلام ہے جو آج بھی اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ کھڑا ہے ۔ جو یورپ کی مادر پدر آزاد ، ننگ ِ انسانیت اور عریاں تہذیب کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بجائے خود اُس کی غلطیوں کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ یہ اسلا م ہی ہے جس کا یہ اعلان ہے کہ وہ اس کائنات کے فناء ہونے تک ، تمام انسانوں ، تمام زمانوں اور تمام علاقوں کیلئے خالق ِ کائنات جل شانہ ، کا مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں ہر دور کے مسائل حل کرنے کی بھر پور صلاحیت ہے ۔
اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے تحفظ اور بقاء کیلئے بحیثیت ادارہ ، مدرسہ ہی مصروفِ عمل ہے ۔ دینِ اسلام کے جتنے کام ہیں اور اس کے جتنے شعبے ہیں ، سب کو کام کرنے والے افراد کی شکل میں خام مال یہی ’’مدرسہ ‘‘ مہیا کرتا ہے ۔ یہ مدرسہ ہی ہے جس نے دین کیلئے وقتی مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ پروان چڑھایا ۔ یہ مدرسہ ہی ہے جس نے شکل و صورت اور تہذیب و ثقافت تک میں سنت ِ مطہرہ کو سینے سے لگائے رکھا اور اپنی اس استقامت کے صلے میں ملنے والے ہر طعنے کو اپنے لیے تمغۂ امتیاز سمجھا ۔
مدرسہ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کی بنیادیں بہت گہری ہیں ۔ اس کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ مکہ مکرمہ کی زیاراتِ مقدسہ میں سے ایک اہم جگہ ’’غارِحرا ‘‘ کا نام تو آپ نے یقینا سن رکھا ہو گا جو مسلمان بھی عمرہ یا حج کی سعادت حاصل کرنے جاتے ہیں ، وہ ضرور اس مبارک جگہ حاضری دیتے ہیں ۔ اہل ایمان اس تاریخی اور یاد گار غار کو بڑی بے تابی اور شوق سے دیکھتے ہیں اور یہاں ہر دم برسنے والے انوارو برکات کی بارش سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور پہنچاتے ہیں ۔
یہی مبارک غار قرآن مجید کی سب سے پہلی درسگاہ ، وحی الٰہی کے نازل ہونے کا اولین مقام اور اسلام کا سب سے پہلا مدرسہ ہے ۔ اس مقدس مدرسہ کے معلم ، خود رب کائنات جل شانہ تھے اور متعلم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ ان دونوں کے درمیان واسطے اور ترجمانی کا کام حضرت جبرائیل امین علیہ السلام سرانجام دے رہے تھے ۔اسی مدرسہ کا سب سے پہلا سبق ’’اقرائ‘‘ تھا ، جس سے نزولِ قرآن مجید کا آغاز ہوا ۔
تاریخِ اسلام کا دوسرا اہم مدرسہ ’’ دارِ ابن ابی ارقم‘‘ رضی اللہ عنہ تھا ۔ دعوتِ اسلام کے آغاز پر جب مکہ کی سر زمین مسلمانوں پر تنگ ہو گئی تو اسی مکان میں سید المرسلین ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیمِ کتاب و حکمت دیتے تھے اور ساتھ ہی غلط عقائد اور برے اخلاق سے اُن کا تزکیہ فرماتے تھے ۔ تمام جلیل القدر صحابہ کرامؓ ، جو شروع زمانے میں اسلام لائے ، اسی مدرسہ کے طالب علم تھے ۔
جب قافلۂ اسلام ، مکہ مکرمہ کی وادیوں سے کھجوروں والی سرزمین مدینہ منورہ وارد ہوا تو مسجد نبوی شریف میں وہ چبوترہ( صفہ مبارکہ) قائم کیا گیا ، جو تاریخِ اسلام کا تیسرا اہم مدرسہ تھا ۔ اس درسگاہِ نبوت سے فیض پانے والے طلبۂ کرام ، اصحابِ صفہ ؓ کے معزز لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔
محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کا ایمان افروز تذکرہ اور ان کے حالات سے حاصل ہونے والا بصیرت افروز سبق یوں تحریر فرمایا ہے :
مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے شمال مشرقی جانب ایک سائبان کے سایہ میں چند نفوسِ قدسیہ تعلیم و تربیت پا رہے تھے، ان نفوسِ قدسیہ نے اپنی زندگی حصولِ علم ہی کے لئے وقف کر دی تھی ، ان میں چند نفوس ایسے بھی تھے کہ کبھی کبھی دن کے کسی حصہ میں جنگل سے لکڑی لاکر فروخت کرتے اور گذر بسر کیا کرتے تھے ، ان کے احوال و تعداد میں قدماء محدثین نے مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں امامِ حدیث ابو نعیم اصبہا نی اور امامِ حدیث ابو عبداللہ حاکم اور ابن الاعرابی اور سلمیٰ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ، ان کی تعداد مختلف اوقات میں کل ملا کر چار سو تک پہنچتی ہے ویسے توحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی تعلیمی ہی تھی اور امتِ محمدیہ ﷺ میں صحابہ کرام ؓہی سب سے پہلے متعلم و شاگرد تھے لیکن اسی تحصیل ِ علم
کے ساتھ ساتھ اکثرو بیشتر حضرات کے تجارت و زراعت وغیرہ کے مشاغل بھی تھے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی اہم شخصیت کا ایک دور ایسا بھی گزرا کہ مدینہ سے باہر عوالی مدینہ میں ان کا قیام تھا اور بعدِ مسافت کے علاوہ معاشی مشغولیت کی وجہ سے روزانہ بارگاہِ نبوت کی حاضری سے معذور تھے لیکن آپ نے اپنے ایک انصاری پڑوسی ( غالباً ان کا نام اوس بن خولیٰ ہے) کے ساتھ یہ انتظام کیا ہوا تھا اور باری مقرر کر رکھی تھی کہ ایک دن وہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا کریں اور جو وحیِ نبوت (قرآن کریم کی آیت) جدیداتری ہو یا کوئی اہم حدیث آپ بیان فرمائیں تو وہ رات کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سنا دیا کریں اور ایک دن حضرت عمر ؓ یہ ہی خدمت انجام دیا کریں جس کی تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے ، الغرض صحابہ کرام ؓ جو روزانہ حاضری نہیں دے سکتے تھے وہ بھی حصولِ علم کے لئے پورا اہتمام و انتظام فرماتے تھے ۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی تھے جن کی شب و روز کی زندگی ، اسی حصول ِ علم کے لئے وقف تھی ، اہلِ عیال سے آزادا نہ تجارت سے غرض نہ زراعت سے مطلب نہ اپنی معاش کی فکر نہ اہل و عیال کی ، یہ وہ اصحابِ صفہ کی نفو سِ قدسیہ ہیں جن کی تعداد یک ایک وقت میں ستر ستر بھی پہنچ جاتی تھی ، انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ستر وہ شہداء ’’ بیرِ معونہ‘‘ ہیں جن کو کفار کے چند قبائل بنی لحیان ورعل و ذکو ان وغیرہ نے جو تعلیم دین اور تبلیغ اسلام کی غرض سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلم و مبلغ طلب کرنے آئے تھے اور آپ نے ان قراء کو اس دینی خدمت کے لئے بھیجا تھا ، ان بد ظن قبائل نے ان کو لے جاکر شہید کر ڈالا تھا ، جس پر آپ کو شدید صدمہ ہوا تھا اور نماز فجر میں آپ نے دعائِ قنوت ِ نازلہ پڑھنی شروع فرما دی تھی ۔
انہی نفوس قدسیہ میں سے اس واقعۂ شہادت کے بعد ستر ایسے صحابہ بھی تھے جن کے متعلق حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ بیان ’’صحیح بخاری‘‘ میں قابلِ عبرت و بصیرت ہے :۔
’’ میں نے ستر ایسے اصحابِ صفہّ کو دیکھا ہے جن میں سے کسی کے پاس (اوپر اوڑھنے کے لیے) چادر نہ تھی یا ان کے پاس صرف لنگی تھی یا (بدن ڈھانپنے کے لئے) ایک کملی جس کو انہوں نے گردن سے (نیچے تک) باندھا ہوا ہوتا کوئی کملی تو ٹخنوں تک پہنچ جاتی کوئی پنڈلیوں تک ہی پہنچتی ‘ (رکوع سجدہ کے وقت ) اس کو ہاتھ سے سنبھالے رہتے کہ (جسم کا ) پوشیدہ حصہ نہ کھل جائے ۔‘‘
انہی نفوسِ قدسیہ میں سے خود حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن پر بعض اوقات بھوک سے غشی کے دورے پڑا کرتے اور مسجد نبوی کے اندر منبر نبوی اور بیت الرسول کے درمیان روضہ میں بے ہوش پڑے ہوتے اور عام حضرات کا گمان ہوتا کہ ان پر مرگی کا دورہ پڑا ہے حالانکہ صرف بھوک کی شدت اور فاقوں کی کثرت سے ان پر اس قسم کی حالت طاری ہوتی تھی خود انہی کے زبان سے صحیح بخاری میں یہ ساری تفصیل مذکور ہے ، آخر اس جفاکشی اور اس اندازِ طالب علمی کے جو حیرت انگیز نتائج ہونے چاہئیں تھے وہ امت کے سامنے آئے خود انہی کی زبان سے ’’صحیح بخاری ‘‘ میں مروی ہے :
’’ تین سال تک (ہمہ وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا میں نے اپنی عمر میں اپنے سے زیادہ حدیثوں کو یاد کرنے کا حریص (سرگرم شائق) اور کسی کونہیں دیکھا‘‘۔
اتنے مختصر عہد میں جو روایتیں مدوّنینِ کتب ِ حدیث کو ان سے پہنچی ہیں ان کی تعداد ( ۵۳۷۴) ہے نہ معلوم اور کتنی روایتیں ہوں گی جو مدوّنین کتب حدیث کے معیار کے مطابق نہ پہنچ سکیں جو یقینا اس قدسی صحبت اور اس فنافی العلم کے جذبہ کی برکات تھیں ، چنانچہ پورے آٹھ سو صحابہ و تابعین کو ان سے شرف ِ تلمذ حاصل ہوا اور دین کا بہت بڑا حصہ تنہا انہی کی روایات سے امت کو پہنچا، یہی وجہ ہے کہ یورپ کے مستشر قین اور منکرین حدیث مستغربین اور ان کے علاوہ اعدائِ اسلام کا سارا زور حضرت ابو ہریرہؓ پر طعن و تشنیع اور عیب چینی پر صرف ہو رہا ہے ، کہنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی بنا پر ان اصحابِ صفہ کے فقرو
افلاس کی حالت کو برداشت کیا گیا ؟ اور ان کو فکر معاش کی طرف کیوں متوجہ نہیں کیا گیا ؟ کیوں ان کو زراعت یا صنعت و حرفت نہیں دلائی گئی اور کیوں ان کے پیٹ بھرنے یا سدِّ رمق کے لئے زکوٰۃ و صدقات کا انتظار کیا جاتا ؟ اور جب انتہائی مجبوری کی نوبت آجاتی اور فاقوں پر فاقے پڑنے لگتے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک صحابی کو ارباب صفہ میں سے ایک ایک نفر کو کھانا کھلانے کیلئے اپنے گھر لے جانے کا اشارہ فرماتے اور خود بھی دس دس افراد کو اپنے ہمراہ لے جایا کرتے تھے ، اس لئے کہ ازواجِ مطہرات کی تعداد ۹ تھی اور دسویں آپ تھے ، اس لحاظ سے گویا طعام الواحد یکفی الاثنین کے اصول پر جو حدیثِ مرفوع میں مذکور ہے خود بیوت نبی علیہ الصلاۃ والسلام میں عمل ہوتا تھا یہ تو احادیث ِ نبویہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام کے شواہد و بینات ہیں اب ذرا قرآن کریم کا ارشاد بھی سنیے:
’’ وہ حاجت مند (تمہاری امداد و اعانت کے مستحق ہیں ) جو اللہ کی راہ میں ( کسبِ معاش سے ) روک دئیے گئے ہیں وہ( روزی حاصل کرنے کے لئے) روئے زمین میں (کہیں ) جا آنہیں سکتے ، نا واقف آدمی تو ان کے (سوال کرنے سے ) بچنے کی وجہ سے ان کو مالدار گمان کرتے ہیں (لیکن ) تم ان (کے فقرو) افلاس کو ان کے چہرہ بشرہ سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے سوال ہی نہیں کرتے (کہ پیچھے پڑیں اور ) اصرار کریں‘‘۔ ( بقرہ)
مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیتِ کریمہ انہی نفوسِ قدسیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کی زندگی کا مقصدِ وحید صرف تعلیم دین اور جہاد تھا ۔
ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس صورت حال کو قائم رکھا بلکہ اس کی تعریف و توصیف وحی متلو میں بھی فرمائی ، کیا یہ واضح و صاف دلیل اس کی نہیں ہے کہ امت میں کچھ افراد ایسے ہونے چاہئیں جن کی حیات طیبہ کلی طور پر علم و دین کے لئے وقف ہو چکی ہو اس مقدس مشغلہ کے علاوہ ان کا اور کوئی مشغلہ ہی نہ ہو … اب رہا یہ سوال کہ وہ کھائیں گے کہاں سے اور ضروریاتِ معاش پوری کیسے کریں گے ؟… تو قرآن حکیم کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل میں اس کا واضح جواب صرف یہی ملتا ہے کہ ان کی ضرورت کا تکفل اور خبر گیری امت ِ محمدیہ کے ذمہ فرض ہے وہ اپنے صدقات و خیرات اور زکوٰۃ سے ان کی خدمت کرے گی ، اسی لئے علمِ دین میں مہارت و خصوصیت فرضِ کفایہ ہے فرضِ عین نہیں کہ ہر شخص کے بس کا یہ کام نہیں ۔
حضرت بنوری قدس اللہ سرہ العزیز کی اس تحریر سے مدارسِ دینیہ کے مقاصد ، طریقہ کار اور نظام کی بھر پور وضاحت ہو گئی ہے ۔ آج اگر ’’ مدرسہ‘‘ کفار کی نظروں میں مجرم ہے اور بہت سے مخلصین بھی اُن کے پروپیگنڈہ مہم سے متاثر ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ’’مدرسہ‘‘ آج بھی اپنی بنیادوں پر کھڑا ہے اور ہر آندھی طوفان کا مقابلہ کر کے اسلام کے چراغ کو روشن رکھے ہوئے ہے ۔
’’مدرسہ‘‘ اپنی اس محنت میں اتنا کامیاب ہے کہ امت مسلمہ کو آج مجموعی طور پر کہیں حفاظِ قرآن ، علماء دین یا مفتیان شرع متین کی کمی محسوس نہیں ہوتی ۔ اگر یہ امت سائنسی اور معاشی ترقی میں پسماندہ رہ گئی ہے تو اس کا قصور وار مدرسہ نہیں‘ وہ عصری تعلیمی ادارے ہیں ، جن کیلئے سرکاری بجٹ میں اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام ہیں ۔
جہاں تک دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری یا امت میں افتراق و انتشار کا تعلق ہے تو مدرسہ نہ صرف یہ کہ ان جرائم سے بری ہے ، بلکہ یہ باتیں اس کے اساسی اور بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہیں ۔ اس بات کا اقرار قومی پریس میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور نصاب پسند دانشور بھی بار ہا کر چکے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ تمام مدارسِ دینیہ اور مکاتب ِ قرآنیہ کی حفاظت فرمائے ، ان کی محنتوں کو قبول فرمائے اور روزافزوں ترقیات سے نوازے (آمین ثم آمین)۔
٭…٭…٭