ترغیب الزکوٰۃ

حضرات خوب ذہن نشین کرلیجئے زندگی میں جتنی چیزیں آپ کے ملک میں ہیں خواہ وہ سونا چاندی ہو یا ان کے زیوارات زمینیں اور ان کی کھیتی باڑی ہو یا مکانا ت عارضی طور پر ہیں ،حقیقت میں ان سب کا مالک خداتعالیٰ ہے
درحقیقت مالک ہرشے خدااست
ایں امانت چند روزہ نزدمااست
خداتعالیٰ نے ہی اپنی قدرت کاملہ سے زمین سے دانے کو اگاکر اسے بڑھایا اور ایک دانے کے سینکڑوں دانے لگائے ہیں۔
ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَz لَوْنَشَآءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنzَ (پ۲۷)
کیا تم کاشتکاری کرتے ہو یا ہم کاشت کرتے ہیں اگر ہم چاہیں تو اسے تباہ کردیں پس تم حیران پھرتے رہو۔
مینہ کون برساتا ہے ؟
جب دریاؤں میں پانی ختم ہوجاتا ہے انسان ،حیوان ،اور پرندے پانی پینے کو ترستے ہیں ۔کھیتی خشک ہونے کو آجاتی ہے ۔اس وقت آسمان کے نیچے بادل بنا کر مینہ برساکر کھیتوں کو لبالب بھر کر سبزہ زار کون بناتا ہے؟
ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنzَ (پ۲۷)
کیا تم پانی کو بادلوں سے نازل کرتے ہو یا ہم نازل کرنیوالے ہیں
ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْ تُمْ شَجَرَتَہَآاَمْ نَحْنُ الْمُنْشِءُوْنَz(پ۲۷)
کیا تم اس کے درخت اگاتے ہو یا ہم اس کی نشو ونما کرتے ہیں
وَاٰیَۃٌلَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَامِنْہَاحَبًّافَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَz وَجَعَلْنَافِیْہَاجَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّرْنَافِیْہَا مِنَ الْعُیُوْنz لِیَاْ کُلُوْامِنْ ثَمَرِہٖ وَمَاعَمِلَتْہُ اَیْدِیْہِمْ اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ z(سورہ یٰس)
اور ان کے لئے مردہ زمین دلیل ہے ہم اسے زندہ کرتے ہیں اوراس سے دانے نکالتے ہیں پس وہ اس سے کھاتے ہیں ہم نے اس میں کجھوروں اور انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور اس میں ہم نے چشمے جاری کردیئے ہیں تاکہ ان کے پھل کھائیں اوران کے ہاتھوں نے کچھ کام نہیں کیا ،کیاوہ شکرنہیں کرتے ۔
اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًامُّخْتَلِفًااَلْوَانُہٗ (الزمر)
کیا آپ نہیں دیکھتے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے پس زمین میں (پانی ) چلایا ہے پھر نکالتا ہے اس کے ذریعے کھیتیاں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں
دانہ کس طرح اگتا ہے ؟
فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖ اَنَّاصَبَبْنَاالْمَآءَ صَبًّاz ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّافَاَمنْبَتْنَافِیْہَاحَبًّاوَّعِنَبًاوَّقَضْبًاوَّزَیْتُوْنًاوَّنَخْلًا وَّحَدَآءِقَ غُلْبًاوَّفَاکِہَۃًوَّاَبًّامَّتَاعًالَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْz (عبس)
پس چاہیئے کہ انسان اپنے طعام کودیکھے بے شک ہم نے پلٹ دیا ہے پانی پلٹنا پھر چیرا ہے زمین کو چیرنا پھر اگایا ہے اس میں دانے اور انگور اور زیتون اور کجھور اور باغات اور میوے۔ نفع تمہارے لئے اور تمہارے جانوروں کے لئے
اس قدر عنایات کے باوجود جب دانہ مالک کے قبضے میں آجاتا ہے تو اب خدا وندی حکم ہوتا ہے کہ عشر اداکرو ۔اگر زمین کو کنویں سے پانی پلایا گیا ہے تو بیسواں حصہ اگر بارانی ہے تو دسواں حصہ مگرا نسان ہے کہ سب کچھ ہڑپ کرجاتا ہے اور اللہ کے لئے باقاعدہ طور پر ایک دانہ بھی نہیں دیتا اسی موقعہ کے لئے خداوند جل شانہ نے فرمایا
اِنَّالَمُغْرَمُوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ (واقعہ )
(اب کے تو ہم )پر تاوان ہی پڑگیا ۔بلکہ ہم بالکل محروم ہوگئے۔
چاہیئے تو یہ تھا کہ اگر خداتعالیٰ پورے غلے کا مطالبہ فرماتے تو بھی انسان دریغ نہ کرتا لیکن بخیل ایسا بنا ہے باقاعدہ زکوٰۃ وعشر دینے کے لئے تیار نہیں حالانکہ سخاوت ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے دنیامیں بھی انسان سرفراز رہتا ہے اور آخرت میں بھی۔

سخاوت کے متعلق حبیب کبریا ؐکے ارشادات :۔
عن ابی ھریرہ قال قال رسول ﷺ مامن یوم یصبح العباد فیہ الاملکان ینزلا ن فیقول احدہما اللہم اعط منفقاخلفاویقول الاخراللہم اعط ممسکا تلفا (مشکوٰۃ)
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،ہر صبح دوفرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے یااللہ خرچ کرنے والے کو نیک بدلہ دے اور دوسراکہتا ہے یا اللہ بخیل کو بربادی دے۔
صاحب سخاوت کے لئے حشر کے دن انعامات :۔
عن ابی سعید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما مسلم کسا مسلما علی عری کساہ اللہ تعالیٰ من خضرا لجنۃ وایما مسلم اطعم مسلما علی جوع اطعمہ اللہ من اثمار الجنۃ وایما مسلم سقی مسلما علی ظماء سقاہ اللہ من الرحیق المختوم (مشکوٰۃ )
حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑے پہناتا ہے خداتعالیٰ اسے جنت کے سرسبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو طعام کھلاتا ہے خداتعالیٰ اسے جنت کے میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلاتا ہے خداتعالیٰ اس کو رحیق مختوم سے پانی پلائے گا ۔
خداتعالیٰ کے محبوبین اور مبغوضین :۔
عن ابی ذر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلثۃ یحبہم اللہ وثلثۃ یبغضہم اللہ فاما الذین یحبہم اللہ فرجل اتی قوما فساء لہم باللہ ولم یسالہم لقرابۃ بینہ وبینہم فمنعوہ فتحلف رجل باعیانہم فاعطاہ سرالا یعلم بعطیۃالا اللہ وقوم ساروالیلتہم حتی اذاکان النوم احب الیہم مما یعدل بہ فوضعواروسہم فقال یتملقنی ویتلوا ایاتی ورجل فی سریۃ فلقی العدو فہزموا فاقبل بصدرہ حتی یقتل اویفتح لہ والثلثۃ الذین یبغضہم اللہ الشیخ الزانی والفقیرا المختال والغنی الظلوم (ترمذی شریف )
حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کوخداتعالیٰ محبوب رکھتا ہے اور تین شخصو ں کو دشمن ۔جن کو خداتعالیٰ محبو ب رکھتا ہے پس وہ وہ جوان ہے جو کسی قوم کے پاس آتا ہے اور ان سے خداکے نام پر مانگتا ہے اور وہ کسی رشتہ داری کی بنا پر نہیں مانگتا پس وہ اسے نہیں دیتے پس اس کے پیچھے ایک جوان جاتا ہے اور اسے خفیہ طور پر کچھ دے دیتا ہے جسے خدا تعالیٰ یا دینے والے کے بغیر کوئی نہیں۔ اور قوم ہے جو سار ی رات چلتے رہے حتی کہ جب ان کو نیند آنے لگی تو عبادت میں مشغول ہوگئے اور رورو کر میری آیتیں تلاوت کرنے لگے اور ایک جوان لشکر میں تھا پس ملا دشمن کو پس اس کے ساتھی بھاگ گئے اور یہ سینہ تان کردشمن کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا یا قتل ہوا یا فتح نصیب ہوگئی اور تین شخص جن پر خداتعالیٰ ناراض ہے بڑھاپے میں زنا کرنے والا فقیر اور متکبر اور مال دار ظالم۔
ان احادیث کا تقاضایہ ہے انسان جس قدر سخاوت کرے گا اس قدر بارگاہ ربوبیت میں عزت پائے گا ورنہ وہ بخیلوں کی صفوں میں شمار کیا جائے گا اور بخیلوں کے لئے خداتعالیٰ نے جو عذاب مقرر کررکھا ہے اس پر ذرا غو ر فرمالیں
ارشاد خداوندی:۔
وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَااٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرٌلَّہُمْ بَلْ ہُوَشَرٌّلَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَابَخِلُوْابِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضzِ(پ۴)
بخیل لوگ خدا کے دیئے ہوئے مال کے متعلق یہ خیال نہ کریں کہ یہ ان کے لئے اچھا ہے بلکہ وہ برا ہے ان کے لیے ان کے بخل کے باعث ان کی گردن میں قیامت کے دن طوق ڈالا جائیگا اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کا میراث ۔
صر ف گلے میں طوق ڈالنے پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ آگ میں سونے اور چاندی کو گرم کرکے پیشانی ،پہلوؤں اور پیٹھ میں داغ دیئے جائیں گے اور یہ سزا اس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک قیامت قائم نہ ہوگی ۔
پس جب تک انسان کے قلب میں تین چیزیں پیدا نہ ہوجائیں تب تک زکوٰۃ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
(۱)۔۔۔سخاوت(۲)۔۔۔ نصرت ازبخل(۳)حکم خداوندی کی تعمیل
حضورؐکافرمان ہے:۔
خصلتان لا یجتمعان فی مؤمن البخل وسوء الخلق (مشکوۃ )
دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں بخل بدخلقی
پس جو شخص زکوٰۃ دینا پسند نہیں کرتا ،اپنے متعلق فیصلہ کرلے وہ ایمان کے تقاضوں کے خلاف کررہا ہے یانہ
عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السخی قریب من اللہ قریب من الجنۃ قریب من الناس بعید من الناروالبخیل بعید من اللہ بعید من الجنۃ بعید من الناس قریب من النار۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے فرمایا رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے سخی قریب ہے خداکے ،قریب ہے بہشت سے ،قریب ہے لوگوں سے ،بعید ہے جہنم سے اور بخیل خداسے جنت سے اور لوگوں سے بعید ہے اور جہنم کے قریب ہے ۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں پر خدا کی رحمت :۔
رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُھَالِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَایُؤْمِنُوْنَz (اعراف )
اور میری رحمت ہرشے پر وسیع ہے پس قریب ہے لکھ دوں گا رحمت متقین کے لئے اور جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو لوگ میری آیات کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں
صاحب رسالت اکا اعلان :۔
عن ابی الدرداء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الزکوٰۃ قنطرۃ الاسلام
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زکوٰۃ اسلام کا پل ہے
مال کے بچاؤ کا طریقہ :۔
عن الحسنؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حصنوااموالکم باالذکوٰۃ وردوامرضاکم بالصدقۃ واستقبلوامواج البلاء بالدعا والتضرع (ترغیب)
حضرت حسنؓ سے روایت ہے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بچالو اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ساتھ اور مرضو ں کو رد کرو صدقے کے ساتھ اور بلاؤں کی موجوں کا استقبال کرو دعا اور زاری کے ساتھ
عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماخالطۃ الزکوٰۃ مالا قط الااہلکۃ
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا جس مال میں زکوٰۃ کا مال مل جاتا ہے اسے تباہ کردیتا ہے۔
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ مال سے اگر زکوٰۃ ادا کردی جائے تو بقایا مال میں خسارہ واقع نہیں ہوتا بلکہ برکت نازل ہوتی ہے اور اگر زکوٰۃ ادا نہ کی گئی تو مال کے تباہ ہوجانے کا اندیشہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ ادائے زکوٰۃ کا بہر صورت خیال رکھا جائے اور اس کے لئے فنڈ قائم کیئے جائیں ۔
بلاشبہ شرعا یتیموں ،مسکینوں ،بیوگان ،مسافروں ،کو دینا جائز ہے لیکن سب سے زیادہ مستحق مدارس اسلامیہ کے طلبہ ہیں ،اگر آپ کے صدقات وعطیات سے ان میں سے ایک بھی کامیاب ہوگیا اور اس نے جاکر ملک میں تدریسی یا تبلیغی فرائض انجام دیئے تو جتنا قدر بھی فائدہ ملک میں بڑھتا جائے گا اس قدر زکوٰۃ دینے والے کے اعمال نامے میں شب وروز ثواب لکھا جائے گا ۔
میرا اپنا واقعہ :۔
جب مجھے اسکول سے فارغ کرکے محمد پور دیوان فارسی اور عربی پڑھنے کے لئے بھیجا جارہا تھا تو اس وقت میری والدہ ماجدہ گھرکے ایک کونے میں دوپٹہ منہ پر دے کر رورہی تھیں ،حضرت والد محترم جلالی طبیعت کے تھے آپ نے فرمایا کیوں رورہی ہے ؟ایک دن ہوگا منبر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا ہزاروں کی تعداد میں پبلک موجود ہوگی ۔ انشاء اللہ یہی تیر ا بیٹا قرآن وحدیث کا وعظ سنا رہا ہوگا اور ثواب کی وجہ سے تیری قبربھی ٹھنڈی ہورہی ہوگی اور میری قبر بھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے والدین کی دعاؤ ں کا نتیجہ ہے راقم الحروف نے تعلیم کے دوران ایک ایک میل تک روٹیاں بھی لیں اور جمع کی ہوئی روٹیاں کھا کر گزارا کیا اور علم حاصل کیا۔
مجھے یقین ہے کہ آج جب پاکستان کے طول وعرض میں تبلیغ کررہا ہوں سینکڑوں کو پڑھا چکا ہوں ،یہ ثواب جہاں میرے والدین اور اساتذہ کرام کو مل رہا ہوگا وہاں ان لوگوں کو ضرور مل رہا ہوگا جن کے عطیات کا میری تعلیمی ترقی میں حصہ ہے ۔
واللہ اگر پاکستا ن کے تمام متمول اور ارباب ثروت حضرات باقاعدہ زکوٰۃ ادا کرنا شروع کردیں تو ملک میں اشاعت دین کا بہت بڑا ادارہ قائم ہوسکتا ہے پھر نہ لوگ غربت افلاس کا شکار ہوسکتے ہیں اور نہ اشتراکیت ملک میں پھیل سکتی ہے اشتراکیت کا واحد علاج زکوٰۃ کا باقاعدہ طور پر جمع کرکے اس کے مصارف سوچ کر خرچ کرنا ہے۔خدا تعالیٰ مسلمانوں کو مرض بخل سے بچائے اور سخی بنا کر زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب :۔
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍاَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلُّ سُنْبُلَۃٍمِّاءَۃُحَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌz(پ۳)
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کیئے ہوئے مالوں کی ایسی حالت ہے جیسے ایک دانہ کی حالت ،جس سے سات بالیں جمیں اور ہر بال کے اندر سودانے ہوں اوریہ خداتعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والے جاننے والے ہیں۔
یہ تو مطلقا صدقہ وخیرات کا ثواب ہے رہا ادائے زکوٰۃ اس میں بے انتہا ثواب ملے گا