دو ہلاکت خیز جذبات
عبید اللہ خالد
انسان ہمیشہ ”اور“ چاہتا ہے۔ یہ خواہش اسے آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے پر مائل کرتی ہے۔ انسان جب مزید حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ اپنے اندر خدا کی دی گئی لامحدود صلاحیتوں اور توانائیوں کو کھوجتا اور انہیں استعمال میں لانے کی جستجو کرتا ہے۔ یہی خواہش اسے کاموں کو بہتر سے بہتر کرنے پر لگاتی ہے۔ وہ نہ صرف خود کو بہتر کرنے کی تدابیر کرتا ہے، بلکہ وہ جو کچھ کررہا ہے یا کرنا چاہ رہا ہے، اسے بھی بہتر سے بہتر بنانے کی سعی میں رہتا ہے۔
کائنات میں جو نظام خداوندی کام کررہا ہے، اس میں بہتری ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں کسی شے کو قرار نہیں ہے۔ یہاں اگرکوئی بہتر نہیں ہوتا یا آگے نہیں بڑھتا تو وہ قانونِ قدرت کے تحت پیچھے جائے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ آگے نہ بڑھیں تو وہیں رہیں جہاں آپ آج ہیں۔ آپ پیچھے جائیں گے۔
لیکن، یہی فطری عمل اگر حد سے بڑھ جائے اور اسے شیطان اچک لے جائے تو وہ مہلک اور زہر ہے۔ جب انسان اپنی اس فطری خواہش کو بے لگام کردیتا ہے تو آگے بڑھنے کی خواہش ”حرص“ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ وہ آدمی جو حرص کے پھندے میں پھنس جائے، وہ خود آگے بڑھے یا نہ بڑھے، دوسروں کو آگے بڑھتا دیکھ کر جلتا اور کڑھتا ہے۔
احیاء علوم الدین میں حضرت امام غزالی نے لکھاہے کہ شیطان دو چیزوں کے ذریعے انسان کو ہلاک کرتا ہے۔ اول، حسد۔ دوسرے، حرص۔ گہرائی میں دیکھا جائے یہ دونوں جذبات دراصل ایک ہی ہیں۔ جب حسد پیدا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے پاس موجود چیزوں سے بے چین کردیتا ہے۔ آدمی چاہتا ہے کہ وہ اسے بھی ملیں۔ یہ جذبہ بڑھتا ہے تو خود حاصل کرنے سے زیادہ بے چینی اس بات کی ہوتی ہے کہ دوسرے کیسے محروم ہوجائیں۔
آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا اخلاقی المیہ حسد اور حرص ہے۔ کتنے ہی مسلمان آپ کو اپنے ارد گرد مل جائیں گے جنہیں اس بات کی فکر اتنی نہ ہو کہ ہمیں اور کیسے ملے، مگر اس غم میں ضرور کڑھتے رہیں گے کہ میرے بھائی، میرے رشتے دار، میرے کلیگ، میرے ہمسائے کے پاس مجھ سے زائد کیوں ہے؟
غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں جتنے مظالم ہورہے ہیں، خاندانوں کی سطح پر، معاشروں کی سطح پر، اداروں کی سطح پر، ملکوں کی سطح پر، حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر․․․ ان سب کے پس منظر میں حسد اور حرص غالب ہے۔ اور جس فرد یا معاشرے میں یہ جذبات غالب ہوجاتے ہیں، وہاں امن و آشتی اور صلح و سکون ناپید ہوجاتے ہیں۔
حرص اور حسد خدا کی طے کردہ تقدیر پر راضی نہ ہونے کا نام ہے۔ اسلام حسد اور حرص کو روکتا اور خدا کی تقدیر پر راضی رہنے پر زور دیتا ہے۔ جو مسلمان اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اسے دوسروں کی پلیٹ میں موجود رزق کی فکر نہیں رہتی۔ وہ اس پر قانع ہوتا ہے جو خدا نے اسے دیا ہے۔ وہ ان صلاحیتوں پر محنت کرتا ہے جو اسے اللہ نے عطا کی ہیں۔ وہ کسی کی پلیٹ میں جھانکنے کے بجائے اپنے رزق میں برکت کی دعائیں کرتا ہے۔