متفرق مسائل

“انسان کا ضمیر مطمئن ہونا چاہئے” کسے کہتے ہیں؟

س… ایک لفظ “ضمیر” گفتگو میں کافی استعمال ہوتا ہے، اس لفظ کو مختلف طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ: “میرا ضمیر جاگ گیا ہے” بعض کو کہتے سنا ہے کہ: “فلاں آدمی کا ضمیر مرگیا ہے”، “آدمی کا ضمیر مطمئن ہونا چاہئے” ضمیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

ج… اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی ایک قوّت رکھی ہے، جس طرح ظاہری آنکھیں اگر اندھی نہ ہوں تو سیاہ و سفید کے فرق کو پہچانتی ہیں، اسی طرح دِل کی وہ قوّت، جس کو “بصیرت” کہا جاتا ہے، صحیح کام کرتی ہو تو وہ بھی نیکی اور بدی کے فرق کو پہچانتی ہے۔ اگر آدمی کوئی غلط کام کرے تو آدمی کا دِل اس کو ملامت کرتا ہے اسی کو “ضمیر” کہا جاتا ہے، لیکن جب آدمی مسلسل غلط کام کرتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کا دِل اندھا ہوجاتا ہے اور وہ نیکی و بدی کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیتا ہے، اسی کا نام “ضمیر کا مرجانا” ہے۔ جن لوگوں کا ضمیر زندہ اور قلب کی بصیرت تابندہ اور روشن ہو ان کو بعض اوقات فتویٰ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز جائز ہے، مگر ان کا ضمیر اس پر مطمئن نہیں ہوتا، اس لئے ایسے اربابِ بصیرت ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث میں فرمایا گیا ہے: “اپنے دِل سے فتویٰ پوچھو، خواہ فتویٰ دینے والے تمہیں جواز کا فتویٰ دیں”۔

س… کیا کسی معاملے میں ضمیر کا مطمئن ہونا کافی ہے جبکہ وہ کام خلافِ شرع بھی ہو؟

ج… جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی قوّت رکھی ہے، جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی نیکی اور بدی کی پہچان اور صحیح اور غلط کی شناخت کے لئے بھیجا، کیونکہ آدمی پر اکثر و بیشتر حرص، ہویٰ اور خواہشات کا غلبہ رہتا ہے، جو اس کی بصیرت کو اندھا اور اس کے ضمیر کو مردہ کردیتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے بھیجی ہوئی شریعت کو حق و باطل اور صحیح و غلط کے پہچاننے کا اصل معیار ٹھہرایا ہے، پس کسی شخص کے ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ “معیارِ شریعت” پر مطمئن ہو، اور ضمیر کے مردہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو خلافِ شرع کاموں پر تو اطمینان ہو، مگر اَحکامِ شرعی پر اطمینان نہ ہو، اس لئے جو کام خلافِ شرع ہو اس پر کسی کے ضمیر کا مطمئن ہونا کافی نہیں بلکہ یہ اس کے دِل کے اندھا اور ضمیر کے مردہ ہونے کی علامت ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: “بے شک بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دِل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔”

حرام کاری سے توبہ کس طرح کی جائے؟

س… ایک شخص ڈاکازنی اور رشوت اور حرام کام سے بڑی دولت کماتا ہے، اور اس کے بعد وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس پیسے سے وہ کاروبار شروع کرتا ہے، اب اس کا جو منافع ہوگا وہ حلال ہوگا یا کہ حرام؟ تفصیل سے بیان کریں۔

ج… ڈاکا اور رشوت کے ذریعہ جو روپیہ جمع کیا وہ تو حرام ہے اور حرام کی پیداوار بھی ویسی ہوگی۔ اس شخص کی توبہ کے سچا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو روپیہ واپس کردے جن سے ناجائز طریقے سے لے لیا ہے۔

غیرمسلم جیسی وضع قطع والی عورت کی میّت کو کس طرح پہچانیں؟

س… گزشتہ جنگ ۱۹۷۱ء جو مشرقی پاکستان میں لڑی گئی، میں بھی وہاں موجود تھا۔ سرحدی علاقوں (بھارت و بنگلہ دیش) جہاں ہندو اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی تھی، بڑی سخت لڑائی ہوئی، اس طرح وہاں کے بہت سے شہری بھی اجل کا شکار ہوئے۔ ایک جگہ ہم لوگوں کو ایک عورت کی لاش نظر آئی، ہم لوگ اس لاش کو دیکھ کر بڑے شش و پنج میں مبتلا ہوئے کہ آیا یہ لاش مسلمان عورت کی ہے یا کسی غیرمسلم کی؟ بہرحال اس وقت، وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر ہم نے اسے دریا برد کردیا، مگر آج تک یہ سوال ذہن میں بار بار آتا ہے کہ اگر وہ مسلمان عورت کی لاش تھی تو اس کی باقاعدہ تکفین و تدفین کرنی چاہئے تھی، مگر مشکل امر شناخت میں یہ ہے کہ ان سرحدی علاقوں میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا لباس، رہن سہن اتنا مماثل ہوتا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے یہ باور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ مسلمان ہے یا ہندو؟ آپ سے شرعی حیثیت سے سوال کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا حالات میں یا ایسے ہی ملتے جلتے واقعات میں عورت کی لاش کی شناخت کرنا کس طرح ممکن ہے؟

ج… جب مسلمان اپنے وجود سے اسلامی علامات کو کھرچ کھرچ کر صاف کرڈالیں اور شکل و شباہت، لباس و پوشاک تک میں غیرمسلموں سے مشابہت کرلیں تو میں شناخت کا طریقہ کیا بتاسکتا ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ہے:

“عن ابن عمر رضی الله عنھما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ․․․․ ومن تشبہ بقومٍ فھو منھم۔” (مسند احمد ج:۲ ص:۵۰)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ․․․․․ جو شخص کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انہیں میں شمار ہوگا۔”

مختلف ممالک میں شبِ قدر کی تلاش کن راتوں میں کی جائے؟

س… میں نے سنا ہے کہ شبِ قدر ۲۷ویں رات کو ہوتی ہے، اور یہ بھی کہ یہ رات طاق راتوں میں ملتی ہے۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ جب پاکستان میں طاق راتیں ہوتی ہیں تو سعودی عرب میں طاق نہیں ہوتیں، جیسے پاکستان میں ۲۷ویں رات ہے تو سعودی عرب میں ۲۸ویں رات ہوگی، اگر پاکستان کی طاق رات ہوتی ہے تو سعودی عرب کی نہیں ہوتی، اگر سعودی عرب کی طاق رات ہوتی ہے تو پاکستان کی نہیں ہوتی، جبکہ شبِ قدر پوری دُنیا میں ایک رات ہوتی ہے۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ پاکستانی راتوں کے حساب سے شبِ قدر معلوم کریں یا سعودی عرب کی طاق راتوں کے حساب سے شبِ قدر معلوم کریں؟

ج… شبِ قدر کی تلاش اس ملک کے اعتبار سے ہوگی جس ملک میں آدمی رہ رہا ہو، اگر سعودی عرب میں کوئی صاحب ہوں گے تو اسی کے اعتبار سے طاق راتوں میں شبِ قدر تلاش کرلیں گے، ستائیسویں شب کو اکثر شبِ قدر پڑتی ہے۔

تفتیش کا ظالمانہ طریقہ اور اس کی ذمہ داری

س… میں آپ سے پولیس کے یا دیگر ملکی تحقیقاتی ایجنسیوں کے طریقہٴ کار کے متعلق جو وہ ملزم یا مجرم کو تلاش کرنے میں اختیار کرتی ہیں، یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ طریقہٴ کار اسلامی شریعت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر مطابقت رکھتا ہے اور اسلام نے اس کی اجازت دی ہے تو برائے مہربانی خلافتِ راشدہ کے ادوار میں سے کوئی مثال دے کر وضاحت کریں۔

الف:… کسی علاقے میں کوئی غیرقانونی واقعہ ہوجائے مثلاً: چوری، قتل، ڈاکا وغیرہ پڑجائے اور مجرم کے متعلق کسی کو پتا نہ ہو اور تلاش بسیار کے بعد یا تلاش کی کوشش کے بغیر ہی پولیس والے اس محلے کے لوگوں کو خاص کر نوجوانوں کو شک کے الزام میں جبکہ ثبوت کوئی نہیں ہوتا، پکڑ کر لے جاتے ہیں، اس نے جرم بھی نہیں کیا ہوتا، اس پر انتہا درجے کا جسمانی و نفسیاتی تشدّد کرتے ہیں اور اس ملزم سے جھوٹے حلفیہ بیان پر دستخط کرواتے اور اسے مجرم ثابت کرکے سزا بھی دِلوا دیتے ہیں یا پھر رشوت کی بھاری رقم لے کر بے گناہ شخص کو گھر جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

ب:… پولیس میں ایک ادارہ ہے جسے ٹرائل رُوم یا ڈرائنگ رُوم بھی کہتے ہیں، جہاں کے ملازم یا ارکان تشدّد کرنے میں حصہ لیتے ہیں جس میں بے گناہ اور گناہگار دونوں ہی شامل ہیں، تو ایسے لوگوں کی تنخواہ اور آخرت کے بارے میں بھی بتائیں، خاص کر بے گناہ پر ظلم کرنے والے؟

ج:… تشدّد کرنے والے ارکان یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب! ہمیں کچھ پتا نہیں ہوتا، نہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم بے گناہ اور گناہگار کو دیکھیں، کیونکہ کوئی بھی مجرم پہلے اقرار نہیں کرتا، اس طرح تو مجرم بھی بچ جائیں گے۔ لہٰذا میرے پوچھنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ کیسے بے گناہ شخص کو ظلم و تشدّد کا شکار ہونے سے بچایا جائے اور مجرم کو کیفرِ کردار تک بھی پہنچایا جائے؟ کیونکہ تفتیش کرنے والا کوئی اور شخص ہوتا ہے۔

اگر مندرجہ بالا تمام اعمال غیراسلامی ہیں تو برائے مہربانی اس دِینِ اسلام جس کے معنی ہی بے گناہ شخص پر سلامتی اور تحفظ ہے۔ اور شک کی بنیاد پر ظلم و تشدّد سے گریز کا طریقہٴ تفتیش بیان کریں جس سے مجرمین کو واصلِ جہنم کیا جاسکے۔ اگر اسلام میں اس کے بارے میں کوئی طریقہٴ کار تفصیلاً وضاحت کے ساتھ نہیں تو آپ برائے مہربانی اِجتہاد سے کام لے کر اسلامی طریقہٴ تفتیش برائے تلاشِ مجرمین کے تفصیل کے ساتھ رہنما اُصول بیان کرکے ہم ملازمین پولیس کے ضمیر کو مطمئن کریں کیونکہ ہمیں تو ملزمان کو لاکر دیا جاتا ہے اور ہمارا کام تشدّد کرکے حلفیہ بیان لینا ہوتا ہے تو پھر اسی شخص کو عدالتِ عالیہ سے بَری کردیا جاتا ہے، تو ایسے موقع پر ہمارے دِل پر کیا گزرتی ہے؟ یہ کوئی ہم ہی سے پوچھے۔ برائے مہربانی پورا خط شائع کرکے اور سوالوں کے تسلی بخش اور قطعی جواب دے کر مطمئن کریں۔

ج… ہمارے یہاں عدالتی اور تفتیشی نظام سارے کا سارا وہ ہے جو انگریز سے ورثے میں ملا ہے، جس کی بنیاد ہی ظلم اور رشوت ستانی پر رکھی گئی ہے، اور جس میں خوفِ خدا اور محاسبہٴ آخرت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی (اِلَّا ماشاء اللہ) جب تک یہ پورا نظام تبدیل نہیں ہوتا، محض چند مشوروں کی پیوندکاری سے اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ سب تو خیر ایک جیسے نہیں ہوتے، مگر مجرموں سے رشوت لے کر بچانا اور بے گناہوں کو دھرلینا ہماری پولیس کا خاص “فن” ہے۔

زبردستی اعترافِ جرم کرانا اور مجرم کو طہارت و نماز سے محروم رکھنا

س۱:… شواہد و براہین کے حصول کی کوشش اور کاوش کے بغیر تشدّد سے اعترافِ جرم کرانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

س۲:… ملزم کو نماز، طہارت اور واجب غسل سے محروم رکھنے کا گناہ کس کے ذمہ ہوتا ہے؟ اور اس کی کیا سزا ہے؟

س۳:… کیا فرائض کی ادائیگی کے لئے جھوٹ اور غلط بیانی کو وتیرہ بنالینا شرعاً دُرست ہے یا نادُرست؟

ج۱:… قرائن و شواہد کے بغیر بذریعہ تشدّد اقبالِ جرم کرانا جائز نہیں، اور ایسا اعتراف شرعاً کالعدم ہے۔

ج۲:… گناہ محروم رکھنے والوں کے ذمہ ہے، اور اس کی سزا ہے دُنیا میں دِل کا سیاہ پتھر ہوجانا اور آخرت میں فرائض سے روکنے کی سزا۔

ج۳:… میں سوال کا مطلب نہیں سمجھا، جھوٹ اور غلط بیانی کو دُرست کون کہہ سکتا ہے؟ اور وہ کون سے فرائض ہیں جن میں جھوٹ اور غلط بیانی کو وتیرہ بنانا دُرست سمجھا جائے․․․؟

بُرے کام پر لگانے کا عذاب

س… اگر کسی شخص کو اچھے کام پر لگادیا جائے تو جب تک وہ شخص اس کام کو سرانجام دیتا رہے گا، کام پر لگانے والے شخص کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو بُرائی کا راستہ دِکھائے تو کیا وہ بھی گناہ کا مستحق رہے گا چاہے اس کا اس شخص سے دوبارہ رابطہ نہ ہو؟ اگر ایسا ہوگا تو اس گناہ سے چھٹکارا پانے کے لئے کیا طریقہٴ کار اختیار کیا جائے جبکہ گناہ کا فعل انجام دینے والوں سے کوئی رابطہ بھی نہ ہو؟ جواب جلد دے کر ذہنی اذیت سے نجات دِلائیں۔

ج… حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص نے کسی اچھائی کی بات کو رواج دیا، اس کو اپنے اس عمل کا بھی اجر ملے گا اور جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا بھی ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اور جس شخص نے کسی بُرائی کو رواج دیا، اس کو اپنی بدعملی کا بھی گناہ ہوگا اور جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ میں کمی نہیں ہوگی۔ ایک حدیث میں ہے کہ دُنیا میں جتنے ناحق قتل ہوتے ہیں، ہر ایک قتلِ بے گناہ کا ایک حصہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کے نام بھی لکھا جاتا ہے، کیونکہ وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے خونِ ناحق کی رسمِ بد جاری کی۔

اب جس شخص کی وجہ سے کوئی شخص بُرائی کے راستے پر لگا اور اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی تو اس شخص کو چاہئے کہ جن جن لوگوں کو بُرائی پر لگایا ان کو اس بُرائی سے نکالنے کی کوشش کرے، اور اگر ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ و اِستغفار کرے، اور ان لوگوں کے لئے بھی دُعا و اِستغفار کرے۔ نیز اس کے تدارک کے لئے نیکیوں کو پھیلانے کی کوشش میں لگا رہے، اِن شاء اللہ اس کا یہ گناہ معاف ہوجائے گا۔

انسان اور جانور میں فرق

س… جناب! ہمارے ایک جاننے والے صاحب کا کہنا ہے کہ عورت اور مرد آپس میں ہلکے پھلکے انداز میں جسمانی تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تمام حرکات قدرتی ہیں، جس کو کہ وہ نیچرل کا نام دیتے ہیں، ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بدکاری اور زنا کے متعلق ارشاد فرمایا ہے، جبکہ کسی اور جگہ یا کسی اور کتاب میں یعنی حدیث شریف میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ موصوف کے مطابق تمام جانور جن میں انسان بھی شامل ہیں، آپس میں مل کر رہتے ہیں اور ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں، انسانوں میں شامل عورت اور مرد بھی ساتھ اُٹھ بیٹھ سکتے ہیں اور ایک خاص حد تک تعلق قائم رکھ سکتے ہیں۔ میری ان سے سرسری سی بات ہوئی تھی مگر میں ان کو بہتر جواب نہ دے سکی، کیونکہ شرم و حیا کی وجہ سے میرا سمجھانا ان کو مشکل تھا۔

ج… نامحرَم مرد اور عورت کا آپس میں ملنا، سلام و دُعا کرنا اور ایک دُوسرے کو مس کرنا اسلام کی رُو سے جائز نہیں۔ بدکاری اور فحاشی (زنا) کا ناجائز ہونا تو شاید ان نوجوانوں کو بھی مسلّم ہو، اب اگر نوجوانوں کو خلافِ جنس کے ساتھ اختلاط کی مکمل چھٹی دے دی جائے اور معاشرتی اقدار یا قانون ان کے “حیوانی اختلاط” کے درمیان حائل نہ ہو تو اس آزادانہ اختلاط کا نتیجہ سوائے بدکاری کے اور کیا نکلے گا․․․؟ اور اہلِ عقل کا قاعدہ ہے کہ جب کسی بُرائی سے منع کیا جاتا ہے تو اس کے اسباب کا بھی سدِ باب کیا جاتا ہے۔ زنا، چونکہ شریعت کی نظر میں بدترین بُرائی ہے اس لئے شریعت نے اس کے تمام اسباب پر بھی پابندی عائد کردی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی مروی ہے:

“عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: فزنا العین النظر وزنا اللسان المنطق والنفس تمنی وتشتھی والفرج یصدق ذٰلک ویکذبہ۔ متفق علیہ۔” (مشکوٰة ص:۲۰)

ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھوں کا زنا نامحرَم کو دیکھنا ہے، کانوں کا زنا باتیں سننا ہے، زبان کا زنا باتیں کرنا ہے، دِل کا زنا نفسانی خواہش ہے اور شرم گاہ ان تمام کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب کردیتی ہے۔” (صحیح بخاری ومسلم)

اب یہ دیکھئے کہ انسان اور جانور کے درمیان کیا فرق ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں میں خواہشات تو موجود ہیں مگر یہ خواہشات حدود و قیود کی پابند نہیں، کیونکہ وہ عقل کے جوہر سے محروم ہیں اور اتنا شعور ہی نہیں رکھتے کہ کھانے پینے کی خواہش پوری کرنے کے لئے جائز و ناجائز یا اپنے اور پرائے کی تمیز بھی کرنی چاہئے، اسی طرح جنسی اختلاط میں ماں، بہن اور بہو بیٹی کے درمیان امتیاز کرنے کی ضرورت ہے، نہ انہیں یہ شعور ہے کہ تقاضائے شرم و حیا کی بنا پر سترپوشی کے تکلف کی بھی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اہلِ عقل کو اَحکام کا مکلف کیا ہے، جانوروں کو، یا جو انسان کہ عقل سے محروم، دیوانے اور پاگل ہوں وہ شرعی اَحکام کے مکلف نہیں، خدا نہ کرے کہ علم و عقل اور فہم و دانش رکھنے کے باوجود انسان حیوانوں کی سطح پر اُتر آئیں، اور جانوروں کی بہیمانہ حرکات کو جو عقل کی قید سے خارج ہیں، تقاضائے فطرت قرار دے کر ان پر رشک کرنے لگیں، یا جانوروں کی ریس کرنے لگیں۔

بہت سی قباحتوں اور بُرائیوں کا ادراک تو انسانی عقل کرلیتی ہے، لیکن بہت سی بُرائیاں ایسی ہیں جن کے مشاہدے سے عقلِ انسانی بھی قاصر رہتی ہے، ایسی بُرائیوں کے جراثیم دیکھنے کے لئے “وحیٴ الٰہی” کی خوردبین درکار ہے، اس لئے داناوٴں کا کہنا یہ ہے کہ انسان کی طبعی خواہشات عقل کے تابع ہونی چاہئیں تاکہ انسان اور جانور میں فرق کیا جاسکے، اور انسان کی عقلی خواہشات “وحیٴ الٰہی” کے تابع ہونی چاہئیں تاکہ حقیقی انسان اور انسان نما جانور کے درمیان امتیاز کیا جاسکے۔

خلاصہ یہ کہ انسان کی فطری خواہشات برحق، مگر خالقِ فطرت نے ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کچھ قواعد و ضوابط مقرّر فرمائے ہیں، پس اگر اس انسانی مشین کا استعمال اس کے خالق کے بتائے ہوئے اُصول و قواعد کے مطابق کیا جائے گا تو یہ مشین صحیح کام کرے گی اور اگر ان اُصول و قواعد کی پروا نہ کی گئی تو انسان، انسان نہیں رہے گا، بلکہ انسان نما جانور بن جائے گا۔

“دار الاسلام” کی تعریف

س۱:… “دار الاسلام” کی تعریف کیا ہے؟

س۲:… پھر دار الاسلام کا حکمران یعنی مملکت دار الاسلام کا سربراہ کون ہوتا ہے مسلم یا غیرمسلم بھی؟

س۳:… اگر معاذ اللہ کوئی اسلام کی توہین کرے تو اس کو پوری مملکت دار الاسلام کے علماء سنبھالیں گے یا صرف ایک ہی مولوی فتویٰ مار دے گا، یعنی پوری مملکت دار الاسلام کے علماء کے ذمہ ہوگا یا صرف اور صرف ایک ہی مولوی اس گستاخ پر فتویٰ مارے گا، پھر وہ صرف یہاں ہی بس نہیں کرے گا تو حرمین تک جائے گا فتویٰ مروانے؟ پھر وہ مولوی بغیر گواہوں کے ہی فتویٰ ٹھوک دے گا یا گواہوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟

س۴:… مملکت دار الاسلام کے اندر اس کے حکمران کے خلاف کوئی عوامی تحریک اُٹھ کر جھنڈا لہرائے تو کیا جائز ہوگا یا حرام؟

ج۱:… جس ملک میں اسلام کے اَحکام جاری ہوں وہ “دار الاسلام” ہے، اور جہاں اسلام کے اَحکام جاری نہ ہوں وہ مسلمانوں کا ملک تو ہوسکتا ہے مگر شرعاً “دارالاسلام” نہیں۔

ج۲:… دار الاسلام کا حکمران مسلمان ہوسکتا ہے، غیرمسلم نہیں۔

ج۳:… اسلام کی توہین کرنے والا مسلمان نہیں، مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ اس کو معزول کرکے کسی مسلمان کو اس کی جگہ مقرّر کریں۔

باقی اُمور سیاسی ہیں، شرعی حکم میں نے ذکر کردیا، سیاسی اُمور پر گفتگو میرا موضوع نہیں۔

کیا اقراری مجرم کو دُنیاوی سزا پاک کردیتی ہے؟

س… اگر کوئی ملزم یا مجرم اپنے جرم کا اقرار کرلیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے اس کے جرم کی سزا ملتی ہے تو کیا اس صورت میں مذکورہ ملزم یا مجرم کے اس گناہ کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے کہ جس کے اقرار کے نتیجے میں اسے سزا دی گئی؟ نیز کیا روزِ محشر ایسا فرد اپنے اس جرم کی سزا سے بری الذمہ قرار پائے گا؟

ج… اگر توبہ کرلے تو آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی، ورنہ نہیں۔

س… اگر کسی شخص کو بے گناہ اور بے جرم سزاوار قرار دیا گیا ہو تو روزِ محشر اس کی جوابدہی کس کس فرد پر ہوگی؟

ج… وہ تمام لوگ جو اس بے قصور کو سزا دِلانے میں شریک ہوئے۔

کیا مسلمان کا قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا؟

س… روزنامہ “جنگ” موٴرخہ ۱۹/۲/۱۹۸۸ء کے اسلامی صفحہ پر قاری محمد ایوب صاحب کا ایک مضمون بنام “مسلمان کا قاتل اللہ (جل جلالہ) کی رحمت سے محروم” چھپا ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ اس کے ثبوت میں ایک آیت مبارکہ کا ترجمہ بھی دیا ہے: “اور جو کوئی کسی موٴمن کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا” اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بھی تحریر ہے: “جس نے موٴمن کو قصداً قتل کیا، اس کی توبہ قبول ہی نہیں” اسی طرح کسی شخص نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اگر قاتل توبہ کرلے اور پھر نیک عمل کرنے لگے اور ہدایت پر جم جائے تو؟ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا: اس کی ماں اسے روئے، اسے توبہ و ہدایت کہاں؟ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اُتری۔ اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی اُتری۔ مندرجہ بالا آیت اور روایت کی روشنی میں آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ ہم یہ ہی سنتے آئے ہیں کہ اللہ جل جلالہ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے شرک و کفر کیا ہوگا اور سب کی بخشش فرمادے گا، یہ بھی سنا ہے کہ موحد ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا، یہ بھی سنا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے کسی شخص نے ۹۹ قتل کئے تھے، وہ توبہ کرنے چلا تو دو قتل اور کر ڈالے، پھر کسی کے مشورے پر وہ توبہ کرنے جارہا تھا کہ راستے میں ہی اسے موت نے آلیا، مگر چونکہ وہ توبہ کا ارادہ لے کر گھر سے نکلا تھا اس لئے اللہ جل جلالہ نے اس شخص کی مغفرت فرمادی۔ اب اگر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ قبول نہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ اور قاری محمد ایوب صاحب نے سورہٴ نساء کی آیت نمبر۹۳ کا جو حوالہ دیا ہے، اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ اب آپ سے جواب اس بات کا چاہئے کہ آیا قاتل کی بخشش ہے یا نہیں؟

ج… اگر قاتل سچی توبہ کرلے اور مقتول کے وارثوں سے بھی معاف کرالے اور اگر وہ معاف نہ کریں تو بلا حیل و حجت اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش کردے تو اِن شاء اللہ اس کی بھی بخشش ہوجائے گی۔ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس سے توبہ نہ ہوسکے، اور کفر و شرک کے علاوہ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کی سزا دائمی جہنم ہو۔ آپ نے جو آیت نقل کی ہے اس کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ قاتل کی اصل سزا تو دائمی جہنم تھی، مگر ایمان کی برکت سے اسے یہ سزا نہیں دی جائے گی۔ نیز یہ سزا اس شخص کی ہے جو موٴمن کو اس کے ایمان کی وجہ سے قتل کرے، ایسا شخص واقعی دائمی سزائے جہنم کا مستحق ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا مشہور فتویٰ تو وہی ہے جو سوال پر نقل کیا گیا ہے، مگر بعض روایات میں ہے کہ وہ بھی قبولِ توبہ کے قائل تھے۔ دراصل کسی موٴمن کا قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے بعد توبہ کی توفیق بھی مشکل ہی سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس وبال سے محفوظ رکھیں، آمین!

اعمال میں میانہ روی سے کیا مراد ہے؟

س… ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “میانہ روی اختیار کرو اپنے اعمال میں” اس کی مختصر وضاحت فرمادیں۔

ج… اس کا مطلب یہ ہے کہ فرائض و واجبات اور سننِ موٴکدہ کے علاوہ آدمی کو نوافل اور اذکار و وظائف کی اتنی مقدار کا معمول رکھنا چاہئے جس کی آسانی سے پابندی کرسکے اور جس سے اُکتا نہ جائے، بلکہ جو معمول شروع کرے حتی الوسع اس کو ہمیشہ نبھائے۔ بعض لوگ جوش میں آکر اپنے ذمہ زیادہ بوجھ ڈال لیتے ہیں اور جب وہ نبھتا نہیں تو اُکتاکر چھوڑ دیتے ہیں۔

ایک قیدی کے نام

س… (سوال حذف کردیا گیا)۔

ج… آپ کا خط آپ کی اہلیہ کے ذریعہ پہنچا، آپ کے حالات و معمولات سے اطلاع ہوئی، بارگاہِ رَبّ العزّت میں دُعا و اِلتجا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے لطف و کرم سے آپ کی رہائی کی صورتیں پیدا فرمادیں۔ چند ضروری باتیں لکھتا ہوں ان کو غور اور توجہ سے پڑھیں:

اوّل:… حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے بندے کو آزمائشیں آتی ہیں، کبھی خوشی اور مسرّت کی شکل میں، کبھی رنج و غم اور آفات و مصائب کی شکل میں، پہلی حالت میں شکر بجا لانا اور دُوسری حالت میں صبر و رضا اور دُعا و اِلتجا سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رُجوع کرنا بندے کا فرض ہے، حوصلہ اور ہمت نہیں ہارنی چاہئے، بلکہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنی کوتاہیوں پر اِستغفار کرتے ہوئے اور رضائے مولا کے مضمون کو اپنے دِل میں پختہ کرتے ہوئے اس وقت کو گزارنا چاہئے۔

دوم:… جیل کا ماحول اکثر غیراخلاقی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے دِین و اخلاق کو بگاڑ کر وہاں سے نکلتے ہیں، آپ کو اس ماحول سے متأثر نہیں ہونا چاہئے، بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرصت کا موقع عطا فرمایا ہے، اس لئے آپ نمازِ پنج گانہ کا اہتمام کریں، قرآنِ کریم کی تلاوت کریں، جو معمولات آپ نے لکھے ہیں وہ صحیح ہیں، ان کی پابندی کریں، ان کے علاوہ فرصت کے جو لمحات بھی میسر آئیں ان میں کلمہ طیبہ “لَآ اِلٰہَ اِلَّا الله” کو وِردِ زبان رکھیں، “بہشتی زیور”، حضرتِ شیخ کے فضائلِ اعمال اور اکابر کے مواعظ کا مطالعہ جاری رکھیں۔

سوم:… جہاں تک ممکن ہو، جیل کے عملے سے بھی اور قیدیوں سے بھی اخلاق و مروّت کے ساتھ پیش آئیں، اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں، کسی کی طرف سے کوئی رنج پہنچے تو اس کو معاف کردیں، بُری صحبت سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں، قید کے ساتھیوں کو بھی نماز کی اور خیر کے کاموں کی ترغیب دیا کریں۔

چہارم:… پانچوں نمازوں کے بعد بہت توجہ کے ساتھ اپنے لئے خیر اور بھلائی کی اور قید سے رہائی کی دُعا کیا کریں، اگر ہوسکے تو تہجد کے لئے بھی اُٹھا کریں، الغرض! دُعا و اِلتجا کا خاص اہتمام کریں۔

پنجم:… جیل میں آدمی کی آزادی سلب ہوجاتی ہے، اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے دُنیا کی زندگی بھی ایک طرح کا جیل خانہ ہے، کہ ہر قدم پر اسے مالک کے حکم کی پابندی لازم ہے، لہٰذا جیل کی زندگی سے دُنیا میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہئے۔

ششم:… جیل زندوں کی قبر ہے، اس لئے یہاں رہتے ہوئے قبر کی تنہائی، بے بسی و بے کسی اور وہاں کے سوال و جواب کو یاد کرنا چاہئے اور اپنی زندگی میں جتنی کوتاہیاں اور لغزشیں ہوئی ہوں ان پر ندامت کے ساتھ اِستغفار کرنا چاہئے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات کو آسان فرمائیں، آپ کو اپنی رضا و محبت نصیب فرمائیں اور آپ کو رہائی عطا فرمائیں۔

سچی شہادت کو نہیں چھپانا چاہئے

س… ایک آدمی دیکھ رہا ہو کہ کسی بندے کو قتل کرنے والا صرف ایک شخص ہے اور اس کے ساتھ دُوسرا بندہ موجود بھی نہ ہو اور مقتول پارٹی کسی بے گناہ شخص کو قتل کے کیس میں پھنسادے جو اس وقت شہر میں بھی موجود نہ ہو اور اس سے یہ منسوب کرے کہ ایک فائر اس شخص نے کیا اور دُوسرا، دُوسرے شخص نے، اس معاملے میں وہ شخص جو وہاں پر موجود تھا اور دیکھ رہا تھا کہ قتل کرنے والا صرف ایک شخص ہے اور فائر بھی ایک ہوا ہے، کیا خدا کے ہاں مجرم ہے اگر وہ گواہی دینے سے انکار کردے کہ میں گواہی نہیں دیتا؟ اگر وہ صاف کہہ دے کہ قاتل ایک شخص ہے تو بے گناہ شخص نجات پاسکتا ہے، اس بارے میں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟ قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے ؟

ج… قرآنِ کریم میں ارشاد ہے :

“وَلَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ اٰثِمٌ قَلْبہ”

(البقرة:۲۸۳)

ترجمہ:… “اور شہادت کو نہ چھپاوٴ، اور جو شخص اس کو چھپائے اس کا دِل گناہگار ہے۔”

یہ آیتِ کریمہ آپ کے سوال کا جواب ہے۔

پیٹ کے بل سونا

س… پیٹ کے بل سونے سے متعلق میں نے ایک ڈائجسٹ میں پڑھا تھا کہ آدمی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں؟

ج… پیٹ کے بل سونا مکروہ ہے، اور حدیث میں اس کو شیطان کے انداز کا لیٹنا فرمایا ہے، نفسیاتی مرض کا مجھے علم نہیں۔

پاخانے میں تھوکنا

س… میں نے سنا ہے کہ پاخانے میں تھوکنا منع ہے، کیا یہ صحیح ہے؟

ج… خلافِ ادب ہے۔

جب ہر طرف بُرائی پر برانگیختہ کرنے والا لٹریچر عام ہو اور عورتیں بنی سنوری پھریں تو کیا زنا کی سزا جاری ہوگی؟

س… چند روز قبل راقم الحروف بس میں سفر کر رہا تھا کہ میری اگلی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے چند مولوی صاحبان مندرجہ ذیل قسم کی بحث کر رہے تھے، ان کی اس بحث کو میں ایک سوال کی صورت میں تحریر کرکے آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں تاکہ یہ پتا چل سکے کہ ان مولوی صاحبان کی اس بحث میں کہاں تک حقیقت کا عنصر شامل ہے؟ ان مولوی صاحبان کے بقول کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ فواحش کی اشاعت اسی طرح جاری رہے، ہیجان انگیز فلمیں، عریاں تصاویر، (واضح ہو کہ عالمی حسیناوٴں و دوشیزاوٴں کی عریاں تصاویر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خاص خاص دُکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں، نیز پاکستان کے بعض اخبارات میں بھی بعض اوقات ان عالمی حسیناوٴں و دوشیزاوٴں کی نیم عریاں تصاویر چھپتی رہتی ہیں) اخلاق کش لٹریچر اسی طرح سفلی جذبات کو اُکساتے ہیں، (واضح رہے کہ یہ اخلاق کش لٹریچر اور جنس کو تحریک دینے والا فحش مواد مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں مختلف رسالوں، ڈائجسٹوں اور ناولوں وغیرہ کی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔ نیز سرِ عام فروخت ہو رہا ہے، اور یہ عناصر قوم کی قوم کو فحاشی کے افیون میں بدمست کئے جارہے ہیں، نیز یہ بلیو پرنٹ، عالمی حسیناوٴں و دوشیزاوٴں کی عریاں و نیم عریاں تصاویر، یہ اخلاق کش لٹریچر، یہ فحش فلمی اشتہارات قوم کے اخلاق کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں)۔ کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ بنی سنوری عورتیں اسی طرح برسرِ عام پھرتی رہیں، کالجوں، دفتروں اور کلبوں اور دُوسرے بہت سے مقامات پر اختلاطِ مرد و زن اسی طرح جاری رہے، عورتیں اور جوان لڑکیاں اسی طرح نیم عریاں اور چست لباس پہن کر دن رات ہوٹلوں میں، سینماوٴں میں، بازاروں میں، تھیٹروں میں، پارکوں میں، راستوں میں اور گلی کوچوں میں سر برہنہ، سینہ عریاں، ننگی باہیں نکالے ہوئے چہرہ بے نقاب کئے، رُخساروں پر پوڈر اور سرخی تھوپے اور مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مارے مارے پھرتی نظر آتی ہیں۔

ج… یہ ساری باتیں حرام ہیں اور ان کا بند کرنا ضروری ہے۔ اسلام ان کی اجازت دینا نہیں چاہتا، لیکن زنا کی سزا بہرحال جاری ہوگی، محض اس وجہ سے کہ ہر جگہ بے حیائی کا دور دورہ ہے، کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام کاری کے ارتکاب میں معذور نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ان مولوی صاحبان کا نظریہ صحیح نہیں۔

کیا نابالغ بچوں کو شعور آنے تک نماز کا نہ کہا جائے؟

س… بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا ہے، مگر کچھ لوگ اپنے نابالغ بچوں کو نماز کی تلقین اس لئے نہیں کرتے کہ بچے دِل سے نماز نہیں پڑھتے تو زبردستی کی رگڑ رگڑائی کروانے سے کیا فائدہ؟ خود ہی جب شعور ہوگا تو پڑھنے لگ جائیں گے، کیا ایسا کہنا دُرست ہے؟ جبکہ وہ خود نماز پابندی سے پڑھتے ہیں۔

ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی تو سنا ہی ہوگا کہ: “اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان سے مار کر نماز پڑھاوٴ جب وہ دس سال کے ہوجائیں۔” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رگڑ رگڑائی کا بھی نفع ہے کہ اس سے بچے عادی ہوجائیں گے۔ اور جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ: “جب ان کو شعور ہوگا تو خود ہی پڑھیں گے” ان کی یہ بات کئی وجہ سے غلط ہے:

اوّل:… یہ ارشادِ نبوی کا خلاف ہے۔

دوم:… دُنیوی کاموں اور تعلیم میں یہ لوگ خود بھی بچوں کو آزاد نہیں چھوڑتے کہ جب ان کو شعور ہوگا تو خود ہی پڑھنے لگیں گے، معلوم ہوا کہ ان کا یہ قول دِین سے لاپروائی کا نتیجہ ہے۔

سوم:… جب بچوں کو شعور سے پہلے نماز کا پابند نہیں بنایا جائے گا تو وہ شعور کے بعد بھی پابندی نہیں کریں گے۔

چہارم:… بچے تو شعور کے بعد پابند ہوں یا نہ ہوں، مگر والدین تو اپنے فرض میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوں گے۔

کیا کرایہ دار کے اعمالِ بد کا مالکِ مکان ذمہ دار ہے؟

س… میرے مکان میں ایک کرایہ دار آیا ہے، وہ گھر میں ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈر وغیرہ چلاتا ہے، میں نے اسے منع بھی کیا ہے مگر وہ پھر بھی چلاتا ہے، اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ اس کے ان کاموں سے میں گناہگار تو نہیں ہوتا؟

ج… اس کے ٹی وی اور ٹیپ چلانے سے تو آپ گناہگار نہیں ہوں گے، لیکن آپ کسی ایسے آدمی کو مکان دیں جو اِن خرافات سے بچا ہوا ہو۔

اگر قسمت میں لکھا ملتا ہے تو محنت کی کیا ضرورت ہے؟

س… میرا دوست کہتا ہے کہ آدمی کی قسمت اچھی ہو تو بغیر محنت کئے بھی اچھا کمالیتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ کمائی اس کے نصیب میں تھی اور اس کی قسمت اچھی تھی۔ میرا کہنا ہے کہ آدمی محنت کرے اور قسمت ساتھ دے تو کام بنتا ہے، بغیر محنت کئے قسمت اچھی نہیں ہوسکتی۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ایک آدمی پورا دن محنت کرتا ہے اور دُوسرا آدمی ایک گھنٹے میں اتنے پیسے کمالیتا ہے۔ براہِ مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں کہ ہم دونوں میں سے کس کا نقطہٴ نظر ٹھیک ہے؟

ج… یہ تو صحیح ہے کہ جو قسمت میں لکھا ہو وہی ملتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ملتا۔ لیکن حلال روزی کے لئے محنت ضرور کرنی چاہئے، قسمت کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اور حلال روزی کے لئے شرعی فرائض کی پابندی ضروری ہے۔

جنس کی تبدیلی کے بعد شرعی اَحکام

س… جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی مشابہت اختیار کرنا سخت گناہ ہے، مگر آج کل جو جنسی تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوا ہے شریعت کی رُو سے کہاں تک صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو وہ مرد جو جنسی تبدیلی کے بعد عورت میں تبدیل ہوگئے ان کا انجام کل قیامت کو کیا ہوگا؟ وہ جنت میں مرد کی حیثیت سے داخل ہوں گے یا عورت کی؟ اور اس مرد سے پیدا ہونے والی اولاد کا کیا انجام ہوگا؟ اُمید ہے اس مسئلے کی وضاحت فرماکر اُمتِ مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں گے۔

ج… جنسی تبدیلی اگر حقیقتِ واقعہ ہے تو اس کا مشابہت کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ جنس تبدیل ہونے کے بعد وہ جس صنف میں شامل ہوا ہے اسی صنف کے اَحکام اس پر جاری ہوں گے۔ اگر لڑکی کی جنس تبدیل ہوگئی اور وہ واقعتا لڑکا بن گئی تو اس پر مردوں کے اَحکام جاری ہوں گے، اور اگر لڑکا تبدیلیٴ جنس کے بعد سچ مچ لڑکی بن گیا تو اس پر اس تبدیلی کے بعد لڑکیوں کے اَحکام جاری ہوں گے۔ مشابہت جو ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ مرد، مرد ہوتے ہوئے عورتوں کی مشابہت کرے، یا عورت، عورت ہوتے ہوئے مردانہ پن اختیار کرے، اس پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔

کچھ پڑھ کر ہاتھ سے پتھری وغیرہ نکالنا

س… آج کل فلپائن میں ایک غیرمسلم عورت کے متعلق مشہور ہو رہا ہے کہ وہ رُوحانی طریقوں سے جسمانی امراض مثلاً: گردے کی پتھری نکالنا، پیٹ میں سے رسولی نکالنا، آنکھ سے موتیا بند نکالنا وغیرہ کا علاج کرتی ہے، اور لوگ اس سے علاج کراکر آرہے ہیں۔ طریقہ اس طرح ہے کہ اپنے ہاتھ پر کچھ پڑھ کر اپنا ہاتھ متأثرہ جگہ پر چلایا، خون پیپ وغیرہ بلا کسی تکلیف کے نکلتا دِکھائی بھی دیا اور چند منٹ میں گردے کی پتھری اپنے ہاتھ سے نکال دی۔ دوبارہ ہاتھ پھیرا تو زخم وغیرہ سب ٹھیک ہوگئے۔ کیا اس طرح مسلمانوں کا علاج کرانا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس طریقہٴ علاج کی کیا حقیقت ہے اس کے متعلق آپ کچھ بتلاسکیں گے؟ کیونکہ سائنس کی روشنی میں تو اس کی نظربندی یا شعبدہ بازی کے علاوہ کوئی اور توجیہ نہیں کی جاسکتی۔

ج… یہ مسمریزم کی مشقیں ہوتی ہیں، رُوحانیت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ علاج جائز ہے، والله اعلم!

تقلید کی تعریف و اَحکام

س… تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ: تقلید کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا قول مأخذِ شریعت میں سے نہیں ہے اس کے قول پر دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کرلینا۔ اہلِ حدیث حضرات اس عمل کو سخت گناہ کی بات تصوّر کرتے ہیں، لیکن مجھے اس ہی قول کو سمجھنا ہے، مگر پہلے جو میں سمجھا ہوں ظاہر کرنے کی سعی کرتا ہوں تاکہ بعد میں آپ کی بات آسانی سے سمجھ سکوں۔

شریعت کا مأخذ اَدِلہٴ شرعیہ ہیں، کسی مجتہد کا کوئی قول ہو اور وہ قول اَدِلہٴ شرعیہ کے تحت کسی نہ کسی دلیل کے تحت ہو، یہ بات کیا تقلید میں داخل ہے؟ شاید جہاں تک میں سمجھا ہوں ایسا قول تسلیم کرنا اہلِ حدیث کے نزدیک تقلید نہیں، کیونکہ وہ قول تو اَدِلہٴ شرعیہ سے ثابت ہے۔

نمبر۲:… میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اہلِ حدیث یہاں ایک غلطی کرجاتے ہیں، وہ یہ کہ مجتہد کے قول پر اگر ان کو اَدِلہٴ شرعیہ سے ہی کوئی دلیل خود سمجھ آجائے پھر تو ٹھیک ہے، اگر ان کا علم کسی قول کی دلیلِ شرعی تک رسائی نہ کرسکے، پھر اس قول کو وہ جو چاہیں کہتے پھرتے ہیں۔

دُوسری بات جو میں سمجھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ مندرجہ بالا تقلید کی تعریف کے تحت مقلد، اِمام کے قول کو مأخذِ شریعت تو نہیں سمجھتا وہ تو اَدِلہٴ شرعیہ ہیں، لیکن کوئی ایسا قول (معلوم نہیں کہ ایسا قول ہے بھی یا نہیں) جس پر اَدِلہٴ شرعیہ کا ثبوت نہ ہو یعنی اَدِلہٴ شرعیہ سے وہ مسئلہ معلوم نہ ہوسکے، صرف مجتہد کا اجتہاد ہی ہو یا رائے ہو، اس قول پر دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کرلینا کیونکہ اس کا مقام یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کے علوم پر بصیرت رکھتا ہے، قول پر دلیل طلب نہ کرنے کے یہ معنی ہیں یا کچھ اور؟

ایک بات اور کہنے کی جسارت کر رہا ہوں، شاید میں نہ سمجھ سکا ہوں، مگر اظہار کے لئے کر رہا ہوں کہ آج کل لوگ ساٹھ، ستر صفحے کی کتاب میں ڈھائی تین سو حوالوں کا پیوند لگاکر کچھ کا کچھ ثابت کرتے ہیں۔ ماہنامہ “بینات” محرّم الحرام ۱۴۱۶ھ آپ کا مضمون جو “اصلاحِ مفاہیم” کے بارے میں تھا، اس کے آخر کے جملے جو تبلیغ سے متعلق تھے، کوئی بھی آپ کے نام سے غلط حوالہ دے کر تحریر کرسکتا ہے، یعنی: اہلِ تبلیغ، حضرت شیخ نوّر اللہ مرقدہ کی کتابوں اور آپ کی تعلیمات کو حرزِ جان بنائے ہوئے نقل و حرکت کر رہے ہیں (نہ کہ قرآن و حدیث اور صحابہ کے طریقے بلکہ حضرت شیخ کی تعلیمات کو پھیلا رہے ہیں)، جیسا کہ اعتراضاً کہا جاتا ہے کہ حضرت مولانا الیاس نے فرمایا: میرا دِل چاہتا ہے کہ طریقہ میرا ہو اور تعلیم حضرت تھانوی کی۔

ج… شرعی دلائل چار ہیں، ۱-کتاب اللہ، ۲-سنتِ رسول اللہ، ۳-اجماعِ اُمت اور ۴-قیاسِ مجتہدین۔ پہلی تین چیزوں کے تو اہلِ حدیث بھی منکر نہیں، البتہ چوتھی چیز کے منکر ہیں۔

۲:… جو مسائل صراحتاً کتاب و سنت یا اجماع سے ثابت ہوں، اور ان کے مقابلے میں کوئی اور دلیل نہ ہو، وہاں تو قیاسِ مجتہدین کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی، البتہ جن مسائل کا ذکر کتاب و سنت اور اجماع میں صراحتاً نہ ہو، ان میں شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے قیاس و اجتہاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔

۳:… اسی طرح جس مسئلے میں بظاہر دلائل متعارض ہوں، وہاں تطبیق یا ترجیح کی ضرورت پیش آتی ہے، اور یہ کہ یہ منسوخ تو نہیں؟ بیانِ جواز پر تو محمول نہیں؟ کسی عذر پر تو محمول نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

۴:… ان دو مرحلوں کو طے کرنا مجتہد کا کام ہے، یعنی غیرمنصوص مسائل کا حکم معلوم کرنا، اور جن مسائل پر دلائل بظاہر متعارض ہوں، ان میں تطبیق و ترجیح اور ان کے محامل کی تعیین۔

۵:… اور لوگ دو قسم کے ہیں، ایک جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہیں، دُوسرے عامی، جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے، پس مذکورہ بالا دو مرحلوں میں مجتہد پر تو اجتہاد لازم ہے، کہ وہ انسانی طاقت کے بقدر پوری کوشش کرے کہ اس مسئلے میں اللہ و رسول کا حکم کیا ہے؟ اور عامی کو اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کی پیروی کرے۔

۶:… عامی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جس مجتہد کی پیروی کر رہا ہے وہ اہلِ علم کے نزدیک لائقِ اعتماد ہو، ہر مسئلے میں اس سے دلیل کا مطالبہ کرنا اس کے لئے ممکن نہیں، پس یہ حاصل ہوا اس قول کا مجتہد کے قول کو بغیر مطالبہ دلیل کے ماننا تقلید ہے۔

۷:… اہلِ حدیث بھی درحقیقت مقلد ہیں، کیونکہ جن اکابر کے قول کو وہ لیتے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتے، نہ کرسکتے ہیں، گویا ترکِ تقلید بھی ایک طرح کی تقلید ہے۔

۸:… اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ کسی مجتہد کا قول دلیلِ شرعی کے بغیر ہوتا ہی نہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات وہ دلیل ایک عامی کے فہم و ادراک سے اُونچی ہو، خصوصاً جہاں دلائلِ شرعیہ بظاہر متعارض نظر آتے ہیں۔ اہلِ حدیث حضرات ایسے موقعوں پر اَئمہٴ اِجتہاد کے قول کو بے دلیل کہتے ہیں، حالانکہ “بے دلیل ہونے” کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دلیل ان کے فہم سے بالاتر ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یہ کہئے کہ دلیل کا علم نہ ہوسکنے کو وہ دلیل کے نہ ہونے کا نام دیتے ہیں، حالانکہ عدم شیٴ اور چیز ہے اور “عدمِ علم” اور چیز ہے، پھر عدمِ علم اور چیز ہے، اور “علمِ عدم” اور چیز ہے، یہ وہی بات ہے جو آپ نے نمبر۲ میں ذکر کی ہے۔

۹:… اَدِلہٴ شرعیہ درحقیقت تین ہی ہیں، لیکن قولِ مجتہد کو جو دلیلِ شرعی کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی دلیلِ شرعی (خفی یا جلی) پر مبنی ہوتا ہے۔ مگر اس دلیلِ شرعی کو مجتہد ہی ٹھیک طور سے سمجھتا ہے، اس لئے عامی کے حق میں قولِ مجتہد کو دلیلِ شرعی قرار دے دیا گیا ہے۔

۱۰:… شیخ کی کتابوں کے بارے میں اس ناکارہ نے جو کچھ لکھا ہے، سیاق و سباق سے اس کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرنے بیٹھ جائے تو اس کا کیا علاج ہے؟ لوگوں نے غلط استدلال کرنے کے لئے قرآنِ کریم کا بھی لحاظ نہیں کیا، اس ناپاک کی ژولیدہ تحریر کا کیوں لحاظ کرنے لگے․․․؟

حلال و حرام میں فرق

س… حلال و حرام میں کیا فرق ہے؟ کیا انسان جو ناجائز کماتا ہے یہ پیسہ فورا ضائع ہوجاتا ہے؟ آج جو لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں، کیا ان کی جائز کمائی ہے؟

ج… حلال و حرام کو شریعت نے کھول کر بیان کردیا ہے، جو شخص شریعت کے مطابق کمائے اس کی روزی حلال ہوگی، ورنہ نہیں۔ حرام کمائی کا فوراً ضائع ہونا ضروری نہیں، البتہ یہ ضروری ہے کہ حرام کی کمائی سینکڑوں آفتیں لے کر آتی ہے اور سب کچھ ہونے کے باوجود دِل کا سکون غارت ہوجاتا ہے۔

مملوکہ زمین کا مسئلہ

س… ۱۹۴۷ء کے بعد جب ہم پاکستان آئے تو مجھے کلیم میں یہاں ٹنڈوآدم کی ایک مسجد کے متصل دو منزلہ مکان ملا جس کی اُونچائی ۲۸ فٹ ہے، اب یہ مکان بوسیدہ ہوگیا ہے، اس لئے میں اس کو گراکر ازسرِنو نقشے کے تحت تعمیر کرانا چاہتا ہوں، اور اب اس کی اُونچائی بجائے ۲۸ فٹ کے ساڑھے تین فٹ مزید بڑھاکر ساڑھے اِکتیس فٹ کرنا چاہتا ہوں۔ مسجد کی انتظامیہ بلاوجہ اس میں رُکاوٹ ڈال رہی ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہوا بند ہوجائے گی، حالانکہ ہوا بند ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ برائے مہربانی یہ بتائیں کہ اس قسم کے اعتراضات جو بلاجواز ہوں، عندالشرع کہاں تک دُرست ہیں؟ آیا کسی مسجد کی انتظامیہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ مسجد کے متصل مکان کی تعمیر میں رُکاوٹ ڈالیں؟ نیز کہ مسجد کی انتظامیہ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ تم اپنے مکان میں سے ۳فٹ جگہ مسجد میں دے دو تو ہم اپنا اعتراض واپس لے لیں گے۔

ج… یہ سوال ایسا ہے کہ اس کے جواب کی ضرورت نہیں، آپ کا اپنی ملکیت میں جائز تصرف، جس سے مسجد اور نمازیوں کو کوئی ضرر نہ ہو، بلاشبہ جائز ہے، اور آپ سے آپ کی مملوکہ زمین کا کوئی حصہ مسجد کے لئے زبردستی بھی نہیں لیا جاسکتا۔ باقی آپ بھی مسلمان ہیں اور مسجد بھی اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، آپ اپنی خوشی سے اللہ کے گھر کی کوئی خدمت کریں گے، اس کا صلہ آپ کو اللہ تعالیٰ جنت میں عطا فرمائیں گے۔ مسجد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان ایسا تنازع اچھا نہیں لگتا۔

اسلام میں سفارش کی حیثیت

س… سفارش کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ اگر کسی کے پاس سفارش نہ ہو تو یہ بھی واضح ہو کہ تدبیر کے ساتھ ساتھ سفارش ہو تو کام آسان ہوجاتا ہے، تو کوئی کیا کرے؟ واضح ہو کہ سفارش کے بغیر گزشتہ چار سال سے دھکے کھا رہا ہوں۔

ج… جائز کام کے لئے سفارش جائز ہے، مگر افسروں کا سفارش کے بغیر کسی کا کام نہ کرنا گناہ بھی ہے اور افسوس ناک اخلاقی گراوٹ بھی۔

غیرمسلم کے زُمرے میں کون لوگ آتے ہیں؟

س… جمعہ موٴرخہ ۲۳/فروری کے “جنگ” میں زیر عنوان “غیرمسلم کے لئے مسجد کی اشیاء کا استعمال” آپ نے دو سوالوں کے جواب میں فرمایا کہ: غیرمسلم کی نمازِ جنازہ جائز نہیں، غیرمسلم کی میّت کو غسل دینا جائز نہیں، غیرمسلم کو مسلم قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں۔ یہ سب کچھ کرنے سے کرنے والے اور شرکاء کا ایمان جاتا رہا اور نکاح بھی ٹوٹ گیا۔ براہِ کرم یہ بات صاف کردیں کہ کیا غیرمسلم کی اس تعریف میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالنے سے مرتے دم تک دہریہ رہے، یا کافی عرصے تک اسلام کی پابندی اور پیروی کی، پھر اسلام کو ترک کردیا، دونوں طرح کے لوگ علی الاعلان کہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ سوَر کھاتے ہیں، شراب پیتے ہیں، کیا یہ لوگ بھی غیرمسلموں کے زُمرے میں آتے ہیں؟ اور کیا ان کے جنازوں کے معاملے میں بھی وہی قباحتیں موجود ہیں؟ یعنی ایمان اور نکاح کی تجدید لازم ہوجاتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں، میرے یورپ کے دورانِ قیام ایسے لوگوں کی وہاں آوٴ بھگت بھی ہوتی رہی ہے، میں نے ان کو دیکھا ہے اور بہت سوں کو جانتا ہوں، چنانچہ اس اِستفسار کا جواب معاشرتی حیثیت رکھتا ہے۔

ج… اسلام نام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام باتوں کو ماننے کا، اور کفر نام ہے کسی ایک بات کو نہ ماننے کا، جس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا، پس جو شخص ایسی قطعیات اور ضروریاتِ دِین میں سے کسی ایک کا منکر ہو، یا وہ علی الاعلان کہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے، اس کا حکم مرتد کا ہے، خواہ وہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہو، اور اس کا نام بھی مسلمانوں جیسا ہو۔

ڈاک کے ٹکٹوں پر آیتِ قرآنی شائع کرنا

س… محکمہٴ ڈاک پاکستان نے ایک کالج کی صد سالہ خوشی میں ایک ٹکٹ جاری کیا ہے جس پر یہ آیتِ قرآنی “وَعَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَم” لکھی ہوئی ہے۔ کیا کالج کی صد سالہ تاریخی خوشی میں اس طرح ٹکٹ جاری کرنا جائز ہے؟ پھر اس میں آیتِ قرآنی کی اشاعت کیسی ہے؟ کیا حکومت کا یہ کام شرعاً جائز ہے؟

ج… کسی اچھی چیز کی یادگار کے لئے ٹکٹ جاری کرنا تو کوئی مضائقے کی بات نہیں، لیکن اگر کالج میں بے دِینی کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں یا کالج کے طلبہ کی تعلیم دِینی ماحول کے بجائے کسی دُوسری قسم کے ماحول میں ہوتی ہے تو اس کی یادگار کا حکم بھی اسی کے مطابق ہوگا۔

رہا ٹکٹوں پر قرآنِ کریم کی آیتِ شریفہ کا اندراج! سو یہ صحیح نہیں، اس میں ایک تو قرآنِ کریم کی ظاہری بے ادبی ہے، کیونکہ ڈاک کے لفافوں کو عام طور سے ردّی میں پھینک دیا جاتا ہے، اس سے قرآنِ کریم کی آیت کی بے ادبی ہوگی، اور ٹکٹ جاری کرنے والے اس بے ادبی میں شریک ہوں گے۔ اور ایک معنوی بے ادبی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت گویا اس کالجیٹ تعلیم کے لئے نازل ہوئی ہے، یہ قرآنِ کریم کی تحریف ہے۔

کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابولہب کے لڑکے کو بددُعا دی تھی؟

س… ہمارے شہدادپور میں ایک مقرِّر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتایا کہ نبی کریم کو اپنی پوری زندگی میں ایک صدمہ ہوا جس پر آپ نے بددُعا کردی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ابولہب کا لڑکا جس نے نبی کی لڑکی کو طلاق دی تھی اور حضور نے بددُعا کردی کہ خدا اس کو جانوروں کی خوراک بنادے اور خدا نے شیر کو حکم دیا کہ اس کو پھاڑ دو۔ یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہوگیا ہے، ایک گروپ کا کہنا ہے کہ حضور تو رحمت للعالمین بن کر آئے، انہوں نے زندگی میں کسی کو بددُعا نہیں دی، مگر ایک گروپ کہتا ہے کہ مقرّر صاحب نے خطبہٴ عام میں یہ بات بتائی ہے تو صحیح ہے۔ مہربانی کرکے کتاب کا حوالہ دے کر تفصیل سے جواب دیں تاکہ مسلمان اپنے بھٹکے ہوئے راستے سے صحیح راستے پر آجائیں، ہم لوگ آپ کے لئے دُعا کریں گے۔

ج… ابولہب کے لڑکے کے لئے بددُعا کرنے کا واقعہ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متعدّد لوگوں کے لئے بددُعا کرنا بھی منقول ہے، اس لئے یہ خیال صحیح نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے لئے بددُعا نہیں کی۔ اور کسی کے لئے بددُعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت للعالمین ہونے کے خلاف نہیں، کیونکہ کسی موذی جانور مثلاً: سانپ کو مارنا بھی رحمت کے زُمرے میں آتا ہے، اسی طرح کسی موذی شخص کے لئے بددُعا کرنا بھی گو اس شخص کے لئے رحمت نہ ہو مگر دُوسروں کے لئے عین رحمت ہے۔

حکومت کی چھٹیوں میں حج کرے یا اپنی چھٹیوں میں

س… حکومتِ قطر کی جانب سے زندگی میں ایک حج کے لئے ہر مسلمان کو ۴ ہفتے کی چھٹی دی جاتی ہے، اپنے پاس چھٹیاں ہونے کے باوجود کیا یہ مخصوص چھٹیاں لے کر حج کیا جاسکتا ہے؟ میرے خیال میں مناسب یہی ہے کہ حج کے لئے خود اپنی رقم اور خود اپنا وقت استعمال کرنا چاہئے۔ یہ مخصوص چھٹیوں والا حج کیا میں اپنے مرحوم والدین کے لئے کرسکتا ہوں؟

ج… اگر حکومت کے قانون کی رُو سے چھٹی مل سکتی ہے تو لے سکتے ہیں، خواہ پہلے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو، اور خواہ اپنا حج کرے یا کسی دُوسرے کی طرف سے۔

ہفتہ وار تعطیل کس دن ہو؟

س… جمعة المبارک کی تعطیل کا اسلامی شعائر سے کتنا تعلق ہے؟ نیز جمعہ کے دن تعطیل کس خیر و برکت کی موجب ہوتی ہے؟ اور قرآن پاک کی سورہٴ جمعہ میں نویں، دسویں اور گیارھویں آیت کا اصل مفہوم کیا ہے؟ جمعہ کے دن نماز سے پہلے اور بعد میں کن کن کاموں کی اجازت ہے؟ اور کن کن سے منع فرمایا گیا ہے؟ دِینی اُصولوں اور مقتدر ہستیوں کے ارشادات کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔

ج… جو لوگ جمعہ کے بجائے اتوار کی تعطیل پر زور دے رہے ہیں، انہوں نے اس نکتے کو پیشِ نظر نہیں رکھا کہ ہفتہ کا دن یہودیوں کے لئے معظم ہے، اور اتوار کا عیسائیوں کے لئے، مسلمانوں کے لئے ان دونوں دنوں کے بجائے جمعہ کا دن مقرّر کیا گیا ہے۔ اسلام میں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصوّر نہیں، اس لئے اذانِ جمعہ سے لے کر نماز ادا کرنے تک کاروبار پر پابندی لگادی گئی ہے اور نماز کے بعد کاروبار کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پس اگر اسلام کے اس نظریے سے اتفاق مطلوب ہے تو ہفتہ وار چھٹی کو یکسر ختم کردیا جائے اور ہفتے کے ساتوں دنوں میں (سوائے ممنوع وقت کے) کاروبار جاری رکھا جائے، اور اگر ہفتہ وار تعطیل ہی فرض و واجب ہے تو یہ نہ ہفتہ کی ہوسکتی ہے نہ اتوار کی، کیونکہ ہفتہ کی تعطیل میں یہودیوں کی مشابہت ہے اور اتوار کی تعطیل میں عیسائیوں کی، اور مسلمانوں کے لئے دونوں کی مشابہت حرام ہے۔

کیا پھر سے اتوار کی چھٹی بہتر نہیں تاکہ لوگ نمازِ جمعہ کا اہتمام کریں؟

س… پاکستان میں پہلے حکومت کی طرف سے اتوار کے روز عام تعطیل دی جاتی تھی، اور جمعہ کو ہاف ڈے، یعنی دوپہر بارہ بجے چھٹی ہوجاتی تھی، پھر لوگوں کے مطالبے پر سابقہ حکومت نے اتوار کے بجائے جمعہ کو چھٹی کا اعلان کردیا اور اتوار کی تعطیل ختم کردی گئی۔ ان دونوں تجربات سے نتیجہ یہ دیکھنے میں آیا کہ پہلے جب اتوار کی چھٹی اور جمعہ کو ہاف ڈے ہوا کرتا تھا، اس وقت تک جمعة المبارک کا تقدس اور احترام بڑی حد تک بحال تھا اور تقریباً ۸۵ فیصد لوگ جمعة المبارک کی نماز پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے، مگر جب سے اتوار کی چھٹی ختم کرکے جمعہ کو چھٹی کی گئی ہے، جمعة المبارک کا تقدس اور احترام تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جمعہ کو چھٹی کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب یار دوستوں کی محفل میں جاگ کر گزارتی ہے، اس کے علاوہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو بہت بڑے پیمانے پر گھروں میں ساری رات وی سی آر چلائے جاتے ہیں اور اس طرح ساری رات جاگنے والے جمعہ کو صبح جب سوتے ہیں تو پھر شام ہی کو خبر لیتے ہیں۔ طالب علموں اور نوجوانوں کی اکثریت جمعة المبارک کا پورا دن کرکٹ میچ کھیلنے میں گزار دیتی ہے، کھیل کے میدان میں جمعہ کی نماز کا کسی کو ہوش نہیں رہتا۔ دُوسری طرف شادی بیاہ کی تمام تقریبات بھی جمعہ ہی کو منعقد ہوتی ہیں، شادی بیاہ کے انتظامات میں مصروف مسلمان بھی جمعة المبارک کی نماز کی ادائیگی کی قطعاً کوئی فکر نہیں کرتے۔ قصہ مختصر یہ کہ اتوار کی چھٹی ختم اور جمعہ کی چھٹی ہونے سے اب بمشکل صرف چالیس فیصد لوگ جمعة المبارک کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہوں گے، ورنہ جمعة المبارک کا تقدس جتنا اب پامال کیا جارہا ہے اتنا پہلے نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ دِینِ اسلام میں جمعة المبارک کی چھٹی کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جمعة المبارک کے تقدس کو مجروح ہونے سے بچانے کے لئے اتوار کی چھٹی اور جمعہ کا ہاف ڈے دوبارہ بحال کردیا جائے؟

ج… اتوار کا دن عیسائیوں کا مذہبی دن ہے، اور ہفتہ کا دن یہودیوں کا “یوم السبت” یعنی چھٹی کا دن ہے۔ اس لئے ہفتہ اور اتوار کو چھٹی میں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشابہت ہے، جس کی وجہ سے پورا مسلمان معاشرہ گناہگار ہوگا، اس لئے چھٹی تو جمعہ کے دن ہی کی ہونی چاہئے (اگر ہفتے میں ایک دن کی چھٹی ضروری ہو)۔ رہا یہ کہ لوگ اس مقدس دن کو لغویات میں گزارتے ہیں، اس کے لئے ان لغویات پر پابندی ہونی چاہئے۔ اور جو لوگ ان لغویات میں مبتلا ہوکر جمعہ کی نماز میں کوتاہی کرتے ہیں ان کو اپنے دِین و ایمان کی خیر منانی چاہئے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر شریف پر رونق افروز ہوکر فرمایا کہ: “لوگوں کو ترکِ جمعہ سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر لگادے گا، وہ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔” اور سنن کی حدیث میں ہے کہ: “جو شخص بغیر عذر کے محض بے پروائی سے تین جمعہ چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر کردیتا ہے۔” اور مسندِ شافعی کی روایت ہے کہ: “جو شخص بغیر عذر کے جمعہ چھوڑ دے (اور ایک روایت میں ہے کہ تین جمعے چھوڑ دے) اس کا نام منافق لکھا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے اور نہ بدلی جاتی ہے۔” صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ: “میرا جی چاہتا ہے کہ جو لوگ جمعہ میں نہیں آتے ان کے گھروں کو جلادوں” کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات سن کر کوئی مسلمان جمعہ کی نماز چھوڑنے کی جرأت کرسکتا ہے․․․؟

صبر اور بے صبری کا معیار

س۱:… “بَشِّرِ الصّٰبِریْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَة” سے کیا مراد ہے؟ آج کل علمائے کرام یا مشائخ کی وفات پر رسائل میں جو مرثیے آتے ہیں: “کیا نخلِ تمنا کو میرے آگ لگی ہے” یا “کیا دِکھاتا ہے کرشمے چرخ گردوں ہائے ہائے” وغیرہ الفاظ صحیح ہیں؟ خیرالقرون میں اس کی کوئی مثال ہے؟

س۲:… اور پھر متوفی پر تعزیت کے جلسے کرنا، اور بعض کے تو مستقل سالانہ جلسے کرنا، یہ عرس تو نہیں؟ جائز ہیں یا بدعت؟ قرآن و حدیث اور خیرالقرون میں اس عمل کی کوئی مثال ہے؟

س۳:… بزرگوں کو عام طور پر عام قبرستان کی بجائے خانقاہ یا مدرسہ میں دفن کرنا، جبکہ تاریخ صاف بتاتی ہو کہ اسلاف میں صدی یا نصف صدی گزرنے کے بعد بزرگوں کے مقابر شرک و بدعت کے اَڈّے بن گئے، کیسا ہے؟

س۴:… آج کل ہمارے ملک میں پیشہ ور مقرّرین کی بہت بڑی کھیپ ملک پر چھائی ہوئی ہے، بلکہ عوام انہیں کو عالم سمجھتی ہے اور مقرّرین حضرات اپنی سجع بندی سے رٹی رٹائی تقریر جھاڑ دیتے ہیں، سننے میں مزہ بھی آتا ہے، باطل کی گت بھی خوب بنتی ہے، تو ایسے حضرات کا جلسہ کروانا چاہئے؟ شرعاً ثواب ہے؟ اُمت کے لئے مفید ہے؟ اور اگر جواب نفی میں ہو تو بڑے بڑے اداروں میں جلسوں پر بولتے ہوئے عموماً یہی کیوں نظر آتے ہیں؟

ج… مزاجِ گرامی! یہ ناکارہ اتنی علمی استعداد نہیں رکھتا کہ علماء کے متنازعہ فیہ مسائل میں کوئی فیصلہ کن بات کرسکے، مگر آنجناب نے زحمت فرمائی ہے، اس لئے اپنے فہمِ ناقص کے مطابق جواب عرض کرتا ہوں۔ اگر کوئی بات صحیح ہو تو “گاہ باشد کہ کودک ناداں، بہ غلط بر ہدف زند تیرے” کا مصداق ہوگا۔ ورنہ “کالائے بد بریش خاوند” کا۔

ج۱:… قرآنِ کریم اور احادیثِ طیبہ میں صبر کا مأمور بہ ہونا اور جزع فزع کا ممنوع ہونا تو بالکل بدیہی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مصائب پر رنج و غم کا ہونا ایک طبعی اَمر ہے اور اس رنج و غم کے اظہار کے طور پر بعض الفاظ بھی آدمی کے منہ سے نکل جاتے ہیں۔ اب تنقیح طلب اَمر یہ ہے کہ صبر اور بے صبری کا معیار کیا ہے؟ اس سلسلے میں کتاب و سنت اور اکابر کے ارشادات سے جو کچھ مفہوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی حادثے کے موقع پر ایسے الفاظ کہے جائیں جن میں حق تعالیٰ کی شکایت پائی جائے (نعوذ باللہ) یا اس حادثے کی وجہ سے مأموراتِ شرعیہ چھوٹ جائیں، مثلاً: نماز قضا کردے یا کسی ممنوعِ شرعی کا ارتکاب ہوجائے، مثلاً: بال نوچنا، چہرہ پیٹنا، تو یہ بے صبری ہے، اور اگر ایسی کوئی بات نہ ہو تو خلافِ صبر نہیں۔ خیرالقرون میں بھی مرثیے کہے جاتے تھے، مگر اسی معیار پر۔ اس اُصول کو آج کل کے مرثیوں پر خود منطبق کرلیجئے۔

ج۲:… تعزیت کا مفہوم اہلِ میّت کو تسلی دینا اور ان کے غم میں اپنی شرکت کا اظہار کرکے ان کے غم کو ہلکا کرنا ہے، جو مأمور بہ ہے۔ نیز “اذکروا موتاکم بخیر” میں مرحومین کے ذکر بالخیر کا بھی حکم ہے۔ پس اگر تعزیتی جلسہ انہی دو مقاصد کے لئے ہو اور مرحوم کی تعریف میں غیرواقعی مبالغہ نہ کیا جائے تو جائز ہوگا۔ سالانہ جلسہ تو ظاہر ہے کہ فضول حرکت ہے، اور کسی مرحوم کی غیرواقعی تعریف بھی غلط ہے۔ بہرحال تعزیتی جلسہ اگر مذکورہ بالا مقاصد کے لئے ہو تو اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا، کیونکہ ان جلسوں کو نہ بذاتِ خود مقصد تصوّر کیا جاتا ہے، نہ انہیں عبادت سمجھا جاتا ہے۔

ج۳:… اکابر و مشائخ کو مساجد یا مدارس کے احاطے میں دفن کرنے کو فقہائے کرام نے مکروہ لکھا ہے۔

ج۴:… ایسے واعظین اور مقرّرین حضرات اگر مضامین صحیح بیان کریں تو ان سے تقریر کرانے میں حرج نہیں، عوام اگر انہی کو عالم سمجھتے ہیں تو وہ معذور ہیں:

“ہر کسے را بہر کارے ساختند”

کسی عالم سے پوچھ کر عمل کرنے والا بری الذمہ نہیں ہوجاتا

س… حضرت! مجھ کو ایک اِشکال پیدا ہوگیا ہے، اس کا حضرت سے حل چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہم اپنے علماء سے جن کو مستند سمجھتے ہیں اور اپنے حسنِ ظن کے مطابق جن پر اعتماد ہوتا ہے، ان سے دِینی مسائل پوچھ پوچھ کر عمل کرتے ہیں، جیسا کہ حکم ہے: “فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ” اور اس کے بعد ہم اپنے کو بالکل بَری الذمہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسئلہ غلط بھی بتادیا ہے اور اس کی وجہ سے گناہ کا کام کرلیا تو ہم عنداللہ موٴاخذے سے بالکل بَری ہیں۔ تو جو لوگ بدعات میں مبتلا ہیں وہ بھی تو اپنے طور پر، اپنی دانست میں مستند علماء ہی سے جن پر ان کو اعتماد ہے مسائل پوچھ پوچھ کر عمل کرتے ہیں، تو کیا یہ بھی عنداللہ موٴاخذے سے بَری ہیں؟ اس طرح تو سارے باطل فرقوں والے بھی بَری ہوجائیں گے، کیونکہ ہر شخص اپنے حسنِ ظن کے مطابق اپنے طور پر مستند عالم ہی پر اعتماد کرکے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتا ہے اور ہر فرقے کے علماء دعویدار ہیں کہ ہم صحیح ہیں اور دُوسرے سب غلط ہیں۔

دُوسری بات یہ کہ کیا قرآن مجید یا احادیثِ نبوی میں کوئی ایسی آیت یا حدیث ہے جس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہو کہ کسی عالم سے پوچھ کر عمل کرنے کے بعد عمل کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں رہتا، خواہ غلط ہی مسئلہ بتادیا ہو اور اس کی وجہ سے گناہ کے کاموں کا مرتکب ہوگیا ہو؟

حضرت! اس کی وضاحت فرماکر میرا اِشکال دُور فرمادیں، اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائیں، آمین! اپنے جملہ دِینی و دُنیوی اُمور کے لئے دُعا کی بھی درخواست ہے۔

ج… بہت نفیس سوال ہے۔ اور اس کا جواب مستقل کتاب کا موضوع ہے۔ چنانچہ اس ناکارہ کا رسالہ (اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم) اسی قسم کے سوال کے جواب میں لکھا گیا، اس رسالے کا ضرور مطالعہ فرمالیا جائے۔ چند باتیں بطور اشارہ مزید لکھتا ہوں۔

اوّل:… ہر عاقل و بالغ کے ذمہ لازم ہے کہ حق کو تلاش کرے، اور یہ دیکھے کہ ِفرَقِ مختلفہ و مذاہبِ متنوّعہ میں اہلِ حق کون ہیں؟ اگر کسی نے اس فرض میں تقصیر کی تو معذور نہیں ہوگا۔ چنانچہ آپ نے جو آیت شریفہ نقل کی، اس میں بھی “اہلِ ذکر” سے سوال کرنے کا حکم وارِد ہوا ہے، اگر اس طلبِ حق کو لازم نہ ٹھہرایا جائے تو لازم آئے گا کہ دُنیا بھر کے اَدیانِ باطلہ کے ماننے والے سب معذور قرار پائیں، اور اس کا باطل ہونا عقل و نقل دونوں کی رُو سے واضح ہے۔

دوم:… جو فرقے اپنے کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ یہ دیکھیں کہ ہمارے فرقے کے علماء و راہ نما آیا اُصول و نظریات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی سنت اور طریقے پر ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا توحید و سنت کی دعوت دینا، بدعات و خواہشات کی پیروی سے ڈرانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے واضح ہے۔

سوم:… اگر طالبِ حق کو اس سے بھی تسلی و تشفی نہ ہو، اور اس کے سامنے حق منکشف نہ ہوسکے تو ایک معتد بہ مدت ہر فرقے کے اکابر کی خدمت میں رہ کر دیکھ لے، اگر طلبِ صادق کے ساتھ ایسا کرے گا تو حق تعالیٰ شانہ اس پر حقیقت ضرور کھول دیں گے، کیونکہ وعدہ ہے: “وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا”۔

چہارم:… اگر بفرضِ محال اس طلب و تحقیق پر بھی اس پر حق کا فیضان نہ ہو تو ایسا شخص معذور ہوگا، یہ اپنی سعی و کوشش کے مطابق عمل کرے۔ لیکن اگر حق کی تلاش ہی نہیں کی یا اس سہل نگاری سے کام لیا تو معذور نہ ہوگا، والله اعلم!

کیا قبر پر تین مٹھی مٹی ڈالنا اور دُعا پڑھنا بدعت ہے؟ نیز قبر کے سرہانے سورہٴ بقرہ پڑھنا

س… میں نے ایک کتاب (تحذیر المسلمین عن الابتداع والبدع فی الدین) کا اُردو ترجمہ (بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم، مصنفہ علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی دوحہ، قطر) پڑھا۔ کتاب کافی مفید تھی، بدعات کی جڑیں اُکھاڑ پھینک دی ہیں۔ البتہ کفن اور جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق بدعات کے عنوان سے اپنی کتاب کے صفحہ:۵۰۶ پر لکھتے ہیں کہ: “قبر میں تین مٹھی مٹی ڈالتے وقت پہلی مٹھی کے ساتھ “مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ”، اسی طرح دُوسری مٹھی پر “وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ” اور اسی طرح تیسری مٹھی کے ساتھ “وَمِنْھَا نُخْرِجَکُمْ تَارَةً اُخْرٰی” کہنا بدعت ہے” آپ سے اِلتماس ہے کہ اس بارے میں وضاحت کیجئے۔

اسی صفحے پر لکھتے ہیں کہ: “میّت کے سرہانے سورہٴ فاتحہ اور پاوٴں کی طرف سورہٴ بقرہ پڑھنا بدعت ہے” اس کی بھی ذرا وضاحت فرمائیں۔

ج… ان چیزوں کا بدعت ہونا میری عقل میں نہیں آتا۔

حافظ ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی آیت شریفہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے:

“وفی الحدیث الذی فی السنن: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضر جنازة، فلما دفن المیت اخذ قبضة من التراب، فألقاھا فی القبر وقال: مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ، ثم اخذ اخریٰ وقال: وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ، ثم اخریٰ وقال: وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی۔” (تفسیر ابنِ کثیر ج:۳ ص:۱۵۶)

اور ہمارے فقہاء نے بھی اس کے استحباب کی تصریح کی ہے، چنانچہ الدر المنتقی شرح ملتقی الابحر میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (ج:۱ ص:۱۸۷)

اور قبر کے سرہانے فاتحہٴ بقرہ اور پائینتی پر خاتمہٴ بقرہ پڑھنے کی تصریح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موجود ہے جس کے بارے میں بیہقی نے کہا ہے: “والصحیح” از موقوف علیہ۔ (مشکوٰة ص:۱۴۹)

اور آثار السنن (ج:۲ ص:۱۲۵) میں حضرت لجلاج صحابی کی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی:

“ثم سُنَّ علی التراب سنًا، ثم اقرأ عند رأسی بفاتحة البقرة وخاتمتھا، فانی سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول ذٰلک۔” (رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، واسنادہ صحیح (آثار السنن) وقال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد: رجالہ موثقون)

(اعلاء السنن ج:۸ ص:۳۴۲ حدیث نمبر:۲۳۱۷)

آسمان و زمین کی پیدائش کتنے دنوں میں ہوئی؟

س… جمعہ ایڈیشن میں “وجودِ باری تعالیٰ کی نشانیاں” کے عنوان سے مختلف سورتوں کی چند آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا رہا ہے۔ سورہٴ حم السجدة آیات: ۹ تا ۱۲ کے بیان میں لکھا ہے کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا، دو دن میں سات آسمان بنائے۔ سورہٴ ق کے بیان میں لکھا ہے کہ آسمانوں، زمین اور مخلوقات کو چھ دنوں میں بنایا۔ اب تک تو یہ سنتے آرہے تھے کہ زمین و آسمان کو سات دنوں میں بنایا گیا ہے۔ نیز یہ بھی دُرست ہے کہ خدا نے لفظ “کن” کہا اور ہوگیا، تو پھر جب “کن” کہنے سے سب کچھ ہوگیا تو یہ دو دن، چھ دن اور سات دنوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وضاحت فرمادیجئے۔

ج… یہاں چند اُمور لائقِ ذکر ہیں:

۱:… آسمان و زمین وغیرہ کی تخلیق سات دن میں نہیں، بلکہ چھ دن میں ہوئی جیسا کہ آپ نے سورہٴ ق کے حوالے سے لکھا ہے، تخلیق کی ابتداء ہفتہ کے دن سے شروع ہوکر جمعرات کی شام پر ہوگئی۔

۲:… حق تعالیٰ شانہ ایک زمین و آسمان کیا، ہزاروں عالم ایک آن میں پیدا کرسکتے ہیں، مگر چھ دن میں پیدا کرنا حکمت کی بنا پر ہے، عجز کی بنا پر نہیں، جیسے بچے کو ایک آن میں پیدا کرنے پر قادر ہیں، مگر شکمِ مادر میں اس کی تکمیل ۹ ماہ میں کرتے ہیں۔

۳:… “کن” کہنے سے سب کچھ پیدا ہوجاتا ہے، لیکن جس چیز کو فوراً پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ فوراً ہوجاتی ہے، اور جس کو تدریجاً پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ تدریجاً ہوتی ہے۔

۴:… دو دن میں زمین کو، دو دن میں آسمانوں کو اور دو دن میں زمین کے اندر کی چیزوں کو بنایا۔

۵:… اس بنانے میں ترتیب کیا تھی؟ اس بارے میں عام مفسرین کی رائے ہے کہ پہلے زمین کا مادّہ بنایا، پھر آسمان بنائے، پھر زمین کو بچھایا، پھر زمین کے اندر کی چیزیں پیدا فرمائیں، والله اعلم!

جہنم کے خواہش مند شخص سے تعلق نہ رکھیں

س… ہمارے دفتر کے ایک ساتھی نے باتوں باتوں میں کہا کہ: “جہنم بڑی مزیدار جگہ ہے، وہاں بوٹیاں بھون کر کھائیں گے” ہم سب نے کہا کہ یہ کلمہٴ کفر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبر اس لئے بھیجے کہ مسلمانوں کو جہنم سے بچایا جائے، کیونکہ احادیث کی رُو سے جہنم بہت بُرا ٹھکانا ہے، جس کا تصوّر بھی محال ہے۔ اس طرح کے جملے سے اللہ اور رسولوں کی نفی ہوتی ہے جو کہ کفر کے مترادف ہے، لیکن موصوف کہنے لگے کہ: “مجھے تو وہیں (جہنم) جانا ہے، اس لئے پسند ہے “ ہم نے کہا کہ: مسلمان تو ایسی بات مذاق میں بھی نہیں کرسکتا، انتہائی گناہگار بھی اللہ سے رحمت کی اُمید رکھتا ہے، تمہیں ایسے کلمات کہنے پر اللہ سے معافی مانگنی چاہئے اور توبہ و اِستغفار کرنا چاہئے۔ ہم جب بھی ان سے یہ کہتے ہیں تو وہ ہنس کر کہتا ہے کہ: “میں نے تو وہیں جانا ہے (جہنم میں)” یہ بات ہوئے کافی دن ہوگئے اور ہم سب کے بار بار کہنے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، حالانکہ اسے بہت پیار سے، آرام سے تمام قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا، لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا ایسے شخص سے کیسا برتاوٴ ہونا چاہئے؟ مسلم والا یا غیرمسلم والا؟ یعنی اسلامی طریقے سے سلام کرنا، جواب دینا۔

ج… کسی مسلمان کے لئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، ایسی باتیں کہنے کی گنجائش نہیں، آپ اس شخص سے کوئی تعلق نہ رکھیں، نہ سلام، نہ دُعا، نہ اس موضوع پر اس سے کوئی بات کریں۔

ظالم کو معاف کرنے کا اَجر

س… اس دُنیا میں اگر کوئی کسی پر بے انتہا ظلم کرے اور وہ ظلم ساری زندگی پر محیط ہو اور سامنے والا شخص اس کے معافی نہ مانگنے کے باوجود اس کو دِل سے معاف کردے، محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، تو کیا وہ ظالم شخص بالکل پارسا ہوگیا، بالکل پاک و صاف ہوگیا؟ قیامت کے دن اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا؟ میری شادی ہوئی تھی، شوہر کا ساتھ ۴مہینے کا رہا، وہ شخص کیا تھا؟ بیان سے باہر ہے۔ صرف اللہ جانتا ہے اس نے میرے ساتھ کیا کچھ کیا، ۴ مہینے میں خود رہی اس نے نہیں رکھا، طلاق دے دی، میرے بیٹا ہوا، کیس وغیرہ کردئیے، جہیز اور مہر کی ایک پائی نہیں دی، بچے کے اخراجات برداشت نہیں کئے، بیٹا اب سات سال کا ہوگیا، میں نے اللہ کے قانون کے مطابق بیٹا باپ کو دے دیا لیکن مہر اور جہیز کے بدلے اب اس کو ہر مہینے بچہ ۵ دن مجھے دینا ہوگا، پہلے میں ۵ دن کے لئے دیتی تھی، میرا ضمیر بالکل مطمئن ہے۔ خدا گواہ ہے شوہر کے سامنے شوہر کو میں نے ایک جملہ تک کبھی نہیں کہا۔ شوہر میرے لئے وہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے صرف سجدے کا حکم نہیں دیا تھا، ابھی تک میں نے اس کو اپنے دِل میں بھی بددُعا نہیں دی۔ سوچتی ہوں اس کو کچھ کہہ کر مجھے کیا مل جائے گا؟ بیٹے کو بھی محض مجھے تنگ کرنے کے لئے لے کر گیا ہے، وہ شادی کرچکا ہے، دو بچے ہیں، بچہ باپ کی شفقت اور محبت سے بھی محروم ہے، وہ اس زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ بیٹھا ہے۔

ج… جب آپ نے ایسے ظالم کو رضائے الٰہی کے لئے معاف کردیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ کو تو اس کا اجر و صلہ عطا فرمائیں گے، اِن شاء اللہ۔ باقی اس سے باز پُرس فرمائیں گے یا نہیں؟ اس کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کردیجئے، جب آپ کمزور بندی ہوکر معاف کرسکتی ہیں تو وہ تو ارحم الراحمین ذات ہے، ان سے یہی توقع ہے کہ ہم جیسے گناہ گاروں اور نابکاروں کو معاف فرمادیں، اور اگر موٴاخذہ فرمائیں تو عین عدل ہے۔

اسمائے حسنیٰ نناوے ہیں والی حدیث کی حیثیت

س… اسماء الحسنیٰ (جن سے مراد اللہ کے ۹۹ صفاتی نام ہیں) جو حدیث میں یکجا مرتب صورت میں ملتے ہیں، کیا سارے کے سارے قرآنِ حکیم میں موجود ہیں؟ یا ان اسماء سے اللہ کی جن صفات کی نشاندہی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ حکیم میں بیان فرمائی ہیں؟ نیز اس بات سے بھی آگاہ فرمادیا جائے کہ اسماء الحسنیٰ کے متعلق جو حدیث مشکوٰة شریف میں ملتی ہے، وہ صحت کے اعتبار سے کس درجے میں ہے؟ حسن ہے یا ضعیف ہے؟

ج… اسمائے حسنیٰ ۹۹ ہیں، یہ حدیث تو صحیح بخای و صحیح مسلم میں بھی ہے، لیکن آگے جو ۹۹ اسمائے حسنیٰ کی فہرست شمار کی ہے، یہ حدیث ترمذی، ابنِ ماجہ، مستدرک حاکم اور صحیح ابنِ حبان میں ہے، اس میں محدثین کو کچھ کلام بھی ہے، نیز ان اسماء کی ترتیب و تعیین میں بھی کچھ معمولی سا اختلاف ہے۔ اِمام نووی نے “اذکار” میں اس کو “حسن” کہا ہے۔ ان اسمائے حسنیٰ میں سے بعض تو قرآنِ کریم میں مذکور ہیں، بعض کے مصدر مذکور ہیں، اور بعض مذکور نہیں، نیز ان ننانوے اسمائے مبارکہ کے علاوہ بھی بعض اسمائے مبارکہ قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔

اِستخارے کی حقیقت

س… حدیث شریف میں ہے کہ اِستخارہ کرنا موٴمن کی خوش بختی ہے اور نہ کرنے والا بدبخت ہے۔ اور طریقہ اِستخارے کا یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی دو رکعت نماز نفل پڑھے اور پھر دُعائے اِستخارہ پڑھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ نفل پڑھنے اور دُعائے اِستخارہ کے بعد کیا آدمی اس مقصد کے لئے نکل کھڑا ہو جس کے لئے اِستخارہ کیا ہو؟ مثلاً: ایک شخص کوئی مکان خریدنا چاہتا ہے، کیا وہ اِستخارے کے بعد جاکر مکان کی بابت بات کرلے یا کہ اللہ تعالیٰ اسے اِستخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ اشارہ دیں گے یا دِل میں ایسا خیال پیدا کریں گے کہ وہ بعد میں مکان خریدنے کے لئے نکلے۔ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ جو کام یا مقصد ہو، آدمی تین یا سات دن اِستخارہ کرے، اس عرصے میں یا تو اسے خواب آجائے گا یا پھر اللہ تعالیٰ دِل میں ایسا خیال پیدا کردے گا کہ کام کرو یا نہ کرو، لیکن اگر ایسا ہے تو پھر خواب وغیرہ کا ذکر حدیث پاک میں کیوں نہیں ہے؟ مجھ سے ایک جماعت کے شخص نے کہا ہے کہ خواب وغیرہ کچھ نہیں آتا، پس تم اپنے مقصد کے لئے اِستخارہ کرو اور پھر اس مقصد کے لئے روانہ ہوجاوٴ، اللہ نے بہتر کرنا ہوگا تو وہ مقصد تمہیں فوراً حاصل ہوجائے گا ورنہ ایسی رُکاوٹ ڈال دے گا کہ تم سمجھ جاوٴگے کہ اللہ کو تمہارے لئے یہی منظور ہے کہ یہ کام نہ ہو، بہرحال آپ بتائیے، شکریہ۔

ج… اِستخارے کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ سے خیر کا طلب کرنا اور اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا کہ اگر یہ بہتر ہو تو اللہ تعالیٰ میسر فرمادیں، بہتر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ہٹادیں۔ اِستخارے کے بعد خواب کا آنا ضروری نہیں، بلکہ دِل کا رُجحان کافی ہے۔ اِستخارے کے بعد جس طرف دِل کا رُجحان ہو اس کو اختیار کرلیا جائے۔ اگر خدانخواستہ کام کرنے کے بعد محسوس ہو کہ یہ اچھا نہیں ہوا، تو یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں اسی میں بہتری ہوگی کیونکہ بعض چیزیں بظاہر اچھی نظر آتی ہیں مگر وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتیں، اور بعض ناگوار ہوتی ہیں مگر ہمارے لئے انہی میں بہتری ہوتی ہے۔

الغرض! اِستخارے کی حقیقت کامل تفویض و توکل اور قضا و قدر کے فیصلوں پر رضامند ہوجانا ہے۔

اہم اُمور سے متعلق اِستخارہ

س… زندگی کے تمام اہم اُمور کے متعلق فیصلے کرنے سے قبل کیا اِستخارہ کرنا واجب ہے؟

ج… اِستخارہ واجب نہیں، البتہ اہم اُمور پر اِستخارہ کرنا مستحب ہے، حدیث میں ہے:

“عن سعد قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضی الله لہ، ومن شقاوة ابن اٰدم ترکہ استخارة الله ومن شقاوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی الله لہ۔” (مشکوٰة ص:۴۵۳)

ترجمہ:… “ابنِ آدم کی سعادت میں سے ہے اس کا راضی ہونا اس چیز کے ساتھ جس کا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے فیصلہ فرمایا، اور ابنِ آدم کی بدبختی سے ہے اس کا اللہ تعالیٰ سے اِستخارے کو ترک کردینا، اور ابنِ آدم کی بدبختی میں سے ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر کے فیصلے سے ناراض ہونا۔”

(مشکوٰة ص:۴۵۳ بروایت مسند احمد وترمذی)

ایک اور حدیث میں ہے:

“من سعادة ابن اٰدم استخارتہ الی الله ومن شقاوة ابن اٰدم ترکہ استخارة الله۔”

(مستدرک حاکم ج:۱ ص:۵۱۸)

ترجمہ:… “اللہ سے اِستخارہ کرنا ابنِ آدم کی سعادت میں داخل ہے، اور اس کا اللہ تعالیٰ سے اِستخارہ کرنے کو ترک کردینا اس کی شقاوت میں داخل ہے۔”

خدمتِ انسانی، قابلِ قدر جذبہ

س… ہم نے ایک ایسی انجمن تشکیل دی ہے جس کا مقصد ایک ایسے آدمی کی مدد کرنا ہے جو کہ کسی ہولناک حادثے میں مبتلا ہوجائے اور اس کے پاس اتنے وسائل نہ ہوں جو کہ وہ اس حادثے کو برداشت کرسکے۔ دُوسرا یتیم بچوں کی پروَرِش اور ان کی تعلیم کے لئے مدد کرنا ہے، کیونکہ ہم عباسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم لوگوں کو زکوٰة وغیرہ بھی نہیں ملتی، اس لئے ہم نے یہ انجمن تشکیل دی ہے۔ اس انجمن کے سلسلے میں ہم نے ایک عبارت لکھی ہے کہ ہم انجمن میں جو پیسے جمع کریں گے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے جمع کریں گے، یہ کسی پر احسان نہیں کیونکہ ہمارے مقاصد ہی نیک ہیں، لیکن اس پر چند آدمیوں نے اعتراض کیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہیں ہے، یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے، اس میں اللہ کی خوشنودی نہیں ہوسکتی۔ تو جناب سے گزارش ہے کہ آپ شرعاً اس کا جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

ج… اگر اس فنڈ کے لئے کسی سے جبراً چندہ نہ لیا جائے اور نہ چندہ دینے والوں کو کسی معاوضے کا لالچ دیا جائے، محض فی سبیل اللہ یہ کام کیا جائے تو بہت اچھا کام ہے۔ ضرورت مند لوگ خواہ اپنے ہی ہوں، ان کی خدمت کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوسکتا ہے۔

اللہ کی رحمتیں اگر کافروں پر نہیں ہوتیں تو پھر وہ خوشحال کیوں ہیں؟

س… کیا یورپ، ایشیا اور امریکن اقوام پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل نہیں ہوتیں کہ وہاں کا عام آدمی خوشحال ہے، نیک ایمان دار اور انسان نظر آتا ہے، ہم مسلمانوں کی نسبت خدائی اَحکامات (حقوق العباد) کا زیادہ احترام کرتا ہے، کیا وہ اللہ (جو رحمت للعالمین ہے) کی رحمتوں سے ہماری نسبت زیادہ مستفید نہیں ہو رہے ہیں؟ حالانکہ ان کے ہاں کتے، تصاویر دونوں کی بہتات ہے۔ کیا ہم صرف اس وجہ سے رحمت کے حق دار ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟ چاہے ہمارے کرتوت دِینِ اسلام کے نام پر بدنما دھبّہ ہی کیوں نہ ہوں؟ رحمت کا حق دار کون ہے؟ پاکستانی؟ جو حقوق العباد کے قاتل اور چینی انگریز کے پیروکار ہیں۔ جواب سے آگاہ فرمائیں۔

ج… حق تعالیٰ کی رحمت دو قسم کی ہے، ایک عام رحمت، دُوسری خاص رحمت۔ عام رحمت تو ہر عام و خاص اور موٴمن و کافر پر ہے، اور خاص رحمت صرف اہلِ ایمان پر۔ اوّل کا تعلق دُنیا سے ہے اور دُوسری کا تعلق آخرت سے ہے۔ کفار جو دُنیا میں خوشحال نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ساری اچھائیوں کا بدلہ دُنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے اور ان کے کفر اور بدیوں کا وبال آخرت کے لئے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو ان کی بُرائیوں کی سزا دُنیا ہی میں دی جاتی ہے۔ بہرحال کافروں اور بدکاروں کا دُنیا میں خوشحال ہونا ان کے مقبول ہونے کی علامت نہیں۔ (دُوسرا کافروں کا دُنیا میں خوش رکھنا ایسا ہے) جس طرح سزائے موت کے قیدی کو جیل میں اچھی طرح رکھا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے، کبھی وقت ملے تو زبانی عرض کروں۔

بدکاری کی دُنیوی و اُخروی سزا

س… زنا بہت بڑا گناہ ہے، دُنیا و آخرت میں اس کے بُرے اثرات اور سزا کے بارے میں تفصیل سے جواب دیجئے۔ نیز اگر کوئی توبہ کرنا چاہے تو کفارہ کیا ادا کرنا ہوگا؟

ج… زنا کا بدترین گناہِ کبیرہ ہونا ہر عام و خاص کو معلوم ہے، اور دُنیا میں اس جرم کے ثبوت پر اس کی سزا غیرشادی شدہ کے لئے سو کوڑے اور شادی شدہ کے لئے رَجم (یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے)، آخرت میں جو سزا ہوگی اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو پناہ میں رکھے۔ جو شخص توبہ کرنا چاہے اس کا کفارہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنا اور گڑگڑانا ہے، یہاں تک کہ توقع ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جرم معاف کردیا ہوگا۔ ایسے شخص کو چاہئے کہ کسی کے پاس اپنے اس گناہ کا اظہار نہ کرے، بس اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگے۔

گناہوں کا کفارہ کیا ہے؟

س… انسان گناہ کا پتلا ہے، بدقسمتی سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟ اور یہ کس طرح ادا کیا جاتا ہے؟

ج… چھوٹے موٹے گناہ (جن کو صغیرہ گناہ کہا جاتا ہے) ان کے لئے تو نماز، روزہ کفارہ بن جاتے ہیں، اور کبیرہ گناہوں سے ندامت کے ساتھ توبہ کرنا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے۔ کبیرہ گناہ بہت سے ہیں اور لوگ ان کو معمولی سمجھ کر بے دھڑک کرتے ہیں، نہ ان کو گناہ سمجھتے ہیں، نہ ان سے توبہ کرنے کی ضرورت سمجھتے ہیں، یہ بڑی غفلت ہے۔ کبیرہ گناہوں کی فہرست کے لئے عربی دان حضرات شیخ ابنِ حجر مکی رحمة اللہ علیہ کی کتاب “الزواجر عن اقتراف الکبائر” یا اِمام ذہبی رحمہ اللہ کا رسالہ “الکبائر” ضرور پڑھیں۔ اور اُردو خوان حضرات، مولانا احمد سعید دہلوی کا رسالہ “دوزخ کا کھٹکا” غور سے پڑھیں۔ توبہ کے علاوہ شریعت نے بعض گناہوں کا کفارہ بھی رکھا ہے، یہاں اس کی تفصیل مشکل ہے۔

منافقین کو مسجدِ نبوی سے نکالنے کی روایت

س… کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو وحی آنے پر ایک ایک کا نام لے کر مسجدِ نبوی سے نکالا تھا؟ کتاب کا حوالہ دیں۔

ج… در منثور ج:۳ ص:۳۸۱ میں اس مضمون کی روایت نقل کی گئی ہے۔

رُخصتی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال تھی

س… کیا فرماتے ہیں علمائے دِین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت عمر کیا تھی؟ کیا اس میں اختلاف ہے کہ آپ کی عمر ۹ سال سے زیادہ تقریباً ۱۲ سال تک تھی؟ کیا کسی حدیث سے اس قسم کا ثبوت ہے؟ اگر ہے تو اس حدیث کی کیا حیثیت ہے؟ نیز اس بارے میں علماء حضرات کا اجتماعی موقف کیا ہے؟

ج… رُخصتی کے وقت حضرت اُمّ الموٴمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر نو سال کی تھی۔ اس کی تصریح مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے:

۱- صحیح بخاری: ج:۲ ص:۷۷۵۔ ۲-صحیح مسلم: ج:۱ ص:۴۵۶۔ ۳-ابوداوٴد: ج:۱ ص:۲۸۹۔ ۴-ترمذی: ج:۱ ص:۱۳۲۔ ۵- نسائی: ج:۲ ص:۹۱۔ ۶-ابنِ ماجہ: ص:۱۳۵۔ ۷-دارمی: ج:۲ ص:۸۲۔ ۸-مسندِ احمد: ج:۶ ص:۴۲، ۱۱۸، ۲۱۱، ۲۸۰۔ ۹-طبقات ابنِ سعد: ج:۸ ص:۴۰، ۴۴، ۵۴۔ ۱۰-الاصابہ: ج:۴ ص:۳۵۹۔ ۱۱-الاستیعاب بر حاشیہ اصابہ: ج:۴ ص:۳۵۹۔

سورہٴ دُخان کی آیات اور خلیج کی موجودہ صورتِ حال

س… قرآن مجید میں پارہ پچّیس سورة الدخان آیات نمبر:۱۶ جس کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے یہ کیا ہے: “بلکہ وہ شک میں ہیں کھیل میں مصروف ہیں، سو آپ ان کے لئے اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف سے ایک نظر آنے والا دُھواں پیدا ہو، جو ان سب لوگوں پر عام ہوجاوے، یہ بھی ایک دردناک سزا ہے، اے ہمارے رَبّ! ہم سے اس عذاب کو دُور کردیجئے، تحقیق ہم مسلمان ہیں۔ ان کو اس سے کب نصیحت ہوتی ہے حالانکہ آیا ان کے پاس پیغمبر بیان کرنے والا، پھر بھی یہ لوگ اس سے سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ سکھلایا ہوا ہے دیوانہ ہے، ہم چندے اس عذاب کو ہٹادیں گے، تم پھر اپنی اسی حالت پر آجاوٴگے، جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے، اس روز ہم بدلہ لینے والے ہیں۔”

مندرجہ بالا قرآن کی آیتیں جو چودہ سو سال قبل نازل ہوئی ہیں، موجودہ خلیج کی صورتِ حال پر پوری طرح چسپاں ہو رہی ہیں۔ نمبر۱: تیل کی قیمتی دولت اسلام، عالمِ اسلام اور اپنے عوام کو سیاسی اور فوجی لحاظ سے مضبوط کرنے کی بجائے کھیل کود یعنی عیش و عشرت میں خرچ کی جاتی رہی ہے۔ نمبر۲: آسمان کی طرف نظر آنے والا دُھواں میں جدید فوجی اسلحہ ہر قسم کے بم کی اطلاع قرآن مجید نے چودہ سو سال قبل دے دی ہے، جو مسلمانوں کی غفلت، نااتفاقی کی وجہ سے ایک دردناک سزا اور عذاب کی حیثیت سے ہم پر مسلط ہوچکا ہے۔ نمبر۳: اسلامی ملکوں میں شریعتِ محمدی سے نفرت کی جاتی رہی ہے، موجودہ دور میں شریعتِ محمدی پر عمل کرنا دیوانگی سمجھا جاتا رہا ہے۔ نمبر۴: اگر موجودہ عذاب ٹال دیا جائے تو غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کی آنکھ نہیں کھلے گی۔ نمبر۵: ایسے مخالفِ دِین مسلمانوں کو کہا گیا کہ قیامت کے روز تمہاری سخت پکڑ کی جائے گی اور تم سے پورا بدلہ لیا جائے گا۔ میرے نزدیک قرآن مجید کا یہ ایک زندہ معجزہ ہے جو ہماری موجودہ حالت پر بالکل ٹھیک بیٹھ رہا ہے۔ مہربانی فرماکر وضاحت فرمائیں، کیا میں ان آیتوں کا صحیح مطلب سمجھ سکا ہوں؟

ج… جس عذاب کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے، ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: یہ دُھواں اہلِ مکہ کو قحط اور بھوک کی وجہ سے نظر آتا تھا، گویا ان کے نزدیک یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گزر چکا۔ اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: قربِ قیامت میں دُھواں ظاہر ہوگا، جس کا ذکر احادیث میں ہے۔ بہرحال خلیج کا دُھواں آیت میں مراد نہیں ہے۔

ماں کے پیٹ میں بچہ یا بچی بتادینا آیتِ قرآنی کے خلاف نہیں

س… بحیثیت ایک مسلمان کے میرا ایمان اللہ تبارک و تعالیٰ، اس کے انبیائے کرام علیہم السلام، ملائکہ، روزِ قیامت اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر الحمدللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی آخر الزمان ہونے پر ہے۔ اِن شاء اللہ مرتے دَم بھی کلمہ طیبہ اپنی تمام ظاہری و باطنی معنوی لحاظ سے زبان پر ہوگا۔ ایک معمولی سی پریشانی لاحق ہوگئی ہے، اَز رُوئے قرآنِ کریم شکمِ مادر میں لڑکی یا لڑکے کے وجود کے بارے میں صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں اور یہ ہمارا ایمان ہے، لیکن سنا ہے یورپ میں خاص طور پر جرمنی (مغربی جرمنی) میں ڈاکٹروں نے ایسی ٹیکنالوجی دریافت کی ہے جس کے ذریعے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ شکمِ مادر میں پلنے والی رُوح مذکر ہے یا موٴنث؟ حقائق و شواہد کی رُو سے سائنس اور اسلام کا ٹکراوٴ علمائے دِین مسلمان اور سائنس دانوں کے علم کے مطابق کہیں بھی نہیں ہے، بلکہ دورِ موجودہ میں بہت سی ایسی اسلامی تھیوریاں ہیں جن کا ذکر کلامِ ربانی میں برسہا برس قبل سے موجود ہے، اور حاضر کی سائنس اس کو دُرست اور حق بجانب قرار دے رہی ہے۔ ہمارا علم نامکمل ہے، آپ اس معاملے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ شکمِ مادر میں مذکر و موٴنث کے موجود ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہدایات ہیں؟ اور کیا جرمنی والوں نے جو میڈیکل سائنس میں اس بات کا پتا چلالیا ہے تو کیا وہ معاذ اللہ اسلامی تعلیمات کی اس ضمن میں نفی تو نہیں کرتی؟

ج… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جرمنی کے مسکینوں نے تو اَب ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہوگی جس کے ذریعہ جنین (رحم کے بچے) کے نر و مادہ ہونے کا علم ہوسکے، مسلمان تو اس سے بہت پہلے اس کے قائل ہیں، کشف کے ذریعہ بہت سے اکابر نے بچے کے نر و مادہ ہونے کی اطلاع دی، ہمارے پُرانے اطباء حاملہ کی نبض دیکھ کر نر و مادہ کی تعیین کردیا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم میں جو فرمایا ہے: “اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے” یہ سب کچھ اس کے خلاف نہیں، کیونکہ جو کچھ “رحموں میں ہے” کا لفظ بڑی وسعت رکھتا ہے، جنین کے نر و مادہ ہونے تک اس کو محدود رکھنا غلط ہے۔ جنین کے اوّل سے آخر تک کے تمام حالات کو یہ لفظ شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور نر و مادہ جاننے کے جتنے ذرائع اب تک دریافت ہوئے ہیں وہ بھی ظنی ہیں، قطعی نہیں۔ جرمنی کے سائنس دانوں کی سعیٴ مشکور سے اتنا ثابت ہوگیا ہے کہ بچے کے نر و مادہ ہونے کا علم بھی فی الجملہ آدمی کو عطا کیا جاسکتا ہے۔ پس بطور کشف اکابرِ اُمت جو کچھ فرماتے تھے اور جس کا ہمارا جدید طبقہ بڑی شد و مد سے انکار کیا کرتا تھا، اس کی صحت ثابت ہوگئی۔ اور قرآنِ کریم کی یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح رہی کہ پیٹ میں بچے کے حالات کا علمِ محیط صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کو ہے۔

شکمِ مادر میں لڑکا یا لڑکی معلوم کرنا

س… کیا انسان بتلاسکتا ہے کہ شکمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ ٹی وی پروگرام “تفہیمِ دِین” میں مولانا نے کہا کہ لوگوں نے قرآنِ کریم کو صحیح سمجھ کر نہیں پڑھا، اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی اور مقصد ہے، اور اگر انسان کوشش اور تحقیق کرے تو بتلا سکتا ہے کہ شکمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی۔ آپ اس بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں بتلائیں کہ کیا انسان یہ بتلاسکتا ہے کہ شکمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں مخفی رکھی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کو بھی نہیں ہونا چاہئے۔

ج… شکمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ اس کا قطعی علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ بغیر اسباب کے قطعی طور پر یہ بتلاسکے کہ شکمِ مادر میں لڑکی ہے یا لڑکا؟ باقی اگر یہ کہا جائے کہ انسان اگر کوشش کرے تو بتلاسکتا ہے کہ شکمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ بلکہ آج کل بعض ایسی ایکسرے مشینیں ایجاد ہوگئی ہیں جن کے ذریعے سے اس وقت لڑکا یا لڑکی ہونا بتلایا جاسکتا ہے جبکہ حمل شکمِ مادر میں انسانی اعضاء میں ڈھل چکا ہو، یا بعض اولیاء اور نجومی وغیرہ بھی بتلادیتے ہیں، اور ان کی بات کبھی صحیح بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ بہرکیف! انسان کا یہ علم قرآنِ کریم کی یہ آیت: “وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَام” یعنی وہی اللہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے (سورہٴ لقمان آیت:۳۴) کے منافی نہیں ہے، اور انسان اس سے اللہ کے مخفی علم میں شریک نہیں بنتا، اس لئے کہ غیب درحقیقت اس علم کو کہا جاتا ہے جو سببِ قطعی کے واسطے سے نہ ہو، بلکہ بلاواسطہ خودبخود ہو، اگر ڈاکٹرز یا نجومی وغیرہ شکمِ مادر میں لڑکی ہے یا لڑکا، اس کی اطلاع دیتے ہیں تو اسباب کے ذریعے سے، جبکہ اس آیت کا مصداق ہے اسباب کے بغیر خودبخود علم ہوجانا، اور یہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ اسی طرح اس آیت: “یَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَام” سے مراد قطعی علم ہے جبکہ انسان جس قدر بھی کوشش کرے وہ قطعی طور پر نہیں بتلاسکتا، بلکہ گمان غالب کے درجے میں اور اس میں بھی اکثر غلطی کا احتمال رہتا ہے۔

دُوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں “مَا فِی الْأَرْحَام” کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی رحم میں ہے اس کے تمام حالات و کیفیات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، یعنی یہ کہ وہ بچہ نر ہے یا مادہ؟ اور پھر یہ کہ بچہ صحیح سالم پیدا ہوگا یا مریض و ناقص؟ ولادت طبعی طور پر پورے دنوں میں ہوگی یا غیرطبعی طور پر اس مدّت سے قبل یا بعد میں؟ اور اگر ہوگی تو ٹھیک کس دن اور کس وقت؟ اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بچے کی قسمت کیا ہوگی؟ بچہ سعید (نیک بخت) ہوگا یا شقی (بدبخت) ہوگا؟ گویا ان سب چیزوں کا علم اللہ کو ہے جبکہ وہ حمل ابھی شکمِ مادر میں ہے۔ اس کے برخلاف آج کل ڈاکٹرز یا سائنس دان اپنی کوشش اور اسباب کے سہارے گمان غالب کے درجے میں صرف اتنا بتلاسکتے ہیں کہ رحم میں لڑکا ہے یا لڑکی اور وہ بھی حمل ٹھہرنے کی ایک خاصی مدّت کے بعد۔ لہٰذا “مَا فِی الْأَرْحَام” کے علم کو صرف نر اور مادہ تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کا علم “مَا فِی الْأَرْحَام” میں نر اور مادہ کے علم کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں داخل ہیں جن کا علم کسی انسان کو نہیں ہوسکتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں “مَا فِی الْأَرْحَام” کہا گیا ہے، “مَنْ فِی الْأَرْحَام” نہیں کہا گیا۔ “مَنْ” عربی زبان میں ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے، جبکہ “ما” غیر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے، مقصد یہ ہے کہ وہ حمل جو کہ ابھی خون کا ایک لوتھڑا ہے، ابھی انسانی اعضاء میں ڈھلا بھی نہیں اور اس کی کوئی انسانی شکل شکمِ مادر میں واضح نہیں ہوئی وہ ابھی غیر ذوی العقول میں ہے اس وقت بھی اللہ کو علم ہے کہ یہ کیا ہے اور کون ہے؟ جبکہ آج کل ڈاکٹرز اور سائنس دانوں کو اس وقت نر یا مادہ کا پتا چلتا ہے جبکہ حمل، انسانی اعضاء میں ڈھل جائے اور انسانی شکل و صورت اختیار کرلے، اس وقت یہ حمل ذوی العقول میں “مَنْ” کے تحت آجاتا ہے اور قرآن نے یہ نہیں کہا کہ: “وَیَعْلَمُ مَنْ فِی الْأَرْحَام” بلکہ یہ کہا کہ: “وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَام”۔

بہرکیف! شکمِ مادر کا اگر ایک مدّت کے بعد جزئی علم کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو اللہ کے “علم ما فی الأرحام” کے منافی نہیں۔

قتلِ عام کی روک تھام کے لئے تدابیر

س… آج کل ملک بھر میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً قتلِ عام ہو رہا ہے، کسی کی جان و مال اور عزّت و آبرو محفوظ نہیں، انسانیت کی سرِ عام تذلیل ہو رہی ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کے لئے کوئی علاج تجویز فرمادیں۔

ج… مکہ مکرّمہ میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی جو پاکستان کے حالات سے بہت ہی افسردہ، دِل گرفتہ تھے، انہوں نے فرمایا کہ: جب پاکستان میں نسائی فتنہ اُٹھ رہا تھا تو میں طواف کے بعد ملتزم پر حاضر ہوا اور بے ساختہ رو رو کر دُعائیں کرنے لگا، تو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے آواز دے کر کہا ہو کہ: ٹھہرو! اس قوم نے نعمتِ الٰہی کی ناقدری کی ہے، اسے تھوڑی سی سزا دے رہے ہیں۔

اس ناکارہ کو اس بزرگ کی یہ بات سن کر وہ حدیث یاد آئی جسے میں اپنے رسالے “عصرِ حاضر حدیثِ نبوی کے آئینے میں” اِمام عبداللہ بن مبارک کی کتاب الرقائق کے حوالے سے نقل کرچکا ہوں، حدیث شریف کا متن حسبِ ذیل ہے:

“عن أنس بن مالک رضی الله عنہ – أراہ مرفوعًا – قال: یأتی علی الناس زمان یدعو الموٴمن للجماعة فلا یستجاب لہ، یقول الله: ادعنی لنفسک ولما یجزیک من خاصة أمرک فأجیبک وأما الجماعة فلا، انھم اغضبونی۔ وفی روایة: فانی علیھم غضبان۔” (کتاب الرقائق ص:۱۵۵، ۳۸۴)

ترجمہ:… “حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ موٴمن مسلمانوں کی جماعت کے لئے دُعا کرے گا مگر اس کی دُعا قبول نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ: تم اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دُعا کرو، تو میں تیری دُعا قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں نہیں، اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کر رکھا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: میں ان پر غضبناک ہوں۔”

“لوگ جب بُرائی کو ہوتا ہوا دیکھیں اور اس کی اصلاح نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذابِ عام نازل کردیں۔” (مشکوٰة ص:۴۳۶)

اپنے گرد و پیش کے حالات پر نظر ڈال دیکھئے کہ کیا ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اس جرم میں مبتلا نہیں؟ ہمارے ذاتی مفادات کو اگر ذرا بھی ٹھیس لگتی ہے تو ہم سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، لیکن ہمارے سامنے اَحکامِ الٰہیہ کو کھلے بندوں توڑا جاتا ہے، فواحش و بے حیائی کے پھیلانے کی ہر چار سو کوششیں ہو رہی ہیں، دِین کے قطعی فرائض و شعار کو مٹایا جارہا ہے، اور خواہشاتِ نفس اور بدعات کو فروغ دیا جارہا ہے، لیکن اس صورتِ حال کی اصلاح کے لئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ اس کے نتیجے میں اگر ہم عذابِ عام کی لپیٹ میں آرہے ہوں تو اس میں قصور کس کا ہے․․․؟

دُوسرا عظیم گناہ جس میں تأسیسِ پاکستان سے لے کر آج تک ہم لوگ مبتلا ہیں، وہ اسلامی شعائر کا مذاق اُڑانا اور مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی توہین و تذلیل ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارا اہم ترین فرض یہ ہونا چاہئے تھا کہ ہم اسلامی شعائر کا احترام کرتے اور مملکتِ خداداد پاکستان میں اسلامی اَحکام و قوانین کا نفاذ کرتے، اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی قدر کرتے، اور ان کی راہ نمائی میں اپنی زندگی کے نقشے مرتب کرتے، لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس یہ ہوا کہ اسلام کو مُلَّائیت، اور بزرگانِ دِین اور مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کو “مُلَّا” کا خطاب دے کر ان کا مذاق اُڑایا گیا، اور اعلیٰ سطحوں پر “مُلَّا” کے خلاف زہر افشانی شروع کردی گئی اور “مُلَّا” اور “مُلَّائیت” کے خلاف ایک مستقل تحریک کا آغاز کردیا گیا۔ حالانکہ غریب مُلَّا کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ ملک و ملت کو اسلام کی شاہراہ پر ڈالنا چاہتا تھا۔

جس ملک میں اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جاتا ہو، جس میں مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی پوستین دری کی جاتی ہو اور جس میں دِین اور اہلِ دِین کو تضحیک و تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہو، وہ ملک غضبِ الٰہی کا نشانہ بننے سے کیسے بچ سکتا ہے․․․؟

افسوس ہے کہ ہمارے اہلِ وطن کو اب بھی عبرت نہیں ہوئی، آج بھی ملک و قوم کے ذمہ دار افراد اسلامی شعائر اور اسلامی اَحکام و حدود کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور ان کو “ظالمانہ سزائیں” قرار دے رہے ہیں، اور اہلِ قلم کی، خصوصاً انگریزی اخبارات کی ایک کھیپ کی کھیپ اس مہم میں مصروف ہے۔

میں تمام اہلِ وطن سے اِلتجا کرتا ہوں کہ اگر وطنِ عزیز کو قہرِ الٰہی کا نشانہ بننے سے بچانا ہے تو خدارا توبہ و انابت کا راستہ اپنائیے، اپنے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے توبہ کیجئے اور آئندہ جمعہ کو “یومِ توبہ” منائیے، نیز تمام مسلمان بھائیوں سے اِلتجا ہے کہ نماز کی پابندی کریں، ظلم و ستم اور حقوق العباد کی پامالی سے توبہ کریں۔

تمام اَئمہ مساجد سے اِلتجا ہے کہ مساجد میں سورہٴ یٰسین شریف کے ختم کرائے جائیں اور ملک کی بھلائی کے لئے حق تعالیٰ شانہ سے دُعائیں کی جائیں، اللہ تعالیٰ ہمارے بگڑے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے دِلوں کو جوڑ دیں۔ یا اللہ! اپنے نبیٴ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم پر رحم فرما، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرما۔

ترے محبوب کی یہ نشانی

مرے مولا! نہ سخت اتنی سزا دے

آخر میں حضرتِ اقدس بنوری نوّر اللہ مرقدہ کی دُعا نقل کرتا ہوں:

“اے اللہ! ہم گناہ گار اور بدکار ہیں اور ہم اپنے گناہوں اور تقصیرات سے توبہ کرتے ہیں، ہمیں معاف فرما اور اس غضب آلود زندگی سے نجات عطا فرماکر رحمت انگیز حیاتِ طیبہ نصیب فرما، اور اس ملک و قوم پر رحم فرماکر صالح قیادت ہمیں نصیب فرما، اور جو بزرگوں کو ہم نے گالیاں دی ہیں اور ان کی توہین کی ہے اور تیرے اولیائے صالحین و اتقیائے اُمت کی توہین و تحقیر کی ہے، ہمیں معاف فرما،ا ور اے اللہ! پورے ۴۲ سال پاکستان کے بیت گئے، اس دوران ہم نے جو بداعمالیاں کی ہیں اور تیرے غضب کو دعوت دینے والی جو زندگی اختیار کی ہے، ہمیں معاف فرما، اور صلاح و تقویٰ کی زندگی عطا فرما اور ہمیں اپنی رحمتِ کاملہ کا مستحق بنا، اور ہم پر سے قتل و غارت گری کا یہ عذاب دُور فرما۔”

حقوق العباد

س… ہم جس اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں وہ ڈیڑھ سو فلیٹ پر مشتمل ہے، اس میں چوکیداری کا نظام، پانی کی سپلائی اور صفائی کے اخراجات کی مد میں فی فلیٹ ماہانہ دو سو روپے لئے جاتے ہیں، تاکہ اُوپر بیان کردہ سہولتیں مکینوں کو مہیا کی جائیں۔ کچھ مکین ایک بھی پیسہ نہیں دیتے، لیکن ساری سہولتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مولانا صاحب! شرعی اعتبار سے کیا یہ حرام خوری نہیں ہے؟

ج… یہ حقوق العباد کا مسئلہ ہے۔ جب اجتماعی سہولتیں سب اُٹھاتے ہیں تو ان کے واجبات بھی سب کے ذمہ لازم ہیں۔ ان میں اگر کچھ لوگ واجبات ادا نہیں کرتے تو گویا دُوسروں کا مال ناحق کھانے کے وبال میں مبتلا ہیں، جو سراسر حرام ہے اور قیامت کے دن ان کو بھرنا ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ جانتے ہو مفلس کون ہے؟ عرض کیا: ہمارے یہاں تو مفلس وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو۔ فرمایا: میری اُمت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰة لے کر آئے گا، لیکن اس حالت میں آئے گا کہ فلاں کو گالی گلوچ کیا تھا، فلاں پر تہمت لگائی تھی، فلاں کا مال کھایا تھا، فلاں کی خونریزی کی تھی، فلاں کو مارا پیٹا تھا، اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی، پس اگر نیکیاں ختم ہوگئیں مگر لوگوں کے حقوق ادا نہیں ہوئے تو حقوق کے بقدر لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا (نعوذ باللہ)۔ (مشکوٰة ص:۴۳۵) اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ قیامت کے دن ایسی حالت میں بارگاہِ الٰہی میں پیش ہو کہ لوگوں کے حقوق (جان و مال اور عزّت و آبرو کے بارے میں) اس کے ذمہ نہ ہوں، ورنہ آخرت کا معاملہ بڑا سنگین ہے۔

اِمام ابوحنیفہ کے آنے کا اشارہ

س… کیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِمام ابوحنیفہ کے آنے کا اشارہ فرمایا تھا کہ ایک شخص ہوگا جو ثریا (ستارہ) سے بھی علم لے آئے گا؟

ج… صحیح بخاری کی روایت: “لو کان الدین بالثریا” سے بعض اکابر نے حضرتِ اِمام کی طرف اشارہ سمجھا ہے۔

کیا دُنیا کا آخری سرا ہے جہاں ختم ہوتی ہے؟

س… میرا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دُنیا کا آخری سرا کوئی ہے جس پر دُنیا ختم ہوتی ہے یا نہیں؟

ج… دُنیا کا آخری سرا قیامت ہے، مگر قیامت کا معین وقت کسی کو معلوم نہیں، قیامت کی علامات میں سے چھوٹی علامتیں تو ظاہر ہوچکی ہیں، بڑی علامات میں حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور ہے، ان کے زمانے میں دجال نکلے گا، اس کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے، ان کی وفات کے بعد دُنیا کے حالات دگرگوں ہوجائیں گے اور قیامت کی بڑی نشانیاں پے در پے رُو نما ہوں گی یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد قیامت کا صور پھونک دیا جائے گا۔

حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے سے سبق

س… روزنامہ “جنگ” کراچی کے جمعہ ایڈیشن اشاعت ۱۰/جون ۱۹۹۵ء میں آپ نے “کراچی کا المیہ اور اس کا حل” کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے، اس سے آپ کی دردمندی اور دِل سوزی کا بدرجہ اتم اظہار ہوتا ہے، آپ نے سقوطِ ڈھاکہ کے جانکاہ سانحے کا بھی ذکر کیا ہے اور کراچی کی حالتِ زار میں بھی بیرونی قوّتوں کی سازشوں سے عوام کو آگاہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے کراچی کے قتل و خوں اور غارت گری کو ختم کرنے کے لئے سات نکات پر مشتمل اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں اور امن و عافیت اور اُلفت و محبت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ دُعا بھی کی ہے۔ آپ کی اس دُعا کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور آپ کو جزائے خیر دے، آمین! آپ نے اس مضمون میں حضرت یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کا بھی حوالہ دیا ہے، قومِ یونس نے جس طرح اللہ سے گڑگڑاکر دُعا مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرماکر اس سے اپنا عذاب اُٹھالیا تھا، اسی طرح ہم اہلِ کراچی بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں تاکہ وہ عفو و درگزر سے کام لے کر اپنا عذاب ہم پر سے اُٹھالے اور امن و سکون کی فضا پیدا کردے، آمین! آپ نے حضرت یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کے متعلق معارف القرآن ج:۴ ص:۵۷۵ کا اقتباس بھی پیش کیا ہے، اس میں ایک جگہ لکھا ہے: “حضرت یونس علیہ السلام بہ ارشادِ خداوندی اس بستی سے نکل گئے۔” قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر چھ مقامات پر ہے۔ ۱-سورة النساء، ۲-سورہٴ اَنعام، ۳-سورہٴ یونس، ۴-سورہٴ انبیاء، ۵-سورة الصافات اور ۶- سورة القلم میں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے تراجم پیش کر رہا ہوں۔

سورہٴ انبیاء کی آیات:۸۷، ۸۸ میں ہے:

“مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس علیہ السلام) کا تذکرہ کیجئے جب وہ (اپنی قوم سے) خفا ہوکر چل دئیے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم ان پر (اس چلے جانے میں) کوئی دار و گیر نہ کریں گے۔ پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ (سب نقائص سے) پاک ہیں، میں بے شک قصور وار ہوں۔ سو ہم نے ان کی دُعا قبول کی اور ان کو اس کٹھن سے نجات دی اور ہم اسی طرح (اور) ایمان داروں کو بھی (کرب و بلا سے) نجات دیا کرتے ہیں۔”

سورة الصافات کی آیت:۱۳۹ – ۱۴۳ میں ہے:

“بے شک یونس (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے، جبکہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے، سو یونس (علیہ السلام) بھی شریکِ قرعہ ہوئے تو یہی ملزم ٹھہرے اور ان کو مچھلی نے (ثابت) نگل لیا اور یہ اپنے کو ملامت کر رہے تھے، سو اگر وہ (اس وقت) تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اس کے پیٹ میں رہتے۔”

سورة القلم آیت:۴۸ – ۵۰:

“اپنے رَبّ کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے اور (تنگ دِلی میں) مچھلی (کے پیٹ میں جانے) والے پیغمبر یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہوجائیے۔”

میرا مقصد حضرت یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کے متعلق تمام واقعات بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ کہنا ہے کہ مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت یونس علیہ السلام “بہ ارشادِ خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے تھے” بلکہ اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بغیر اِذنِ خداوندی چلے گئے تھے اور ان کی اس لغزش پر اللہ نے ان کی گرفت کی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے اور انہوں نے جو دُعا کی تھی اس کی تأثیر مسلّم ہے، مصیبت کے وقت ہم اس دُعا کا وِرد کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں۔ حیرت ہے کہ مفتیٴ اعظم حضرت مولانا محمد شفیع نے کیسے لکھ دیا کہ: “حضرت یونس علیہ السلام بہ ارشادِ خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے تھے”؟

ج… حضرت مفتی صاحب نے صفحہ:۵۷۳ پر اس بحث کو مدلل لکھا ہے، اس کو ملاحظہ فرمالیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ یہاں دو مقام ہیں، ایک حضرت یونس علیہ السلام کا اپنے شہر نینویٰ سے نکل جانا، یہ تو باَمرِ خداوندی ہوا تھا کیونکہ ایک طے شدہ اُصول ہے کہ جب کسی قوم کی ہلاکت یا اس پر نزولِ عذاب کی پیش گوئی کی جاتی ہے تو نبی کو اور اس کے رُفقاء کو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ پس جب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو تین دن میں عذاب نازل ہونے کی باطلاعِ الٰہی خبر دی تو لامحالہ ان کو اس جگہ کے چھوڑ دینے کا بھی حکم ہوا ہوگا۔

دُوسرا مقام یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کے بستی سے باہر تشریف لے جانے کے بعد جب بستی والوں پر عذاب کے آثار شروع ہوئے تو وہ سب کے سب ایمان لائے اور ان کی توبہ و اِنابت اور ایمان لانے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ہٹالیا۔ ادھر حضرت یونس علیہ السلام کو یہ تو علم ہوا کہ تین دن گزر جانے کے باوجود ان کی قوم پر عذاب نازل نہیں ہوا، مگر ان کو اس کا سبب معلوم نہ ہوسکا۔ جس سے ظاہر ہے کہ ان کو پریشانی لاحق ہوگئی ہوگی، اور یہ سمجھے ہوں گے کہ اگر وہ دوبارہ بستی میں واپس جائیں گے تو قوم ان کی تکذیب کرے گی، اس تنگ دِلی میں ان کو یہ خیال نہیں رہا کہ اب ان کو وحیٴ الٰہی اور حکمِ خداوندی کا انتظار کرنا چاہئے، اس کے بجائے انہوں نے اپنے اجتہاد سے کہیں آگے جانے کا ارادہ فرمالیا۔ شاید یہ بھی خیال ہوا ہوگا کہ جس جگہ وہ اس وقت موجود تھے قوم کو ان کا سراغ مل گیا تو کہیں یہاں آکر درپے تکذیب و ایذا نہ ہو۔ ذرا تصوّر کیجئے کہ ایک نبی جس نے تین دن میں نزولِ عذاب کی پیش گوئی کی ہو اور یہ پیش گوئی بھی باَمرِ الٰہی ہو، اور پھر اس کے علم کے مطابق یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی اور اصل حقیقتِ حال کا اس کو علم نہ ہو، اس پر کیا گزری ہوگی․․․؟ ایسی سراسیمگی و پریشانی کے عالم میں کسی اور جگہ کا عزمِ سفر کرلینا کچھ بھی مستبعد نہیں تھا۔ پس یہ تھی وہ اجتہادی لغزش، جس پر عتاب ہوا کہ انہوں نے بغیر حکمِ الٰہی کے آئندہ سفر کا قصد کیوں کیا؟ بعد میں جب کشتی کا واقعہ پیش آیا تب ان کو احساس ہوا اور اس پر بارگاہِ الٰہی میں معذرت خواہ ہوئے۔ جن آیاتِ شریفہ کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ اسی دُوسرے مقام سے متعلق ہیں، اس لئے حضرت مفتی صاحب نے مقامِ اوّل کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کے خلاف نہیں۔

رضا بالقضا سے کیا مراد ہے؟

س… رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “حق تعالیٰ جب کسی بندے کو محبوب بناتا ہے تو اس کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے، پس اگر وہ صابر بنا رہتا ہے تو اس کو منتخب کرتا ہے اور اگر اس کی قضا پر راضی ہوتا ہے تو اس کو برگزیدہ کرلیتا ہے، مصیبت پر صابر بنا رہتا ہے۔” پھر قضا پر راضی رہنے سے کیا مراد ہے؟

ج… یہ کہ حق تعالیٰ شانہ کے فیصلے سے دِل میں تنگی محسوس نہ کرے، زبان سے شکوہ و شکایت نہ کرے، بلکہ یوں سمجھے کہ مالک نے جو کیا ٹھیک کیا، طبعی تکلیف اس کے منافی نہیں، اسی طرح اس مصیبت کو دُور کرنے کے لئے جائز اسباب کو اختیار کرنا اور اس کے ازالے کی دُعائیں کرنا، رضا بالقضا کے خلاف نہیں، والله اعلم!

س… ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ سے پوچھا: “تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم موٴمنین مسلمین ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: مصیبت پر صبر کرتے ہیں اور راحت پر شکر کرتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخدا تم سچے موٴمن ہو!” سوال یہ ہے کہ اس حدیث مبارک میں: ۱-مصیبت پر صبر سے کیا مراد ہے ؟ ۲-راحت پر شکر سے کیا مراد ہے؟ ۳-اور قضا پر راضی رہتے ہیں سے کیا مراد ہے؟

ج… نمبر۱ اور نمبر۳ اُوپر لکھ دیا، راحت و نعمت پر شکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نعمت کو محض حق تعالیٰ شانہ کے لطف و احسان کا ثمرہ جانے، اپنا ذاتی ہنر اور کمال نہ سمجھے، زبان سے الحمدللہ کہے اور شکر بجا لائے اور اس نعمت کو حق تعالیٰ شانہ کی معصیت میں خرچ نہ کرے، اس نعمت پر اِترائے نہیں، واللہ اعلم!

س… حضرت داوٴد علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ: “اے داوٴد! تم ایک کام کا قصد و ارادہ کرتے ہو اور میں بھی ارادہ کرتا ہوں، مگر ہوتا وہی ہے جو میں ارادہ کرتا ہوں، پس اگر تم میرے ارادے و مشیت پر راضی رہے اور مطیع و فرمانبردار بنے تب تو میں تمہارے گناہ کی تلافی بھی کروں گا اور تم سے خوش بھی رہوں گا۔ اور اگر میرے ارادے پر راضی نہ ہوئے تو تم کو مشقت و تکلیف میں ڈالوں گا اور انجام کار ہوگا وہی جو میں چاہوں گا، باقی مفت کی پریشانی تمہارے سر پڑے گی۔” اس حدیث مبارک میں مسلمانوں کو کیا نصیحت مل رہی ہے؟

ج… یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے پر راضی رہیں، اگر اپنے مزاج اور اپنی خواہش کے خلاف کوئی بات منجانب اللہ پیش آئے تو اس پر دِل اور زبان سے شکوہ نہ کریں۔

“قبیلے کے گھٹیا لوگ اس کے سردار ہوں گے” سے کیا مراد ہے؟

س… قیامت کی نشانیوں میں ایک حدیثِ رسول ملتی ہے کہ جب گھٹیا اور نیچ لوگ قوم کے سردار یا رہنما بننے لگیں تو سمجھو کہ قیامت قریب ہے۔ پاکستان میں عموماً اور آزاد کشمیر میں خصوصاً مندرجہ ذیل پیشہ اقوام کو گھٹیا اور نیچ تصوّر کیا جاتا ہے: موچی، درزی، حجام، جولاہا، کمہار، مراثی، ماشکی، دھوبی، لوہار، ترکھان وغیرہ۔ اکثر مندرجہ بالا حدیث کا حوالہ اس وقت دیا جاتا ہے جب مندرجہ بالا پیشہ اقوام کا کوئی فرد کسی اہم منصب پر فائز ہو تو کہا جاتا ہے کہ: “اب قیامت قریب ہے، فلاں کو دیکھو! وہ کیا تھا اور کیا بن گیا ہے۔” معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس حدیثِ پاک کا مطلب و مفہوم یہی ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے یا کچھ اور؟ کیا رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی مندرجہ بالا پیشہ افراد کو گھٹیا اور نیچ تصوّر کرتے تھے؟ اور کیا واقعی ان لوگوں کو عملی زندگی میں آگے نہیں نکلنا چاہئے؟ تاریخ اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں زیادہ تعداد ابتدائی ایام میں اسلام قبول کرنے والے معاشرے کے ستائے ہوئے افراد ہی کی تھی، سرداروں نے تو اسلام کی سخت ترین مخالفت کی تھی اور پھر اسلامی معاشرے میں غلاموں کو بھی وہ عزّت ملی کہ جو انہوں نے خواب میں نہ دیکھی تھی، کئی غلام کامیاب سپہ سالار اور گورنر اور خلیفہ بھی ہوئے اور پھر رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یہ اُونچ نیچ کا دُور دُور تک نشان بھی نہیں ملتا تو پھر یہ بتایا جائے کہ اس قیامت کی نشاندہی والی حدیث سے کون سے گھٹیا لوگ اور نیچ، کمینے مراد ہیں۔

ج… جس حدیث کا آپ نے پہلے سوال میں حوالہ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: “وساد القبیلة ازدلھم” جس کا مطلب یہ ہے کہ: “کسی قبیلے کا رذیل ترین آدمی اس قبیلے کا سردار بن بیٹھے گا۔” ایک اور حدیث میں ہے: “ان تری الحفاة العراة رعاء الشاة یتطاولون فی البنیان” یعنی تم ایسے لوگوں کو جو برہنہ یا ننگے بدن رہا کرتے تھے، بکریاں چرایا کرتے تھے، انہیں دیکھوگے کہ وہ اُونچی اُونچی، عمارتیں بنانے میں فخر کرتے ہیں۔ ان احادیث میں رذیل اخلاق کے لوگوں کے سردار، اور بھوکوں، ننگوں کے نو دولتیے بن جانے کو قیامت کی علامتوں میں شمار فرمایا ہے۔ جن لوگوں کو دُنیا کے مغرور نیچ اور کمینہ سمجھتے ہیں (حالانکہ اخلاق و اعمال کے اعتبار سے وہ نیک اور شریف ہیں) ان کے عروج کو قیامت کی علامت میں شمار نہیں فرمایا۔

ہر طرح سے پریشان آدمی کیا بدنصیب کہلاسکتا ہے؟

س… ایک انسان جس کو اپنی قسمت سے ہر موقع پر شکست ہو، یعنی کوئی آدمی مفلس و نادار بھی ہو، غربت کی مار پڑی ہو، علم کا شوق ہو، لیکن علم اس کے نصیب میں نہ ہو، خوشی کم ہو، غم زیادہ، بیماریاں اس کا سایہ بن گئی ہوں، ماں باپ، بہن بھائی کی موجودگی میں محبت سے محروم ہو، رشتے دار بھی ملنا پسند نہ کرتے ہوں، محنت زیادہ کرے، پھل برائے نام ملے۔ ایسا انسان یہ کہنے پر مجبور ہو کہ: “یا اللہ! جیسا میں بدنصیب ہوں ایسا تو کسی کو نہ بنا” اس کے یہ الفاظ اس کے حق میں کیسے ہیں؟ اگر وہ اپنی تقدیر پر صبر کرتا ہو اور صبر نہ آئے تو کیا کرنا چاہئے؟

ج… انسان کو جو ناگوار حالات پیش آتے ہیں ان میں سے زیادہ تر انسان کی شامتِ اعمال کی وجہ سے آتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ سے شکایت ظاہر ہے کہ بے جا ہے، آدمی کو اپنے اعمال کی دُرستی کرنی چاہئے۔ اور جو اُمور غیراختیاری طور پر پیش آتے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کی تو ذاتی غرض ہوتی نہیں، بلکہ بندے ہی کی مصلحت ہوتی ہے، ان میں یہ سوچ کر صبر کرنا چاہئے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کو میری ہی کوئی بہتری اور بھلائی منظور ہے۔ اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں ان کو بھی سوچنا چاہئے اور “اَلْحَمْدُ ِللهِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ” کہنا چاہئے۔

کیا مصائب و تکالیف بدنصیب لوگوں کو آتی ہیں؟

س… میں ذاتی اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہوں، مگر میں نے کئی بدنصیب لوگ بھی دیکھے ہیں، پیدائش سے لے کر آخر تک بدنصیب۔قرآنِ کریم میں ہے کہ اللہ کسی شخص کو اس کی قوّتِ برداشت سے زیادہ دُکھ نہیں دیتا، لیکن میں نے بعض لوگ دیکھے ہیں جو دُکھوں اور مصائب سے اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ آخرکار وہ “خودکشی” کرلیتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب قرآنِ کریم میں ہے کہ کسی کی برداشت سے زیادہ دُکھ نہیں دئیے جاتے تو لوگ کیوں خودکشی کرلیتے ہیں؟ کیوں پاگل ہوجاتے ہیں؟ اور بعض جیتے بھی ہیں تو بدتر حالت میں جیتے ہیں۔ اس سوال کا جواب قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دیجئے کہ انسانی عقل کے جوابات سے تشفی نہیں ہوتی۔ دُنیا میں ایک سے ایک ارسطو موجود ہے اور ہر ایک اپنی عقل سے جواب دیتا ہے، اور سب کے جوابات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا جواب قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی سے دیجئے، اُمید ہے جواب ضرور دیں گے۔

ج… قرآنِ کریم کی جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، اس کا تعلق شرعی اَحکام سے ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو کسی ایسے حکم کا مکلف نہیں بناتا جو اس کی ہمت و طاقت سے بڑھ کر ہو۔ جہاں تک مصائب و تکالیف کا تعلق ہے، اگرچہ یہ آیت شریفہ ان کے بارے میں نہیں، تاہم یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنی مصیبت نہیں ڈالتا جو اس کی حدِ برداشت سے زیادہ ہو، لیکن جیسا کہ دُوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: “انسان دھڑولا واقع ہوا ہے” اس کو معمولی تکلیف بھی پہنچتی ہے تو واویلا کرنے لگتا ہے اور آسمان سر پر اُٹھالیتا ہے۔ جو بزدل لوگ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کی مصیبت حدِ برداشت سے زیادہ ہوتی ہے، بلکہ وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے اس کو ناقابلِ برداشت سمجھ کر ہمت ہار دیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ ذرا بھی صبر و استقلال سے کام لیتے تو اس تکلیف کو برداشت کرسکتے تھے۔ الغرض آدمی پر کوئی مصیبت ایسی نازل نہیں کی جاتی جس کو وہ برداشت نہ کرسکے، لیکن بسااوقات آدمی اپنی کم فہمی کی وجہ سے اپنی ہمت و قوّت کو کام میں نہیں لاتا، کسی چیز کا آدمی کی برداشت سے زیادہ ہونا اور بات ہے، اور کسی چیز کے برداشت کرنے کے لئے ہمت و طاقت کو استعمال نہ کرنا دُوسری بات ہے، اور ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے۔ ایک ہے کسی چیز کا آدمی کی طاقت سے زیادہ ہونا، اور ایک ہے آدمی کا اس چیز کو اپنی طاقت سے زیادہ سمجھ لینا، اگر آپ ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں تو آپ کا اِشکال جاتا رہے گا۔

بچپن کی غلط کاریوں کا اب کیا علاج ہو؟

س… بعد سلام موٴدّبانہ گزارش یہ ہے کہ آپ کا تحریرنامہ ملا، خط پڑھ کر مجھے بہت ہی قلبی سکون ملا ہے، اور اب میں اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان سمجھ رہا ہوں، کیونکہ آپ نے مجھے ان دردناک حالات سے نجات دِلانے کا وعدہ فرمایا ہے، میں آپ کا زندگی بھر مشکور رہوں گا۔ آپ کا یہ احسانِ عظیم میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ مجھے اپنی مفید باتوں کے تحت ہدایات دیں کہ میں اب مزید کس طرح اپنی کامیاب زندگی گزاروں؟ مجھے آپ پر مکمل اعتماد ہے کیونکہ آپ میرے لئے فرشتہ صفت انسان ہیں۔

ج… عزیز مکرّم، السلام علیکم! آپ کا علاج مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے:

۱:… نابالغی میں جو کچھ ہوا اس پر آپ کا موٴاخذہ نہیں، اس لئے آج سے آپ اپنے آپ کو بالکل پاک اور معصوم سمجھیں (یعنی نابالغی کے اعتبار سے)۔

۲:… آپ جن عوارض میں مبتلا ہیں، ان میں سے کوئی لاعلاج نہیں، آج سے آپ مایوسی بالکل ترک کردیں اور کامل خوداعتمادی کے ساتھ قدم اُٹھائیں۔

۳:… اللہ تعالیٰ کے کسی نیک بندے سے تعلق پیدا کرکے اپنی ہر حالت اس کو بتایا کریں، اور اس کے مشورے پر عمل کیا کریں۔

۴:… تمام دُنیا کے افکار سے یکسو ہوکر اپنے کام میں مشغول ہوجائیں، کسی ناکامی اور شکست ذہنی کا خیال دِل میں نہ لائیں۔

کیا حاکمِ وقت کے لئے چالیس خون معاف ہوتے ہیں؟

س… بزرگوں سے سنا ہے کہ جو کسی ملک کا بادشاہ ہوتا ہے اسے خدا کی طرف سے چالیس (۴۰) عدد خون معاف ہیں، یعنی وہ چالیس انسانوں کو بلاوجہ مرواسکتا ہے، اس کی پوچھ اور پکڑ نہ ہوگی، جبکہ ہم نے جہاں تک سنا اور میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ بادشاہ تو زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے، اس سے زیادہ پوچھ اور پکڑ ہوگی کہ تو نے کس کس سے انصاف کیا؟ کس سے ظلم کیا؟

ج… خون اور ظلم تو کسی کو بھی معاف نہیں، نہ شاہ کو، نہ گدا کو، نہ امیر کو، نہ فقیر کو، بلکہ حکام سے باز پُرس زیادہ ہوگی، ایسی غلط باتیں جاہلوں نے مشہور کر رکھی ہیں۔

حرام کمائی کے اثرات کیا ہوں گے؟

س… شریعت کا فیصلہ اور موجودہ زمانے کے مطابق علمائے دِین اور مفتیانِ شرعِ متین کا حکم سینما سے حاصل ہونے والی کمائی کے بارے میں کیا ہے؟ جو کہ سینما میں فلم چلانے والوں سے ہال کے کرائے کی شکل میں وصول کی جاتی ہے؟ حرام کمائی انسانی اخلاق و کردار پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟ اور مجموعی طور پر معاشرے میں کیا بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے؟

ج… سینما یا اس نوعیت کے دیگر ناجائز معاشی ذرائع کے بارے میں علمائے دِین اور مفتیانِ شرعِ متین کا فتویٰ کس کو معلوم نہیں․․․؟ جہاں تک حرام کمائی کے انسانی اقدار پر اثرانداز ہونے کا تعلق ہے وہ بھی بالکل واضح ہے، کہ حرام کمانے اور کھانے سے آدمی کی ذہنیت مسخ ہوجاتی ہے اور نیکیوں کی توفیق جاتی رہتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ: “جس جسم کی پروَرِش حرام سے ہوئی ہو، دوزخ کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہے۔”

غنڈوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں

س… جو بچیاں آئے دن غنڈوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں، ظاہر بات ہے وہ تو معصوم اور ناسمجھ ہوتی ہیں، چونکہ ان بے چاریوں کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا، اس لئے اگر خدانخواستہ جن معصوموں کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ہو، کیا اس سے ان کی نئی زندگی پر اثر پڑے گا یا وہ بے گناہ ہیں؟

ج… اس معاملے میں وہ قطعاً بے گناہ ہیں، آئندہ کا حال اللہ کو معلوم ہے۔

نوجوانوں کو شیعہ سے کس طرح بچایا جائے؟

س… میرا یہ طریقہ ہے کہ میرا کوئی ساتھی شیعہ کے گھیرے میں آتا ہے تو میں فوراً پہنچ جاتا ہوں اور ان سے تقیہ وغیرہ جیسے مسئلے پوچھتا ہوں، جس سے وہ خود پریشان ہوجاتے ہیں، کیا یہ میرا فعل دُرست ہے؟

ج… مسلمان نوجوانوں کا ایمان بچانے کے لئے آپ جو کچھ کرتے ہیں، وہ بالکل صحیح اور کارِ ثواب ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو دِین سے جوڑا جائے اور بزرگانِ دِین کی خدمت میں لایا جائے جس سے ان میں دِین کا صحیح فہم پیدا ہو اور فتنوں سے حفاظت ہو۔

بچے کو میٹھا چھوڑنے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت والی روایت من گھڑت ہے

س… درج ذیل حدیث صحیح ہے یا نہیں؟ ایک عورت کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نصیحت کرانی چاہی کہ وہ میٹھا کھانا چھوڑ دے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو دن بعد آوٴ۔ وہ عورت دو دن بعد آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کو نصیحت فرمائی۔ عورت کے اِستفسار پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے پہلے خود چینی کھانا کم کی، پھر نصیحت کی۔ نیز یہ کہ جب تک نیک عمل خود نہ کرو، دُوسرے کو اس کی تلقین نہ کرو۔ براہِ کرم تفصیل اور حوالے سے جواب عنایت فرمائیں، اس لئے کہ یہی بات حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ اس واقعے کو بیان کرکے لوگ یہ کہتے ہیں کہ: “میاں! جاوٴ پہلے خود سو فیصد دِین پر عمل کرلو، پھر ہمارے پاس آنا” اور یہ کہ: “تبلیغ تو جائز ہی نہیں ہے مسلمان پر۔”

ج… یہ روایت خالص جھوٹ ہے، جو کسی نے تصنیف کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی، دیگر اکابر کی طرف بھی اس کی نسبت غلط ہے، اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کہ مسلمانوں کو بھلے کام کے لئے نہ کہا جائے اور بُرے کام سے منع نہ کیا جائے۔

نظر لگنے کی کیا حیثیت ہے؟

س… ہمارے معاشرے میں یا یوں کہئے کہ ہمارے بڑے بوڑھے “نظر ہونے یا نظر لگنے” کے بہت قائل ہیں، خاص طور سے چھوٹے بچوں کے لئے بہت کہا جاتا ہے (اگر وہ دُودھ نہ پیئے یا کچھ طبیعت خراب ہو، وغیرہ) کہ: “بچے کو نظر لگ گئی ہے” پھر باقاعدہ نظر اُتاری جاتی ہے۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت کردیں کہ اسلامی معاشرے میں اس کی توجیہ کیا ہے؟

ج… نظر لگنا برحق ہے، اور اس کا اُتارنا جائز ہے، بشرطیکہ اُتارنے کا طریقہ خلافِ شریعت نہ ہو۔

حادثات میں متأثر ہونے والوں کے لئے دستور العمل

س… حضرت! ایک حادثے میں میرے میاں اور صاحبزادے کا انتقال ہوگیا، اس وقت میری حالت نہایت ہی ناقابلِ بیان ہے، صبر نہیں ہوتا، کیا کروں؟ ان کی یاد بھلائے نہیں بھولتی، کیا کروں؟

ج… پیاری عزیزہ محترمہ! سلّمہا اللہ تعالیٰ وحفظہا، السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!

آپ کے حادثے کا سن کر بے حد رنج و قلق ہوا، اور مجھے ایسے الفاظ نہیں مل پارہے جن سے آپ کو پُرسا دُوں اور اظہارِ تعزیت کروں، اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! آپ ماشاء اللہ خود بھی خوش فہم ہیں، اور ایک اُونچے علمی و دِینی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اُمید رکھتا ہوں کہ چند باتوں کو پیشِ نظر رکھیں گی، ان سے اِن شاء اللہ غم ہلکا ہوگا اور قلب کو تسکین ہوگی۔

۱:… قرآنِ کریم میں حوادث و مصائب پر “اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” پڑھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور صبر پر بے شمار عنایتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، اس پاکیزہ کلمے کو دِل و زبان سے کہا کریں۔

۲:… ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اور اس کریم آقا کی عنایتیں، شفقتیں اور رحمتیں بندوں کے حال پر اس قدر مبذول ہیں کہ ہم بندے ان کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے اور شکر سے عاجز ہیں۔ جن چیزوں کو ہم آفات و مصائب اور تکالیف سمجھتے ہیں ان میں بھی حق تعالیٰ شانہ کی بے شمار نعمتیں، شفقتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ ان تک رسائی سے ہماری عقل و فکر عاجز ہے، بس اِجمالاً یہ عقیدہ رکھا جائے (اور اس عقیدے کو اپنا حال بنالیا جائے) کہ اس کریم آقا کی جانب سے جو کچھ پیش آیا ہے، یہ ہمارے لئے سراسر رحمت ہی رحمت ہے، گو ہم اس کو نہ سمجھ سکیں۔

۳:… آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے بڑے لوگوں کو یہ حادثہ پیش آیا کہ بچپن ہی میں والدین کا سایہ ان کے سر سے اُٹھ گیا، لیکن عنایتِ خداوندی نے ان کو اپنے سائے میں لے لیا، اور وہ دُنیا میں آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے، اور ایک دُنیا نے ان کے سائے میں پناہ لی۔ خود ہمارے آقا سرورِ کائنات، فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ارواحنا وآبائنا وامہاتنا) کا اُسوہٴ حسنہ ہمارے سامنے ہے کہ ابھی بساطِ وجود پر قدم نہیں رکھا تھا کہ سایہٴ پدری سے محروم کردئیے گئے، اور بچپن ہی میں ماں کی شفقتِ مادری بھی چھن گئی، لیکن کریم آقا نے اس یتیم بچے کو ایسا اُٹھایا کہ دونوں جہاں اس کے سائے کے نیچے آگئے، (صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم)۔ آپ کے بچے اگر سایہٴ پدری سے محروم ہوگئے تو غم نہ کیجئے، اِن شاء اللہ رحمت و عنایتِ خداوندی ان کے سر پر سایہ فگن ہوگی، جو باپ کی شفقت سے ان کے حق میں ہزار درجہ بہتر ہوگی۔ ان بچوں کے غم میں گھلنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان کے حق میں کریم آقا سے دُعاوٴں اور اِلتجاوٴں کی ضرورت ہے۔

۴:… یہ دُنیا ہمارا گھر نہیں، ہمارا وطن اور ہمارا گھر جنت ہے، حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں کا شعر ہے:

لوگ کہتے ہیں کہ مرگیا مظہر

حالانکہ اپنے گھر گیا مظہر

ہمارے حضرت حکیم الامت نے اپنے ایک عزیز جناب ظفر احمد تھانوی مرحوم کو ان کے والد ماجد کے سانحہٴ اِرتحال پر جو گرامی نامہ تحریر فرمایا تھا، اس کو بار بار پڑھا کرو۔

۵:… آپ کے شوہر کا حادثہ مکہ و مدینہ کے سفر کے دوران پیش آیا، یہ اِن شاء اللہ شہادت کی موت ہے، حق تعالیٰ شانہ کے یہاں ان کو جو کچھ ملا وہ دُنیا کی مکدّر اور فانی لذتوں سے بدرجہا بہتر ہے، اور آپ کو اس حادثے پر صبر و شکر کرنے کی بدولت جو اَجر و ثواب ملے گا وہ مرحوم کے وجود سے زیادہ قیمتی ہے۔ پس ان کی جدائی سے نہ اِن شاء اللہ ان کو خسارہ ہوگا، نہ آپ کو اور نہ دیگر پسماندگان کو۔

۶:… البتہ ان کی جدائی سے رنج و صدمے کا ہونا ایک فطری اور طبعی اَمر ہے، تاہم اس کا تدارک بھی صبر و شکر، ہمت و اِستقلال اور راضی برضائے مولا ہونے سے ہوسکتا ہے، بے صبری اور جزع و فزع سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو، اور آپ کو اور آپ کے بچوں کو ہمیشہ اپنے سایہٴ رحمت میں رکھے، اور صبر و شکر اور رضاء بالقضاء کی توفیق عطا فرمائے۔

۷:… دُنیا کی بے ثباتی، یہاں کی راحت و خوشی کی ناپائیداری کو ہمیشہ یاد رکھا جائے، حقوقِ بندگی بجا لانے اور آخرت کے گھر کی تیاری میں کوتاہی نہ کی جائے، اور یہاں کی دلِ فریبیوں اور یہاں کے عیش و عشرت اور رنج و مصیبت کے بکھیڑوں میں اُلجھ کر آخرت فراموشی، خدا فراموشی، بلکہ خود فراموشی اختیار نہ کی جائے، یہی مضمون ہے “اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” کا۔

دُعا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ ہمیں اپنی رضا و محبت نصیب فرمائیں، ہماری کوتاہیوں اور گندگیوں کی پردہ پوشی فرمائیں، اور اپنی رحمتِ بے پایاں کے ساتھ دُنیا میں بھی ہماری کفایت فرمائیں اور آخرت میں اپنے محبوب و مقبول بندوں کے ساتھ ہمیں ملحق فرمائیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجة الوداع کے خطبے میں حضرت عمر روئے تھے یا حضرت ابوبکر؟

س… “جنگ” کا اسلامی صفحہ پڑھا، ریٹائرڈ جسٹس قدیرالدین صاحب اپنے مضمون “اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے” میں لکھتے ہیں کہ: ۹/ذی الحجہ کو جمعہ کے روز ۱۰ھ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں جو خطبہ دیا تھا اس میں دِینِ اسلام کے مکمل ہونے کی نوید سنائی۔ اس وقت مسلمان خوش ہو رہے تھے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید اب آپ ہم لوگوں میں زیادہ دن نہ رہیں۔ لیکن مولانا صاحب! کچھ دن پہلے یہی مضمون اسلامی صفحے پر شاید مولانا احتشام الحق صاحب نے لکھا تھا، جس میں انہوں نے اسی خطبے کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے رونے کے متعلق لکھا تھا، اور ہوبہو یہی الفاظ لکھے تھے۔ براہِ کرم انہی صفحات میں جواب دے کر ممنون فرمائیں تاکہ تسلی ہوجائے۔ پردیس میں عام کتب نہ ہونے کی وجہ سے مطالعے سے محروم ہیں، ورنہ سوال کی نوبت نہ آتی۔ اُمید ہے آپ ضرور جواب دیں گے۔

ج… اس آیت کے نازل ہونے کے موقع پر رونے کا واقعہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کا ہے، مگر جسٹس صاحب نے حدیث کے الفاظ صحیح نقل نہیں کئے، جس کی وجہ سے آپ کو اس واقعے کا اشتباہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رونے کے واقعے سے ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ شاید اب آپ ہم لوگوں میں زیادہ دن نہ رہیں، بلکہ یہ فرمایا تھا: “اب تک تو ہمارے دِین میں اضافہ ہو رہا تھا، لیکن آج وہ مکمل ہوگیا، اور جب کوئی چیز مکمل ہوجاتی ہے تو اس میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کمی اور نقصان شروع ہوجاتا ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم سچ کہتے ہو!”۔ (تفسیر ابنِ کثیر ج:۲ ص:۱۳)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رونے کا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات کے دوران ایک خطبے میں فرمایا کہ: “اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دُنیا میں رہے یا حق تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں چلا جائے” حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس اشارے کو سمجھ گئے اور رونے لگے، جبکہ دُوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم اس وقت نہیں سمجھے۔

قرآن خواہ نیا پڑھا ہو یا پُرانا، اس کا ثواب پہنچا سکتا ہے

س… اکثر محفلِ قرآن خوانی میں بعض مرد یا خواتین کہتے ہیں کہ انہوں نے اب تک گھر پر مثلاً: ۱۰، ۵ پارے پہلے پڑھے ہیں، وہ اس میں شامل کرلیں، یا پھر اکثر قلّتِ قارئین کی وجہ سے سپارے گھر گھر بھیج دئیے جاتے ہیں، یہ کہاں تک دُرست ہے؟

ج… یہاں چند مسائل ہیں:

۱:… مل کر قرآن خوانی کو فقہاء نے مکروہ کہا ہے، اگر کی جائے تو سب آہستہ پڑھیں تاکہ آوازیں نہ ٹکرائیں۔

۲:… آدمی نے جو کچھ پڑھا ہو اس کا ثواب پہنچاسکتا ہے، خواہ نیا پڑھا ہو یا پُرانا پڑھا ہو۔

۳:… اِیصالِ ثواب کے لئے پورا قرآن پڑھوانا ضروری نہیں، جتنا پڑھا جائے اس کا ثواب بخش دینا صحیح ہے۔

۴:… کسی دُوسرے کو پڑھنے کے لئے کہنا صحیح ہے، بشرطیکہ اس کو گرانی نہ ہو، ورنہ دُرست نہیں، واللہ اعلم!

انبیاء و اولیاء وغیرہ کو دُعاوٴں میں وسیلہ بنانا

س… ایک صاحب نے اپنی کتاب “وسیلے واسطے” میں لکھا ہے کہ: جو لوگ مردہ بزرگوں، انبیائے کرام یا اولیاء یا شہداء کو اپنی دُعاوٴں میں وسیلہ بناتے ہیں، یہ شرک ہے۔

ج… ان صاحب کا یہ کہنا کہ بزرگوں کے وسیلے سے دُعا کرنا شرک ہے، بالکل غلط ہے۔ بزرگوں سے مانگا تو نہیں جاتا، مانگا تو جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے، پھر اللہ سے مانگنا شرک کیسے ہوا․․․؟

عریانی کا علاج عریانی سے

س… “عریانی لعنت ہے، ایک کینسر ہے، ملک و ملت کے لئے نقصان دہ ہے” اس قسم کے بیانات پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں، چنانچہ جناب راجہ ظفرالحق وزیر اطلاعات و نشریات کا بیان ہے:

“عریانی ایک کینسر کی طرح قوم کے جسم میں پھیلی ہوئی ہے، اسے اگر نہ روکا گیا تو اس کی پتلی دھار، ایک بڑا دھارا بن سکتی ہے، حکومت اس لعنت کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نظامِ اسلام کے نفاذ میں ملک کے نوجوانوں کو عظیم کردار ادا کرنا ہے۔”

(“جنگ” کراچی ۱۳/فروری ۱۹۸۲ء)

مگر اس کا علاج کوئی نہیں بتاتا، کوئی نہیں بتاتا، آپ جناب سے درخواست ہے اس کا علاج تجویز فرمادیں۔

ج… عریانی بلاشبہ ایک لعنت ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ قوم کے مزاج میں کینسر کی طرح سرایت کرچکی ہے۔ راجہ صاحب کے بقول حکومت اس لعنت کو ختم کرنے اور قوم کو اس کینسر سے نجات دِلانے کا تہیہ کرچکی ہے۔ لیکن حکومت نے اپنے اس تہیہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو لائحہٴ عمل مرتب فرمایا ہے، وہ بھی راجہ صاحب ہی کی زبانی سن لیجئے:

“اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر راجہ ظفرالحق نے خواتین کو بہترین تعلیم دینے پر زور دیا ہے تاکہ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکیں، وقار النساء گرلز ہائی اسکول راولپنڈی کے سالانہ یومِ اسپورٹس اور جوبلی تقریبات میں بطورِ مہمان خصوصی تقریر کرتے ہوئے راجہ ظفرالحق نے کہا کہ حکومت خواتین کو ایسی تعلیم و تربیت دینے کے سلسلے میں عملی کردار ادا کر رہی ہے کہ قوم کی بیٹیاں ہر شعبہٴ حیات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے، اور اس اعتبار سے انہیں ہر شعبہٴ حیات میں مثالی طور پر آگے آنے اور اپنی لیاقت اور صلاحیت کے اظہار کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔” (“نوائے وقت” کراچی ۱۴/فروری ۱۹۸۲ء)

گویا عریانی کی لعنت کو ختم کرنے اور اس کینسر سے قوم کو نجات دِلانے کے لئے حکومت نے جو عملی خاکہ مرتب کیا ہے وہ یہ ہے کہ قوم کی بیٹیوں کو گھروں سے نکالا جائے، اور ہر شعبہٴ زندگی میں مردوں کے برابر ان کی بھرتی کی جائے، فوج اور پولیس میں آدھے آدمی ہوں، آدھی عورتیں، دفاتر میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مساوی ہو، کابینہ اور شوریٰ میں دونوں کی تعداد نصف و نصف ہو، اسکولوں، کالجوں اور دانش گاہوں میں آدھے لڑکے ہوں اور آدھی لڑکیاں، یہ ہے حکومت کا وہ تیر بہدف علاج جس کے ذریعہ عریانی کا خاتمہ ہوگا اور قوم کو عریانی کے عفریت سے نجات ملے گی․․․! اس طریقہٴ علاج کو یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ حکومت مردوں اور عورتوں کی امتیازی علامات ہی مٹادینا چاہتی ہے، تاکہ ایک صنف کو دُوسری صنف سے جو حجاب ہے، اور جس سے عریانی کا تصوّر اُبھرتا ہے، وہ ختم ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ جب دونوں کے حدودِ عمل کی تفریق مٹ جائے گی تو عریانی آپ سے آپ ختم ہوجائے گی، اور قوم کو اس لعنت کے گرداب سے نجات مل جائے گی، بقول اقبال:

شیخ صاحب بھی تو پردہ کے کوئی حامی نہیں

مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہوگئے!

وعظ میں فرمادیا تھا آپ نے کل صاف صاف

پردہ آخر کس سے ہو؟ جب مرد ہی زَن ہوگئے!

راجہ صاحب نے خواتین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی “تربیت” پر بھی زور دیا ہے، “تربیت” ایک مبہم سا لفظ ہے، اس کی عملی تشریح و تفسیر بھی راجہ صاحب نے فرمادی ہے، ملاحظہ فرمائیے:

“وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات راجہ ظفرالحق نے آج وقار النساء ہائی اسکول کی طالبہ حاذقہ محمود کے لئے ایک خصوصی اِنعام کا اعلان کیا، اس طالبہ نے اسکول کے جشن سمین پر سالانہ کھیل کود کے موقع پر انتہائی خوش الحانی سے قرآنِ پاک کی تلاوت کی تھی، جہاں وزیر موصوف مہمانِ خصوصی تھے۔ وزارتِ اطلاعات کی جانب سے دیا جانے والا ایک ہزار روپے کا اِنعام کتابوں کی شکل میں ہوگا۔” (“نوائے وقت”)

س… آج کل بے دِین طبقہ خصوصاً پڑھے لکھے اور صحافی قسم کے لوگوں نے اسلام کے خلاف لکھنے کا تہیہ کرلیا ہے، حضرت! طبیعت پر بہت ہی اثر ہوتا ہے، کہیں یہ اسلام ڈھانے کی سازشیں تو نہیں؟

ج… ایوب خان مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے عروج و اقبال نصیب فرمایا تو انہیں اکبر بادشاہ کی طرح “اجتہادِ مطلق” کی سوجھی، اور دِینی مسائل میں تحریف و کتربیونت کی راہ ہموار کرنے کے لئے ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب بالقابہ کی خدمات حاصل کی گئیں، اور انہوں نے اسلام کے تمام متفقہ مسائل کو “روایتی اسلام” کا نام دے کر ان کے خلاف ایک محاذ کھول دیا، اس سے ملک میں بے چینی پیدا ہوئی اور احتجاج کے سیلاب میں نہ صرف ایوب خان کی حکومت بہہ گئی، بلکہ بعد میں جو بھیانک حالات پیش آئے وہ سب کو معلوم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ملک دو نیم ہوگیا اور افراتفری کا ایک ایسا غیرمختم سلسلہ شروع ہوا جس نے ملک و قوم کو شدید بحران میں مبتلا کردیا۔

سوئے اتفاق سے آج پھر اسلام کے مُسلّمہ مسائل کے خلاف اخباروں کے اوراق سیاہ کئے جارہے ہیں، پروفیسر رفیع اللہ شہاب اور کوثر نیازی ایسے لوگ اسلامی مسائل پر خامہ فرسائی فرما رہے ہیں۔ علمائے اسلام کی تحقیر کی جارہی ہے اور انہیں تنگ نظری و کم فہمی کے طعنے دئیے جارہے ہیں، ہمیں اسلام کے بارے میں تو الحمدللہ اطمینان ہے کہ نہ ڈاکٹر فضل الرحمن کی تحریفات سے اس کا کچھ بگڑا، اور نہ موجودہ دور کے متجدّدین کے قلمی معرکے اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اندیشہ اگر ہے تو ملک و قوم کے بارے میں ہے کہ کہیں خدانخواستہ ہماری شامتِ اعمال کی بدولت ایوب خان کا آخری دور تو واپس نہیں آرہا، اور کیا اسلامی مُسلَّمات کی تحقیر اور علمائے اسلام کی تذلیل کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں ہوگی․․․؟ ہمیں معلوم ہے کہ حکومت آزادیٴ قلم کا احترام کرتی ہے، اور یہ سب کچھ اگر سرکاری آشیرباد سے نہ ہو تو آزادیٴ قلم کا فیضان ہوسکتا ہے․․․! لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کا مرتکب ہو تو اس کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جاتا ہے، اور اگر کوئی شخص فوج میں بددِلی پھیلانے کی جرأت کرے تو اس کو آزادیٴ قلم کے احترام کا مستحق نہیں سمجھا جاتا، آخر دِینِ اسلام نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ کوئی شخص اسلامی مُسلَّمات کے خلاف کتنی ہی نفرت پھیلائے، اس کی آزادیٴ قلم میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اور علمائے اسلام کی کتنی ہی سوقیانہ تحقیر کرلے، وہ آزادیٴ قلم سے محروم نہیں ہوتا۔ جس ملک و قوم کا خدا و رسول، اسلام اور اہلِ اسلام کے ساتھ یہ رویہ ہو، غور فرمائیے کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ کیا ہوگا․․․؟

سفید یا سیاہ عمامہ باندھنا کیسا ہے؟

س… حضرت! میرا دوست جمعہ کے دن سفید یا کالا عمامہ پہنتا ہے، اس سے کسی نے کہا کہ: “تم کب سے بریلوی بن گئے ہو؟” کیا عمامہ باندھنا بریلوی ہونے کی علامت ہے؟

ج… سفید یا سیاہ عمامہ پہن سکتے ہیں، البتہ شیعوں کے ساتھ مشابہت ہو تو سیاہ نہ پہنا جائے۔

اخبارات میں چھپنے والے لفظ اللہ کا کیا کریں؟

س… اخبارات میں قرآنی آیات کے علاوہ ناموں کے ساتھ اللہ کا نام بھی ہوتا ہے، ان کا کیا کیا جائے؟

ج… کاٹ کر محفوظ کرلیا جائے تو بہتر ہے۔

“تمہارے قرآن پر پیشاب کرتی ہوں” کہنے والی بیوی کا شرعی حکم

س… میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ: “میں تمہارے قرآن پر پیشاب کرتی ہوں” اس واقعے سے اس کے ایمان اور نکاح پر کیا اثر پڑا؟

ج… تمہاری بیوی ان الفاظ سے مرتد ہوگئی اور تمہارے نکاح سے نکل گئی۔ اگر وہ توبہ کرے تو ایمان کی تجدید کے بعد دوبارہ نکاح تم سے ہوسکتا ہے۔

متبرک ناموں کو کس طرح ضائع کرسکتے ہیں؟

س… بہت سے مبارک نام جیسا کہ “اللہ، محمد” ہم لکھتے ہیں، اگر اس کاغذ کو اس طرح پھاڑا جائے کہ اس نام کے اجزاء ہوجائیں، مثلاً: کاغذ کے ایک ٹکڑے پر “ا” اور دُوسرے پر “للہ” آجائے تو کیا ایسے کاغذ کو ضائع کرسکتے ہیں؟

ج… بہتر ہے کہ ان کو جمع کرکے کسی ڈَبے میں ڈالتے رہیں اور پھر ان کو دریابرد کردیں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پانی میں بھگوکر الفاظ مٹادیں اور پانی کسی ادب کی جگہ ڈال دیں جہاں لوگوں کے پاوٴں نہ آئیں۔

امانت رکھی ہوئی رقم کا کیا کروں؟

س… میں کچھ عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں، آپ اس کا حل بتاکر ممنونِ احسان کردیں۔ میں کم پڑھا لکھا ہوں، میں جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس کا لب لباب نکال کر بہت جلد میری پریشانی دُور فرمادیں۔ ۹/فروری ۱۹۷۹ء کو ایک شخص مجھ کو ڈھیر ساری رقم بطور امانت دے گیا، ۱۹۸۲ء کو میرے حالات اچانک بدل گئے حتیٰ کہ میں دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھانے کو بھی محتاج ہوگیا، کاروبار میں نقصان ہوا، سب کچھ ختم ہوگیا۔ اب میرے خیالوں میں امانت کی ڈھیر ساری رقم محفوظ تھی جسے اپنے ذاتی کاروبار میں لاکر پھر کفالت کے قابل ہونا چاہتا تھا، مگر پھر فوراً اپنا ارادہ اس خیال کی بنا پر بدل دیا کہ امانت میں خیانت ہوگی اور امانت میں خیانت کرنے والا کبھی نہیں بخشا جائے گا، دُنیا میں بھی سزا ملے گی، اس سے بہتر ہے بھوکا مرجانا، پھر میں اس آدمی کے پاس جاتا ہوں تاکہ اس کی امانت اس کو لوٹادُوں تاکہ ہمارے خیالات بُرے نہ ہوں یا پھر اس سے اجازت لے کر تھوڑی سی رقم بطور قرض حاصل کرلوں، گھر سے چل نکلا، چونکہ وہ میرے گھر سے کافی فاصلے پر رہتا تھا، یعنی دُوسرے علاقے میں، وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ کچھ یوم قبل ہارٹ اٹیک ہونے سے فوت ہوگیا ہے اور اس کا دُنیا میں کوئی رشتہ دار بھی نہیں ہے، ماں، باپ، بہن بھائی کوئی بھی نہیں۔ ایسے میں میں اس رقم کا کیا کروں؟ شرعی اَحکام کی بنا پر ارشاد فرمائیں احسانِ عظیم ہوگا۔

ج… جس کا وارث نہ ہو، اس کا ترکہ بیت المال میں داخل ہوتا ہے، آپ چونکہ خود مستحق ہیں اس کو خود بھی رکھ سکتے ہیں، اگر کوئی وارث نکل آیا تو اس کو دے دیجئے۔

امانت میں ناجائز تصرف پر تاوان

س… میں نے اپنے ایک دوست محمد سلیم صاحب کو اپنے سالے کے ۳۰ہزار روپے مضاربت کے لئے دینا چاہے، جب میں ان کے پاس گیا تو وہ نہیں تھے، ان کے بھائی محمد اسلم صاحب کو میں نے وہ روپے دئیے کہ بھائی کو دے دیں۔ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور محمد اسلم نے وہ روپے بجائے بھائی کے، اس کو دے دئیے، وہ آدمی ابھی تک نہیں آیا کیونکہ وہ ٹھگ تھا۔ کیا ان روپوں کا تاوان محمد اسلم پر آئے گا؟

ج… یہ رقم محمد اسلم کے پاس امانت بن گئی، جس میں اس نے ناجائز تصرف کرکے دُوسرے شخص کو دے دی، لہٰذا اس رقم کا تاوان محمد اسلم پر آئے گا۔

پیپسی، مرنڈا وغیرہ بوتلوں کا پینا کیسا ہے؟

س… آج کل ہمارے یہاں بازار میں پیپسی، مرنڈا، ٹیم اور سیون اَپ یہ چاروں مشروبات اس کے علاوہ دیگر مشروبات بہت مقبول ہیں، خاص کر مندرجہ بالا یہ چار، کہنا یہ چاہتی ہوں کہ ایک مرتبہ پیپسی کی فیکٹری جانے کا اتفاق ہوا، جہاں مجھے پتا چلا کہ شکر اور چینی کا محلول تو پاکستان فیکٹری میں تیار ہوتا ہے لیکن ان مشروبات کا اصل جو بھی مادّہ ہے وہ امریکہ سے آتا ہے، واضح رہے کہ یہ مشروبات پوری دُنیا میں یعنی تمام مسلم اور غیرمسلم ممالک میں بنتے ہیں، فیکٹری والے کے کہنے کے مطابق پوری دُنیا میں اصل مادّہ امریکہ ہی سے آتا ہے، اس ڈَر سے کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔ لیکن یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہم لوگوں نے ان مشروبات سے پرہیز کرنا شروع کردیا ہے، کیونکہ اب تو ہر جگہ ان ہی مشروبات سے تواضع کی جاتی ہے، نہ پینے پر لوگ کیا سے کیا سمجھتے ہیں، اور یہ جو اکثر چیزیں غیرممالک کی ہوتی ہیں، استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اور ان مشروبات کو استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

ج… میں تو ان مشروبات کو پیتا ہوں، اگر کسی کو تحقیق ہو کہ یہ مشروبات ناپاک ہیں تو نہ پیئے۔

کیا مقروض آدمی سے قرض دینے والا کوئی کام لے سکتا ہے؟

س… انسان ایک دُوسرے کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتا، خاص کر بھائی بہنوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے بغیر، اب انہیں قرض دینے کے بعد بحالتِ مجبوری ان سے کوئی کام لے سکتے ہیں یا یہ سود ہوگا؟ ایک بزرگ کے بارے میں آتا ہے کہ کسی کو قرض دینے کے بعد دُھوپ میں اس کے گھر کے سائے سے بچ کر گزرے اور فرمایا کہ: یہ سود تھا۔ لیکن ہم درج بالا لوگوں کے بغیر کیسے گزارا کریں؟

ج… اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جو کام قرض دئیے بغیر بھی لے سکتے ہیں، ایسا کام لینا سود نہیں، اور اگر یہ کام قرض کی وجہ ہی سے لیا ہے تو یہ بھی ایک طرح کا سود ہے۔ بزرگ کے جس قصے کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، وہ بزرگ ہمارے اِمام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ہیں، مگر ان کا یہ عمل تقویٰ پر تھا فتویٰ پر نہیں۔

لڑکیوں کی خرید و فروخت کا کفارہ

س… جو لوگ لڑکیاں فروخت کرتے ہیں، ان میں لینے اور دینے والا دونوں پر جرم عائد ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی توبہ کرنا چاہے تو کیا توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ یا پھر کفارہ کیا ہے؟

ج… لڑکیوں کی خرید و فروخت سخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جو لوگ اس میں مبتلا ہیں، ان کو اس گھناوٴنے عمل سے توبہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی توبہ کرنی چاہئے، یہی توبہ و اِستغفار اس کا کفارہ ہے۔

قطع رحمی کا وبال کس پر ہوگا؟

س… میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ: “جس نے اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک تعلق توڑے رکھا، گویا اس نے اسے قتل کردیا۔” عرض یہ ہے کہ اگر ایک شخص کسی سے زیادتی کرے تو یہ حدیث کس شخص پر ہے کہ اگر معلوم ہے تو وہ پہلے بولے گا یا یہ کہ جس سے زیادتی ہوئی؟ کیا یہ گناہ دونوں پر ہوگا؟

ج۱:… یہ حدیث صحیح ہے (مشکوٰة شریف ص:۴۲۸ میں ابوداوٴد کے حوالے سے نقل کی ہے، ابوداوٴد کے علاوہ مسندِ احمد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی ہے):

“عن ابی خراش السلمی رضی الله عنہ انہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: من ھجر اخاہ سنةً فھو کسفک دمہ۔ رواہ ابوداود۔” (مشکوٰة ص:۴۲۸)

ترجمہ:… “حضرت ابی خراش رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جس شخص نے اپنے بھائی سے ایک سال تک تعلق توڑے رکھا، اس نے گویا اس کو قتل کردیا۔”

مقصود اس حدیث سے قطع تعلق کے وبال سے ڈرانا ہے کہ وہ اتنا سنگین گناہ ہے جیسے کسی کو قتل کردینا۔

۲:… دو شخصوں کے درمیان رنجش اسی وقت ہوتی ہے جبکہ ایک شخص دُوسرے پر زیادتی کرے، اور جس شخص پر زیادتی ہوئی ہو ظاہر ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس کو بدلہ لینے کا بھی حق ہے، (بدلے کی نوعیت اہلِ علم کے سامنے پیش کرکے ان سے دریافت کرلیا جائے کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟) اور طبعی طور پر رنج ہونا بھی لازم ہے، لیکن شریعت نے تین دن کے بعد ایسا رنج رکھنے کی اجازت نہیں دی کہ بول چال اور سلام دُعا بھی بند رہے۔

۳:… جن دو شخصوں یا بھائیوں کے درمیان رنجش ہو، ان کو چاہئے کہ تین دن کے بعد رنجش ختم کردیں، اور جو شخص اس رنجش کو ختم کرنے میں پہل کرے وہ اَجرِ عظیم کا مستحق ہوگا۔

۴:… اور جس شخص نے اپنے بھائی پر زیادتی کی ہو، وہ اپنے بھائی سے معافی مانگے اور اس کی تلافی ہوسکتی ہو تو تلافی بھی کرے۔

۵:… اگر کوئی شخص ظالم ہے، ظلم و زیادتی سے باز نہیں آتا تو اس سے زیادہ میل جول نہ رکھا جائے، لیکن ایسا قطع تعلق نہ کیا جائے کہ سلام کلام بھی بند کردیا جائے اور مرنے جینے میں بھی نہ جایا جائے، بلکہ جہاں تک اپنے بس میں ہو اس کے شرعی حقوق ادا کرتا رہے۔

۶:… یہ قطع تعلق اگر دُنیوی رنجش کی وجہ سے ہو تو جیسا کہ اُوپر لکھا گیا، گناہِ کبیرہ ہے، لیکن اگر وہ شخص بددِین اور گمراہ ہو تو اس سے قطع تعلق دِین کی بنیاد پر نہ صرف جائز بلکہ بعض اوقات ضروری ہے۔

والد کے چھوڑے ہوئے اسلامی لٹریچر کو پڑھیں، لیکن ڈائجسٹ اور افسانوں سے بچیں

س… تقریباً ڈھائی سال قبل میرے ابو کا انتقال ہوچکا ہے، ہم سب بہن بھائیوں کو اپنے ابو سے شدید عقیدت و محبت تھی اور ہے۔ ہمارا گھرانہ مذہبی گھرانہ ہے اور ہم تمام بہن بھائی صوم و صلوٰة کے پابند ہیں اور اسلام کو ہی اپنے لئے ذریعہٴ نجات سمجھتے ہیں۔ اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ: “اولاد، والدین کے لئے صدقہٴ جاریہ ہوتی ہے” چنانچہ امکان بھر نیک اعمال کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ابو ایک علم دوست انسان تھے، اس لئے ان کی لاتعداد کتابیں ہیں جن میں زیادہ تر اسلامی کتب، قرآنِ کریم وغیرہ ہیں، لیکن ان میں کچھ ڈائجسٹ وغیرہ (افسانوں کی کتابیں) بھی ہیں، جو کئی درجن پر محیط ہیں۔ ابو کی شدید عقیدت کی بنا پر ہم نے ابو کی ہر چیز کو بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے، اور اس کے بالکل دُرست استعمال کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کا اَجر و ثواب ابو کو پہنچتا رہے، لیکن ان ڈائجسٹوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے؟ کیونکہ عقیدت کی بنا پر کوئی بھی (بہن، بھائی) ان کو رَدّی پیپر والے کو دینے کو تیار نہیں ہوگا، بصورت دیگر یہ ڈائجسٹ گھر میں رہیں تو پھر ضرور کوئی نہ کوئی اس میں دِلچسپی لے گا۔ تو میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر ان ڈائجسٹوں کو میرے بہن بھائیوں میں سے کوئی پڑھے تو اس کا پڑھنا گناہ تو نہیں ہوگا؟ یا اس کے پڑھنے یا اپنے پاس رکھنے سے میرے ابو کو کوئی تکلیف یا اذیت تو نہیں پہنچے گی؟

ج… ناول، افسانے اور ڈائجسٹ قسم کی چیزیں اگر فحش اور مخربِ اخلاق نہ ہوں تو ان کا پڑھنا مباح ہے، لیکن فی الجملہ اضاعتِ وقت ہے، اس لئے اگر کبھی تفریح کے لئے یہ چیزیں پڑھ لی جائیں تو گنجائش ہے، لیکن نوعمر لڑکے لڑکیوں کو ان چیزوں کی چاٹ لگ جائے تو وہ حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں اور ضروری مشاغل کو چھوڑ کر انہی کے ہو رہتے ہیں، اس لئے نوجوانوں کو ان سے بچنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

چونکہ آپ کے والد ماجد اپنے بچوں کے لئے ان کا پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے، اس لئے بہتر ہوگا کہ ان کو گھر میں رکھا ہی نہ جائے۔ والد ماجد کے ساتھ آپ لوگوں کی عقیدت و محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ آپ ان ڈائجسٹوں کو بھی سنبھال کر رکھیں، بلکہ صحیح تقاضا یہ ہے کہ ان کو گھر سے نکال دیں، خواہ ضائع کردیں یا فروخت کردیں، آپ گھر رکھیں گے یا پڑھیں گے تو آپ کے والد ماجد کو رُوحانی اذیت ہوگی۔

پاکی کے لئے ٹشو پیپر کا استعمال

س… کیا پیشاب خشک کرنے کے لئے یا دُوسری نجاست کو صاف کرنے کے لئے ڈھیلوں کی جگہ آج کل بازار میں عام طور پر Toilet Tissue Paper کو استعمال کیا جاتا ہے، جائز ہے؟ اگر کاغذ کے استعمال کے بعد پانی سے صفائی کرلی جائے تو صفائی مکمل ہوگی یا نہیں؟

ج… جو کاغذ خاص اسی مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے اس کا استعمال دُرست ہے، اور اس سے صفائی ہوجائے گی۔

توبہ بار بار توڑنا

س… میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں، کئی دفعہ توبہ کرکے توڑ چکا ہوں، کیا میرے بار بار توبہ توڑنے کے بعد بھی میری توبہ قبول ہوگی؟

ج… سچے دِل سے توبہ کرلیجئے، حق تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں، سو سال کا کافر بھی بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں، اس لئے مایوس نہ ہونا چاہئے۔ باقی بیماری کا علاج کراتے رہیں، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائیں۔

گالیاں دینے والے بڑے میاں کا علاج

س… ہمارے محلہ میں ایک صاحب جو بوڑھے ہیں، مسجد میں بعض اوقات گالیاں دینے لگتے ہیں، کیا ایسے شخص کو جواباً کچھ کہنا جائز ہے؟

ج… بڑے میاں ضعف کی وجہ سے مجبور ہیں، ان کے سامنے کوئی بات ایسی نہ کی جائے کہ ان کو غصہ آئے۔

عملی نفاق

س… کئی لوگ جو ظاہر سے تو بہت نیک ہیں، تبلیغ میں بھی جاتے ہیں، لیکن اس مبارک کام کی آڑ میں غلط حرکتیں کرتے ہیں، کیا ایسے لوگ حدیث کی روشنی میں منافق ہیں؟

ج… عملی نفاق ہے۔

علم الاعداد سیکھنا اور اس کا استعمال

س… میں نے شادی میں کامیابی و ناکامی معلوم کرنے کا طریقہ سیکھا ہے، جو اعداد کے ذریعہ نکالا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ غیب کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔

ج… غیب کا علم، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے علم الاعداد کی رُو سے جو شادی کی کامیابی یا ناکامی معلوم کی جاتی ہے یا نومولود کے نام تجویز کئے جاتے ہیں، یہ محض اٹکل پچو چیز ہے، اس پر یقین کرنا گناہ ہے، اس لئے اس کو قطعاً استعمال نہ کیا جائے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے بعد مکہ کو وطن کیوں نہیں بنایا؟

س… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کی طرف فرمائی، لیکن جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو وہاں مستقل رہائش کیوں اختیار نہیں کی؟

ج… مہاجر کے لئے اپنے پہلے وطن کا اختیار کرنا جائز نہیں، ورنہ ہجرت باطل ہوجاتی ہے۔

فلور مل والوں کا چوری کی گندم کا آٹا بناکر بیچنا نیز اس میں شریک ملازمین کا حکم

س… میں ایک پرائیویٹ فلور مل میں ملازم ہوں، میری ڈیوٹی گندم کے ان سرکاری گوداموں پر ہے جو فلور ملوں کو اپنے کوٹے کے مطابق گندم فراہم کرتے ہیں۔ محترم مفتی صاحب! ان سرکاری گوداموں سے ہم جس وقت ملوں کو گندم فراہم کرتے ہیں تو گودام کا اے ایف سی جو کہ سرکاری ملازم ہے، ہر گاڑی کو وزن کرتے وقت چالیس سے ساٹھ ستر کلوگرام تک گندم کاٹتا ہے، اس بات کا علم تمام مل مالکان کو ہے اور وہ اس بات پر تقریباً راضی بھی ہیں۔ دُوسری بات یہ ہے کہ ان سرکاری گوداموں سے اے ایف سی حضرات چوری چھپے کئی کئی ٹرک گندم پرائیویٹ ریٹ پر ملوں کو فراہم کرتے ہیں اور یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی بجائے سرکاری اہلکار آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ اب جناب سے اس مضمون کی مناسبت سے چند مسائل پوچھ رہا ہوں، اُمید ہے تفصیلی جوابات عنایت فرمائیں گے۔

س… کیا مل مالکان ان سرکاری ملازموں سے جو چوری چھپے گندم بیچتے ہیں، پرائیویٹ ریٹ پر یہ گندم خرید سکتے ہیں؟

ج… یہ تو ظاہر ہے کہ سرکاری ملازمین محض گورنمنٹ کے نمائندے ہیں، لہٰذا ان کا سرکاری گوداموں کے غلّے کو چوری چھپے بیچ دینا جائز نہیں، اور نہ مل والوں کو چوری کا مال خریدنا جائز ہے۔ یہ لوگ معمولی منفعت کے لئے اپنی روزی میں حرام ملاتے ہیں اور اپنی آخرت تباہ کرتے ہیں۔ چور کی سزا شریعت نے ہاتھ کاٹنا رکھی ہے، جب ان کے گناہ پر ان کو سزائیں ملیں گی تو اس وقت کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں ہوگا، اور جو مل مالکان اس خیانت میں شریک ہیں، ان کو بھی برابر سزا ملے گی۔

س… مل مالکان اگر اس گندم کو خرید کر مل میں پسائی کرکے آٹے کی صورت میں بیچیں تو کیا ان کی یہ کمائی حلال ہے یا حرام؟

ج… اگر مل مالکان کو یہ علم ہے کہ یہ چوری کا مال ہے تو ان کے لئے نہ پیسنا حلال ہے نہ اس کی اُجرت حلال ہے۔

س… میں بحیثیت مل ملازم اس گندم کو گاڑیوں میں لوڈ کرکے، وزن کراکر مل کو سپلائی کرتا ہوں، مجھے مل سے ماہانہ صرف اپنی تنخواہ ملتی ہے، یا بعض ملازمین کو فی لوڈ اپنا کمیشن ملتا ہے، کیا ہمارے لئے یہ تنخواہ یا کمیشن حلال ہوا یا حرام؟

ج… اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ چوری کا مال گاڑی پر لادا جارہا ہے تو آپ بھی شریکِ جرم ہیں، اور قیامت کے دن اس کے محاسبہ سے بَری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

س… جو گاڑیاں اس گندم کو لوڈ کرکے ملوں کو پہنچاتی ہیں اور فی لوڈ اپنا کرایہ وصول کرتی ہیں، کیا ان کے لئے یہ کرایہ حلال ہے یا حرام؟

ج… اگر معلوم ہے کہ یہ حرام کا غلہ ہے تو گاڑی والے کے لئے اس کا اُٹھانا بھی حلال نہیں، اور اگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ چوری کا مال ہے، تو معذور ہیں۔

س… جو مزدور اس گندم کو لوڈ کرتے ہیں اور پھر ملوں میں اُتارتے ہیں، یہ لوگ فی بوری اپنا کمیشن لیتے ہیں، کیا یہ کمیشن ان کے لئے حلال ہے یا حرام؟

ج… اس کا حکم بھی وہی ہے کہ اگر وہ چوری کا مال گاڑی پر اُٹھارہے ہیں یا اُتار رہے ہیں تو وہ بھی شریکِ جرم ہیں، ورنہ لاعلمی کی بنا پر معذور ہیں۔

وصلی الله تعالٰی علٰی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین