حضرت خالد بن ولید کا حسن سلوک اور دعوتی منصوبہ بندی


غور کیجئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حسن سلوک اور دعوت کی عظیم الشان ذمہ داری کی منصوبہ بندی، حالات کتنے مختلف ہوتے اگر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فتح کے بعد عین التمر (عراق) کے چرچ کو مسمار کردیتے اور اس میں پڑھنے والوں کو قتل کردیتے؛
جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عراق کے عین التمر نامی علاقے کو فتح کیا تو وہاں پر ایک چرچ تھا، جس میں 40 طلباء انجیل پڑھتے اور پڑھاتے تاکہ ان علاقوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرسکیں، ان عیسائی طلباء میں
1. سيرين،
2. يســــار اور
3. نصــير نامی
تین طالب علم تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعد ان کو زندہ چھوڑ دیا تو انھوں نے کیا کیا؟
1. سیرین نے اسلام قبول کیا اور ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جو بڑے تابعین میں سے تھے اور تفسیر، حدیث، فقہ اور خوابوں کی تعبیر کے امام بنے۔ دنیا انھیں حضرت محمد بن سیرین رحمت اللہ علیہ (المتوفی 110ھ) کے نام سے جانتی ہے۔
2. دوسرے شخص یسار نے اسلام قبول کیا اور ان کے ہاں ایک لڑکا اسحاق پیدا ہوا، جس کو دنیا نے سیرت اور مغازی کے ایک ماہر عالم “ابن اسحق” کی صورت میں جانا۔ سیرت ابن اسحاق، انہی کی کتاب ہے، جو سیرت پر مستند ترین سمجھی جاتی ہے۔
3. تیسرے شخص نصیر نے بھی اسلام قبول کیا۔ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا، جن کو دنیا نے موسی بن نصیر فاتح اندلس اور فاتح شمالی افریقہ کے نام سے جانا۔
یہ ہے دین کا وہ فہم اور بصیرت جس کو حضرت خالد بن ولید اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سمجھا۔ یہ نتائج نکلتے ہیں احسان اور حسن سلوک کے۔ اسے کہتے ہیں دور اندیشی۔ اسے کہتے ہیں مستقبل کی دعوتی منصوبہ بندی۔
فأعتبروا يا أولى الأبصار
البداية والنهاية جلد نمبر 6 “وقعة عين التمر” استاد خلیل چشتی
کافر رشتہ دار سے بھی حسن سلوک سے پیش آؤ مسلمان تو کجا بے دین کے عمل سے نفرت ضروری ہے اس کے کفر و شرک سے دشمنی کا حکم ہے مگر اس شخص کی ذات سے حسن سلوک اور صلہ رحمی ضروری ہے تاکہ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر وہ شرک سے توبہ کرلے اور توحید کو اپنالے، کفر کے اندھیروں سے نکل کر اسلام میں داخل ہوجائے.
دلیل: حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ بیان کرتی ہیں میرے پاس میری والدہ آئیں وہ مشرکہ تھیں (یہ ان دنوں کی بات ہے جب) قریش کے ساتھ (صلح کا) معاہدہ ہوا تھا. میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور وہ (مجھ سے) بہتر سلوک کی طلب گار ہیں …………. کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ صلہ رحمی کر .
صیح بخاری #٢٠٣٩ 
اس حدیث سے پتہ چلا کہ کافر رشتہ داروں سے بھی صلح رحمی کا حکم ہے تاکہ آمد رفت اور میل جول ملاقات کا علم جاری رہے …………. اور حسن سلوک کی وجہ سے دعوت دین اور پیغام الہی ایسے لوگوں تک پہنچایا جاتا رہے .