راہیٔٔ کرب و بلامنزل بہ منزل

راہیٔٔ کرب و بلامنزل بہ منزل
تالیف
امیر محمد اکرم اعوان
دارلعرفان۔ منارہ۔ چکوال
انتساب
استاذ نا المکرم’ مجدد طریقت بحر العلوم
حضرت العلام اللہ یار خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام جن کی نظر کرم نے مجھ ناکارہ خلائق کو یہ استطاعت عطا فرمائی۔​
اللہ ان کے فیوضات سے عالم کو منور فرمائے’
آمین!
دیباچہ​
دورِ حاضر میں جہاں اور بے شمار رسومات نے دین میں داخل ہو کر خلق خدا کی گمراہی کے اسباب پیدا کئے ہیں وہاں سب سے زیادہ مؤثر وہ افسانہ ہے جو جنگ کربلا کے نام سے مسلمانوں کو ایک خاص مذہبی رنگ میں سنایا جاتا ہے۔ چونکہ اس واقعہ جانکاہ کا تعلق جذبات سے ہے سو عموماً یہ نہیں سوچا جاتا ہے کہ آخر یہ سب کیا تھا’ کس نے کیا’ کیوں کیا اور پس پردہ کون سے ہاتھ تھے جو زمین کربلا کو خانواداۂ نبی کریمﷺ کے خون سے لالہ زار بنا گئے۔ کتنے سنگدل تھے وہ لوگ جنہیں کوئی جذبہ اس ظلم عظیم سے نہ روک سکا اور کس قدر دشمنی ان کے دلوں میں تھی۔ نہ صرف اولادِ رسولﷺ سے بلکہ اصل دشمنی دین محمدﷺ سے یا اس دعوت سے تھی جس کے حضورﷺ داعی تھے۔
کس طرح انہوں نے سازش کر کے حضرت حسینرضی اللہ عنہ کو پھانسا’ کیسے ظلم ڈھائے اور پھر کس طرح آج تک اس سے نتائج حاصل کر رہے ہیں۔ ان چند سطور میں سب سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان جذبات سے الگ ہو کر ٹھنڈے دل سے اس واقعہ کا جائزہ لیں اور پھر دیکھیں کہ ان کے اصل دشمن کون ہیں اور وہ کس طرح ان کا دین برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
تفصیل کے لیے اعلیٰ حضرت بحرالعلوم حضرت العلام مولانا اللہ یار خان : کی تالیفات جو اس موضوع پر اتھارٹی ہیں’ کا مطالعہ کیا جائے جن کی فہرست کتاب کے آخر میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صحیح علم اور درست عقائد کے ساتھ توفیق عمل عطا فرمائے اور اس ملک خداداد کو رہتی دنیا تک قائم رکھے اور اسے صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائے۔
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد
دعا گوئے عالم
امیر محمد اکرم اعوان۔ دارالعرفان
(منارہ) چکوال
Last edited: ‏اکتوبر 24, 2014
qureshi, ‏اکتوبر 24, 2014 #1

qureshi
وفقہ اللہ
رکن
پیغامات:289
موصول پسندیدگیاں:204
جگہ:Afghanistan
پہلی منزل:
سانحۂ کربلا تاریخ اسلام میں ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس منزل کے مسافر کوئی عام آدمی نہ تھے بلکہ خاندان نبوتﷺ کے چشم و چراغ تھے۔ اخلاقِ کریمانہ کے وارث اور انوارِ نبوتﷺ کے امین۔ ان کے امیر حضرت حسینرضی اللہ عنہ’ نہ صرف صورت میں حضورﷺ کے مشابہ تھے بلکہ سیرت نبویﷺ کا بھی نمونہ تھے اور علوم و معارف کاخزینہ یہ وہ رخِ روشن تھا جس پر محمدﷺ کے بوسے ثبت تھے اور یہ جسم جسِم اطہرﷺ کا ہی حصہ تھا اس میں دوڑنے والا خون محمدﷺ کا مبارک خون تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ٢٢ رجب ٦٠ھ میں انتقال فرمایا۔ ان کے انیس سالہ دور حکومت میں نہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو شکایت پیدا ہوئی اور نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے شکوہ فرمایا بلکہ یہ حق ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جیساکہ تلخیص شاقی میں ابو جعفر طوسی صفحہ نمبر ٤٩ پر لکھتا ہے:۔
انہ لا خلاف ان الحسن بایع معاویة وسلم الامر الیہ وخلع نفسہ’ واخذ العطایامنہ’وجوائزہ۔ ٥
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت حسنرضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور خلافت ان کے سپرد کر دی اور خود اس سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہرضی اللہ عنہ سے عطیے اور تحائف لیتے رہے۔
یعنی خود حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حکومت ان کے سپرد کر دی اور پھر حال یہ رہا کہ مناقب شہر بن آشوب ٤:٣٣ کے مطابق:
ویوف علیہ حقہ کل سنة خمسون الف درھم فعاھدہ علیٰ ذالک وحلف بالو فاء بہ
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہرضی اللہ عنہ سے عہد لیا کہ مجھے ہر سال پچاس ہزار درہم دیں گے انہوں نے بقید حلف یہ معاہدہ کیا۔
حضرت حسنرضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار فرمائی اور کوفہ چھوڑ دیا جس سے بعض کوفی لیڈر سخت ناراض تھے اور مدینہ منورہ تک پہنچے بلکہ کوفیوں کے ایک سردار سلیمان بن صردنامی نے تو یوں خطاب کیا’ اسلام علیک یا مذل المومنین’ کہ اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے اسلام و علیکم’ تو آپؓ نے جواباً وعلیکم اسلام فرما کر فرمایا:ـ
‘‘میں مومنوں کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوں بلکہ انہیں عزت دینے والا ہوں’ میں نے لوگوں سے قتل و جدال کو دفع کیا۔’’
یہاں سے ناامید ہو کر انہوں نے حضرت حسینرضی اللہ عنہ کو بہکانا چاہا مگر ابوحنیفہ دینوری کی تصنیف ‘‘اخبار الطّوال’’ کے مطابق انہوں نے فرمایا:ـ
‘‘ہم نے بیعت کر لی ہے اور عہد کر لیا ہے اور ہمارے بیعت کے توڑنے کی کوئی سبیل نہیں۔’’
چنانچہ یہ فتنہ وقتی طور پر دب گیا اورحضرت امیر معاویہرضی اللہ عنہ کا دور اندرونی استحکام کے ساتھ بیرونی فتوحات کا دور ثابت ہوا۔ شمالی افریقہ کا بڑا حصہ فتح ہوا’ افغانستان اور صوبہ سرحد فتح کیا گیا’ قسطنطنیہ کا دوبارہ محاصرہ ہوا جس میں ایک بار تو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور حضرت ابوایوب انصاریرضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی نے دورانِ محاصرہ وفات پائی اور شہر پناہ کے متصل دفن کئے گئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن زبیررضی اللہ عنہ جیسے حضرات بھی شریک تھے اور سب سے پہلا بحری جہاد بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا اور مسلمانوں کے بحری فوج کے بانی یہی مردِ خدا تھے۔
ان کے انتقال پر حکومت یزید کو ملی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی اور حضرت عبداللہ ابن زبیررضی اللہ عنہ نے بھی یزید کی بیعت نہیں کی بلکہ مدینہ منورہ سے چل کر مکہ مکرمہ کو اپنی قیام گاہ بنایا۔ چنانچہ شعبان’ رمضان’ شوال’ ذیعقدہ یہ چار مہینے بھی کسی شورش کا پتہ نہیں دیتے بلکہ طبری سے یہ نشان ملتا ہے کہ حضرت حسینرضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ حرم کعبہ میں اکٹھے نمازیں ادا فرماتے اور وہیں بیٹھ کر گفتگو فرماتے تھے۔
(جاری ہے)
qureshi, ‏اکتوبر 24, 2014 #2
محمد نبیل خان نے اسے پسند کیا ہے۔

qureshi
وفقہ اللہ
رکن
پیغامات:289
موصول پسندیدگیاں:204
جگہ:Afghanistan
دوسری منزل:
جب یہ حال کوفیوں کو معلوم ہوا تو ان کی رگ شرارت پھڑکی اور انہوں نے پھر سے سوئے ہوئے فتنے کو جگانا چاہا۔ پھر اتفاق سے اس وقت کوفہ کے گورنر حضرت نعمان بن بشیر انصاریt تھے جو معروف صحابی اور حددرجہ نیک لیکن نہایت سیدھے سادے انسان تھے۔ اہل کوفہ نے ان کی نیکی سے ناجائزہ فائدہ اٹھا کر کوفہ میں شورش پیدا کی اور بقول طبری حضرت حسینt کولکھا کہ یزید نے ہم سے زبردستی بیعت لی ہے مگر ہم سب آپؓ پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں۔ ہم نماز جمعہ میں والئی کوفہ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے’ آپؓ ہم لوگوں میں آ جائیے’ بلکہ یکے بعد دیگرے تین وفود کوفیوں کے مکہ مکرمہ آئے جن میں سے دو کو حضرت حسینt نے لوٹا دیا مگر تیسرا وفد اپنے ساتھ ایسے خطوط لایا جس میں قسمیں دی گئی تھیں اور رسول اللہﷺ کا واسطہ دیا گیا تھا کہ اگر آپؓ تشریف نہ لائے توروز محشر ہم آپؓ کو دامن کشاں حضورﷺ کے سامنے پیش کریں گے کہ انہوں نے ہماری رہنمائی قبول نہ فرمائی تھی۔ آخر حضرت حسینt نے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلمt بن عقیل بن ابی طالب کو طلب فرمایا کر حکم دیا کہ :
‘‘تم کوفہ روانہ ہو جاؤ اور دیکھو کہ یہ لوگ مجھے کیا لکھ رہے ہیں اور اگر سچ لکھ رہے ہیں تو میں وہاں چلا جاؤں گا۔’’ (طبری)
چنانچہ حضرت مسلمt مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے کوفہ پہنچے اور عوسجہ نامی شخص کے ہاں اترے جب آپؓ کی آمد کا چرچا ہوا تو لوگ آ کر بیعت کرنے لگے حتیٰ کہ بارہ ہزار تک تعداد پہنچ گئی تو آپؓ نے وہاں سے منتقل ہو کر ہانی بن عروہ مراوی کے گھر قیام فرمایا اور حضرت حسینt کو لکھ بھیجا کہ کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کی ہے اور مزید ہو رہی ہے’ آپؓ ضرور تشریف لے آئیے۔ (طبری)
قاصد مکہ مکرمہ چلا گیا تو بعد میں حالات نے پلٹا کھایا اور کوفہ کا گورنر بدل دیا گیا۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیرt کی جگہ عبداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر کے حالات سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا جس کے واقعات طبری میں بالتفصیل درج ہیں۔ القصہ پہلے تو اسے بھی قتل کرنے کی سازش ہوئی مگر وہ بچ گیا اور مختلف قبیلوں کے سرداروں کو بلا کر سمجھایا اور دھمکایا کہ اس سودے میں تمہیں نقصان ہوگا۔
چنانچہ یہ لوگ اپنی بات سے پھر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت مسلمt کے ساتھ کوئی آدمی بھی نہ رہا حتیٰ کہ کوئی شخص پناہ کیا دیتا’ راستہ تک بتانے والا کوئی نہ تھا اور نہ کوئی ان سے بات کرتا تھا۔ اندریں حال وہ گرفتار ہو کر شہید ہوئے اور شہادت سے پہلے ان سب حالات کو قلمبند فرمایا۔ جب گرفتار ہوئے توعمر بن سعد ابن ابی وقاصt کو یہ چھٹی دی۔ یہ اعلیٰ عہدے پرفائز تھے اور مشہور فاتح جرنیل اور صحابی رسولﷺ سعد بن ابی وقاصt کے صاحبزادے تھے جنہیں حضرت مسلمt اور حضرت حسینt سے قرابت قریبیہ بھی حاصل تھی۔ انہوں نے یہ خط حضرت حسینt کی خدمت عالیہ میں روانہ فرمایا جو مکہ مکرمہ سے بمعہ اہل و عیال کوفہ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ باوجود یہ کہ حضرت عبداللہ بن عباسt’ حضرت عبداللہ بن جعفر طیارt جو حضرت زینب بنت علیr کے خاوند اور حضرت حسینt کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی بھی تھے’ جیسی ہستیوں نے کوفہ جانے سے بہت روکا۔ اکثر اکابر صحابہ] وہاں موجود تھے وہ بھی روکنے والوں میں شامل تھے جیسے حضرت ابوسعید خدریt اور حضرت واثلہ اللیثیt و دیگر حضرات’ مگر حضرت حسینt نے اپنا ارادہ تبدیل نہ فرمایا۔
دراصل یہ حضرت حسینt کی رائے سے اختلاف اس لئے نہیں کر رہے تھے کہ انہیں حضرت کی رائے قبول نہ تھی بلکہ اہل کوفہ پر اعتبار کرنے کے حق میں نہ تھے۔ صورت یہ تھی کہ تمام ملک میں یزید کی بیعت ہو چکی تھی اور اس میں صحابہ کرام] بھی جو اس وقت دارِدنیا میں تشریف رکھتے تھے’ شامل تھے۔ قابل ذکر ہستیوں میں صرف دو حضرت عبداللہ بن زبیرtاور حضرت حسین بن علیt تھے’ جنہوں نے تاحال بیعت نہ کی تھی۔ اب کوفہ والوں کے خطوط اور وفود آئے تو حضرت حسینt کا مؤقف یہ تھا کہ یا تو حکومت اور حاکم ان ہزاروں افراد کو’ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم سے زبردستی بیعت لی گئی’ مطمئن کرے یا پھر حکومت چھوڑ دے اور ایسا امیر بنایا جائے جسے سب مسلمان قبول کریں’ یہ فیصلہ برحق تھا۔ یہ سیاسی اختلاف تھا اور حضرت حسینt اس کی اصلاح چاہتے تھے یہ کبھی بھی کفر و اسلام کی جنگ نہ تھی’ نہ فریقین میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کو کافر کہتا تھا۔ اب منع کرنے والوں کا تجربہ اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی رائے یہ تھی کہ کوفیوں پر اعتماد کرنا درست نہیں۔ یہ غلط کہہ رہے ہیں اور یہ کوئی گہری چال اور سازش ہے جو بعد میں درست ثابت ہوئی۔
تیسری منزل:
حضرت حسینt مکہ مکرمہ سے ذوالحجہ ٦٠ھ میں روانہ ہوئے۔ شیعہ حضرات ٨ ذی الحجہ کو روانگی نقل کرتے ہیں حالانکہ یہ تاریخ حجاج کی مکہ مکرمہ سے منیٰ کو روانگی کی ہے۔ گویا چار ماہ مکہ مکرمہ قیام فرمانے کے بعد حضرت حج نہیں کرتے اور عین حج کی تاریخ کو شہر سے چل دیتے ہیں۔ آخر کیوں’ کون سی ایسی آگ لگ رہی تھی جس نے حج کی فرصت نہ دی۔ ان کے علم کے مطابق تو کوفہ میں حضرت مسلمt کی بیعت ہو رہی تھی۔ کوئی حالت جنگ نہ تھی صرف کوفہ پہنچنا تھا۔ تو پھر منیٰ’ عرفات اور حج کی برکات کو کیوں چھوڑتے۔
وہ روانہ ہوئے یا نہ یہ علیحدہ بات ہے مگر شیعہ حضرات کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں ہر حال میں یکم محرم کو کربلا پہنچنا چاہئے ورنہ دس روز کا جو ڈرامہ شیعوں نے کربلا میں سٹیج کیا ہے وہ نہ ہو سکے گا اورکربلا مکہ مکرمہ سے بائیس منازل سفر ہے’ پھر اس دور میں منزل کے علاوہ کسی جگہ قیام نہیں تھا۔ خصوصاً جب مستورات اور بچوں کا ساتھ ہو۔ سویہ مؤرخ انہیں حج نہیں کرنے دیتے اور روزانہ ایک منزل بھی ضرور چلاتے ہیں جو مسلسل ٢٢ روز عورتوں اور بچوں کے لیے تقریباً محال ہے۔ حالانکہ خود طبری نے جلد ٤ صفحہ ١٩٧ پر لکھا ہے کہ آپؓ حج کے بعد کوفہ روانہ ہوئے۔
ان کی بھی مجبوری ہے کہ اگر حضرت حسینt حج کریں تو پھر آٹھ کو منیٰ’ نو کو عرفات اور رات مزدلفہ دس کو واپسی منیٰ اور قربانی پھر گیارہ’ بارہ’ تیرہ کو کنکریاں مارنا ارکان حج کی تکمیل’ طواف و داع وغیرہ تو اس طرح کہیں چودہ کو فارغ ہو کر پندرہ کو نکلیں’ کسی منزل پہ ایک آدھ دن قیام بھی کریں تو یہ حضرات بمشکل دس محرم کو کربلا پہنچ پاتے ہیں اورشہید ہو جاتے ہیں۔ اس ایک روزہ جنگ میں وہ بھلا افسانے کیسے سمائیں جو دس دنوں میں بھی نہ سما رہے اور شہادت حسینt کو ایک فسانہ آزاد بنا کر دکھا رہے ہیں۔ لیکن یہ مجبوری شیعہ حضرات کی ہے حضرت حسینt کی نہ تھی۔ انہوں نے حج کیا اور دورانِ حج جبکہ تمام عالم کے مسلمان جمع تھے’ کسی کو اپنے ساتھ کوفہ چلنے کی دعوت نہ دی اور نہ یزید کے خلاف اعلان جنگ فرمایا۔ ورنہ کیا نواسہ رسولِ مقبولﷺ کی بات میں اتنا اثر بھی نہ ہوتا کہ لوگ ساتھ چل دیتے۔
اصل بات یہ تھی کہ حضرتؓ جنگ کے لیے نکلے ہی نہ تھے۔ مقصد اصلاحِ احوال تھا ورنہ جنگ کے لیے کون مستورات اور بچوں کو لے کر بغیر کسی فوجی قوت کے چل نکلے گا۔ آپؓ کا ارادہ تو کوفہ میں قیام فرمانے کا تھا جہاں آپؓ کا گھر پہلے سے موجود تھا اور پھر کوفہ والوں کی مسلسل چٹھیوں اور دعوتوں نے آپؓ کا میلان اس طرح کر دیا تھا۔ اب اگر حکومت کوفہ والوں کو مطمئن کر دیتی تو حضرتؓ کا حکومت سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ اگر نہ کر سکتی اور آپؓ ان کی قیادت و سیاست قبول فرماتے تو حق بجانب تھے’ لہٰذا آپؓ چل دیئے۔ اثنائے راہ میں وہ خط ملا جو حضرت مسلمt نے شہادت سے قبل تحریر کیا تھا اور حضرت مسلمt کی شہادت کی خبر بھی۔ آپؓ نے احباب سے مشورہ فرمایا کہ واپس چلیں یا کوفہ پہنچیں تو حضرت حسینt کا فیصلہ کوفہ پہنچنے کا تھا۔ ممکن ہے آپؓ کا خیال ہو کہ میرا ذاتی طور پر وہاں موجود ہونا اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے نیز حضرت مسلمt آخر کیسے شہید ہوئے’ وہ کوفی کہاں گئے جن کی دعوت تھی اور قاتل کون؟ نیز آپؓ کا ارادہ تو کوفہ میں قیام کا تھا جس کے لیے بہرحال کوفہ تو جانا ہی تھا۔ اب ذرا کوفہ کو نقشہ میں دیکھیں’ سامنے ہیں منازل کے نام۔
(۱) بستان عامر(۹) زیذہ(۱۶) ثعلبہ
(۲) ذات عراق(۱۰) مغنیتہ الماوان(۱۷) اشقوق
(۳) الغمر(۱۱) معدن نقرہ(۱۸) زبالہ
(۴) المصلح(۱۲) الحاجز(۱۹) اقعاع
(۵) افیعمیہ(۱۳) سمیرا(۲۰) عقبہ
(۶) العمق(۱۴) توز(۲۱) واقصہ
(۷) سلیلہ(۱۵) فید(۲۲) القرعا
(۸) معدن بن سلیم

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ مکہ سے کوفہ جانے والا قافلۂ کربلا کیسے پہنچا جو کہ کوفہ سے دمشق کے راستہ پر پھر کوفہ سے تینتیس میل کے فاصلے پر ہے۔ ہوا یہ کہ جب یہ قافلہ القرعا کے مقام پر پہنچا تو یہاں فوجی دستے متعین تھے جنہوں نے راستہ روکا اور کمال یہ ہے کہ یہ دستے کوفیوں پر مشتمل تھے۔ وہاں باتیں ہوئیں’ بیعت یزید کا مطالبہ ہوا۔ حضرت حسینt نے فرمایا میں تمہارے بلانے پر آیا ہوں۔ یزید یا حکومت کے ساتھ میرا ذاتی جھگڑا نہیں۔ اب اگر تم اس حکومت پر راضی ہو تو ٹھیک ہے بات ختم’ میراراستہ چھوڑ دو۔ مگروہ نہ مانے اور بیعت پر اصرار کرتے رہے۔ یہاں بھی یہی ملتا ہے کہ انہوں نے خط بھیجنے سے بے خبری ظاہر کی مگر حضرت حسینt نے ایک ایک کا نام پکار کر فرمایا اے فلاں کیا تو نے چٹھی نہیں لکھی’ اے فلاں ابن فلاں کیا تو نے قاصد نہیں بھیجا۔
الغرض بہت ردوکد کے بعد یہ طے ہوا کہ چلو سب دمشق چلتے ہیں وہاں یزید کے روبرو فیصلہ ہوگا۔ چناچہ یہ قافلہ اورفوجی القرعا سے دمشق کو چلے جبکہ کوفہ ایک سمت چھوڑ دیا اور کربلا وہ مقام ہے جو القرعا سے تیسری منزل ہے اور کوفہ سے دمشق نیز مکہ مکرمہ سے آنے والا راستہ بھی مل جاتا ہے جیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے اور تمام مقامات آج بھی روئے زمین پر موجود’ نقشہ میں موجود’ دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ منازل کے نام ممکن ہے بدل گئے ہوں مگر راستے وہی ہیں’ پہلے کچے تھے’ اب پختہ سڑکیں بن چکی ہیں۔
یہ بات کہ یہاں کوئی کفر و اسلام کا مقابلہ نہیں تھا’ درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضرت حسینtاپنی رائے ہرگز تبدیل نہ فرماتے کہ یزید تو اپنی جگہ موجود ہے اورحضرت حسینt نے کوفی لشکر کے سامنے جو مطالبہ رکھا وہ تین حصوں پر مشتمل تھا۔ اول’ مجھے واپس جانے دو’ دوم مجھے یزید کے پاس لے چلو۔ سوم’ مجھے کسی دوسرے ملک یا سرحدات کی طرف نکل جانے دو۔ چنانچہ یہاں ایم اے شریعتی لکھتا ہے:۔
Imam Hussain offered to return back or to go to border to cross in to non-muslim country rather then acknowlege (The Caliphate of Yazid, By M.A Shriati P.29)
نیز یہ بات صفحاتِ تاریخ میں موجود ہے اور فریقین کے نزدیک مسلم کہ حضرت حسین نے فرمایا کہ تمہارے ہاتھ پر بیعت نہیں کر سکتا’ مجھے یزید کے پاس لے چلو میں اس کی بیعت کر لوں گا۔ ملاحظہ ہو (البدایہ والنہایہ ص ١٧٠’ ج ٨) اور
الامامتہ والسیاستہ ص ٧ج ٣فیسر نی الی یزید فاضع یدی فی یدہ فیحکم فی مارائی
(ترجمہ) مجھے یزید کے پاس جانے دو میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا پھر وہ میرے بارے میں جو فیصلہ چاہے کرے۔
اور ابن جرید طبری نقل کرتے ہیں:
واماان اصنع یدی فی ید یزید بن معاویہؓ فیری فیما بینی وبینہ’ رایتہ’ برتاریخ الامم والملوک
(ص ٢٣٥ ’ج ٦)
ترجمہ: ‘‘یعنی میں اپنا ہاتھ یزید بن معاویہؓ کے ہاتھ پر رکھ دوں گا پھر دیکھیں گے وہ میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتا ہے۔’’
سو اندازاً ٦ محرم آپؓ القرعا سے نکلے اور سب اسی بات پر متفق ہیں کہ دمشق کو چلتے ہیں۔ چنانچہ ٧ محرم کو العذیب’ ٨ محرم کو قصر مقاتل اور ٩ محرم کو کربلا پہنچے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔
چوتھی منزل:
چوتھی منزل مقامِ کربلا ہے جس کے افسانے اس قدر بیان ہوئے ہیں کہ کسی کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہیں کہ مقام کنارِ دریا پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے ٧٠٠ فٹ سے لے کر ١٧٠٠ فٹ کے درمیان بلندی ہے۔ زمین ریتلی ہے مگر سرسبز بھی ہے۔ ایک طرف چھوٹے چھوٹے چٹانوں کے ٹیلے سے ہیں۔ اُس دور میں اِس منزل کا نام الطف بھی ملتا ہے یعنی بہت مزیدار جگہ۔ یہ پانی بند رکھنے کا فسانہ بھی نرالہ ہے کہ یہاں تو خیمہ گاڑنے کے لیے کیل ٹھونکو توپانی ملتا ہے بھلا دریا سے لانے کی ضرورت کیا ہے اور خود شیعہ روایت میں ہے کہ حضرتؓ نے بیلچہ مارا اور پانی نکل آیا۔ مگرپھر دفن کر دیا کہ ہم دریا سے ہی لیں گے’ کمال ہے۔ اور پھر یہی روای کہتے ہیں کہ معصوم بچے کو اٹھا کر کنارے دریا نام خدا پانی مانگ رہے تھے۔ یاللعجب۔
بہرحال حضرتؓ نے کربلا میں قیام فرمایا اور سستانے کے لیے ١٠ محرم کو سفر ملتوی رکھا۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ کہ کوفی جن پر یہ لشکر مشتمل تھا’ اکثر نماز حضرتؓ کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ کربلا میں ظہر کی اذان ہوئی تو بیشتر آگئے۔ نماز کے بعد حضرتؓ نے پھر وہی بات چھیڑ دی کہ تم عجیب لوگ ہو’ پہلے مجھے دعوت دی پھر خود یزید سے مل گئے۔ چلو یہ بھی ٹھیک ہوا’ مگر اب میرا راستہ روکنے کا تمہیں کیا حق حاصل ہے۔ چنانچہ حُر نے خطوط سے لاعلمی ظاہر کی تو حضرت حسینt نے خطوط سے بھری تھیلیاں منگوائیں اور ڈھیر کر دیں جن میں ہزاروں خطوط تھے اور ١٥٠ خطوط ایسے تھے جن کے حاشیہ پر کئی کئی افراد کے دستخط ثبت تھے۔ یہ ساری بات شیعہ حضرات ‘‘خلاصتہ المصائب’’ کے صفحہ ٥٠ پر بھی موجود ہے۔ جب یہ بات حُر نے کوفہ کے ان سرداروں کے سامنے بیان کی اور خطوط کے بارے میں بتایا تو انہوں نے خوب سمجھ لیا کہ دمشق پہنچ کر کیا ہوگا۔ وہ خود سمجھتے تھے کہ حضرت حسینt کو قتل کرنا سیاسی اعتبار سے یزید کو ہلا کررکھ دے گا اور یہ کسی طرح اس کے حق میں نہیں نیز جرم تو سارا ہمارے سر آئے گا اور ہمارا بچنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن اگر حضرت حسینt کو یہاں شہید کر دیا جائے توخطوط بھی تلف ہو سکتے ہیں اور واقع کی ذمہ داری بھی یزید کے نام پر ہوگی۔ لہٰذا ایک عالم اس کے خلاف غم و غصہ سے بھر جائے گا پھر اس کے لیے ہمارے ساتھ بگاڑنا بھی آسان کام نہ رہے گا۔ یہ وہ سوچ تھی جس نے عصر سے قبل ہی ان کو حضرت حسینt کی اقامت گاہ پر بے خبری میں ٹوٹ پڑنے کے لیے اکسایا اور یوں جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنہ کا چمن ان ظالموں کی ٹاپوں تلے تھا۔ چنانچہ خدام ہمراہ تھے’ صاحبزادگان اور بھتیجے یا کچھ لوگ انہیں کوفیوں میں سے تھے جو بلانے کو گئے تھے یا پھر حر جو خطوط دیکھ کر کوفیوں سے نالاں تھا’ ساتھ شہید ہوا۔ یہ چند نفوس مقدسہ تھے جو ظلماً سازش کر کے اور نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے۔ اب اس واقعہ کے بارے میں علماءِ شیعہ کا اقرار بھی حاضر ہے۔ زمانۂ حال کے ایک مؤلف جناب شاکر حسین صاحب امروہی مؤلف ‘مجاہداعظم’ فرماتے ہیں:
‘‘صد ہا باتیں طبعزاد اور تراشی گئیں’ واقعات کی تدوین عرصہ دراز کے بعد ہوئی’ رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثرت ہو گئی کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے علیحدکرنا مشکل ہوگیا۔ ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی کربلا میں خود موجود نہ تھے’ سب واقعات انہوں نے سماعی لکھے ہیں لہٰذا مقتل ابو مخنف پر بھی پورا وثوق نہیں۔ پھر لطف یہ کہ مقتل ابومخنف کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اور ان میں صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خود ابومخنف واقعات کے جامع نہیں بلکہ کسی اور ہی شخص سے ان بیان کردہ سماعی واقعات کو قلم بند کر دیا ہے۔’’
‘‘مختصر یہ کہ شہادت امام حسینt کے متعلق تمام واقعات ابتداء سے انتہا تک اس قدر اختلاف سے پُر ہیں کہ اگر ان کوفرداً فرداً بیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہو جائیں۔ اکثر واقعات مثلاً اہل بیعت پر تین شبانہ روز پانی کا بند کرنا’ فوج مخالف کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا’ شمر کا سینہ مطہر پر بیٹھ کر سرجدا کرنا۔ آپؓ کی لاش مبارک سے کپڑوں کا اتارنا’ نعش مبارک کا لکدکوب سم اسپاں کیا جانا’ سراوقات اہل بیعت کی غارت گری’ نبی زادیوں کی چادریں تک چھین لینا وغیرہ وغیرہ نہایت مشہور اور زبان زد خاص و عام ہیں حالانکہ اس میں بعض سرے سے غلط’ بعض مشکوک’ بعض ضعیف بعض مبالغہ آمیز اور بعض من گھڑت ہیں’’۔ (مجاہد اعظم ١٨٧)
یہ حیثیت تو خود شیعہ علماء کے نزدیک ہے پھر اس سارے افسانے میں بچا کیا۔ واقعہ اس قدر تھا کہ کوفیوں نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ورنہ شمر حضرت علیt کا سالار اورحضرت حسینt کے بھائیوں جعفر’ عباس’ کا سگا ماموں تھا۔ جنگ صفین میں حضرت علیt کی طرف سے نہایت بے جگری سے لڑا۔ ابن سعد حضورﷺ کا ماموں زاد بھائی تھا اور حضرت حسینt کارشتہ میں نانا۔ جلاء العیون میں ہے کہ دیر تک حسینtکے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ بلکہ خود یزید کی بیوی عبداللہ بن جعفر طیارt کی بیٹی حضرت زینبr کی سوتیلی بیٹی اور حضرت حسینt کی بھانجی بھی تھی۔ چچازاد بھائی کے ناطے سے بھتیجی بھی۔ چنانچہ اس سانحہ کے بعد جس کی تاریخی شہادت کا حوالہ تو دے ہی دیا ہے اور اس قدر مزید حوالاجات دیئے جا سکتے ہیں کہ یہ خود ایک علیحدہ دفتر بن جائے گا۔ اگر کسی صاحب کے دل کو دلائل سمعی کے علاوہ دلائل ذوقی سے جاننے کا شوق ہو تو بسم اللہ’ تشریف لائے’ اللہ اللہ کرے’ دل کی روشنی حاصل کرے اور انشاء اللہ وہ خود دیکھے گا کہ میدان کربلا میں کیا ہوا۔ بحمداللہ میں آج بھی ان ٹیلوں اور میدانوں کودیکھ رہا ہوں مجھے کٹتے ہوئے سر اور تڑپتے ہوئے جسم دکھائی دے رہے ہیں۔ اڑتی ہوئی دھول حضرت حسینt پر وارد ہونے والی بلا کا پتہ دے رہی ہے۔ دونوں فریقین دریا کے اس طرف ہیں۔ یہ بھی جھوٹ تراشا گیا کہ حضرت حسینt ایک طرف اور اعداء دوسری طرف تھے۔ عصر کا سورج ڈھلتے ڈھلتے اس قیامت کو دیکھتا جا رہا تھا جو ایک صالح مفتی صحابی اور اولادِ رسولِ ہاشمیﷺ پر ٹوٹی ہے۔ اگر حوصلہ ہے تو آؤ میں بفضل اللہ تمہیں بھی دکھا دوں کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
پانچویں منزل:
اس واقعہ ہاٹلہ کے بعد یہ لٹا پٹا مظلوم قافلہ کوفیوں کے ساتھ دمشق پہنچا۔ تو ابن جریر نے کامل اور تاریخ کبیر ذہبی میں موجود ہے کہ یزید نے خبر سنی تو آنکھیں اشکبار ہوگئیں اورکہنے لگا کہ بغیر قتل حسینؓ کے بھی میں تمہاری اطاعت سے خوش ہو سکتا تھا’ ابن سمیعہ پر خدا کی لعنت ہو۔ واللہ اگر میں وہاں ہوتا تو حسیؓن سے ضرور درگزر کرتا’ خدا حسیؓن کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ قاصد کو یزید نے کوئی انعام نہیں دیا۔ (ایک آدھ حوالہ خود شیعہ کتاب کا دیکھ لیں)
‘‘کہ کسے وارد شد خبر آور دوگفت کہ دیدہ تو روشن کہ سرحسیؓن واردشد آن نظر غضب ناک کردو گفت دیدہ ات روشن مباد’’ (نہج الاحزان مطبوعہ ایران ص ٣٢١)
ترجمہ: کسی نے یزید سے آ کر کہا کہ تیری آنکھیں روشن ہوں’ حسیؓن کا سر آ گیا۔ یزید نے بنظر غضب دیکھا اور کہا تیری آنکھیں روشن نہ ہوں۔’’
خلاصۃ المصائب ص ٢٩٣ میں ہے کہ
‘‘تباہ حال قافلہ دمشق پہنچا تو یہ دیکھ کر کہ یزید رو پڑا اور اس کے ہاتھ میں ایک رومال تھا جس سے آنسو پونچھتا جاتا تھا۔ اس نے سب کو اپنی زوجہ ہند بنت عامر کے پاس بھیج دیا۔ جب اہل بیعتِ حسینؓ محل میں پہنچے تو گریہ زاری بلند ہوئی جس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔’’
جلاء العیون اور طراز المذہب مظفری ص ٤٦٨ یہ لکھتا ہے:
‘‘حضرت علیؒ (زین العابدین) کی عزت کی۔ صبح شام ان کو شریک طعام کرتا تھا۔ جب وہ دستر خوان پر نہ آتے یزید کھانا نہ کھاتا’ نہ آرام کرتا۔’’
مندرجہ بالا حوالاجات شیعہ حضرات کے ہیں کہ اس کے بعدکیا ہوا’ یہ بھی تاریخ میں موجود ہے۔ یزید نے نہایت عزت کی’ بہت مال و دولت پیش کیا اور حضرت علیؒ بن حسین (زین العابدین) کی منشاء کے مطابق فوجی محافظ ساتھ دے کر مدینہ منورہ پہنچا دیا۔ ہمیشہ ان کا احترام بحال رکھا حتیٰ کہ واقعہ حرہ میں جب مدینہ منورہ پر حملہ ہوا تو یزیدی فوج نے حضرت علی: (زین العابدین) سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ صرف بی بی زینب رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی یعنی یزید کی بیوی کے پاس رہ گئیں۔ وہیں انتقال فرمایا اور وہیں ان کا مزار زیارت گاہ عالم ہے جسے سبائیوں نے چودہ سال قید کا نام دیا۔ حالانکہ خود یزید ٦٤ھ میں فوت ہوا اور حکومت معاویہ بن یزید سے ہو کر مروان بن الحکم کے پاس چلی گئی۔ اب صرف ایک بات باقی رہ گئی کہ اہل کوفہ کون تھے کیا چاہتے تھے۔
یہ عہد فاروقی کی ایک فوجی چھاؤنی تھی جو ١٥ھ میں بنائی گئی۔ رفتہ رفتہ شہر بن گیا اور مختلف علاقوں کے لوگ یہاں آ کر آباد ہوئے۔ یہود کی زیر زمین خلافِ اسلام تحریک جس کے ہاتھ حضرت عمرt کے مبارک خون سے آلودہ اور جس کی تلوار حضرت عثمان غنیt کے خون سے رنگین تھی۔ جس کی عبا سے تاحال خون علیt خشک نہیں ہوا تھا۔ اس کا مرکز بھی کوفہ تھا اور اس کی داعی اور بانی عبداللہ ابن سباء کے سب سے زیادہ معتمد شاگرد کوفہ ہی میں تھے اور شیعان علیؓ کہلواتے تھے۔ یہ ایک سیاسی غلاف تھا کہ ہم سیاست میں حضرت علیt کی طرف دار ہیں مگر باطنی طور پر یہ لوگ اسلام کے دشمن تھے۔ لہٰذا انہوں نے کبھی حضرت علیt سے وفا نہ کی کہ ذرا ان کے بارے میں حضرت علیt کی رائے شیعہ کتاب کا حوالہ سے سن لیں۔
‘‘وائے مردوں کے ہمشکل نامردو’ لڑکوں کی سی سمجھ رکھنے والو’ عورتوں کی سی عقل والو’ مجھے آرزو ہے کہ کاش میں نے تم کو نہ دیکھا ہوتا اور نہ پہچانا ہوتا۔ یہ پہچاننا ایسا ہے کہ واللہ اس سے پشیمانی حاصل ہوئی اور رنج لاحق ہوا۔ خدا تم کو غارت کرے’ تحقیق تم لوگوں نے میرا دل پیپ سے بھر دیا اور میرا سینہ غصہ سے لبریز کر دیا۔ تم لوگوں نے مجھے غم کے گھونٹ سانس لے لے کر پلائے اور نافرمانی کر کے اور ساتھ نہ دے کر میری رائے کو خراب کر دیا۔ یہاں تک کہ قریش کے لوگ کہتے ہیں کہ ابن ابی طالب بہادر تو ہے لیکن اس کو لڑائی کے فن کا علم نہیں’’
(نہج البلاغہ از قسم اول ٧٧)
حضرت حسینt کو اثنائے راہ مقامِ زبالہ پر حضرت مسلمt کی شہادت کی خبر ملی تو فرمایا:
قد خذلنا شعیتنا
کہ ہماے شیعوں نے ہمیں ذلیل کر دیا (خلاصۃ المصائب ص ٤٩)
اور یہ بات بھی خلاصۃ المصائب ص ٢٠١ پر موجود ہے کہ سوائے اہل کوفہ کے وہاں کوئی دوسرا نہیں تھا۔ملاحظہ ہو صفحہ مذکورہ کی عبارت:
لیس فیھم شامی ولا حجازی بل جمعیھم من ا ھل الکوفہ
(ان میں کوئی شامی یا حجازی نہ تھا بلکہ سب کوفی تھے۔)
اور شیعہ مجتہد قاضی نور اللہ شوستری اپنی کتاب مجالس المومنین مجلس اول صفحہ ۲٥ پرلکھتے ہیں:
‘‘تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل نداردسنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل و محتاج دلیل است اگرچہ ابوحنیفہ کوفی باشد’’
ترجمہ: ‘‘اہل کوفہ کے شیعہ ہونے پردلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ان کا سنی ہونا خلاف اصل اور محتاج دلیل ہے اگرچہ ابوحنیفہ کوفی تھا۔’’
غرض اس سبائی ٹولے نے یہ قیامت توڑی اور پھر لوط بن یحییٰ نامی جس کا لقب ابی مخنف تھا’ جو ١٩٥ھ میں مرا’ نے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد رطب ویابس جمع کر کے مقتل حسیؓن نامی کتاب لکھی جسے بعد کے مورخوں نے بنیاد بنایا اور ساڑھے تین سو سال بعد معزالدولہ نے ایک علیحدہ مذہب کی باقاعدہ بنیاد رکھی جسے ابوجعفر کلینی نے الکافی نامی کتاب میں ترتیب دیا جس کا سن وفات ٢٣٠ہجری ہے اور مذہب کی روایت کہ حضرت جعفرt کی طرف منسوب فرمایا جو اس سے تقریباً دو صدی پہلے گزر گئے تھے اور مذہب کی بنیاد کتابوں میں صرف یہی کتاب ہے’ جو سب سے کم عرصہ بعد لکھی گئی ورنہ ‘من الایحضرة الفیقیہ’ محمد بن علی ابن بابویہ قمی نے ٣٨١ ہجری میں ‘تہذالاحکام’ اور ‘استبصار’ محمد بن حسن طوسی نے ٤٦٥ھ میں لکھی۔ ان کتب سے پہلے کیا تھا’ ذرا اصولِ کافی سے پوچھ لیں’ کیا کہتا ہے!
الشیعتہ قبل ان یکون ابو جعفر و ھم لا یعرفون مناسائے حجھم و حلالھم وحرامھم
ترجمہ: ‘‘امام باقر سے پہلے تو شیعہ حج کے مناسک اور حلال و حرام سے واقف نہ تھے۔’’
یعنی ظہورِ اسلام اور اسلام کے اولین روشن دور سے’ نیز پیغمبر اسلامﷺ سے انہوں نے کچھ حاصل نہ کیا اور نہ ان کے ارشادِ گرامی کو اسلام جانا۔ بلکہ صدیوں بعد کے ہفوات جن کے رای زرارہ اور ابو بصیر جیسے راندہ بارگاہ لوگ تھے’ جن کا حال کتب شیعہ میں بھی یوں مذکور ہے۔
‘‘یہ حکم ایسی جماعت کے حق میں ہے جس کی ضلالت پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ زرارہ اور ابو بصیر حق الیقین اردو صف ٧٢٤۔ ’’
یہ وہی لوگ ہیں جن کی روایات پر اس مذہب کی بنیاد استوار ہے۔ خدا ان کو پناہ نہ دے اور ان ظالموں نے ایک متوازی اسلام جاری کر دیا اور کلمہ طیبہ کے مقابل کلمہ’ نماز کے مقابل نماز’ وضو کے مقابل وضو کا طریقہ غرض حج زکوٰة جنازہ کوئی عبادت نہ چھوڑی جس کا مقابل اپنی طرف سے نہ گھڑ لیا۔ کتاب اللہ کا انکار کیا’ عقائد توحید و رسالت میں تبدیلی کی’ ذات رسول اقدسﷺ’ ازواج مطہرات’ بناتِ رسول مقبولﷺ اور صحابہ رسولﷺ پر زبان طعن دراز کی۔ اہل بیعت کو ظلماً قتل کیا اور اس ظالمانہ فعل کو آڑ بنا کر اسلام کو فسانہ آزاد بنانے کے درپے ہیں۔ بلا تو وہ تھی جو میدان میں حضرت حسینt پہ وارد ہوئی مگرکرب یہ ہے کہ چودہ صدیاں بیت گئیں مگر ظالموں نے انہیں معاف نہیں کیا بلکہ جھوٹ پہ جھوٹ تراش کر ان کے ذمہ لگاتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو خصوصاً اور اقوام عالم کو عموماً ان کی گمراہی سے پناہ میں رکھے آمین
وآخر دعونٰا ان الحمد اللہ رب العلمین
الداعی الخیر:
فقیر محمد اکرم رحمہ اللہ تعالیٰ
دارالعرفان منارہ ضلع چکوال
٥محرم الحرام ١٤٠٤ ھ