پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:
”جو شخص اپنے بچے کا بوسہ لیتا ہے، خداوند متعال اس کے حق میں ایک نیکی لکھتا ہے اور جو شخص اپنے بچے کو خوش کرتا ہے، خدا وند متعال قیامت کے دن اس کو خوش کرے گا۔ (٥٩)”
عائشہ کہتی ہیں:
”ایک شخص رسول خدا ۖکی خدمت میں آگیا اور کہا:
کیا آپ ۖبچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ میں نے کبھی کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا ہے۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا: میں کیا کروں کہ خدا وند متعال نے تیرے دل سے اپنی رحمت کو نکال لیا ہے؟ (٦٠)”
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ
”ایک شخص رسول خدا ۖکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں نے آج تک کسی بھی بچے کا بوسہ نہیں لیا ہے! جیسے ہی یہ شخص گیا پیغمبر ۖ نے فرمایا: میری نظر میں یہ شخص جہنّمی ہے۔ (٦١)”
ایک اور روایت میں آیا ہے:
”رسول خدا ۖ نے حسن وحسین علیھما السلام کا بوسہ لیا۔ اقرع ا بن حابس نے کہا: میرے دس فرزند ہیں اور میں نے کبھی ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں
لیا ہے!
رسول خدا ۖ نے فر مایا: میں کیا کروں کہ خداوند متعال نے تجھ سے رحمت چھین لی ہے (٦٢)؟!
علی علیہ السلام نے فرمایا:
”اپنے بچوں کا بوسہ لیاکرو ،کیونکہ تمھیں ہر بوسہ کے عوض (جنت کا) ایک درجہ ملے گا۔(٦٣)”
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”اپنے بچوں کا زیادہ بوسہ لیاکرو ،کیونکہ ہر بوسہ کے مقا عوض میں خدا وند متعال تمھیں (جنت میں) ایک درجہ عنایت فرمائے گا۔ (٦٤)”
ابن عباس کہتے ہیں:
”میں پیغمبر اکرم ۖ کی خدمت میں تھا. آپ ۖکے بائیں زانو پر آپ ۖ کے بیٹے ابراھیم علیہ السلام اور دائیں زانو پر امام حسین علیہ السلام بیٹھے تھے۔ آنحضرت ۖکبھی ابراھیم علیہ السلام کا اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے۔ (٦٥)”
…………..
٥٩۔ کافی ج٦، ص٤٩، مکارم الاخلاق، ص١١٣، بحارالانوار ج٣٣، ص١١٣
٦٠۔ صحیح بخاری ج٨ ص٩
٦١۔ بحار الانوار ج١٠٤ ص٩٩، وسائل الشیعہ ج١٥، ص٢٠٢ ، کافی ج٦ ص٥٠
٦٢۔ بحارالانوار ج١٠٤ ، ص٩٣
٦٣۔ وسائل الشیعہ ج١٥ ، ص١٢٦
٦٤۔ وسائل الشیعہ ج١٥، ص ١٢٦
٦٥۔ بحار الانوار ج٤٣ ، ص١٦١ وج٢٢ ، ص١٥٣ ، مناقب ابن شہر آشوب ج٣ص٢٣٤
نقل کفر کفر نباشد
قالہ مجدد الملت اشرف علی التانوی نور اللہ مرقدہ
اس اصول کے تحت مذکورہ مضمون بھیجا ہے
بحار الانوار رافضی خبیث کی ہے.
اللہم احفظنا منہ
ہرگز ہرگز معتبر نہیں.
………………….
157- باب فِي قُبْلَةِ الرَّجُلِ وَلَدَهُ
باب: آدمی اپنے بچے کا بوسہ لے اس کا بیان۔
CHAPTER: A man kissing his child.
باب سے متعلقہ تمام احادیث دیکھیں
حدیث نمبر: 5218
Tashkeel Show/Hide
حدثنا مسدد، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة،”ان الاقرع بن حابس، ابصر النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقبل حسينا، فقال: إن لي عشرة من الولد، ما فعلت هذا بواحد منهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لا يرحم لا يرحم”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حسین (حسین بن علی رضی اللہ عنہما) کو بوسہ لیتے دیکھا تو کہنے لگے: میرے دس لڑکے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی ایسا نہیں کیا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی پر رحم نہیں کیا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا.“ (پیار و شفقت رحم ہی تو ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفضائل ۱۵ (۲۳۱۸)، سنن الترمذی/البر والصلة ۱۲ (۱۹۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۷ (۵۹۹۳)، مسند احمد (۲/۲۲۸، ۲۴۱، ۲۶۹، ۵۱۳) (صحیح)
Abu Hurairah said; Al-Aqra bin Habib saw that the Messenger of Allah ﷺ was kissing Husain. He said: I have ten children and I have never kissed any of them. The Messenger of Allah ﷺ said: He who does not show tenderness will not be shown tenderness.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5199
قال الشيخ الألباني: صحيح
………..
– العقيدة » مذاهب وأديان » مذاهب وفرق.
184543: هل كتاب بحار الأنوار وكتاب تفسير الجلالين كتب موثوق بها ؟
السؤال:
هل كتاب “بحار الأنوار” كتاب صحيح مسند؟ وهل “تفسير الجلالين” للإمام السيوطي كتاب مسند موثوق به؟ وهل الإمام السيوطي عالم من علماء أهل السنة والجماعة ؟
تم النشر بتاريخ: 2012-12-01
الجواب:
الحمد لله
أولاً:
كتاب “بحار الأنوار” لمحمد باقر المجلسي ، أحد كتب الشيعة الروافض ، وهو ـ في حقيقته ـ بحار طافحة من المكذوبات والضلالات التي لا يُدرَى لها أصل ، ولا يعرف لها سند، إلا دين الروافض البدعي الباطل.
……………..
السؤال:
هل كتاب “بحار الأنوار” كتاب صحيح مسند؟ وهل “تفسير الجلالين” للإمام السيوطي كتاب مسند موثوق به؟ وهل الإمام السيوطي عالم من علماء أهل السنة والجماعة؟
تم النشر بتاريخ: 2012-12-01
الجواب:
الحمد لله
أولاً:
كتاب “بحار الأنوار” لمحمد باقر المجلسي، أحد كتب الشيعة الروافض ، وهو ـ في حقيقته ـ بحار طافحة من المكذوبات والضلالات التي لا يُدرَى لها أصل ، ولا يعرف لها سند ، إلا دين الروافض البدعي الباطل .
ثانياً:
أما تفسير الجلالين (لجلال الدين السيوطي ، وجلال الدين المحلي) فهو تفسير جيد ومختصر، ولكن لم يسلم من بعض الانتقادات ولا سيما فيما يتعلّق بصفات الله ومسائل الاعتقاد ، فهو يجري فيها على مذهب الأشاعرة ، ويحسن الاستفادة في هذا الباب من كتاب : أنوار الهلالين في التعقبات على الجلالين ، للدكتور محمد عبد الرحمن الخميس .
وقد سئل عنه الشيخ ابن باز فقال: “تفسير مفيد وفيه بعض الأخطاء في الصفات .. ولكن مفيد، وقلَّ كتاب إلا ويكون فيه بعض الأخطاء، إلا كتاب الله -سبحانه وتعالى- وكتب الناس يكون فيها بعض الأخطاء ، لكن مقل ومكث ر، فتفسير الجلالين فيه بعض الأخطاء، فإذا تيسر أن يدرِّسه صاحب سنة ، يعرف كلام أهل السنة والجماعة ، فينبه على الأخطاء، فهذا طيب، وإذا أشكل شيء على الدارس يسأل أهل العلم ” انتهى من ” موقع الشيخ ابن باز ”
رابط الفتوى:
http://www.binbaz.org.sa/mat/10505
وللوقوف على ترجمة موسعة للإمام السيوطي يراجع جواب السؤال رقم : (10383) .
والله أعلم .
…….
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 628
اولاد کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بصبي فقبله فقال أما إنهم مبخلة مجبنة وإنهم لمن ريحان الله . رواه في شرح السنة .
” اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بچہ لایا گیا آپ نے اس کا بوسہ لیا اور فرمایا کہ جان لو یہ اولاد بخل کا باعث اور بزدلی کا سبب ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اولاد اللہ کی عطا کردہ نعمت اور رزق بھی ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح
اولاد کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اولاد ہی ہے جو انسان سے سب کچھ کراتی ہے ایک باپ اپنے بچوں کے لئے نہ صرف مختلف ذرائع و وسائل اختیار کر کے روپیہ پیسہ کماتا ہے اور مال و واسباب فراہم کرتا ہے بلکہ بچوں کا مستقبل اس کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اس کو پیسہ پیسہ جوڑ کر رکھے، یہاں تک کہ اولاد کی فکر اس کو بخیل بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے روپے پیسے اور مال واسباب کو نہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے نہ بھلائی و انسانی ہمدردی کے کام میں مدد دیتا ہے اور پھر یہ کہ آل و اولاد کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو اس حد تک بزدل و نامرد بنا دیتی ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق اور دین وحق کی سر بلندی کے اپنے فرض کو بھی فراموش کر دیتا ہے چنانچہ جہاد کرنے سے کتراتا ہے اور لڑائی میں جانے سے دل چراتا ہے اس کو یہ خوف، شجاعت و بہادری دکھانے سے باز رکھتا ہے کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا گیا یا مجھے پکڑ لیا گیا تو میرے بچے کا کیا حال ہو گا ان کی دیکھ بھال اور پرورش کیسے ہوگی اور میرے بچے باپ کے سایہ سے محروم ہو کر کس کس طرح تکلیف و مشقت برداشت کریں گے۔
پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا اولاد کے بارے میں اس طرح کی بڑائی بیان کی اور پھر بعد میں اولاد کی ایک خوبی اور اس کی تعریف بھی بیان فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا کہ یہ بچے ریحان ہیں ریحان کے معنی روزی اور نعمت کے بھی ہیں اور ریحان ہر اس پودے اور گھاس کو بھی کہتے ہیں جو خوشبودار ہو، دونوں ہی صورتوں میں اولاد کی مدح ظاہر ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ بچے ماں باپ کے حق رزق کا درجہ رکھتے ہیں کہ اگر والدین کی گود اولاد سے خالی ہو تو ان کی مامتا اور ان کے جذبات اسی طرح مضطرب و پریشان رہتے ہیں جس طرح کوئی بھوکا روزی نہ ملنے کی صورت میں مظطرب رہتا ہے اسی طرح بچے دراصل اللہ کی طرف سے ماں باپ کو ایک عظیم نعمت کے طور پر عطا ہوتے ہیں، ایسی نعمت جو ان کی زندگی کا سہارا بھی ہوتی ہے اور ان کے گھر کا چراغ بھی۔ اور اگر ریحان سے خوشبودار پودا مراد لیا جائے تو بلاشک و شبہ بچے اپنے ماں باپ اور اہل خاندان کی نظر میں پھول کا درجہ رکھتے ہیں کہ جس طرح کوئی شخص خوشبودار پھول کو دیکھ کر سرور حاصل کرتا ہے اور سونگھ کر مشام جان کو معطر کرتا ہے اسی طرح بچوں کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے ان کو پیار کر کے، ان کو چوم کر اور ان کے ساتھ خوش طبعی کر کے سرور حاصل کیا جاتا ہے۔
……………..
آداب کا بیان۔ جلد چہارم مشکوۃ شریف
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 613
مصافحہ اور معانقہ کے احکام
راوی:
باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے نیز دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہیے محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا غیر مسنون ہے کسی خاص موقع پر یا کسی خاص تقریب کے وقت مصافحہ ضروری سمجھنا غیر شرعی بات ہے چنانچہ بعض مقامات پر جو یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ عصر کی نماز یا جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مصافحہ کرتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ تخصیص وقت کے سبب اس طرح کا مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور بدعت مذمومہ ہے ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور لوگ نماز میں مشغول ہوں یا نماز شروع کرنے والے ہوں اور وہ شخص نماز ہو جانے کے بعد ان لوگوں سے مصافحہ کرے تو یہ مصافحہ بلاشبہ مسنون مصافحہ ہے بشرطیکہ اس نے مصافحہ سے پہلے سلام بھی کیا ہو تاہم یہ واضح رہے کہ اگرچہ کسی متعین اور مکروہ وقت میں مصافحہ کرنا مکروہ ہے لیکن اگر کوئی شخص اس وقت مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تو اس کی طرف سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس طرح بے اعتنائی برتنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانے والے شخص کو دکھ پہنچے گا اور کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچانا آداب کی رعایت سے زیادہ اہم ہے۔ جوان عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے اور اس بوڑھی عورت سے مصافحہ کرنے سے کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کی طرف جنسی جذبات مائل نہ ہو سکتے ہوں چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں ان بوڑھیوں سے مصافحہ کرتے تھے جن کا انہوں نے پیا تھا اسی طرح وہ بڈھا مرد جو جنسی جذبات کی فتنہ خیزیوں سے بے خوف ہو چکا ہو اس کو جوان عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے، عورت کی طرح خوش شکل مرد سے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس کو چھونا بھی حرام ہے بلکہ چھونے کی حرمت دیکھنے کی حرمت سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ مطالب المومنین میں مذکور ہے۔
صلوۃ مسعودی میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص سلام کرے تو اپنا ہاتھ بھی دے یعنی مصافحہ کے لئے ہاتھ دینا سنت ہے لیکن مصافحہ کا یہ طریقہ ملحوظ رہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھے محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنے پر اکتفا نہ کرے کیوں کہ محض انگلیوں کے سروں کو پکڑنا مصافحہ کا ایسا طریقہ ہے جس کو بدعت کہا گیا ہے۔ معانقہ یعنی ایک دوسرے کو سینے سے لگانا مشروع ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ کوئی شخص سفر سے آیا ہو جیسا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی حدیث منقول ہے کہ لیکن اس کی اجازت اسی صورت میں ہے جب کہ اس کی وجہ سے کسی برائی میں مبتلا ہو جانے یا کسی شک وشبہ کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بارے میں منقول ہے کہ یہ دونوں حضرات معانقہ اور تقبیل یعنی ہاتھ کو منہ اور آنکھوں کے ذریعہ چومنے کی کراہت کے قائل ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ معانقہ کے بارے میں نہی (ممانعت) منقول ہے چنانچہ فصل اول میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ نہی ثابت ہوتی ہے یہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ جن روایتوں سے معانقہ کی اجازت ثابت ہوتی ہے ان کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب کہ معانقہ کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا بہرحال اس سلسلے میں جو احادیث منقول ہیں اور جن کے درمیان بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کہ بعض سے ممانعت کی اجازت ثابت ہوتی ہے اور بعض معانقہ کا تعلق محبت و اکرام کے جذبہ سے ہو وہ بلاشک و شبہ جائز ہے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ معانقہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو اختلاف ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ جسم پر کپڑے نہ ہوں بدن پر قمیص و جبہ وغیرہ ہونے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بالااتفاق جائز ہے۔ تقبیل یعنی ہاتھ یا پیشانی وغیرہ چومنا بھی جائز ہے بلکہ بزرگان دین اور متبعین سنت علماء کے ہاتھ پر بوسہ دینے کو بعض حضرات نے مستحب کہا ہے لیکن مصافحہ کے بعد خود اپنا ہاتھ چومنا کچھ اصل نہیں رکھتا بلکہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے اور مکروہ ہے۔
امرائے سلطنت اور علماء مشائخ کے سامنے زمین بوسی کرنا حرام ہے زمین بوسی کرنے والا اس زمین بوسی پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہگار ہوتے ہیں۔فقیہ ابوجعفر کہتے ہیں کہ سلطان و حاکم کے سامنے زمین بوسی اور سجدہ کرنے والا کافر ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کی زمین بوسی و سجدہ عبادت کی نیت نہ ہونے کی صورت میں بھی کافر ہو جاتا ہے واضح رہے کہ اکثر علماء کے نزدیک زمین بوسی کرنا، زمین پر ما تھا ٹیکنے یا رخسارہ رکھنے سے ہلکا فعل ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ کسی عالم یا سلطان و حاکم کے ہاتھ کو چومنا ان کے علم و انصاف کی بناء پر اور دین کے اعزاز و اکرام کے جذبہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر ان کے ہاتھ چومنے کا تعلق کسی دنیاوی غرض و منفعت سے ہو تو سخت مکروہ ہوگا اگر کوئی شخص کسی عالم یا کسی بزرگ سے اس کا پیر چومنے کی درخواست کرے تو اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے بچوں کو بوسہ سے پیار کرنے کی اجازت ہے اگرچہ غیر کا بچہ ہو بلکہ وہاں طفل پر بوسہ دینا مسنون ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ جو بوسہ شرعی طور پر جائز ہے اس کی پانچ صورتیں ہیں ایک تو مودت و محبت کا بوسہ جیسے والدین کا اپنے بچہ کے رخسار کو چومنا، دوسرے احترام و اکرام اور رحمت کا بوسہ، جیسے اولاد کا اپنے والدین کے سر پر بوسہ دینا، تیسرے جنسی جذبات کے تحت بوسہ دینا جیسے شوہر کا بیوی کے چہرہ پر بوسہ لینا، چوتھے تحیۃ سلام کا بوسہ جیسے مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ چومنا، اور پانچویں وہ بوسہ جو بہن اپنے بھائی کی پیشانی کا لیتی ہے ۔ بعض حضرات کے نزدیک آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ اور چہرہ کا بوسہ دینا مکروہ ہے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچے کا بوسہ لینا واجب ہے۔ امام نووی نے یہ لکھا ہے کہ شوہر بیوی کے علاوہ کسی اور جنسی جذبات کے تحت بوسہ لینا بالاتفاق حرام ہے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور دوسرا۔
……….